کم عمر بیوی - آخری حصہ

Sublimegate Urdu Stories


برہان کو بھی قسم دے کر یقین دلایا کہ وہ صرف ایک ماہ اپنی دلہن کے ساتھ گزارے گا تا کہ اس کے ماں باپ کو پریشانی نہ ہو۔ اس کے بعد اپنی بیوی سے کوئی تعلق نہ رکھے گا اور لوٹ کر واپس اس کے پاس آجائے گا۔ لیکن برہان کو اس کی بات کا یقین نہ تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ شادی کے بعد جب اس کا اپنی بیوی سے دل لگ گیا تو یہ مجھے چھوڑ دے گا اور پھر میرے پاس نہیں آئے گا۔ پس جس روز ولایت کی شادی ہوئی، اسی روز برہان نے خواب آور گولیوں کی شیشی پیٹ میں انڈیل کر خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ اس رات خوب زیادہ شراب بھی پی لی۔ چونکہ تنہا رہتا تھا، ایک نوکر بھی اس کے پاس ہوتا تھا جو اس کو کھانا وغیرہ بنا کر دیتا تھا۔ 

نوکر کا کمرہ چھت پر تھا۔ جب برہان نے خود کشی کی تو اتفاق سے نوکر کو شک ہو گیا کہ وہ زیادہ شراب پی رہا تھا، ملازم کیا کرتا، خاموش رہا مگر اسے جونہی اسے صحن میں برہان کے گرنے کی آواز سنائی دی، وہ چھت سے صحن میں دوڑ کر آیا۔ اس نے فوراً ایک ہمسایے کو جگایا اور اس کی گاڑی پر برہان کو اسپتال لے جایا گیا۔ بر وقت اسپتال پہنچ جانے سے اس کی جان تو بچ گئی مگر وہ چار دن تک موت و زیست کی کشمکش میں رہا۔ ادھر شادی کے بعد ولایت خفگی کے ڈر سے برہان کی طرف نہ گیا کہ اس کا غم و غصہ کچھ ٹھنڈا ہو جائے گا تو رابطہ کرے گا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ برہان اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ پندرہ روز بعد جب اس نے رابطہ کیا تو برہان ابھی تک اسپتال میں تھا۔ ملازم کو معلوم تھا کہ ولایت کی نئی شادی ہوئی ہے۔ لہٰذا اس نے اس کو برہان کے صحیح احوال سے آگاہ نہ کیا تھا، بس اتنا بتا یا کہ وہ گھر سے باہر ہے۔ کچھ دنوں کے لئے کہیں چلا گیا ہے۔ جلد لوٹ آئے گا تو وہ اطلاع کر دے گا۔

ولایت شادی کے بعد تو میرے ساتھ کچھ دن ٹھیک رہا لیکن اس کو علم ہوا کہ اس کی خاطر برہان نے خود کشی کی تھی۔ وہ دیوانہ سا ہو گیا اور دیوانہ وار اس کے گھر پہنچا۔ وہ اب ٹھیک ہو کر اسپتال سے آگیا تھا۔ ولایت نے اس کے قدموں میں سر رکھ کر معافی مانگی۔ ایک بار پھر وعدے قسمیں ہوئیں کہ فریحہ ، نام کی بیوی رہے گی۔ صرف ساس سسر کی خدمت گزار بن کر جیون بتائے گی اور ولایت پھر سے برہان کے ساتھ ویسا ہی ہو کر رہے گا جیساوہ پہلے سے تھا۔ ولایت نے یہ بات مجھے بتادی اور کہا کہ یا تو تم میرے ساتھ اسی طرح نباہ کرو جیسا میں چاہوں، اس گھر میں رہتی رہو۔ ور نہ شوہر اور باپ کے گھر میں سے کسی ایک گھر کو چن لو۔ میری وہی شرط ہے کہ تم میرے کسی معاملے میں مداخلت نہ کرو گی۔ ہر بات پر خاموش رہو گی اور میرے اس راز کی عمر بھر امین رہو گی۔ اس کو کبھی طشت از بام نہ کرو گی۔ میں نے کچھ دیر سوچا پھر کہا اچھا ٹھیک ہے۔ 

مجھے آپ کی شرائط پر یہاں رہنا منظور ہے مگر میں لوٹ کر سوتیلی ماں کے پاس نہیں جائوں گی ورنہ وہ ساری دنیا میں مجھ کو گندا کر دے گی کہ دیکھو میں نہ کہتی تھی کہ اس کی شادی نہ کرو۔یہ گھر نہ بسائے گی، آ گئی ناں واپس طلاق لے کر۔ ولایت میری طرف سے مطمئن ہو گیا کیونکہ میں نے اسے یقین دلادیا تھا کہ اس کے والدین کو بھی اس کے ان معاملات کی ہوا نہ لگنے دوں گی۔اب وہ دن بھر برہان کے گھر ہوتا اور رات کو گھر آجاتا، لیکن مجھ سے میاں بیوی جیسے رشتے کا کوئی واسطہ نہ رکھا۔ اس ایک دکھ کے سوا مجھے یہاں اور کوئی تکلیف نہ تھی۔ ساس سسر بھی اچھے تھے اور ولایت بھی مجھے کوئی اذیت نہ دیتا تھا۔

شادی کے پہلے ماہ میں نے خوشی دیکھی تھی، اس کے بعد کبھی جیون ساتھی کا قرب نصیب نہ ہوا۔ کہنے کو ہم میاں بیوی تھے، ایک گھر میں ایک چھت تلے رہتے تھے مگر اجنبیوں کی طرح۔ ایسی باتیں نہیں چھپتیں۔ ماموں کو اندازہ ہو گیا اور میرا غم ان کو دیمک کی طرح چاٹنے لگا۔ انہوں نے کھوج لگائی کہ بیٹا دن رات کہاں ہوتا ہے، جس بیٹے کو وہ اپنا کاروبار اپنی دکان سونپنا چاہتے تھے، اس کو تو پیسے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس کی سبھی ضروریات برہان پوری کرتا تھا۔جب اصل حقائق سے ماموں آگاہ ہو گئے، تو انہیں بہت صدمہ ہوا۔ ان کی ایک جواں سال بیٹی بھی تھی۔ ابھی تو اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر لاحق تھی کہ بیٹے کی بے راہ روی کا راز ان پر کھل گئی۔ ایک روز برہان کے ایک پڑوسی کی زبانی بیٹے کے بارے تمام حالات کا علم ہو گیا کہ ولایت اور برہان کی دوستی کس نوعیت کی تھی۔ وہ صدمے سے نڈھال گھر آئے۔ دو دن خاموش بستر پر گرے رہے اور تیسرے روز ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

ماموں کی شفقت کے سہارے تو میں جی رہی تھی۔ ان کے مرنے کی دیر تھی کہ میرے سارے سہارے ختم ہو گئے۔ساس کے رویے میں بھی شفقت کی بجائے سختی آگئی۔ وہ مجھے بدصورت اور منحوس ہونے کے طعنے دینے لگی۔ اگر گھر میں کوئی اور باقی رہ گیا تھا تو وہ میری نند درخشاں تھی جو میرا خیال رکھتی اور میرا غم محسوس کرتی تھی۔ والد کی وفات کے بعد تو ولایت میں ایسی تبدیلی آئی کہ وہ گھر کے ہر فرد سے کٹ کر رہ گیا۔ ساری رات غائب رہتا۔ دن کو آتا تو پڑ کر سوتا رہتا جیسے اسے کسی سے کوئی تعلق نہ ہو۔

تب ساس کو احساس ہوا کہ اس کا بیٹا بہت بدل گیا ہے۔ اسے ماں کی بھی پرواہ رہی تھی۔ وہ بیمار رہنے لگی تھیں۔ میں اور درخشاں انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتی تھیں۔ ساس نے ولایت سے کہا کہ تم میرے ایک ہی بیٹے ہو۔ ماں، بیوی اور بہن کا سہارا بنو، راہ راست پر آ جاؤ، دکان کو تالہ لگ گیا ہے، دکان کھولو اور کاروبار سنبھالو۔ ولایت نے ماں سے دکان کی چابیاں لے لیں اور اسے بیچ دیا۔ رقم جیب میں رکھ لی۔ اس طرح اپنے والد کا جو بھی سرمایہ تھا سب غصب کر لیا۔ بہن کو کچھ دیا اور نہ ماں کو۔میری ساس کو اس قدر دکھ پہنچا کہ وہ کڑھنے لگیں۔ بیمار تو پہلے ہی تھیں، بیماری نے زیادہ شدت سے حملہ کر دیا۔ ایک روز وہ بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔

اب گھر میں، میں اور درخشاں رہ گئے۔ درخشاں سیکنڈ ایئر کی طالبہ تھی۔ میں اس کے اور وہ میرے سہارے جی رہے تھے۔ ولایت ہم کو خرچہ بھی نہ دیتے تھے۔ پڑوس میں ایک ٹیلر ماسٹر رہتے تھے ، ان کو ہمارے حالات کا علم تھا۔ وہ ہمیں کپڑے لا کر دیتے اور ہم نند بھاوج مشین پر سلائی کر کے ان کو دیتیں۔ اپنی محنت سے گھر کا خرچہ چلاتیں۔اسی محنت کی کمائی سے میں درخشاں کے کالج کی فیس اور تعلیم کا خرچہ بھرتی تھی۔ ایک دن ولایت نے مجھ سے کہا کہ مجھ کو کچھ رقم چاہیے۔ میں نے بتایا کہ رقم تو میں نے درخشاں کی فیس میں دے دی ہے۔ کہا کہ تم نے کیوں اس کی فیس بھری ہے، کس لئے اس کو پڑھا رہی ہو۔

کیوں نہ یہ پڑھے۔ میں نہ پڑھ سکی تو اس حال میں ہوں۔ یہ تو کم از کم پڑھ لے تاکہ کسی کی محتاج نہ رہے۔ اس بات کے کچھ دن بعد ایک روز درخشاں کالج گئی تو لوٹ کر نہ آئی۔ میں بہت پریشان ہو گئی۔ پڑوس میں جا کر اس کی ہم جماعت بچی سے پتا کیا۔ وہ بولی۔ میں تو چھٹی کے وقت گھر آگئی تھی، آپ کالج جا کر پتا کر لیں۔ میں کالج گئی۔ ان کی ایک لیکچرار وہاں مل گئی۔ اس نے کہا۔ چھٹی ہوئے بھی دو گھنٹے گزر گئے ہیں۔ اس نے رجسٹر چیک کیا۔ درخشاں کی حاضری لگی ہوئی تھی۔ میں اور پریشان ہو گئی۔ گھر پلٹی مگر وہ نہیں آئی تھی۔ شام ہو گئی۔ اب تو میرا دم نکل جاتا تھا۔ پاس پڑوس سے پتا کیا، کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ رات کو ولایت گھر آیا۔ میں نے بتایا کہ درخشاں کالج گئی تھی۔ ابھی تک نہیں لوٹی۔ کہا کہ اسی لئے کہتا تھا کہ کہ اس کی پڑھائی ختم کر و… تم نے بات نہ مانی۔ اب دیکھ لیا انجام … کچھ پتا تو کرو۔ کہاں سے پتا کرو؟ تھانے جا کر گمشدگی کی رپورٹ لکھوا دو۔

آج رات انتظار کر لو شاید آجائے، صبح جاکر رپورٹ درج کروادوں گا۔ وہ تو نشے میں تھا سو گیا اور میں نے ساری رات انگاروں پر گزاری۔ والد کو فون کیا۔ ماں نے بتایا کہ وہ کام سے لاہور گئے ہیں۔ اور کس سے مدد مانگتی یا فریاد کرتی جب سگے بھائی کو بہن کی پروانہ تھی۔ اس رات میں بے ہوش ولایت کو جھنجھوڑتی تھی اور وہ کروٹ لے کر سو جاتا تھا۔ کہتا تھا تم عورتوں کا کیا اعتبار ، تم سب ایک جیسی ہوتی ہو۔ بھاگ گئی ہو گی وہ بھی کسی یار کے ساتھ میری نند ایسی نہ تھی وہ تو بہت اچھی لڑکی تھی جی چاہتا تھا خود کشی کرلوں … یہ کیسا بھائی تھا جس کی جواں سال بہن غائب تھی اور اس کو ذرا ملال نہ تھا۔ نہ یہ احساس تھا کہ کتنی بڑی بدقسمتی واقع ہو چکی ہے اور میں اکیلی رورو کر نڈھال تھی۔ اس وقت میری دلجوئی کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ کئی دن گزر گئے۔ درخشاں کو ملنا تھا نہ ملی۔ ولایت چند دن بھاگ دوڑ دکھانے کے بعد آرام سے بیٹھ گیا۔

 اب وہ زیادہ نشہ کرنے لگا اور میں درخشاں کے غم میں دیوانی ہو رہی تھی۔ اس کی جدائی میرے دل کا ناسور بنتی جارہی تھی۔ ادھر روز ولایت مجھے کہتا۔ میں تو گھر سے چلا جاتا ہوں اور تم اکیلی ہوتی ہو۔ کسی روز تم بھی غائب نہ ہو جائو۔ تمہارا اکیلے رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایسا کرو کہ تم میکے چلی جائو۔ میں نے کہا مر جائوں گی سوتیلی ماں کے گھر نہ جائو گی۔ بے شک تم مجھے مار ڈالو۔ تب کہا اچھا… میں اس مکان کو فروخت کر دیتا ہوں۔ تم میرے ساتھ وہاں چل کر رہو جہاں میں رہتا ہوں۔

تم اوپر کے پورشن میں رہو گی اور میں نیچے اپنے دوست کے ساتھ رہوں گا۔ تم نیچے مت آنا۔ تم کو ہمارا کھانا بنانا ہو گا۔ تم نہ تو میرے دوست کے سامنے آنا اور نہ اس سے کلام کرنا… وہاں اور بھی دوست آتے ہیں، تاش وغیرہ کھیلتے ہیں۔ اس لئے تمہار ا نیچے قدم رکھنا بھی منع ہے بلکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ کوئی عورت اوپر رہتی ہے۔ اور یہ بھی کسی کو مت بتانا کہ تم میری بیوی ہو۔ میں نے یہ بھی منظور کر لیا۔ بالکل خاموشی سے اوپر رہتی تھی۔ یہ برہان کا گھر تھا… نو کر اوپر آکر کھانا لے جاتا اور بر تن پہنچا جاتا۔ سارا دن میرا کام بس کھانے بنانا، چائے بنانا، یہ تھا۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ خود ولایت میرے پاس اوپر نہیں آتا تھا اور نہ برہان کے سامنے مجھ سے کلام کرتا۔ وہ نیچے کی منزل میں ہی رہتا سہتا تھا۔ وہاں ہی کھاتا اور سوتا بھی وہیں تھا۔ اب میں اس کے اس طرح کے عمل کا مطلب خوب اچھی طرح سمجھ چکی تھی۔ وہ ایسا برہان کو خوش کرنے کے لئے کرتا تھا۔ کہتا تھا کہ اس بے چار چاری کا کوئی سہارا نہیں ہے ، اس لئے ترس کھا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ کہاں جائے گی ، ہمارا کھانا بنادیتی ہے ، اس کے عوض دو وقت کی روٹی کھا لیتی ہے۔ اس کے سوا میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ 

آخر کسی دن خود ہی چلی جائے گی۔ سچ ہے کہ انسان کے برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ میری برداشت بھی ختم ہو گئی ، صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور میں اپنے والد کی گھر چلی گئی۔ والد تو بوڑھے تھے لیکن ماں ابھی تک جوان تھیں۔ انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور کہا۔ بیٹی مجھ سے ایسی ناراض ہو گئی کہ اپنے بہن بھائیوں تک کو بھلا دیا۔ میرے سوتیلے بہن بھائی بھی مجھ سے پیار سے ملے۔ اگلے دن بھائی نے مجھے اخبار لا کر دکھایا کہا کہ آپ کی نند درخشاں گم ہو گئی تھی نا۔ یہ دیکھئے اخبار ، تصویر بھی ہے۔ اور خبر بھی خود پڑھ لیجئے۔ میں نے اخبار میں خبر پڑھی لکھا تھا، پولیس نے ایک جگہ چھا پا مارا، وہاں کچھ لڑکیاں اور چند اوباش مرد پکڑے گئے اور تھانے لائے گئے۔ لڑکیوں کی بھی تصویریں اور نام لکھے تھے۔ درخشاں کا نام پڑھ کر میں ششدر رہ گئی۔ 

والد کو مجبور کیا کہ آپ تھانے جائے اور معاملے کا پتا کیجئے۔ وہ جانے سے گھبرا رہے تھے۔ پھر ایک پڑوسی کو ساتھ لے کر گئے۔ تب معلوم ہوا کہ درخشاں کو برہان نے کالج سے اٹھایا تھا کہ تمہارے بھائی نے تمہیں لینے مجھے بھیجا ہے۔ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ برہان کو کئی بار دیکھ چکی تھی جو ہمارے گھر پر گاڑی میں ولایت کو لینے آتا تھا۔ وہ معصوم بچی اس کے ساتھ چلی گئی اور اس مردود نے اس کو نجانے کیسے لوگوں کے حوالے کر دیا۔ جب یہ بات ولایت کے علم میں لائی گئی تو اس کو یقین نہ آیا کہ برہان اس کے ساتھ اتنا بڑا دھوکا کر سکتا ہے۔ جس نے اس کی خاطر والدین کو کھویا، گھر بار کھویا، مکان بیچ دیا اور بیوی کو بیوی نہ سمجھا۔ اس نے ایسی مذموم حرکت کی۔

دراصل وہ چاہتا تھا کہ ولایت مجھے طلاق دے دے اور بہن بھی اس کی زندگی میں موجود نہ رہے جس کی خاطر وہ گھر آتا تھا۔ وہ شخص خدا جانے کس قسم کا آدمی تھا۔ ذہنی مریض تھا یا ابنارمل تھا جو غیر غیر فطری زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے کم عمری میں ولایت کے دماغ کو ایسا گرفت کیا کہ پھر اس کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکا اور سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔ والدین نے شادی کی پھر بھی راہ راست پر نہ آسکا، لیکن جب بہن کے اغوا کار کا نام اور اخبار میں خبر پڑھی تو اس پر اس قدر شدید رد عمل ہوا کہ اس کی روح اس وقت قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار اتنی گِر چکی ہیں کہ اب یوں لگتا ہے کہ ایک نہیں، بلکہ ان گنت برہان جیسے لوگ یہاں انجانے یا جانتے بوجھتے کتنے معصوم ذہنوں کو سیدھے راستے سے بھٹکا کر تباہی کے راستے پر گامزن رکھتے ہوں گے اور کتنے گھر برباد کر رہے ہوں گے۔