پرکھوں کی دولت ہمارے گھر کی زینت رہی۔ میرے دادا کے تہہ خانے سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنے تھے۔ ہمارے پائے کے لوگ بہت کم تھے۔ میں اسی خاندان کی اکلوتی چشم و چراغ تھی۔ میرے والد نے دو شادیاں کیں، مگر اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ کافی عرصے کے بعد، جب والد صاحب بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئے، دونوں بیویوں نے مشورہ کیا کہ اس گھر میں جائیداد کا وارث ہونا چاہیے۔
دونوں نے اتفاق رائے سے ایک غریب خاندان کی لڑکی سے میرے والد کی تیسری شادی کرائی۔ میں اسی غریب خاتون کی کوکھ سے پیدا ہوئی۔ میرے بعد والدین کو کوئی اور اولاد نہ ہو سکی، لہٰذا میری پیدائش خوشی کا باعث بنی۔ میری پرورش تینوں ماؤں نے بے حد محبت سے کی۔ میں سب کی آنکھوں کا تارا تھی۔ میرے حسن کو دیکھ کر لوگ شہزادیوں کا غرور اور حوروں کی مثال دیتے۔ گھر میں کسی کی مجال نہ تھی کہ میرے حکم سے انحراف کرے۔
جب میں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو والدین کو میری شادی کی فکر لاحق ہوئی۔ والد صاحب جانتے تھے کہ اگر دولت مند باپ دنیا سے چلا جائے تو رشتہ دار جوان بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ خاندان میں میرے قابل کوئی لڑکا نہ تھا۔ غیروں میں شادی کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ آخرکار، والد صاحب نے اپنے چچا زاد بھائی کے بیٹے، امجد خان سے میرا رشتہ طے کر دیا۔ میرے والد مطمئن تھے کہ رشتہ اپنے خاندان میں ہوا اور دولت گھر میں ہی رہے گی، لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ رشتہ ایسا ہونا چاہیے جو بیٹی کے ساتھ دولت کو بھی سنبھال سکے۔ میں نے گھر کے اتالیق سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، اور غیر معمولی ذہانت رکھتی تھی، لیکن اپنی شادی کے بارے میں نہ کچھ بول سکتی تھی اور نہ ہی بغاوت کر سکتی تھی۔ دلہن بنی، مگر دل افسردہ تھا۔
جب میں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو والدین کو میری شادی کی فکر لاحق ہوئی۔ والد صاحب جانتے تھے کہ اگر دولت مند باپ دنیا سے چلا جائے تو رشتہ دار جوان بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ خاندان میں میرے قابل کوئی لڑکا نہ تھا۔ غیروں میں شادی کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ آخرکار، والد صاحب نے اپنے چچا زاد بھائی کے بیٹے، امجد خان سے میرا رشتہ طے کر دیا۔ میرے والد مطمئن تھے کہ رشتہ اپنے خاندان میں ہوا اور دولت گھر میں ہی رہے گی، لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ رشتہ ایسا ہونا چاہیے جو بیٹی کے ساتھ دولت کو بھی سنبھال سکے۔ میں نے گھر کے اتالیق سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، اور غیر معمولی ذہانت رکھتی تھی، لیکن اپنی شادی کے بارے میں نہ کچھ بول سکتی تھی اور نہ ہی بغاوت کر سکتی تھی۔ دلہن بنی، مگر دل افسردہ تھا۔
میں سوچ رہی تھی، یا اللہ! یہ کیسا ظلم ہو رہا ہے؟ میرے والد مجھے سسرال بھیجنے کی بجائے میرے شوہر کو گھر داماد بنا کر لے آئے۔ شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ جہیز کے چرچے ہر طرف تھے۔ میری زندگی کا آغاز یوں ہوا کہ جائیداد کے معاملات سلجھانے کے ساتھ ساتھ مجھے ایک کم عمر شوہر کی پرورش بھی کرنی تھی۔ وہ شوہر کم اور بیٹا زیادہ لگتا تھا۔ اگر کسی بات پر ناراض ہو جاتا تو اسے بہلا کر چپ کراتی۔اسی سال والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ تمام ذمہ داریاں میرے کندھوں پر آ گئیں۔ شوہر ابھی اس قابل نہیں تھے کہ اسکول کے معاملات خود دیکھ سکیں۔ میں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ اپنی زندگی کو تحمل اور شرافت کے ساتھ گزارنے لگی۔
وقت گزرتا گیا۔ میرا شوہر جوان، خوبرو اور مضبوط بن چکا تھا، جبکہ میری جوانی ڈھلنے لگی۔ ہمارے خیالات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ دنیا کے خوف سے ہم اکٹھے رہنے پر مجبور تھے، ورنہ نہ میں اسے شوہر تسلیم کر سکتی تھی اور نہ وہ مجھے بیوی۔شادی کے اٹھارہ سال بعد، اللہ نے ہمیں ایک بیٹی سے نوازا۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی تھی۔ میں اس کی محبت میں کھو گئی اور اسے اپنی زندگی کا محور بنا لیا۔ شوہر نے جب دیکھا کہ میری تمام توجہ بچی پر مرکوز ہے، تو اُس نے اپنی آزادی کے پرزے نکالنے شروع کر دیے۔ جلد ہی مجھے علم ہو گیا کہ وہ ہمارے مزارعے کی بیٹی سے عشق کرتا ہے۔
وقت گزرتا گیا۔ میرا شوہر جوان، خوبرو اور مضبوط بن چکا تھا، جبکہ میری جوانی ڈھلنے لگی۔ ہمارے خیالات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ دنیا کے خوف سے ہم اکٹھے رہنے پر مجبور تھے، ورنہ نہ میں اسے شوہر تسلیم کر سکتی تھی اور نہ وہ مجھے بیوی۔شادی کے اٹھارہ سال بعد، اللہ نے ہمیں ایک بیٹی سے نوازا۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی تھی۔ میں اس کی محبت میں کھو گئی اور اسے اپنی زندگی کا محور بنا لیا۔ شوہر نے جب دیکھا کہ میری تمام توجہ بچی پر مرکوز ہے، تو اُس نے اپنی آزادی کے پرزے نکالنے شروع کر دیے۔ جلد ہی مجھے علم ہو گیا کہ وہ ہمارے مزارعے کی بیٹی سے عشق کرتا ہے۔
وہ اس سے چھپ چھپ کر ملتا، اسے خرچہ دیتا، اور وقت گزارنے کی کوشش کرتا۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ جاگیرداروں کے بیٹے اکثر مزارعوں کی بیٹیوں سے محبت کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ معمولی بات تھی۔ میرا وقت تو اپنی بیٹی اور جائیداد کی دیکھ بھال میں گزرتا، جبکہ میرے شوہر کا اپنی محبوبہ کے ساتھ۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے فرار چاہتے تھے، اس لیے اپنی اپنی راہوں پر بے نیاز چل رہے تھے۔ زندگی جتنی روکھی پھیکی گزر رہی تھی، ٹھیک تھی، لیکن اب میری بیٹی تیزی سے جوان ہو رہی تھی، اور مجھے اس کی شادی کی فکر لاحق تھی، جیسے ہر ماں کو ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ خاندان میں اس کے قابل کوئی موزوں رشتہ نظر نہیں آتا تھا۔ جو چند رشتے تھے، وہ یا تو عمر میں بہت بڑے تھے یا بہت چھوٹے۔
ایک دن وہ وقت بھی آ پہنچا جب ہمیں اپنی بیٹی کی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا۔ خاندان کے تمام بڑے ایک کمرے میں جمع ہوئے اور دو متبادل پیش کیے: پہلا، لڑکی کی شادی اس کے والد کے چچازاد بھائی سے ہو جائے، جو پہلے ہی دو بیویوں کا شوہر تھا۔- دوسرا، میری سوتیلی والدہ کے چھ سالہ بھتیجے سے شادی کر دی جائے۔یہ سن کر میں سخت ناراض ہوئی۔ میرا اصرار تھا کہ میری بیٹی کی شادی وہاں ہو گی جہاں وہ خود چاہے گی۔ خاندان میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا، اور سب نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا، مگر میں نے کسی کی پروا نہ کی۔ میری بیٹی شاہ بانو میری جان تھی، اور اس کی خوشی میرے لیے سب سے زیادہ اہم تھی۔
جب میں نے اپنی بیٹی سے بات کی تو اُس نے بتایا کہ وہ گل خان کو پسند کرتی ہے۔ گل خان ہمارے غریب منیجر کا بیٹا تھا، جو ہماری زمینوں کے معاملات دیکھتا تھا۔ یہ خاندان نسلوں سے ہمارے ساتھ وفاداری سے کام کر رہا تھا۔ ان کی دیانت پر کوئی شک نہیں تھا، لیکن ہمارے خاندان کی روایات کے مطابق ان کو برابری کا درجہ دینا ممکن نہیں تھا۔گل خان ایک خوبصورت، باادب اور سمجھدار نوجوان تھا۔ وہ کالج میں پڑھتا تھا اور کبھی کبھار اپنے والد کے کہنے پر زمین کے کاغذات لے کر میرے پاس آتا۔ شاہ بانو نے بتایا کہ وہ گل خان کا ہم جماعت ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ شاہ بانو محبت کرتی ہے، کیونکہ یہ اس کی عمر کا تقاضا تھا۔ آخر محبت اس کا حق تھا۔میں نے فیصلہ کر لیا کہ شاہ بانو کی شادی گل خان سے ہو گی۔ لیکن جب یہ خبر خاندان میں پھیلی تو ایک بار پھر کہرام مچ گیا۔
جب میں نے اپنی بیٹی سے بات کی تو اُس نے بتایا کہ وہ گل خان کو پسند کرتی ہے۔ گل خان ہمارے غریب منیجر کا بیٹا تھا، جو ہماری زمینوں کے معاملات دیکھتا تھا۔ یہ خاندان نسلوں سے ہمارے ساتھ وفاداری سے کام کر رہا تھا۔ ان کی دیانت پر کوئی شک نہیں تھا، لیکن ہمارے خاندان کی روایات کے مطابق ان کو برابری کا درجہ دینا ممکن نہیں تھا۔گل خان ایک خوبصورت، باادب اور سمجھدار نوجوان تھا۔ وہ کالج میں پڑھتا تھا اور کبھی کبھار اپنے والد کے کہنے پر زمین کے کاغذات لے کر میرے پاس آتا۔ شاہ بانو نے بتایا کہ وہ گل خان کا ہم جماعت ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ شاہ بانو محبت کرتی ہے، کیونکہ یہ اس کی عمر کا تقاضا تھا۔ آخر محبت اس کا حق تھا۔میں نے فیصلہ کر لیا کہ شاہ بانو کی شادی گل خان سے ہو گی۔ لیکن جب یہ خبر خاندان میں پھیلی تو ایک بار پھر کہرام مچ گیا۔
قریبی اور دور کے رشتہ داروں نے تلواریں اور بندوقیں نکال لیں اور دھمکیاں دیں کہ اگر خاندان کی عزت ایک نوکر کے گھر دلہن بن کر گئی، تو وہ شاہ بانو اور گل خان کو قتل کر دیں گے۔ میں نے خاندان کی شدید مخالفت کا سامنا کیا۔ وحشیانہ خیالات رکھنے والے جاگیرداروں کے سامنے میری اکیلی عورت کی حیثیت کچھ نہ تھی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اگر میں رواج کے مطابق دھوم دھام سے شادی کروں گی تو یہ لوگ ضرور میری بیٹی کو نقصان پہنچائیں گے۔بہت سوچ بچار کے بعد، میں نے ایک ایسا فیصلہ کیا، جس کا کوئی ماں تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں نے شاہ بانو کو اس کے محبوب کے ساتھ جا کر شادی کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اس کی مدد بھی کی۔ اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے، میں نے ان دونوں کے پاسپورٹ پہلے ہی بنوا لیے تھے۔
میرے بابا جان نے بیرون ملک اپنے کاروبار کے دوران کافی رقم میرے نام بینک میں جمع کر رکھی تھی۔ آج وہی رقم میری بیٹی شاہ بانو اور گل خان کے کام آئی۔ ایک رات میں نے ان دونوں کو ملک سے باہر جانے میں مدد کی، اور یہ سب اس قدر خاموشی سے ہوا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔دوسرے روز، البتہ یہ خبر پورے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ شاہ بانو گل خان کے ساتھ فرار ہو گئی ہے۔ میں بھی دکھاوے کے طور پر روتی رہی، دھاڑیں مارتی اور غم زدہ نظر آنے کی اداکاری کرتی رہی۔ میری ملازمہ ہر ایک کو یہ کہتی پھرتی تھی کہ شاہ بانو بی بی اپنی ماں کے انکار سے بہت دلبرداشتہ ہو گئی تھی اور رات بھر روتی رہی، پھر صبح کہیں چلی گئی۔
میں نے سیاہ لباس پہن لیا، جیسے اپنی بیٹی کی موت کا سوگ منا رہی ہوں۔ لیکن دل ہی دل میں خوشی کے مارے میرا دل باغ باغ تھا۔ مجھے سکون تھا کہ میری بیٹی ایک جاہلانہ ماحول سے آزاد ہو کر اپنی محبت کے ساتھ ایک نئی زندگی کی شروعات کر چکی ہے۔ یہ خیال مجھے خوشی سے پاگل کر دینے کو کافی تھا کہ میری شاہ بانو، میرے جیسے انجام سے بچ گئی ہے۔ وہ ایک نابالغ بچے کی دلہن بننے کے بجائے ایک محبت کرنے والے اور سمجھدار انسان کی شریکِ حیات بن چکی تھی۔ شادی، مناسب ساتھی کے ساتھ بندھن جوڑنے اور زندگی کی خوشیوں کو بانٹنے کا نام ہے۔ بے جوڑ شادیاں زندگی کے ساتھ ایک سنگین مذاق سے کم نہیں۔ لیکن ہمارے جیسے کچھ دولت مند خاندان، اپنی زمینیں تقسیم ہونے سے بچانے یا دولت بڑھانے کی خاطر، اپنی معصوم بیٹیوں کو بوڑھوں، نابالغوں یا پہلے سے شادی شدہ مردوں کے ساتھ بیاہ دیتے ہیں۔
میں نے سیاہ لباس پہن لیا، جیسے اپنی بیٹی کی موت کا سوگ منا رہی ہوں۔ لیکن دل ہی دل میں خوشی کے مارے میرا دل باغ باغ تھا۔ مجھے سکون تھا کہ میری بیٹی ایک جاہلانہ ماحول سے آزاد ہو کر اپنی محبت کے ساتھ ایک نئی زندگی کی شروعات کر چکی ہے۔ یہ خیال مجھے خوشی سے پاگل کر دینے کو کافی تھا کہ میری شاہ بانو، میرے جیسے انجام سے بچ گئی ہے۔ وہ ایک نابالغ بچے کی دلہن بننے کے بجائے ایک محبت کرنے والے اور سمجھدار انسان کی شریکِ حیات بن چکی تھی۔ شادی، مناسب ساتھی کے ساتھ بندھن جوڑنے اور زندگی کی خوشیوں کو بانٹنے کا نام ہے۔ بے جوڑ شادیاں زندگی کے ساتھ ایک سنگین مذاق سے کم نہیں۔ لیکن ہمارے جیسے کچھ دولت مند خاندان، اپنی زمینیں تقسیم ہونے سے بچانے یا دولت بڑھانے کی خاطر، اپنی معصوم بیٹیوں کو بوڑھوں، نابالغوں یا پہلے سے شادی شدہ مردوں کے ساتھ بیاہ دیتے ہیں۔
یہ شادیاں صرف جائیداد اور مفادات کو ترجیح دیتی ہیں، انسانیت اور خوشیوں کو نہیں۔ اب جبکہ زمانہ بدل چکا ہے، ان روایات کو بھی بدل جانا چاہیے تھا۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آج بھی کہیں نہ کہیں ایسے جاہلانہ اور خودغرضانہ رواج موجود ہیں۔ ان پر غور کریں تو انسان ان کی لالچ اور تنگ نظری پر حیران رہ جاتا ہے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے