میرا میاں اک لڑکی کو گھرلے آیا۔ مجھے سامنے دیکھ کر وہ جھجکنے لگی۔ میاں جی بولے۔ نیلم ! کیوں جھجک رہی ہو، اپنا ہی گھر ہے۔ منزہ اچھی بیوی ہے۔ تم اس سے حسن سلوک کی توقع رکھو۔ یہ سوکن بن کر نہیں بہن بن کر تمہارے ساتھ گزارہ کرے گی۔ میاں کےمنہ سے یہ الفاظ سُن کر مجھے چکر سا آگیا۔ پیروں تلے زمین ہی نکل گئی۔
👇👇
ہمارے گھر میں خوشیاں تھیں ، خوش حالی تھی، تبھی سکون تھا کہ دولت چھاجوں برس رہی تھی۔ بے شک دُنیا میں، سردی، گرمی، خزاں و بہار آتے جاتے رہتے ہیں۔ بہار بھی چار دن کی ہوتی ہے مگر مجھے لگتا تھا کہ میرے گھر کی بہار سدا یو نہی رہے گی۔ اچانک وقت نے کروٹ لی اور میرے میاں رشوت کے الزام میں اپنے سرکاری عہدے سے برطرف کر دیئے گئے اور ہمارے بہت بُرے دن آگئے۔
ہماری بھی فاقوں تک نوبت پہنچ گئی۔ اب سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو گیا۔ میں محض میٹرک پاس تھی کیونکہ شادی نو عمری میں ہو گئی تھی۔ ملازمت کا تو سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں ؟ میرے ایک دور کے کزن وکیل تھے۔ ان کے پاس سوالی بن کر گئی تو انہوں نے بڑی مشکل سے فتح کی ضمانت کروائی کیونکہ ضمانت بھرنے کو پیسہ بھی پاس نہ تھا۔ ایک گاڑی بچی تھی وہ دے کر میاں جی کی جان چھڑائی۔ ان دنوں جی اس قدر پریشان رہتا تھا کہ سوچتی تھی، جنگل میں جا بسوں یا خود کشی کرلوں۔
میاں صاحب بھی سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جاتے تھے کیونکہ ان کی عادت تھی، جو کماتے تھے اڑا دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب بہتی گنگا ہے یونہی سدا بہتی رہے گی۔ وہ نوکری کرنے سے عاجز تھے۔ افسری کی تھی، چھوٹی موٹی ملازمت کیونکر کر سکتے تھے۔ رشوت خوری بھی کلنک کا ٹیکہ بن کر ان کے کیریئر کے اوپر چپک گئی تھی۔ آخر رشتہ دار بھی کب تک مدد کرتے ؟جب مایوسی کی انتہا ہو گئی تو میرے شوہر ایک دن یہ کہہ کر گھر سے نکل گئے کہ اگر آج روزگار کی کوئی سبیل نہ نکلی تو گھر لوٹ کر نہیں آئوں گا۔ میں تمام دن روتی رہی، ان کی سلامتی کی دعائیں مانگتی رہی۔
شام ہوئی دیکھا کہ میاں صاحب آرہے ہیں اور ایک برقعہ پوش عورت ان کے پیچھے چلی آرہی ہے۔ حیران ہوئی کہ یہ کون ہے ؟ عورت نے گھر کی دہلیز پار کر کے نقاب جو پلٹا۔ آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ کالے برقعے کی باریک نقاب میں چہرہ ایساد مکتا ہوا کہ جیسے بادلوں میں چاند۔ میں نے عورت کو کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ وہ جھجکنے لگی۔ میاں جی بولے۔ نیلم ! کیوں جھجک رہی ہو، اپنا ہی گھر ہے۔ منزہ اچھی بیوی ہے۔ تم اس سے حسن سلوک کی توقع رکھو۔ یہ سوکن بن کر نہیں بہن بن کر تمہارے ساتھ گزارہ کرے گی۔ میاں کے منہ سے یہ الفاظ سُن کر مجھ کو چکر سا آگیا۔
جہاں کھڑی تھی وہاں ہی بیٹھ گئی۔ پہلے تو سمجھی کہ میں خواب کی حالت میں ہوں۔ سوکن کا لفظ پگھلا ہوا سیسہ بن کر کانوں میں اتر گیا تھا۔ یا خُدا یہ کیسا عذاب نازل ہو گیا مجھ پر اور میرے بچوں پر ؟ میں نے تو مانگی تھی خوشحالی کی دُعا اور پڑ گئی مجھ پر سوتن کی صورت یہ مصیبت ! تھوڑی دیر تو چارپائی کی پٹی پر گم صم بیٹھی رہی، گویا کوئی بے روح جسم ، آنکھیں کھولے اپنی بے نور آنکھوں سے دنیا کو تکتا ہو۔میاں نے جھنجھوڑا۔ منزہ! کیا ہوا ہے ؟ اگر یہ آگئی ہے تو اپنی قسمت ساتھ لائی ہے اور ہر کوئی اپنی قسمت کا کھاتا ہے۔تیری قسمت اور تیرے بچوں کے نصیب پر تو مہر لگ گئی ہے۔ اس کو اس وجہ سے ساتھ لے آیا ہوں کہ شاید اسی کے نصیب سے ہمیں اور ہمارے بچوں کو کھانے کو کچھ مل جائے۔ اور ہوا بھی یہی۔ نیلم بڑی بھاگوان نکلی۔
اس کے آتے ہی ہماری تنگ دستی اس کا روشن چہرہ دیکھ کر بھاگ گئی۔ نیلم کسی کمپنی میں ملازم تھی لیکن وہ ملازمت پر اس طرح تیار ہو کر جاتی تھی کہ جیسے کسی شریف اور باحیا کو زبردستی بنائو سنگھار پر مجبور کر کے ڈیوٹی پر بھیجا جارہا ہو۔ میک آپ سے سجی، شوخ لباس پہن کر شام کو ڈیوٹی پر چلی جاتی تو صبح کو لوٹتی۔ آتے ہی پڑ کر سو جاتی۔ میں نے میاں جی سے پوچھا۔ آخر یہ کیسی ملازمت ہے؟ بولے، ایک بڑی کمپنی ہیں ریسپشنسٹ ہے۔
یہ ملٹی نیشنل کمپنی ہے، تنخواہ بہت ہے لیکن ڈیوٹی رات کو کرنا پڑتی ہے۔ وہ کیوں ؟ یہ تو عورت ذات ہے، مستقل رات کی ڈیوٹی کیوں لگائی ہے ؟ وہ اس لئے کہ اکثر یورپی ممالک میں جہاں جب دن ہوتا ہے تب ہمارے ملک میں رات ہوتی ہے ، اس وجہ سے یہاں رات کو کام کرناپڑتا ہے۔ مجھ کو اپنے صاحب کی یہ بات سمجھ میں نہ آئی تو چپ ہو رہی۔ رات کو تو وہ میرے پاس ہی ہوتے تھے، پھر بھلا مجھے اس سے کیا تکلیف تھی۔ وہ میرے گھر بار کے کسی معاملے میں دخل نہ دیتی تھی ، صرف دوپہر کا کھانا کھاتی، صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا اس کا باہر سے ہوتا تھا۔ وہ ہم سے کچھ مانگتی، نہ کبھی جھگڑے والی بات کی۔ چند دن میں مجھ کو اس کے بارے جو خدشات تھے وہ دور ہو گئے۔
میرے میاں سے اس کا تعلق، بس بات چیت کی حد تک تھا۔ باہر کہیں ملتے ہوں تو خدا معلوم ، میں نے کبھی ان کی جاسوسی نہ کی اور نہ ہی کر سکتی تھی۔ میں تو گھر کی چار دیواری میں رہنے والی عورت تھی۔ چھٹی والے دن وہ اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی۔ کپڑے استری کر کے الماری میں رکھتی، میلے کپڑے دھوبی کو بھجواتی ، دل کرتا تو اپنی پسندیدہ ڈش بنا لیتی اور میرے ساتھ کاموں میں ہاتھ بٹانے کی کوشش بھی کرتی۔ یوں لگتا جیسے وہ کوئی نیک روح ہو۔
اس کے قدم ایسے مبارک تھے کہ ہمارے گھر میں دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ اس کے آنے کے بعد سے کسی چیز کی کمی نہ رہی تھی۔ میرے بچے اچھے سے اچھا کھاتے ، عمدہ سے عمدہ پہنتے۔ معلوم نہیں اس کی تنخواہ کتنی تھی۔ وہ اپنی کمائی میرے میاں کے ہاتھ میں رکھ دیتی تھی۔ میں نے کبھی ان معاملات میں دخل نہ دیا، میرے گھر کے فاقے دُور ہو گئے تھے سو مجھے آم کھانے سے مطلب تھا نہ کہ پیٹر گننے سے۔ مجھے قسمت پر یقین تھا۔ اب اگر قسمت میں سوتن ہی لکھی تھی تو اس سے اچھی سو تن کہاں مل سکتی تھی، جو کمائو بھی تھی اور میرے میاں سے دُور بھی رہتی تھی۔ میاں جی کا کہنا تھا کہ یہ بے سہار او مجبور ہے اسے بس پناہ دی ہے۔
گھر پر تو میرا ہی راج تھا اور پہلے سے بڑھ کر تھا۔ صرف ایک چیز مجھ کٹھکتی تھی کہ یہ عورت نت نئے اور بہت عمدہ کپڑے ۔ پہنتی تھی۔ کھانا بھی میرے میاں اس کے لئے بہت اچھا پکواتے تھے اور جب وہ سورہی ہوتی تو ہم کو خاص ہدایت تھی کہ شور نہ ہو ، کوئی اس کو نہ جگائے۔ اس کے آرام میں خلل نہ پڑے۔ میں نے ان باتوں پر کڑھنے کو بیکار جانا۔ جب کوئی اتنا فائدہ پہنچائے تو اتنا تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہمارے یہاں آکر وہ اور زیادہ نکھر گئی تھی کیونکہ میں بھی اس کا خیال رکھنے لگی تھی اور اس کے ساتھ پیار سے بات کرتی تھی۔
مجھے لگتا تھا کہ وہ پیار کی پیاسی ہے ، تاہم اس کی عادت تھی کہ وہ بات بہت کم کرتی تھی۔ اس کی تنخواہ سے ہی ہمارے میاں نے گاڑی بھی لے لی۔ وہ روزانہ شام کو گاڑی پرنیلم کو ڈیوٹی پر چھوڑ جاتے اور واپسی میں وہ خود آجاتی تھی۔ کہتی کہ کمپنی کی گاڑی چھوڑ جاتی ہے- وقت اسی معمول سے گزرتا رہا۔ زندگی کی گاڑی یکسانیت کے ساتھ چلتی جارہی تھی۔ میرے بچے اب بڑے ہو گئے تھے۔ وہ مجھے امی اور نیلم کو چھوٹی امی کہتے تھے۔ ایسا ان کے والد نے ان کو سکھایا تھا۔
مجھے بھی اس پر اعتراض نہ تھا۔ وہ میرے بچوں سے پیار کا اظہار کرتی اور اکثر ان کے لئے تحفے تحائف بھی لاتی تھی۔ اس وجہ سے بچے بھی اس سے پیار اور احترام سے پیش آتے تھے۔ ہماری زندگی پھر سے پُر سکون ہو گئی کہ ایک ہی ڈگر پر چل پڑی تھی۔ ایک روز اچانک جانے کس بات پر نیلم کا میرے شوہر سے جھگڑا ہو گیا۔ وہ رورہی تھی، یہ منارہے تھے۔ جب وہ نہ مانی تو ہمارے صاحب بڑ بڑاتے ہوئے گھر سے نکل گئے۔ اس روز نیلم ڈیوٹی پر بھی نہ گئی۔ اس کے بعد تو وہ کئی دنوں تک بستر پر پڑی رہی اور ڈیوٹی سے چھٹی لے لی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ فتح جی بہت پریشان رہنے لگے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کوئی ایسا تنازع تھا جس کے باعث گھر کا سکون گویا اتھل پتھل ہونے والا تھا۔ ایک دن تو ان دونوں کے بیچ اتنا جھگڑا ہوا کہ میاں صاحب تشدد پر اتر آئے اور نیلم نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔
بچے اسکول گئے ہوئے تھے۔ میں باورچی خانے سے بھاگی ہوئی گئی۔ آج میں نے پہلی باران کے درمیان دخل دینا چاہا کیونکہ یہ جھگڑا ایک غیر معمولی بات تھی۔ میرے پہنچنے پر فتح نے اُسے مارنا پیٹنا بند کر دیا مگر اس نے رونا بند نہ کیا۔ میں نے کہا کہ میں کئی روز سے تم لوگوں کو جھگڑتے دیکھ رہی ہوں۔ بات کیا ہے ؟ باجی آج تو میں آپ کو ساری بات بتا کر رہوں گی، چاہے پھر یہ مجھے زندہ رکھیں یا مار ڈالیں۔ اتنا سننا تھا کہ میرے شوہر کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں بلکہ ان کے چہرے کا رنگ ہی اُڑ گیا اور وہ خاموش ہو کر ملتجی نظروں سے اسے دیکھتے رہے پھر عالم پریشانی میں بغیر کچھ بولے گھر سے چلے گئے۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور نیلم کو پیار سے گلے لگالیا۔ اس کو تو جیسے برسوں سے کسی غمگسار کی ضرورت تھی۔ میں بھی آخر ایک انسان تھی سینے میں دل رکھتی تھی۔
وہ میری سوتن تھی تو کیا ہوا، اس نے کبھی مجھے تکلیف نہ پہنچائی تھی۔ جب میں نے اس کے آنسو پونچھے ، بکھرے ہوئے بالوں کو سنوارا ، پیار کیا تو وہ پھٹ پڑی۔ اس نے بتایا کہ تمہارے میاں نے ایک شخص سے رقم لینی تھی اور یہ خاصی بڑی رقم تھی۔ اس وقت انہوں نے اس بندے کو دی تھی جب یہ اپنے عہدے پر فائز ہوا کرتے تھے اور دولت کی ان کو کمی نہ تھی۔ جب کنگال ہو گئے تو اس شخص خاور سے تقاضہ کیا کہ میرے سے جو بطور قرض لئے تھے اب واپس کرو۔
بار بار کے تقاضے پر بھی وہ رقم نہ لوٹا پایا تو انہوں نے کہا کہ اچھا اگر رقم نہیں دے سکتے تو بدلے میں کچھ اور دے دو۔ اپنا مکان، زیور یا کوئی ملکیت ، تب اس کم ظرف نے مجھے ان کے حوالے کر کے کہا۔ ٹھیک ہے، تم اسی کو لے جائو اور سمجھ لو کہ میں نے تمہارا قرض چکتا کر دیا ۔ اب تمہاری مرضی تم ، اس سے شادی کرو، کسی کو دے دو یا بیچ دو۔ آج سے میں اس کی ملکیت سے تمہارے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔
اب میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہ شخص کون تھا؟ میں نے سوال کیا۔ وہ جو بھی تھا آپ اس کو نہیں جانتیں۔ بتا بھی دوں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ میرے والد کا ایک دُشمن تھا اور اس نے مجھے بچپن میں اغوا کر لیا تھا۔ جب تک اس کی ماں زندہ رہی، میں محفوظ رہی۔ اس نیک بی بی نے میرا خیال رکھا اور کوئی تکلیف نہ ہونے دی – اس کی کوئی بیٹی نہ تھی۔ بس ایک ہی بیٹا تھا یہی خاور بدبخت جس نے مجھے اغوا کرایا تھا۔ جب میں سولہ برس کی ہو گئی تو وہ عورت فوت ہو گئی اور یہ آدمی جو بد قماش تھا، اسے جوئے کی بُری لت بھی تھی، اس نے اپنی ساری دولت جوئے میں ہار دی۔ بہر حال تمہارا میاں مجھے لے کر گھر آگیا مگر پہلے سمجھا دیا کہ میری بیوی کو یہی بتانا کہ تم میری دوسری بیوی ہو، حالانکہ تمہارے آدمی نے مجھ سے کبھی نکاح نہیں کیا۔
خاور نے مجھے اپنے دوستوں کو خوش کرنے کے لئے رکھا ہوا تھا مگر تمہارے آدمی نے تو بے حیائی کی حد کر دی۔ اس نے مجھے با قاعدہ ایک ایسی عورت کی سپردگی میں دے دیا، جو ہر روز مجھے کسی گاہک کے حوالے کرتی ہے۔ جو ر قم طے ہوتی ہے، وہ اس میں سے اپنا کمیشن لیتی ہے اور باقی کمائی تمہارا شوہر لے لیتا ہے۔ اس نے مجھے با قاعدہ کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ میرا والد تو میرے غم میں چل بسا تھا۔ دنیا میں میرا کوئی نہیں ہے۔
یہ راز میرے سینے میں دفن تھا۔ میں تمہارے گھر میں رہ کر اس ماحول سے مانوس ہو گئی۔ میری شدید خواہش تھی کہ میرا بھی گھر ہو، بچے ہوں جو مجھے امی کہیں۔ میرا خیال تھا کہ فتح خان مجھ سے نکاح کرلے گا، مجھے بیوی بنالے گا تو عزت کی زندگی جی لوں گی۔ گھر اور بچے تو مل گئے جو دراصل تمہارے ہیں مگر شوہر نہ ملا کیونکہ فتح خان نے مجھ سے نکاح نہیں کیا، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ گھنائونی زندگی میں جھونک دیا ہے۔ رہی اولاد کی خواہش، توجو عورت کبھی کسی کی دلہن نہ بنی ہو ، جسے کبھی بیوی کا رتبہ نہ ملا ہو۔
بھلا اس کو اولاد پیدا کرنے کا کیا حق ہے۔ ایسے بچے ہو بھی جائیں تو ان پر کس کی ولدیت کا لیبل لگے گا؟ بس اسی سوال پر ہمارے درمیان جھگڑا ہو۔ میں نے اس ظالم لالچی انسان سے کہا کہ تمہاری خاطر میں خاموش رہی کیونکہ میرا کوئی گھر نہیں تھا، میں نے اس گھر کی چھت کے لئے ہر ظلم برداشت کیا اور تم نے میری عزت کے بدلے دام کھرے کئے اس کمائی سے اپنے کنبے کی پرورش کر رہے ہو تو کیا تم میرے ہونے والے بچے کی پرورش نہیں کر سکتے ؟ اس کو اپنے نام کی ولدیت نہیں دے سکتے؟ اس کو کیوں پیدا ہونے سے قبل مار دینا چاہتے ہو۔ یہ بد نصیب تمہارے بچوں کے ساتھ رہ کر پل جائے گا۔
کم از کم میری ممتا کی تشنگی تو ختم ہو جائے گی مگر اس آدمی کو یہ گوارا نہیں ہے، حالانکہ میری ناپاک کمائی سے یہ اپنی اولاد کا پیٹ بھرتا ہے مگر میری اولاد کو اپنا نام دینا اس کو گوارہ نہیں، یہ کیسی غیرت ہے۔ یہ مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں اپنی کوکھ اجاڑ دوں اور میں اس پر راضی نہیں، تبھی یہ مجھ سے جھگڑ رہا ہے۔ یہ کہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
وہ اتنا روئی کہ میں بھی اس کے ساتھ رونے لگی۔ اس بات نے مجھے کتنا گہرا صدمہ دیا بتا نہیں سکتی۔ کاش نیلم مجھے یہ سب نہ بتاتی تو میں اس طرح نہ اجڑتی۔ بعض اوقات ناواقفیت بھی ایک نعمت ہوتی ہے اور جب اسرار عیاں ہوا تو یہ نا قابل برداشت ہو گا۔ میرا کلیجہ پھٹنے لگا۔ جس شخص کو میں مجازی خُدا جان کر اس کی پوجا کرتی رہی، جس کو میں نے اپنا سب کچھ جانا، حتی کہ سوتن کو قبول کر لیا۔ وہی عظمت اور انسانیت کا پیکر ، وہی میرا سرتاج اس قدر کم ظرف، خود غرض اور انسانیت سے گرا ہوا نکلے گا، یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ میں اسی احساس سے تڑپ کر رہ گئی کہ میرے معصوم بیچے ، ایک مظلوم عورت کی مظلومیت کی کمائی کھا کر پرورش پاتے رہے تھے ۔ اف کس قدر روح فرسا حقیقت تھی۔ میں نے نیلم کو گلے لگایا اور اپنے بھائی کو فون کر کے کراچی سے بلوا کر تمام حقیقت سے آگاہ کیا۔
وہ بچارے خود کراچی کی ایک مل میں کام کر کے اپنے کنبے کا پیٹ پال رہے تھے لیکن کم کمائی کے باوجود ان میں غیرت تھی۔ انہوں نے کہا کہ تم اس شخص سے طلاق چاہتی ہو تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اس پر نیلم رونے لگی تو وہ بولے۔ اگر تم واقعی مجبور ہو اور اس دنیا میں تمہارا کوئی نہیں، تو آج سے تم بھی میری بہن ہو۔ اپنی مرضی سے فتح خان کو چھوڑ سکتی ہو تو میں تم کو بھی پناہ دوں گا اور تمہاری شادی کسی نیک آدمی سے کروادوں گا، جیسا تم کو منظور ہو۔ بھائی نے میری طلاق بھی کروادی گرچہ یہ نہ چاہتی تھی مگر بھائی نے سمجھایا کہ اس شخص کا اعتبار نہیں۔ جب یہ ایک غیر عورت کی غلط کمائی کھا سکتا ہے تو سمجھو کہ اس کی غیرت اور ضمیر دونوں کی موت ہو چکی ہے۔ کیا خبر کل یہ اپنے گھر کی خواتین کے بارے کیا سوچے۔
اس کو نہ کمانے کی اور حرام خوری کی عادت ہو چکی ہے۔ ہم نے بھائی کے گھر آکر چند دن تنگی ترشی میں کاٹے، پھر میرے بیٹے کی تعلیم مکمل ہو گئی تو بھائی نے اسے بھی مل میں لگوا دیا۔ اس طرح ہمارے کنبے کو کفیل میسر آگیا۔ نیلم کی شادی بھائی نے اپنے ایک دوست سے کروادی جس کی ایک بچی تھی اور بیوی فوت ہو چکی تھی۔ وہ بھی مل میں ملازم تھا۔ تنخواہ زیادہ نہ تھی پھر بھی نیلم خوش تھی کہ اس کو اپنا گھر اور اپنی عزت کا رکھوالا مل گیا تھا۔ سچ ہے، عورت شریف ہو تو غربت میں بھی گزارہ کر لیتی ہے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
1 تبصرے
Aj k door mn kisi pe b bhroosa nai kia ja skta khudara apni betiyan Jahan biyahien wahan Khabar b rakha krain k khien ap ki beti ghalat hathon mn to nai he apny irada gird dekhain aur b buhat c Sachi khaniyan ap ko yahien se mil jain gi
جواب دیںحذف کریں