میرا بہنوئی مجھے للچائی نظروں سے دیکھتا تھا، لیکن میں اس سے دور بھاگتی تھی۔ اچانک ایک دن پتہ چلا کہ میری بہن فوت ہوگئی ہے، جس کا ہمیں بہت دکھ پہنچا، اس کے دوچھوٹے بچے ہم گھر لے آئے۔ ایک دن میرے بہنوئی نے چالاکی سے میرے ماں باپ کو شیشے میں اتار لیا، اور بچوں کا واسطہ دے کر میرا رشتہ مانگ لیا، یہ سب کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
👇👇
میری ایک ہی بڑی بہن تھیں۔ ان کا نام نسیم تھا، لیکن ہم انہیں نیما باجی کہا کرتے تھے۔ نیما باجی تعلیم یافتہ نہیں تھیں، جبکہ میں اسکول جاتی تھی۔ میں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی، مگر اس کے بعد والدین نے مجھے بھی گھر بٹھا لیا۔ نیما باجی ہمارے ایک قریبی کزن، انجم بھائی، سے محبت کرتی تھیں، اور انجم بھائی بھی ان سے شادی کے خواہش مند تھے۔ ان دنوں وہ ہمارے بھائی سے ملاقات کے بہانے ہمارے گھر آتے تھے۔ ہم سلام دعا کر کے ان کے سامنے سے ہٹ جاتے تھے، لیکن موقع ملتے ہی وہ نیما باجی کو محبت بھرے خط تھما دیتے تھے۔
نیما باجی ان پڑھ ہونے کی وجہ سے وہ خطوط مجھ سے پڑھواتی تھیں اور پھر جواب بھی مجھ سے ہی لکھواتی تھیں۔ جب انجم بھائی آتے، تو خط کے جواب کبھی کسی کتاب میں چھپا کر اور کبھی چائے کی ٹرے کے نیچے رکھ کر ان تک پہنچا دیے جاتے تھے۔ کافی جتن کے بعد انجم بھائی کو نیما باجی کا رشتہ ملا، اور ان دونوں کی محبت کی کشتی کنارے لگی۔ ان کی شادی کے بعد مجھے یوں لگا جیسے ایک دلچسپ کھیل جو گھر میں چھپ چھپ کر کھیلا جا رہا تھا، ختم ہوگیا اور میں بےکار ہو کر رہ گئی۔ نیما باجی نے مجھے اپنی محبت کی کہانی میں الجھا رکھا تھا۔ ان کے جانے کے بعد شدید تنہائی کا احساس ہونے لگا۔ دل چاہتا تھا کہ میں بھی کسی کو خط لکھوں اور محبت بھرے جواب چھپ چھپ کر پڑھوں۔
انہی دنوں ناصر کے گھر والے ہمارے پڑوس میں آکر آباد ہوئے۔ ناصر مجھے پہلی نظر میں ہی اچھا لگا، لیکن ہمارے گھر کا ماحول بہت سخت تھا۔ مشرقی روایات کی پابندی شدت سے کی جاتی تھی۔ میں ناصر سے بات کرنے کی ہمت نہ کر سکتی تھی، بس کھڑکی کے پردے کو ہٹا کر اسے دیکھ لیا کرتی تھی۔ ہماری اور ان کے گھر کی کھڑکیوں کے درمیان ایک پتلی سی گلی تھی، جو بعد میں ہماری محبتوں کی امین بن گئی۔ ناصر گلی میں آتا تو میں خط پھینک دیتی۔ ایک دن ناصر کی ماں نے مجھے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے دیکھ لیا اور میری ماں سے شکایت کی۔ ماں نے مجھے سخت ڈانٹا اور کہا کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو والد کو بتا دیں گی۔ میں رو دھو کر چپ ہو گئی۔
دو سال بعد ناصر نے تعلیم مکمل کر لی اور افسر بن گیا۔ اب میری ماں کا بھی دل چاہنے لگا کہ کسی طرح اس افسر کا رشتہ میرے لیے آئے، لیکن ناصر کی منگنی پہلے ہی ہو چکی تھی۔ جب اس کی شادی کا کارڈ آیا تو میری ماں نے اس شادی میں شرکت نہیں کی۔ ناصر کی دلہن گھر آگئی، اور اس روز میں دل ہی دل میں بہت روئی، کیونکہ ناصر میرے خوابوں کا شہزادہ تھا۔
ان ہی دنوں نیما باجی کا انتقال ہوگیا۔ وہ دوسرے بچے کی پیدائش کے وقت اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ انجم بھائی بے حد پریشان ہو گئے۔ گڈو، جو دو سال کا تھا، اور نومولود بچے کو انہوں نے ہمارے سپرد کر دیا۔ گڈو کو میں نے اپنی بانہوں میں لے لیا اور ننھے کو امی نے سنبھال لیا۔ دو سال بعد انجم بھائی نے امی سے دل کی بات کہی: میں آپ کے گھر سے دوبارہ وہی رشتہ جوڑنا چاہتا ہوں جو نیما کی وجہ سے تھا۔ بچوں کو صرف ان کی خالہ ہی ماں کا پیار دے سکتی ہے۔ براہ کرم ثمینہ کا رشتہ مجھے دے دیں۔ان کی درخواست پر امی اور ابو نے ہمدردی سے غور کیا۔ وہ بھی اپنے ننھے نواسوں کا مستقبل محفوظ دیکھنا چاہتے تھے اور انہیں سوتیلی ماں کے سلوک سے بچانا چاہتے تھے۔
بے شک، مجھے اپنے بھانجے بہت عزیز تھے، لیکن میں انجم بھائی کو ہمیشہ بھائی ہی کی جگہ سمجھتی تھی۔ باجی کی وجہ سے ان کے لیے جو احترام میرے دل میں تھا، وہ اب تک برقرار تھا۔ میں کسی صورت انجم بھائی سے شادی کے لیے خود کو آمادہ نہیں کر پا رہی تھی۔میں نے اس رشتے کی سخت مخالفت کی، لیکن امی جان نے میری ایک نہ سنی۔ انہوں نے ابو کو بھی قائل کر لیا اور میرے رشتے کے لیے اصرار کرنے لگیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کافی عرصے سے میرے لیے کوئی مناسب رشتہ نہیں آ رہا تھا۔ادھر اللہ کو نہ جانے کیا منظور تھا کہ ناصر کی بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی۔ بات اتنی بڑھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ سنا ہے کہ ناصر طلاق نہیں دینا چاہتا تھا، لیکن لڑکی والوں کے دباؤ اور قانونی کیس کے بعد طلاق ہو گئی۔
اس واقعے نے ناصر کو دل سے بہت دکھی کر دیا۔ وہ اپنی ماں سے کہنے لگا کہ یہ سب کچھ ان کی ضد کی وجہ سے ہوا ہے۔ ناصر نے اپنی ماں کو مجبور کیا کہ وہ میرے والدین سے میرا رشتہ مانگیں۔ اس نے کہا کہ پہلے آپ کی بات مانی، اب میری پسند کی لڑکی سے شادی کر کے دیکھ لیجیے۔ناصر کی ماں، بیٹے کے اصرار پر ہمارے گھر رشتہ مانگنے آئیں۔ ادھر میں مسلسل رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی کہ میں کسی بھی صورت بہنوئی سے شادی نہیں کروں گی۔ والدین میری حالت دیکھ کر تذبذب میں تھے، جبکہ انجم بھائی مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ ان کے بچوں کی خاطر میں ان سے شادی کر لوں۔آخر کار میری ماں بول پڑیں کہ ہم ضرور یہ رشتہ تمہیں دیتے، لیکن ثمینہ خود اس پر راضی نہیں ہے۔ وہ ناصر کو پسند کرتی ہے، اور اب ناصر کی والدہ بھی اس رشتے کے لیے اصرار کر رہی ہیں۔ ہم سے ایک بیٹی کو موت نے چھین لیا، دوسری کی خوشیوں کا خون کرنے کا حوصلہ اب ہم میں نہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے میرا رشتہ ناصر سے طے کر دیا۔
یہ سن کر انجم بھائی اپنی شکست پر بوکھلا گئے۔ پہلے تو وہ خاموش رہے، لیکن بعد میں جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میں اور ناصر ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے، تو انہوں نے ناصر کے ایک دوست سے ذکر کیا کہ شادی سے پہلے میں انہیں خط لکھا کرتی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ خطوط اب بھی ان کے پاس موجود ہیں اور انہیں لگا کہ یہ بات ناصر کو معلوم ہونے پر وہ شادی سے انکار کر دے گا۔ لیکن انجم بھائی کی یہ چال ناکام رہی۔ ناصر نے شادی سے انکار نہیں کیا۔ شادی کے بعد، ناصر نے مجھ سے پوچھا، کیا تم نے انجم کو خط لکھے تھے؟ میں نے سچائی سے جواب دیا، ہاں، لیکن وہ نیما باجی کی طرف سے تھے، کیونکہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھیں۔ ناصر نے میری بات پر یقین کر لیا اور مجھے کچھ نہ کہا۔ البتہ اس نے بتایا کہ انجم نے یہ کوشش بھی کی تھی کہ وہ خطوط مجھے دکھائے جائیں، لیکن میں نے ان تحریروں کو دیکھنے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ سن کر مجھے انجم بھائی کی ذہنیت پر بہت افسوس ہوا۔ ان کی جو عزت میرے دل میں اپنی مرحومہ بہن اور بھانجوں کی وجہ سے تھی، وہ ختم ہو گئی۔ افسوس کہ انجم بھائی نے دوسری شادی کی خواہش میں مقدس رشتوں کا بھی احترام نہ کیا۔
اسی وجہ سے آج تک نہ میں انجم بھائی کے سامنے جاتی ہوں، نہ ان سے ملتی ہوں۔ میرے والدین نے بھی اس کے بعد انجم کو پہلی جیسی تکریم نہ دی۔ البتہ بھانجوں کی وجہ سے ان سے ناتا ابھی تک برقرار ہے۔
1 تبصرے
2
جواب دیںحذف کریں