نازیہ میرے ساتھ پڑھا کرتی تھی۔ یہ لوگ غریب تھے۔ نازیہ کی بڑی بہن کا نام شازیہ تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اسی وجہ سے اس کی شادی ایک امیر گھرانے میں ہو گئی۔ شازیہ شروع کے دنوں میں اپنے سسرال میں کافی خوش رہی، مگر پھر دولت کی زیادتی نے اس کے شوہر کو عیاشی کی راہ پر ڈال دیا۔شادی کے صرف دو سال بعد ہی شازیہ والدین کے گھر واپس آگئی۔ ایک سال کا بیٹا بھی ساتھ لے آئی۔ شازیہ کے شوہر نے ایک دوسری لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو کر اسے طلاق دے دی تھی۔ اپنی غربت کی وجہ سے یہ لوگ اس شخص کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے، لہٰذا شازیہ نے چپ چاپ اس زہر کو پی لیا۔
شازیہ نے سوچا کہ گھر بیٹھ کر جلنے کڑھنے سے بہتر ہے کہ کہیں ملازمت تلاش کی جائے، تاکہ بیٹے کی پرورش بھی کی جا سکے۔ وہ روز صبح درخواستیں لے کر مختلف دفتروں کے چکر لگانے لگی۔ آخر کار ایک فرم میں اسے ملازمت مل گئی۔ فرم کا مالک شہزاد ایک محنتی شخص تھا۔ اس نے اپنی محنت سے اپنا کاروبار جمایا تھا اور اپنی فرم کو ترقی دی تھی۔ شازیہ نے کچھ دنوں تک وہاں بہت فرض شناسی اور ذمہ داری سے کام کیا۔ شہزاد اس کے کام سے خوش تھا کیونکہ وہ محنت کرنے والوں کی قدر کرتا تھا۔
شازیہ کا رویہ دفتر کے دوسرے لوگوں کے ساتھ باوقار تھا۔ وہ شریف لڑکی تھی، اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔ آج کل کے زمانے کی لڑکیوں کی طرح آزاد خیال اور فیشن پرست نہ تھی۔ شہزاد اس کی عادات و اطوار کا بغور مشاہدہ کرتا رہا۔ اس نے محسوس کر لیا کہ یہ لڑکی جیون ساتھی بنائے جانے کے لیے بہترین ہے۔ تاہم، شازیہ پر طلاق کا داغ تھا اور وہ ایک بیٹے کی ماں بھی تھی، جبکہ شہزاد نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی۔شہزاد کے والدین مر چکے تھے، کوئی بھائی نہ تھا۔ ایک بہن تھی جس کی شادی ہو چکی تھی اور وہ امریکا میں رہائش پذیر تھی۔ اس لحاظ سے شہزاد اکیلا تھا، اور اس کی شادی کرانے والا کوئی نہ تھا۔کافی سوچ بچار کے بعد شہزاد نے فیصلہ کیا کہ شازیہ کے گھر والوں سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اگر یہ لوگ لالچی نہ ہوئے اور اچھے لوگ نکلے تو وہ شازیہ سے شادی کر لے گا۔ وہ ابھی انہی سوچوں میں تھا کہ شازیہ کی طرف سے چھٹی کی درخواست آ گئی۔ ایک ہفتے بعد جب وہ دفتر آئی تو یہ بات کرنے کا اچھا موقع تھا۔ شہزاد نے اس سے پوچھا کہ اتنے دن کی چھٹی کیوں لی؟ شازیہ نے بتایا کہ اس کے والد کافی بیمار ہیں، گھر میں بہت پریشانی ہے، اس لیے چھٹی لی۔
شہزاد نے ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس کے والد کی عیادت کے لیے اس کے گھر جانا چاہتا ہے۔اگلے روز شہزاد، شازیہ کے ساتھ اس کے گھر آیا، اس کے والد کی عیادت کی، اور اس طرح دو چار بار عیادت کے بہانے وہ اس کے گھر کے حالات کا اچھی طرح مشاہدہ کرتا رہا۔شہزاد کو شازیہ کے گھر والے پسند آئے۔ وہ غریب ضرور تھے، لیکن مخلص اور شریف لوگ تھے۔ یہ اتفاق کی بات تھی کہ جب بھی شہزاد شازیہ کے گھر گیا، شازیہ کی چھوٹی بہن نازیہ سے اس کا سامنا نہ ہو سکا۔ نازیہ اس وقت یا تو کالج میں ہوتی یا پھر گھر میں ہوتی بھی تو جان بوجھ کر سامنے نہ آتی تھی۔ بہرحال، اچھی طرح اطمینان کرنے کے بعد کہ شازیہ ایک اچھی بیوی ثابت ہو سکتی ہے اور اس کے گھر والے بھی لالچی نہیں ہیں، شہزاد نے اس کا رشتہ اس کے والدین سے مانگ لیا۔
شازیہ کے والدین ایک دولت مند داماد سے پہلے ہی دھوکہ کھا چکے تھے، اس لیے جب دوسری بار بھی رشتہ ایک دولت مند شخص کی طرف سے آیا تو وہ سہم گئے۔ شازیہ کے والد نے شہزاد سے کہا کہ اگرچہ یہ میری بیٹی کی خوش نصیبی ہے کہ مطلقہ ہونے اور ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود اتنا اچھا رشتہ آ رہا ہے، لیکن میں اب کسی امیر آدمی سے بیٹی کی شادی کرنے سے ڈرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اب اس کی شادی کسی ہم پلہ گھرانے میں ہونی چاہیے۔ ایک بار وہ امیر گھر سے دھتکاری جا چکی ہے، اس لیے اب ہمیں کسی بڑے گھر کی خواہش نہیں رہی۔ شہزاد نے جواب دیا کہ بزرگوار، سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔
پھر میں پیدائشی امیر نہیں ہوں، میں نے سونے کا چمچہ منہ میں لے کر جنم نہیں لیا۔ جو کچھ بھی بنایا اور کمایا ہے، اپنی محنت اور لگن سے کمایا ہے۔ میں نے وقت کو ضائع نہیں کیا، ایک سیلف میڈ انسان ہوں۔ میں نے آپ کی بیٹی کی شرافت اور عمدہ عادات سے متاثر ہو کر رشتہ مانگا ہے۔ آپ مجھ پر اعتماد کیجئے، ان شاء اللہ آپ کی بیٹی کو میری طرف سے کبھی کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ ایسی باتوں سے شہزاد نے شازیہ کے والد کو راضی کر لیا۔ اس کے بعد شازیہ دوسری بار دلہن بن کر شہزاد کے گھر اور دل کی مالک بن گئی۔ شہزاد ایک بہترین شوہر ثابت ہوا اور شازیہ بہت خوش تھی۔
وہ کبھی سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ قسمت دوبارہ اس پر مہربان ہوگی اور وہ اپنا گھر بسا سکے گی۔ جس فرم میں وہ ملازم تھی، آج وہ اسی فرم کی مالکہ بن چکی تھی۔ شہزاد نے اس پر کبھی پابندی نہیں لگائی کہ وہ اپنے پہلے شوہر کے بیٹے کو ساتھ نہ رکھے، لیکن وہ بچہ اپنی نانی سے زیادہ مانوس تھا، اس لیے خالد نے نواسے کو اپنی ماں کے پاس ہی رہنے دیا۔ شازیہ کے دو بچے اور ہو گئے۔ وہ اپنے گھر میں خوشحال زندگی گزار رہی تھی۔ ایک بار اس کی بہن نازیہ اس کے گھر رہنے کے لیے آئی۔ شازیہ نے شوہر سے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، تم نازیہ اور بچوں کو باہر گھما لاؤ۔ یہ لوگ گاڑی میں سیر کرنے چلے گئے۔ اگلے روز بھی شازیہ نہ گئی، بلکہ نازیہ ہی بہنوئی کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے نکلی۔ اس روز یہ لوگ رات کو کافی دیر سے واپس آئے، بچے گاڑی میں ہی سو گئے تھے۔
نازیہ دو ہفتے شازیہ کے گھر رہی۔ اس مختصر عرصے میں اس کی بہنوئی سے کچھ انڈر اسٹینڈنگ ہو گئی، جس کا شازیہ کو علم نہ تھا۔ اس کے بعد نازیہ نے باہر ہی باہر شہزاد سے ملنا شروع کر دیا، اور ہفتے دو ہفتے بعد بہانے بہانے سے شازیہ کے گھر آ کر رہنے لگی۔ یہ سب شازیہ کی ماں نے محسوس کر لیا۔ اس نے نازیہ کو شازیہ کے گھر جانا بند کروا دیا اور اس کے تنہا باہر نکلنے پر پابندی لگا دی۔ اس پر شہزاد نے شازیہ سے کہا کہ تمہاری ماں نے تمہاری بہن کو میرے گھر آنے سے روک دیا ہے، انہوں نے میری توہین کی ہے۔ اب یا تو تم اپنے گھر جا کر اپنی ماں کو سمجھاؤ کہ اس طرح میری بےعزتی نہ کرے، ورنہ تم خود میرے رویے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
شازیہ شوہر کے تیور دیکھ کر ڈر گئی۔ وہ ماں کے گھر آئی اور انہیں سمجھایا کہ نازیہ پر پابندی نہ لگائیں، کیونکہ شہزاد اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ آپ بلاوجہ ان پر شک کر رہی ہیں۔ اگر کسی بات پر یقین نہ بھی ہو تو کم از کم میرے بچوں کا ہی خیال کریں۔ ایک بار میں پہلے ہی اجڑ چکی ہوں، اگر اب کی بار بھی میرا گھر ٹوٹ گیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ وہ مجھے ہی الزام دیں گے کہ بار بار طلاق لے کر میکے آ بیٹھتی ہے، اپنا گھر کیوں نہیں سنبھالتی۔ بیٹی کے رونے دھونے سے ماں مجبور ہو گئی، کیونکہ دراصل اسے بھی صرف شک ہی ہوا تھا، جبکہ شازیہ کا دل بالکل صاف تھا، اسے تو شک بھی نہ گزرا تھا۔
یوں نازیہ دوبارہ بہن کے گھر آنے جانے لگی اور جب تک چاہتی، وہیں قیام کرتی۔ اب تو شہزاد بھی دیدہ دلیری سے اسے خود ہی گھر لاتا اور اپنی گاڑی میں چھوڑنے بھی جاتا۔ شازیہ اب چوکنی ہو چکی تھی۔ وہ گہری نظروں سے شوہر اور بہن کے باہمی رویے اور برتاؤ کا مشاہدہ کرنے لگی تھی۔ رفتہ رفتہ وہ اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ گئی، مگر کچھ کہنا اپنی ہی بربادی کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ جو انسان ایک بار تباہ و برباد ہو چکا ہو، وہ دوسری بار آسانی سے بربادی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
شازیہ نے آنسو پی لیے، لب سی لیے اور منہ پر تالے لگا دیے۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتی اور کچھ نہ کہتی۔ ماں باپ سے بھی کچھ نہ کہا۔ شہزاد کا رویہ دن بہ دن بدلتا گیا، یہاں تک کہ اس نے بچوں کو ہاسٹل میں داخل کرنے پر اصرار شروع کر دیا۔ شازیہ اپنی اولاد کی جدائی برداشت نہ کر سکتی تھی، اس لیے اس نے احتجاج کیا کہ بچوں پر یہ ظلم نہ کرو، جب میں ان کی دیکھ بھال اچھی طرح کر سکتی ہوں تو انہیں ہاسٹل میں کیوں بھیج رہے ہو؟ مگر شہزاد کو اپنی دولت کا گھمنڈ تھا۔ اس نے بچوں کو مری کے ایک اعلیٰ درجے کے ہاسٹل میں داخل کرا دیا اور بیوی سے بس اتنا کہا کہ میں یہ سب ان کی اچھی تربیت کے لیے کر رہا ہوں۔
بچوں کے جاتے ہی شازیہ کا دل اور گھر دونوں ویران ہو گئے، لیکن شہزاد خود کو زیادہ آزاد اور ہلکا محسوس کرنے لگا۔ اب اس پر بچوں کی ذمہ داریاں بھی نہ رہی تھیں، جبکہ شازیہ کی زندگی کا کوئی مصرف باقی نہ رہا تھا۔ وہ تنہا ہو کر گھر میں کڑھنے لگی۔ پہلے وہ بچوں کے کاموں میں خود کو بھول چکی تھی، مگر اب بچے دور جا چکے تھے، اور اس سے وقت کاٹا نہ جاتا تھا۔ ادھر شوہر اور سگی بہن کے دیے ہوئے زخم گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ شہزاد بہانے بہانے سے بیوی کی توہین کرتا، اور بری طرح اسے نظر انداز کرنے لگا تھا۔ وہ ہر صورت میں نازیہ سے شادی کرنا چاہتا تھا، مگر شازیہ اس راہ میں رکاوٹ تھی۔ اس کی موجودگی میں وہ کسی صورت نازیہ سے نکاح نہیں کر سکتا تھا۔
نازیہ گھر سے ٹائپنگ سیکھنے کے بہانے نکلتی تھی۔ ایک دن وہ گھر سے گئی، مگر واپس نہ لوٹی۔ وہ شہزاد کے طے کردہ منصوبے کے مطابق ریلوے اسٹیشن پہنچی، جہاں شہزاد کی فرم کا منیجر اس کا منتظر تھا، جس کے ساتھ اسے لاہور جانا تھا۔ شہزاد کچھ دن بعد لاہور آ جانے والا تھا۔ مگر منیجر اسے لاہور لے جانے کے بجائے ملتان کے ایک گاؤں لے گیا، اور وہاں جا کر نازیہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس کے گاؤں کے ایک دوست سے نکاح کر لے، ورنہ وہ اسے پولیس کے حوالے کر دے گا، کیونکہ شہزاد سے شادی ممکن نہ تھی جب تک کہ شازیہ کو طلاق نہ دی جاتی۔ منیجر شازیہ کو اُس وقت سے جانتا تھا جب وہ فرم میں کام کرتی تھی۔ وہ اتنی نیک، باحیا اور محنتی لڑکی تھی کہ فرم کے ہر فرد کے دل میں اس کے لیے عزت تھی۔ شہزاد اور نازیہ کے تعلق کا انکشاف بعد میں ہوا تھا، اور اب منیجر چاہتا تھا کہ نازیہ بہن کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے۔ نازیہ خوبصورت تھی، اس نے اپنے حسن کی جھلک دکھا کر گاؤں کے اس شخص کو شادی پر آمادہ کر لیا۔
وہ بری طرح سے پھنس چکی تھی، نہ واپس جا سکتی تھی اور نہ ہی گاؤں کی زندگی قبول کر سکتی تھی۔ بہرحال، منیجر نے زبردستی اس کی شادی اپنے دوست سے کروا دی۔ شادی کے ایک ہفتے بعد، نازیہ نے بھی ہتھیار ڈال دیے اور شوہر سے کہا کہ وہ اس کے والدین کو اطلاع دے۔ اگر وہ اسے قبول کر لیں تو ٹھیک، ورنہ وہ ساری زندگی اس کے ساتھ گاؤں میں ہی گزار دے گی۔ منیجر نے حالات نازیہ کے والد کو تفصیل سے لکھ بھیجے اور یہ بھی ہدایت دی کہ فی الحال آپ اسے خط میں لکھیں کہ آپ اسے قبول نہیں کریں گے، تاکہ جب تک اس کی امید ٹوٹ نہ جائے، وہ واپس لوٹنے کا نہ سوچے۔ اگر وہ کراچی گئی، تو ایک بار پھر اپنی بہن کی زندگی میں زہر گھول دے گی۔ اپنی بڑی بیٹی اور اس کے بچوں کا مستقبل بچانے کے لیے آپ کو کچھ عرصے کے لیے اپنے دل پر پتھر رکھنا ہوگا۔
نازیہ کے والد پہلے ہی اس بیٹی سے آزردہ تھے۔ انہوں نے منیجر کی ہدایت پر عمل کیا اور نازیہ کو لکھ دیا کہ تم نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی ہے لہٰذا اب تمہارے لئے ہمارے گھر کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ ہر گز لوٹ کر مت آنا ورنہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ نازیہ ڈر گئی۔ وہ مایوس ہو گئی۔ کوئی اور راستہ نہ پاکر اس نے گائوں کی زندگی سے سمجھوتا کر لیا اور شہزاد کا بھی خیال چھوڑ دیا کیونکہ اب وہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ زندگی کے شادی شدہ دن، رات بسر کر چکی تھی اور اس کو خوف تھا کہ شہزاد اس کو قبول نہ کرے گا۔نازیہ دو سال بے حد اداس اور بے چین رہی۔ جب ایک بچے کی ماں بن گئی تو اس کا دل تھوڑا تھوڑا گائوں میں لگنے لگا۔ جس سے اس کی شادی ہوئی تھی، وہ بھی اچھی فطرت کا مالک تھا۔ اس نے نازیہ کا خیال رکھا۔ اس طرح نازیہ رفتہ رفتہ اس کے گھر کی چار دیواری کی عادی ہوتی چلی گئی۔
اس گائوں میں نہ تو بجلی تھی اور نہ کوئی اور سہولت۔ جہاں نازیہ رہتی ہے ، اس کے شوہر کی تھوڑی سی زمین اور زمین کے بیچوں بیچ ایک بڑا سا مکان ہے جس کے دو کمرے پختہ اینٹوں کے بنے ہوئے ہیں اور چار دیواری اچھی بنی ہوئی ہے۔ میں ہاتھ سے چلانے والا نلکا لگا ہوا ہے۔ پہلے نازیہ اس زندگی سے سمجھوتا کرتی ہی نہ تھی مگر اب وہ اس گھر اور گھر ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھتی ہے اور گھر کے اندر اس نے باغ اور پھلواری لگائی ہے جس کی دیکھ بھال کر کے وہ اپنے ویران دل کو خوش کرتی رہتی ہے۔
ہم جب بھی نازیہ کو دیکھتے ہیں ، ہمیں اس پر ترس آتا ہے۔ کہاں تو وہ شہر میں رہتی تھی اور کہاں اب دیہاتی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگر وہ اپنی بہن کے رشتے کا لحاظ کرتی تو شاید قدرت اس کو یہ سزا نہ دیتی۔
(ختم شد)