دلہن کا پراسرار قتل

Sublimegate Urdu Stories

کراچی کے علاقے ڈیفنس کی ایک عالیشان حویلی میں رات کے گیارہ بجے شادی کی تقریب اپنے عروج پر تھی۔ ہر طرف روشنیوں کی چمک، مہمانوں کی ہنسی، اور موسیقی کی دھنوں نے فضا کو جادوئی بنا دیا تھا۔ نئی نویلی دلہن، زینب، اپنے سرخ جوڑے میں ایسی لگ رہی تھی جیسے آسمان سے کوئی پری اتر آئی ہو۔ اس کا دولہا، عاصم، ایک کامیاب بزنس مین، اس کے ساتھ مسکراتا ہوا ہر مہمان کا استقبال کر رہا تھا۔ لیکن اس رنگین رات کی چمک کے پیچھے ایک تاریک راز چھپا ہوا تھا۔

تقریب کے بعد، جب مہمان رخصت ہو چکے تھے، زینب اپنے کمرے میں اکیلی تھی۔ عاصم نے کہا تھا کہ وہ چند دوستوں سے مل کر آتا ہے۔ رات کے تقریباً ایک بجے، حویلی کی نوکرانی، شبانہ، نے زینب کے کمرے سے ایک دھیمی چیخ سنی۔ وہ بھاگتی ہوئی کمرے کی طرف گئی، لیکن دروازہ اندر سے بند تھا۔ دروازہ توڑنے پر جو منظر سامنے آیا، وہ خوفناک تھا۔ زینب اپنے بستر پر خون میں لت پت پڑی تھی، اس کے گلے پر چھری کے گہرے زخم تھے۔

صبح ہوتے ہی پولیس کو بلایا گیا۔ انسپکٹر فیصل خان، جو کراچی پولیس میں اپنی ذہانت اور تیز نگاہوں کے لیے مشہور تھے، کیس کی تفتیش کے لیے پہنچے۔ فیصل نے کمرے کا جائزہ لیا۔ کمرے میں کوئی جبری داخلے کے آثار نہیں تھے۔ کھڑکی بند تھی، اور دروازہ اندر سے لاک تھا۔ زینب کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چٹ پکڑی ہوئی تھی، جس پر لکھا تھا: "میں جانتی تھی وہ مجھے مار ڈالے گا۔"

فیصل نے عاصم سے پوچھ گچھ شروع کی۔ عاصم نے بتایا کہ وہ رات کو اپنے دوستوں کے ساتھ تھا اور جب وہ واپس آیا تو زینب کو مردہ پایا۔ لیکن اس کی کہانی میں کچھ تضادات تھے۔ اس نے کہا کہ وہ بارہ بجے واپس آیا، لیکن گھر کے سیکیورٹی کیمرے نے اسے ایک تیس بجے حویلی میں داخل ہوتے دکھایا۔

دوسری طرف، زینب کی ساس، بیگم نصرت، جو خاندان کی سربراہ تھیں، اپنی بہو کی موت پر خاموش تھیں۔ ان کی آنکھوں میں غم کم اور خوف زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔ فیصل کو لگا کہ بیگم نصرت کچھ چھپا رہی ہیں۔ انہوں نے نوکرانی شبانہ سے بھی بات کی، جس نے بتایا کہ زینب شادی سے چند دن پہلے کافی پریشان تھی اور اکثر رات کو فون پر کسی سے دبی آواز میں بات کرتی تھی۔

انسپکٹر فیصل خان صبح سویرے حویلی واپس آئے۔ ان کا دماغ زینب کے ہاتھ میں ملی چٹ پر لکھے الفاظ "میں جانتی تھی وہ مجھے مار ڈالے گا" پر اٹکا ہوا تھا۔ فیصل نے فیصلہ کیا کہ وہ زینب کی زندگی کے بارے میں گہرائی سے جانچ کریں گے۔ انہوں نے سب سے پہلے زینب کے کمرے کی دوبارہ تلاشی لی۔ کمرے کے ایک کونے میں، الماری کے پیچھے، ایک چھوٹی سی ڈائری ملی۔ ڈائری کے صفحات پر زینب کی خوبصورت خطاطی میں روزمرہ کے واقعات لکھے تھے، لیکن آخری چند صفحات پر کچھ عجیب جملے تھے: "وہ مجھے ہر وقت دیکھتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میری جاسوسی ہو رہی ہے۔" اور ایک جگہ لکھا تھا، "اگر مجھے کچھ ہوا تو اسے تلاش کرو۔"

فیصل نے ڈائری کو لیبارٹری بھجوا دی تاکہ فنگر پرنٹس اور ہینڈ رائٹنگ کی تصدیق ہو سکے۔ اس دوران، انہوں نے عاصم سے دوبارہ پوچھ گچھ کی۔ عاصم نے اپنی کہانی پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ وہ رات کو اپنے دوست اکرم کے ساتھ تھا۔ فیصل نے اکرم سے رابطہ کیا، جو عاصم کا پرانا کاروباری پارٹنر تھا۔ اکرم نے تصدیق کی کہ عاصم اس کے ساتھ تھا، لیکن اس کی آواز میں ایک عجیب سا ہچکچاہٹ تھی۔ فیصل کو شک ہوا کہ اکرم کچھ چھپا رہا ہے۔

ادھر، بیگم نصرت سے بات کرنے پر فیصل کو ایک نیا زاویہ ملا۔ بیگم نصرت نے بتایا کہ زینب شادی سے پہلے اپنے خاندان سے زیادہ رابطے میں نہیں تھی۔ ان کے والد ایک ریٹائرڈ فوجی افسر تھے جو اب لاہور میں رہتے تھے۔ فیصل نے زینب کے والد، کرنل ریٹائرڈ جاوید سے رابطہ کیا۔ جاوید نے بتایا کہ زینب کی شادی عاصم سے ان کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی، کیونکہ انہیں عاصم کے کاروباری معاملات پر شک تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زینب نے شادی سے ایک ہفتہ پہلے انہیں فون کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ "کسی خطرے" میں ہے۔

فیصل نے شبانہ سے دوبارہ بات کی۔ شبانہ نے ایک اہم بات بتائی کہ زینب کے کمرے کے قریب ایک رات وہ عاصم کو کسی سے فون پر جھگڑتے سنی تھیں۔ عاصم کہہ رہا تھا، "یہ سب ختم کر دو، ورنہ سب برباد ہو جائے گا۔" شبانہ کو یہ بھی یاد آیا کہ زینب کے پاس ایک پرانا فون تھا جو وہ چھپا کر رکھتی تھی۔ فیصل نے کمرے کی تلاشی لی، لیکن وہ فون نہ ملا۔

انسپکٹر فیصل خان کی توجہ اب زینب کے گمشدہ فون پر مرکوز تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حویلی کے ہر کونے کی دوبارہ تلاشی لی جائے۔ فیصل کی ٹیم نے زینب کے کمرے سے لے کر حویلی کے باغ تک ہر جگہ چھان ماری۔ بالآخر، باغ کے ایک کونے میں، جھاڑیوں کے نیچے ایک پرانا، سستا فون ملا۔ فون کی بیٹری ختم تھی، اور اس کی سکرین پر دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ فیصل نے فون کو فورنزک لیبارٹری بھجوا دیا تاکہ اس کے ڈیٹا کو بحال کیا جا سکے۔

دوسری طرف، فیصل نے اکرم سے دوبارہ رابطہ کیا۔ اس بار اکرم کو پولیس سٹیشن بلایا گیا۔ اکرم گھبراہٹ میں تھا اور اس نے اعتراف کیا کہ عاصم نے اس سے جھوٹ بولنے کو کہا تھا۔ اکرم کے مطابق، عاصم رات گیارہ بجے اس کے گھر سے نکل گیا تھا، نہ کہ بارہ بجے جیسا کہ اس نے دعویٰ کیا۔ اکرم نے یہ بھی بتایا کہ عاصم نے اس رات ایک فون کال کی تھی جس میں وہ کافی غصے میں تھا اور کہہ رہا تھا، "تم نے جو کیا وہ میرا سب کچھ برباد کر دے گا۔" فیصل کو لگا کہ یہ وہی کال ہو سکتی ہے جو شبانہ نے سنی تھی۔

فورنزک رپورٹ سے ایک اور اہم سراغ ملا۔ زینب کی ڈائری پر صرف اس کے اور ایک نامعلوم شخص کے فنگر پرنٹس ملے۔ نامعلوم فنگر پرنٹس کسی مرد کے تھے، لیکن وہ عاصم کے نہیں تھے۔ فیصل نے حویلی کے تمام مرد ملازمین کے فنگر پرنٹس لینے کا حکم دیا۔ اس دوران، فون کی فورنزک رپورٹ بھی آ گئی۔ فون میں ایک ہی نمبر سے بار بار کالز اور پیغامات تھے۔ پیغامات میں زینب کو دھمکیاں دی گئی تھیں: "چپ رہو، ورنہ تمہاری شادی ختم ہو جائے گی۔" اور ایک پیغام میں لکھا تھا، "تم نے وہ خط کس کو دیا؟" فون کا نمبر ایک پری پیڈ سم سے تھا، جو غیر رجسٹرڈ تھا۔

فیصل نے بیگم نصرت سے دوبارہ بات کی۔ اس بار بیگم نصرت نے ایک اہم بات بتائی کہ زینب شادی سے پہلے ایک خط لے کر ان کے پاس آئی تھی۔ زینب نے کہا تھا کہ یہ خط اس کے لیے "زندگی اور موت" کا معاملہ ہے، لیکن اس نے خط کا مواد نہیں بتایا۔ بیگم نصرت نے خط کو اپنی تجوری میں رکھ دیا تھا، لیکن جب فیصل نے چیک کیا تو تجوری خالی تھی۔ بیگم نصرت حیران تھیں کہ خط غائب کیسے ہوا۔

انسپکٹر فیصل خان کی رات بے چینی میں گزری۔ گمشدہ خط کے بارے میں بیگم نصرت کی بات ان کے دماغ میں گھوم رہی تھی۔ فیصل نے فیصلہ کیا کہ وہ حویلی کے ملازمین سے پوچھ گچھ کریں گے تاکہ خط کے بارے میں کوئی سراغ مل سکے۔ انہوں نے حویلی کے ڈرائیور، راشد، سے بات شروع کی، جو عاصم کا قریبی آدمی تھا۔ راشد نے بتایا کہ زینب شادی سے چند دن پہلے ایک بار رات کو چپکے سے گھر سے نکلی تھی اور اسے لاہور روڈ پر ایک کیفے کے باہر چھوڑا تھا۔ راشد کے مطابق، زینب وہاں کسی سے ملنے گئی تھی، لیکن وہ شخص کون تھا، اسے نہیں معلوم۔

فیصل نے اس کیفے کا پتہ لگایا اور وہاں کے سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج حاصل کی۔ فوٹیج میں زینب ایک جوان آدمی کے ساتھ بیٹھی دکھائی دی، جس کا چہرہ کیمرے سے جزوی طور پر چھپا تھا۔ وہ دونوں گہری گفتگو میں تھے، اور زینب نے اسے ایک لفافہ دیا۔ فیصل نے فوٹیج کو فورنزک ٹیم کے حوالے کیا تاکہ اس شخص کی شناخت ہو سکے۔

دوسری طرف، فیصل نے حویلی کے ملازمین کے فنگر پرنٹس کا موازنہ زینب کی ڈائری پر ملے نامعلوم فنگر پرنٹس سے کیا۔ حیران کن طور پر، وہ فنگر پرنٹس راشد کے تھے۔ جب فیصل نے راشد سے اس بارے میں پوچھا، تو وہ گھبرا گیا اور کہنے لگا کہ اس نے زینب کی ڈائری کبھی نہیں دیکھی۔ لیکن اس کی گھبراہٹ نے فیصل کا شک اور بڑھا دیا۔ فیصل نے راشد کو حراست میں لے لیا تاکہ اس سے مزید پوچھ گچھ کی جا سکے۔

اسی دوران، فورنزک لیبارٹری سے زینب کے فون کے ڈیٹا کی رپورٹ آئی۔ فون میں ایک آڈیو ریکارڈنگ ملی، جو زینب نے شادی سے دو دن پہلے بنائی تھی۔ ریکارڈنگ میں زینب کی لرزتی آواز تھی: "اگر مجھے کچھ ہوا، تو یہ سب اس خط کی وجہ سے ہوگا۔ وہ خط... وہ سب کچھ بدل دے گا۔ میں نے اسے محفوظ جگہ پر رکھ دیا ہے، لیکن وہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔" فیصل کو یقین ہو گیا کہ خط اس قتل کی کنجی ہے۔

فیصل نے بیگم نصرت سے دوبارہ پوچھا کہ کیا انہیں خط کے مواد کے بارے میں کچھ معلوم ہے۔ بیگم نصرت نے ہچکچاتے ہوئے بتایا کہ زینب نے ایک بار ذکر کیا تھا کہ خط میں عاصم کے کاروبار سے متعلق کچھ "خطرناک" معلومات ہیں۔ فیصل نے عاصم کے کاروباری معاملات کی چھان بین شروع کی اور پتہ چلا کہ عاصم کی کمپنی حال ہی میں ایک بڑے مالیاتی بحران سے گزری تھی، اور اسے مشکوک ذرائع سے فنڈز مل رہے تھے۔

انسپکٹر فیصل خان نے کامران کی تلاش کو اپنی ترجیح بنایا۔ انہوں نے کامران کے آخری معلوم پتہ پر، جو کراچی کے ایک پرانے اپارٹمنٹ میں تھا، چھاپہ مارا۔ اپارٹمنٹ خالی تھا، لیکن وہاں کی حالت بتاتی تھی کہ کوئی جلدی میں چیزیں سمیٹ کر گیا تھا۔ میز پر ایک پھٹی ہوئی تصویر پڑی تھی، جس میں زینب اور کامران ایک ساتھ مسکراتے دکھائی دے رہے تھے۔ تصویر کے پیچھے لکھا تھا: "ہمیشہ کے لیے، 2018۔" فیصل کو شک ہوا کہ زینب اور کامران کا رشتہ صرف دوستی سے زیادہ گہرا ہو سکتا ہے۔

فیصل نے کامران کے اخبار کے دفتر سے رابطہ کیا، جہاں اس کے ایڈیٹر نے بتایا کہ کامران پچھلے کچھ دنوں سے ایک "بڑی کہانی" پر کام کر رہا تھا، لیکن اس نے تفصیلات نہیں بتائیں۔ ایڈیٹر نے یہ بھی کہا کہ کامران نے شادی کی رات سے ایک دن پہلے زینب کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ "خطرے میں" ہے۔ فیصل نے کامران کے فون کے کال ریکارڈز چیک کرنے کا حکم دیا۔ ریکارڈز سے پتہ چلا کہ زینب کی موت سے چند گھنٹے پہلے کامران نے ایک نامعلوم نمبر پر کال کی تھی، جو حویلی کے قریب ایک فون بوتھ سے منسلک تھا۔

دوسری طرف، راشد سے پوچھ گچھ جاری تھی۔ راشد نے بالآخر دباؤ میں آ کر اعتراف کیا کہ اس نے زینب کی ڈائری عاصم کے کہنے پر چھوئی تھی۔ عاصم نے اسے حکم دیا تھا کہ وہ زینب کی چیزوں پر نظر رکھے۔ راشد نے یہ بھی بتایا کہ عاصم کو زینب کے کامران سے رابطوں پر شک تھا، اور وہ اکثر اس بارے میں زینب سے جھگڑتا تھا۔ لیکن راشد نے خط کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔

فیصل نے عاصم کو دوبارہ طلب کیا۔ عاصم نے کامران کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا، لیکن اس کی گھبراہٹ صاف ظاہر تھی۔ فیصل نے عاصم کے کاروباری ریکارڈز کی گہرائی سے چھان بین شروع کی۔ انہیں پتہ چلا کہ عاصم کی کمپنی کو فنڈز ایک آف شور اکاؤنٹ سے مل رہے تھے، جو ایک مشکوک کاروباری شخصیت، شاہد ملک، سے منسلک تھا۔ شاہد ملک کراچی کے انڈر ورلڈ میں اپنے غیر قانونی دھندوں کے لیے بدنام تھا۔

اسی دوران، فورنزک ٹیم نے کیفے کی فوٹیج سے ایک اور سراغ نکالا۔ فوٹیج میں زینب نے جو لفافہ کامران کو دیا تھا، اس پر ایک عجیب سا نشان تھا جو شاہد ملک کے کاروباری لوگو سے ملتا جلتا تھا۔ فیصل کو شک ہوا کہ زینب کا خط شاید شاہد ملک کے غیر قانونی کاروبار سے متعلق تھا۔

انسپکٹر فیصل خان نے گمنام دھمکی کو سنجیدگی سے لیا، لیکن وہ تفتیش سے پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھے۔ انہوں نے شاہد ملک کے بارے میں معلومات جمع کرنا شروع کیں۔ پولیس کے خفیہ ذرائع سے پتہ چلا کہ شاہد ملک نہ صرف غیر قانونی کاروبار میں ملوث تھا، بلکہ اس کے عاصم کی کمپنی کے ساتھ خفیہ مالیاتی لین دین بھی تھے۔ فیصل نے عاصم کے آف شور اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کیں، جن سے معلوم ہوا کہ شاہد ملک نے عاصم کو ایک بڑی رقم دی تھی، لیکن اس کے بدلے عاصم کو کچھ "خاص خدمات" انجام دینا تھیں۔

فیصل نے شاہد ملک کے ایک پرانے ساتھی، جو اب پولیس کا مخبر تھا، سے رابطہ کیا۔ مخبر نے بتایا کہ شاہد ملک کو حال ہی میں ایک خط کی تلاش تھی، جو اس کے کاروبار کے راز افشا کر سکتا تھا۔ مخبر کے مطابق، شاہد کو شک تھا کہ زینب کے پاس وہ خط ہے، اور اس نے اپنے آدمیوں کو زینب پر نظر رکھنے کا حکم دیا تھا۔ فیصل کو لگا کہ یہ وہی خط ہے جو زینب نے بیگم نصرت کو دیا تھا اور جو اب غائب ہے۔

دوسری طرف، فیصل کی ٹیم نے کامران کی تلاش تیز کر دی۔ انہیں ایک خفیہ اطلاع ملی کہ کامران کراچی کے مضافات میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں روپوش ہے۔ فیصل نے فوراً ایک ٹیم کے ساتھ وہاں چھاپہ مارا۔ گاؤں کے ایک پرانے گھر میں کامران پایا گیا، لیکن وہ زخمی تھا۔ اس کے بازو پر گہرا زخم تھا، اور وہ خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا۔ فیصل نے اسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا۔

ہسپتال میں، کامران نے اپنی کہانی سنائی۔ اس نے بتایا کہ زینب نے اسے ایک خط دیا تھا جس میں عاصم اور شاہد ملک کے غیر قانونی کاروبار کے ثبوت تھے، جن میں منی لانڈرنگ اور غیر قانونی تجارت شامل تھی۔ زینب کو یہ خط عاصم کے دفتر سے ملا تھا، جب وہ شادی سے پہلے اس کے کاغذات چیک کر رہی تھی۔ کامران نے خط کو شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن زینب کی موت سے پہلے ہی شاہد ملک کے آدمیوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ وہ بمشکل جان بچا کر بھاگ نکلا تھا۔

کامران نے بتایا کہ خط اب بھی اس کے پاس ہے، لیکن وہ اسے ایک محفوظ جگہ پر چھپا کر آیا ہے۔ فیصل نے خط کی جگہ پوچھی، لیکن اس سے پہلے کہ کامران کچھ بتا پاتا، ہسپتال کے باہر ایک گاڑی سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ فیصل نے فوراً کامران کو دوسرے کمرے میں منتقل کیا، لیکن حملہ آور فرار ہو چکے تھے۔

ہسپتال پر حملے کے بعد انسپکٹر فیصل خان نے کامران کو سخت سیکیورٹی میں منتقل کیا۔ کامران ابھی تک صدمے میں تھا، لیکن فیصل نے اس سے خط کی جگہ کے بارے میں پوچھا۔ کامران نے بتایا کہ اس نے خط کو کراچی کے ایک پرانے ڈاک خانے کے لاکر میں چھپایا تھا۔ اس نے لاکر کی چابی اپنے گاؤں کے گھر میں ایک پرانے صندوق کے نیچے چھپائی تھی۔ فیصل نے فوراً ایک ٹیم کو گاؤں بھیجا تاکہ چابی حاصل کی جا سکے۔

گاؤں میں، فیصل کی ٹیم کو چابی تو مل گئی، لیکن صندوق کے اندر ایک اور چیز ملی: زینب کا ایک پرانا خط، جو اس نے کامران کو تین سال پہلے لکھا تھا۔ خط میں زینب نے لکھا تھا کہ وہ عاصم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، کیونکہ اسے عاصم کے کاروبار کے بارے میں کچھ "خوفناک" راز معلوم ہوئے تھے۔ زینب نے کامران سے کہا تھا کہ وہ اسے بچانے کی کوشش کرے۔ اس خط نے فیصل کے شکوک کو اور پختہ کیا کہ زینب کی موت عاصم کے کاروباری رازوں سے جڑی ہوئی ہے۔

دوسری طرف، فیصل نے شاہد ملک کے بارے میں مزید معلومات جمع کیں۔ پولیس کے ایک اور مخبر نے بتایا کہ شاہد ملک حال ہی میں ایک نئی خاتون سے رابطے میں تھا، جو حویلی میں اکثر آتی جاتی تھی۔ فیصل نے اس خاتون کی شناخت کے لیے حویلی کے سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج دوبارہ چیک کی۔ فوٹیج میں ایک خاتون دکھائی دی، جو زینب کی کزن، آمنہ، تھی۔ آمنہ زینب کی شادی سے پہلے حویلی میں کئی بار آئی تھی اور عاصم سے اکیلے میں ملتی تھی۔ فیصل کو شک ہوا کہ آمنہ شاہد ملک اور عاصم کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔

فیصل نے آمنہ سے پوچھ گچھ کی۔ آمنہ نے پہلے تو کوئی اہم بات بتانے سے انکار کیا، لیکن جب فیصل نے شاہد ملک کا نام لیا تو وہ گھبرا گئی۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ عاصم کے کہنے پر شاہد ملک سے رابطے میں تھی، لیکن اس کا زینب کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آمنہ نے بتایا کہ زینب کو عاصم اور شاہد کے کاروبار کے بارے میں پتہ چل گیا تھا، اور وہ اسے بے نقاب کرنا چاہتی تھی۔ آمنہ نے یہ بھی کہا کہ زینب نے اسے ایک رات کہا تھا کہ وہ خط کسی کو دینے والی ہے جو اس کی حفاظت کر سکتا ہے۔

فیصل نے فوراً ڈاک خانے کے لاکر کی طرف ٹیم روانہ کی۔ لاکر کھولنے پر انہیں وہ خط مل گیا۔ خط میں عاصم کی کمپنی کے مالیاتی ریکارڈز اور شاہد ملک کے غیر قانونی لین دین کے دستاویزی ثبوت تھے۔ لیکن خط کے ساتھ ایک چھوٹی سی چٹ بھی تھی، جس پر لکھا تھا: "اگر مجھے کچھ ہوا تو آمنہ سے پوچھنا۔" فیصل حیران رہ گئے۔ کیا آمنہ واقعی بے قصور ہے؟

انسپکٹر فیصل خان نے آمنہ کو دوبارہ پولیس سٹیشن طلب کیا۔ خط کے ساتھ ملی چٹ، جس پر لکھا تھا "اگر مجھے کچھ ہوا تو آمنہ سے پوچھنا،" فیصل کے ذہن میں بار بار گونج رہی تھی۔ آمنہ سے پوچھ گچھ شروع ہوئی تو وہ شروع میں خاموش رہی، لیکن فیصل کے دباؤ پر اس نے بالآخر اپنی کہانی سنانا شروع کی۔ آمنہ نے بتایا کہ وہ زینب کی کزن ہونے کے ساتھ اس کی قریبی دوست بھی تھی۔ زینب نے اسے شادی سے چند ہفتوں پہلے بتایا تھا کہ اسے عاصم کے غیر قانونی کاروبار کے بارے میں پتہ چل گیا ہے۔ زینب نے آمنہ سے کہا تھا کہ وہ خط کامران کو دینے والی ہے، کیونکہ وہ ایک صحافی کے طور پر اسے شائع کر سکتا ہے۔

آمنہ نے اعتراف کیا کہ اس نے عاصم کو زینب کی منصوبہ بندی کے بارے میں بتا دیا تھا، کیونکہ شاہد ملک نے اسے بلیک میل کیا تھا۔ شاہد ملک کو آمنہ کے خاندان کے مالی مسائل کا پتہ تھا، اور اس نے آمنہ کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے زینب کی جاسوسی نہ کی تو اس کے والد کے کاروبار کو تباہ کر دے گا۔ آمنہ نے آنسوؤں کے ساتھ کہا کہ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کی وجہ سے زینب کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔

فیصل نے آمنہ سے پوچھا کہ کیا اسے زینب کے قتل کے بارے میں کچھ معلوم ہے۔ آمنہ نے کہا کہ شادی کی رات وہ حویلی میں موجود تھی اور زینب سے آخری بار ملنے گئی تھی۔ زینب نے اسے بتایا تھا کہ وہ عاصم سے اپنا فیصلہ سنانے والی ہے کہ وہ  اس شادی کو برقرار نہیں رکھنا چاہتی۔ آمنہ کے مطابق، زینب اس رات بہت خوفزدہ تھی اور اس نے کہا تھا کہ اگر اسے کچھ ہوا تو آمنہ سب کو سچ بتا دے۔ فیصل کو لگا کہ یہ وہی بات ہے جو زینب نے چٹ میں لکھی تھی۔

دوسری طرف، فیصل نے شاہد ملک کے خلاف کارروائی کے لیے ثبوت اکٹھے کرنے شروع کیے۔ خط کے دستاویزات کی جانچ سے پتہ چلا کہ شاہد ملک کی رقم سے عاصم نے نہ صرف اپنی کمپنی کو بچایا تھا بلکہ ایک غیر قانونی ہتھیاروں کی ڈیل بھی کی تھی۔ فیصل نے شاہد ملک کے ایک گودام پر چھاپہ مارنے کا منصوبہ بنایا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ عمل کرتے، انہیں ایک اور گمنام کال موصول ہوئی۔ اس بار کالر نے کہا، "تم خط تک پہنچ گئے، لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔" کال ٹریس کرنے پر پتہ چلا کہ یہ شاہد ملک کے ایک معروف ساتھی کے فون سے کی گئی تھی۔

اسی دوران، کامران کی حالت بہتر ہو رہی تھی، لیکن وہ اب بھی سیکیورٹی کے سخت انتظامات میں تھا۔ فیصل نے کامران سے دوبارہ بات کی اور اس سے پوچھا کہ کیا زینب نے کبھی آمنہ کے بارے میں کوئی شک ظاہر کیا تھا۔ کامران نے بتایا کہ زینب کو آخر میں آمنہ پر شک ہو گیا تھا، کیونکہ اسے لگتا تھا کہ آمنہ عاصم سے بہت زیادہ رابطے میں ہے۔

انسپکٹر فیصل خان نے شاہد ملک کے فرار ہونے کی خبر پر فوری عمل شروع کیا۔ انہوں نے کراچی کے تمام ایئرپورٹس، ریلوے اسٹیشنز، اور بس اڈوں پر الرٹ جاری کیا۔ پولیس کے خفیہ ذرائع سے پتہ چلا کہ شاہد ملک اپنے ایک قریبی ساتھی کے ساتھ بلوچستان کی طرف گیا ہے، جہاں اس کا ایک خفیہ ٹھکانہ ہے۔ فیصل نے ایک خصوصی ٹیم کے ساتھ بلوچستان کے لیے روانگی کا فیصلہ کیا۔

قبل ازیں، فیصل نے عاصم کو دوبارہ حراست میں لیا۔ عاصم سے سخت پوچھ گچھ کی گئی، لیکن وہ شاہد ملک کے بارے میں زیادہ کچھ بتانے سے گریز کرتا رہا۔ تاہم، جب فیصل نے خط کے دستاویزات اور اس کے غیر قانونی ہتھیاروں کی ڈیل کے ثبوت پیش کیے، عاصم ٹوٹ گیا۔ اس نے اعتراف کیا کہ شاہد ملک کے ساتھ اس کا کاروباری معاہدہ تھا، لیکن زینب کے قتل سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ عاصم نے بتایا کہ زینب کو جب اس کے کاروبار کے راز پتہ چلے، تو وہ اسے بلیک میل کرنے لگی تھی کہ وہ اسے شادی سے آزاد کر دے، ورنہ وہ خط شائع کر دے گی۔ عاصم نے یہ بھی کہا کہ شاہد ملک کو زینب کی دھمکیوں کا پتہ چل گیا تھا۔

دوسری طرف، فیصل کی ٹیم بلوچستان کے ایک دور افتادہ علاقے میں شاہد ملک کے ٹھکانے تک پہنچی۔ رات کے اندھیرے میں چھاپہ مارا گیا، لیکن شاہد ملک پہلے ہی وہاں سے فرار ہو چکا تھا۔ تاہم، ٹھکانے سے کچھ اہم دستاویزات برآمد ہوئیں، جن میں زینب کے قتل سے ایک دن پہلے شاہد ملک کے ایک آدمی کو بھیجی گئی ہدایات شامل تھیں۔ ہدایات میں لکھا تھا: "اس لڑکی کا کام رات تک ختم کر دو۔" فیصل کو یقین ہو گیا کہ شاہد ملک نے زینب کے قتل کا حکم دیا تھا۔

اسی دوران، فیصل کو کراچی سے ایک چونکا دینے والی خبر ملی۔ آمنہ نے پولیس سٹیشن آ کر ایک نیا بیان دیا۔ اس نے بتایا کہ شادی کی رات وہ زینب کے کمرے کے قریب تھی جب اس نے ایک اجنبی آدمی کو زینب کے کمرے سے نکلتے دیکھا۔ آمنہ نے اس شخص کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، لیکن اس کے ہاتھ میں ایک چھری تھی۔ آمنہ نے خوف کی وجہ سے اس وقت کچھ نہیں کہا، لیکن اب وہ اپنا ضمیر صاف کرنا چاہتی تھی۔ فیصل نے آمنہ کی بات پر شک کیا، لیکن اس کی تفصیلات کو نوٹ کیا اور اس اجنبی کی شناخت کے لیے سیکیورٹی فوٹیج دوبارہ چیک کرنے کا حکم دیا۔

انسپکٹر فیصل خان نے آمنہ کے بیان میں ذکر کردہ اجنبی کی شناخت کے لیے حویلی کی سیکیورٹی فوٹیج کی دوبارہ جانچ کی۔ گہری چھان بین کے بعد، ایک دھندلی فوٹیج میں رات کے وقت ایک شخص زینب کے کمرے کے قریب دیکھا گیا۔ فورنزک ٹیم نے فوٹیج کو بہتر کیا، اور اس شخص کی شناخت شاہد ملک کے ایک معروف گماشتے، نعیم، کے طور پر ہوئی۔ نعیم شاہد ملک کا دایاں ہاتھ تھا اور اسے کراچی کے انڈر ورلڈ میں "خاموش قاتل" کے نام سے جانا جاتا تھا۔

فیصل نے نعیم کو گرفتار کرنے کے لیے فوری کارروائی کی۔ کراچی کے ایک پرانے گودام میں چھاپہ مارا گیا، جہاں نعیم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ روپوش تھا۔ گرفتاری کے دوران نعیم نے مزاحمت کی کوشش کی، لیکن فیصل کی ٹیم نے اسے قابو کر لیا۔ پوچھ گچھ میں نعیم نے بالآخر اعتراف کیا کہ اس نے شاہد ملک کے حکم پر زینب کا قتل کیا تھا۔ نعیم نے بتایا کہ شاہد ملک کو زینب کے خط سے خطرہ تھا، کیونکہ اس میں اس کے غیر قانونی ہتھیاروں کی ڈیل اور منی لانڈرنگ کے پکے ثبوت تھے۔ زینب نے عاصم کو چھوڑنے کی دھمکی دی تھی، جس سے شاہد ملک خوفزدہ ہو گیا کہ اس کا پورا نیٹ ورک بے نقاب ہو جائے گا۔

نعیم نے یہ بھی بتایا کہ شادی کی رات اس نے زینب کے کمرے میں گھس کر اسے چھری سے قتل کیا۔ زینب کی چیخ سن کر وہ جلدی سے کمرے سے نکل گیا، لیکن اس نے زینب کے ہاتھ میں چٹ ڈال دی جس پر لکھا تھا "میں جانتی تھی وہ مجھے مار ڈالے گا" تاکہ عاصم پر شک جائے۔ یہ شاہد ملک کا منصوبہ تھا کہ عاصم کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔ نعیم، جو شاہد ملک کا پیشہ ور گماشتا تھا، ایک تربیت یافتہ قاتل تھا۔ حویلی کے پرانے ڈیزائن میں ایک خفیہ راستہ تھا، جو بیگم نصرت کے کمرے سے زینب کے کمرے تک جاتا تھا۔ یہ راستہ ایک دیوار کے پیچھے چھپی الماری کے ذریعے کھلتا تھا۔ نعیم کو شاہد ملک کے ذریعے حویلی کے اس راز کا علم تھا، کیونکہ شاہد ملک نے عاصم کے ذریعے حویلی کی ساخت کا مطالعہ کیا تھا۔ نعیم نے اس خفیہ راستے کا استعمال کرتے ہوئے زینب کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس راستے کی موجودگی کی وجہ سے دروازے یا کھڑکی پر کوئی جبری داخلے کے نشانات نہیں ملے۔ نعیم نے رات کے وقت، جب زینب اکیلی تھی، خفیہ راستے سے کمرے میں داخل ہو کر اس پر حملہ کیا۔ زینب کی دھیمی چیخ (جو شبانہ نے سنی) اسی وقت کی تھی۔ نعیم نے چھری سے زینب کا قتل کیا اور پھر چٹ اس کے ہاتھ میں رکھی، جس پر "میں جانتی تھی وہ مجھے مار ڈالے گا" لکھا تھا۔ یہ چٹ شاہد ملک کے منصوبے کا حصہ تھی تاکہ عاصم پر شک جائے۔ قتل کے بعد، نعیم نے وہی خفیہ راستہ استعمال کیا تاکہ باہر نکل سکے۔ لیکن کمرے کو اندر سے لاک دکھائی دینے کے لیے اس نے ایک چال استعمال کی۔ زینب کے کمرے کا لاک ایک پرانے طرز کا تھا، جسے اندر سے چابی کے بغیر بھی لاک کیا جا سکتا تھا۔ نعیم نے دروازے کو اندر سے لاک کیا اور چابی کو زینب کے بستر کے نیچے چھپا دیا، تاکہ یہ لگے کہ زینب نے خود دروازہ لاک کیا تھا۔ اس کے بعد وہ خفیہ راستے سے فرار ہو گیا تھا۔
فیصل نے شاہد ملک کی گرفتاری کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کیا۔ ایک خفیہ اطلاع پر عمل کرتے ہوئے، فیصل کی ٹیم نے شاہد ملک کو سرحد کے قریب ایک چھوٹے سے ہوٹل سے گرفتار کر لیا۔ شاہد ملک نے گرفتاری کے وقت مزاحمت نہیں کی، لیکن اس نے زینب کے قتل کا الزام عاصم اور نعیم پر ڈالنے کی کوشش کی۔ تاہم، نعیم کے اعتراف، خط کے ثبوتوں، اور شاہد ملک کے ٹھکانے سے ملنے والی ہدایات نے اسے پھنسا دیا۔

آمنہ سے دوبارہ پوچھ گچھ کی گئی۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ زینب کے قتل کے وقت حویلی میں موجود تھی، لیکن اس نے قتل نہیں دیکھا تھا۔ اس نے نعیم کو دیکھا تھا، لیکن خوف کی وجہ سے خاموش رہی۔ فیصل نے آمنہ کو بلیک میلنگ اور جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا، لیکن زینب کے قتل میں اس کے براہ راست ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہ ملا۔

عاصم کو بھی غیر قانونی کاروبار اور شاہد ملک کے ساتھ تعاون کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ کامران کو ہسپتال سے رہا کر دیا گیا، اور اس نے زینب کے خط کے ثبوتوں کو اپنے اخبار میں شائع کیا، جس سے شاہد ملک کا پورا نیٹ ورک بے نقاب ہو گیا۔

کراچی کی عدالت میں شاہد ملک، نعیم، اور عاصم کے خلاف مقدمہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ شاہد ملک کو زینب کے قتل، غیر قانونی ہتھیاروں کی تجارت، اور منی لانڈرنگ کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ نعیم کو قتل کے جرم میں اسی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ عاصم کو غیر قانونی کاروباری سرگرمیوں اور شاہد ملک کے ساتھ تعاون کے الزام میں سات سال قید کی سزا ملی۔ آمنہ کو بلیک میلنگ اور جاسوسی کے جرم میں دو سال کی سزا ہوئی، لیکن اس کی سچائی اور پچھتاوے کو دیکھتے ہوئے عدالت نے اسے رحم دکھایا۔

کامران نے زینب کی کہانی کو اپنے اخبار میں ایک مکمل رپورٹ کی شکل میں شائع کیا۔ اس رپورٹ نے نہ صرف شاہد ملک کے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا بلکہ زینب کی بہادری کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ کامران نے زینب کی یاد میں ایک صحافتی ایوارڈ قائم کیا، جو ہر سال ایسی خواتین صحافیوں کو دیا جاتا ہے جو سچ کے لیے لڑتی ہیں۔
انسپکٹر فیصل خان کو ان کی شاندار تفتیش پر پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیصل نے یہ ایوارڈ زینب کے نام کیا، کہتے ہوئے کہ انصاف کی یہ جیت اس کی بہادری کے بغیر ممکن نہ تھی۔ فیصل نے زینب کے والد، کرنل جاوید، سے لاہور جا کر ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ زینب کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔

حویلی، جو کبھی خوشیوں اور پھر ایک خوفناک قتل کی گواہ تھی، اب خاموش پڑی تھی۔ بیگم نصرت نے اپنے بیٹے عاصم کے جرائم پر شرمندگی سے حویلی چھوڑ دی اور ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے لگیں۔ شبانہ، نوکرانی، نے نئی ملازمت اختیار کی، لیکن وہ ہمیشہ زینب کی ہمدردی اور نیکی کو یاد رکھتی تھی۔ زینب کی کہانی کراچی کے لوگوں کے دلوں میں ایک عبرت کے طور پر زندہ رہی۔ اس کی بہادری نے ثابت کیا کہ سچ کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے، لیکن ختم نہیں کیا جا سکتا۔
(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ