جوانی کی قربانی

Sublimegate Urdu Stories

 یہ اُن ہی دنوں کی بات ہے کہ ہمارے گاؤں میں بھی لڑکیوں کے لیے الگ اسکول نہ تھا، لہٰذا مجھے تعلیم کے لیے اسی واحد اسکول میں داخلہ لینا پڑا، جس میں گاؤں کے لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ میرے والد پٹواری تھے۔ ہم چار بہن بھائی تھے۔ نوید مجھ سے بڑا تھا، اور باقی دو چھوٹے۔ ان دنوں میری عمر پندرہ برس تھی۔ ہماری کلاس میں ایک لڑکا طارق پڑھتا تھا، جو بہت خوبصورت اور اچھے قد و قامت کا مالک تھا۔ وہ کلاس کا سب سے طاقتور لڑکا تھا، اس لیے سب لڑکے اس سے ڈرتے تھے۔ وہ پہلوانی کرتا تھا اور کبڈی کا بھی شوقین تھا۔ اگرچہ اس کے گھر کی زمینداری اوسط درجے کی تھی، لیکن خوشحالی ضرور تھی۔

لڑکوں کا لڑکیوں میں دلچسپی لینا ایک قدرتی امر ہے۔ جب میں آٹھویں جماعت میں تھی، تو ہمارے اسکول میں دو لڑکوں نے داخلہ لیا: ایک نمبردار کا بیٹا، اقبال، اور دوسرا اس کا کزن، اسلم۔ پہلے یہ دونوں شہر میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتے تھے اور وہیں اسکول میں پڑھتے تھے، مگر پھر وہ واپس گاؤں آگئے۔ان دونوں نے آتے ہی کلاس کا ماحول خراب کر دیا۔ لڑکیوں کو چھیڑنا، تنگ کرنا ان کا مشغلہ بن گیا۔ جن لڑکیوں کے والد بااثر یا امیر تھے، ان سے وہ ذرا فاصلے پر رہتے، لیکن غریب لڑکیوں کے پیچھے پڑ جاتے۔ ایسا انہوں نے میرے ساتھ بھی کیا۔جب انہوں نے دیکھا کہ میں کسی سے بات نہیں کرتی، الگ تھلگ رہتی ہوں اور ان کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتی، تو انہوں نے مجھے مذاق کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ میں ان حرکتوں سے بہت پریشان رہنے لگی اور کبھی کبھی روہانسی بھی ہو جاتی۔

اسلم چونکہ تھانے دار کا بیٹا تھا، اس لیے اکڑ میں رہتا تھا اور کوئی اس سے الجھنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ لڑکیاں بھی اس وجہ سے شکایت نہیں کرتی تھیں کہ کہیں والدین تعلیم پر پابندی نہ لگا دیں۔جب اسلم اور اقبال نے مجھے تنگ کرنا بند نہ کیا، تو میں نے سوچا کہ اسکول جانا ہی چھوڑ دوں۔ پھر خیال آیا کہ میں نویں جماعت تک پہنچ چکی ہوں، اور میٹرک کا صرف ایک سال باقی ہے۔ اس موقع پر تعلیم چھوڑ دینا میری زندگی کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ چنانچہ میں نے ابو کو بھی کچھ نہیں بتایا، بس خاموشی سے سب سہتی رہی۔اسی ذہنی دباؤ کے باعث میرے سالانہ امتحانات خراب ہو گئے۔ میں ہمیشہ اچھے نمبر لاتی تھی، لیکن اس سال الجھن اور پریشانی نے میرے نتائج پر برا اثر ڈالا۔

جب اسلم اور اقبال نے دیکھا کہ میں کسی بھی صورت ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتی، تو انہوں نے سازش کی کہ چھٹی کے بعد جب میں گھر جا رہی ہوں، تو وہ مجھے اغوا کر لیں گے۔اقبال کے والد کے ڈرائیور کی بیٹی رابعہ میری سہیلی تھی۔ اس نے چپکے سے مجھے خبر دی کہ تم کل اسکول مت جانا کیونکہ ان لڑکوں نے تمہیں اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ میں اگلے دن اسکول نہ گئی، مگر کب تک چھپتی رہتی؟جب میں کئی دن چھٹیاں کرنے لگی تو طارق ہمارے گھر آیا، کیونکہ وہ میرے بھائی سے سلام دعا رکھتا تھا۔ اس نے مجھے بلا کر پوچھا: تم آج کل اسکول کیوں نہیں آ رہیں؟پہلے تو میں خاموش رہی، لیکن جب اس نے اصرار کیا تو میں رونے لگی۔ میں چاہتی تھی کہ میرے بھائی کو کچھ پتا نہ چلے، اس لیے طارق سے درخواست کی کہ وہ کسی سے ذکر نہ کرے۔میں نے کہا: رابعہ نے بتایا کہ اقبال اور اسلم مجھے راستے سے اغوا کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے میں اسکول نہیں جا رہی۔طارق نے مجھے دلاسہ دیا: ڈرو مت، ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ کل سے بے فکر ہو کر اسکول آؤ۔

اس کی بات نے مجھے حوصلہ دیا اور اگلے دن میں اسکول چلی گئی۔ طارق کے دوستوں کو بھی اس منصوبے کی خبر ہو گئی تھی، اور سب نے طے کر لیا کہ وہ یہ سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔اگلے دن جب چھٹی ہوئی، تو ہم سب اسکول سے نکلے۔ میں آگے جا رہی تھی اور طارق اور اس کے دوست کچھ فاصلے پر پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ جب ہم ایک سنسان موڑ پر پہنچے تو اقبال اور اسلم کے ڈرائیور نے، ان کے کہنے پر، جیب لا کر میرے سامنے روک دی۔

اسی لمحے طارق اور اس کے دوست دوڑتے ہوئے آ گئے۔ انہوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا اور دو لڑکوں نے مجھے ساتھ لے کر محفوظ طریقے سے گھر پہنچا دیا۔ باقی لڑکے اسلم اور اقبال سے لڑ پڑے۔ ان دونوں کی خوب پٹائی کی گئی۔ اس لڑائی میں طارق اور اس کے دوست پیش پیش تھے۔اس دن تو اقبال اور اسلم مار کھا کر چلے گئے، لیکن بعد میں انہوں نے طارق کو دھمکی دی کہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔لڑکوں کے والدین نے نمبردار کو شکایت کی کہ تمہارے بیٹے اور بھتیجے نے ایک لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی ہے، اور اب ہمارے لڑکوں کو قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

نمبر دار شریف آدمی تھا، البتہ اسلم کا باپ، جو پولیس میں تھا، وہ کچھ ٹھیک نہ تھا۔ اُس نے قتل بھی کیا ہوا تھا۔ بہرحال، نمبر دار نے تسلی دی کہ آپ لوگ آرام سے گھر جائیں، میں ذمہ دار ہوں، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ گاؤں کی ہر لڑکی ہماری بیٹی ہے، اور اس کی عزت کی حفاظت میرا فرض ہے۔ اس نے اپنے لڑکوں کو سرزنش کی اور دونوں کو واپس شہر بھجوا دیا کہ نہ یہ گاؤں میں رہیں گے اور نہ ہی مزید کوئی مشکل پیدا کریں گے۔ اُس دن سے مجھے طارق سے محبت ہو گئی، کیونکہ اس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے میری عزت کی حفاظت کی تھی اور اپنی جان خطرے میں ڈالی تھی۔ اب جب میں اسکول جاتی، تو اس کے تصور میں کھوئی رہتی اور سوچتی کہ یہ کتنا دلیر لڑکا ہے، جس نے میری خاطر بدمعاش لڑکے سے دشمنی مول لی۔ میٹرک کے سالانہ امتحانات قریب آ چکے تھے۔ دل بہت پریشان تھا، کیونکہ میٹرک کے بعد ہمیں جدا ہونا تھا۔ اس کے بعد نہ میں طارق سے مل سکتی تھی، نہ وہ مجھ سے۔ اسی پریشانی میں دن رات گزرنے لگے، یہاں تک کہ امتحانات کا سلسلہ بھی ختم ہوا اور ہم اسکول جانا چھوڑ گئے۔

اب طارق کبھی کبھار گاؤں میں نظر آ جاتا، تو میں اس کی ایک جھلک دیکھ لیتی، مگر اس سے بات کرنے کو ترسنے لگی۔ دل سے مجبور ہو کر میں نے اس کی بہن سے دوستی کر لی اور اس بہانے اُن کے گھر جانے لگی۔ طارق سمجھ گیا کہ میں صرف اُس کی ایک جھلک دیکھنے آتی ہوں۔ وہ ایک محتاط لڑکا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ میری وجہ سے کوئی بدنامی ہو یا میں اس کی وجہ سے بدنام ہو جاؤں۔ جب میں روزانہ وہاں جانے لگی، تو ایک دن موقع پا کر طارق نے کہا کہ تم روز میرے گھر مت آیا کرو، اس طرح تم بدنام ہو جاؤ گی اور میں بھی۔ ہمارا گاؤں بہت چھوٹا ہے، اگر ایسی باتیں پھیل گئیں تو مجھ سے زیادہ نقصان تمہارا ہوگا۔ اس کی بات سن کر میں رونے لگی، کیونکہ یہ بات اس نے بہت سنجیدگی سے کہی تھی۔ مجھے روتا دیکھ کر اس کے دل میں رحم جاگ اٹھا۔ اس نے پوچھا کہ آخر تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ میں نے کہا کہ اگر تم ایک بار مجھ سے کھیت میں مل لیا کرو، تو پھر میں تمہارے گھر نہیں آیا کروں گی۔ اُس نے ہامی بھر لی۔ اگلے دن شام کو وہ کھیت میں آیا اور مغرب تک ہم نے باتیں کیں۔ اُس نے کہا کہ میں تم سے ضرور شادی کرتا، اگر ہماری ذات ایک ہوتی۔ میرے والدین غیر ذات کی لڑکی کو بہو بنانے سے انکار کرتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ اگر محبت میں خلوص ہو تو اللہ دعائیں قبول کرتا ہے۔ ہم دعائیں کریں گے، تو اللہ پاک ضرور ہمارا ملاپ کرا دے گا۔

جب ہم دوسری بار کھیت میں ملے تو کسی آدمی نے ہماری باتیں سن لیں۔ طارق نے مجھے کہا کہ تم دوسرے راستے سے نکل کر گھر جاؤ اور اپنا چہرہ چادر سے ڈھک لو تاکہ کوئی تمہیں پہچان نہ سکے۔ اور وہ خود اُس آدمی سے بات کرنے چلا گیا، جو نزدیک ہی کھڑا ہماری باتیں سن رہا تھا۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ دوڑتی ہوئی گھر پہنچی، لیکن گھر پر اب مجھے چین نہ تھا۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ وہ کون شخص تھا، جس نے ہماری باتیں سنیں۔ کیا خبر وہ میرے والد کو سب کچھ بتا دے۔ اسی خوف نے مجھے رات بھر سونے نہ دیا۔ اگلے دن میں رابعہ سے ملنے کا بہانہ کر کے طارق کے گھر چلی گئی۔ اتفاق سے رابعہ اور اُس کی ماں گھر پر نہیں تھیں، اور طارق اکیلا موجود تھا۔ اُس نے کہا، میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ گھر مت آنا، پھر تم کیوں آگئی ہو؟ میں نے کہا، مجھے چین نہیں آ رہا تھا، میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ گاؤں کے کس آدمی نے ہماری باتیں سنیں؟ طارق نے تسلی دیتے ہوئے کہا، فکر نہ کرو، وہ سر ندیم تھا، میرا دوست ہے، کسی کو کچھ نہیں بتائے گا۔ اب تم سکون سے رہو اور گھر چلی جاؤ۔ مگر میں نہ گئی، وہیں بیٹھ گئی، کیونکہ میرا دل اُس کے پاس سے اٹھنے کو نہیں چاہتا تھا۔

تنہائی ایک طاقت ہوتی ہے، جو دو دلوں کو قابو میں لے لیتی ہے۔ جس لمحے سے وہ ڈر کر مجھے آنے سے منع کرتا رہا اور مجھ سے گریزاں رہا، آج تنہائی نے ہمیں وہی موقع دے دیا تھا۔ جب میں اُس کے کہنے پر نہ گئی، تو کمزور لمحوں نے ہم دونوں کو جکڑ لیا، اور ہمارے اچھے ارادے شکست کھا گئے۔ تنہائی کے وار سے پریشان اور آزردہ طارق نے کہا، اب تم نے محبت کے نام پر سب کچھ گنوا دیا۔ اسی لیے بزرگ ایسی باتوں سے منع کرتے ہیں، یہ اچھا نہیں ہوا۔ دیکھو، میں تمہیں اسی لیے روکتا تھا، اب نقصان تمہارا ہی ہوا ناں! کیونکہ خسارے میں عورت ہی زیادہ رہتی ہے۔ میں چپ چاپ بیٹھی رہی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ خسارہ واقعی ہو جائے گا، اور جذبات کے ہاتھوں ہم محبت کے پاکیزہ چہرے کو داغدار کر بیٹھیں گے۔ خیر، اب کیا ہو سکتا تھا، سوائے پچھتانے کے۔

 کاش، میں طارق کا کہا مان لیتی اور تنہائی میں اس کے پاس نہ بیٹھتی، تو ہم ایک بڑے گناہِ عظیم سے بچ سکتے تھے۔ جب آدم و حوا سے خطا ہوئی تو انہیں بھی سزاوار سمجھا گیا اور جنت سے نکال دیا گیا۔ ہم بھی اُسی باوا آدم کی اولاد تھے، اور خطا کی سزا تو لازم ہوتی ہے۔ دل میں خوف بیٹھ گیا کہ اب سزا ضرور ملے گی، اور خدا جانے کتنی کڑی ہو گی۔ دن رات اسی پریشانی میں گزرنے لگے، کہ اچانک پتا چلا کہ والد صاحب کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ اب ہمیں یہ گاؤں چھوڑ کر جانا تھا۔ اس خبر نے میرے ہوش اڑا دیے۔ والد صاحب کو نئی جگہ پسند آئی، تو انہوں نے وہاں ایک قطعہ زمین خرید لی اور ہم وہاں آباد ہو گئے۔ میں اور زیادہ پریشان ہو گئی، کیونکہ اب طارق کے گاؤں سے بہت دور جا چکی تھی۔ وہ بھی یقیناً میرے لیے پریشان ہوتا ہو گا۔ اسی لیے ایک دن خلافِ توقع وہ میرے بھائی سے ملنے کے بہانے ہمارے گھر آ گیا۔ اسے اپنے سامنے دیکھ کر خوشی سے میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ گھر پر ابو اور بھائی دونوں موجود نہیں تھے۔ میں دوڑ کر چائے بنانے لگی۔ اتنے میں امی اُس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور گاؤں والوں کی خیر خیریت پوچھنے لگیں۔
دوپہر کو بھائی اور ابو ملتان سے واپس آ گئے۔ انہوں نے طارق سے اچھی طرح ملاقات کی، کھانا ساتھ کھلایا اور بتایا کہ ہم ملتان نوید اور رُخسانہ کی منگنیاں کرنے گئے تھے۔ اگلے دو ماہ میں ان کی شادی کر دی جائے گی۔ یہ سن کر طارق بجھ سا گیا، لیکن اُس نے اپنا ردِ عمل ظاہر نہ کیا۔ جب مجھے پتا چلا کہ میری منگنی ابا نے ملتان کے ایک واقف گھرانے میں طے کر دی ہے، تو دکھ سے میری حالت غیر ہو گئی۔ میں نے طارق کو خط لکھا کہ میں صرف آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں، اور آپ کے سوا کسی سے بیاہ نہیں کر سکتی۔ آپ مجھے لے جائیے۔ میں نے اپنی سہیلی کا پتا تحریر کیا تھا کہ جواب اس پتے پر بھیجیں۔ وہ ہماری ہمسائی تھی، اور میں نے اُسے اپنے راز میں شریک کر لیا تھا۔ طارق نے میرے لکھے ہوئے پتے پر جواب بھیجا، جس میں اُس نے مجھے سمجھایا کہ والدین کی رضا میں راضی رہو اور جہاں وہ چاہتے ہیں، وہاں شادی کر لو۔ والدین کو ناراض مت کرو۔ میں تمہیں اس طرح بھگا کر لے جانا درست نہیں سمجھتا، ویسے بھی میرے والدین تمہیں کبھی قبول نہیں کریں گے۔ اُس کا خط پڑھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی۔

سمجھ گئی تھی کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا اور جان چھڑانا چاہتا ہے۔ دل طارق سے سخت ناراض ہوا۔ جب شادی کے دن قریب آگئے، تو میرا بھائی گاؤں گیا اور جن جن لوگوں کو شادی میں مدعو کرنا تھا، ان سے ملا اور کہا کہ آپ شادی میں ضرور آئیں۔ اُس نے طارق کو بھی مدعو کیا، لیکن اُس نے کہا کہ وہ کسی کام سے لاہور جا رہا ہے، اگر جلدی واپس آیا تو آ جائے گا۔ شادی کا دن آیا مگر طارق نہیں آیا۔ پہلے بھائی کا نکاح ہوا، پھر میرا۔ ایک دن کے وقفے سے دونوں شادیاں ہوئیں۔ بھائی کی دلہن گھر آ گئی، پھر میری ڈولی روانہ ہوئی۔ شادی کی پہلی رات میرے شوہر نے مجھ سے کچھ عجیب و غریب سوالات کیے، جس سے میں دل برداشتہ ہو گئی اور ہمارا نباہ نہ ہو سکا۔ ایک ہفتے بعد وہ مجھے میکے چھوڑ گیا اور میرے والد سے کہہ گیا کہ اپنی بیٹی کو اپنے پاس رکھیں، میرا اس کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے اپنا پرس کھولا، جس میں کچھ کاغذات رکھے تھے۔ جب انہیں پڑھا تو بے ہوش ہو گئی، کیونکہ مجھے طلاق ہو چکی تھی۔ میں کہیں کی نہ رہی۔ ایک سال یوں ہی گزر گیا۔ اب نہ طارق سے ملنا ممکن تھا، نہ میرا گھر آباد ہو سکتا تھا۔ واقعی، مرد کا نقصان اتنا نہیں ہوتا، مگر عورت ساری عمر محبت کی سزا بھگتتی ہے۔

ایک سال بعد میں گاؤں گئی۔ رابعہ مجھے اپنے گھر لے گئی، جہاں طارق سے ملاقات ہوئی۔ وہ پہلے سے بہتر لگ رہا تھا، مگر میری مرجھائی صورت دیکھ کر وہ مایوس ہوا۔ میرے اندر کا دکھ مجھے اندر ہی اندر کھا رہا تھا۔ طارق نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ رخسانہ سے شادی کر لو، کسی کی جان بچانا بھی فرض ہے۔ طارق نے اپنے والدین سے بات کی کہ وہ مجھے سہارا دینا چاہتا ہے، کیونکہ میں بے قصور سزا کی حق دار نہیں تھی۔ 
والدین نے شرط رکھی کہ میں تحریری طور پر لکھ کر دوں کہ مجھے اس کی دوسری شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ میں نے یہ تحریر فوراً دے دی، کیونکہ مجھے طارق چاہیے تھا، چاہے سوکن کے ساتھ ہی سہی۔ ہماری شادی ہو گئی۔ کیونکہ میں طلاق یافتہ تھی، والدین کو طارق سے بہتر رشتہ کہاں ملتا؟ آج ہم خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے چھ بچے ہیں، طارق نے دوسری شادی نہیں کی، ساس سسر نے مجھے سوکن نہیں دی۔ مگر مطلقہ ہونے کا داغ میرے دل میں ہمیشہ رہے گا۔ 

میں سوچتی ہوں کہ جو خطا محبت کے دوران سرزد ہوئی، یہ اسی کی سزا تھی۔ اللہ نے میری توبہ قبول کی، دعا سنی اور مجھے طارق کی بیوی بنا دیا۔ کاش میری پہلی شادی نہ ہوتی تو درمیان کی خلش نہ رہتی، مگر یہی میرا نصیب تھا۔ شکر ہے کہ ساس سسر نے مجھے قبول کر لیا، اور آج میں اپنے گھر کی چھت تلے بچوں کے ساتھ سکون کی زندگی گزار رہی ہوں۔