ناگ کی دوستی

Sublimegate Urdu Stories

دبئی میں میرے ساتھ ایک لڑکا کام کرتا تھا. وہ لڑکا پاکستان سے فیصل آباد گوجرہ کے نواحی گاوں کا تھا ۔۔ ہم دونوں اس وقت دبئی سے ستر کلو میٹر دور روضہ حتہ والی سائیڈ پہ کھجوروں کے باغات میں نوکری کرتے تھے ۔۔اور رات کو باہر سوتے تھے کیونکہ وہاں بجلی میسر نہیں تھی۔

 وہاں سانپ کثرت سے تھے اور ہم نے چیل کی لکڑی والا ایک کھمبا جسے ہمارا کفیل بہت دور سے گاڑی کے پیچھے کھینچ کے لایا تھا اس کے چار ٹوٹے کرکے ہم نے اونچا سا پھٹا بنایا ہوا تھا اور اس پھٹے کے اوپر گدے ڈال کے سوتے تھے کیونکہ پہاڑی علاقہ تھا اور کھجوروں کے باغات میں سانپ بہت ہوتے تھے اور رات کو سانپ دندناتے پھرتے ہوتے تھے ۔۔ایک سانپوں کا ڈر ہوتا دوسرا مچھر کاٹتا تو رات ایک دو بجے تک نیند نہیں آتی تھی۔۔۔ تب ہم دونوں ایک دوسرے کو دنیا جہاں کے قصے سنایا کرتے تھے اور ٹائم پاس کیا کرتے تھے ۔۔ اس لڑکے کا نام بسم اللہ تھا ۔۔اچھا لڑکا تھا ۔۔۔

ایک دن ایسے سانپوں کے قصے چل رہے تھے کہ بسم اللہ کہنے لگا کہ یہ سانپ تو کچھ بھی نہیں،، یہاں پہ تو صرف تیر سانپ اور کھپرا سانپ کی دو اقسام ہیں لیکن ہمارے پاکستان میں تو بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں سانپ کی ۔۔
باتوں باتوں میں بات ناگ کی چلی تو بسم اللہ کہنے لگا کہ ایک ناگ سانپ میرے ابو کا دوست بن گیا تھا اور میرے ابو کو بہت فائدے دئیے تھے اس ناگ نے ۔۔۔
مجھے ناگ کی داستان دلچسپ لگی تو میں اٹھ کے بیٹھ گیا اور کہا ،، بسم اللہ تفصیل سے سناو ساری داستاں اور پھر ہم دونوں نے سگریٹ کی ڈبی سیدھی کی اور دونوں نے سگریٹ سلگا لئے اور پھر بسم اللہ نے ناگ کی داستاں کچھ یوں شروع کی ۔۔چونکہ داستاں بسم اللہ کے ابو کی ہے تو یہاں میں اسکے ابو کی زبانی ہی تحریر کروں گا تاکہ آپکو سمجھنے میں آسانی ہو اور داستاں کی دلچسپی بھی برقرار رہے ___
تو پھر آئیے چلتے ہیں اور بسم اللہ کے ابو کی زبانی ہی ناگ سے دوستی کی داستاں سنتے ہیں

میرا نام مبارک علی ہے اور میں فیصل آباد گوجرہ کے نواحی گاوں میں رہتا ہوں ۔۔ہم دو بھائی تھے جبکہ ہماری کوئی بہن نہیں تھی ۔۔ہماری چھ ایکڑ زرعی زمین تھی ۔۔۔بڑا بھائی ایسے آوارہ گردی کرتا تھا اور میں زمینداری کرتا تھا ۔۔
راتوں کو فصلوں کو پانی لگانا دیہاتوں میں عام سی بات ہے

ہماری پانی کی باری بھی چھ ماہ دن کو ہوتی تھی اور چھ ماہ رات کو ۔۔۔ہماری زمینوں کے ساتھ تین چار ایکڑ میں ریت کا بڑا ٹیلا تھا اور یہ ٹیلا کسی فوجی کی لاٹ میں تھا اور فوجی خود کوہاٹ سائیڈ کا تھا اسکی بارہ ایکڑ زمین تھی جو کہ آٹھ ایکڑ آباد تھی اور چار ایکڑ میں ریت کا ٹیلا اور بڑی بڑی جھاڑیاں تھیں تبھی ان چار ایکڑ کو آباد کرنا مشکل تھا ۔۔اس ٹیلے کے عقب سے سرکاری نالہ پانی کا گزرتا تھا جو ہماری فصلوں کے بعد آگے والی زمینوں کو بھی پانی دیتا تھا۔۔ساون کا مہینہ تھا اور بہت حبس و گرمی تھی سارا دن پھر شام کے وقت ناجانے کہاں سے سیاہ بادل چھائے اور ایکدم بارش شروع ہوگئی ، بارش ایسے برسی کہ عشا کی اذانیں ہونے لگ گئیں لیکن بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔علاقے کے لوگوں نے دوبارہ دوبارہ اذانیں دینی شروع کردی تاکہ بارش رکے خیر بارش رک گئی اور ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور اسی رات ہماری پانی کی باری بھی تھی۔۔

ابو نے مجھے کہا کہ ایسا کرو کہ نہر پہ جاکے موگے میں کوئی کپڑا ٹھونس دو اور جب ہماری باری ختم ہوجائے تو کپڑا نکال لینا کیونکہ فصلوں کو تو اب پانی کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ گوڈے گوڈے پانی تو پہلے کھڑا تھا فصلوں میں ۔۔اور سب لوگ ہی ایسا کررہے تھے کہ موگے میں کپڑا ٹھونس کر اپنی باری ختم کرتے تھے ۔۔میں نے بھی ایک کھیس اٹھایا اور نہر پہ چلا گیا ۔۔بارش برس کے تھم گئی تھی اور آسمان صاف ہوگیا تھا چاند کی چودھویں کی رات تھی اور چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔۔۔

میں نے نہر پہ جاکے اپنے پانی کے ٹائم پہ موگے میں کپڑا ٹھونس دیا اور سوچا کہ فصلوں کو ایک چکر لگا کے دیکھ تو لوں کہ بارش کا پانی کتنا جمع ہوا ہے 
میرے پاس بھی سیل والی ٹارچ تھی اور میں نے ٹارچ روشن کی ہوئی تھی اور سرکاری نالے کے اوپر اوپر اپنی زمینوں کی طرف جا رہا تھا ۔۔

جب میں اپنی زمین کے ساتھ ریت کے ٹیلے کے عقب سے گزرنے لگا تو مجھے کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی ، میں نے ٹارچ ریت کے ٹیلے کی طرف گھمائی تو میرا تو سانس ہی رکنے والا ہوگیا۔۔کیونکہ مجھ سے کچھ فاصلے پہ آٹھ نو فٹ کے دو سیاہ ناگ آپس میں ملاپ کررہے تھے

میں نے بزرگوں سے سنا تھا کہ دو ناگ اگر چاند کی چودھویں کو ملاپ کررہے ہوں تو انکے اوپر کوئی کالے رنگ کا کپڑا ڈال دیں تو وہ بندے کو یا تو ناگ منی دے جاتے جو کہ ہر بیماری کا علاج ہوتی ہے اور بندے کو مالا مال کردیتے ہیں ۔۔۔میرے اوپر بھی شال نما لنگی تھی ، مجھے سوجھی کہ میں ان کے اوپر شال ڈال دوں شاید مجھے بھی مالا مال کردیں، پھر مجھے ڈر بھی لگتا کہ کہیں غصے میں آکر مجھے کاٹ ہی نہ لیں کیوں کہ دونوں ہی بہت بڑی بلائیں تھیں ۔۔میں نے سوچا کہ ایسا موقع بار بار کہاں ملتا ہے ۔۔اللہ کو یاد کیا اور چھلانگ لگا کے نالہ عبور کر گیا اور دھیرے دھیرے ان ناگوں کے پاس جانے لگا ۔۔ٹارچ کی روشنی بھی میں ان پہ سیدھی رکھی ، وہ دونوں ناگ فل مستی میں تھے اور کبھی اوپر اٹھتے کبھی ایک دوسرے سے لپٹ جاتے کبھی زمین پہ لیٹ جاتے ، میں ڈرتے ڈرتے قریب جاکے اپنی شال انکے اوپر ڈال دی اور واپس پلٹ کے نالہ عبور کر آیا ۔۔

میں نے سوچا کہ آگے فصلوں کو دیکھ آتا ہوں پھر واپسی پہ ناگوں کو دیکھوں گا
میں آگے فصلوں کا چکر لگایا اور واپس اسی جگہ پہ آگیا ۔۔مجھے شال میں کوئی حرکت محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔۔لیکن میں شال اٹھا بھی نہیں سکتا تھا ۔۔

میں نے سوچا کہ اب گھر پانی کی باری ختم ہونے کے بعد گھر چلا جاتا ہوں اور فجر کے بعد پوہ پھوٹتے ہی آوں گا اور شال اٹھا لے جاوں گا۔ دل ہی دل میں خوش تھا کہ شال میں ناگ ضرور ناگ منی چھوڑ جائیں گے ۔۔۔ میں نے پانی کی باری ختم کی اور نہر کے موگے سے اپنا کھیس نکال کے گھر چلا آیا ۔۔۔

فجر کے وقت اٹھا اور نماز پڑھ کے کھیتوں کی طرف نکل آیا اور خوشی خوشی شال کی طرف بڑھ رہا تھا کہ دیکھوں تو سہی کہ بزرگوں کی بات کہاں تک سچ ہے،، کیا واقعی میری شال میں ناگ منی پڑی ہوگی ؟؟؟؟ دھیرے دھیرے میں ریت کے اس ٹیلے کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں پہ رات کو ناگ اور ناگن ملاپ کررہے تھے ۔۔
نہر کی پٹڑی سے اتر کر جب میں نالے پر چڑھا اور دور سے ہی نظریں اس جگہ پہ گاڑ دیں جہاں پہ رات کو ناگ اور ناگن ملاپ کر رہے تھے۔ لیکن مجھے دور سے ہی جھٹکے لگنے شروع ہوگئے تھے۔۔۔

قریب پہنچ کر جب اس جگہ پہ دیکھا جہاں پہ ناگ اور ناگن رات کو ملاپ کررہے تھے وہاں پہ میری شال تھی ہی نہیں ،، میں نالہ عبور کرکے اس جگہ پہ پہنچ گیا جہاں پہ رات کو ناگ اور ناگن ملاپ کررہے تھے۔ میں نے چاروں اطراف نظر دوڑائی کہ میری شال آخر گئی کہاں پر ، دل میں ہزار وسوسے آتے کہ شاید کوئی دوسرا آدمی میری شال اٹھا لے گیا ہو ۔۔پھر میں نے سانپوں کی لکیریں دیکھنی شروع کردیں لیکن رات کو چونکہ بارش زوروں کی ہوئی تھی اس لئے بھیگی ریت پہ لکیریں بھی نہیں تھیں پھر بھی میں نے تھوڑا ادھر ادھر گھوم پھر کے نگاہیں دوڑائیں تو دور مجھے ایک جھاڑی میں میری شال کا کونا پھنسا نظر آیا ۔۔۔میں بھاگ کے اس طرف گیا اور دیکھا تو میرے اوسان خطا ہوگئے ۔۔۔

ایک بل تھی جو کہ جھاڑی کے وسط میں تھی اور میری شال آدھی سے زیادہ اس بل میں گھسی ہوئی تھی بس ایک کونا شال کا باہر تھا ۔۔۔میں سمجھ گیا کہ میری شال ناگ اور ناگن ہی لے کر آئے ہیں ۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اپنی شال کا کونا پکڑ کے باہر کھینچا تو میں حیران رہ گیا ۔۔۔میری شال کے ساتھ سونے کے تعویز باہر آئے تھے جسے مقامی زبان میں تویتڑی کہا جاتا ہے اور شادی کے وقت دلہن کو پہنائی جاتی ہیں۔۔کسی علاقے میں پانچ تویتڑیاں دلہن کو پہنائی جاتی ہیں کسی علاقے میں سات تویتڑیاں پہنائی جاتی ہیں ۔۔۔میں نے گنتی کی تو وہ سات تویتڑیاں تھیں خالص سونے کی ، میں نے ڈرتے ڈرتے وہ تویتڑیاں اٹھا کے جیب میں ڈال لی اور شال اٹھا کے گھر آگیا مجھے اب یقین ہوگیا تھا کہ ناگ اور ناگن اسی بل میں ہیں جو جھاڑی کے وسط میں ہے ۔۔

آٹھ دن کے بعد میری پانی کی باری تھی اور میں رات کو پانی لگانے کھیتوں میں چلا گیا ۔۔چاند کی تئیس چوبیس تاریخ تھی اس لئے رات اندھیری تھی ۔۔

میں نے کپاس کی فصل کو پانی چھوڑ کے نالہ کے اوپر ہی بیٹھ گیا ۔۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ مجھے پاس ہی سرسراہٹ سی محسوس ہوئی ۔۔ میں نے ٹارچ روشن کی تو میرے اوسان خطا ہوگئے ۔۔کالا سیاہ ناگ مجھ سے دو قدم کے فاصلے پہ کنڈلی مار کے بیٹھا تھا ۔۔۔میں پہلے تو ڈر گیا لیکن پھر مجھے حوصلہ ہوا کہ اگر ناگ مجھے نقصان پہنچانا چاہتا تو پہنچا سکتا تھا لیکن وہ میرے پاس آکر کنڈلی مار کے بیٹھ گیا ہے ۔۔۔مجھے اب رشک سا ہونے لگا تھا کہ ناگ میرا دوست بن گیا ہے کیوں کہ ناگن کے ساتھ ملاپ کے وقت میں نے انکے اوپر شال ڈال کر انکی پردہ پوشی کی تھی اور بدلے میں انہوں نے مجھے سات سونے کے تعویزدی تھیں ۔۔۔ میں نے ناگ کے بارے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا اور نہ تویتڑیاں کے بارے ۔۔۔ میں پانی لگاکے گھر آگیا ۔۔
دن کو بھی کبھی میں کھیتوں میں جاتا تو شاید ناگ کو میری بو آ جاتی تھی ناگ کہیں نا کہیں سے نمودار ہو جاتا اور میرے بلکل پاس آکے بیٹھ جاتا ۔۔۔مجھے اب ناگ سے بلکل بھی ڈر نہیں لگتا تھا کیونکہ میں سمجھ گیا تھا کہ ناگ میرا دوست بن گیا ہے ۔۔۔

کچھ دنوں بعد ایک شادی تھی ساہیوال کے ساتھ ہڑپہ کے پاس گاوں میں اور میں نے اس شادی میں شرکت کی تو مجھے وہاں ایک بوڑھا سا جوگی نظر آیا جو کہ کالے ناگ کا تماشہ دکھا رہا تھا ۔۔جوگی کا ناگ بلکل میرے دوست ناگ جیسا تھا ۔۔تماشہ ختم ہوا تو جوگی جانے لگا اور میں نے بوڑھے جوگی سے گپ شپ لگائی تو جوگی میرا دوست بن گیا میں نے جوگی سے پوچھا کہ آپ رہتے کہاں پر ہو ؟

بوڑھے جوگی نے بتایا کہ یہ دو گاوں چھوڑ کے آگے ہماری جوگیوں کی بستی ہے وہاں پر ، میں نے ایسے ہی جوگی سے وعدہ کر لیا کہ میں رات کو آپکے پاس آوں گا گپ شپ کریں گے ۔۔بوڑھے جوگی نے کہا بسم اللہ آ جانا ۔۔میں نے جوگی سے اسکا نام پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہماری بستی میں آکر کسی سے اللہ جوایا جوگی کا نام پوچھ 
لینا آپکو بتا دیں گے اور جوگی چلا گیا ۔۔۔ شام کو شادی ختم ہوئی تو میں ایک لڑکے کو موٹر سائیکل پہ ساتھ لیکر جوگیوں کی بستی میں چلا گیا ۔۔
اللہ جوایا جوگی کا گھر پوچھا تو ایک لڑکے نے بتایا کہ وہ سامنے والا گھر ہے ۔۔۔
ہم نے اللہ جوایا جوگی کے دروازے پہ دستک دی تو اللہ جوایا کے بیٹے نے دروازہ کھولا اور پوچھا کون ہو ؟ میں اپنا تعارف کروایا اور ساتھ حوالہ دیا کہ فلاں گاوں سے آئے ہیں تو اس کے پیچھے سے اللہ جوایا جوگی کی آواز آئی کے اندر آ جاو ۔۔۔ہم اندر چلے گئے تو اللہ جوایا جوگی نے ہمیں صحن میں ہی چارپائی پہ بٹھا لیا ۔۔۔کھانے کا پوچھا گیا لیکن ہم نے ولیمہ کھایا ہوا تھا کھانے کی طلب نہیں تھی اللہ جوایا نے اپنی بیوی کو چائے کا آرڈر دیا اور ہماری طرف متوجہ ہوا ،، باتوں باتوں میں ، میں نے کالا ناگ کی بات چھیڑ دی کیونکہ میں دراصل آیا ہی کالے ناگ کی معلومات لینے ہی تھا ۔۔بوڑھے جوگی نے بتایا کہ کالا ناگ دوست سانپ ہوتا ہے یہ کبھی بھی بلاوجہ انسان کو کاٹتا نہیں جب تک اسے کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے اگر آپ نے کالے سانپ کو چھوٹی سی کنکری بھی مار دی ہے تو پھر یہ آپکا پیچھا نہیں چھوڑے گا چاہے آپ سات تہہ میں چھپ جائیں یہ اپنا بدلہ ضرور لیتا ہے ۔۔

بوڑھے جوگی نے ایک واقعہ سنایا کہ بھکر سے ایک آدمی آیا تھا میرے پاس ، اس آدمی نے ناگن مار دی تھی ساون کے مہینے میں اور ناگ اس کے آدمی کے پیچھے لگ گیا تھا آدمی جہاں بھی جاتا ناگ وہاں پہنچ جاتا وہ آدمی بہت پریشان ہو گیا اور کسی طریقے بھاگتا بھاگتا ادھر میرے پاس آ گیا تھا اور اسی چارپائی پہ ہم دونوں بیٹھے تھے وہ آدمی رو رو کر بتا رہا تھا کہ میں نے ناگن مار دی ہے لیکن اب ناگ میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا __ میں نے اسکو دودھ کا گلاس دیا پینے کے لئے لیکن اس نے دودھ کا گلاس نیچے زمین پر رکھ دیا کہ پہلے بات پوری کر لوں پھر دودھ پیئوں گا ۔۔وہ کہتا کہ اب ناگ کیسے میرا پیچھا چھوڑے گا وہ رونے لگ گیا کہ اسکے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور ناگ پیچھا نہیں چھوڑ رہا ۔۔میں نے اسے کہا کہ آپ اس ناگ سے معافی مانگ لیں۔۔وہ جھٹ سے بولا!!!
کیسے معافی مانگوں ۔۔۔میں نے اسے کہا کہ آپ اس ناگ کو کہیں کہ آپ اپنے گوگے پیر کے واسطے مجھے معاف کردیں کیونکہ کالا ناگ اپنے گوگے پیر کا بہت اطاعت مند مرید ہے یہ گوگے پیر کے نام پہ راستہ بدل لیتا ہے اور اپنے دشمن کو معاف کردیتا ہے ۔۔۔اس آدمی نے ایسا ہی کیا ہاتھ باندھ کے اس نے وہی الفاظ دہرائے کہ مجھے معاف کردو گوگے پیر کے واسطے ، جب وہ آدمی بات ختم کرچکا تو میں نے اسے کہا کہ اب دودھ اٹھا کے پی لیں لیکن جیسے ہی اس نے دودھ اٹھانے کے لئے ہاتھ نیچے کیا تو دودھ کا گلاس الٹا پڑا تھا میں نے لالٹین کی روشنی کرکے جب دیکھا تو دودھ کا رنگ نیلا ہو چکا تھا ۔۔۔میں نے اس آدمی کو کہا کہ جاو تمہاری جان بچ گئی ہے وہ ناگ تمہارے پیچھے بھکر سے یہاں ساہیوال تک آیا تھا اور جس چارپائی پہ ہم بیٹھے ہیں اس چارپائی کے نیچے آکے بیٹھ گیا تھا اور ناگ نے اپنا زہر تمہارے دودھ میں ڈال دیا تھا تم دودھ پیتے تو ایک منٹ میں ہی مر جاتے اور میں جوگی ہونے کے باوجود بھی تمہیں نہ بچا پاتا لیکن آپ نے ناگ کو گوگے پیر کا واسطہ دیا ہے تبھی ناگ آپکو معاف کرگیا ۔۔۔

میرے تو ہوش ہی اڑ گئے کہ کالا ناگ انتقام لینے کے لئے اس حد تک بھی جا سکتا ہے ۔۔۔ میں نے پھر بوڑھے جوگی سے پوچھا کہ سانپ کاٹتے کس موسم میں ہیں ؟

جوگی نے بتایا کہ سانپ صرف سال میں تین ماہ کاٹتے ہیں ، ہاڑ ، ساون ، اور بھادوں ، کیوں کہ یہ تین ماہ سانپ اپنی بلوں سے باہر نکل کر مستی کرتے ہیں ، ہاڑ کے مہینے میں یہ اپنی جوڑی ڈھونڈتے ہیں اور ساون میں ملاپ کرتے ہیں پھر بھادوں تک ساتھ ساتھ رہتے ہیں پھر بچھڑ جاتے ہیں ۔۔۔

جوگی نے مزید بتایا کہ ناگن صرف ایک سال میں سات بچے اکھٹے پیدا کرتی ہیں ، اور جو سات بچے ہوتے ہیں وہ بالغ ہونے تک قریب قریب ہی رہتے ہیں پھر جب بالغ ہوجاتے ہیں تو اپنی اپنی جوڑیاں بنا لیتے ہیں ۔۔۔ جوگی نے مزید بتایا کہ ساون اور بھادوں یہ دو ماہ کوئی بھی سانپ مارنا نہیں چاہیے کیونکہ ساون بھادوں میں یہ جوڑی ہوتے ہیں اگر ایک کو مارا جائے تو دوسرا اسکے ارد گرد ہی ہوتا ہے وہ بدلہ لیتا ہے 

پھر میں اصل مدعے کی طرف آیا کہ بابا جی ناگ جو ہوتا ہے یہ ناگ منی کیسے دیتا ہے ؟ تب جوگی بابا نے کہا کہ ناگ منی ہر ناگ میں نہیں ہوتی یہ صرف چند خاص خاص ناگوں میں ہوتی ہے اور ناگ منی کی خاصیت یہ ہے کہ ناگ منی منکا ہوتا ہے اور کسی بھی مریض کو پانی میں گھول کر پانی پلا دیں تو مریض فوری تندرست ہو جاتا ہے باقی جس کسی کے پاس ناگ منی ہو تو دولت بہت آتی ہے اسکے پاس اور دوسرا دنیا کا کوئی بھی سانپ اسے نہیں کاٹتا اگر کسی اور کو سانپ نے کاٹ لیا ہو تو اس ناگ منی کو پانی میں گھول کے پانی پلا دیں تو مریض ٹھیک ہو جاتا ہے ۔۔۔ میں نے جوگی سے پوچھا کہ بابا یہ ناگ اپنی ناگ منی دیتے کیسے ہیں یا کیسے ان سے ناگ منی حاصل کی جاتی ہے ؟

تب جوگی بابا نے کہا کہ چاند کی پہلی تاریخ سے لیکر چودہ تاریخ تک دو پیالے دودھ رکھنا پڑتا ہے جہاں پہ علم ہو کہ یہاں پہ ناگ رہتا ہے اور چاند کی چودہ تاریخ کو ناگ اور ناگن جب ملاپ کرتے ہیں تو دونوں میں سے کوئی ایک اپنی ناگ منی اس پیالے میں چھوڑ جاتا ہے وہ انعام دے جاتے ہیں دودھ پلانے والے کو۔۔ اور اگر جب تک بندہ پاک صاف رہے اور ناگ منی سے کوئی ناجائز کام نہ لے تب تک ناگ منی فائدہ دیتی ہے جب بندہ کسی غلط کام میں پڑ جائے تو ناگ پھر اپنی ناگ منی واپس اٹھا لیتے ہیں جیسے جنات کے پاس غائب ہونے کا علم ہوتا ہے ایسے سانپوں کے پاس سونگھنے کا علم ہوتا ہے ۔۔۔۔ جوگی بابا کو میں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ایک ناگ میرا دوست بنا ہوا ہے ۔۔ میں یہ راز راز ہی رکھنا چاہتا تھا۔۔
جوگی بابا سے طویل ملاقات کے بعد ہم واپس آگئے اور صبح میں ساہیوال سے واپس اپنے گھر گوجرہ آگیا ۔۔ چاند کی آخری تاریخیں تھیں میں نے فیصلہ کر لیا کہ چاند کی پہلی تاریخ کو میں اپنے دوست ناگ کو دودھ کے پیالے رکھوں گا ہوسکتا ہے مجھے ناگ منی دے دیں ۔۔۔ میں بازار سے دو مٹی کے پیالے لے آیا اور چاند کی پہلی تاریخ تھی تو ایک بالٹی میں دودھ ڈال کے پیالے لیکر اس ریت کے ٹیلے پہ جہاں پہ جھاڑی میں میری شال پھنسی تھی وہاں پہ پیالے رکھ کے دودھ سے بھر دئیے اور گھر آگیا ۔۔صبح جاکے دیکھا تو پیالے خالی تھے ۔۔

چودہ دن لگاتار میں دودھ کے پیالے بھرتا رہا اور ناگ اور ناگن پیتے رہے ،، جب چاند کی چودہ تاریخ تھی تو مجھے پورا یقین تھا کہ ناگ یا ناگن لازمی اپنی ناگ منی پیالے میں چھوڑیں گے ۔۔صبح جب میں نے جاکر دیکھا تو واقعی ایک پیالے میں ناگ منی پڑی تھی ۔۔۔بلکل چھوٹی سی جیسے مونگی کی دال کا دانہ ہوتا ہے ۔۔۔میں نے پیالے اٹھائے اور گھر آگیا ۔۔۔میں نے ایک پیالہ پانی کا بھر کے ناگ منی اس پیالے میں رکھ دی اور پیالے سے تھوڑا پانی اپنی والدہ کو دیا کہ اماں یہ پانی پی ۔۔آپ ہر وقت کہتی ہیں کہ گھٹنے درد کرتے ہیں ، اماں پانی پی کر بلکل ٹھیک ہوگئی اور بھاگ بھاگ کر مویشیوں کو چارہ ڈالتی، پھر بہت سے مریضوں کو ناگ منی کا پانی پلایا گیا سب کے سب مریض ٹھیک ہوگئے ۔۔۔ بہت دنوں تک وہ ناگ منی میرے پاس رہی اور بہت فائدے دیتی رہی کبھی روپیہ پیسہ ختم بھی نہ ہوتا۔۔۔۔

پھر زوال تب آیا جب ہمارے گاؤں میں ایک گھر میں میرا آنا جانا ہوگیا اور اس گھر میں کوئی مرد نہ تھا چار پانچ عورتیں ہی تھیں اور میں اس گھر میں ناجائز تعلق بنا بیٹھا بس پھر کیا تھا کچھ دنوں بعد مجھے چوٹ لگی اور ایک ٹانگ ٹوٹ گئی اور میں چارپائی پہ پڑا تھا میں اماں کو کہتا کہ مجھے وہ پیالے سے پانی ڈال کے دے جس پیالے میں ناگ منی تھی۔۔۔وہ پانی بھی میرا درد کم نہیں کرتا تھا پھر دو تین دن کے بعد ایک روز فجر کے وقت وہ ناگ جو میرا دوست تھا ہمارے گھر آیا اور اس نے اپنی ناگ منی دوبارہ نگل کے حلق میں اتار لی اور جاتے جاتے میری چارپائی کے ایک پاوں کو زور سے اپنی دم مار کے مجھے جگایا میں بڑی مشکل سے اٹھ کے بیٹھا تو ناگ بہت غصے میں تھا اور پھنکار مارتا تھا تو بلکل ہی سیدھا کھڑا ہو جاتا تھا صرف اسکی دم ہی زمین پہ رہ جاتی تھی __ تین چار منٹ تک ناگ میرے ساتھ غصہ کرتا رہا پھر آہستہ آہستہ رینگتا ہوا ہماری دہلیز پار کر گیا __ میری ٹانگ ٹھیک ہوگئی تھی میں اپنے کھیتوں میں بھی جاتا تھا اور اس ریت کے ٹیلے پہ بھی لیکن مجھے دوبارہ وہ ناگ نظر ہی نہیں آیا۔۔۔
شاید ناگ اور ناگن یہ علاقہ چھوڑ گئے تھے یا پھر ناگ میری غلطی کی وجہ سے میرے سامنے نہیں آتا تھا میری ذرا سی غلطی میرا بہت نقصان کر گئی ۔۔۔ میں ایک ٹانگ سے ہمیشہ کے لئے لنگڑا ہوگیا۔ بسم اللہ نے اپنے والد کی داستان ختم کی تو رات کے ڈھائی بج رہے تھے ہم نے مچھر دانیاں سیدھی کی اور لیٹ گئے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل پڑی تھی اور ہم نیند کی وادیوں میں گم ہوتے چلے گئے 
(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ