دکھاوے کا پیار

Sublimegate Urdu Stories

Sublimegate Urdu Stories

 دکھاوے کا پیار - سبق آموز کہانی

قسط وار کہانیاں
میں ایک گائوں کے اسکول سے پرائمری پاس تھی۔ دوسری کلاس میں میری دوستی غزالہ سے گہری ہو گئی۔ اس کے ابو زمیندار تھے اور یہ ایک قدامت پسند گھرانہ تھا۔ غزالہ کا کشادہ مکان ہمارے گھر کے قریب تھا۔ والد ان کے مال مویشی سنبھالتے تھے، تبھی امی کا ان کے یہاں آنا جانا رہتا تھا۔ وہ چھوٹے موٹے کاموں میں غزالہ کی والدہ کا ہاتھ بٹا دیتی تھیں۔

بچپن سے میں اس گھرانے سے مانوس تھی۔ امی کے ہمراہ ان کے گھر جایا کرتی تھی، تبھی میری دوستی غزالہ سے ہوئی۔ وہ بہت اچھی لڑکی تھی۔ اس کی ماں نے بھی اپنے بچوں کے ذہن میں یہ بات نہ ڈالی کہ وہ امیر ہیں اور ہم غریب ہیں۔ وہ ہم سے اچھا سلوک روار کھتی تھیں۔ مجھے اور غزالہ کو ایک ساتھ کھانا دیتیں اور ساتھ بٹھا کر کھلاتیں، تاہم مجھ کو ان کے گھر جا کر اس بات کا احساس شدت سے ہوتا تھا کہ وہ بڑے لوگ ہیں، امیر ہیں اور ہم غریب ہیں۔ ہمارا ان کا مقابلہ نہیں ہے۔
 
 احساس کمتری کی سب سے بڑی وجہ ہمارے اور ان لوگوں کے رہن سہن کا فرق تھا۔ ان کا مکان عالیشان، صحن وسیع اور برآمدے کشادہ، فرنیچر بھی ایسا تھا کہ جس کو قابل دید کہنا چاہئے ، جبکہ ہمارے گھر میں پردے تھے اور نہ عمدہ فرنیچر تھا، بلکہ موٹے بان کی ٹوٹی پھوٹی چارپائیاں تھیں۔ میر اننھا سا دماغ اس طبقاتی فرق کے اسباب تلاش کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا لہٰذا اپنے گھر کی غربت کا احساس ستانے لگتا۔ انہی چیزوں نے ایسی حسرت کو جنم دیا کہ جس نے چھوٹی سی عمر میں میرے اندر کی دنیا کو تہ و بالا کر دیا۔ ہر دم یہی سوچتی تھی کہ ایک اچھی زندگی کو حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ جوں جوں عمر بڑھتی گئی، شعور بھی بڑھتا گیا۔ جب غزالہ کو اسکول داخل کیا گیا، اس کی ماں یعنی بی بی صاحبہ نے میری امی کو مجبور کیا کہ وہ مجھے بھی اسکول میں داخل کرادیں۔ بی بی کے مجبور کرنے پر اماں نے اسکول بھیجا جہاں اور لڑکیوں کو دیکھ کر میرے اندر زندگی میں آگے بڑھنے کی امنگ پیدا ہو گئی۔ ہماری ٹیچر کہتی تھیں کہ تعلیم حاصل کرنے سے غربت دور ہوتی ہے اور انسان کے حالات اچھے ہو سکتے ہیں۔ جن دنوں پانچویں میں تھی، خالہ رقیہ ایک دن گھر آئیں اور امی سے کہا کہ بس اب اپنی بیٹی کی منگنی میرے اختر سے کر دو۔ یہ گیارہ برس کی ہو رہی ہے، دو تین سال تک ودائی کے لائق ہو جائے گی۔ جب میں نے خالہ کا منشاء سنا تو دل ڈوب سا گیا۔ 
 
خالہ والے تو ہم سے بھی زیادہ غریب تھے۔ خالہ بیوہ تھیں، سارا دن مرے کھجور کے خشک پتوں سے چٹائیاں اور تیلیوں سے چھاج بناتیں، کبھی چنگیریاں بناتیں۔ ان کا بیٹا اختر بھی کوئی خاص کام نہیں کرتا تھا، وہ ان پڑھ تھا۔ بھلا اس گھر میں میری قسمت کا ستارہ کیونکر روشن ہو سکتا تھا کہ امیری کے خواب پورا کرتی۔ خالہ اور اختر حقیر فقیر نظر آنے لگے۔ پہلے ہی ان کے گھر جانا پسند نہیں کرتی تھی۔ اسکول کی سہیلیاں اور ہم جماعت لڑکیاں خوشحال گھروں کی تھیں۔ انہی جیسے گھر اب میرے خوابوں میں بس گئے تھے۔ سوچوں کے گرداب میں پھنسی میں پندرہ برس کی ہو گئی۔ دعا کرتی کہ خالہ اور اختر سے واسطہ نہ پڑے اور کبھی ان کے گھر بہو بن کر نہ جاؤں۔ یہ بات زبان سے کہہ نہ پاتی کہ اماں سے بھی ڈر لگتا تھا۔ ظاہر ہے وہ یہی جواب دیتیں۔ اختر سے شادی نہ کریں گے تو کیا کوئی شہزادہ تجھ گوالن کو بیاہنے آئے گا؟

ہمارے محلے میں احمد بخش رہتا تھا جس کا باپ کمانے سعودی عربیہ گیا ہوا تھا۔ پہلے یہ لوگ ہم جیسے تھے لیکن چاچا فضل کے جانے کے بعد رفتہ رفتہ ان کا شمار خوشحال لوگوں میں ہونے لگا۔ احمد اکلوتا تھا۔ سر پر باپ نہ تھا اور ماں مسکین سی عورت تھی، تبھی احمد نے پر پرزے نکال لئے ۔ وہ ماں کو گردانتا نہ تھا اور باپ کی کمائی پر عیش میں رہتا تھا۔ جتنے روپے چاہتا، والدہ سے کھسوٹ لیتا۔ شہر کے میلے ٹھیلوں میں گھومتا اور نت نئے کپڑے بنوا کر گائوں میں گبرو بنا پھرتا۔ پندرہ سولہ برس کی لڑکیاں تو بس ظاہری شوشا پر مر مٹتی ہیں۔ یہ بے فکرا خوش خوراک اور صورت بھی اللہ نے اچھی بنائی تھی، تبھی صحت قابل رشک تھی۔ جب سے ان کے گھر میں خوشحالی آئی تھی، اس کا شمار خوبصورت نوجوانوں میں ہونے لگا تھا، پھر ٹپ ٹاپ ایسی کہ وہ ہر گائوں کی گوری کا آئیڈیل بن گیا۔ میں خالہ ثوبیہ کے گھر اکثر ادھار لینے جایا کرتی تھی۔ جب گھر میں کسی شے کی کمی ہوتی، اماں مجھے ان کے گھر دوڑا تیں۔
 
 خالہ ثوبیہ کچھ بھی دینے سے کبھی انکار نہ کرتی تھیں کیونکہ میری ماں سے ان کی بچپن سے سنگت تھی اور ان کا دل نہیں بدلا تھا۔ میرا ان کے یہاں بچپن سے آنا جانا لگارہتا تھا، اسی باعث احمد بخش میرے لئے اجنبی نہ تھا۔ اکثر سامنا ہو جاتا اور ہم بات چیت بھی کر لیا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ میرے دل میں اس کے ساتھ جیون بسر کرنے کے خوابوں نے بسیرا کر لیا۔ اس کے مقابل بھلا اختر کی کیا اوقات تھی۔ میں تو اس کی شکل بھی دیکھنے کی روادار نہ تھی۔ اندازہ نہ تھا کہ میرا اندازہ کتنا غلط ہے ۔ احمد ایسی صفات کا مالک نہ تھا جیسا اسے سمجھ رہی تھی۔ اتنی تو عقل نہ تھی جو سوچتی کہ احمد جو گائوں کے بیکار نوجوانوں کے بیچ ہیر و بنا پھرتا ہے، دراصل یہ اس کے باپ کی کمائی کا کمال ہے۔ بھلا اس کے ساتھ زندگی اچھی کیونکر گزرتی، جس میں خود کھانے اور کر دکھانے کی صلاحیت نہ ہو۔ اس پر طرہ یہ کہ آٹھویں پاس کر کے اس نے اسکول کو خیر باد کہہ دیا اور اب آوارہ لڑکوں کے ساتھ وقت پاس کر کے بے مقصد زندگی بسر کر رہا تھا۔ جب دل کسی پر آجائے تو پھر نفع و نقصان کون سوچتا ہے۔ میں بھی ہر دم یہی دعا کرتی تھی کہ احمد سے میری شادی ہو جائے لیکن ماں اپنے ارادے کی پکی تھی۔ وہ میرے بارے میں جو کچھ سوچ بیٹھی تھی، اب اسے عملی جامہ پہنانے کے درپے تھی۔

جس روز خالہ اختر سے میری منگنی کی تاریخ لینے آئیں ، ان کو دیکھ کر خود کو کمرے میں بند کر کے رونا شروع کر دیا۔ وہ کچھ پریشان ہو ئیں تو ماں نے بات بنادی کہ صبح سے اس کے پیٹ میں درد تھا۔ منگنی کا موضوع دھرا رہ گیا اور خالہ جلدی جلدی گھر کو چلی گئیں تا کہ میرے لئے دوا دار و بھجوا دیں۔ ان کے جانے کے بعد اماں نے در بجا کر کھلوایا اور کڑے تیوروں سے بولیں۔ کیوں یہ کیا ڈراما ہے ؟ میں بھی سمجھتی ہوں، یہ بال دھوپ میں تو سفید نہیں کئے۔ موقع اچھا تھا۔ میں نے دل کی بات کہہ دی کہ اماں ! تم ٹھیک سمجھی ہو۔ میں ہر گز تمہارے نکمے بھانجے اور غریب بہن کے گھر کو قبول نہیں کرنے کی۔ یہاں بھی غربت، وہاں بھی وہی مفلسی کے عذاب۔ میرے لئے کسی کھاتے پیتے گھرانے کارشتہ کیوں نہیں دیکھتیں۔ ماں کو توقع نہ تھی کہ میرے منہ میں گز بھر کی زبان چھپی ہوئی ہے ۔ وہ پائوں سے جوتی اتار کر تابڑ توڑ میری کمر پر برسانے لگیں، پھر کہا کہ نامراد پانچ جماعتیں کیا پڑھ لیں، گز بھر کی زبان ہو گئی ہے۔ اماں نے اگلے روز خالہ کو بلا کر نکاح کی تاریخ طے کر دی۔ میں تو احمد سے آخری ملاقات بھی نہ کر سکی اور ماں نے تین کپڑوں میں لپیٹ کر خالہ کے آنگن میں دھکا دے دیا۔ نکاح کے بول اختر سے پڑھواتے ہی ماں کا آنگن پر ایا اور خالہ کا گھر میرا ہو گیا۔ جس گھر کو اپنا گھر نہیں بنانا چاہتی تھی، جس گھر سے دور بھاگتی تھی، وہی گھر اور وہی غربت مقدر بن چکی تھی۔ دلہن بن کر ذرا خوش نہ تھی۔
 مجھے تو احمد کی محبت روگ بن کر کھائے جاتی تھی۔ البتہ اختر مجھے پا کر خوش تھا۔ اس کے اندر ایک بڑی تبدیلی آگئی ۔ وہ اب کمانے کی فکر کرنے لگا تا کہ مجھے خوشیاں دے سکے ، اچھا کھانے اور پہننے کو مہیا کر سکے۔ اس نے شہر جا کر کام ڈھونڈ لیا اور ایک میڈیکل اسٹور پر ملازم ہو گیا۔ صبح کا گیا رات کو لوٹتا۔ تنخواہ چھ ہزار روپے تھی جو ہمارے گزارے کے لئے بہت تھی لیکن اس تنخواہ میں صرف گزارا ہو سکتا تھا، اچھا مکان نہیں بن سکتا تھا۔ گھر میں ٹی وی، فریج اور صوفہ سیٹ نہیں آسکتے تھے، مخمل وریشم کے کپڑے بھی نہیں خریدے جاسکتے تھے۔ زیور تو دور کی بات تھی۔ وہ خواب جو میں نے کنوارے پن میں دیکھے تو وہ اب ایک بچی کی ماں ہونے کے باوجود میرا پیچھا کر رہے تھے۔ میں اب بھی جب موقع ملتا، خالہ ثوبیہ کے گھر جاتی اور احمد کا دیدار کر لیتی ۔ وہ میری دزدیدہ نگاہی کو خوب سمجھتا تھا اور بات چیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا۔

اختر ایک سیدھا سادہ لڑکا تھا۔ وہ مجھے ہر حال خوش دیکھنا چاہتا تھا۔ اپنے اوپر کچھ خرچ نہ کرتا لیکن میرے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لاتا۔ ادھر میں تھی کہ اس کی کوئی بات کوئی ادا مجھ کو اچھی نہ لگتی تھی۔ ایک روز میری بیٹی جو کہ صرف ایک سال کی تھی، بیمار پڑ گئی۔ اسے تیز تپ چڑھا۔ میں گھبراگئی۔ اختر شہر کام پر گیا ہوا تھا اور ساس اپنے بھائی سے ملنے گائوں جاچکی تھی، تبھی مینا کو بانہوں میں لے کر گائوں کے حکیم صاحب کے مطلب جانے کو اکیلی ہی نکلی ۔ بدقسمتی سے راستے میں احمد مل گیا۔ اس نے پوچھا۔ کیا بات ہے ، کدھر جارہی ہو اور کیوں ایسی پریشان دکھتی ہو ؟ میری مینا بیمار پڑ گئی ہے، حکیم صاحب کو دکھانے جارہی ہوں۔ بولا، میری موٹر سائیکل پر بیٹھ جائو۔
 
 میں لئے چلتا ہوں، دھوپ میں پیدل چلو گی تو بچی کو تپ اور چڑھ جائے گا۔ نہیں احمد ! کسی نے دیکھ لیا تو؟ تو کیا ہم کوئی چوری کرنے جا رہے ہیں؟ کیا گائوں کے لوگ ہم کو جانتے نہیں۔ تیری بچی بخار میں پھنک رہی ہے، میری مان تو حکیم صاحب کو رہنے دے۔ میرے ساتھ چل میں اسے ڈاکٹر کو دکھا دیتا ہوں۔ چل چل بیٹھ جا میری موٹر سائیکل پر ڈر نہیں کوئی نہیں دیکھنے والا اور تیرا شوہر تو یوں بھی شہر گیا ہے ، رات کو ہی لوٹے گا۔ ہم ابھی گھنٹے میں لوٹ آتے ہیں۔ ممتا کی ماری نے اس کی بات مان لی یا کہ لاشعوری طور پر احمد کی رفاقت چاہ رہی تھی۔ وہ مجھے شہر لے چلا۔ ڈاکٹر کو دکھا کر ہم نے دوا لی اور جب لوٹ رہے تھے ایک جگہ موٹر بائیک روک کر اس نے کہا۔ آئسکریم کھائے گی ؟ چل کھالے۔ یہاں کی بہت مشہور ہے۔ میرا حلق پیاس سے خشک ہو رہا تھا۔ میں اس کے ساتھ آئس بار کے بال میں چلی گئی، جہاں گول چھوٹی میزوں کے ارد گرد تین تین کرسیاں لگی تھیں۔
 ہم ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ اس نے آئسکریم کا آرڈر دیا۔ ابھی ایک چمچ ہی کھایا تھا کہ سامنے والی میز پر دو آدمی آکر بیٹھ گئے۔ جس شخص کا رخ بالکل میرے سامنے تھا، جب اس پر نظر پڑی تو میری جان نکل گئی۔ وہ اختر تھا اور مجھے یوں گھور رہا تھا جیسے دن میں کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہو ۔ اسے یقین نہ آرہا تھا کہ یہ میں ہوں۔ ایک لمحے کے توقف بناوہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے ساتھی سے کچھ کہا اور ہال سے نکل گیا۔ اب کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ میں نے احمد سے کہا۔ ہر گز گھر نہ جائوں گی۔ اب یہ سیدھا گھر ہی جائے گا اور یقینا آج مجھے مار ڈالے گا۔ احمد خاصا گھبرا گیا، تاہم اس نے اپنے حواس پر قابو پایا اور کہنے لگا۔ اتنی ہمت اس میں نہیں کہ تم کو مار ڈالے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ طلاق دے دے گا۔ تو میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ میری وجہ سے ہو گی نا تم کو طلاق تو میں کرلوں گا تم سے شادی … ڈر نہیں اور گھر بھی نہ جانا بلکہ اپنے ماموں کے گھر چلی جا۔ تیری ماں ادھر ہو گی اور ساس بھی، سارا ما جراماں اسے کہہ دے۔ جو ہو گا، دیکھا جائے گا۔ میں نے بھی عافیت اس میں جانی کہ اور کوئی حل نہ تھا۔

موٹر سائیکل پر احمد نے مجھے ماموں کے گھر کے سامنے اتار دیا جہاں خالہ اور امی موجود ملیں کیونکہ ماموں کی طبیعت ٹھیک نہ تھی اور دونوں بہنیں ان کو پوچھنے آئی ہوئی تھیں۔ جاتے ہی میں رونے لگی۔ ماں کا ہاتھ پکڑ کر مینا کے ماتھے پر رکھا کہ دیکھ ہاں ! یہ کیسی بخار میں تپ رہی ہے۔ ڈاکٹر کے پاس لے جانا ضروری تھا اور ڈاکٹر کا کلینک شہر میں ہے تو میں نے ہی احمد سے کہا کہ مجھے کلینک لے چلو، رات کو اختر آئے گا تب تک نجانے بچی کا کیا حال ہو جائے۔ شہر میں اختر نے مجھے احمد کے ساتھ دیکھ لیا ہے۔ وہ اب میرا حشر کرے گا۔ میں اب گھر نہ جائوں گی۔ خالہ بھی تاویل سن کر کچھ پریشان ہو گئی۔ کہنے لگی۔ آپا، تم اسے اپنے ساتھ لے جائو، میں گھر جا کر پہلے اختر کا موڈ دیکھ لوں۔ سمجھا بجھا کر بیٹے کا غصہ ٹھنڈا کر لوں تو اس کو آکر تمہارے گھر سے لے جائوں گی۔ ماں نے بھی عافیت اسی میں جانی۔ میں اپنی ماں کے ساتھ ان کے گھر اور خالہ اپنے گھر چلی آئیں۔ خدا جانے کیا با تیں اختر اور خالہ کے بیچ ہوئیں۔

اس نے مجھے دو دن بعد طلاق بھجوادی۔ دونوں کا یہی کہنا تھا۔ بے شک مینا مر جاتی لیکن تم کو ہر گزاختر کے ساتھ اس کے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر شہر نہ جانا چاہئے تھا۔ یہ تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ آخر وہ غیر تھا۔ کیا لگتا تھا تمہارا جو تم اس کے ہمراہ گئیں۔ طلاق مل گئی۔ ملال تھوڑا سا اور خوشی زیادہ تھی کہ جو خواب دیکھ رہی تھی ، اب اس کی تعبیر مل جائے گی لیکن اندیشہ مینا کے بارے میں تھا کہ کہیں اختر نے اس ننھی سی جان کو مجھ سے چھین لیا تو کیونکر جی پائوں گی۔ اختر نے بچی کا مطالبہ بھی نہ کیا۔ میری جان میں جان آگئی اور سال بھر میں اپنی والدہ کے گھر رہی۔ اس دوران جب موقع ملتا احمد سے ملاقات کی کوشش کرتی۔ بالآخر میر انکاح احمد سے ہو گیا۔ مجھے میرے خواب کی تعبیر مل گئی۔ چند دن خوشحالی کے نصیب میں تھے ، سو دیکھ لئے۔ میری شادی کے ایک سال بعد سسر صاحب کے بارے میں اطلاع آگئی کہ وہ سعودی عربیہ میں کار ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے ہیں۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی خالہ ثوبیہ اور اختر کی خوش بختی کا سورج بھی غروب ہو گیا۔ جب ریال ہی کمانے والا نہ رہا تو آہستہ آہستہ جمع پونجی ختم ہونے لگی۔ ایسی جمع پونچی کب تک ساتھ دیتی ہے کہ جب اخراجات ہوتے جائیں لیکن ذریعہ آمدنی نہ ہو۔ اختر کو کوئی ہنر آتا تھا اور نہ آٹھویں پاس کو نوکری ملتی تھی۔
 
 ٹھاٹھ سے جینے کی عادت پڑ چکی تھی ، اب مٹی ڈھونے یا چوکیداری کرنے میں عزت جاتی تھی۔ موصوف گھر میں لکھے بیٹھ رہے۔ پہلے ماں کا زیور بیچا پھر گھر کا فرنیچر اور آخر میں مکان بیچ دیا۔ خود کرائے کے بوسیدہ سے مکان میں رہائش اختیار کر لی۔ ہر بار کہتے تھے کہ اس سرمائے سے کاروبار کروں گا۔ کاروبار کا سلیقہ نہ تھا۔ جب رقم جیب میں آتی، او باش دوست گھیرے میں لے لیتے اور وہ روپیہ بھی ضائع ہو جاتا جس سے کاروبار کا خیال کر کے گھر بار اور قیمتی اشیاء فروخت کی تھیں ۔ آخر کار کنگال ہو گئے ۔ ثوبیہ خالہ نے دل کو صدمہ لگایا اور دو سال میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اب وہی میں تھی، وہی غربت تھی اور نکما نکھٹو شوہر احمد تھا۔ جو کبھی میرے خوابوں کا شہزادہ ہوا کرتا تھا۔ اب پتا چلا کہ محبت کچھ نہیں، اصل اہمیت تو مرد کی کمائی کی ہوتی ہے۔ احمد نے تو صرف دکھاوے کا پیار کیا تھا۔ اس نے بھی دل سے مینا کو بیٹی تسلیم نہ کیا کیونکہ یہ اس کی بیٹی تھی بھی نہیں۔ مجھے بہت جلد علم ہو گیا کہ یہ میری بچی سے جھوٹا پیار جتلاتا ہے۔

ایک روز اس نے اس امر کا ثبوت بھی دے دیا، جب مینا پندرہ برس کی ہو گئی تو چار لاکھ کے عوض اس کا نکاح ایک سن رسیدہ سے کر دیا اور میری بچی کو روپوں کی خاطر اندھے کنویں میں دھکیل دیا۔ میں کچھ بھی نہ کر سکی۔ روتی ہوئی مینا کے آنسو کبھی نہ پونچھ سکی۔ اسے اس ظلم سے کیونکر بچاتی کہ اس کا کوئی والی وارث تھا بھی نہیں۔ احمد نے کہا۔ شکر کرو کہ عزت سے تمہاری لڑکی ایک خوشحال گھر میں بیاہ دی ہے، ورنہ جانے اس کا کیا حشر ہوتا، غربت اس کا بھی مقدر بن جاتی۔ خوشحال گھر تو تھا مگر بوڑھے شوہر کی منکوحہ کے پاس وہ خوشیاں نہ تھیں جو ایک جواں سال دلہن کا کا حق ہوتی ہیں۔ اب پچھتاتی تھی کہ کیوں اپنے خوابوں کی دیوانی بنی کہ سب کچھ لٹ گیا۔ سچ ہے کہ دولت نصیب سے ہی ملتی ہے۔ جن کے مقدر میں امیری ہوتی ہے ، ان کو میسر آتی ہے۔ اختر نے دبئی جا کر میرے بعد اتنی دولت کمائی کہ گائوں میں محل نما مکان بنوایا اور کار ، نوکر رکھ لئے۔ اس کی دوسری بیوی سونے سے پیلی ہے اور عیش کرتی ہے لیکن میں آج بھی اپنی ماں کی طرح محنت مشقت کر کے عسرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں۔ اس کو اپنا مقدر نہ کہوں تو اور کیا کہوں !

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے