وٹہ سٹہ مکمل اردو کہانی

Urdu Font Story

وٹہ سٹہ مکمل اردو کہانی


چوہدری منصب علی کے گھر میں کہرام مچا ہوا تھا ۔۔ اس کے نوجوان بیٹے نیاز علی کو کسی نے سوتے میں قتل کر دیا تھا ۔۔ میں صبح کے سات بجے موقع واردات پر پہنچا اور ضابطے کی کارروائی شروع کر دی۔۔ موقع پر موجود حوالدار نے مجھے بتایا کہ وہ واردات کی اطلاع ملتے ہی موقع واردات پر پہنچ گیا تھا اور اس نے کسی چیز کو ادھر ادھر نہیں کیا۔۔

مقتول اپنے بستر پر خون میں لت پت ہو رہا تھا۔۔ بستر برآمدے میں بچھا تھا۔۔مارچ کا مہینہ ہونے کے باعث موسم زیادہ گرم نہیں تھا ۔۔ برآمدے کے سامنے سر کنڈوں کی بھاری چکیں پڑی ہوئی تھیں۔برآمدے میں دوسری چارپائی بھی پڑی ہوئی تھی اور اس پر بستر بھی بچھا ہوا تھا۔پائنتی کی طرف ایک کھیس تہہ کیا ہوا رکھا تھا اور چادر پر شکنیں نہیں تھیں۔جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس پر کوئی نہیں سویا۔۔

مقتول کے جسم پر تیز دھار آلے کے ایک درجن نشانات تھے ۔۔ گویا کہ قاتل نے قتل کے پختے ارادے سے وار کیے تھے ۔۔ اتنے زیادہ وار کئی باتوں کی نشاندہی کرتے تھے ۔۔ اول یہ کہ قتل کے پیچھے سخت نفرت کارفرما تھی۔۔ دوئم مقتول نے قاتل کو پہچان لیا تھا اور قاتل گھبراہٹ میں وار پر وار کرتا چلا گیا۔ یعنی مقتول کا بچ جانا قاتل کے حق میں موت کا پیغام ثابت ہوسکتا تھا۔۔ سوم۔۔ یہ کے قاتل بزدل اور کمزور تھا چند وار کرنے کے بعد اسے اپنے دشمن کی موت کا یقین نہیں آیا تھا۔۔

خون کے دھبے چارپائی کے نیچے بھی نظر آ رہے تھے۔دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ تھیں۔گھر کے دیگر افراد قریبی کمروں میں سوئے ہوئے تھے انہوں نے مقتول کی چیخیں کیوں نہیں سنیں؟۔ اور دوسری بات یہ تھی کہ مقتول خاصا صحت مند شخص تھا۔۔ اس نے مزاحمت کیوں نہیں کی۔۔؟ اگر وہ مزاحمت کرتا تو اس کی لاش کم از کم چار پائی پر پڑی ہوئی نہ پائی جاتی۔حملہ آور غالباً دو تھے ۔ ایک نے مقتول کو دبائے رکھا اور دوسرا وار کرتا رہا ۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ قاتل نے پہلا وار دل پر کیا ہو اور وہی کاری ثابت ہوا ہو ۔
تاہم سب سے پہلے یہ اندازہ لگانا تھا کہ قاتل باہر سے آیا تھا یا گھر کا آدمی تھا۔۔
میں نے لاش پر چادر ڈال دی اور مقتول کے باپ چودھری منصب علی سے پوچھا ۔۔ قتل کے بارے میں سب سے پہلے کس کو پتہ چلا تھا؟
میری بیوی صابرہ بی بی کو۔۔۔

اس نے جواب دیا ۔۔۔ سب سے پہلے وہی اٹھتی ہے ۔۔لاش کو دیکھ کر اس نے چیخ ماری تو سارے گھر کی آنکھ کھل گئی۔ میں نے اسی وقت دو آدمی تھانے دوڑائے اور لاش کو چادر سے ڈھک دیا۔۔
میں نے چودھری سے پوچھا۔۔ آپ نے باہر کے دروازے چیک کیے تھے۔۔؟
اس سوال کا جواب اس کے بیٹے صفدر علی نے دیا ۔۔ صحن کے دروازے کی کنڈی کھلی ہوئی تھی۔۔
صفدرعلی تیس بتیس سال کا ایک خوش شکل نوجوان تھا۔ صفدر کے چہرے پر بھی اچانک غصہ نظر آنے لگا تھا۔
یہ تو اندر کا ہی معاملہ لگتا ہے۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ساتھ والی چارپائی پر سونے والے بندے کو کچھ پتہ ہی نہ چلے۔۔ میں بھرجائی سے خود پتا کرتا ہوں۔۔

،،جوان،، ٹھہر جاؤ زرا۔۔میں نے اسے روکا۔
تھانیدار بننے کی کوشش نہ کرو ورنہ معاملہ خراب ہو جائے گا۔۔ مجھے بات سمجھ لینے دو ۔۔کیا ثمینہ اس چارپائی پر سوئی ہوئی تھی ۔۔؟
ہاں جی۔۔۔ روز ادھر ہی سوتی ہے صابرہ بی بی نے جواب دیا ۔صدمے کی وجہ سے مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں آیا ۔۔۔اور اس نے بھی کچھ نہیں بتایا۔۔
میں صابرہ بی بی کو بیٹھک میں لے گیا اور کہا ۔۔۔ ذرا تسلی سے بات بتائیں ۔جب اپ نے بیٹے کی لاش دیکھی تو کیا اس وقت ہہو اپنے بستر پر موجود تھی ؟
صابرہ بی بی نے قدر سوچنے کے بعد جواب دیا۔۔،، میں مرجاواں،، اس کا بستر تو خالی تھا۔ اگر وہ پہلے اٹھ گئی تھی تو اس نے ہمیں کچھ بتایا کیوں نہیں۔۔۔؟
کیا آپ کی بہو کا اپنے شوہر سے کوئی جھگڑا ہوا تھا۔۔۔؟
ہاں جی۔۔کئ دنوں سے جھگڑا چل رہا تھا۔۔
میں نے پوچھا۔۔جھگڑے کی وجہ کیا تھی۔۔؟

وجہ کیا ہونی تھی جی۔۔۔ چھوٹے لوگوں کو منہ لگا کر غلطی کی کی۔۔ اس نے جواب دیا۔۔۔۔زیادہ غلطی میرے خاوند کی ہے۔ میں نے اس کو منع بھی کیا تھا کہ وٹے سٹے کی شادی نہ کرے لیکن وہ نہیں مانا ۔۔
اس نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے بڑے بیٹے یعنی نیاز علی کی شادی میں بعض وجوہ کی بنا پر دیر ہوگئی تھی۔۔ اور زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا ۔۔ لہذا انہوں نے اپنے سے ایک کم حیثیت خاندان میں وٹے سٹے کی شادی کر دی۔۔ اس کم حیثیت خاندان کے سربراہ کا نام صوفی عبیداللہ تھا ۔۔یہ شخص بقول صابرہ بی بی کے بہت چھوٹا زمیندار تھا۔منصب علی نے اپنی بیٹی کو صوفی کے بیٹے رفیق سے بیاہ دیا ۔اور اس کی بیٹی ثمینہ کو اپنی بہو بنا لیا۔۔

رفیق نے میری بیٹی کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔صابرہ بی بی بات جاری رکھتے ہوئے بولی۔۔ ایک تو ان کے گھر میں تنگی ہے ۔ دوسرے عشرت کی ساس بہت فضول عورت ہے ۔ ہر وقت بیٹے کے کان بھرتی رہتی ہے اور بیٹا بھی ماں کا ایسا لاڈلا ہے کہ بیوی کو کچھ سمجھتا ہی نہیں۔۔ ذرا سی بات پر بیوی کو ڈانٹنا شروع کر دیتا ہے ۔۔۔
اس کی یہ بات قابل یقین نہیں لگتی تھی ۔ایک تو وہ لوگ اونچی حیثیت کے مالک تھے اور دوسرے رفیق کی بہن ان کے گھر میں تھی۔ وہ اسے یعنی ثمینہ کو زیادہ تنگ کر سکتے تھے۔۔
میں نے پوچھا آپ لوگ رفیق کی بہن ثمینہ سے کیسا سلوک کرتے ہیں ۔۔؟ کیا اپنی بیٹی پر ہونے والی زیادتی کا بدلہ نہیں لیتے۔۔۔؟

ہم اعلی ذات کے خاندانی لوگ ہیں۔۔ اس نے فخر سے کہا ۔۔ میرا بیٹا ثمینہ کو پھولوں کی طرح رکھتا تھا ۔۔ لیکن وہ ذرا ذرا سی بات پر اس سے لڑنا شروع کر دیتی تھی ۔۔ دو روز پہلے بھی دونوں میں جھگڑا ہوا تھا ۔ ثمینہ میکے جانے کی ضد کر رہی تھی لیکن نیازعلی اجازت نہیں دے رہا تھا ۔۔ گھر میں سو مجبوریاں ہوتی ہیں انسان شادی اس لئے نہیں کرتا کہ بیوی ہر وقت میکے میں ہی بیٹھی رہے۔۔۔
کیا آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ نیاز علی کو ثمینہ نے قتل کیا ہے۔۔؟

یہ پتا کرنا تو آپ کا کام ہے ۔ ایسی عورتوں کا کیا بھروسہ ۔۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنے کسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار سے یہ کام کروایا ہو۔
اس عورت نے بلا تامل اپنی بہو پر الزام لگا دیا تھا۔۔ میں نے پوچھا ۔۔۔ آپ اس کے کتنے یاروں کو جانتی ہیں۔۔۔؟
یہ معلوم کرنا آپ کا کام ہے ۔۔۔
آپ وہ بتائیں جو آپ کو معلوم ہو۔ا گر آپ کو اپنی بہو ثمینہ پر شک ہے تو اس شک کی کوئی وجہ بتائیں۔۔
شک ہم نے ظاہر کر دیا ہے۔۔ وجہ آپ معلوم کریں ثمینہ کو دو چار دن تھانے میں رکھیں ۔ سب کچھ اگل دے گی۔۔
میں نے ضروری باتیں نوٹ کرکے اسے باہر بھیج دیا۔۔ اور چودھری کو اندر بلا کر کہا ۔۔ چوہدری صاحب آپ نے کہا تھا کہ قاتل باہر ہی سے آیا کرتے ہیں ۔۔ مگر آپ کی بیوی کا خیال ہے کہ قاتل اندر کا کوئی آدمی ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

ملک صاحب۔۔۔۔ میرا تو دماغ ہی نہیں کام کر رہا ۔۔۔اس نے کہا ۔۔ سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ میں ابھی ثمینہ سے بات کر رہا تھا۔۔ مگر وہ کوئی جواب ہی نہیں دیتی۔۔۔ بس روئے چلی جارہی ہے ۔۔ میری بیٹی کو بھی اسی پر شک ہے۔۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا ہے کہ وہ ثمینہ سے اگلوانے کی کوشش کرے۔۔۔۔
میں نے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔یہ کام آپ کے بس کا نہیں ہے۔۔ تفتیش کرنا ہمارا کام ہے ۔۔۔ اپنی بہو کو یہاں بلائیں ۔۔۔
اس نے برآمدے میں جاکر اپنی بیوی کو آواز دی۔۔ اور کہا کہ ثمینہ کو بیٹھک میں بھیج دے۔۔
چند ساعت کے بعد صابرہ بی بی ثمینہ کو لیتے ہوئے بیٹھک میں داخل ہوئی۔۔ اس نے ثمینہ کا بازو پکڑ رکھا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ثمینہ کی مرضی کے خلاف اسے کھینچ کر لا رہی ہے ۔۔دوسری طرف سے ایک نوجوان لڑکی نے ثمینہ کو پکڑ رکھا تھا ۔۔ وہ بھاری جسم اور موٹے نقوش والی ایک بد مزاج سی لڑکی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی تنگ پیشانی تھی۔ اور تیوری چڑھی ہوئی تھی۔۔

اس کے مقابلے میں ثمینہ ایک حسین اور دبلی پتلی لڑکی تھی۔ اس کی رنگت سرخ و سپید اور عمر اٹھارہ انیس سال کے لگ بھگ تھی ۔۔ اس کے گھنے سیاہ بال کھلے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور غم سے نڈھال ہو رہی تھی۔۔۔
تھانے دار صاحب اس کے رونے دھونے پر نہ جائیں۔ صابرہ بی بی نے کہا۔۔۔یہ مکر کر رہی ہے۔۔اس کو ذرا دبکا شبکا لگائیں۔۔ایک منٹ میں سب کچھ اگل دے گی۔۔
بی بی آپ مجھے طریقے نہ سمجھائیں مجھے سارے طریقے آتے ہیں۔۔مجھے اپنے طریقے سے کام کرنے دیں اور اس کو چھوڑ دیں۔یہ کہیں نہیں جا سکتی۔۔۔

دونوں عورتوں نے لڑکی کو چھوڑ دیا۔۔وہ وہیں پر بیٹھ گئی اور گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی۔۔۔
میں نے چوہدری سے کہا۔۔فی الحال اسے کسی الگ کمرے میں بٹھا دیں اور گھر میں سب کو یہ بتا دیں کہ کوئی شخص اس کے ساتھ سوال جواب نہ کرے۔۔۔
یہ اچھی زبردستی ہے۔۔۔صابراں نے غصے سے کہا۔۔۔میرا پتر قتل ہو گیا ہے اور ہم سوال جواب بھی نہ کریں۔۔
قانون یہی کہتا ہے چوہدرانی۔۔میں نے کہا۔۔جرم کی تفتیش کرنا پولیس کا کام ہے اگر آپ کو کچھ معلوم ہے تو آپ مجھے بتائیں۔۔
وہ بڑ بڑاتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی۔۔

چوہدری نے میری ہدایت کے مطابق ثمینہ کو الگ کمرے میں بٹھا دیا ۔۔
میں نے دوبارہ سوالات کا سلسلہ شروع کیا ۔۔چوہدری صاحب! آپ نے اپنی بیوی کی باتیں سن لی ہیں ۔۔اب آپ اپنی بات کریں۔کیا آپ کو بھی اپنی بہو پر شک ہے۔۔۔؟
شک والی بات تو ہے۔۔ اس نے جواب دیا ۔۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بندہ قتل ہوجائے اور ساتھ والے بستر پر سونے والے کو خبر تک نہ ہو۔ جاگنے کے بعد بھی پتہ نہ چلے۔۔۔
کیا آپ کو یقین ہے کہ ثمینہ گزشتہ رات برآمدے میں سوئی تھی۔۔؟
ہر روز ہی برآمدے میں سوتی ہے ۔۔۔

روزانہ کی بات نہیں کریں۔۔کل رات کی بات بتائیں۔۔؟
میں نے تو نہیں دیکھا ۔مگر سب کہتے ہیں کہ وہ گزشتہ رات برآمدے میں سوئی تھی۔۔۔۔
اس بات کو چھوڑیں۔۔ اسے میں چیک کرلونگا۔۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا آپ کی بہو کا اپنے شوہر سے کوئی تنازع چل رہا تھا۔۔۔؟

تنازع تو کوئی خاص نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔دو چار روز پہلے دونوں میں کوئی جھگڑا ہوا تھا ۔۔ثمینہ میکے جانا چاہتی تھی۔ نیازعلی نے اسے اجازت دے بھی تھی لیکن شام کو ثمینہ نے میکے جانے سے انکار کر دیا۔۔ اس پر نیاز علی کو بڑا غصہ آیا اور دونوں میں تو تکار ہو گئی۔۔۔
کیا آپ کے خیال میں اتنی سی بات پر کوئی عورت اپنے شوہر کو قتل کر سکتی ہے۔۔۔؟
اگر یہ بات آپ کسی اور موقع پر پوچھتے تو میں انکار میں جواب دیتا لیکن میرے بیٹے کی لاش باہر پڑی ہے ۔۔میں کیسے اپنی بہو کو باغی قرار دے سکتا ہوں۔۔
چوہدری صاحب! بندے کے سو سجن ہوں تو دو چار دشمن بھی ہوتے ہیں۔آپ کسی اور دشمن کے بارے میں بھی سوچیں۔۔
میں ضرور سوچوں گا۔۔ لیکن ایک بات اور بھی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ۔۔ یہ شادی نیاز علی کی پسند سے ہوئی تھی۔ اس نے ثمینہ کو کہیں دیکھ لیا تھا اور ضد کر کے شادی کی تھی۔۔ ثمینہ۔ نیازعلی سے عمر میں آدھی ہے۔۔ یہ اس شادی پر راضی نہیں تھی۔۔ اس نے کہیں اور آنکھیں لڑا رکھی تھیں۔۔ نیاز علی نے ثمینہ کے بھائی رفیق سے بات کی اور رفیق نے بہن کو سمجھا بجھا کر شادی کے لیے راضی کیا۔۔
میں نے کہا ۔۔اور رفیق اس لیے راضی ہو گیا تھا کہ آپ نے اس سے اپنی بیٹی دینے کا وعدہ کرلیا تھا۔۔۔
یہ بات بعد میں ہوئی تھی۔۔اور یہ الگ معاملہ ہے ۔۔ثمینہ نے اگر خود نیاز علی کو قتل نہیں کیا تو کسی سے کروایا ہے۔۔ آپ اس لڑکی کی شکل و صورت پر نہ جائیں۔ ایسی خوبصورت لڑکیاں اندر سے بہت خطرناک ہوتی ہے۔۔ ثمینہ نے میرے بیٹے کو کبھی اپنا خاوند تسلیم نہیں کیا تھا۔۔ یہ شروع سے موقع کی تاک میں تھی۔۔۔
اس کی بات میں خاصا وزن تھا۔۔اب دیکھنے والی بات یہ تھی کہ اس الزام میں کہاں کا حقیقت تھی اور وہ کون تھا جس سے ثمینہ نے آنکھ لڑا رکھی تھی۔۔
میں نے پوچھا ۔۔چوہدری صاحب کیا آپ اس نوجوان کا نام بتا سکتے ہیں جس سے ثمینہ نے آنکھ لڑا رکھی تھی۔۔
میں اپنے بیٹے سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔۔ اس نے کہا پھر صفدر علی کو اندر بلایا اور اس سے ثمینہ کے مبینہ آشنا کا نام پوچھا۔۔
وہ لوہاروں کا بیٹا چھیما نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ صفدر علی نے جواب دیا۔۔ اس کے ساتھ تھا اس کا چکر۔۔
صحیح نام کیا ہے اس کا۔۔؟۔ میں نے پوچھا۔۔
نام تو سلیم مگر سب چھیما لوہار کہتے ہیں۔۔
میں نے سلیم عرف چھیما لوہار کا پتا نوٹ کیا۔پھر پوچھا۔۔گھر میں اس وقت کتنے افراد ہیں۔۔؟
گھر میں اس وقت بچوں کے علاوہ چھ افراد ہیں۔۔ چوہدری نے جواب دیا ۔۔چار سے تو آپ مل چکے ہیں۔۔ ان کے علاوہ میری ایک چھوٹی بہو اور بیٹی ہے۔۔۔ دو ملازم ان کے علاوہ ہیں۔۔
ملازموں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔۔
ہمارے ملازم ایسے نہیں ہیں۔۔۔
پھر بھی میں ملازموں سے بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔۔میں نے کہا۔۔۔ لیکن پہلے آپ چھوٹی بہو اور بیٹی کو بلائیں۔۔
صفدر علی اندر جا کر دونوں کو بلا لایا۔۔
میں نے پوچھا۔۔کیا تم رفیق کی بیوی ہو۔۔۔؟
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
یہاں آئے ہوئے کتنے دن ہوئے۔۔۔؟
چار دن۔۔۔۔
کیا تم راضی خوشی یہاں آئی ہو ۔؟
اس نے برا سا منہ بنا کر کہا۔۔۔ کبھی کوئی عورت راضی خوشی بھی خاوند کا گھر چھوڑ دیتی ہے ۔۔؟
میں نے اندازہ لگایا کہ وہ زبان کی تیز اور قدر احمق تھی۔۔۔ یہ تو تم سچ کہتی ہو۔۔۔۔ میں نے اس کی تائید کی۔۔ پھر پوچھا۔۔
خاوند سے جھگڑا کس بات پر ہوا تھا۔۔؟
فساد کی جڑ میری ساس ہے۔۔ رفیق اس کے اشاروں پر چلتا ہے۔۔ وہ خود تو ہر وقت بستر پر پڑی رہتی ہے۔۔ اور چاہتی ہے کہ میں سارا دن اس کے گند دھوتی رہوں۔ ہانڈی روٹی کروں برتن دھوؤں صفائی کروں۔ کپڑے دھوؤں۔ کیا کروں انسان ہوں کوئی حیوان تو نہیں۔۔۔۔۔ اس پھاپے کٹنی کو بھی کچھ کرنا چاہیے یا نہیں ۔۔۔۔۔انسان کو انصاف کی بات کرنا چاہیے۔۔ ۔ اس دن میں نے کھانے کے بعد اپنی ساس کو برتن دھونے کے لیے کہہ دیا۔۔بس ۔۔۔۔۔اتنی سی بات پر رفیق نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔۔ کہنے لگا میں ہوتی کون ہو اس کی ماں کو کام کا کہنے والی۔۔۔ ماں بھی بک بک کرنے لگی۔۔ میں نے کہا مجھ سے یہ اتنا بڑا ٹبر نہیں سنبھالا جاتا۔۔۔ ماں کا بہت خیال ہے تو نوکر رکھ لو۔۔
میں نے پوچھا گھر میں نوکر کوئی نہیں ہے۔۔۔؟
ہونہہ۔۔۔۔۔نوکر۔۔!اس نے نخوت سے کہا۔۔۔۔ہانڈی کونڈی چاٹ کر گزارہ کرنے والے کیا خاک نوکر رکھیں گے۔زمینوں کی ساری کمائی تو وہ جوئے میں ہار جاتا ہے۔۔
تمہارا مطلب ہے کہ رفیق جوا کھیلتا ہے۔۔؟
جوا بھی کھیلتا ہے اور کبھی کبھی نشہ بھی کرتا ہے ۔۔ نیاز بھائی کی اس سے وہیں پر دوستی ہوئی تھی۔۔
وہ بے خیالی میں ایسی بات کہہ گئی تھی جو شاید ویسے نہ بتاتی۔۔ یعنی یہ کہ اس کا مقتول بھائی بھی جوا کھیلتا تھا۔۔۔
میں نے پوچھا۔۔۔ کیا تمہارے جھگڑے کا اثر تمہاری بھرجائی پر بھی پڑتا ہے۔۔۔؟
نہیں جی۔۔ میرا بھائی بہت شریف آدمی تھا۔۔ وہ ثمینہ کو بہت خوش رکھتا تھا۔۔ اب یہی دیکھ لیں ،میں چار پانچ روز سے یہاں پڑی ہوں۔۔ اگر نیاز بھائی غیرت۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ایسا ویسا آدمی ہوتا تو اس روز ثمینہ کو نکال باہر کرتا۔۔۔
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔۔۔
وٹے سٹے کی شادی میں یہی کچھ ہوتا ہے جی۔۔۔
تمہارے خیال میں نیاز علی کے قتل میں کس کا ہاتھ ہے۔۔؟
ثمینہ کا۔۔۔ اور کس کا۔۔ اس نے کھٹ سے جواب دیا۔۔
میں اس کی بھابھی کی طرف متوجہ ہوا۔۔ کہنے کو وہ چھوٹی بھابھی تھی۔۔ لیکن عمر میں ثمینہ سے پانچ چھ سال بڑی لگتی تھی۔۔ اس کا نام صادقہ تھا۔۔ وہ کھلتے ہوئے رنگ کی ایک خود شکل عورت تھی۔۔ مگر ثمینہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔۔
میرے سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ وہ شور سن کر اٹھ گئی تھی ۔۔ اور اس سے زیادہ اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ عشرت کے سامنے کھل کر بات کرتے ہوئے گھبرا رہی تھی۔۔ پس میں نے عشرت کو واپس بھیج دیا۔۔ اور اس سے پوچھا کہ ثمینہ گزشتہ رات کہاں سوئی تھی۔۔؟
مجھے پکا پتا نہیں جی۔۔۔۔ اس نے جواب دیا۔۔۔ پرسوں میاں بیوی میں بہت جھگڑا ہوا تھا ۔۔اس لیے ہو سکتا ہے کہ ثمینہ اندر کمرے میں سو گئی ہو۔۔
کیا پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔۔۔؟
ہاں جی ۔۔۔جس دن میاں بیوی میں ناراضگی ہوتی تھی۔۔ اس رات ثمینہ الگ سوتی تھی ۔۔۔
جھگڑا کس بات پر ہوا تھا؟
بھائی نیاز ثمینہ کو میکے بھیجنا چاہتے تھے۔۔ مگر وہ جانے پر تیار نہیں تھی۔۔
کیا وہ خوشی سے بھیجنا چاہتا تھا یا ناراضگی سے۔۔۔؟
خوشی سے بھیجتا تو وہ فوراً چلی جاتی۔۔
میرے استفسار پر اس نے جھگڑے کی کچھ تفصیل بتائی۔یہ تفصیل میں آپ کو ثمینہ کے بیان کے ساتھ ملا کر کے بتاؤں گا۔۔ تفصیل ایک ہی ہے لیکن بتانے والے دو ہیں۔۔
میں نے صادقہ سے پوچھا۔۔کیا نیاز علی ثمینہ کو مارتا تھا۔۔
تو اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا ۔۔ عورتیں ہوتی ہی مار کھانے کے لیے ہیں۔ جی۔۔۔ مار تو مجھے بھی پڑتی ہے۔۔ لیکن ثمینہ کی قسمت تو کچھ زیادہ ہی خراب تھی ۔ جس روز میری نند اپنے خاوند سے ناراض ہوکر گھر آتی تھی۔اس روز ثمینہ کی کمبختی آ جاتی تھی۔۔ ادھر عشرت منہ پھیلائے گھر میں داخل ہوئی ادھر بھائی نیاز نے جوتا اتارا ۔۔۔میرا نام نہیں لینا جی ۔۔۔ان لوگوں میں تکبر بہت ہے ۔۔ اس نے مجھے اور بھی بہت کچھ بتایا تھا مگر اس کہانی کا ان باتوں سے زیادہ تعلق نہیں ہے۔۔ اس لیے انہیں چھوڑتا ہوں۔۔
صادقہ کو فارغ کرنے کے بعد میں نے ثمینہ کو بیٹھک میں بلایا اور کہا ۔۔۔،،ثمینہ بی بی ،، اس کمرے میں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ تم جو کچھ بتاؤ گی وہ مجھ تک رہے گا۔۔اس لیے کوئی بات چھپانے کی کوشش نہ کرنا۔۔۔
وہ سسکیاں لیتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔ اور سر جھکا کر کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔۔اس کا چہرہ کھلے ہوئے بالوں نے چھپا رکھا تھا۔۔
میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا مجھے معلوم ہے کہ پرسوں تمہارا اپنے خاوند سے جھگڑا ہوا تھا یہ جھگڑا کس وجہ سے ہوا تھا۔۔؟
اس نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹائے اور بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔ یہاں تو جی روزانہ ہی جھگڑا ہوتا ہے ۔۔سارا قصور میرے بھائی کا ہے جس نے جانتے بوجھتے ہوئے ۔۔ مجھے اس جہنم میں ڈالا۔۔
میرے سوالات کے جواب میں اس نے جو واقعہ بتایا وہ میں اپنے الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔۔اس میں صادقہ کی بیان کردہ تفصیل بھی شامل ہے۔۔
ثمینہ نے بتایا کہ اس کی نند عشرت ایک کام چور اور منہ پھٹ عورت تھی۔۔ثمینہ کا بھائی اس سے دب کر رہتا تھا۔اور اس سے کسی کام کے لئے نہیں کہتا تھا ۔اس کے باوجود عشرت جلتی کڑھتی رہتی تھی۔ اور اپنی ساس یا اپنے خاوند سے لڑجھگڑ کر میکے آ جاتی تھی۔۔اس کے گھر میں قدم رکھتے ہیں نیاز علی کے سر پر شیطان سوار ہو جاتا۔۔ اور وہ اسے یعنی ثمینہ کو مار پیٹ کر گھر سے نکال دیتا۔۔
ثمینہ اپنے گھر جا کر بھائی کی منت سماجت کرتی اور اسے مجبور کرتی کہ جا کر اپنی بیوی کو منا کر لائے۔۔
چار روز پہلے عشرت ٹسوے بہاتی ہوئی گھر آئی اور یہ اعلان کردیا کہ اب وہ اپنے سسرال نہیں جائے گی۔۔
نیاز علی شام کو گھر آیا۔۔ بہن کی باتیں سنیں اور حسب عادت اپنی بیوی پر برسنا شروع ہوگیا۔۔
ثمینہ اسی وقت اپنے گھر گئی اور دو گھنٹے تک اپنے بھائی کو سمجھاتی رہی۔ لیکن وہ جھکنے پر تیار نہیں ہوا ۔۔
میں اس عورت سے تنگ آچکا ہوں۔ اس نے کہا۔ یہ گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی۔۔ کسی کی عزت نہیں کرتی۔۔ ہر وقت شہزادیوں کی طرح پلنگ پر پڑی رہتی ہے ۔۔نہ ماں کی عزت کرتی ہے ۔نہ میری عزت کرتی ہے۔۔ میں کب تک اسے منا کر لاتا رہوں گآ۔ اب میں نہیں جاؤں گا ۔۔ وہ خود آنا چاہے تو دروازہ کھلا ہے۔۔
ماں نے بھی بیٹے کی تائید کی۔۔یہ ہماری نرمی کا نتیجہ ہے کہ یہ لڑکی ہر دوسرے روز ہمارے سروں میں خاک ڈال کر گھر سے نکل جاتی ہے ۔۔۔ پہلے ہی روز سختی کرنا چاہیے تھی۔۔
ثمینہ نے پوچھا۔۔میرا کیا بنے گا۔۔۔؟
اگر تو نباہ کر سکتی ہے تو واپس چلی جا ۔۔۔ ورنہ ادھر ہی بیٹھ ہم بھوکے ننگے نہیں ہیں۔۔
ثمینہ ایک رات گھر میں رہ کر واپس چلی گئی اور سسرال والوں کو اپنے بھائی کا جواب بتا دیا۔۔
ساس نے طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔۔ تیرا بھائی اتنی اونچی ناک والا کب سے ہو گیا۔۔۔؟
ثمینہ کچھ نہیں بولی۔۔
بولتی کیوں نہیں ساس نے غصے سے کہا ۔۔اگر وہ نہیں آیا تو تو کیا لینے آئی ہے یہاں۔۔۔؟
ماں جی۔۔ میں اپنے بھائی کی حرکتوں کی ذمہ دار نہیں ہوں۔یہ میرا گھر ہے ۔میری عزت ہے ۔مجھے اور کہاں جانا ہے۔۔؟
سن رہے ہو اس کی بکواس۔۔؟ صابرہ بی بی نے بیٹے سے کہا۔۔ یہ اپنے بھائی کو پٹی پڑھا کر آئی ہے۔۔ اس سے کہہ دو کہ جب تک رفیق یہاں آکر معافی نہیں مانگے گا ۔۔ اس وقت تک یہ اس گھر میں نہیں رہ سکتی ۔۔
ماں جی ۔۔میں قسم کھاتی ہوں ۔۔میں نے اپنے بھائی کو کوئی پٹی نہیں پڑھائی۔ وہ تو ہر دفعہ ہی بھابھی کو منا کر لے جاتا تھا اب وہ نہیں آتا تو میں کیا کروں۔۔؟
یہ سنتے ہی نیاز علی نے ثمینہ کے منہ پر تھپڑ مارا اور بالوں سے پکڑ کر دروازے کی طرف گھسیٹا۔۔زبان چلاتی ہے میری ماں کے سامنے نکل جا ہمارے گھر سے۔۔۔
ثمینہ نے بتایا کہ وہ نیازعلی کے پیروں میں گر پڑی اور اس کی منت سماجت کرنے لگی کہ اسے گھر سے نہ نکالے۔ اس پر نیاز علی نے اسے دو لاتیں رسید کی اور دوبارہ گھر سے نکلنے کا حکم دیا۔۔
مجھے جان سے مار ڈالو۔۔میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دو لیکن میں اس گھر سے نہیں نکلوں گی۔۔
نیاز علی نے اسے بالوں سے پکڑا اور کھینچتا ہوا باہر گلی میں لے گیا ۔۔ اس گھر میں تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔۔ اس نے کہا۔۔
اور دروازہ بند کر دیا۔۔۔
ثمینہ نے بھی تہیہ کر لیا تھا کہ اب وہ میکے نہیں جائے گی۔اسی دروازے پر جان دے دے گی۔۔ اس نے بتایا وہ ڈھائی تین گھنٹے تک دروازے پر بیٹھی روتی رہی ۔۔ بالآخر محلے والوں نے اس کے سسر کو سمجھایا اور وہ اسے اندر لے گیا۔۔
اس روز نیاز علی نے اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کی ۔۔اور رات کو دیر سے گھر آیا ۔۔
ثمینہ نے مجھے بتایا کہ اگلی صبح نیازعلی کا رویہ اچانک اچھا ہوگیا۔۔ ناشتے کے بعد وہ اسے الگ کمرے میں لے گیا۔۔ اور کہا۔۔ ثمینہ ماں جی مجھ سے بہت ناراض ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب تک عشرت اپنے گھر نہیں چلی جاتی ۔۔اس وقت تک تم یہاں نہیں رہ سکتیں۔۔
میرا کوئی قصور بھی تو ہو۔۔۔
تمہارا قصور یہ ہے کہ تم رفیق کی بہن ہو۔ اگر ہماری بہن اس گھر میں خوش نہیں رہ سکتی تو اس کی بہن ہمارے گھر میں کیسے خوش رہ سکتی ہے۔ تم ایسا کرو کچھ روز کے لئے اپنے میکے چلی جاؤ۔۔
اگر آپ مجھے راضی خوشی بھیجتے ہیں تو میں چلی جاؤں گی ۔میں خود تمہیں چھوڑ کر آؤں گا ۔۔ ماں جی کو بھی تو راضی رکھنا ہے ۔ چار چھ روز کے بعد میں تمہیں واپس لے آؤں گا۔یہ میرا وعدہ ہے۔۔
ہر چند کہ ثمینہ کو نیاز علی کی باتوں میں فریب محسوس ہو رہا تھا۔۔ تاہم وہ میکے جانے پر آمادہ ہو گئی ۔۔ اس نے اپنے خدشات کو ذہن سے جھٹک دیا۔۔ اور یہی توقع رکھی کہ اس کے شوہر کا یہ رویہ اصلی ثابت ہوگا۔۔
میں تمہیں رات کے کھانے کے بعد تمہارے میکے چھوڑ آؤں گا۔۔ نیازعلی نے مزید کہا اپنی چیزیں تیار رکھنا۔۔ ثمینہ کو یہ بات بہت عجیب لگی۔۔ اس نے پوچھا رات کے کھانے کے بعد کیوں اس وقت تو بہت اندھیرا ہو جاتا ہے۔۔۔
نیاز علی تعامل کرتے ہوئے بولا۔۔ میں گھر والوں سے یہ بات پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں۔۔ اگر ماں جی کو یہ پتہ چلا کہ میں خود تمہیں چھوڑنے گیا تھا تو وہ ناراض ہوں گی۔۔ اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔۔ میں پہلے نکل جاؤں گا اور پرائمری اسکول کے پاس رک کر تمہارا انتظار کروں گا۔۔
پرائمری اسکول ان کے گھر سے تقریباً دو سو قدم کے فاصلے پر تھا۔۔
ثمینہ کو یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا مگر وہ شوہر کی خوشنودی کی خاطر راضی ہو گئی۔۔۔
ثمینہ نے بتایا کہ دوپہر کے قریب حشمت بی بی نامی ایک عورت اس کی ساس سے ملنے آئی اور تقریبا ایک گھنٹہ اس کے ساتھ باتیں کرتی دہی۔۔حشمت بی بی کے شوہر کا نام شمشیر خان تھا اور وہ خاصا بدنام شخص تھا۔۔وہ کئی غیر قانونی کام کرتا تھا۔۔مگر پولیس میں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا اور نہ ہی کبھی اسے گرفتار کیا گیا تھا۔وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ پولیس کے لیے مخبری کرتا تھا اور اس کی وجہ سے کئی مشکل کیس حل ہوٸے تھے۔اس کے غیر کاموں میں جوئے کا کاروبار بھی تھا ۔۔
بہرحال یہاں اس کی بیوی حشمت بی بی کا ذکر ہو رہا تھا ۔حشمت بی بی بھی خاصی ہوشیار اور شاطر عورت تھی۔۔صابرہ بی بی سے ایک گھنٹہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ بظاہر خیر خیریت پوچھنے ثمینہ کے کمرے میں چلی گئی۔۔ثمینہ اس وقت اپنے کمرے میں اکیلی تھی۔۔
حشمت بی بی نے رسمی کلمات کے بعد کہا۔۔۔میں تمہیں ایک بہت ضروری بات بتانے آئی ہوں لیکن پہلے وعدہ کرو کہ میرا ذکر نہیں کرو گی۔۔۔
ثمینہ نے وعدہ کیا۔۔
حشمت بی بی نے کہا۔۔آج رات تمہارا خاوند کسی بہانے تمہیں باہر لے جانا چاہے گا۔۔۔
ثمینہ نے حیرانی سے پوچھا۔۔تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی۔۔؟۔ یہ مت پُوچھو۔۔۔حشمت بی بی نے کہا۔۔میں تمہیں صرف یہ بتانے آئی ہوں کہ آج رات گھر سے باہر قدم نہ نکالنا۔۔جان دے دینا پر گھر سے باہر قدم نہ نکالنا ۔۔اگر تم گھر سے نکلیں تو پھر زندگی بھر واپس نہیں آ سکو گی۔۔۔
ثمینہ گھبرا کر بولی۔۔ماسی بات کیا ہے۔۔؟
عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔۔۔حشمت بی بی نے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔۔۔
ثمینہ کے جی میں سارا دن ہول اٹھتے رہے۔ رات کے کھانے کے بعد جب سب لوگ سونے کی تیاری کرنے لگے تو نیاز علی نے ثمینہ سے کہا۔۔۔میں پرائمری اسکول کی طرف جا رہا ہوں۔تم میرے جانے کے دس منٹ بعد وہاں پہنچ جانا۔۔
ثمینہ خوف کی وجہ سے انکار نہ کر سکی۔نیاز علی نے پچھلا دروازہ کھولا ۔اور دبے پاؤں باہر نکل گیا۔۔ثمینہ یہ دیکھ رہی تھی کہ اس کی حرکات و سکنات پراسرار تھیں۔ پتا نہیں وہ کس ارادے سے اسے پرائمری اسکول میں بلا رہا تھا۔شاید اس کی نیت صاف نہیں تھی اور وہ اسے قتل کرنا چاہتا تھا۔۔حشمت بی بی کی باتوں سے بھی یہی نتیجہ نکلتا تھا۔۔۔
نیاز علی کے جانے کے بعد ثمینہ نے دروازہ بھیڑ دیا اور جان بچانے کی کوئی تدبیر سوچنے لگی لیکن اس کی سوچ ساتھ نہیں دے رہی تھی۔وہ دو تین مرتبہ اپنی ساس اور نند کے کمرے تک گئی اور واپس آ گئی۔ ۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس کو اپنی پریشانی بتائے۔۔چوتھی مرتبہ وہ اس ارادے سے اس کے کمرے کی طرف گئی کہ اپنی پریشانی کا اظہار کئے بغیر واپس نہیں آئے گی ۔۔لیکن دروازے کے قریب پہنچ کر اس کی ہمت ایک بار پھر جواب دے گئی۔۔ اسے معلوم تھا کہ نیازعلی اس وعدہ خلافی پر طوفان کھڑا کر دے گا۔
ساس کے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا بھڑا ہوا تھا اور اندر سے ساس سسر کی باتوں کی آواز آرہی تھی ۔ثمینہ متذبذب انداز میں دروازے کے قریب کھڑی تھی کہ اس نے اپنے سسر کو یہ کہتے سنا۔۔۔اب تو جوڑوں میں درد رہنے لگا ہے اولاد سے تو اتنا بھی نہیں ہوتا کہ کبھی پیر ہی دبا دیں۔۔
بہو کو آواز دے کر بلا لو ۔۔۔۔صابرہ بی بی نے کہا۔۔۔ نیاز علی تو کہیں نکل گیا ہوگا۔۔
ثمینہ نے یہ موقع غنیمت جانا اور جلدی سے دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔۔ اباجی لائیں میں آپ کے پیر دبا دیتی ہوں۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔ اور چارپائی کی پٹی پر بیٹھ کر کے پیر دبانے لگی۔۔۔ میں ادھر سے گزر رہی تھی تو آپ کی آواز میرے کان میں پڑ گئی۔۔
ثمینہ تقریبا ایک گھنٹے تک سسر کے پیر دباتی رہی۔۔ جب کمرے سے باہر نکلی تو اس نے دیکھا کہ نیازعلی برآمدے میں اپنی چارپائی پر لیٹا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔۔ ثمینہ کو دیکھ کر تیزی سے اٹھ بیٹھا اور سرسراتی ہوئی آواز میں پوچھا ۔۔،،تو گئی نہیں،،
یہ سوال سنتے ہیں ثمینہ سمجھ گئی کہ پرائمری اسکول میں کوئی اور شخص اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ اگر نیاز علی اس کا انتظار کر رہا ہوتا تو یہ سوال کبھی نہ کرتا۔۔۔
،،میں گئی تھی،، ثمینہ نے جھوٹ بولا۔۔۔ وہاں آپ ہی نہیں آئے اس لئے میں واپس آ گئی۔۔
،،اچھا،،۔ نیاز علی آنکھیں گھما کر سوچنے لگا۔۔،،وہاں کوئی اور بھی نہیں تھا،،
،،مجھے کسی اور سے کیا واسطہ،،ثمینہ نے قدرے ہمت سے کہا۔۔آپ نظر نہیں آئے تو میں واپس آ گئی۔۔
ادھر اباجی کے کمرے میں کیا کر رہی تھی؟
ابا جی کے پیر دبا رہی تھی۔۔
تم نے اباجی کو تو نہیں بتا دیا؟
آپ کی اجازت کے بغیر کیسے بتا سکتی ہوں۔۔ ثمینہ نے کہا۔۔ پھر قدرت توقف کے بعد بولی۔۔۔ میرا میکے جانے کو جی نہیں کرتا لیکن اگر آپ کی یہی مرضی ہے تو میں صبح چلی جاؤں گی۔۔۔ رات کو جانا اچھا نہیں لگتا۔۔۔
زیادہ بک بک نہ کر۔ جو میں کہوں گا وہی کرنا پڑے گا۔۔جا جا کے سو جا۔۔۔
رات خیریت سے گزر گئی۔۔
اگلی رات یعنی واردات والی رات نیاز علی نے ثمینہ کو میکے جانے کے لیے نہیں کہا۔۔ تاہم ثمینہ ڈری ہوئی تھی۔۔تقریبا دس بجے وہ اپنی ساس کی کمرے سے نکلی۔۔ اس وقت سارا گھر سو چکا تھا ۔۔نیازعلی بھی سو رہا تھا ۔۔ثمینہ کچھ دیر تک اپنی چارپائی پر بیٹھی سوچتی رہی۔ ۔ گزشتہ دو روز سے اس کے شوہر کا رویہ عجیب سا تھا ۔۔ پھر اسے حشمت بی بی کی بات یاد آئی کے اگر وہ گھر سے نکلی تو زندگی بھر واپس نہیں آ سکے گی۔۔۔ پتا نہیں۔۔ اس کا شوہر کیا منصوبہ بنا رہا تھا ۔۔؟ اس کے دل میں یہ خیال بار بار آتا تھا کہ نیازعلی اسے قتل کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔۔ اچانک اسے نیازعلی سے خوف سا محسوس ہونے لگا ۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور اندر جا کر سو گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی بات ختم ہوئی تو میں نے کہا۔۔۔ ثمینہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اس سے تمہاری پوزیشن اور زیادہ خراب ہو گئی ہے۔۔ جیسا کہ تم نے کہا تمہیں یقین ہو گیا تھا کہ نیازعلی تمیں ٹھکانے لگانا چاہتا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر میں یہ سوچ سکتا ہوں کہ تم نے اپنی حفاظت کے خیال سے نیاز علی کو قتل کر دیا تھا یا کروا دیا تھا۔۔۔
تھانے دار صاحب ۔۔ میں نے ساری بات سچ مچ آپ کو بتا دی ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ مجھے مجرم سمجھتے ہیں تو بڑی خوشی سے گرفتار کر لیں ۔۔۔
وہ لڑکی مضبوط ارادے کی مالک معلوم ہوتی تھی۔۔ میں نے اس ساری تفتیش سے اندازہ لگایا کہ نیاز علی کے قتل کا محرک انہیں واقعات کے اندر کہیں پوشیدہ ہے ۔۔
گھر کے افراد کے بیانات سننے کے بعد میں نے ملازموں سے بھی پوچھ گچھ کی۔۔ وہ مسکین اور کمزور افراد تھے ۔اور ارتکاب قتل کے قابل نہیں لگتے تھے وہ اپنی کھولی میں سوئے ہوئے تھے اور قتل کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔۔
ضابطے کی تفتیش مکمل کرنے کے بعد میں نے خون آلود بستر اپنی تحویل میں لے لیا۔۔ اور لاش پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دی۔۔۔۔
ثمینہ اور صادقہ کے بیانات سے ایک یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ نیازعلی اور رفیق جوا کھیلتے تھے ۔۔ ثمینہ کے بیانات میں شمشیر خان اور اس کی بیوی حشمت بی بی کا ذکر آیا تھا ۔۔ شمشیر خان جوئے کا اڈہ چلاتا تھا۔۔ اس اعتبار سے نیازعلی رفیق اور شمشیر خان میں جوا قدر مشترک تھا ۔۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ شمشیر اور اس کی بیوی کا اس معاملے سے کیا تعلق تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تھانے پہنچ کر میں نے ایک حوالدار سے کہا کہ وہ شمشیر کو تھانے بلا لائے ۔۔ پھر خود رفیق سے ملنے کے لیے روانہ ہو گیا۔۔
وہ چوہدری منصب علی کے گھر گیا ہوا تھا اور میری آمد سے تھوڑی دیر پہلے واپس پہنچا تھا ۔۔ اس نے مجھے بیٹھک میں بٹھایا۔۔۔
میں تم سے چند باتیں کرنے آیا ہوں ۔۔نیاز علی کے قتل کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔؟
جناب ۔۔۔ میں کیا بتا سکتا ہوں۔۔۔ اس نے جواب دیا۔۔۔ میں تو اس کی بہن سے شادی کر کے پچھتا رہا ہوں۔۔
اچھا۔۔۔۔اس پچھتاوے کی وجہ کیا ہے۔۔۔؟
اس نے عشرت کی بدزبانی اور کام چوری کی لمبی چوڑی تفصیل بتانے کے بعد کہا ۔۔ جناب۔۔۔انسان شادی اس لیے کرتا ہے کہ اسے کچھ سکون ملے گا لیکن میری بیوی نے ہمارا اپنا سکون بھی چھین لیا ہے۔۔ کسی چھوٹے بڑے کی عزت نہیں کرتی۔۔ انسان کو کھڑے کھڑے بےعزت کر دیتی ہے۔۔۔ ہر وقت اپنے باپ کی دولت کی کہانیاں سناتی ہے۔۔ کام کو بالکل ہاتھ نہیں لگاتی۔ میری ماں کو نوکرانی سمجھتی ہے۔ اس پر حکم چلاتی ہے۔اگر میری بہن ثمینہ کا معاملہ بیچ میں نہ ہوتا تو میں اسے کب کا طلاق دے چکا ہوتا۔۔۔۔
میں نے پرخیال لہجے میں کہا ۔۔۔ اب تو بہن کا معاملہ بیچ میں سے نکل گیا ہے ۔۔
لیکن یہ اچھا نہیں ہوا۔۔
تم گزشتہ رات کہاں تھے۔۔؟
اس نے چونک کر میری طرف دیکھا اسے پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ میں اس پر شک کر رہا ہوں۔۔۔۔،،
میں اپنے گھر میں تھا۔،،
میں نے کہا ۔۔ تمہیں یہ بات یقینا معلوم ہوگی کہ نیازعلی تمہاری بہن پر ظلم کرتا تھا۔ تم نے اسے اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے کیا کاروائی کی تھی۔۔؟
،،جناب،، میاں بیوی کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے۔خاص طور پر جب لڑکے والے اونچی حیثیت کے ہوں تو انسان بے بس ہو جاتا ہے۔۔ عشرت کی وجہ سے ثمینہ نے بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔۔ ہم نے اسے کئی بار یہ کہا تھا کہ وہ گھر میں بیٹھ جائے ۔۔مگر وہ نہیں مانتی تھی۔ کہتی تھی کہ اب اس کا جینا مرنا اسی گھر میں ہوگا۔۔ اور جہاں تک نیاز علی کا تعلق تھا تو وہ اس معاملے میں کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا ۔۔
میں نے پوچھا۔۔ یہ شادی کس طرح ہوئی تھی۔۔؟
اس نے مختصر سی تفصیل بتائی۔ بعد میں مجھے بعض دوسرے لوگوں کی زبانی اس ضمن میں مزید باتیں معلوم ہوئیں۔ میں یہ ساری تفصیل یکجا کر کے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔۔
مقتول نیازعلی ایک اوباش آدمی تھا ۔شراب اور جوا اس کے روزمرہ کے مشاغل میں شامل تھا۔ اس کے علاوہ بھی اس کے اندر بہت سی برائیاں تھیں۔ شمشیر خان کا اڈا اس کا خاص ٹھکانہ تھا۔ اس کی ان برائیوں کی وجہ سے کوئی شخص اس کو رشتہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا ۔۔ خود اسے بھی شادی کی کوئی جلدی نہیں تھی۔۔۔
رفیق بھی شمشیر کے اڈے پر جاتا تھا ۔مگر وہ ذرا محتاط تھا۔ ہفتے میں ایک آدھ بار ادھر جاتا تھا۔ جوا وہ بھی کھیلتا تھا مگر تھوڑے پیسے لگاتا تھا۔ تاہم بد نام وہ بھی تھا۔ اس کو بھی کوئی لڑکی نہیں دیتا تھا۔۔
یہاں پر میں نیاز علی کی بہن عشرت کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ جس طرح غریب کے گھر میں حسین لڑکی مسئلہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح امیر کے گھر میں بدصورت لڑکی مشکل کا باعث بنتی ہے ۔ دولت مند خاندان کی لڑکی کو اس کے معیار کا رشتہ ملنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اور جہاں تک عشرت کا تعلق تھا وہ صورت کے علاوہ سیرت سے بھی مار رہی تھی۔ بدمزاجی اور اکھڑ پن کی وجہ سے کوئی اچھا خاندان اس کا رشتہ قبول کرنے پر تیار نہیں تھا ۔۔
چوہدری منصب علی بیٹی کی وجہ سے بہت پریشان تھا ۔کیونکہ اس کی شادی کی عمر نکلتی جا رہی تھی۔ چودھری اکثر اپنے بیٹوں سے کہتا رہتا تھا کہ اس کے لئے کوئی مناسب رشتہ تلاش کریں۔۔
نیازعلی اپنے حال میں مست رہنے والا آدمی تھا ۔اس نے کبھی بہن کی پرواہ نہیں کی تھی۔ لیکن ایک روز اس نے رفیق کی بہن ثمینہ کو دیکھ لیا اور پہلی ہی نظر میں اس پر لٹو ہو گیا۔ پہلے اس نے لڑکی کو اپنے طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا ۔۔ اسی اثنا میں اسے پتہ چلا کہ ثمینہ رفیق کی بہن ہے ۔اور رفیق کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔۔
اگر وہ براہ راست ثمینہ کا رشتہ مانگتا تو شاید اسے کامیابی نہ ہوتی۔ اس لیے اس نے رفیق کی کمزوری پکڑی۔۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی طرح رفیق کی شہرت بھی اچھی نہیں ہے۔۔ اور کوئی اسے رشتہ نہیں دیتا۔۔
ایک شام نیازعلی رفیق کو ایک طرف لے گیا اور کہا۔۔
یار رفیق میں تمہارے ساتھ ایک بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔میں تمہاری شادی کے سلسلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔۔
شادی کی بات سن کر رفیق خوش بھی ہوا اور حیران بھی ۔۔۔
چوہدری تمہیں میری شادی کا خیال کیسے آ گیا۔۔۔؟
بات یہ ہے کہ میری ایک چھوٹی بہن ہے ۔۔نیاز علی نے کہا۔۔ بعض گھریلو مسئلوں کی وجہ سے اس کی وقت پر شادی نہیں ہو سکی۔۔ میرا مطلب ہے کہ اس کی عمر تھوڑی سی زیادہ ہوگئی ہے۔۔ میں تمہیں کافی عرصے سے جانتا ہوں تم سمجھدار اور شریف آدمی ہو۔۔
اچھی طرح سوچ لو میں جوا کھیلتا ہوں۔۔ رفیق نے کہا۔۔۔ اور تمہارے گھر والوں کو یہ بات پسند نہیں آئے گی۔۔
او یار۔۔۔جوا تو میں بھی کھیلتا ہوں۔اس میں کوئی ایسی برائی بھی نہیں ہے ۔ اور گھر والوں کو یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے ۔۔
تو پھر ٹھیک ہے۔جیسے تمہاری مرضی لیکن ایک بات سن لو۔۔ پہلے اپنے گھر والوں سے یہ بات کر لو ۔۔ یہ نہ ہو کہ وہ میری ماں کی بےعزتی کر دیں۔۔
نیاز علی سوچنے کی اداکاری کرتے ہوئے بولا۔۔ یہ تم صحیح کہتے ہو ۔۔ گھر والوں کو راضی کرنا ذرا مشکل ہوگا۔۔ اصل میں ابا جی میری اور عشرت کی وٹے سٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں انہوں نے ایک خاندان بھی دیکھ لیا ہے ۔جہاں میرا بھی رشتہ ہوجائے گا اور اس عشرت کا بھی۔۔ لیکن مجھے وہ لڑکی پسند نہیں ہے ۔۔ پھر اس نے چالاکی سے اضافہ کیا ۔اگر تمہاری کوئی بہن ہوتی تو بات آسانی سے بن جاتی۔ ۔
رفیق نے قدرتامل کرتے ہوئے کہا۔۔۔ بہن تو ہے۔۔ مگر اس کی عمر کم ہے ۔۔
شادی کے قابل تو ہے نا۔۔۔؟
شادی کے قابل تو ہے۔۔۔مگر تم سے آدھی عمر کی ہوگی۔۔
عمر کی فکر نہیں کرو ہم کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں ۔۔وہ ہمارے گھر میں عیش کرے گی ۔۔۔عیش۔۔۔قدرے توقف کے بعد اس نے کہا۔۔۔بہن تو میری بھی زیادہ عمر کی نہیں ہے تم سے کم از کم دس سال چھوٹی ہوں گی۔۔
اچھا۔۔۔میں گھر میں بات کروں گا۔۔۔
صرف بات کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔ ہمیں اپنی بات منوانی پڑے گی۔ ذرا زور لگانا پڑے گا۔۔
یہ بات چیت دو تین ہفتے تک چلتی رہی اور بالآخر دونوں نے اپنے والدین کو وٹے سٹے کی شادی پر راضی کرلیا۔۔
نیاز علی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ثمینہ کے نام جائیداد لگا دے گا اور اسے ہر طرح خوش رکھے گا ۔ لیکن وہ چند ماہ سے زیادہ اس وعدے کو نہ نبھا سکا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق کی بات ختم ہوئی تو میں نے پوچھا۔۔ کیا نیازعلی شادی کے بعد بھی جوا کھیلتا تھا۔۔؟
جوا بھی کھیلتا تھا اور نشہ بھی کرتا تھا۔۔ لیکن میں نے شادی کے بعد اس برائی کو آہستہ آہستہ چھوڑ دیا ہے۔۔
نیاز علی کے گھر والے کہتے ہیں کہ قتل تمہاری بہن نے کیا ہے۔۔
ثمینہ ایسی حرکت کبھی نہیں کر سکتی۔ وہ اپنے خاوند کو بہت اونچا درجہ دیتی تھی۔۔ حالانکہ نیازعلی اس پر بہت ظلم کرتا تھا۔۔ لیکن وہ اس کے خلاف ایک لفظ بھی سننا پسند نہیں کرتی تھی۔۔
جس روز عشرت ناراض ہو کر اپنے گھر گئی تھی۔اس کے دوسرے روز نیاز علی نے ثمینہ کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا تھا۔تم نے اس سلسلے میں کیا کاروائی کی تھی۔۔؟
ہمیں اس بات کا علم بعد میں ہوا تھا۔۔
پرسوں رات کو نیاز علی۔ثمینہ کو یہاں پہنچانے کا ارادہ رکھتا تھا تمہیں ایسی کوئی اطلاع ملی تھی۔۔؟
اس نے انکار میں جواب دیا۔ میں وہاں سے رخصت ہو گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے روز میں نے شمشیر خان کے دروازے پر دستک دی۔اس وقت صبح کے سات بجے تھے اور مجھے یقین تھا کہ شمشیر خان گھر پر ہی ہو گا۔دروازہ اس کی بیوی حشمت بی بی نے کھولا اور میرے استفسار پر بتایا کہ شمشیر خان تین روز سے لاہور گیا ہوا ہے۔۔
تین روز کا مطلب یہ تھا کہ واردات والی رات وہ بستی میں موجود نہیں تھا۔
میں نے کہا۔۔،،حشمت بی بی،، میں تم سے دو چار باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔دروازے پر کھڑے کھڑے پوچھ لوں یا اندر بٹھاؤ گی۔۔
تھانیدار صاحب۔۔میں اتنی بھی بے مروت نہیں ہوں۔۔ایک منٹ ٹھہریں میں بیٹھک کا دروازہ کھولتی ہوں۔
اس نے دروازہ کھول کے مجھے اندر بٹھایا۔۔میں نے اس سے پوچھا۔۔تین روز پہلے تم چوہدری منصب علی کے گھر گئی تھیں۔۔؟
میں ادھر سے گزر رہی تھی۔یونہی خیال آیا کہ سلام کرتی چلوں۔۔
میں نے پوچھا۔۔۔ثمینہ سے کیا بات ہوئی تھی۔۔؟
اس نے آپ کو کیا بتایا ہے؟
جو تم نے اسے بتانے سے منع کیا تھا۔۔
آج کل کسی کا بھلا نہیں کرنا چاہیے۔۔اس نے برا سا منہ بنایا۔۔میں نے اس کے ساتھ مہربانی کی تھی ۔اس نے الٹا میرا نام لگا دیا۔میں نے اسے صرف یہ کہا تھا کہ اپنے آدمی کا گھر نہ چھوڑے ۔بس اتنی سی بات تھی۔۔
حشمت بی بی۔۔کھل کر بات کرو۔اس طرح بات نہیں بنے گی۔جو کچھ تم نے ثمینہ کو بتایا تھا۔اس کا نیاز علی کے قتل سے گہرا تعلق معلوم ہوتا ہے۔اتنی سی بات نہیں تھی۔میں تمہیں پوچھ گچھ کے لیے تھانے بھی لے جا سکتا ہوں۔۔
میں ایک شرط پر آپ کو اصل بات بتا سکتی ہوں۔۔حشمت بی بی نے کہا۔۔اور وہ شرط یہ ہے کہ آپ میرے آدمی سے اس بات کا ذکر نہیں کریں گے اور نہ ہی اسے اس معاملے میں گھسیٹتے پھریں گے۔۔۔
ہم خواہ مخواہ کسی کو نہیں گھسیٹتے۔۔اگر تیرے آدمی نے کوئی جرم نہیں کیا تو ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے۔ہاں ۔یہ وعدہ میں کر سکتا ہوں کہ تمہاری کسی بات کا ذکر تمہارے آدمی سے نہیں کروں گا۔۔۔
حشمت بی بی مضبوط قدوقامت کی خاصی ہمت والی عورت تھی۔میری موجودگی اس کے لیے ذرا فکر مندی کا باعث نہیں تھی۔۔اس نے بات شروع کی۔۔۔۔
یہ چار پانچ روز پہلے کی بات ہے۔شمشیر خان اسی بیٹھک میں بیٹھا دو آدمیوں سے باتیں کر رہا تھا اور یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ شمشیر خان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے شریف لوگ نہیں ہوتے۔۔۔وہ جن آدمیوں کا میں نے ذکر کیا ہے۔ان میں سے ایک بالا کشمیری اور دوسرا حنیف تھا۔۔۔
اقبال عرف بالا کشمیری اور حنیف ٹنڈا دونوں سزا یافتہ مجرم اور ہسٹری شیٹر تھے۔۔۔
حشمت بی بی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔ کہ وہ کسی کام سے دروازے کے قریب گی تو ایک جملہ سن کر چونک پڑی ۔۔
حنیف ٹنڈا کہہ رہا تھا۔۔سنا ہے کہ نیاز علی کی گھر والی بہت سوہنی ہے۔۔دلدار حسین کے تو وارے نیارے ہو گئے۔مفت کی کڑی ہاتھ آگئی۔۔۔
بالے نے کہا۔۔۔مجھے امید نہیں کہ نیاز علی اپنی گھر والی کو اس کے حوالے کرے ۔۔اتنا بے غیرت نہیں ہے وہ۔۔کچھ دے دلا کر بات ختم کر دے گا۔۔۔
میرا خیال ہے کہ نیاز علی نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی ہے۔۔ حشمت بی بی نے اپنے خاوند کو کہتے سنا ۔۔۔۔ وہ اپنی گھر والی سے بہت تنگ ہے اور اس سے چھٹکارا پانے کی فکر میں ہے۔۔
حنیف ٹنڈے نے پوچھا۔۔کیا وہ لڑتی جھگڑتی ہے۔۔۔؟
سارا پھڈا نیاز علی کی بہن کا ہے۔۔وہ رفیق کی گھر والی ہے اور نیاز علی کی بیوی رفیق کی بہن ہے۔۔۔
یعنی وٹے سٹے کا معاملہ ہے۔۔۔
ہاں۔۔۔ نیاز علی نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ اس کی بہن رفیق کے گھر میں خوش نہیں ہے ۔۔سسرال والے اس پر بہت زیادتی کرتے ہیں اور وہ اس زیادتی کا بدلہ اپنے گھر والی سے لینا چاہتا ہے ۔۔لیکن سنا ہے کہ وہ بڑی ڈھیٹ عورت ہے ۔۔نیاز علی اسے کئی دفعہ گھر سے نکال چکا ہے مگر وہ پھر واپس آجاتی ہے۔۔ اب اس نے جان چھڑوانے کا یہ طریقہ نکالا ہے ۔۔۔
حنیف ٹنڈے نے کہا۔۔۔اوئے شمشیر خان۔۔تم نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔ہم اس کی جان چھڑوا دیتے۔۔۔پھر وہ بالے سے مخاطب ہوا۔۔کیا خیال ہے بالے۔۔۔یہ اپنے دلدار حسین سے بات کریں۔۔۔؟
کیا مطلب۔۔؟
مطلب یہ کہ اس کے ساتھ کڑی کا سودا کر لیتے ہیں۔۔وہ شریف آدمی ہے راضی ہو جائے گا۔۔۔
کیا تم چوہدری کی بیوی کو گھر میں بساؤ گے۔۔؟
اونہہ۔۔۔۔۔۔۔مجھے بھینس پالنے کا شوق نہیں۔۔۔حنیف ٹنڈے نے کہا۔۔دو چار مہینے اپنے پاس رکھ کر منڈی میں پہنچا دیں گے۔۔
بات کرنی ہے تو آج ہی کر لو ۔شمشںیر خان نے کہا۔۔۔
نیاز علی نے دلدار حسین سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک دو روز میں اپنی گھر والی کو اس کے حوالے کر دے گا۔۔۔۔
حشمت بی بی نے بات ختم کر دی۔
حشمت بی بی ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔۔ میں نے کہا۔۔ نیاز علی اپنی گھر والی کو دلدار حسین کے سپرد کیوں کرنا چاہتا تھا ۔۔
یہ بات دلدار سے جاکر پوچھیں۔۔۔ میں نے چند اور سوالات کیے اور رخصت ہو گیا۔۔
دلدار حسین اگرچہ ایک کاروباری شخص تھا۔ لیکن جوئے کا پرانا ماہر تھا ۔اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ تاش کے پتوں کے معاملے میں جادوگر ہے۔ تاش میں اس کو ہرانا بہت مشکل تھا۔۔ وہ بھی شمشیر خان کے اڈے پر جاتا تھا۔۔
میں نے دو آدمی بھیج کر اسے تھانے بلا لیا اور اس وقت وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ سات آٹھ روز پہلے اس کی نیاز علی کے ساتھ تاش کی بازی لگ گئی۔ نیازعلی بھی تاش کا اچھا کھلاڑی تھا ۔۔ شروع میں تھوڑے روپے کی شرطیں چلتی رہیں۔ تاہم دلدار حسین کا پلا شروع سے بھاری تھا ۔۔رات کے گیارہ بجے نیازعلی کی جیب خالی ہوگٸی وہ سخت جھنجلایا ہوا تھا۔۔دلدار اٹھنے لگا تو نیاز علی نے اس کا بازو پکڑ لیا اور بولا کہاں چل دیے ابھی اور بازی ہوگی۔۔
دلدار حسین نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔جیب تو تمہاری خالی ہو چکی ہے۔۔۔ کیا کپڑے داؤ پر لگاؤ گے ۔۔
نیاز علی نے اپنے سونے کی انگوٹھی اتار کر سامنے رکھ دی۔۔
دلدار حسین۔۔ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے ۔اس انگوٹھی کا کیا دیتے ہو۔۔۔؟ یہ آدھے تولے کی انگوٹھی ہے۔۔
مجھے سونا خریدنے کا شوق نہیں۔۔
نیازی نے پاس بیٹھے ہوئے دوسرے جواریوں کو انگوٹھی خریدنے کے لیے کہا ہاں ایک جواری نے 20 ہزار روپے میں انگوٹھی گروی رکھ لی۔نیاز علی نے بیس ہزار روپے سامنے رکھ لیے اور غصے کی وجہ سے بڑی بڑی بازیاں لگانے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ آدھے پونے گھنٹے میں انگوٹھی کی رقم بھی ہار گیا۔۔
دلدار حسین نے رقم سمیٹ لی اور اٹھنے لگا۔۔۔ نیازعلی نے اسے روک لیا ۔۔اور ایک جواری سے کچھ روپے ادھار لے کر دوبارہ کھیلنے لگا۔۔ شروع میں وہ ایک دو ہاتھ جیت بھی گیا لیکن پھر ہارنا شروع ہوگیا۔۔ یہاں تک کہ ادھار لی ہوئی رقم بھی ہار گیا۔۔
چوہدری۔۔کل آنا۔۔دلدار کھڑا ہو گیا۔۔ایک رات کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔۔
نیازعلی پر سخت جھنجھلاہٹ طاری تھی ۔۔ اس نے کہا ۔۔ابھی کھیل ختم نہیں ہوا۔۔ میں اور کھیلوں گا۔۔
اب تو کوئی تمہیں قرضہ بھی نہیں دے گا ۔۔۔جاو گھر جا کر سو جاؤ۔۔
نیاز علی نے اس کا گریبان پکڑ لیا ۔۔ ایسے نہیں جا سکتے تم۔۔ ایک بازی اور ہوگی یا آر یا پار۔۔
دلدار حسین نے ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑایا اور غصے سے بولا ۔۔۔۔ اب کیا اپنی بیوی کو داؤ پر لگاؤ گے۔۔۔۔۔؟
ہاں میں اپنی بیوی کو داؤ پر لگاؤں گا۔۔
مردوں والی زبان کر رہے ہو۔۔؟
ہاں۔۔۔یہ مردوں والی زبان ہے اگر میں ہار گیا تو اپنی بیوی تمہارے حوالے کر دوں گا۔۔ اگر جیت گیا تو تمہاری جیبوں کی ساری رقم میری ہوگی۔۔ اور یہ بازی قسمت کی بازی ہوگی ۔۔۔
دلدار حسین نے وہاں پر موجود لوگوں سے کہا۔۔۔ او بھائیو۔۔ اس کو سمجھاؤ ۔۔۔ یہ اپنی بیوی کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دماغ الٹ گیا ہے۔
تم کیوں فکر کرتے ہو۔۔؟ نیازعلی نے کہا ۔۔بیوی میری ہے میں ویسے بھی اس سے خوش نہیں ہوں۔۔
دلدار حسین نے کہا کہ وہ یہ بازی کھیلنے پر راضی نہیں تھا ۔۔ اول تو اسے بیوی والا معاملہ پسند نہیں تھا۔۔ اور دوم یہ کہ اس بازی میں کھلاڑی کے لیے اپنا کمال دکھانے کا کوئی موقع نہیں تھا سارا کھیل قسمت کا تھا۔۔ تاہم نیازعلی کے اصرار پر اسے راضی ہونا پڑا تھا۔۔
چنانچہ ایک نئی گڈی منگوائی گئی اور اسے اچھی طرح پھینٹا گیا۔۔ پھر ایک شخص نے دونوں کے سامنے تین پتے رکھ دیے دلدار حسین نے اپنے پتوں کے کنارے اٹھا کر دیکھا ۔ تو اس کا دل بیٹھ گیا۔ اس کے حصے میں دو تگیاں اور ایک ستا آیا تھا ۔۔
لیکن نیازعلی کے حصے میں ایک دگی اور ایک تگی اور ایک بیگم آئی تھی ۔۔اس کے ساتھ ہی وہ اپنی بیوی بھی ہار گیا۔۔ لیکن اسے کوئی افسوس نہیں ہوا۔۔ اس نے دلدار حسین سے کہا کہ وہ دو تین روز کے اندر اپنی بیوی اس کے حوالے کر دے گا۔۔۔
دلدار حسین نے اپنی جیبوں سے تمام رقم نکالی اور سب کے سامنے اس کی گنتی کی اس کے پاس کل پچپن ہزار روپے تھے۔۔۔
دلدار حسین نے رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ نیاز علی۔۔ میں تمہیں ایک ہفتے کی مہلت دے سکتا ہوں۔۔ ایک ہفتے کے اندر مجھے پچپن ہزار روپے دے دوں اور اپنی بیوی اپنے پاس رکھو۔۔
رقم کو تم بھول جاؤ۔۔ نیازعلی نے تیزی سے جواب دیا ۔۔جس چیز کی بازی لگی ہے وہی ملے گی ۔۔
دلدار حسین نے بتایا کہ دو روز بعد بالا کشمیری اور حنیف ٹنڈا اس کے پاس آئے اور اسے علیحدگی میں لے گئے۔۔۔
دلدار ہم تمہارے ساتھ ایک سودا کرنے آئے ہیں۔۔ حنیف ٹنڈے نے کہا۔۔ تمہارے فائدے کا سودا ہے۔۔
کس چیز کا سودا کرنے آئے ہو۔۔۔۔؟ دلدار حسین نے پوچھا ۔
سنا ہے کہ تم نے چودھری نیاز علی کی بیوی جوئے میں جیت لی ہے ۔۔ بالے نے کہا ۔۔ وہ اپنی بیوی کب تمہارے حوالے کر رہا ہے۔۔
اس نے دو تین روز کا وعدہ کیا ہے۔۔
حنیف ٹنڈے نے پوچھا۔۔۔ اس آفت کو سنبھال لو گے۔۔؟
میں تمہیں مرد دکھائی نہیں دیتا ہوں ۔۔دلدار حسین نے کہا۔۔۔ تم چاہتے کیا ہو۔۔؟
سنا ہے کہ بازی پچپن ہزار کی تھی ۔۔ ہم تمہیں ساٹھ ہزار دینے کے لیے تیار ہیں۔۔ عورت ہمارے حوالے کر دو۔۔۔
دلدار حسین نے کچھ دیر تک ٹنڈے کی تجویز پر غور کیا۔۔ پھر بولا عورت نیاز علی کی ہے۔۔ اگر وہ راضی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔۔۔ میں نے پچپن ہزار کی بازی کھیلی تھی میرے لیے پچپن ہزار ہی بہت ہیں۔۔
ٹھیک ہے ہم تمہیں رقم دینے کے لیے تیار ہیں۔۔۔ نیازعلی سے ہماری بات کروا دو۔۔
دلدار حسین نے اپنا آدمی بھیج کر نیاز علی کو اپنے گھر بلوا لیا۔۔ اور بالے کشمیری اور حنیف ٹنڈے کے سامنے پوچھا کہ ۔۔ وہ اپنی بیوی کب حوالے کر رہا ہے۔۔؟
نیازعلی ان دو بدمعاشوں کو دیکھ کر قدر مرعوب ہو گیا ۔۔ پھر بھی قدرے ہمت کرکے بولا۔۔ ان لوگوں کی موجودگی کا یہاں کیا مطلب ہے۔۔؟
استاد گرمی کس بات پر کھا رہے ہو ۔۔۔حنیف ٹنڈے نے کہا۔۔ ہمیں بھی اپنا یار بیلی سمجھو۔۔
بالے نے کہا ۔۔ ہم نے دلدار حسین سے ایک سودا کیا ہے۔۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ عورت کی اور پچپن ہزار کی بازی لگی تھی۔۔ ہم نے اپنے یار سے کہا ہے کہ رقم ہم سے لے لے اور عورت ہمارے حوالے کر دے۔۔
ٹنڈے نے کہا۔۔۔ یار چوہدری کو اس میں کیا اعتراض ہو گا۔۔ وہ تو بازی ہار ہی چکا ہے ۔۔
نیاز علی نے ہولے سے سر ہلایا بولا۔۔۔ بات تو تم صحیح کہہ رہے ہو۔۔ لیکن میں تم لوگوں سے کیوں بات کروں۔۔۔۔؟
ہم دلدار حسین کو پانچ ہزار روپے اوپر دینا چاہ رہے تھے۔ لیکن اس نے انکار کر دیا۔۔ وہ پانچ ہزار روپے تم لے لینا۔۔
نیاز علی نے پوچھا۔۔رقم لائے ہو۔۔۔۔؟
بالے نے نوٹ نکال کر رکھ دیے۔۔
نیاز علی نے کہا تھا۔۔۔ دس ہزار روپے اوپر ہوں گے۔۔
ہمیں منظور ہے۔۔۔۔ جہاں۔۔۔ ستیاناس وہاں سوا ستیاناس۔۔۔
نیاز علی نے دلدار حسین سے کہا۔۔ میں تمہیں پچاس ہزار روپے دوں گا ۔۔۔ بولو کیا خیال ہے۔۔؟
یہ تو بے ایمانی ہوئی۔۔ دلدار حسین نے کہا ۔۔۔میں ان لوگوں سے خود بھی بات کر سکتا تھا۔۔
دلدار حسین۔۔۔۔۔۔ یہ سارا کام ہی بے ایمانی کا ھے ایماندار ایسے کام نہیں کیا کرتے۔۔
دلدار حسین پچاس ہزار پر راضی ہو گیا۔۔ اسے یہ بھی مفت میں مل رہے تھے ۔۔وہ اس چکر سے الگ ہونا چاہتا تھا۔۔
نیاز علی کے مطالبے پر بالے نے تیس ہزار روپے نکال کر نیازعلی کے ہاتھ پر رکھے۔۔ اور کہا باقی تیس ہزار روپے مال وصول ہونے پر۔۔
کل رات ساڑھے نو بجے پرائمری اسکول کے برآمدے میں انتظار کرنا ثمینہ وہاں پہنچ جائے گی۔۔ اسے کہنا کہ تمہیں میں نے بھیجا ہے۔۔ سواری کا انتظام کر کے آنا ۔۔۔
تم ساتھ نہیں آؤ گے۔۔۔؟
میری کیا ضرورت ہے۔۔۔؟
اور میری باقی رقم ۔۔؟ دلدار حسین نے پوچھا۔۔؟
باقی رقم ہم پہنچائیں گے ۔۔بالے نے کہا ۔۔ فکر کیوں کرتے ہو۔۔؟
یہ سودا طے کرنے کے بعد نیاز علی رخصت ہو گیا۔۔
دلدار حسین نے مجھے بتایا کہ اس بات چیت کے دو روز بعد تک اسے بقیہ رقم نہیں ملی۔۔۔ پھر اس نے نیاز علی کے قتل کی خبر سنی تو خاموش ہو جانا ہی بہتر سمجھا۔۔۔۔
یہ معلومات حاصل ہونے کے بعد میں نے بالے کشمیری اور حنیف ٹنڈے کی گرفتاری کے لیے ایک چھاپہ مار پارٹی ترتیب دی اور ایس پی علاقہ کو بھی اس امر کی اطلاع بھجوا دی۔۔
ایک روزہ میں ایک مخبر کے ذریعے اطلاع ملی کہ دونوں مفرور ملزموں نے قریبی گاؤں کے ایک زمیندار کے گھر میں پناہ لے رکھی ہے۔ میں نے اسی وقت اے ایس آئی اور ہوشیار قسم کے سپاہی کو بلا کر ساری صورتحال بتائی اور کہا تم دونوں غلے کے بیوپاریوں کے بھیس میں جاؤ اور کچھ سن گن لے کر آؤ۔۔
ہمیں کوئی کارروائی تو نہیں کرنا ہو گی۔۔
کاروائی کی کوئی ضرورت نہیں۔۔فی الحال تم زمیندار کی حویلی دیکھ آؤ اور گاؤں کا نقشہ بھی بنا لاؤ یہ بھی اندازہ لگانا کے کاروائی کے لئے کتنے آدمیوں کی ضرورت ہوگی۔۔
وہ تقریبا شام کے چھ بجے واپس آیا۔اور گاؤں کا رف سا نقشہ میرے سامنے رکھ دیا ۔۔اگلے روز میں نے عدالت سے سرچ وارنٹ حاصل کیا اور چھاپا مار پارٹی کے آٹھ افراد کو سادہ لباس میں الگ الگ روانہ کردیا۔۔ انہیں میں نے یہ ہدایت کر دی تھی کہ وہ گاؤں کے اردگرد باہر جانے والے راستوں پر چھپ کر بیٹھ جائیں اور آنے جانے والوں پر نظر رکھیں۔
اس کے بعد میں نے تین آدمیوں کو ساتھ لیا ہم گھوڑوں پر سوار ہو کر گاؤں پہنچ گئے۔۔۔ وہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس میں زیادہ تر مزارعین رہتے تھے۔۔ وہاں کوئی اسکول تھا ۔نہ ڈاکخانہ اور نہ ہی ڈسپنسری وغیرہ ۔۔
چوہدری جمال دین کو ہماری آمد کی پہلے ہی خبر ہوگئی تھی۔۔ اس کے آدمی حویلی کے باہر ہمارے منتظر تھے ۔۔ انہوں نے ہمارے گھوڑے لے کر ایک طرف باندھ دیے اور ہمیں بیٹھک میں لے گئے۔۔ جہاں چوہدری نے بڑی شان سے ہمارا استقبال کیا۔۔ وہ پچپن چھپن سال کا طویل القامت اور بارعب شخص تھا ۔۔رسمی کلمات کے بعد اس نے ہماری آمد کا مقصد پوچھا اور بیٹھنے کے لیے کہا۔۔
چوہدری ۔۔۔ میں کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کروں گا۔۔ میں نے کھڑے کھڑے کہا ۔۔ ہم بالے کشمیری اور حنیف ٹنڈے کو لینے آئے ہیں۔۔ ان دونوں کو ہمارے حوالے کر دیں ۔ باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔۔
جناب ۔۔۔تشریف تو رکھیں۔۔ آپ پہلی دفعہ ہمارے گاؤں آئے ہیں۔۔ ہمیں کچھ خدمت کا موقع تو دیں۔۔
چوہدری صاحب۔۔۔آپ ہماری خدمت کرکے خوش نہیں ہوں گے۔۔ کیونکہ میں خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤں گا۔۔
وہ سنجیدہ ہو گیا۔۔ بولا ۔۔ جن ملزموں کا آپ نے نام لیا ہے ۔ان کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔۔ اس لیے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔۔۔
میں نے کہا۔۔۔میں حویلی کی تلاشی لینا چاہتا ہوں۔۔۔
اتنی بڑی بات تو آج تک کسی نے نہیں کی۔۔۔ اس کا لہجہ سخت ہوگیا ۔۔۔تلاشیاں تو کمی کمین لوگوں کے گھروں کی لی جاتی ہیں۔۔ ہم تو عزت دار لوگ ہیں۔۔
قانون سے لڑنے کی کوشش نہ کریں۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ اس سے آپ کا نقصان ہوگا۔۔
ایک نوجوان ۔۔ جو چوہدری کے پیچھے کھڑا تھا۔اور پڑھا لکھا لگتا تھا ۔۔بولا ۔۔ تھانیدار صاحب ۔۔۔ آپ نے قانون کی بات کی ہے تو ایک قانون کی بات میری بھی سن لیں۔۔ آپ عدالت کی اجازت کے بغیر میری حویلی کی تلاشی نہیں لے سکتے ۔۔ عدالت کا حکم لے آئیں ہم آپ کو تلاشی لینے سے منع نہیں کریں گے۔۔
میں نے جیب سے سرچ وارنٹ نکال کر اس کے سامنے کر دیا۔۔۔
اس نے بہ غور سرچ وارنٹ کا معائنہ کیا ۔۔ پھر بولا۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ پوری تیاری کرکے آئے ہیں۔۔
میں نے کہا ۔۔ قانون نافذ کرنے والوں کو خود بھی قانون کا احترام کرنا چاہیے۔۔
اچھا۔۔۔۔چوہدری جمال دین نے کہا۔۔آپ ذرا صبر کریں۔۔میں عورتوں کو ایک طرف کر دوں۔۔
اس کے اندر جانے کے بعد مجھے خیال آیا کہ وہ عورتوں کو ایک طرف کرنے کے ساتھ ملزموں کو بھی ایک طرف کر دے گا ۔۔میں نے اے ایس آئی کے کان میں کہا کہ وہ دو آدمیوں کو حویلی کی پچھلی طرف بھیج دے۔۔
اے ایس آئی بھی وہی بات سوچ رہا تھا جو میرے ذہن میں آئی تھی ۔۔وہ تیزی سے باہر نکل گیا ۔۔اس کے جانے کے دو منٹ بعد باہر سے فائر کی آواز سنائی دی۔۔
میں جلدی سے باہر نکلا تو دیکھا کہ اے ایس آئی نے ریوالور ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اور ان دو آدمیوں کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔ جو گلی میں دوڑتے چلے جارہے تھے ۔۔ وہ مطلوبہ ملزمان تھے۔۔
جو آدمی میں مختلف بھیسوں میں گاؤں کی نگرانی کر رہے تھے ۔ وہ فائرنگ کی آواز سن کر ہوشیار ہو چکے تھے اور ملزموں کو دبوچنے کے لیے تیار تھے۔۔۔
یہ بلی چوہے کا کھیل بہت جلد ختم ہوگیا اور ہم نے دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا۔۔
تھانے پہنچ کر میں نے دونوں کو الگ الگ بند کر دیا اور آرام کرنے گھر چلا گیا ۔۔جانے سے پہلے میں نے رات کی ڈیوٹی والوں کے لئے یہ پیغام چھوڑ دیا تھا کہ دونوں ملزمان کو سونے نہ دیا جائے اور ان سے الگ الگ پوچھ گچھ جاری رکھی جائے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح میں نے حنیف ٹنڈے کو اپنے پاس بلا لیا ۔ اس کی عمر تیس برس کے لگ بھگ تھی اور خاصا مضبوط جوان تھا ۔رات بھر جاگنے کے باوجود وہ سست دکھائی نہیں دیتا تھا۔
میں نے کہا ۔۔۔ کیوں بھئی ٹنڈے کہانی خود ہی سناؤ گے یا ہمیں اگلوانی پڑے گی۔۔؟
اس نے ڈھٹائی سے جواب دیا۔۔جناب آپ کے آدمی مجھے ساری رات کہانیاں سناتے رہے ہیں اور میں اپنی کہانی بالکل بھول گیا ہوں۔۔
میرا خیال ہے کہ ایک رات اور آرام کر لو ۔۔میں نے کہا۔۔۔ تمہارے ساتھ کل بات کریں گے ۔۔
حضور ۔۔۔رحم کریں۔۔ ساری رات الو کی طرح جاگتا رہا ہوں ۔۔ ایک رات اور جاگا تو میرا دماغ پلٹ جائے گا۔۔
میں نے حوالدار کو بلا کر کہا ۔۔۔اسے قد لمبا کرنے والی ورزش پر لگا دو اور بالے کشمیری کو لے آؤ۔۔۔
حوالدار اسے دوسرے کمرے میں لے گیا اور اس کے ہاتھ چھت سے لٹکنے والے دو کڑوں میں ڈال کر اتنا اونچا کر دیا کہ اس کے پیر کی انگلیاں بہ مشکل فرش پر پڑتی تھیں۔۔ اس عرصے میں وہ دھاڑیں مارتا رہا مگر حوالدار نے کوئی توجہ نہیں دی اور بالے کشمیری کو میرے پاس لے آیا۔۔۔
وہ لمبے قد اور گورے رنگ کا خوش شکل نوجوان تھا۔
میں نے پوچھا۔۔بالے رات کیسی گزری۔۔۔؟
سرکار ۔۔مجھے تو آپ ایسے ہی پکڑ لائے ہیں ۔۔ میں نے جرم سے توبہ کر لی ہے۔۔
میں نے پوچھا۔۔ نیاز علی کی گھر والی کا سودا کتنے پیسوں میں ہوا تھا۔۔۔؟
میں کچھ نہیں جانتا جی ۔۔میں بلکل بے گناہ ہوں۔۔
دلدار حسین بھی ہمارا مہمان ہے اس کو بلاؤں۔۔؟
وہ جھوٹ بکتا ہے جی ۔۔۔
ابھی اس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ میں نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور پوچھا ۔۔ کیا جھوٹ بکتا ہے وہ۔۔۔؟
تھپڑ سے اسے کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔۔بولا۔۔وہ ہم پر جھوٹا الزام لگاتا ہے ۔۔ ہمیں تو کچھ پتا ہی نہیں۔۔
کون سا جھوٹا الزام۔۔؟ میں نے ایک اور تھپڑ مارا۔۔
سرکار سودا اس نے خود کیا اور نام ہمارا لگا دیا۔۔
کس چیز کا سودا۔۔؟
عورت کا سودا۔۔۔
تمہیں کیسے پتا چلا کہ اس نے تم پر کسی عورت کے سودے کا الزام لگایا ہے ۔۔؟
سس۔۔۔سرکار آپ نے خود کہا ہے۔۔
میں نے اس کے پیٹ میں گھونسا رسید کیا ۔۔۔۔ میں نے یہ کب کہا کہ تم پر دلدار حسین نے الزام لگایا ہے۔۔؟
سوال جواب کا سلسلہ آدھے پونے گھنٹے تک جاری رہا مگر وہ راستے پر نہیں آیا۔۔ میں نے اسے ٹنڈے کی جگہ پر بھجوا دیا۔۔ اور ٹنڈے کو اپنے پاس بلا لیا۔۔ وہ بھی بڑا سخت جان نکلا۔۔
میں شام تک وقفے وقفے سے پوچھ گچھ کرتا رہا۔۔ اور اس عرصے میں دونوں کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا لالچ دیتا رہا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دس بجے بالا اقبالی بیان دینے پر تیار ہو گیا ۔
اس نے میرے سوالات کے جواب میں اٹک اٹک کر جو کہانی سنائی وہ میں اپنے الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بالے نے مجھے بتایا کہ نیاز علی کی بیوی کا قصہ سن کر ٹنڈا بہت خوش ہوا اور دلدار حسین سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔
بالے نے کہا کہ اس نے ٹنڈے کو منع کیا۔۔ اور کہا۔۔ یار ہمیں چوہدری کی بیوی کے معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے۔۔۔ کوئی اور ہی چکر نہ ہو جائے ۔۔۔
دوستو۔۔۔۔۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بالا بیان دیتے وقت اپنی پوزیشن بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
حنیف ٹنڈے نے کہا ۔۔۔ بات کرنے میں کیا حرج ہے۔۔؟
اگر چوہدری اپنی بیوی کو گھر سے نکالنے پر تلا ہوا ہے تو ہم کیوں نہ فائدہ اٹھائیں۔۔
کیا تم چوہدری کی بیوی کو گھر میں بساؤ گے۔۔۔؟
مجھے بھینس پالنے کا شوق نہیں ہے۔۔ ٹنڈے نے کہا ۔۔۔دو چار مہینے کے بعد لڑکی کو منڈی میں پہنچا دیں گے۔۔
آپس میں صلاح مشورہ کرنے کے بعد دونوں دلدار حسین کے پاس پہنچے اور کہا کہ وہ چوہدری کی بیوی کا سودا کرنے آئے ہیں۔۔دلدار حسین نے ان کی ساری بات سنی اور نیاز علی کو بلا لیا۔۔
دلدار حسین نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ رقم بالے نے دی تھی۔۔
رقم جیب میں رکھنے کے بعد نیاز علی نے ان سے کہا کہ وہ اگلے روز ساڑھے نو بجے اپنی بیوی کو پرائمری اسکول پہنچا دے گا۔۔
دونوں اگلے روز نو بجے ہی پرائمری اسکول پہنچ کر انتظار کرنے لگے ۔۔ وہ سواری بھی اپنے ساتھ لائے تھے ۔ان کا یہ پروگرام تھا کہ وہ ثمینہ کو راتوں رات چوہدری جمال دین کی حویلی میں پہنچا دیں گے۔۔۔
سوا نو بجے دلدار حسین بھی وہاں پہنچ گیا کیونکہ اسے اپنی بقایا رقم وصول کرنی تھی لیکن بقول بالے۔۔ حنیف ٹنڈے کی نیت خراب ہو چکی تھی اور وہ مزید رقم دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔تینوں رات کے دس بجے تک انتظار کرتے رہے مگر نیازعلی کی گھر والی نہیں آئی۔۔
اگلے روز شمشیر خان کے ڈیرے پر حنیف ٹنڈے نے نیازعلی کا گریبان پکڑ لیا اور اس کی گھر والی کے بارے میں پوچھا۔۔
اتنے اوکھے کیوں ہوتے ہو۔۔؟ نیاز علی گریبان چھڑاتے ہوئے بولا۔۔میں نے اپنے گھر والی کو بھیجا تھا۔۔ وہ ادھر سے چکر لگا کر واپس آ گئی وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔۔
بکواس کرتی ہے وہ اور تم بھی۔۔۔۔ حنیف ٹنڈے نے کہا ۔۔۔اگر آج عورت نہ ملی تو ہم تمہارا پیٹ پھاڑ دیں گے۔۔
ایسا کرو۔۔ آج تم اسے ہمارے گھر سے اٹھا کر لے جانا۔۔ میں پچھلا دروازہ کھلا رکھوں گا ۔۔ہم دونوں برآمدے میں سوتے ہیں۔۔ وہاں اور کوئی نہیں ہوتا۔۔ آدھی رات کے بعد آنا۔۔۔
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔مال بھی خرچ کریں اور اٹھا کر بھی لے کر جائیں۔۔
دیکھ لو اگر سودا منظور نا ہو تو رقم واپس لے لو۔۔
رقم اپنے پاس ہی رکھو۔ ہم آدھی رات کے بعد آئیں گے۔اس دفعہ کوئی گڑ بڑ نہیں ہونی چاہئے۔۔
جیسا کہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں ۔ چوہدری منصب علی نے رات کے دس بجے اپنے مہمان کو رخصت کیا اور دیکھا کہ صحن کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔اس نے دروازے کو کنڈی لگا دی اور اندر چلا گیا۔۔یہ دروازہ نیاز علی نے کھولا تھا اور ساڑھے نو بجے بستر پر لیٹ گیا تھا ۔جب ثمینہ ساس کے پیر دبانے کے بعد برآمدے میں آئی تو نیازعلی سو چکا تھا۔
اس رات کئی باتیں ایسی ہوئیں جو بظاہر اتفاقیہ معلوم ہوتی ہیں۔لیکن درحقیقت اس میں دست قدرت کام کرتا دکھائی دیتا ہے ۔چوہدری منصب علی کے مہمان کا آنا اور چوہدری کی کھلے ہوئے دروازے پر نظر پڑنا۔ ثمینہ کا اپنی ساس کے پیر دبانا اور اس وقت آنا جب نیاز علی سو چکا ہوتا ہے۔۔نیاز علی کا جلدی سو جانا بھی حیرت انگیز تھا۔اگر وہ جاگ رہا ہوتا تو لازماً ثمینہ کو برآمدے میں سونے پر مجبور کرتا۔ پھر ثمینہ کا اپنے شوہر سے خوف کھانا اور اندر سونے کے لئے چلے جانا۔یہ ساری باتیں ایسی ہیں۔ جن میں نمایاں طور پر قدرت کا ہاتھ نظر آتا ہے۔
قدرت اس مظلوم عورت کو بچانا چاہتی تھی ۔اور ظالم کو اس کے پھیلائے ہوئے پھندے کے ذریعے ہلاک کرنا چاہتی تھی۔۔
بالے نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ وہ پروگرام کے مطابق آدھی رات کے بعد چودھری کے دروازے پر پہنچے ۔۔حنیف ٹنڈے نے جب دروازہ بند دیکھا تو اس کا سر گھوم گیا۔۔
وہ دیوار پھاند کر اندر داخل ہوا اور دروازہ کھول دیا۔پھر دونوں برآمدے میں پہنچے اور دیکھا کہ ثمینہ کا بستر خالی ہے۔ انہیں یقین ہوگیا کہ نیازعلی انہیں الو بنا رہا ہے۔۔ بالے کے بیان کے مطابق ٹنڈے نے خنجر نکالا اور پے در پے وار کر کے نیازعلی کو ہلاک کردیا۔۔
میں نے بالے کا یہ بیان نوٹ کیا اور اس پر اس کے دستخط کروالیے۔ پھر ٹنڈے کو اپنے پاس بلا لیا اور اسے بالے کے اقبالی بیان کی تفصیل سنائی۔۔۔


ٹنڈے کی حالت خاصی خراب ہو رہی تھی۔۔میری توقع کے عین مطابق اس نے بالے کو دو چار گالیاں دیں اور قتل کا سارا الزام اس کے سر پر ڈال دیا۔اس نے بھی وہی تفصیل بتائی جو بالا بتا چکا تھا۔۔تاہم قتل اور عورت کی خریداری کے سلسلے میں ساری زمہ داری بالے پر ڈال دی۔۔۔
میں نے اس کا بھی تحریری بیان لے لیا۔۔ اور اگلے روز دونوں کی نشاندہی پر خنجر اور خون آلود کپڑے برآمد کرلیے۔۔ کپڑے حنیف ٹنڈے کے تھے ۔۔ جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ نیاز علی کو اسی نے قتل کیا تھا۔۔۔
شام کے وقت میں تینوں ملزموں کو چوہدری منصب علی کے گھر لے گیا۔۔ اور بالے سے کہا۔۔۔ مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ تم دونوں کس راستے سے گھر میں داخل ہوئے تھے۔۔ اور نیاز علی کہاں سویا ہوا تھا ۔۔؟
یہ سوال میں نے چوہدری منصب اور دیگر اہل خانہ کے سامنے کیا تھا ۔۔اس کا مقصد یہ تھا کہ میں اس کے بیان کو ڈبل چیک کرنا چاہتا تھا۔۔نیز گھر والوں پر حقیقت کو آشکار کرنا چاہتا تھا۔۔
بالے نے تفصیل کے ساتھ واردات کا پورا حال بیان کیا یہ بھی بتایا کہ برآمدے میں کتنی چارپائیاں بچھی تھیں اور ان کی کیا پوزیشن تھی اور چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بتائیں۔۔۔
جب وہ سب کچھ بتا چکا تو چودھری اور اس کے خاندان کی حالت قابل دید تھی۔۔
میں نے چودھری سے کہا ۔۔ چودھری صاحب۔۔ ان کو پہچانیں۔ یہ ہیں آپ کے بیٹے کے قاتل۔۔۔
تھانیدار صاحب۔۔ان کو یہاں سے لے جائیں اور پھانسی پر لٹکا دیں ۔۔ مجھے ان کی شکلیں دیکھ کر وحشت ہو رہی ہے۔۔


عورتیں ایک اندرونی دروازے میں کھڑی تھیں۔ اور ان میں ثمینہ کا چہرہ بھی نظر آ رہا تھا۔۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔۔
میں نے کہا۔۔ چودھری صاحب۔۔ میرا کام صرف تفتیش کرنا ہے ۔ سزا دینا عدالت کا کام ہے۔۔ لیکن میں آپ کو یہ ضرور بتاؤں گا کہ اس قتل کے پیچھے کہانی کیا ہے۔۔
میں نے اسے تفصیل سے ساری بات بتائی کہ کس طرح نیازعلی اپنی بیوی کو جوئے میں ہارا تھا اور بعد میں اس کا سودا کرتے ہوئے بیس ہزار روپے کمائے تھے۔۔ اور پھر کس طرح اپنی بے گناہ بیوی کو ان کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔۔
یہ۔۔۔۔یہ جھوٹ ہے۔۔چوہدرانی نے کہا۔۔میرا بیٹا ایسی حرکت کبھی نہیں کر سکتا۔۔
میں نے کہا۔۔ چوہدرانی۔۔ کوئی عورت اپنے بیٹے کے متعلق ایسی بات نہیں سن سکتی۔۔ لیکن دنیا میں ظلم کرنے والے بھی ماؤں کے بیٹے ہی ہوتے ہیں۔۔ یہ دلدار حسین جواری ہے ۔۔ میں نے دلدار حسین کی طرف اشارہ کیا۔۔ نیاز علی نے اس کے ساتھ جوا کھیلا تھا ۔۔ وہ اس کے پاس اپنی نقدی اور انگوٹھی ہارنے کے بعد بیوی کو بھی ہار گیا ۔۔ یہ بات شمشیر خان کے اڈے پر جانے والا ہر شخص جانتا ہے۔۔۔
چوہدری نے کہا ۔۔ ایسی حرکت تو کوئی بے غیرت ہی کر سکتا ہے۔۔

چوہدری صاحب ۔۔ میں یہ بات نہیں کہنا چاہتا تھا لیکن آپ نے یہ بات خود ہی کہہ دی ہے۔ میں آپ کے گھر کی پوری کہانی سن چکا ہوں۔۔ اس ساری تباہی کا سبب وٹے سٹے کی شادی ہے۔ آپ کی بیٹی اپنے خاوند سے لڑ جھگڑ کر آجاتی تھی۔ آپ اس کی باتیں سن کر اپنی بہو پر ظلم کرتے تھے ۔۔ آپ کا بیٹا ثمینہ کو گھر میں نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔۔ اور یہ بات آپ کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ قتل سے چند روز پہلے اس نے ثمینہ کو مار کر گھر سے نکال دیا تھا ۔۔ اگر یہ آپ کی بیٹی کی طرح خود سر ہوتی تو ایک منٹ بھی یہاں نہ ٹکتی۔۔ لیکن یہ ڈھائی تین گھنٹے آپ کے دروازے پر بیٹھی روتی رہی ۔۔ پھر محلے والوں کے سمجھانے پر آپ اسے اندر لے گئے۔۔ اگر آپ لوگ اس کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے تو کبھی ایسا ظلم نہ کرتے۔۔۔ انسان کی قدرت کی گرفت سے ڈرنا چاہیے۔۔
ان سب نے خاموشی سے میری باتیں سنیں۔۔ بولنے کی کچھ گنجائش بھی نہیں تھی۔۔ کیونکہ وہ اپنی زیادتیوں کا حال بخوبی جانتے تھے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔

آنکھیں بھیگ جاتی ہیں (مکمل اردو کہانی)

خطرناک بچھو اور یہودی کا قصہ

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے