دو ہم سفر (سبق آموز کہانی)

Urdu Font Stories

دو ہم سفر (سبق آموز کہانی)

قسط وار کہانیاں

وہ گھر سے ہاسٹل جانے کے لیے نکلی تھی تو بارش کے قطعی آثار نظر نہیں آ رہے تھے ۔ اگر چہ بادلوں کی کچھ آوارہ ٹکڑیاں آسمان پر منڈلا رہی تھیں مگر وہ برسنے کے موڈ میں نہیں لگ رہی تھیں۔ اماں نے کہا بھی کہ شفیق (ڈرائیور) کا انتظار کر لو مگر اس خیال سے کہ کہیں ٹرین نہ چھوٹ جائے وہ آن لائن کیب کروا کر اسٹیشن چلی آئی۔ ابھی اپنا چھوٹا سا ٹرالی بیگ گھسیٹتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب رم جھم شروع ہوگئی۔ وہ تیزی سے ایک بینچ کی طرف بڑھی جس پر پلاسٹک شیٹ کی چھت تھی۔ اس نے اپنے بال اور کپڑے جھاڑے۔ اپنا بیگ بنچ کے نیچےسر کایا اور خود ذرا آرام سے بیٹھ گئی۔ ٹرین آنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ اسٹیشن پر وہی مخصوص گہماگہمی تھی۔ سامان اٹھائے ادھر ادھر دوڑتے بھاگتے مسافر اور آوازیں لگاتے چھابڑی فروش۔ پچھلے دو سالوں سے ٹرین کے ذریعے گھر سے ہوسٹل اور ہوسٹل سے گھر آتے جاتے وہ ان نظاروں کی عادی ہو چکی تھی۔ ابھی بھی وہ غیر دلچسپی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ سامنے سے ایک خوش باش سامان سے لدی پھندی فیملی اس جانب چلی آئی۔ دو ادھیڑ عمر کے مرد او عورت غالباً میاں بیوی تھے اور ان کے پیچھے پیچھے ایک صحت مندی نوجوان لڑکی چلی آرہی تھی۔ اس نے ایک تقریباً تین چار سال کی بچی کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور ایک گپلو سا چھوٹا بچہ گود میں اٹھا رکھا تھا۔ ارے بیٹا ذرا اسی جگہ دینا۔ ادھیڑ عمر کی خاتون تو آتے ہی اس کے پاس بینچ پر ڈھے سی گئی۔ ہائے اللہ ! میں تو بہت تھک گئی۔ اتنی تو سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں ۔ وہ بری طرح سے ہانپ رہی تھیں۔ ان کے میاں نے تو اپنے ساتھ لائے ایک بڑے سارے بیگ کو سیدھا کیا اور اس پر تشریف فرما ہو گئے ۔ اس نے مزید سرک کرلڑکی کے لیے بھی جگہ بنائی۔ نہیں سسٹر میں کھڑی ہی ٹھیک ہوں۔ اگر بیٹھ گئی تو منا رونا شروع کر دے گا۔ لڑکی خوش دلی سے مسکرائی۔ ارے گڈو کے ابا اتم تو بیگ پر ہی بیٹھ گئے۔ اس میں میرے کانچ کے گل دان رکھے ہیں، وہ ٹوٹ جائیں گے۔ خاتون کے حواس بحال ہوئے تو ان کی نظر اطمینان سے بیگ پر تشریف فرما اپنے میاں پر پڑی تو وہ چیخ اٹھیں ۔ نہیں اماں ! گل دان تو دوسرے بیگ میں رکھے ہیں۔ لڑکی نے ان کو تسلی دی۔ بیٹی تم کہاں جارہی ہو؟ اب خاتون نے اس کی جانب اپنا رخ کیا۔ وہ چشمے کی اوٹ سے اسے ٹولتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ آنٹی میں لاہور جارہی ہوں۔ اچھا! ہم بھی لاہور جارہے ہیں۔ وہ سب الرٹ ہو گئے۔ چھک چھک انجن پلیٹ فارم کی جانب آ رہا تھا۔ پھر بو گیاں پلیٹ فارم سے آلگیں۔ شور و غل مزید بڑھ گیا۔

لڑکی کے دونوں بچوں نے گھبرا کر رونا شروع کر دیا۔ بچی تو چیخیں مار کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ وہ شاید پہلی بار ٹرین میں سوار ہو رہی تھی۔پلیز آپ ذرا منے کو پکڑنا۔ میں اسے لے کر چڑھتی ہوں تو لڑکی نے اپنا بچہ اس تھمایا وہ اپنے ٹرالی بیگ کو گھسیٹی احتیاط سے بچے کو گود میں لیے ڈبے کے اندر گھس گئی۔ باقی سب بھی اس کے ساتھ سوار ہونے لگے۔ ابھی وہ کسی خالی سیٹ وغیرہ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جب اسے اپنی پشت پر ایک بھاری سی مردانہ آواز سنائی دی محترمہ ! آپ کے بچے کا ایک جو تا نیچے گرا ہوا تھا۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو جینز شرٹ میں ملبوس ایک لمبا ترنگا سا لڑکا ایک چھوٹا سا جوتا اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔ اس کی نظر بچے کے پاؤں پر پڑی۔ ایک جو تا واقعی غائب تھا۔ وہ بری طرح جھینپ گئی ۔ شکریہ بھیا! یہ ان کا نہیں میرا بچہ ہے۔ اس کے پیچھے سوار ہوتی اسی لڑکی نے جوتا اس لڑکے کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اپنا منا بھی اس کے کندھے سے اتار کر اپنی گود میں منتقل کر لیا۔ تمہارا بھی شکریہ بہن وہ سامنے والی بینچ خالی پڑی ہے۔ وہیں چلتے ہیں ۔ اب شرمندہ ہونے کی باری لڑکے کی تھی۔ وہ اپنا بیگ سنبھالتا آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب سیٹ ہو کر بیٹھ چکے تھے۔ وہ لڑکی کے ساتھ ونڈو سائیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں میاں بیوی سامنے والی دو نشستوں پر قبضہ جما چکے تھے۔ جینز شرٹ والا لڑ کا دائیں جانب ایک سنگل سیٹ پر براجمان ہو گیا۔ ٹرین نے اب آہستہ آہستہ رفتار پکڑنی شروع کر دی تھی۔ بارش کی پھوار کھڑکی کے راستے اندر تک آرہی تھی ۔ اس کا دوپٹہ بھیگتا جا رہا تھا۔ اس نے گرل نیچے کرنی چاہی مگر وہ پورا ز ور لگا کر بھی اسے ایک انچ نہ سر کا سکی۔ محترمہ ایہ فکس ہوتی ہے۔ آپ صرف شیشہ نیچے کرسکتی ہیں ۔ اس کو گرل سے نبرد آزما دیکھ کر لڑکے نے نرمی سے ٹو کا۔ اس نے شیشہ نیچے گرایا۔ اور بیگ سے اپنا موبائل نکال لیا۔ بیگم تم چائے تو لائی تھیں نا فلاسک میں ۔ وہ پی لیتے ہیں ۔ میاں صاحب نے فرمائش کی۔ ابھی تو رحیم یار خان گزرا ہے گڈو کے ابا۔ بہاول پور جا کر پیئیں گے ۔ عورت نے ترنت میاں کی فرمائش رد کر دی۔ مگر بہاولپور آنے میں تو ابھی تین گھنٹے ہیں۔ تب تک تو چائے ٹھنڈی ہو جائے گی۔ بڑے میاں کی شاید چائے کے لیے طبیعت مچل رہی تھی۔ اچھا ابا ! میں فلاسک نکالتی ہوں ۔ لڑکی نے ایک بار پھر اپنا منا اس کی گود میں ڈالا اور برتن نکالنے گئی۔ مرد اور عورت کو چائے کے کپ دینے کے بعد اس لڑکی نے اس کی جانب بھی ایک چھوٹا سا مگ بڑھایا۔ یہ لو سسٹر ، انعم ! اس نے دھیرے سے اپنا نام بتایا اور ساتھ ہی انکار میں سر ہلا دیا۔ ارے نہیں ! میں اس وقت چائے بالکل نہیں پیتی ۔ اس نے وہی مگ لڑکے کی جانب بڑھا دیا۔ اس نے شکریہ کہہ کر کچھ جھجکتے ہوئے تھام لیا۔ اب وہ اس کی جانب وزدیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کپ کو ہاتھوں میں لیے بیٹھا تھا۔ بے فکر ہو کر پیئیں ! ہم نے اس میں کچھ نہیں ملایا ۔ لڑکی ہنس کر بولی تو لڑکا جلدی جلدی چائے کے گھونٹ لینے لگا۔ اور وہ اپنی جگہ چورسی بن گئی۔ پھر اس نے بڑے میاں کی جانب دیکھا وہ مزے سے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے باہر کے نظاروں کا لطف لے رہے تھے۔ انہوں نے اپنی جیب سے بسکٹ کا ایک پیکٹ بھی برآمد کر لیا تھا اور اب وہ چائے میں پیکٹ ڈبو ڈبو کر کھاتے ہوئے کتنے خوش اور آسودہ سے نظر آرہے تھے۔ اس نے ایک گہری نظر ان پر ڈالی۔ اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی۔ بے اختیار اس کی ذہنی رو بھٹک کر اپنے ابا کی طرف چلی گئی۔ وہ بھی یونہی ٹرین کے سفر میں کھانے پینے کے بے حد شوقین تھے۔ ایک دو بار اس نے بچپن میں ان کے ہمراہ سفر کیا تھا یہ دھندلی دھندلی سی چند یادیں باقی تھیں۔ وہ فراٹے بھرتی ٹرین اور کھانے پینے میں مشغول شفیق چہرے والے اس کے ابا۔ اب تو نجانے کیسے تھے ؟ کس حال میں تھے ؟ کافی عرصے سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ ہی نہیں رہا تھا۔ در اصل اس کے بچپن میں ہی اس کے اماں ابا کی طلاق ہو گئی تھی۔ وہ اماں کے ہمراہ نانی کے گھر میں رہتی تھی۔ طلاق کے بعد اس کی ماں شدید ڈپریشن میں چلی گئی تھی۔ ان کے دل میں یہ خوف بیٹھ گیا تھا کہ ابا اسے ان سے چھین لیں گے۔ وہ ہمہ وقت اسے خود سے لپٹائے رکھتیں۔ ابا اس سے ملنے آتے تو انہیں غش آجاتا۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ۔ وہ اسے خود سے چمٹالیتیں ۔ نانی بامشکل الگ کر کے ابا سے ملنے کے واسطے گلی میں بھیج دیتیں۔ پھر ابا نے بھی دوسری شادی کر لی۔ ان کا آنا کم ہو گیا۔ نانی اکثر جتاتیں۔ دیکھ لو تمہارے باپ نے تو جھٹ بیاہ رچا لیا مگر ماں نے تم پر اپنی جوانی وار دی ۔وہ ابا سے اور بھی متنفر ہو جاتی وہ فون کرتے تو سرد مہری سے بات کرتی ۔ ابا اس کے خرچ کے واسطے کچھ رقم بھی بھجواتے تھے۔ ان ماں بیٹی کو ان معمولی روپوں کی کچھ خاص ضرورت نہ ہوتی کیونکہ انہیں نانی کی پینشن اور نانا کے اثاثوں کا بڑا آسرا تھا۔ پھر ابا کے فون بھی کم سے کم ہوتے گئے۔ گرما گرم پکوڑے گرما گرم پکوڑے لے لوجی مزیدار پکوڑے۔ وہ ہڑ بڑا اٹھی۔ ٹرین بہاول پور اسٹیشن پر کھڑی تھی۔ بارش ہنوز ہو رہی تھی۔ بھائی پکوڑے تازہ ہیں۔ خاتون نے اشتیاق سے پوچھا۔ جبکہ لڑکی سوتے ہوئے اپنے دونوں بچوں کو گود میں لیے خود بھی اونگھ رہی تھی۔ ہاں خالہ جی بالکل تازہ اور خستہ ہیں۔ پکوڑے والا لپک کر آیا۔ سوندھی سوندھی سی مہک ہر طرف پھیل گئی۔ عورت نے پکوڑے خرید لیے۔ لو بیٹا ! چکھو تو سہی، کیسے ہیں ؟ عورت نے شاپر اس کی جانب بڑھایا۔ شکریہ انٹی اس نے ایک پکوڑا اٹھایا۔ پہلے وہ چائے کے لیے انکار کر چکی تھی۔ اس لیے اب اسے منع کرنا اچھا نہیں لگا۔ عورت نے پھر وہی شاہرلڑکے کی جانب بڑھایا۔ لڑکے نے بھی تھینک یو انٹی ! کہتے ہوئے دو پکوڑے اٹھائے اور اسے مسکراتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کھانے لگا۔ اس نے گھبرا کر جلدی سے پکوڑا منہ میں ڈالا – اف توبه اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس نے پکوڑے کے ساتھ ہری مرچ بھی کھائی تھی۔ ہوسٹل کے پھیکے کھانے کھا کھا کر مرچ مسالے کی تو عادت ہی نہیں رہی تھی۔ ہری مرچ تو اسے ویسے بھی بہت چھبتی تھی۔ برا حشر ہو گیا۔ آنکھوں سے پانی بہنے لگا منہ لال ٹماٹر سا سرخ ہو گیا۔ پانی کی بوتل خالی پڑی تھی۔ لڑکے نے جلدی سے ایک چھوٹی سی پانی کی بند بوتل اس کی جان بڑھائی۔ وہ انکار کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ اس نے غٹاغٹ ساری بوتل چڑھائی۔ کچھ حواس بحال ہوئے۔ عورت پکوڑے کھاتے ہوئے تبصرہ فرمارہی تھی۔ ایسے ہوتے ہیں پکوڑے کیا !! سادہ بیسن میں نمک مرچ کھول دیا۔ ارے پکوڑے تو میں بناتی ہوں۔ اتنے سارے لوازمات ڈلتے ہیں ۔ ہرا مسالہ، ہر الہسن، تازہ پودینے کی چٹنیاں، پالک، آلو، بند گوبھی باریک کٹی ہوئی سوکھا دھنیا، انا ر دانہ املی کا گودا اور … بس بیگم بس اتنی مہنگائی میں اتنے ڈھیرلوازمات ڈالنا بہت مشکل ہے۔ سادہ آلوبیسن پرہی گزارا کرو۔ لڑکے کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ آنٹی آپ شاید پکوڑے بہت شوق سے کھاتی ہیں۔ انعم شائستگی سے پوچھنے لگی۔ ہاں بیٹا مگر اب تو صرف ساون رت میں کھاتی ہوں۔ ڈاکٹر نے بلڈ پریشر کی وجہ سے زیادہ کھانے سے منع کر رکھا ہے۔ اور تم بیٹا لاہور کس کے پاس جارہی ہو ؟ آنٹی ! میں تو اپنے ہوسٹل جا رہی ہوں ۔ اچھا! تو پڑھتی ہو وہاں؟ وہ کچھ سوچ کر بولیں۔ جی آنٹی لاہور یونیورسٹی میں بی ایس فائن آرٹس کی اسٹوڈنٹ ہوں ۔ اس نے ان کی تسلی کے لیے تفصیل سے جواب دیا۔ سامنے بیٹھا لڑکا بے زاری سے اپنے موبائل کو دیکھ رہا تھا ۔ محترمہ آپ کے پاس کوئی بک ہوگی۔ میرے موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہو چکی ہے۔ وہ اچانک انعم سے مخاطب ہو کر بولا ۔ اللہ کرے نوجوان نسل کے تمام موبائلوں کی بیٹریاں ہمیشہ کے لیے ڈیڈ ہو جائیں تاکہ وہ کسی طرح کتاب کی جانب تو مائل ہوں۔ بڑے میاں بڑبڑائے۔ اس کے پاس مستنصر حسین تارڑ کا ایک سفر نامہ موجود تھا۔ اس نے جلدی سے وہی بیگ سے نکال کر لڑکے کی جانب بڑھا دیا مبادا بڑے میاں کوئی کتاب وغیرہ نہ ہونے پر اسے بھی چار باتیں سنا دیں ۔ ٹرین اب تیزی سے ملتان سے ہوتی ہوئی لاہور کی جانب محو سفر تھی۔ نجانے کیسے بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ بھی لگ گئی پھر جب لاہور آیا تو ٹرین ایک جھٹکے سے رکی۔ لڑکی کے دونوں بچوں نے ایک ساتھ رونا شروع کر دیا۔ وہ بھی ہڑ بڑا کر اٹھ گئی۔ سب ہی اپنا اپنا سامان سمیٹ رہے تھے۔ اس نے بھی اپنا ٹرالی بیگ نکالا۔ ایک افراتفری سی مچی تھی۔ دروازے کے قریب بہت رش تھا۔ وہ عورت اور لڑکی کے ہمراہ راستہ صاف ہونے کا انتظار کر رہی تھی جب اس لڑکے نے شکریہ کہ کر اس کی کتاب لوٹائی پھر اس پر ایک گہری الوداعی نظر ڈال کر اپنا بیگ سنبھالتا ہوا تیزی سے باہر نکل گیا۔ اس فیملی کو تو ان کے رشتے دار لینے آئے تھے۔ عورت اور لڑکی دونوں گرم جوشی سے اسے خدا حافظ کہتے ہوئے رخصت ہوئے اور اس نے ست قدموں سے ٹیکسی اسٹینڈ کا رخ کیا۔

مزید پڑھیں

ایک ایک کر کے کئی دن گزر گئے وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئی۔ ایک دن لائبریری میں بیٹھی اپنے نوٹس بنا رہی تھی جب اس کی کلاس کا سی آر اسے ڈھونڈتا ہوا آ پہنچا تم سے کوئی ملنے آیا ہے۔ کیفے میں بٹھا کر آیا ہوں۔ ہیں ؟ کون آگیا ؟ وہ حیران ہوئی اس شہر میں تو اس کا کوئی رشتے دار وغیرہ نہیں رہتا تھا۔وہ سوچتی ہوئی کیفے آئی اور پھر دروازے پر ہی ٹھٹھک گئی۔ سامنے وہی لڑکا بیٹھا تھا۔ وہی ٹرین میں ملنے والا اسے شدید تپ چڑھی۔ اتنا مہذب اور شریف دکھتا تھا مگر عام لڑکوں کی طرح کتنا چھچھورا اور سڑک چھاپ نکلا۔ اس نے ٹرین میں آئٹی کو اپنی یونیورسٹی کا بتایا تھا تو پیچھا کرتے ہوئے وہیں آپہنچا۔ جی فرمائیے اس نے با مشکل خود کو ٹھنڈا کیا اور اسے کڑے تیوروں سے گھورتے ہوئے پوچھا۔ لڑکے کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ وہ کچھ دیر تک یونہی گم صم اسے دیکھتا رہا جیسے اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے۔ اشتعال کی ایک لہر اس کے اندرائی ۔ وہ آستین چڑھا کر آگے بڑھی ۔ آخر کو بلیک بیلٹ تھی۔ مسٹر میں نے پوچھا ہے کہ آپ یہاں کسی سلسلے میں تشریف لائے ہیں؟ اس کے الفاظ مہذب مگر لہجہ زہریلا تھا۔ لڑکے نے ایک نظر اسے دیکھا۔ پھر تحمل سے بولا۔ انعم ! پلیز تھوڑی دیر آرام سے میری بات سن لیں۔ اچھا تو اس نے میرا نام بھی یاد رکھا ہوا ہے۔ اس نے دل میں تنفر سے سوچا۔ حالانکہ نام معلوم تھا تو وہ اسے ڈھونڈتا ہوا سیدھا یہاں آپہنچا تھا۔ اس وقت وہ قطعی بھول گئی۔ بات سننے میں کیا حرج تھا۔ اس نے خود کو سمجھایا پھر ایک کرسی گھسیٹ کر اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ گئی ۔ انعم ناراض نہ ہوں۔ میں آپ سے آپ فادر کے بارے میں بات کرنے آیا ہوں۔ ابا کے نام پر وہ بھونچکا رہ گئی۔ وہ تو سمجھی تھی کہ وہ اسے پہلی نظر کی محبت وغیرہ کی کوئی کہانی سنانے آیا ہے مگر وہ تو بالکل مختلف بات کر رہا تھا۔ میرے ابا کو آپ کیسے جانتے ہیں؟ اس نے بے صبری سے سوال کیا۔ دراصل آپ کے ابّا نے میری پھوپھی سے نکاح کیا تھا۔ پہلے تو مجھے بھی علم نہیں تھا۔ ایک دن آفس والوں سے ان کے واجبات وصول کرنے تھے تو ان کی فائل بنوا رہا تھا۔ کاغذات میں ان کے ساتھ آپ کی ایک تصویر بھی برآمد ہوئی تھی۔ تصویر بہت پرانی تھی مگر بہت واضح تھی۔ اس دن ٹرین میں آپ کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا تھا۔ مگر بے یقین سا تھا۔ آپ کی بک پر آپ کا نام درج تھا۔ گھر آ کر پھوپھو سے پوچھا تو انہوں نے بھی تصدیق کی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ آپ کے اپنے ابا کے ساتھ تعلقات برائے نام ہی رہے ہیں۔ میں بھی اس بات کو نظرانداز کر دیتا۔ مگر ابھی تین دن پہلے ان پر فالج کا شدید حملہ ہوا ہے۔ وہ ہاسپلائزڈ ہیں۔ حالت خاصی مخدوش ہے۔ انہیں آپ کی ضرورت ہے۔ میری درخواست ہے کہ آپ ایک بار ان سے مل لیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کو آپ سے مل کر سکون آئے اور ان کی حالت میں بہتری آجائے۔ ہیں ابا بیمار ہیں اتنے بیمار .. وہ اور بھی بہت کچھ کہہ رہا تھا مگر اس کا ذہن صرف اسی ایک بات پر اٹکا ہوا تھا۔ اسے اس لڑکے کا چہرا دھندلا سا نظر آرہا تھا اور سر چکراتا محسوس ہو رہا تھا۔ انعم ! آپ ریلیکس ہو جائیں ۔ ان شاء اللہ سب اچھا ہو جائے گا۔ یہ کارڈ ہے اس پر ہاسپٹل کا پتا درج ہے۔ اس نے دلاسا دیتے ہوئے اس کی جانب ایک کارڈ بڑھایا جسے اس نے غائب دماغی سے پکڑ لیا۔ وہ یونہی حق دق کی بیٹھی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور پھر اس کی جانب ذرا سا جھک کر بولا ۔ میرا نام منیب ہے اور کارڈ کی پشت پر میں نے اپنا نام اور ایڈریس وغیرہ بھی لکھ دیا ہے۔ حالانکہ اس کا اپنے باپ سے اتنا جذباتی لگاؤ نہیں تھا۔ مگر خون کی بھی ایک کشش ہوتی ہے۔ ان کی بیماری کا سن کر وہ نڈھال ہوگئی۔ اس دن باقی کلاسز چھوڑ کر ہاسٹل چلی آئی۔ ابا کا تو نمبر بھی کب سے اس کے موبائل سے ڈیلیٹ ہو چکا تھا۔ اپنی روم میٹ عالیہ سے تذکرہ کیا تو وہ بولی۔ دیکھو انعم ! آج کل کے حالات بہت خراب ہیں۔ یوں کسی اجنسی کی کہانی پر من و عن اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاسٹل کی وارڈن خاصی سمجھ دار ہیں۔ کچھ عرصہ ویمن پولیس میں بھی رہ چکی ہیں۔ ان سے اپنی پریشانی کا ذکر کرو۔ وہ تمہارے ساتھ ہسپتال چلی جائیں گی۔ اب وہاں جا کر ہی صحیح صورت حال معلوم ہو سکتی ہے۔
☆☆☆
کارڈ پر دیئے گئے پتے پر وہ وارڈن کے ہمراہ ہسپتال پہنچی۔ سامنے بیڈ پر نحیف و نزار سے اس کے ابا ہی تھے۔ اتنے کمزور، اس قدر لاغر ہڈیوں کا تقریبا ڈھانچہ اس نے ان کے نقوش سے انہیں پہچانا۔ ان کے قریب دھری کرسی پر ایک نفیس سی انٹی بیٹھی تھیں ۔ وہی لڑکا (شکل سے یاد آیا کہ اس کا نام منیب ہے ) ان کی ڈرپ ٹھیک کر رہا تھا۔ وہ ہولے ہولے چلتی ہوئی ان کے سرہانے آکھڑی ہوئی۔ پھر اس نے ان کے جھریوں بھرے کمزور سے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ ان کے وجود میں ہلکی سی جنبش ہوئی ۔ابا جان اس نے دھیرے سے پکارا۔ دہ آنٹی وارڈن کو بتا رہی تھیں کہ ان کے دائیں حصے پر فالج کا حملہ ہوا تھا۔ چہرے کا آدھا حصہ متاثر ہوا تھا ۔ فی الحال وہ بولنے سے قاصر تھے۔ وہ ان کے قریب کھڑی آنسو پیتی رہی۔ اس سے اسے احساس
ہوا کہ اس نے باپ جیسے انمول رشتے کو نظر انداز کر کے غلطی ہی نہیں گناہ بھی کیا تھا۔ والدین کے ذاتی اختلافات اپنی جگہ ، وہ دونوں ہی بچوں کی یکساں محبت اور توجہ کے حق دار ہوتے ہیں۔ یہ جوس لیں ۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں غلطاں تھی جب منیب نے جوس کا ڈبہ اس کی جانب بڑھایا۔ اس نے چونک کر دیکھا۔ وہ چہرے پر نرم سا تاثر لیے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس نے بھی تشکر سے اسے دیکھا۔ وہ کافی دیر بیٹھی رہی۔ رخصت ہوتے وقت جب اس نے ایک بار پھر ابا جی پکارا تو اس بیمار وجود میں ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی اور پھر ان کی بائیں آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا اور وہ برستی آنکھوں سے لوٹ آئی۔
☆☆☆
پھر وہ روز شام میں ہاسپٹل جانے لگی۔ کبھی ابا کے لیے سوپ اور دلیہ وغیرہ بھی بنا کر لے جاتی۔ منیب بھی اکثر وہیں ہوتا۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ وہ کتنی ذمہ داری سے ان کو سنبھلنے میں انٹی کی مدد کر رہا تھا۔ وہ کم گو سالیے دیے رہنے والا انسان تھا۔ اس کی موجودگی میں وہ خود کو آرام دہ محسوس کرتی تھی۔ پھر ابا کی حالت کافی سنبھل گئی اور ایک دن وہ ہاسٹل سے ڈسچارج کر دیے گئے ۔ نیب نے بتایا تھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد آنٹی نے پنشن کے روپوں اور بچت کو ملا کر ایک چھوٹا سا گھر خریدا تھا۔ اسی دوران اس کا اپنے گھر بھی جانا ہوا ۔ اماں ! میں آبا سے ملی تھی۔ اس نے حوصلہ پاکر ڈرتے ڈرتے اماں سے تذکرہ کیا۔وہ خلاف معمول خاموش رہیں۔اماں ! وہ بہت بیمار رہے ہیں۔ اماں میں اب ان سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں نے غلطی کی تھی وہ دھیرے دھیرے بول رہی تھی ۔ میں نے بھی غلطی کی تھی ان کے منہ سے سرسرا تا سا جملہ نکلا۔ اس نے بے یقینی سے ان کی طرف دیکھا۔ جب سے تمہارے نانا ابو اور نانی اماں فوت ہوئے ہیں میں خود کو اتنا تنہا محسوس کرتی ہوں۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ ایک اہم رشتے سے محروم رکھ کر میں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے۔ مجھے معاف کر دو میری بچی وہ سک اٹھیں ۔ نہیں امی پلیز اس نے انہیں لپٹا لیا۔

مزید پڑھیں

اس بار وہ لاہور آئی تو ابا کے گھر بھی گئی۔ وہ اسے دیکھ کر کھل اٹھے۔ انٹی بھی خوش دلی سے ملیں۔ وہ متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ منیب اب یہاں نہیں ہوتا ۔ آنٹی نے اس کی نظروں کا سوال سمجھ کر کہا تو وہ بری طرح سے جھینپ گئی۔ وہ آنٹی میں سمجھی وہ آپ کے ساتھ رہتے ہیں ۔ اسے اپنی مایوسی پر حیرت ہو رہی تھی۔ اس نے خجالت چھپانے کے لیے جلدی سے کہا۔ وہ تو تمہارے ابا بیمار تھے۔ اس لیے میری مدد کے خیال سے چند روز یہاں رہا تھا۔ ورنہ ان لوگوں کا گھر تو فیصل ٹاؤن میں ہے۔

وہ شام کو اپنی چند جونیئر ز کو ٹیوشن پڑھاتی تھی۔ آج اسے ٹیوشن فیس ملی تھی تو وہ اپنی روم میٹ عالیہ کے ہمراہ مارکیٹ چلی آئی۔ دونوں نے کچھ ضروری شاپنگ کرنی تھی۔ عالیہ جیولری اور میک اپ سیکشن کی طرف چلی گئی۔ وہ اپنے لیے اسٹالر پسند کر رہی تھی۔ اسے ایک گہرے کلر کا نفیس سا اسٹالر پسند آیا تو وہ اس نے انٹی کے لیے خرید لیا۔ پھر ابا کے لیے ایک سفید کرتا بھی دل کو بھا گیا ۔ ادھر ادھر گھوم رہی تھی جب نظر ایک خوب صورت بلیک کلر کی مردانہ شرٹ پر پڑی۔ بے اختیار نظروں کے سامنے منیب کا سراپا گھوم گیا۔ اس پر یہ کتنی سوٹ کرے گی۔ جی میں آیا کہ وہ بھی خریدے۔ پھر اس نے با مشکل دل کو ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کروایا۔ بھلا وہ اس کو کس حیثیت سے تحفہ دے گی۔ عالیہ کی طرف آئی تو وہ بھی اپنی شاپنگ مکمل کر چکی تھی۔ذرا اس سب کا بل تو بنا دیں۔ ڈس کاؤنٹ کے ساتھ۔ دونوں نے سارا سامان کاؤنٹر پر ڈھیر کیا۔ اس کی آواز پر سیلز مین پلٹا تو انعم حق دق رہ گئی۔ سامنے منیب کھڑا تھا۔ آپ یہاں بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ جی میں یہاں پارٹ ٹائم جاب کرتا ہوں۔ وہ اعتماد سے بولا … وہ بے اختیار اس کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھے گئی۔ مس انعم ! آپ شاید سمجھی تھیں کہ یہ اتنا بڑا شاپنگ مال میرا ہے۔ وہ اس کے یوں دیکھنے پر کچھ شرارت سے بولا تھاوہ سٹ پٹائی گئی۔ جی نہیں نہیں آؤ عالیہ… وہ عالیہ کو گھسیٹتی ہوئی تیزی سے باہر نکل آئی۔ یار ! یہ تمہاری اسٹیپ مدر کا بھتیجا ہے نا … بڑا ہینڈ سم ہے عالیہ بولی تو وہ تڑپ اٹھی۔ یوں نا محرم مردوں کی تعریف کرنا گناہ ہے۔ ویسے بھی عورتوں کو نظریں جھکا کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مذہب میں عورتوں کو نہیں مردوں کو نظریں جھکا کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ میں تو بائی دا وے بات کر رہی تھی ۔ اس میں اتنا برا ماننے کی تو کوئی بات نہیں ہے۔ ورنہ میرا اپنا منگیتر خود اتنا شان دار ہے۔ میں کیوں کسی نامحرم کی تعریف کروں گی ۔ وہ بھی عالیہ تھی۔ غصہ ایک پل میں آتا تھااسے ۔ اب بھی اس کی نا معقول بات پر بھڑک اٹھی اور ناراض ہو کر آگے آگے چلنے گئی۔ انعم کو فورا اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ پلیز عالیہ ناراض نہ ہو۔ رک جاؤ۔ میں تو مذاق کر رہی ہوں ۔ وہ بھی تیزی سے اس کے ہم قدم ہوئی۔ وہ ذرا سار کی اور پھر معنی خیزی سے بولی۔ اس مذاق کا پس منظر میں کچھ کچھ سمجھ رہی ہوں۔ وہ بھاگ کر اس سے لپٹ گئی۔ عالیہ پلیز دونوں ایک سیکنڈ ایک دوسرے کی طرف دیکھتی رہیں اور پھر دونوں ایک ساتھ ہنس پڑیں۔ اور یونہی ہنستے مسکراتے ہاسٹل جانے کے لیے رکشہ دیکھنے لگیں۔

اگلی بار وہ سنڈے کو گئی۔ انٹی نے ابا کو نہلانا تھا۔ اس نے ان کی مدد کی۔ پھر تیل سے ابا کے سر میں مساج کرنے لگی۔ وہ غنودگی میں چلے گئے۔ انٹی نے پڑوسن کی عیادت کو جانا تھا۔ وہ چلی گئیں۔ وہ ابا کو چادر اوڑھا کر برآمدے میں آبیٹھی۔ موسم آج پھر ابر آلود تھا۔ کن من ہو رہی تھی۔ اسے بے اختیار ٹرین کا وہ سفر یاد آگیا۔ بھیگا بھیگا سا سفر اور ساتھ ہی کسی کا مہربان چہرا بھی۔ ذراسی آہٹ ہوئی، اس نے بند آنکھیں کھول کر دیکھا۔ منیب اپنی موٹر سائیکل اندر لا رہا تھا۔ اس کے دل کو عجیب سی خوشی ہوئی۔ من میں اک شور سا مچا۔ اس نے ڈپٹ کر دل کو خاموش کرایا۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھر تا ادھر ہی آ رہا تھا۔ ہاتھ میں ایک شاپر تھام رکھا تھا۔ اسے ایک دم سامنے بیٹھا دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ پھوپھو کہاں ہیں؟ میں ان کے لیے پکوڑے لایا ہوں۔ وہ پڑوس میں گئی ہیں ویسے آپ کی پھوپھو کے علاوہ بھی یہاں کوئی ہوتا ہے۔ وہ خفگی سے بولی۔ اچھا تو پھر یہ لیں شاپر .. اس نے لفافہ اس کی جانب بڑھایا۔ وہ کچن میں گئی۔ یہ دو علیحدہ علیحدہ شاپر میں پکوڑے کیوں ہیں؟ وہ ایک پلیٹ میں پکوڑے نکال رہی تھی۔ ایک میں میٹھے ہیں اور دوسرے میں نمکین .. واو آج تو مزا آگیا۔ اس نے کچھ پکوڑے ہاٹ پاٹ میں رکھے اور کچھ پلیٹ میں رکھ کر وہاں چلی آئی۔ پلیٹ سامنے میز پر رکھی اور جلدی سے ایک پکوڑا اٹھا کر منہ میں ڈالا ۔ یہ شاید مکین والا ہے۔ دھیان سے کھائیے گا۔ آج بھی ہری مرچ نہ نگل لیجیے گا۔ وہ مسکرا کر بولا تو وہ کھل کرہسنے لگی۔ ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں پانی آگیا۔ وہ دلچسپی سے اس کا منی سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو کتنی جذباتی تھی۔ آپ کو وہ سفر یاد ہے۔ وہ اپنے پلو سے اپنی آنکھیں پونچھ کر بولی۔ ہاں سب یاد ہے۔ وہ سادگی سے بولا۔ میری زندگی کا وہ یادگار سفر تھا منیب ! شکریہ آپ کا کہ آپ نے مجھے میرے ابا سے ملوایا۔ ورنہ میں تو اپنے اتنے اہم رشتے کو بھولے بیٹھی تھی ۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ میں ممنون ہوں آپ کی آپ نے مجھے ساری عمر کے خسارے سے بچالیا۔ اور میں بھی شکر گزار ہوں ۔ انعم !! میرے شکر گزار بھلا وہ کیسے ؟ میں نے آپ کے لیے کیا کیا ہے ؟ وہ حیرت سے پوچھنے لگی۔ اس دن یونیورسٹی آپ سے ملنے آیا تھا تو آپ بڑے خطرناک تیوروں سے میری طرف بڑھی تھیں۔ شاید پٹائی کا ارادہ تھا۔ پھر شاید آپ نے خود کو مشکل سے روکا تھا ۔ وہ مسکراہٹ دبا کر بولا ۔ ٹھیک سمجھے تھے آپ ۔ اماں نے مجھے کراٹے سکھائے تھے تاکہ میں بوقت ضرورت اپنا دفاع کر سکوں ۔ ایک دو بار اپنا پیچھا کرنے پر آوار ہ لڑکوں کی ٹھکائی بھی لگائی تھی میں نے وہ فخر یہ بتانے لگی ۔ ہائے اللہ ! پھپھو کہاں ہیں ؟ کب آئیں گی؟ وہ مصنوعی طور پر گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ ہنستے ہنتے دوہری ہوگئی۔ بارش اب تیز ہورہی تھی۔ پھوار برآمدے کے اندر آ کر دونوں کو بھگو رہی تھی۔ بے فکر رہیں ۔ آپ اس کیٹیگری میں نہیں آتے ۔ تو پھر بتا دیں کس کیٹگری میں آتا ہوں ۔ وہ بوجھل لیجے میں پوچھنے لگا۔ اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ آپ کو ساون رت پسند ہے؟ وہ اس کی گہری، کچھ کہتی نگاہوں سے گھبرا کر یونہی پوچھنے لگی۔ ہاں پہلے تو اتنی نہیں تھی۔ مگر اب بہت زیادہ ہے۔ مجھے بھی پہلے تو نہیں تھی مگر اب بہت زیادہ ہے۔ اس نے بھی اس کا جملہ دہرایا۔ کیوں ؟ دونوں کے منہ سے بیک وقت نکلا۔ دونوں ہی خاموش رہے۔ دونوں ہی جانتے تھے کہ یہ ساون رت انہیں اس لیے پسند ہے کہ وہ اسی ساون رت میں پہلی بار ملے تھے۔ ساون رت کے ہم سفر دونوں کے لبوں پر معنی خیز خاموشی تھی مگر ۔ دونوں کے دل دعا گو تھے کہ ساون رت کے وہ دو ہم سفر، زندگی کے ہم سفر بھی بن جائیں۔ دونوں کے چہروں پر خوب صورت تبسم سجا تھا اور آنکھوں میں آنے والے خوش کن وقت کے سپنے دمک رہے تھے۔ ساون کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں انہیں چھو کر گزر رہی تھیں اور ساتھ ہی ان کے ملن کی دعا بھی کر رہی تھیں۔ جب دو محبت بھرے دل سچے من سے ایک دوسرے کے طلب گار ہوتے ہیں تو آس پاس کی فضائیں بھی ان کے لیے دعاگو ہو جاتی ہیں ۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے