ایف ایس سی میں میرے اتنے زیادہ نمبر تھے کہ پورے فیصل آباد میں کسی گورنمنٹ کالج یا یونیورسٹی کو مجھے میرٹ پر داخلہ دینے کا اعزاز حاصل نہ ہوا۔ اس لیے میں نے آرام سکون سے دو سال ضائع کیے۔ تیسرے سال اس نکمے پن سے تنگ آکر میں نے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ایرڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔
پہلے روز صبح سویرے اٹھ کر یونیورسٹی جاتے ہوئے میں بہت پر جوش تھا۔ ناولوں میں پڑھے گئے قصے، فلموں میں دکھاۓ مناظر سب ذہن میں تازہ تھے۔ اس لیے یونیورسٹی میرے لیے کسی خواب کی تعبیر سے کم نہیں تھی۔ بس سے اتر کر یونیورسٹی کی طرف سفر کرتے ہوۓ پل بھر کے لیے میں نے خود کو یارم والی امرحہ محسوس کیا۔ بیگ جو کمر سے لٹکا ہوا تھا، اتار کر ہاتھ میں لیا اور ہوا میں لہرا کر زور سے چیخا۔
ساہیوال …… میں آ گئی………. سوری آ گیا۔ خود کو امرحہ محسوس کرتے ہوۓ میں نے دو چیزوں کو فراموش کر دیا تھا، نمبر ایک جنس اور نمبر دو۔ میرے پیچھے کھڑی وہ آنٹی جو اتنی صبح سویرے سبزی لے کر واپس آ رہی تھیں۔ میرے بیگ کے شاندار وار سے ان کی سبزی والی ٹوکری ان کے ہاتھ سے نکل کر سڑک پر گرگئی اوراس میں موجود کئی سبزیاں سڑک پر پھیل کر احتجاج کرنے لگیں ۔ابتدائی صدمے سے سنبھلنے کے بعد آنٹی نے پہلا وار میرے منہ پر کیا جس سے میں ہوش کی دنیا میں واپس آگیا۔ اب بھاگنے کا وقت تھا مگر میری عقل جواب دے گئی۔ میں نے بیگ کوزمین پر رکھا۔
سوری آنٹی ۔ خیال نہیں رہا۔ میں انہیں سبزی اکٹھی کرنے میں مدد کرنے والا تھا مگر ان کے منہ سے حیرت بھری آواز سن کر مجھے اس روشن صبح میں کی گئی تیسری غلطی کا احساس ہوا۔
آنٹی… تجھے آنٹی لگتی ہوں؟ اس کے بعد میرا وہاں رکنا ممکن نہیں تھا۔ آنٹی شاید خود کو شردھا کپور اور مجھے عاشقی ٹو والا آر جے سمجھ رہی تھیں لیکن میں نے ان کے خیالات کو حقیقت کی شکل دینے کے بجائے ایک ہاتھ سے بیگ اٹھایا، دوسرے ہاتھ سے اپنا گریبان ان کی گرفت سے آزاد کروایا اور دوڑ لگا دی۔ پیچھے سے بھاگو، پکڑو، کی آوازیں سنائی دیں مگر میں دشمن کی قید سے فرار ہونے والے سپاہی کی طرح سرحد عبور کرتا ہوا یو نیورسٹی کی طرف جاتی سڑک پر مڑ گیا ۔
یونیورسٹی میں داخل ہو کر میں نے نوٹس بورڈ پر نگاہ دوڑائی جہاں پہلے سمسٹر والوں کے لیے کمرا نمبرآٹھ لکھا گیا تھا۔ میں صبح صبح ہوئی بےعزتی بھول کر آرام سکون سے چلتا ہوا کمرے میں داخل ہوا جہاں ایک میڈم نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میں پڑھنے نہیں بلکہ لڑکیاں چھیٹرنے آیا ہوں ۔ کچھ میرا لباس ہی ایسا تھا کہ میں یونیورسٹی طالب علم کے بجاۓ کسی گاؤں کا بڑا جا گیردار لگ رہا تھا۔
پہلا سیمسٹر؟ میڈم نے ایکسرے کرتی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
جی میم ، آپ لیٹ کیوں آۓ ہیں؟
میم پہلا دن تھا اس لیے وقت کا علم نہیں تھا۔ میرے پاس دیر سے آنے کا اس سے بہتر جواز کوئی نہیں تھا۔
جی ، پہلے دن ہماری یونیورسٹی رات نو بجے کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ یہ طنز تھا جو مجھے سمجھ میں نہں آیا۔
ٹھیک ہے میم ۔ آئندہ رات نو سے پہلے آجاؤں گا ۔ میں نے فرمانبرداری سے سر جھکایا۔
شٹ اپ۔ آئندہ صبح ساڑھے آٹھ بجے کلاس ہونی ہے، بیٹھ جاؤ۔
میں چپ چاپ بیٹھ گیا۔ کلاس روم میں خاموشی تھی۔ پہلے دن میرے علاوہ تقریبا سب عزت سے بیٹھے تھے۔
اپنا تعارف کرواؤ۔ میم کی طرف سے حکم آیا۔ میرا نام اعتزاز احسن ہے اور میں۔۔۔
وکیل ہوں۔ پیچھے سے آواز آئی۔ کلاس میں قہقہہ گونجا۔
میں فیصل آباد سے ہوں، میں نے ایف ایسی دو سال پہلے کی تھی۔اس کے بعد یہاں داخلہ لے لیا۔
دوسال کیوں ضائع کیے؟ میم کے پوچھنے پر میں نے کچھ سوچا۔ سچ بولنے میں ہی بھلائی تھی۔
میم نمبراتنے تھے۔ کسی نے داخلہ ہی نہیں دیا۔ اس بار گونجنے والا قہقہہ زیادہ بلند تھا۔ میم مسکرائیں تک نہیں ۔ انہوں نے غصے سے مجھے گھورا۔
یہ تو پھر ہماری یونیورسٹی کی بے عزتی ہے جو تم جیسے طالب علم کو داخلہ دے دیا۔
نہیں میم ۔ یہ تو ایرڈ یونیورسٹی ساہیوال کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ آج سے کئی سال بعد جب مجھ پر مضمون لکھا جائے گا تو دوسری لائن میں لکھیں گے، اس کے بعد آپ اعلا تعلیم کے لیے ایرڈ یونیورسٹی ساہیوال چلے گئے۔
کیوں، ایسا کیا کارنامہ دکھانا ہے تم نے؟ میم میں لکھاری ہوں۔ مختلف ڈائجسٹ میں کہانیاں لکھتا ہوں۔
اوہ- یعنی نئی نسل کو خراب کرنے والوں میں تم بھی شامل ہو۔ آئندہ میری کلاس میں تم نے سب سے آخر میں بیٹھنا ہے۔ اگلی کسی کرسی پر تم دکھائی دیے تو میں تمہیں کلاس سے باہر نکال دوں گی- میں نے سعادت مندی سے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ تھوڑی دیر بعد وہ چلی گئیں۔ پہلے دن ہی کلاس میں ہنسی مذاق کرنے کی وجہ سے میری سب لڑکوں سے اچھی دوستی ہوگئی۔ پہلی کلاس کے بعد ہمیں ویلکم کیا گیا۔ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کی تقریرسنی۔ اور پھر میری اس کہانی کا ایک کردار سامنے آیا۔ میم عالیہ ظفر۔۔
*******
کلاس۔ آپ میں سے کوئی ان پیچ کمپوزنگ کے متعلق جانتا ہے کچھ…… کسی کی اسپیڈ اچھی ہو کمپوزنگ کی؟ میم عالیہ ظفر کا کام ہمیں انگلش پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہماری کمیونیکیشن اسکلز پر کام کرنا تھا۔ اس لیے وہ مختلف طریقوں سے ہم سے کام لیتی رہتی تھیں ۔اس طرح ہمیں کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تجربات بھی حاصل ہوتے ۔ عالیہ میم مجھے بہت پسند تھیں۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ بھی میری طرح لکھاری تھیں اس کے علاوہ وہ شاعری بھی کر لیتی تھیں۔
جی میم۔ میں جانتا ہوں۔ میں نے ہاتھ کھڑا کیا-
لیکچر کے بعد مجھے میرے روم میں ملنا۔ کچھ ضروری کام ہے۔ انہوں نے کہا۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
لیکچر کے بعد پندرہ منٹ کی بر یک ہوئی تو میں ان کی روم کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے انہوں نے لیپ ٹاپ کھولا ۔
کتنی اسپیڈ ہے تمہاری اعتزاز؟
کچھ اندازہ نہیں میم ۔ لیکن جتنی ایک پروفیشنل کی ہوسکتی ہے اتنی اسپیڈ سے ٹائپ کر سکتا ہوں ۔
گڈ، انہوں نے سر ہلایا۔ میری ایک دوست ہے اسے اپنی کتاب کمپوز کروانی ہے- شاعری کی ، اگر تم کرسکوتو … انہوں نے مجھے میل دکھائی۔ یہ کل اس نے کچھ نمونے دیے تھے ۔اس طرح کمپوز کروانا چاہتی ہیں، کرلو گے؟
جی، میم۔ کرلوں گا۔
پیسے اچھے دے رہی ہے وہ ۔ انہوں نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ایک ماہ کا وقت ہے۔ کل تمہیں اس کی آواز میں دے دوں گی ساری شاعری ، یو ایس بی لے آنا اپنے ساتھ ۔ زیادہ مناسب یہی ہے کہ جو یونیورسٹی میں فارغ وقت ملے اس میں اپنے لیپ ٹاپ پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا۔۔ میرا یہ کمرا خالی ہی ہوتا ہے یہاں آ کر کمپوز کر لینا۔اب تم جا سکتے ہو۔
شکریہ، میں یہی کہہ کر مڑا اور پھر واپس ان کی طرف آیا۔میم ۔ ایک سوال ہے۔
دو پوچھو۔ وہ مسکرائیں۔ نہیں۔ ایک ہی ہے۔ آپ نے اپنا لکھا شائع کیوں نہیں کروایا ؟ صرف پی ڈی ایف میں ہے، با قاعدہ کتابی شکل میں کچھ بھی نہیں ۔ ان کے چہرے پر پل بھر کے لیے افسردگی دکھائی دی-
کچھ وجوہات ہیں بچے ۔ بتاؤں گی تمہیں ۔ پھر کبھی ۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
واپس اپنے شہر کی طرف جاتے ہوۓ میں میم عالیہ ظفر کا چہرہ اپنے تصور میں لے آیا۔ وہ ایک مکمل شخصیت تھیں مگر کہیں نہ کہیں ۔ کچھ نہ کچھ ادھورا پن تھا۔ نجانے کیوں۔
*******
میں نے لیپ ٹاپ کھولا اور اس نا معلوم شاعرہ کا کلام کمپوز کرنا شروع کر دیا۔ کسی اور کا لکھا کمپوز کرنا میرے لیے ایسا ہی تھا جیسے اپنی جوئیں چھوڑ کر کسی اور کے سر میں خارش کرنا مگر یہاں میں نے کام ذمے لے لیا تھا۔ مدھم آواز میں ایک شعر سن کر میں اسے کمپوز کرتا پھر آگے بڑھ جاتا۔ کوئی دو تین غزلیں کمپوز کرنے کے بعد میں نے سراٹھایا۔ میم کمرے میں آ چکی تھیں ۔
خوب۔ دل لگا کر کام کر تے ہوتم- انہوں نے تعریف کی ۔ خود کیا لکھ رہے ہو آج کل؟
کچھ آرٹیکل ہیں ان پر کام کر رہا ہوں۔
ویری گڈ ، میری زندگی پر لکھ لو آرٹیکل ۔
میں ہنس پڑا۔ ہنس کیوں رہے ہو؟
میم- وہ ان مشہور شخصیات پر ہے جو مر چکے ہیں۔ وہ مسکرا دیں۔
اچھا یعنی تمہارے مضمون کے لیے میرا مرنا ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا پھر گہری سانس لے کر بولیں۔
ان پر بھی کبھی کچھ لکھنا جو حقیقت میں زندہ ہیں لیکن اندر سے مر چکے ہیں۔
ان کی بات سن کر میں خاموش ہو گیا۔ جتنی مرضی بے تکلفی سہی لیکن حقیقت میں ایک لیکچرر اور طالب علم کے درمیان جو جھجک ہونی چاہیے تھی ، وہ ہمارے درمیان بھی تھی۔ کلاس میں ان سے ہنسی مذاق کر لیتا مگر یہاں میں کچھ الٹا سیدھا بول کر ان کی نظروں میں اپنی عزت کم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد میں نے سر ہٹایا تو ان کے میز پر کافی سارے ڈاکومنٹس پڑے تھے۔
یہ کیا ہیں میم؟ کچھ تعلیمی اسناد اور سرٹیفکیٹ وغیرہ ہیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ میں دیکھتا رہا۔ انہوں نے میری دلچسپی محسوس کرتے ہوۓ وہ سب چیزیں مجھے دکھائیں۔
میرے ابو کو بہت شوق تھا کہ بیٹا ہومگر جب میں پیدا ہوئی تو وہ پھر بھی مایوس نہ ہوۓ ۔ انہوں نے مجھے میرا ہر شوق پورا کرنے کی پوری آزادی دی ۔ یہ دیکھو۔ کالج میں میں کرکٹ ٹیم کی کپتان تھی، فٹبال میں بھی حصہ لیا اور تقریری مقابلے کی ونر بھی ۔ یونیورسٹی میں بیت بازی کے مقابلے کی ونر ، ہماری ٹیم نے ٹی وی چینل پر ہونے والی بیت بازی میں بھی دوسری پوزیشن لی تھی ۔ پڑھائی سے ہٹ کر بھی میں نے بہت کچھ کیا۔
میں نے آپ کی کچھ کہانیاں پڑھی تھیں پی ڈی ایف میں- میں نے انہیں بتایا۔
کیسی لگیں؟ اپنی اسناد اور سٹیفکیٹ دوبارہ دراز میں رکھتے ہوۓ انہوں نے پوچھا۔
ادھوری ۔ میں نے سچائی پرمشتمل جواب دیا۔ کچھ نامکمل تھا ان میں میں میم، ہر کہانی انجام پرپہنچ کر بھی تشنگی کا احساس چھوڑ جاتی تھی ۔ وہ مسکرادیں۔ مجھے امید تھی کہ تعریفی جواب ملے گا مگر تم پہلے طالب علم ہو جو میری کہانیوں کی گہرائی تک پہنچے ہو ورنہ اکثر صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ وہ میں نے لکھی ہیں اس کے علاوہ انہیں کوئی خاص دلچسپی محسوس نہیں ہوتی ۔ کام کے ساتھ ساتھ ہماری گفتگو بھی جاری تھی ۔ اصل میں اعتزاز بچے ۔ ہر کہا نی ادھوری ہے ہمارے اردگرد ہر انسان کو دیکھو، کوئی بھی مکمل زندگی نہیں گزار رہا ۔ تم امیر سے امیر شخص سے مل کر دیکھنا، چہرے پر مسکراہٹ ہوگی اور مسکراہٹ میں افسردگی ، کسی کو اولاد کا دکھ ہو گا کسی کو دوسرے رشتوں کا ، بہت کم لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ دراصل اسی کسک کا نام زندگی ہے۔ تمہیں حقیقت میں ایسا کوئی انسان ملا ہے جو تمہیں لگے کہ مکمل ہو ہر لحاظ سے-
جی-
کون؟
تعریف نہیں کرنا چاہتا مگر سچ میں مجھے آپ کی زندگی بہت پسند آئی ، آپ نے کالج اور یونیورسٹی کی زندگی کو انجواۓ کیا اور اب پڑھا بھی رہی ہیں ۔ میرا جواب سن کر وہ خاموش ہو گئیں۔ کچھ دیر کمرے میں صرف کی بورڈ کے بٹنوں کی آواز آتی رہی۔
یہ میرے آخری تین ماہ ہیں تم لوگوں کے فائنل ایگزامز کے بعد میں نے یونیورسٹی چھوڑ دینی ہے۔ میرا معاہدہ ختم ہورہا ہے یونیورسٹی سے ۔ ان کا جواب سن کر میں پل بھر کے لیے ساکت رہ گیا۔
کیوں؟
میرے منہ سے نکلا۔
بس۔ وہ کمرے سے اٹھ کر باہر چلی گئیں۔
کل ملاقات ہوگی بچے۔
ان کی بات سن کر میں نے بھی اپنا لیپ ٹاپ سنبھالا اور باہر آ گیا۔ گھر واپس جاتے ہوۓ میں بہت افسردہ تھا۔ میم عالیہ ظفر کا یونیورسٹی چھوڑنے کا سن کر مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔ میں کیا۔۔ پوری کلاس انہیں پسند کرتی تھی۔
فائل ایگزامز کی ڈیٹ شیٹ آئی تو سب کو اپنی اپنی پڑگئی۔ تیاری میں لگے ، رٹا مارتے اسٹوڈنٹس ہر جگہ دکھائی دیتے تھے۔ کچھ لائق طالب علم تو اکثر کتاب میں دھیان لگاۓ چلتے چلتے گیٹ سے ٹکرا جاتے۔ پہلے پیپر والے دن ہی یہ خبر عام ہوگئی کہ میم یونیورسٹی چھوڑ رہی ہیں۔ پوری کلاس دکھی ہوگئی۔ ہمارا اور ان کا ساتھ چھ ماہ کا تھا مگر ان کی شخصیت سب کو پسند تھی۔ اعلان کیا گیا کہ آخری پیپر والے دن انہیں الوداعی پارٹی دی جائے گی۔ دوسرے پیپر والے دن جب سب دوست پیپر دے کر چلے گئے۔ میں ان کے کمرے میں چلا آیا۔ کیا میں اندر آ سکتا ہوں میم؟
آؤ بچے آؤ۔ میں اندر آ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔
مجھے کچھ جاننا ہے میم-
یہی ناں کہ میں یونیورسٹی کیوں چھوڑ رہی ہوں؟
جی-
مجھے امید تھی تم ضرور آؤ گے ،دو تین ماہ تم الجھن میں رہے ہو گے کہ میم ڈانٹ نہ دیں پوچھنے پر- انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ چھوٹی سی کہانی ہے میری بھی سن لو۔انہوں نے گہری سانس لی ۔
خوبصورت اور جواں سالہ پڑوسن
میں اس شہر کی نہیں ہوں ۔لاہور سے ہوں۔ یہاں میری شادی ہوئی تھی ابو کے ایک دوست کے بیٹے کے ساتھ۔ ظفر سرکاری محکمے میں اچھی ملازمت کر رہے ہیں۔ انہیں میرا جاب کرنا پسند نہیں تھا۔ اب تک جو میں نے جاب کی ہے وہ اس شرط پر کی ہے کہ جب میرا بیٹا اسکول جانے لگے گا تب میں جاب چھوڑ دوں گی۔ اور اب وہ چار سال کا ہو گیا ہے اب اس کی تربیت کرنا اور پڑھانا میرا فرض ہے اس لیے میں اب جاب چھوڑ رہی ہوں۔اپنی خوشی سے؟
انسانی لڑکی کی ایک جن سے محبت
اپنی خوشی سے کچھ کرنا ہوتا تو اب تک میں اسکالر شپ پرلندن کی ایک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہوتی ۔اسپورٹس کے کسی شعبے میں میرا نام ہوتا ۔ چند کتابیں مارکیٹ میں ہوتیں۔ لیکن ہر عورت کو زندگی میں سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، والدین کے لیے نہ سہی، اپنے گھر کے لیے ۔بہت سی خوشیاں ، خواہشات ان سمجھوتوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔ میں جاب کے ساتھ ساتھ سب کچھ سنبھال سکتی ہوں مگر میرا شوہر راضی نہیں تو بس جاب چھوڑ دی۔میم … میرے کچھ کہنے سے پہلے انہوں نے ہاتھ کھڑا کیا۔
کسک ……. بچے …… یہی ادھوری خواہشات اور یہی دل کے انجان گوشے میں موجود کسک کا نام زندگی ہے…… عورت کی زندگی ۔
یہ کہہ کر انہوں نے اپنی اسناد اور ٹیفکیٹ میز سے نکالے اور باھر چلی گئیں- میں ان کی آنکھوں میں ماجود آنسو نہ دیکھ سکا.
(ختم شد)
0 تبصرے