تنہا لڑکی

sublimegate urdu stories

میری ماں ایک صابر خاتوں تھی، شادی کی پہلی رات شوہر نے اپنی پہلی محبت کی داستان کھول کر میری ماں کے سامنے رکھ دی تھی۔ ماں کا دل ٹوٹ گیا، اور اس ٹوٹ دل کیساتھ شوہر سے کہا کہ وہ اپنی پہلے محبت سے جب جی چاہے شادی کر سکتے ہیں، میں ابھی تین ماہ کی تھی جب والد نے دوسری شادی کر لی، وہ رات کو  چوری اپنی بیوی کو ساتھ لاتے اور اپنی کمرے میں گھس جاتے۔ ہم ماں بیٹی دوسرے کمرے میں روتی رہتیں۔ ایک دن میری ساس کو شک ہوا جب میری ماں دوسر ے کمرے میں اور شوہر اپنی نئی بیوی کیساتھ کمرے میں تھا۔
👇👇
ڈاکٹر شہزاد بہت خوبرو اور ہر دلعزیز تھے۔ خاندان کی کئی لڑکیوں کے آئیڈیل تھے۔ رشتہ داروں میں ہر گھرانہ ان کو داماد بنانے کا آرزو تھا لیکن انہوں نے اماں سے کہہ دیا کہ وہ شادی کریں گے تو خاندان سے باہر اپنے رشتہ داروں میں نہ کریں گے۔ ماں بیٹے کی خواہش کا احترام کرنے پر مجبورتھی، کیونکہ شہزاد نے ایک کامیاب ڈاکٹر بننے کے لئے کافی محنت کی تھی۔ 
 
ماں نے کہا کہ اگرتم کوکوئی لڑکی پسند ہے تو بتا دوں۔ وہاں رشتہ کرا دیتی ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ لڑکی کا خاندان اچھا ہونا چاہیے۔ کسی ایسے ویسے گھرانے کی لڑکی کو بہو نہ بناؤں گی اور نہ گھر میں لاؤں گی ۔ یہ شرط شہزاد کے لئے کڑی تھی، کیونکہ اسے دوران ملازمت ایک ایسی لڑکی بھا گئی تھی جو اس کے ماتحت تھی اور نرس تھی۔ 
 
نرس ہونا کوئی بری بات نہیں لیکن شرط خاندان کے اچھا ہونے کی تھی ، نرس ہونے کی نہیں ۔ ثمینہ محض نرس ہوتی تو کوئی بات نہ تھی لیکن وہ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جس کی اقدار مشکوک تھیں۔ بے شک وہ خود پارسا نظر آتی تھی لیکن اس کی بہنیں اور خالائیں بے حد آزاد خیال تھیں۔ وہ نت نئے فیشن کرتیں بوائے فرینڈز کے ساتھ گھومنے پھرنے ، شاپنگ کرنے اور تحفے لینے کو معمول کی بات سمجھتی تھیں۔ ڈاکٹر کے بہت اصرار پر ماں ثمینہ کے گھر اس کے گھر والوں کی دیکھ پرکھ کو چلی گئیں، مگر وہاں جا کر ناک سکیڑ کر منہ بنا لیا۔ گھر کیا تھا ایک عجائب خانہ تھا۔ عورتوں میں سلیقے اور تمیز کا فقدان تھا۔ 
 
خود تو اجلے لباسوں میں مگر گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا رکھی تھی۔ اسے گھر نہیں گھروا کہنا چاہیے تھا۔ ثمینہ کی تین بہنیں اور دو خالائیں تھیں جو بھانجیوں کی تقریباً ہم عمرلگتی تھیں اور وہ ان لڑکیوں سے زیادہ شوخ اور الھڑ نظر آرہی تھیں کہ جن کو وہ اپنی بھانجیاں کہتی تھیں۔ انہیں فیشن کی سوجھ بوجھ تو خوب تھی مگر میزبانی کے آداب اور گھر داری کی بلکل سمجھ نہ تھی۔ ثمینہ کی ماں مر چکی تھی ۔ باپ بوڑھا اور بیمار تھا، بھائی کوئی نہ تھا۔ اس وجہ سے یہ لڑکیاں شتر بے مہار ہوگئی تھیں۔ ان سب میں صرف ثمینہ ہی کچھ ڈھنگ کی تھی مگر ایک کے درست نظر آنے سے کیا ہوتا ہے کہ جب لڑکی کا رشتہ لیا جاتا ہے پہلے اس کے گھر بار کا رنگ ڈھنگ، رکھ رکھاؤ اور طور طریقہ دیکھا جاتا ہے اور یہ ساری خوبیاں گھر کے مکینوں میں عنقا تھیں۔ تبھی شہزاد کی امی پندرہ منٹ ان کے گھر بیٹھ کر جانے کو اٹھ کھڑی ہوئیں۔

گھر آکر اپنے لاڈلے بیٹے کو خوب لتاڑا کہ تم نے کیا خوب لڑکی پسند کی ہے- ارے کم عقل صرف لڑکی تنہا تو سسرال نہیں آتی ہمراہ اپنے کنبے کی عادات واطوار بھی لاتی ہے۔ رنگ ڈھنگ جو اس کے گھر والوں کے ہوتے ہیں اس کے لہو میں بچپن سے رچے بسے ہوتے ہیں۔ ثمینہ بھی اکیلی نہ آئے گی وہ اپنا خاندانی پس منظر ساتھ لائے گی۔ یاد رکھو شادی ایسی عورت سے کرنا جس میں سلیقہ ہو۔ جس کے کنبے کے اطوار اچھے ہوں، خاص طور پر عورتوں کے، کیونکہ ہماری نسل نے اس کی گود میں پرورش پانی ہے۔ 
 
شہزاد کا دل جو ثمینہ کے حسن میں اٹکا تھا بجھ گیا۔ ماں کی تقریر کا اس نے تھوڑا سا اثر ضرور لیا کہ جو کچھ عشق کی کور بینی کے سبب اس کی نظروں سے اوجھل تھا ماں نے باریک بینی سے دیکھ کر اسے سمجھا دیا تھا۔ اب اگرآنکھوں دیکھی مکھی نگلنا چاہے تو کوئی کیا کرے۔ 
 
خدا کی قدرت کہ انہی دنوں میری والدہ کو کسی تقریب میں شہزاد اور اس کے گھر والوں نے دیکھا۔ وہ پہلی ہی نظر میں ان لوگوں کو بھا گئیں ۔ شہزاد کی اماں نے تو ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیا کہ میں نے لڑ کی شہزاد کے لئے پسند کر لی ہے اور اب میں اس کی شادی فرزانہ سے کر رہی ہوں ۔ اگر شہزاد نہ مانا تو قسم کھائی کہ زہر پھانک کر مر جاؤں گی ۔ کیونکہ ایسی لڑکی پھر چراغ لے کر ڈھونڈے سے نہ ملے گی۔ شہزاد کے لئے یہ بڑا امتحان تھا۔ ماں باپ بہنوں سبھی نے مجبور کر دیا کہ شادی فرزانہ سے کرو گے ورنہ ہم سب سے تمہارا رشتہ نا تا ختم ۔ بالآخر انہوں نے مارے باندھے والدین کی خوشی کی خاطر فرزانہ ( میری امی ) سے شادی تو کر لی مگر ثمینہ کی محبت دل سے نہ گئی۔ شادی کی پہلی رات میں دلہن سے ثمینہ اور اپنی محبت کا قصہ لے کر بیٹھ گئے ۔ بیچاری دلہن کے دل پر سانپ لوٹ گیا مگر صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ نہ بولی۔

بولی بھی تو اتناغم کیوں کرتے ہیں۔ جب جی چاہے اپنی محبوبہ سے دوسرا بیاہ کر لینا۔ اپنی خوشی پوری کر لینا مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ انسان کو زندگی ایک بار ملتی ہے۔ دلی خوشیاں مل رہی ہوں تو ان کو ٹھکرانا نہ چاہیے ورنہ زندگی گھٹن میں گزرتی ہے اور گلشن میں گزرتی زندگی کو زندگی نہیں کہتے ۔ فرزانہ نے اگلے روز بھی اپنے پریشان شوہر کو ان الفاظ میں تسلی دی۔ دولہا میاں کی باچھیں کھل گئی کہ دوسری شادی کا اذن پہلی رات ہی مل گیا تھا۔ 
 
والدین کی خوشی تو پوری کر دی تھی ۔ اب اپنی خوشی پوری کرنا باقی تھا۔ یہ اس نرس کے پیچھے پھرنے لگے۔ اپنی خوشیوں کے نشے میں یہ بھی بھول گئے کہ اس بیچاری عورت کے بھی کچھ جذبات ہوں گے جس کو بیوی بنا کر لائے تھے۔ جلد ہی شہزاد صاحب نے من مانی کرنی شروع کردی۔ بیوی کو ہرگام نظر انداز کر کے محبوبہ کے چکروں میں پڑ گئے۔ میری ماں صابر عورت تھیں، بہت برداشت کیا مگر وہ باز نہ آئے اور نہ ہی میری والدہ کی کسی قربانی کا احساس کیا۔ وہ مشکور بھی نہ ہوتے بلکہ زیادتیوں پر اتر آتے۔ اسی دور میں جب امی جان دکھی اور تنہا ہوگئی تھیں۔ 
 
اللہ نے ان کے دل بہلانے کا انتظام کر دیا اور میں پیدا ہوگئی۔ فرزانہ بی بی نے مجھ ننھی جان سے دل لگا لیا اور تن من دھن سے میری پرورش کرنے لگیں۔ ڈاکٹر صاحب کو اور کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ وہ رات کو ثمینہ کو اپنے بیڈ روم میں لانے لگے ۔ گھر والوں سے چوری چھے بیوی سے کہتے تم ذرا دوسرے کمرے میں چلی جاؤ میری مہمان خاص آ رہی ہے۔ میں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ 
 
تم ہی نے تو کہا تھا کہ زندگی انسان کو ایک بار ملتی ہے اور اپنی خوشیوں کو یوں ہی گنوادینا بے وقوفی ہے۔ لیکن میرے گھر والوں کو پتہ نہ چلے، میرے راز کا پردہ رکھنا- کیوں کہ اچھی بیوی ہی سچا ساتھی ، مہربان دوست اور ہمراز ہوتی ہے۔ میری ماں نے لب سی لئے شوہر کی خوشنودی کے لئے جیسا وہ کہتے ویسا کرتیں لیکن میں تو ناسمجھ بچی تھی- جب دوسرے کمرے میں ماں ساتھ لے جا کر لٹاتیں ، جھولے کے بغیر نہ سوتی، سوئی ہوئی اٹھ جاتی اور رونے لگتی۔ تب ایک دن میری دادی اپنے کمرے سے نکل کر یہ معلوم کرنے چلی آئیں کہ میں رات کو روتی کیوں ہوں۔

یہ دیکھ کر ان کو بڑی حیرت ہوئی کہ امی میرے ہمراہ دوسرے کمرے میں تھیں اور ابو دوسرے کمرے میں وہ پوچھنے لگیں کہ بہو تم اس کمرے میں کیوں ہو۔ ادھر تو کھڑکی میں جالی بھی نہیں ہے ، مچھر آجاتے ہیں تبھی بچی روتی ہے۔ اپنے بیڈ روم میں اسے لے جاؤ ۔ یہ رات کو اٹھ جاتی ہے، روتی ہے تو شہزاد کو نیند نہیں آتی ، ان کی بھی آنکھ کھل جاتی ہے امی نے جواز دیا۔ اسے چاہیے کہ وہ اس کمرے میں آکر سو جایا کرے۔ پنکھا فل کر کے سو سکتا ہے مگر بچی تو تیز ہوا میں نہیں سو سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوسری جگہ نیند نہیں آتی ۔ واہ یہ کیا بات ہوئی ننھی بچی مچھروں کے کاٹنے سے بیمار پڑ جائے گی ۔ 
 
یہ کہ کر وہ بیڈ روم میں جانے لگیں تو دروازہ اندر سے بند ملا۔ یہ در بجانے لگیں کہ اٹھو ہزار بچی کو تکلیف نہ دو تم ہی ادھر سو جاؤ، اس کو جھولے میں سونے دو۔ وہ کیسے دروازہ کھولتے سوتے بن گئے۔ مگر اماں بھی بہت زیرک تھیں۔ انہیں شک ہو گیا تھا ، رات بھر جاگتی رہیں ، صبح چار بجے سے چند منٹ قبل بیٹے نے گاڑی نکالی اور ثمینہ کو گاڑی میں بٹھا کر گھر سے نکلے تبھی بڑی اماں اپنے کمرے کی بالکونی سے دیکھ رہی تھیں۔ بس پھر کیا تھا۔ انہوں نے خوب ہنگامہ کیا۔ شہزاد یہ سمجھے کہ بیوی نے اماں سے چغلی کی ہے تبھی انہوں نے تاک لگائی اور بالکونی میں سے جھانکا ہے۔ وہ تو صبح سویرے اسپتال ڈیوٹی پر جایا ہی کرتے تھے اور یہ روز کا معمول تھا۔ 
 
آج اماں کو ایسی تاک جھانک کی کیا ضرورت آپڑی تھی۔ پس انہوں نے میری ماں پر الزام لگادیا اور ان سے خوب جھگڑا کیا کہ تم نے کچھ خبرکی ہے، یوں بات بڑھ گئی ، امی روٹھ کر میکے آگئیں اور ابو کی قسمت سے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ۔ انہوں نے میری ماں کو منا کر گھر لے آنے کی بجائے طلاق دے دی۔ کیونکہ وہ ثمینہ سے واقعی شادی کر چکے تھے اور اپنے دل کی خوشی پوری کرنے کے درپے تھے۔ میری ماں نے ان سے دل کی خوشی پوری کرنے کو ضرور کہا تھا مگر یہ ہرگز نہ کہا تھا کہ مجھے طلاق دے دو۔

طلاق ابو نے میری ماں کو ثمینہ کی خوشی کے لئے دی تھی۔ اور یہ انہوں نے بڑا ظلم ڈھایا تھا۔ میں اتنی چھوٹی تھی اس وقت کے ماں کے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ لہذا مجھے بھی انہوں نے ہمیشہ کے لئے میری ماں کو سونپ دیا۔ ثمینہ کے بارے میں دادی نے صحیح اندازہ لگایا تھا۔ سچ ہے جو بزرگ دیکھ سکتے ہیں کم عمر اور ناتجربہ کار نوجوان ان چیزوں کا ادراک نہیں کر سکتے۔ ثمینہ نے آتے ہی ایسے لچھن دکھائے کہ سب گھر والوں کو بیمار ڈال دیا۔ 
 
ہر ذہن کا سکون لٹ گیا۔ تنگ آکر دادا صاحب نے ڈاکٹر بیٹے کو گھر سے باہر کر دیا کہ تم ہمارے نہیں رہے تو ہم بھی تمہارے نہیں ہیں۔ خود کمارہے ہو لہذا خود کھاؤ اور ہم سے دور رہو۔ اس سارے قصے میں اپنی ماں کے بعد سب سے مظلوم میں تھی۔ اس امر کا سبھی کو اندازہ تھا، لہذ ننھیالی مجھ سے پیار کرتے تھے۔ میرے پاس سب کچھ تھا والد کا پیار نہ تھا۔ امی جان کو اندازہ تھا کہ مانو جب بڑی ہو گی ضرور پوچھے گی کہ سب بچوں کے ابو ہوتے ہیں مگر میرے ابو کیوں مجھ سے دور ہیں؟ وہ کون ہیں؟ اور کہاں ہوتے ہیں۔ میرے لئے تو میری ماں ہی سب کچھ تھی ۔ 
 
امی نے بھی مجھ کو ہی حاصل زندگی سمجھ لیا۔ لیکن نانا نانی کو علم تھا کہ نوجوان عورت کے لئے اس دنیا میں اکیلے رہنا اس معاشرے میں آسان نہیں ہے۔ انہوں نے امی کی دوسری شادی کا فیصلہ کر لیا، حالانکہ امی یہ نہ چاہتی تھیں۔ مگر بوڑھے والدین نے واسطے دے کر ان کو مجبور کر دیا۔ ان دنوں میں چار برس کی تھی جب امی کی دوسری شادی ہوئی۔ گھر میں فنکشن تھا اور میں بہت خوش تھی۔ نا سمجھ تھی ، انداز نہ تھا کہ یہ فنکشن نہیں، بلکہ ماں کی دوسری شادی ہورہی ہے۔ اور وہ مجھ سے کوسوں دور جا رہی ہے۔

میں جب فنکشن کے بعد ماں کے کمرے میں آئی، دیکھا کہ ماں نہیں ہے۔ نانا نانی سے پوچھا کہ ماما کہاں ہیں؟ کیونکہ سارا وقت نانی نے ہی سنبھالا تھا مجھے۔ انہوں نے سمجھایا کہ وہ کہیں گئی ہیں اور آج رات نانی اماں کے ساتھ سونا ہے۔ میں بہت روئی کیونکہ ماں کے بغیر سونے کے لئے یہ میری پہلی رات تھی۔ ماں کے خاندان کے سارے لوگوں کو مجھ سے ہمدردی تھی۔ ماں کے یہ قریبی رشتہ دار اپنے بچوں کے لئے اتنا کچھ نہیں کرتے تھے جتنا کہ میرے لئے کرتے تھے۔ 
 
خاص طور پر ماموں۔ اس رات میرے ماموں سے تو میری حالت دیکھی نہ گئی، وہ رات کو کافی دیر تک میرے پاس رہ کر مجھے بہلاتے رہے یہاں تک کہ میں ان کے بازو پر سر رکھ کر سوگئی۔ اب یہ ہوتا کہ رات ہوتے ہی ماں کو یاد کر کے رونے لگتی۔ تب ماموں آکر میرے ساتھ لیٹ جاتے ، اپنے بازو کا تکیہ بنا کر لوری سناتے اور میں سو جاتی۔ روز کے اس معمول سے ممانی تنگ آگئی ، ان کو غصہ آنے لگا، ماموں کا گھر پاس ہی تھا، اس مسئلے کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ مجھے گھر لے آئے ۔ تاکہ ان کے بچوں کے ساتھ کھیلوں اور رات کو بھی وہ مجھے روز سلا دیا کریں۔ 
 
ممانی سے یہ بھی دو دن برداشت نہ ہوا۔ وہ جھگڑنے لگیں کہ میں اپنے بچوں کے علاوہ کسی اور کی ذمہ داری کیوں لوں ؟ پھر مانو کی ماں نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لے کر ہم پر کون سا احسان کیا ہے جو ہم اس کی بیٹی کو پالیں۔ امی کو تو میں بہت یاد آتی تھی۔ انہوں نے ایک روز فون پر ممانی سے التجا کی کہ اماں کے گھر مانو اکیلی ہو جاتی ہے تو گھبراتی ہے۔ آپ کے بچوں میں کھیلنے سے بہل جاتی ہے اس پر رحم کرو اور اپنے گھر رکھو۔ اس کا خیال بھی کرو۔ میں تو مجبور ہوں دور ہوں ۔ آبھی نہیں آ سکتی۔ ممانی کسی طرح مان تو گئیں مگر جب میں ذرا سیانی ہوگئی تو ان کو پھر سے کھلنے لگی۔ کہتی تھیں کہ یہ میرے بچوں سے مقابلے لگاتی ہے اور لڑتی بھی ہے۔ بہتر ہے کہ اسے بچوں کے ہوسٹل میں بھیج دو۔ 
 
ماموں اڑ گئے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ یہ ماں باپ کے بغیر رہ گئی ہے۔ اسے پیار کی ضرورت ہے۔ میں اسے قطعی ہوسٹل میں نہ ڈالوں گا۔ جب بات بڑھنے لگی تو ماموں نے اپنا تبادلہ دوسرے شہر کرا لیا اور بیوی سے بہانہ کیا کہ وہاں مجھے مکان نہیں مل رہا۔ لہذا تم ادھر ہی رہو۔ یہاں بچے بھی پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں مکان لیا اور نانی نانا کو بلوا لیا۔ یوں میں ان کے اور ماموں کے ساتھ رہنے لگی ۔ کچھ عرصہ تک تو ممانی کو پتہ نہ چلا، ایک روز کسی طرح ان کو معلوم ہو گیا ۔ جب انہوں نے شوہر سے سنگین جھگڑا کیا اور یہ کہ کر گھر سے چلی گئیں کہ آپ نے جیون ساتھی پانے کے لئے شادی کی تھی یا اپنی بھانجی پلوانے کے لئے۔

ماموں نے ان کو بھی بچوں سمیت اپنے پاس اسلام آباد بلوالیا۔ لیکن اب میں ممانی کو خار کی طرح کھٹکنے لگی۔ انہوں نے مجھے بڑی ذہنی اذیت پہنچائی اور خوب بدلے لیے۔ ماموں کے دفتر جانے کے بعد بہت برا رویہ رکھتیں۔ نانا نانی واپس لاہور چلے گئے تھے اور اب میں سارا دن کلی طور پر ان کے رحم وکرم پر ہوتی تھی۔ ممانی نے اس قدر ذہنی ٹارچر کیا کہ میں ذہنی مریض ہوگئی۔ 
 
بیٹھے بیٹھے ڈر جاتی، چیخ مار کر رونے لگتی اور جھرجھریاں لیتی ۔ جوں جوں دن گزرتے جاتے تھے میری حالت خراب ہوتی جاتی تھی۔ نانی بوڑھی تھیں وہ مجھے سنبھال نہ سکتی تھیں۔ امی دبئی میں تھیں ، وہ بھی نہیں آسکتی تھیں۔ ایک روز ماموں اور نانا ڈاکٹر کے پاس لے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس بچی کو بہت پیار اور توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ ہراساں اور خوفزدہ ہے۔ اگر ابھی توجہ نہ دی تو بعید نہیں کہ ذہنی توازن کھو دے۔ ماموں لاہور جا کر نانی کو لے آئے اور پھر سب لوگ مجھ پر توجہ دینے لگے۔ خدا کی قدرت کہ ماموں کو کمپنی والوں نے دبئی بھیج دیا۔ 
 
وہ مجھے بھی ساتھ لے گئے تا کہ وقتا فوقتا اپنی ماں سے ملتی رہوں گی۔ امی کی شادی کو پانچ برس بیت گئے تھے۔ ان کی یاد اور محبت تو دل میں موجود تھی لیکن ملنا نہ چاہتی تھی۔ جب ملتی دل کے گھاؤ ہرے ہو جاتے۔ سوچتی کہ انہوں نے تو پھر بچھڑنا ہے۔ یہ چند گھٹڑیوں کا عارضی ملاپ ہے۔ پھر وہی بچھڑنے کا دکھ اور وہی تنہائی۔ میں ماں کو دیکھ کر چھینپ جاتی اوپری اوپری سی وہ مجھے لگتیں۔ پیار کرتیں تو اور دور ہٹتی گلے سے لگاتیں تو دم الجھتا۔ اپنا دکھ سکھ ماموں اور نانی سے تو کہتی تھی لیکن امی سے نہ کہتی۔ جیسے کہ ان سے میرا رشتہ ٹوٹ گیا تھا۔ 
 
ماں نے بھی محسوس کیا کہ جب وہ ملنے آتی ہیں، میں ادھر ادھر چھپنے لگتی ہوں اور میرے چہرے پر خوشی کی بجائے محرومیوں کے سائے گہرے ہو جاتے ہیں۔ تب وہ بولیں۔ اس کو روز بچھڑنے کا دکھ دینے سے بس ایک بار کی جدائی ٹھیک ہے۔ میری بچی مجھ سے مل کر خوش نہیں ہوتی ، شاید کہ وہ اندر سے ناراض ہے اور اوپر سے مجبور ہو کر ملتی ہے تبھی اس کی آنکھوں میں شکایت کی بجائے اجنبیت در آتی ہے۔ بہتر ہے کہ اس کو بار بار ڈسٹرب نہ کریں۔ جب یہ کچھ اور سمجھ دار ہو جائے گی اور میری مجبوریاں جان لے گی پھر ملے گی تو ایسی اذیت ناک کیفیت سے اسے نہیں گزرنا پڑے گا، بلکہ یہ ماں سے مل کر سکون محسوس کرے گی۔

ماموں تو دبئی سال بھر کے لئے آئے تھے جب معاہدے اور ویزے کی میعاد ختم ہوگئی واپس وطن آگئے اور میں بھی ان کے ہمراہ آگئی۔ ممانی کو یہ دکھ تھا کہ ماموں مجھے ساتھ کیوں لے گئے تھے۔ وہ مجھ کو پرسکون دیکھ کر نجانے کیوں بے سکون ہو جاتی تھیں۔ بات بات پر شوہر کو میرے اور امی کے بارے میں طعنے دیا کرتیں۔ کہتیں جب یہ نہیں ہوتی ہمارا گھر کتنا خوشیوں بھرا ہوتا ہے۔ 
یہ آجاتی ہے تو گھر قبرستان جیسا ہو جاتا ہے۔ میرے بچوں کو تو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا باپ بھانجی کے چونچلے اٹھاتے نہیں تھکتا ۔ مجھے خوب پتہ تھا کہ ممانی مجھ سے حسد اور نفرت کرتی ہیں اور وہی بیج انہوں نے میرے معصوم کزنوں کے دل میں بود دیا تھا کہ مانو قابل نفرت ہے اور تم اس سے دور رہو۔ نانی نانا مجبور تھے۔ وہ بوڑھے تھے اور سمجھتے تھے اگر انہوں نے نواسی کی طرفداری کی تو یہ عورت حسد میں آکر اور زیادہ ستم ڈھائے گی۔ وہ بچارے بھیگی آنکھوں سے دیکھتے اور چپ سادھ لیتے۔ ہر آئی گئی عورت سے کہتی کہ مانو تو پاگل ہے۔ اپنی ماں کی دوسری شادی کے دن کیسے ناچ رہی تھی۔ میں خوبصورت تھی ننھیال کے خاندان والے مجھ سے ہمدردی رکھتے تھے۔ 
 
میرے لیے رشتوں کی کمی نہ تھی۔ لیکن ممانی ہر کسی سے کہتیں یہ یہ ذہنی مریض ہے دیکھوڈا کٹر نے دوائیاں دی ہیں مگر باقاعدگی سے کھاتی نہیں ہے تو پھر کیسے ٹھیک ہو گی ۔ اسے دورے ہی پڑیں گے۔ ان کی باتوں پر ہر کوئی کان دھرنے لگا اور پھر سب لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے۔ اب تو کوئی میرا رشتہ لینے کو بھی تیار نہ تھا۔ ہر کس کو فکر تھی کہ کہیں مانو اپنی ماں کی کہانی کو نہ دھرائے ۔ جبکہ ماموں میرے لئے اعلیٰ رشتے ڈھونڈتے رہتے تھے۔ جس پر ممانی بولتیں کہ پرائی اولاد کے لئے اتناسب کچھ اور اپنی بچیوں کا کوئی خیال نہیں۔ اسی دوران ماموں کی کوششوں سے میرے لئے ایک خوشحال بزنس مین کا رشتہ آگیا۔ جب میں نے لڑکا دیکھا، میرے من کو اچھا لگا۔ خوش تھی کہ اتنا اچھا رشتہ آیا ہے اور اب میں ممانی کے عذاب سے نجات حاصل کرلوں گی۔

لڑکے نے بھی مجھے دیکھا ہاں کہہ دی۔ اب ماموں چاہتے تھے کہ میرے ذہنی مریض ہونے کی بات شاہد کوکوئی نہ کہہ دے۔ مبادا وہ بدگمانی کا شکار ہو جائے۔ ممانی شاہد کو دیکھ کر حسد سے مری جاتی تھیں کیونکہ وہ خوبصورت ، تعلیم یافتہ ، دولت مند ، خوش اخلاق تھا۔ اس میں کچھ کمی نہ تھی۔ وہ چاہتی تھیں کسی طرح شاہد سے ان کی لڑکی کی شادی ہو جائے جو مجھ سے دو سال بڑی تھی۔ ماموں کا بیوی نے جینا حرام کر دیا کہ جتنا اچھا لڑ کا مانو کے لئے ڈھونڈا ہے، بیٹی کے لئے بھی ڈھونڈو۔ اس باپ پر روز روز لڑائی ہوتی ۔ 
 
بالآخر ممانی سے رہا نہ گیا۔ شاہد کی والدہ کے کانوں میں یہ بات ڈال دی کہ لڑکی ذہنی مریضہ ہے اور ہم نے باقاعدہ ایک ذہنی امراض کے ماہر سے اس بچی کا کچھ عرصہ تک علاج بھی کرایا ہے۔ آخرکا ر وہ اس عورت کو شک وشبہ میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ شاہد کی والدہ نے اپنے طور پر معلومات اکٹھی کیں۔ محلے والوں نے بتا دیا کہ مانو کی ماں کو اس کے خاوند نے اس وقت طلاق دے دی تھی جب مانو ابھی صرف آٹھ ماہ کی تھی۔ پھر اس کی والدین نے دوسری شادی کرادی اور بچی کو نھیال والوں نے پالا ہے۔ طلاق کی وجہ اس نے ممانی سے دریافت کی۔ یہ موقع وہ کیوں ہاتھ سے گنواتیں ۔ من گھڑت کہانی سنادی کہ فرزانہ سے جوانی میں ایسی لغزش ہو گئی کہ عزت پر بن گئی، جلدی میں شہزاد سے شادی کرادی مگر وہ تو ڈاکٹر تھا اسے پتہ چل گیا کہ وہ شادی سے قبل امید سے ہے۔ لڑکی پیدا ہو گئی۔ 
اس نے مانو کو اپنی اولاد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور جھگڑا بڑھا، بالآخر بات طلاق پر ختم ہوگئی۔ ممانی نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ کہانی کو مزید رنگ دیا کہ فرزانہ نے بالآخر دوسری شادی اس آدمی سے رچالی کہ جس کے ساتھ شادی سے قبل تعلق بنایا تھا۔ اب اس کے ساتھ دبئی چلی گئی ہے لیکن بچی کو ہمارے سرمنڈ گئی جب کہ یہ لڑ کی سر پھری بلکہ پیدائشی پاگل ہے۔ ایسی خوفناک باتیں سن کر شاہد کی ماں نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ تب ممانی نے کہا رنجیدہ کیوں ہوتی ہیں۔ میں آپ کو نراش اور خالی دامن نہ جانے دوں گی۔ میری حرا کے بارے میں سوچئے۔ یہ بھی تو لاکھوں میں ایک ہے۔ شاہد کی والدہ کا ذہن ممانی نے اپنی بیٹی کی جانب موڑ لیا اور یوں اس نے مجھے رد کر کے حرا باجی سے بیٹے کی شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔

ممانی نے ماموں کو قائل کیا کہ بھئی تمہاری بھانجی کے لئے کوئی دوسرا رشتہ آ جائے گا۔ اس اچھے رشتہ کو بھی ہاتھ سے گنوانا بے وقوفی ہے۔ جب وہ حرا کا ہاتھ مانگ رہے ہیں تو بیٹی کا رشتہ دینے میں کیا مضائقہ ہے۔ یوں بھی وہ مانو سے دو برس بڑی ہے اسے بیاہ دو اس کے بعد مانو کی باری ہے۔ حرا باجی کی شادی ہو گئی ۔ وہ بیاہ کر ایک اچھے گھر میں چلی گئی، جنہوں نے حرا کا بہت خیال رکھا۔ شاہد نے بھی ماں کی پسند کو مقدم جانا اور حرا سے شادی کر لی۔
 
 لیکن میرا جی اس وجہ سے مزید پریشان تھا کہ میں تو سوچ رہی تھی کہ کسی طور اس جہنم سے چھٹکارا پالوں گی جہاں ممانی جیسی زہر بھری عورت نے جینا حرام کر دیا تھا۔ ماموں نے میری خاموشی اور پریشانی کو محسوس کیا تو کالج میں داخلہ کرا دیا۔ اب کی ممانی خاموش رہیں کیونکہ ان کے من کی مراد تو پوری ہو چکی تھی۔ میرے کالج جانے پر کوئی اُڑچن نہ ڈالی ۔ حالانکہ میٹرک کے بعد مجھے انہی نے ہی کالج جانے نہ دیا تھا۔ کالج میں ایک لڑکا جو فورتھ ایئر کا طالب علم تھا اس نے مجھے پسند کیا اور کسی طور میرے گھر کا پتہ معلوم کر کے اپنی والدہ کو رشتے کے لئے بھیجا۔ ماموں نے ان لوگوں کی جانچ کی ، پتہ چلا کہ یہ بہت اچھے اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں ۔ دولت مند تو تھے ہی مگر بالکل بھی مغرور نہ تھے۔ 
 
سہیل ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ فورتھ ایئر کا ایک ماہ باقی تھا جو کہ پلک جھپکتے گزر گیا اور پھر ماموں نے سہیل کا رشتہ منظور کرتے ہوئے میری شادی اس سے کر دی۔ یوں کہنا چاہیے کہ جہاں قسمت لکھی تھی رشتہ ہو گیا اور پہلے رشتے سے بھی بہتر ہوا۔ سہیل مجھے بہت چاہتے تھے۔ میرا ہر طرح خیال رکھا۔ اس بار ممانی نے مخالفت نہ کی شاید کہ وہ بھی مجھ سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں۔ حرا کے بعد ان کے تین بیٹے تھے اور آخری لڑکی تھی جس کا نام صبا تھا۔ 
وہ ابھی آٹھویں میں پڑھتی تھی لہذا اس کی شادی میں دیر تھی تبھی ممانی نے مخالفت نہ کی اور نہ ہی میری شادی میں کوئی رکاوٹ ڈالی۔ شادی کے بعد میں نے اپنی زندگی کے سب حالات من وعن سہیل کو بتا دیئے اور ان سے کچھ نہ چھپایا۔ وہ جان گئے کہ میں نے بچپن سے اب تک بہت ظلم برداشت کیسے ہیں۔ سہیل نے جہیز لئے بغیر مجھ سے شادی کی تھی اور ممانی کے علاوہ سب کی دعائیں میرے ساتھ تھیں ۔ سو مجھے زندگی کی اتنی خوشیاں ملیں کہ میں نے ممانی کو معاف کر دیا۔ بلکہ یہ کہتی تھی کہ آپ کا شکریہ مجھے اپنے گھر میں رکھا ورنہ میں کہاں جاتی۔ شادی کے بعد دو بار میرے خاوند مجھے امی سے ملوانے لے گئے ۔ وہ تو کہتے تھے کہ اپنے ابو سے بھی ملو، مگر میرے دل نے کہا کہ جس نے کبھی پلٹ کر میری خبر نہ لی ایسے شخص سے مجھے مل کر کیا کرنا تھا۔ 
 
پرانے گھاؤ تازہ ہو جاتے۔ آج میں اپنے خاوند کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں اور یہ میری امی کی دعاؤں کا ثمر ہے۔ وہ بے شک مجھ سے دور رہیں مگر دعائیں تو دیا کرتی تھیں۔

👇👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے