عائشہ نے ایف اے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی اور گھر سنبھال لیا۔ اب گھر اسکی ٹوشن پر چل رہا تھا۔ کیونکہ نرمین اب بیمار رہتی تھی۔ قیصر کے غم نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ قیصر کے بیٹے اب جوان ہو رہے تھے۔ وہ انہین دنکھ کر خوش رہتا۔ اور اسکی ماں اب مصباح کو سر کنھوں بٹھا کر رکھتی ۔ قیصر نے ماں کے کہنے پر اپنے بیٹے کا رشتہ مہ راخ سے اپنے چھوٹے بھائی کی بیٹی سے طے کر دیا۔
زرتاش نے دوبارہ امتحان دیا اور کامیاب ہو گئی اور بطور اسسٹنٹ کمشنرگودھا میں اسکی جاب لگ گئی۔اسے جاب لگتے پہلے مہینے میں ہی 25 مرلے کا خوبصورت نیا اور جدید ڈیزائن سے بنا بنگلہ مل گیا اور گاڑی بھی آج وہ سب بہنیں اپنا سارا سامان لے کر اپنی ماں کے ساتھ اس بنگلے میں رہنی آئیں۔ نرمین کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔ اسے اپنی زندگی میں آج دوسری بار خوشی مل رہی تھی۔ پہلی خوشی اسے قیصر سے شادی پر ملی تھی۔ جو آج دل سے اتر گیا تھا۔ انہوں نے اس گھر میں رہائش رکھ لی۔ زرتاش نے باقی تینوں بہنوں کو اعلی سکولوں میں ڈالا اسکی ایک مہنے کی تنخواہ لاکھوں میں تھی اب نرمین بڑے لوگوں میں مہنگے لباس پہن کر شایئڈ شولڈر شال رکھ کر بیٹھتی۔ اب وہ کپڑے سلائی کرنے والی نرمین نہیں تھی۔
زرتاش کے انٹر ویو مختلف چینلز پر ہوئے۔ اسکے ماموں مامی نے اسکے باپ اور دادی نے جب اسے ٹی وی پر اتنے بڑے مقام پر دیکھا تو ہکا بکا رہ گئے۔ نرمین اپنی بیٹی کے ساتھ بہت ٹھاٹھ باٹھ سے بیٹھی تھی۔ سب ان ماں بیٹی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ مصباح نے تو حسد سے بڑ بڑ کرنی شروع کر دی۔اور نرمین کی بھابییاں تو گویا اپنی منہ کی کھا گئی تھیں۔ انکے بچے بھے نرمین کی بچیوں کے ہم عم تھے۔ مگر انہوں نے تو بس پڑھائی پر پیسا ہی لگایا تھا۔ ان کے ذہن نئی سازشیں بنانے میں مصروف تھے۔ اب وہ زرتاش کو حاصل کرنے اور اسکی کمائی پر عیش کے خواب دیکھنے لگیں۔
مومنہ نے اپنا انٹر پاس کر لیا۔ اور آگے ایم بی اے کرنے لگی۔ نورعین اور حورعین نہ صرف پڑگائی میں اول تھیں بلکہ باقی سر گرمیون میں بھی حصہ لیتیں۔ نورعین کی تقریر ہمیشہ لوگوں کو متاثر کر دیتی تھی۔ آج بھی وہ پہلا انعام جیت کر آئی تھی۔ اسنے معاشرے کو لے کر عورت پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر تقریر کی تھی۔ کچھ دن بعد ایک اینکر اس کے پاس آیا اور اسکی اس تقریر کرنے کے پیچھے کوئی بات ہے اس سے پوچھا۔ اسنے اپنی زندگی کی کہانی بتائی۔
اور اپنے ننھیال والوں کی اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکیاں روتے ہوئے بتائیں۔
صرف چند ہی گھنٹوں میں پورے ملک میں یہ انٹر ویو دیکھایا جانے لگا۔ بڑے بڑے لوگ انکا ساتھ دینے اور انکے باپ کو سزا دلوانے کو کھڑے تھے۔ مگر نرمین نے روک دیا اور کہا میں نے اس سے بے انتہا محبت کی تھی ۔ میں اسے دکھ نہیں دے سکتی۔ اس نے جو کیا وہ اسکا ظرف۔ میں نے خاموشی اختیار کر لی۔
لوگ بہت امڈ رہے تھے انہیں انصاف دلوانے کے کیے مگر نرمین کے انکار پر سب خاموش ہو گئے۔
وقت گزرتا گیا۔ عمیر اور رشید نے نرمین سے کافی رابطے کیے اور احسان جتانے والے انداز میں بولے ہم زرتاش کو اپنی بہو بنا لیتے ہیں۔ کہاں تم پر پانچ پانچ بچیوں کو بوجھ ہے کس کس کو بیاہو گئی۔ اور پھر ہو بھی طلاق یافتہ۔
زرتاش نے نرمین کے بولنے سے پہلے ہی فون پکڑ لیا اور اونچی آواز میں بولی مسٹر عمیر ہم طلاق یافتہ عورت کی بچیاں ہیں تمہاری بیٹوں کے مقام اتنے گر گئے کیا کہ تم ہماری جیسوں کے لیے منتیں کر رہے ہو۔ اور طنزیہ ہنس کر فون بند کر دیا۔
عمیر اور اسکی بیوی کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ عمیر قیصر سے ملا اور کہا اپنی بچیوں کو بڑی ڈھیل دے رکھی ہے تم نے دیکھو کیسے ٹی وی پر نشر ہو رہی ہیں۔
قیصر بھی انکی کامیابیوں سے کافی جھلسا ہوا تھا۔ اسنے فیصلہ کیا کہ وہ جاکر ان پر سختی کر گا۔ اور وہ عورتیں کر کیا لیں گی۔ عمیر اسے بھڑکا کر گھر آگیا اور اپنا کارنامہ اپنی بیوی کو سنایا۔ دونوں بہت خوش تھے کہ اب یہ نرمین اپنی بچیوں سمیت پھر ذلیل ہو گئی۔
اگلے ہی دن قیصر سرگودھا کے لیے نکل گیا۔ وہاں جا کر اس نے سکیورٹی گارڈ سے کہا میں نرمین کا رشتے دار ہوں اس سے ملنے آیا ہوں گارڈ نے اسے جانے دیا۔ وہ اندر گیا اندر سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اس نے جا کر زرتاش کو بالوں سے پکڑ لیا ور بولا بڑا اچھل رہی ہے۔ کمینی تجھ سے تیرا ماموں زاد شادی کر رہا ہے یہی بڑی بات ہے۔ ورنہ تم پر تو کوئ تھوکے بھی نا۔ اندر ہنگامہ سن کر گارڈ اندر آئے اور اسے پکڑ لیا۔ نرمین اتنے سالوں بعد قیصر کو دیکھ کر اپنا حوصلہ کھو بیٹھی۔ یہ اسکی محبت تھا۔ اور آج کسی اور کا تھا۔ اس کی اس حرکت پر بھی نرمین نے اسے ایک کمشنر پر حملہ کرنے کے جرم میں جیل جانے سے بچا لیا۔ وہ واپس آیا اور اس نے عمیر کو ہاں کر دی ۔ اسے کوئی ڈر نہ تھا۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ نرمین اس سے آج بھی محبت کرتی ہے۔ اسے تکلیف نہیں دے گی۔ اس نے نرمین سے فون کر کے کہا اس جمعے تیار رہنا زرتاش کی شادی ہے۔ زرتاش نے لڑنا چاہا مگر نرمین نے روک دیا۔
کل زرتاش کا نکاح کرنے اس نے جانا تھا۔ ادھر زرتاش پوری سکیورٹی کے ساتھ کھڑی دل ہی دل میں ہنس رہی تھی۔ اسے بس کل کا انتظار تھا۔ یہ جاہل لوگ بھول گئے تھے کہ وہ ایک کمشنر سے پنگا لے رہے ہیں۔ قیصر کام سے واپس آرہا تھا۔
ابھی وہ رستے میں ہی تھا جب اسے مصباح کی روتے ہوئے کال آئی۔ مصباح: قیصر جلدی پہنچو۔ ہمارے بچوں کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔اور وہ بہت بری حالت میں ہیں۔
وہ جلدی جلدی پہنچا۔ مصباح سامنے زمین پر بیٹھی رو رہی تھی۔ قیصر اسکے پاس گیا۔ سب لوگ وہاں موجود تھے اور ہر آنکھ اکشبار تھی۔
نرمین کب سے سجدے میں گری رو رہی تھی۔ اے اللہ میں نے اسے پاگلوں کی طرح چاہا۔ اسنے مجھ سے ہی دھوکہ کر دیا۔ میری محبت میرے جزبات کا اتنا مزاق بنایا۔ میں آج تک سہ رہی ہوں۔ میں آج بھی اپنے اندر اسکی کسک برداشت کر رہی ہوں۔
جو اسے کسی اور عورت کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتی تھی آج اتنے سالوں سے وہ کسی اور عورت کا ہے۔ تو میرا صبر میری میری محبت اور کتنا آزمانا چاہتا ہے۔ اس سے اچھا تو اب بس لے جا مجھے یہاں سے۔۔ وہ سجدے میں گری روئے جا رہی تھی اور بولے جا رہی تھی۔ زرتاش اسے گم سم دیکھ رہی تھی۔
قیصر : کوئی مجھے بتائے گا کہ کیا ہوا ہے۔ میرے بیٹے کیسے ہیں۔ واجد : بھائی حوصلہ کرو۔ اللہ تمہیں صبر دے۔ اور اب تمہرے دعسر بیٹے کو کچھ نہ ہو۔
کیا ؟ قیصر کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ واجد نے اسے گلے لگا لیا۔ بھائی وارث اس دنیا میں نہیں رہا۔ قیصر دیوانہ ہو گیا۔ نہیں۔ میرا بیٹا۔
کیا قصور تھا میرا جو میرے ساتھ یہ ہوا۔ اسے کے ذہن میں نرمین کے الفاظ گونجے وہ پاگل پھر رہا تھا۔ اسکا ایک بیٹا کوما میں اور دوسرا اس دنیا سے چلا گیا تھا۔
مصباح کا ذہن تو قیصر کے لفظوں پر ہی اٹک گیا تھا۔ میرا کیا قصور ہے؟
ہاں۔ بیٹیوں کی پیدائش پر ماں کا قصور نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭
نرمین تک بھی یہ بات پہنچ چکی تھی۔ مگر اسے جہاں خوشی نہ تھی وہاں غم بھی نہ تھا۔ عمیر کو اچانک خوف آنے لگا کہیں اسنے جو سلوک کیے اسکے ساتھ بھی کچھ نہ ہو جائے۔ زرتاش تو قیصر کو تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر ماں کا سوچ کر چپ رہی ورنہ دل چاہتا تھا کہ اسکو جا کر دیکھ کر آئے۔ وقت گزرتا گیا۔ عائشہ کی مومنہ کی شادی ہوگئی۔ مومنہ کا شوہر اسکا کولیگ تھا۔ دونوں مل کر اپنا بزنس چلا رہے تھے۔ عائشہ کی شادی زرتاش کی دوست کے بھائی سے ہوئی اور وہ لندن چلئ گئی۔ دونوں چھوٹی یونیورسٹی کے آخری سال میں تھیں۔ زرتاش کے لیے اتنے رشتے آئے مگر اسنے شادی نہیں کی۔ اسے مرد سے ہی نفرت ہوگئی تھی۔
قیصر ہر وقت دیوانہ وار بڑے بیٹے کے سرہانے بیٹھا رہتا۔ اور اسکو آوازیں دیتا۔ تو کبھی چھوٹے کی قبر پر چلا جاتا۔ اب نرمین کی انکھوں سے آنسوں بہنا رک گئے تھے۔
زرتاش اپنے کام سے واپس آرہی تھی۔ جب اس نے ایک چھوٹی سی بچی دیکھی جو بمشکل ایک کچھ دن کی تھی۔ اور اسے 6 سال کے بچے نے اٹھایا ہوا تھا۔ وہ بھگ مانگتا اسکی گاڑی کے پاس آیا۔ اسنے اس سے پوچھا پڑھتے کیوں نہیں۔ یہ کام کیوں کر رہے ہوم کیا تمہرا باپ کام کرواتا ہے تم سے۔ زرتاش کو وہ خود سا لگا۔ بچے نے بتایا میری ماں مر گئی ہے اور باپ چھوڑ گیا ہے یہاں۔ کہتا ہے خود ہی پال لو بہن کو۔ زرتاش کو اپنا بچپن یاد آیا۔ اسنے ان دونوں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور انہیں لے کر گھر آگئی
اسنے اس بچی کو پالنا شروع کیا۔ اسکا نام لائبہ رکھا۔ آحد کو سکول ڈالا پڑھنے کے لیے۔ دس سال گزر گئے۔ قیصر: اب تو اٹھ جا۔ دیکھ تیرا باپ روزانہ تیرے پاس آتا ہے تجھے بلانے۔ اب تو تیری ماں بھی چلی گئی اس دنیا سے۔ مجھے چھوڑ گئی۔ اکیلا۔ تو اٹھ جا۔ مجھ سے اب اور نہیں سہا جاتا۔
٭٭٭
نورعین اور حورعین کی بھی شادیاں ہو گئی۔ زرتاش کی شادی کا ٹوپک ہی ختم ہوگیا۔ وہ بس ان دونوں بچوں کی ماں تھی۔ ان میں اسکی جان بستی تھی۔ وہ اپنی ماں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی تھی۔ نرمین آج بھی قیصر کا غم نہیں نہیں بھلا پائی تھی۔ زرتاش نے ایک این جی او کھول لی۔ جہاں یتیم بیوہ طلاق یافتہ ہر قسم کی عورتوں کے کیے گنجائش تھی۔
بہت ہی جلد وہ ادارہ چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھر گیا۔ ہر طرف انکی چہچیاہٹ سنائی دیتی تھی۔ نرمین کو وہ ہر وقت لگائی رکھتے تھے۔ وہ اب کافی خوش رہتی۔ زرتاش کا یہ آئیڈیا کام کر گیا تھا۔ نرمین اب بہت حد تک بہل گئی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ نرمین نے دو حج کر لیے۔ ہر عمرہ و حج میں اس نے صبر مانگا۔ جو اسے مل گیا۔ اب وہ گویا قیصر اور اسکی بے وفائی کو بھول گئی۔ قیصر بہت بوڑھا ہو چلا تھا۔ اور اسے اب زندگی میں دلچسپی ہی نہیں رہی تھی۔ وہ ہر وقت خلاؤں میں گھورتا رہتا۔ اسے یوں لیٹے لیٹے دن گزر جاتے۔ نہ اولاد تھی نہ کوئی سنبھالنے والا۔ جو ایک بیٹا تھا وہ تو کوما میں تھا۔ بیٹیوں سے تو اس نے خود ہی چھت چھین لی تھی۔ وہ ہمیشہ نرمین کے ایک ہی فقرے پر سوچتا رہتا۔
کیا پتہ ہمارے بیٹے ہمیں کوئی ایسا غم لگا دیتے کہ ہم لاشعور ہو جاتے۔ اور وہ لاشعور ہو گیا تھا۔ بات بیٹوں کی نہیں تھی۔ اسنے اپنی خواہش کی لےی نرمین کو توڑا تھا۔ جو اسکے بچپن کی محبت تھی۔ اسکی امنگ تھی۔ اور نرمین تو پاگل تھی اسکے پیچھے۔ اسکے پاس اولاد تو تھی۔ چاہے بیٹیاں ہی تھیں۔ اب کیا تھا۔ وہ بدبو کے ڈھیر میں پڑا تھا۔ اور نرمین بیٹیوں کے ساتھ انکے سہارے ایک خوش نما زندگی گزار رہی تھی اسے اب پھل گئی تھی۔ وہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی اکیلا تھا۔
اسے نرمین کی اکثر یاد آتی۔ آج اسکے دل جو حالت تھی وہ آج سے بہت سال پہلے نرمین کی بھی تو ہوگی۔ آج اسے پتا چلا تھا کہ دل جب ڈوبتا ہے تو کیسا لگتا ہے۔
تیں سال مزید گزر گئے۔ حارث کی حالت میں تھوڑا سدہار آیا تھا۔ وہ آنکھیں کھول چکا تھا۔ مگر یاداشت کھو چکا تھا۔ وہ اپنے باپ کو نہیں پہچان پا رہا تھا۔ آج قیصر ڈنڈے کے سہارے کھڑا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر بس چپ تھا۔ رو رو کر آنکھیں تو کب کی جواب دے گئی تھیں۔ وقت گزرتا گیا۔ حارث ٹھیک ہوتا گیا۔ آج وہ ڈسچارج ہونا تھا۔ قیصر کے لیے وہ گھر آیا۔ آج اس گھر میں پھر رونق ہوئی تھی اسے مصابح کے جانے کا کوئی دکھ نہ تھا۔ وہ تو نرمین کی خوشیوں کو ہی نگل گئی تھی۔
رات حارث کافی دیر قیصر سے باتیں کرتا رہا۔ قیصر اسے دلہا بنے دیکھ رہا تھا۔ پھر اسکی آنکھیں بند ہوگئیں۔ حارث نے اسکا کمبل درست کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ صبح دن بہت مصروف گزرا۔ حارث کے لیے یہ دن قیامت تھا۔ آج وہ اکیلا رہ گیا ۔ اسے کیا پتا تھا۔ قیصر ہمیشہ کی نیند سو گیا ہے۔ سارا دن اسکے جنازے میں گزر گیا۔ کچھ مہینوں بعد اسنے گھر بیچ دیا۔ کیوں کے اسکا یہاں دل نہیں لگتا تھا۔
اور دبئی شفٹ ہوگیا۔اور پھر قیصر کی قبر پر کوئی نہ آیا۔
جبکہ نرمین کی بیٹیاں اسکے پاس ہروقت رہتیں ۔ زرتاش تو گویا اسکی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑتی۔ اور ہمیشہ سوچتی ۔ میں تو بیٹا نہیں ہوں پھر بھی ماں کا بڑھاپے کا سہارا ہوں۔ اگر میں بھی چلی جاتی تو کون سنبھالتا اسے۔ نہیں میں کبھی نہیں جاوں گئی۔ یہ سوچ کر وہ ہمیشہ نرمین سے لپٹ جاتی۔ آج پھر وہ سب لوگ عمرہ پر جارہے تھے۔ نرمین رو رہی تھی۔ مگر اب یادوں میں قیصر نہیں تھا۔
(ختم شد)
👇👇