کچے دھاگے کا بندھن

sublimegate urdu stories

Sublimegate Urdu Stories

 کچے دھاگے کا بندھن - اخلاقی کہانی

قسط وار کہانیاں
میرا نام امی نے نجانے کیا سوچ شمع رکھا تھا۔ سہیلیاں مذاق میں کہا کرتیں کہ شمع کا نام تو جلنا ہے ۔ پس تم بھی جب تک جیو گی ، جلو گی۔ ان کا کہا من و عن پورا ہو کر رہا۔ والد صاحب کے کاروبار کے علاوہ جائیداد بھی تھی، جو ہماری گزر اوقات کے لئے کافی تھی، لیکن یہ جائیداد گاؤں میں تھی ، جس کی دیکھ بھال انہوں نے میرے چچا کو سونپ رکھی تھی، کیونکہ انہیں خود تو اپنے بزنس سے فرصت نہ تھی۔ چچا صرف مڈل پاس تھے، تو چچی بھی دیہاتی ان پڑھ عورت تھیں۔ وہ شہری بودوباش کو پسند نہیں کرتی تھیں۔

والدہ صاحبہ کے انتقال کے بعد ہم تینوں بچے اکیلے ہو گئے۔ تعلیم کی وجہ سے والد صاحب ہم کو گاؤں میں رکھنا نہیں چاہتے تھے اور شہر میں ماں کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے، تبھی دوستوں رشتہ داروں نے انہیں دوسری شادی کا مشورہ دیا ۔ میرے والد دوسری شادی نہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ میری والدہ سے بہت محبت سے کرتے تھے۔ شریک حیات کی جدائی کے صدمے نے ان کو آدھا کر دیا تھا۔ ڈاکٹر ان کو مکمل آرام کی ہدایت کر رکھی تھی لیکن ان پر کاروبار کا بھی بوجھ تھا۔ وہ پل بھر کو آرام نہ کر سکتے تھے۔ بہت تلاش کے بعد گھر سنبھالنے کے لئے ہمیں ایک اچھی عورت مل گئی ۔ وہ ایک بنگالن تھی جو روزگار کی تلاش میں ہمارے وطن آ گئی تھی ۔ اس کا نام سنین تھا ، ہم اس کو آپا جی کہتے تھے۔ 
 
ان کے آجانے سے ہم کو کافی سکون ملا۔ ہمیں وقت پر کھانا ملنے لگا اور وقت پر اسکول جانے لگے۔ غرض انہوں نے گھر کے نظام کو اچھی طرح سنبھال لیا۔ نوکروں پر بھی نظر رکھتی تھیں۔ آپا جی نے اپنا وطن غربت کی وجہ سے چھوڑا تھا اور یہاں ان کا کوئی نہیں تھا۔ ایک روز ابا جی کافی دیر سے گھر لوٹے تو بہت تھکے ہوئے تھے۔ کھانا بھی نہیں کھایا۔ رات کو آتے ہی بستر پر دراز ہو گئے۔ ۔ صبح جب آپا جی ان کو چائے دینے گئیں تو وہ بے حس و حرکت پڑے ملے، وہ رات کے کسی پہر یہ دنیا چھوڑ چکے تھے۔ چچا جان کو ہمارے پڑوسی نے اطلاع دی، وہ رشتہ داروں کے ہمراہ گاؤں سے آ گئے ۔ والد کی تجہیز و تکفین کے بعد کچھ دن ہمارے ساتھ گزارے ، والد صاحب کے کاروباری امور دیکھے اور ہم کو لے کر گاؤں چلے آئے ۔ یہاں آکر پتا چلا کہ زندگی کیا ہوتی ہے۔ والد صاحب کا گھر تو ہمارے لئے جنت سے کم نہیں تھا۔ چچی اجڈ اور سخت مزاج خاتون تھیں۔ انہوں نے دوسرے روز ہی ہم دونوں بہنوں کو کام پر لگا دیا ۔ ہمارے سفید اور – ملائم ہاتھ گوبر سے بدنما اور بد بودار ہو گئے ۔
 
 اب ہم سارا دن ننگے سر، ننگے پیر کام کرتے ، ذرا سستانے بیٹھ جاتے تو چچی کپاس کی سوکھی ٹہنی سے ہماری خوب پٹائی کرتیں۔ میری چھوٹی بہن تو اس قدر خوفزدہ رہنے لگی کہ چچی اس کی طرف نظر بھی کرتیں تو وہ کانپنے لگتی ۔ اس عورت سے میری معصوم بہن بہت ڈرتی تھی۔ جب وہ جانوروں کے لئے چارہ اٹھانے جاتی ، اس کے پیروں میں کانٹے چبھ جاتے ۔ نکالنے کی کوشش کرتی تو کانٹے پاؤں کے تلوؤں میں ٹوٹ کر رہ جاتے ۔ اس طرح بے چاری کے پاؤں نیلے پڑ گئے اور وہ مستقل لنگڑا کر چلنے لگی پھر ایک دن اس کو بخار ہو گیا۔ وہ صحن میں بخار میں پڑی کراہ رہی تھی کہ چچاوہاں سے گزرے ۔ انہوں نے اس کے پیروں کی طرف دیکھا جو نیلے پڑ چکے تھے تبھی انہوں نے چچی کو ڈانٹا کہ اس کے پیروں سے کانٹے نکالو، ورنہ یہ پولیس کیس بن جائے گا۔ وہ کہاں نکلتے ، جو گوشت کے اندر پیوست ہو کر رہ گئے تھے۔ چچا گاؤں کے ایک نیم حکیم کو لائے۔ کانٹے نکالنے کا کام اس کے سپرد ہوا۔ جب میری معصوم بہن کے تلوؤں سے کانٹے نکالے جارہے تھے تو اس کی چیخیں آسمان تک بلند ہو رہی تھیں۔
 
 اس کے پاؤں لہولہان ہو گئے اور وہ شدید تکلیف میں تڑپتی رہی ۔ دو دن بعد تکلیف کی شدت سے چل بسی ۔ اب میں اور بھائی باقی رہ گئے ۔ بھائی تو چھوٹا تھا۔ ایک روز چچا اس کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے کے لے گئے کہ قریبی شہر میں نوٹنکی لگی ہوئی ہے، بچہ تماشہ دیکھے گا تو خوش ہو جائے گا۔ دوسرے روز لوٹے تو اکیلے تھے۔ میں نے پوچھا۔ چاچا جی ! گڈو کدھر ہے؟ بولے نوٹنگی کے بھیڑ میں میرا ہاتھ چھوڑے چل رہا تھا ، کہیں ادھر اُدھر ہو گیا۔ میں نے کافی تلاش کیا، نہ ملا۔ تھانے میں رپٹ کروا آیا ہوں ۔ پولیس تلاش کر لے گی ، کہیں نہ کہیں مل جائے گا۔ تب میں بہت روئی ۔ بہن بھی مجھے چھوڑ گئی تھی اور اب میرا بھائی ، اس کو چچا نے نجانے کہاں گم کر دیا تھا۔ اب میرا دنیا میں کون تھا۔ پندرہ برس کی ہوئی تو مجھ کو باتیں سمجھ میں آنے لگیں ، گاؤں کی اک دو ہمدرد بڑی بوڑھیاں کہتی تھیں کہ تیرے چچا نے جائیداد کی خاطر گڈو کو کہیں غائب کر دیا ہے۔ 
 
اب جائیداد کی وارث ایک میں ہی بچی تھی۔ ایک روز چچا نے میرے سامنے کچھ کا غذات رکھے کہ ان پر دستخط کر دو۔ میری کیا مجال کہ انکار کرتی۔ اس کے چھ ماہ بعد پتا چلا کہ دس ہزار کے عوض وہ میری شادی کسی پکی عمر کے آدمی سے کر رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہاں رکنا نہیں چاہئے ، ورنہ چچا واقعی شادی کے نام پر بوڑھے کے حوالے کر دے گا تبھی میں نے گھر سے نکل بھاگنے کی سوچ لی۔ رات کو جب سب گھر والے سو گئے تو میں نے چچی کے زیورات میں سے ماں کے کچھ زیورات اٹھائے اور سر پر پگڑی باندھ لی تاکہ لڑکی کے روپ میں دیکھ کر پولیس والے مجھے نہ پکڑ لیں ۔ وہ چچا کے حوالے کر دیتے تو میرا کیا حشر ہوگا۔

زیورات کی پوٹلی میں نے کمر سے باندھی اور بس میں سوار ہوئی ۔ یہ آخری بس رات ساڑھے دس بجے گاؤں سے روانہ ہوئی تھی۔ صبح چار بجے لاہور پہنچی مگر میں لاہور سے پہلے ایک چھوٹے سے قصبے میں اتر گئی۔ اب دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا۔ سوچنے لگی لڑکے کا روپ دھارے رہوں یا لڑکی بن جاؤں کشمکش میں ایک سرائے کے پاس پہنچ گئی۔ تمام رات جاگنے سے میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ سرائے کے مالک کے پاس گئی۔ اس سے کہا کہ میں مسافر ہوں، رہنے کے لئے جگہ چاہیئے ۔ تھوڑی دیر آرام کر کے لاہور چلی جاؤں گی۔ دراصل مجھے پتا نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے؟ میں نے بس کے مسافروں سے سنا تھا کہ آگے لاہور آنے والا ہے۔ یہ خبر نہ تھی کہ شہر لاہور کتنی دور ہے ۔ 
زندگی کا تنہا یہ پہلا سفر تھا اور رستوں سے بھی واقف نہ تھی ۔ سرائے والے نے آواز سے پہچان لیا کہ میں لڑکی ہوں۔ وہ شک میں پڑ گیا لیکن مجھے اس نے کچھ نہیں کہا، البتہ ایک کمرے میں لے گیا اور کہنے لگا کہ ہماری سرائے میں علیحدہ کمرے نہیں ہیں۔ یہ میرا کمرہ ہے تم یہاں آرام کرلو۔ اس نے مجھے ناشتہ بھیجوایا۔ تھوڑا سا ناشتہ کرنے کے بعد میں نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کیا اور چار پائی پر دراز ہو گئی ۔ لیٹتے ہی نیند آ گئی۔ آنکھ کھلی تو شام کے چار بج رہے تھے۔ میں گھبرا گئی ۔ نیند پوری ہو چکی تھی اور مجھے پوری طرح ہوش آچکا تھا۔ سوچا، اب کیا کروں ، کہاں جاؤں؟ ابھی انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
 
 یہ سرائے کا مالک تھا، کہہ رہا تھا۔ لڑکے اب اٹھو بھی، کیا ساری عمر کی نیند پوری کرو گے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا ۔ دستک سن کر گھبراہٹ میں پگڑی کو جلدی جلدی سر کے گرد لپیٹا تھا۔ بالوں کو صحیح طرح سے پگڑی میں ڈھانپ نہ سکی تھی۔ سرائے کا مالک اتنے میں اندر آ گیا، کہنے لگا۔ اس طرح خود کو چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر تم کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو بتاؤ میں تمہاری مدد کروں گا۔ تسلی کے دو بول سن کر میں رونے لگی۔ تھوڑی بہت بپتا سنائی ۔ اس نے کہا۔ گھبراؤ نہیں ، یہیں رہو۔ جب تک میں تمہارے بارے میں سوچتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔ ڈرومت میں تمہیں پولیس کے حوالے نہیں کروں گا۔ بس اس قدر احتیاط رہے کہ تمہارے یہاں ٹھہرنے کا کسی کو علم نہ ہونے پائے۔ میں دن کو کمرے کے باہر تالا لگا دوں گا تا کہ سب یہی سمجھیں کہ کمرہ بند ہے۔
 کچھ دن تم کو اسی طرح رہنا ہو گا۔ اس کی بات نہ مانتی تو کیا کرتی ، کہاں جاتی ؟ بھری دنیا میں میرا کون تھا ؟ اب یہ ہوتا کہ صبح کو کھانا پہنچانے کے بعد وہ کے کمرے کو باہر سے تالا لگا دیتا۔ دوپہر کو دو بجے اگر موقع مل جاتا تو کمرہ کھولتا، ورنہ ایک ہی بار رات کو دس بجے کے بعد خود آ کر کمرہ بھی کھولتا اور کھانا بھی لاتا۔ دوسرے روز رات کو وہ خود بھی وہیں سونے آ گیا۔ اس نے کہا کہ اگر میں نے اپنے روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی کی تو لوگوں کو شک ہو جائے گا۔ اردگرد کے لوگ جانتے ہیں کہ کبھی کبھی میں رات کو گھر جا کر سوتا ہوں ، ورنہ اپنی سرائے کے اسی کمرے میں سو جاتا ہوں۔ شروع میں، میں اس شخص کی چالاکی کو نہ سمجھی تھی مگر اب سمجھ رہی تھی کہ یہ ہولے ہولے جالا بن رہا ہے ، تاہم یہاں پناہ ملی تھی تو میں اور کہاں جا کر سر چھپاتی، مجبور خاموش ہو رہی دس دن گزر گئے۔

اس دوران سرائے کا مالک، جس کا نام ہاشم خان تھا، مجھ سے بہت مانوس ہو گیا اور میرے ساتھ شادی کا ارادہ کر لیا۔ اس نے بتایا کہ میں بیوی بچوں والا ہوں اور میرے چھ جوان سالے ہیں جو میرے چچا زاد ہیں۔ ان کا ڈر نہ ہوتا تو تم کو آج ہی بیوی بنا کر گھر لے جاتا ، مگر اب ذرا سوچ کجھ کر اتنا بڑا قدم اٹھانا ہوگا۔ پہلے ہم کو خفیہ شادی کرنا ہو گی ۔ آہستہ آہستہ بعد میں اس معاملے کو ظاہر کروں گا۔ جلدی کی تو میرے سالے مجھ کو پولیس کے حوالے کر دیں گے۔ خدا جانے وہ جھوٹ کہتا تھا یا سچ ، مگر اب وہ میرے وجود کا مالک تو بن چکا تھا۔ میں کلی طور پر اس کے رحم و کرم پر تھی اور ناسمجھ بھی معلوم نہ تھا کہ برائی کیا ہے اور بھلائی کس کو کہتے ہیں۔ یہ ڈر بھی تھا کہ یہاں سے نکلی تو جاؤں گی کہاں؟دو ہفتے بعد ہاشم کے سالے کو علم ہو گیا کہ اس نے سرائے میں کوئی لڑکی رکھی ہوئی ہے ۔ 
 
وہ سیدھا ہاشم کے پاس پہنچا۔ – پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ہاشم نے کہا۔ بیچاری مصیبت زده ہے، اس کا کوئی نہیں ۔ گھر سے نکلی ہوئی ہے۔ کسی برے آدمی کے ہاتھ لگ گئی تو اس کو بیچ کر پیسے کھرے کرلے گا ، اسی وجہ سے میں نے پناہ دی ہوئی ہے ۔ پریشان ہوں کہ اس کا کیا کروں۔ ایسی ویسی کوئی بات نہیں ، تم بدگمانی مت کرو۔ وہ شخص جس کا نام جمال تھا، کہنے لگا۔ اگر یہ بات ہے تو پھر تم اس لڑکی کو میرے حوالے کر دو اور بے فکر ہو جاؤ۔ میں کورٹ میں جاکر اس سے شادی کر لیتا ہوں۔ ہاشم نے بلا چون و چرا مجھے جمال کے حوالے کر دیا۔ وہ مجھے لاہور لے آیا اور بچائے کورٹ لے جا کر شادی کرنے کے، اس نے مجھے ایک اور شخص کے ہاتھوں فروخت کر دیا اور رقم کھری کر لی ۔
 وہ شخص بھی کچھ بھلا مانس نہیں لگتا تھا لیکن مجھے روتا دیکھ کر جانے کیسے اس کے دل کی کایا پلٹی کہ کسی بری جگہ لے جانے کی بجائے وہ مجھے اپنی گھر لے کیا، جہاں اس کی بوڑھی ماں اور ایک نو سال کی بچی تھی، جبکہ اس کی بیوی مر چکی تھی ۔ اس نے ماں سے کہا۔ اماں یہ لڑکی مصیبت زدہ ہے، گھر کا راستہ بھول گئی ہے۔ مجھے اتفاق سے مل گئی ہے۔ تو ہر وقت کہتی تھی نا کہ گھر بسا ، شادی کرلے، میں کب تک زندہ رہوں گی۔ تو اب اچھی طرح اس بھولی بھٹکی کو پرکھ لے۔ تجھے اچھی لگے تو میری اس کے ساتھ شادی کرا دے۔ تجھے بہو مل جائے گی اور میری بیٹی کو ایک ہم جولی ۔ ماں بولی اچھا، پہلے چند دن اس کے رنگ ڈھنگ تو دیکھ لوں ۔ وہ مجھے برا نہیں لگا تھا۔ اس کے برتاؤ میں تہذیب اور بات چیت میں رکھ رکھاؤ تھا۔ اس کی بیٹی تو دو چار روز میں ہی مجھ سے مانوس ہو گئی۔ مجھے ماں کے حوالے کر کے وہ اسی شام گھر سے چلا گیا تھا۔

پندرہ روز بعد آیا تو اس کے گھر کی حالت بدل چکی تھی۔ میں نے گھر کو سنبھال لیا تھا۔ اماں کا خیال رکھتی ، ان کو وقت پر کھانا پکا کر دیتی، کپڑے دھو کر دونوں دادی پوتی کو پہناتی ان کو نہانے کو کہتی اور ہر شے کو میں نے اجلا کر دیا۔ سہیل نے گھر میں قدم رکھا تو اس کو اپنا گھر بنا سنورا ہوا ملا۔ وہ بتیس برس کا صحت مند نوجوان تھا۔ اپنی ماں کا تابعدار اور بیٹی سے پیار کرنے والا ، وہ اچھا کماتا تھا۔ کیا کام کرتا تھا؟ مجھے نہیں معلوم ، بہر حال اس کی ماں نے مجھے بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یوں میں بھولی بھٹکی در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچ گئی ۔
 
 اگر چچا کی طرف سے ڈر نہ ہوتا کہ وہ مجھے بھی میری بہن اور بھائی کی طرح ٹھکانے لگا دے گا تو وہاں بھی سارے ظلم سہہ لیتی ، گھر سے نہ نکلتی ، مگر میرے مرحوم باپ کی جائیداد روپیہ پیسہ میری جان کے دشمن بن چکے تھے۔ عجیب بات ہے کہ دنیا میں رشتے کبھی رحمت اور کبھی قاتل کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کوئی چچا تایا ایسے ہوتے ہیں جو وراثت کی خاطر خون کے پیاسے رہتے ہیں میں نے چچی اور چچا کی نیت کو بھانپ لیا تھا تبھی خوف سے گھر چھوڑ دیا تھا۔ آگے بھی میرا حال کچھ اچھا ہونے والا نہیں تھا لیکن خدا کو مجھ پر رحم آ گیا۔ برے حالات سے دوچار ہونے کے بعد سے اس کے کرم سے سہیل کے پاس پہنچ گئی، جس نے مجھ سے شادی کر کے مجھے اپنی عزت بنا لیا۔ 
 اس نے میرے گزرے دنوں سے کوئی واسطہ نہ رکھا اور اپنی آئندہ زندگی کو پرسکون بنانے میں لگا رہا اور مجھے پر سکون زندگی ، مضبوط سہارا اور پناہ مل گئی۔ مجھے خود کسی کے پیار کی ضرورت تھی لہذا جلد ہی ان کے ماحول میں ڈھل گئی۔ اس کی بیٹی میں اپنی بہن کی شبیہ تلاش کرتی تو مجھ کو اور اس پر پیار آتا اور کلیجے سے لگا لیتی ۔ تب اپنا بچپن ماں باپ یاد آ جاتے دل سے ہوک سی اٹھتی۔ وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔ شادی کے تین سال بعد جب میرا پہلا بیٹا اور اس کے بعد دو بیٹیاں ہو گئیں تو میرے زخم بھی رفتہ رفتہ بھر نے لگے ۔ فریال بہت ہی پیاری بچی تھی۔ اس نے میرے بچوں کو سنبھالا ۔ ان سے پیار کرتی اور ان کے ساتھ کھیل کود کر خوش ہوتی ، جیسے اس کو کھلونے مل گئے ہوں۔ دیکھتے دیکھتے وہ بڑی ہو گئی اور ہمیں اس کی شادی کی فکر ہوئی تبھی میری ساس نے اپنے ایک رشتہ دار کے لڑکے سے اس کا بیاہ کر دیا۔ اس کے چند ماہ بعد وہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
 
 اس دنیا سے جانے سے قبل اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی تھیں کہ ان کی سب مرادیں بر آئیں۔ ان کی یتیم پوتی فریال کی شادی ہو گئی اور بیٹے کو پھر سے آباد اور بچوں میں نہال دیکھ لیا۔ وہ مجھے دعائیں دیتی ہوئی اس جہاں سے رخصت ہوئی تھیں کہ میں ان کے آخری دنوں میں جب وہ علیل تھیں بہت ان کی خدمت کی تھی۔ سوچتی ہوں کہ یہ ان کی دعائیں ہیں، جو آج میرے پاس دنیا کی ہر خوشی موجود ہے اور میرا گھر رشک جنت ہے۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے