ہولناک درندہ

Sublimegate Urdu Stories

براہ مہربانی پلے کا بٹن  ضرور دبائیں اور نیچے دی گئی کہانی پڑھیں۔ آپ کے تعاون کا بہت بہت شکریہ
👇👇


رتن سنگھ ایک ظالم زمیندار تھا، جس کی ہوسِ دولت اور اقتدار نے اسے اندھا کر دیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ہر وہ چیز جو اس کے عیش و آرام میں رکاوٹ بنتی، ایک دشمن نظر آتی تھی۔ محل کے قریب، ایک چھوٹی سی بستی میں غریب چرواہے اپنی بکریوں اور چند جھونپڑیوں کے سہارے زندگی گزارتے تھے۔ یہ بستی رتن سنگھ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ "یہ گندے چرواہے میرے محل کے حسن کو داغدار کر رہے ہیں!" اس نے ایک دن اپنے دربار میں غرور سے کہا، اس کی آواز میں نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اس کے درباری، جو اس کے ظلم کے عادی ہو چکے تھے، خاموشی سے سر جھکائے سنتے رہے۔

ایک صبح، جب سورج ابھی افق پر مکمل طور پر نمودار بھی نہ ہوا تھا، رتن سنگھ کے سپاہیوں نے بستی پر حملہ کر دیا۔ مشعلیں لے کر انہوں نے جھونپڑیوں کو آگ لگائی، بکریوں کو ذبح کیا، اور جو کوئی بھاگنے کی کوشش کرتا، اسے تلواروں سے کاٹ دیا۔ دھوئیں کے گہرے بادل آسمان کو ڈھانپ رہے تھے، اور چیخوں کی آوازیں ہوا کو چیر رہی تھیں۔ بستی کے لوگ، جو کل تک اپنی سادہ زندگی میں خوش تھے، اب موت کے سائے تلے دب رہے تھے۔ عورتیں اپنے بچوں کو سینے سے لگائے بھاگ رہی تھیں، بوڑھے اپنی لاٹھیوں کے سہارے بھاگنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے، اور جوان اپنی عزت اور جان بچانے کی جنگ لڑ رہے تھے۔

اس افراتفری میں، ایک چرواہا، گوپال، اپنی بیوی میرا کے ساتھ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ گوپال ایک سادہ دل آدمی تھا، جس کی پوری دنیا اس کی بکریوں، اس کے چھوٹے سے جھونپڑی اور میرا کی محبت تک محدود تھی۔ میرا، جو سات ماہ کی حاملہ تھی، اپنے پیٹ کو تھامے مشکل سے قدم اٹھا رہی تھی۔ گوپال نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور کہا، "ہمت رکھ، میرا۔ ہم اس جنگل میں پناہ لے لیں گے۔ یہ سپاہی ہمیں وہاں نہیں ڈھونڈ سکیں گے۔"

جنگل کی طرف بھاگتے ہوئے، انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بستی شعلوں میں گھری ہوئی تھی۔ دھواں آسمان کو چھو رہا تھا، اور چیخوں کی آوازیں اب بھی کانوں میں گونج رہی تھیں۔ میرا کی آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ غصہ بھی تھا۔ "یہ ظالم رتن سنگھ!" وہ بڑبڑائی، " بھگوان اسے نہیں چھوڑے گا۔"

لیکن رتن سنگھ کے سپاہیوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز جنگل میں گونج رہی تھی۔ گوپال اور میرا گھنے درختوں کے درمیان چھپتے ہوئے بھاگ رہے تھے، لیکن رات کا اندھیرا اور جنگل کی گھنی تاریکی بھی انہیں مکمل طور پر نہ بچا سکی۔ ایک جگہ، جہاں چاند کی روشنی زمین پر بمشکل پڑ رہی تھی، سپاہیوں نے انہیں گھیر لیا۔

گوپال نے میرا کو اپنے پیچھے کیا اور ایک لاٹھی اٹھا لی، جو اسے زمین پر پڑی ملی تھی۔ "میرا، تم بھاگ جاؤ!" اس نے چیخ کر کہا۔ لیکن میرا اپنی جگہ سے ہلی نہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی رہی، اس کی آنکھوں میں خوف کے ساتھ عزم بھی تھا۔
ایک سپاہی نے اپنی تلوار نکالی اور گوپال پر وار کیا۔ گوپال نے لاٹھی سے اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ ایک تربیت یافتہ سپاہی کے سامنے کچھ نہ تھا۔ تلوار نے اس کے سینے کو چیر دیا، اور وہ خون آلود زمین پر گر پڑا۔ میرا کی چیخ جنگل کی خاموشی کو توڑ گئی۔ وہ گوپال کے پاس گھٹنوں کے بل گر پڑی، اس کے خون آلود چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر روتی رہی۔

سپاہیوں نے میرا کو بھی مارنے کی طرف قدم بڑھایا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتے، میرا نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور ایک ایسی بددعا دی کہ جنگل کی ہوا ٹھنڈی ہو گئی۔ اس کی آواز میں غم، غصہ، اور ایک عجیب سی طاقت تھی:
"اے بھگوان! میرا شوہر درندہ بن کر تیری نسل کو چاٹ جائے گا، رتن سنگھ! تو اور تیری اولاد کبھی سکون نہ پائیں گے! یہ جنگل تیری تباہی کا گواہ بنے گا!"
اس کی بددعا کے الفاظ درختوں کے درمیان گونجتے رہے، جیسے کوئی نامعلوم طاقت انہیں سن رہی ہو۔ سپاہی، جو میرا کو مارنے والے تھے، اچانک رک گئے۔ ان کے چہروں پر خوف کی لکیر نمایاں ہو گئی۔ ایک سپاہی نے دوسرے سے کہا، "یہ عورت کوئی جادوگرنی ہے۔ اسے چھوڑ دو، ورنہ ہم سب تباہ ہو جائیں گے۔" وہ میرا کو وہیں چھوڑ کر اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور بھاگ گئے۔

اس رات، جب چاند خون جیسا سرخ تھا، جنگل سے ایک عجیب آواز بلند ہوئی۔ یہ آواز بھیڑیے کی سی تھی، لیکن اس میں انسانی چیخ کی ایک ہولناک آمیزش تھی۔ یہ ایسی آواز تھی کہ سننے والوں کے دل دہل جائیں۔ رتن سنگھ کے محل میں، جہاں عیش و آرام کی محفلیں سجی تھیں، یہ آواز دیواروں سے ٹکرائی۔ رتن سنگھ، جو اپنے سنہری تخت پر بیٹھا شراب پی رہا تھا، ایک دم ساکت ہو گیا۔ اس نے اپنے درباریوں سے پوچھا، "یہ کیا آواز تھی؟" لیکن کسی کے پاس جواب نہ تھا۔

رتن سنگھ کا محل دن کے وقت سونے اور چاندی سے جگمگاتا تھا، لیکن رات کو یہ ایک عجیب سی تاریکی میں ڈوب جاتا تھا۔ مشعلوں کی روشنی کمزور پڑتی جاتی، جیسے کوئی ان سے روشنی چھین رہا ہو۔ رتن سنگھ کے خوابوں میں اب عجیب و غریب مناظر آنے لگے تھے۔ وہ خواب دیکھتا کہ ایک بھیڑیا اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے، لیکن اس کی آنکھیں انسانی تھیں۔ گوپال کی آنکھیں۔ وہ راتوں کو نیند سے چونک کر اٹھتا، اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوتا۔

اس نے اپنے درباریوں سے کہا، "یہ سب بکواس ہے! کوئی بھیڑیا یا بددعا مجھے نہیں ڈرا سکتی!" لیکن اس کی آواز میں وہ دھمک نہیں تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ اس نے اپنے سب سے وفادار سپاہی، سردار رام، کو جنگل میں بھیجنے کا حکم دیا کہ وہ اس آواز کی حقیقت معلوم کرے۔

سردار رام ایک تنومند اور بہادر سپاہی تھا، جس نے کئی جنگوں میں رتن سنگھ کی فتح کے جھنڈے گاڑے تھے۔ وہ اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں اور مشعلیں تھیں، اور ان کے چہروں پر ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ جنگل میں داخل ہوتے ہی انہیں ایک عجیب سی خاموشی نے گھیر لیا۔ پرندوں کی آوازیں غائب ہو چکی تھیں، اور ہوا میں ایک عجیب سی بدبو تھی — جیسے خون اور موت کی بو۔

سردار رام نے اپنے ساتھیوں کو چوکنا رہنے کا اشارہ کیا۔ "یہ کوئی عام جانور نہیں ہو سکتا،" اس نے کہا۔ "ہم سب کو مل کر اسے ڈھونڈنا ہوگا۔" لیکن اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتے، وہی ہولناک آواز دوبارہ گونجی۔ اس بار یہ زیادہ قریب تھی۔ مشعلوں کی روشنی میں، انہوں نے ایک سائے کو تیزی سے حرکت کرتے دیکھا۔ یہ کوئی عام جانور نہیں تھا۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ وہ اسے دیکھ بھی نہ سکے۔
اچانک، ایک سپاہی کی چیخ جنگل میں گونجی۔ جب مشعل کی روشنی اس پر پڑی، تو وہ زمین پر پڑا تھا، اس کا گلہ چیرا ہوا تھا۔ خون اس کے جسم سے ندی کی طرح بہہ رہا تھا۔ سردار رام نے اپنی تلوار نکالی اور چیخا، "کون ہے وہ؟ سامنے آؤ!" لیکن جواب میں صرف وہی خوفناک آواز آئی، جو اب اور قریب تھی۔

سپاہیوں کے دلوں میں خوف نے گھر کر لیا۔ ایک سپاہی نے بڑبڑاتے ہوئے کہا، "یہ کوئی جانور نہیں، یہ کوئی بھوت ہے!" سردار رام نے انہیں حوصلہ دینے کی کوشش کی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، ایک اور سپاہی پر حملہ ہوا۔ اس بار سائے نے اسے زمین پر گرایا اور اس کا جسم چیر دیا۔ باقی سپاہی بھاگنے لگے، لیکن سردار رام اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ اس نے اپنی تلوار بلند کی اور چیخا، "جو بھی ہے، میں تجھے مار دوں گا!"

لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا، سائے نے اس پر حملہ کیا۔ سردار رام نے اپنی تلوار سے وار کیا، لیکن اس کا وار ہوا میں خالی گیا۔ سائے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ وہ اسے دیکھ بھی نہ سکا۔ اچانک، اسے اپنے بازو پر ایک گہرا زخم محسوس ہوا۔ وہ زمین پر گر پڑا، لیکن اس سے پہلے کہ سائے اسے ختم کرتا، ایک عجیب سی روشنی جنگل میں پھیلی۔ یہ روشنی اتنی تیز تھی کہ سائے نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ سردار رام نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور بھاگ کر محل کی طرف لوٹ گیا۔
دوسری طرف، میرا جنگل کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی غار میں پناہ لیے ہوئے تھی۔ اس کا جسم زخموں سے چور تھا، اور اس کا دل گوپال کی موت کے صدمے سے ٹوٹ چکا تھا۔ وہ اپنے پیٹ کو تھامے بیٹھی تھی، جہاں اس کا ہونے والا بچہ اب بھی اس کی واحد امید تھا۔ اس رات، جب وہ جنگل کی وہی ہولناک آواز سنی، اس کے دل میں ایک عجیب سا سکون آیا۔ اسے لگا جیسے اس کی بددعا نے کوئی شکل اختیار کر لی ہو۔

میرا کو یاد آیا کہ اس کی دادی نے اسے بچپن میں ایک کہانی سنائی تھی۔ یہ ایک قدیم داستان تھی، جو اس جنگل کے بارے میں تھی۔ کہانی کے مطابق، اس جنگل میں ایک قدیم طاقت بستی تھی، جو ظلم کے خلاف بدلہ لیتی تھی۔ وہ طاقت کسی انسان یا جانور کی شکل میں جاگ اٹھی تھی، اور اس کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک عجیب سی چمک ہوتی تھی۔ میرا نے سوچا، "کیا میری بددعا نے اس طاقت کو جگا دیا ہے؟"
اس نے اپنے آپ سے کہا، "اگر یہ سچ ہے، تو رتن سنگھ کو اس کے گناہوں کی سزا ملے گی۔" لیکن اس کے دل میں ایک خوف بھی تھا۔ کیا یہ طاقت صرف رتن سنگھ کو سزا دے گی، یا یہ پورے علاقے کو تباہ کر دے گی؟

محل میں، سردار رام کی واپسی نے سب کو دہشت میں ڈال دیا۔ اس کا زخمی بازو خون سے لت پت تھا، اور اس کا چہرہ خوف سے سفید پڑ چکا تھا۔ اس نے رتن سنگھ کو بتایا کہ جنگل میں کوئی بھوت ہے، جو نہ جانور ہے نہ انسان۔ رتن سنگھ نے غصے سے کہا، "تم سب بزدل ہو! یہ کوئی بددعا یا بھوت نہیں، بس ایک جنگلی جانور ہے۔ میں خود اسے مار دوں گا!"

لیکن اس رات، جب وہ اپنے کمرے میں اکیلا تھا، اسے ایک عجیب سی آہٹ سنائی دی۔ یہ آہٹ اس کے کمرے کے باہر سے آ رہی تھی۔ اس نے اپنی تلوار اٹھائی اور دروازہ کھولا، لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ صرف وہی ہولناک آواز، جو اب محل کے اندر گونج رہی تھی۔ رتن سنگھ نے اپنے محافظوں کو بلایا، اور جب وہ آئے، تو انہوں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ خوف سے سفید پڑ چکا تھا۔ اس نے کہا، "یہ آواز... یہ آواز مجھے پاگل کر دے گی!" محافظوں نے اسے تسلی دی، لیکن ان کے اپنے دل بھی خوف سے دھڑک رہے تھے۔

جنگل میں، میرا نے فیصلہ کیا کہ وہ اس طاقت کو ڈھونڈے گی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا غم اسے کمزور کر رہا ہے، لیکن اس کے اندر ایک آگ بھی جل رہی تھی — بدلے کی آگ۔ وہ غار سے باہر نکلی اور جنگل کے گہرے حصے کی طرف بڑھنے لگی، جہاں سے وہ آواز آ رہی تھی۔

راستے میں، اسے ایک پرانا مندر ملا، جو جنگل کے بیچ میں کھڑا تھا۔ مندر کی دیواریں خستہ حال تھیں، اور اس کی سیڑھیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ میرا نے دیکھا کہ مندر کے دروازے پر ایک عجیب سا نشان کندہ تھا — ایک بھیڑیے کی شکل، جس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ اس نے اپنے دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس کی۔
مندر کے اندر، اسے ایک پرانا مجسمہ ملا، جو ایک عجیب سی مخلوق کا تھا۔ یہ نہ مکمل طور پر انسان تھا، نہ مکمل طور پر جانور۔ اس کی آنکھوں میں سرخ پتھر جڑے تھے، جو چاندنی میں چمک رہے تھے۔ میرا نے اس مجسمے کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا، "اے جنگل کی طاقت! اگر تو میری بددعا سے جاگی ہے، تو رتن سنگھ کو اس کے گناہوں کی سزا دے!"

اس کے الفاظ ختم ہوتے ہی، مندر کے اندر ایک عجیب سی روشنی پھیلی۔ وہی ہولناک آواز دوبارہ گونجی، لیکن اس بار یہ میرا کے لیے خوفناک نہیں تھی۔ اسے لگا جیسے یہ آواز اس سے کچھ کہہ رہی ہو۔

دوسری طرف، محل میں رتن سنگھ کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ اسے ہر رات وہی خواب دکھائی دیتا، اور ہر رات وہی آواز اسے تنگ کرتی۔ اس نے ایک پنڈت کو بلایا، جو اس علاقے میں اپنی روحانی طاقتوں کے لیے مشہور تھا۔ پنڈت نے محل کا معائنہ کیا اور کہا، "راجا صاحب، یہ کوئی عام جانور نہیں ہے۔ یہ ایک قدیم طاقت ہے، جو ظلم کے خلاف جاگ اٹھی ہے۔ آپ نے جو خون بہایا، اس کا بدلہ یہ طاقت لے گی۔"

رتن سنگھ نے غصے سے کہا، "یہ سب جھوٹ ہے! کوئی طاقت مجھے نہیں روک سکتی!" لیکن پنڈت نے سر جھکا کر کہا، "راجا صاحب، آپ اس طاقت سے لڑ نہیں سکتے۔ آپ کو اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہوگی۔"

رتن سنگھ نے پنڈت کی بات کو نظر انداز کر دیا، لیکن اس کے دل میں ایک عجیب سا خوف جاگ رہا تھا۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ جنگل کو جلا دیں۔ "اگر یہ کوئی جانور ہے یا کوئی بھوت، وہ آگ میں جل کر مر جائے گا!" اس نے غرور سے کہا۔

لیکن جب سپاہی جنگل کو جلانے کے لیے گئے، تو ایک عجیب سی طوفانی ہوا چلنے لگی۔ مشعلیں بجھ گئیں، اور وہی ہولناک آواز دوبارہ گونجی۔ اس بار، یہ آواز اتنی بلند تھی کہ سپاہی اپنی جگہ پر ساکت ہو گئے۔ کچھ سپاہیوں نے دیکھا کہ جنگل کے سائے میں ایک شکل حرکت کر رہی تھی — ایک ایسی شکل جو نہ انسان تھی، نہ جانور۔
میرا، جو اب مندر کے قریب تھی، اس آواز کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اسے لگا جیسے کوئی اسے بلا رہا ہو۔ جب وہ جنگل کے سب سے گہرے حصے میں پہنچی، تو اس نے ایک عجیب سی شکل دیکھی۔ یہ ایک بھیڑیے کی طرح تھی، لیکن اس کی آنکھیں انسانی تھیں۔ وہ شکل میرا کو دیکھ کر رک گئی، اور اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔

میرا کے دل میں خوف اور حیرت دونوں تھے۔ اس نے آہستہ سے کہا، "گوپال... کیا یہ تو ہے؟" لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی، وہ شکل جنگل کی تاریکی میں غائب ہو گئی۔

محل میں، رتن سنگھ اب مکمل طور پر خوف کے سائے میں تھا۔ اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ وہ اسے شہر لے جائیں، جہاں وہ اس آواز سے محفوظ رہ سکے۔ لیکن اس رات، جب وہ اپنے خادموں کے ساتھ محل سے نکلنے کی تیاری کر رہا تھا، وہی آواز محل کے صحن میں گونجی۔ رتن سنگھ نے اپنی تلوار اٹھائی اور چیخا، "سامنے آؤ، جو بھی ہو!" لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا، ایک سائے نے اس پر حملہ کیا۔

رتن سنگھ نے اپنی تلوار سے وار کیا، لیکن سائے کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ وہ اسے چھو بھی نہ سکا۔ سائے نے اس کے بازو پر گہرا زخم لگایا، اور وہ زمین پر گر پڑا۔ اس کی چیخ پورے محل میں گونجی، لیکن اس سے پہلے کہ سائے اسے ختم کرتا، اس کے محافظ وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے مشعلیں بلند کیں، اور روشنی سے سائے نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ رتن سنگھ زخمی حالت میں اپنے کمرے میں واپس لایا گیا، لیکن اس کا چہرہ خوف سے سفید پڑ چکا تھا۔ وہ بڑبڑا رہا تھا، "یہ کیا تھا؟ یہ کیا تھا؟"

جنگل میں، میرا اب بھی اس طاقت کی تلاش میں تھی۔ اسے یقین تھا کہ یہ طاقت اس کی بددعا کا نتیجہ تھی، لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس طاقت کو روکنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ وہ مندر کے پاس واپس آئی اور اس مجسمے کے سامنے بیٹھ گئی۔ اس نے دعا مانگی کہ اس طاقت کو صرف ظالموں تک محدود رکھا جائے، تاکہ بے گناہ لوگ محفوظ رہیں۔

لیکن جنگل کی خاموشی نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ صرف وہی ہولناک آواز، جو اب اور زیادہ طاقتور ہو چکی تھی، جنگل میں گونج رہی تھی۔ یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ رتن سنگھ زخمی تھا، لیکن زندہ تھا۔ جنگل کی وہ طاقت ابھی جاگ رہی تھی، اور اس کے اگلے قدم کا انتظار تھا۔
👇👇
اگر کہانی پسند آئی ہو تو کمنٹ میں ضرور بتایئں شکریہ