شریک حیات - اک سچا وعدہ

Urdu Font Stories

شریک حیات - اک سچا وعدہ

قسط وار کہانیاں
ٹرین کو اسٹیشن پر آنے میں کچھ دیر ہے۔ میں ملتان کے پلیٹ فارم پر بیٹھا انسانی اجسام کو بھاگتے، دوڑتے دیکھ رہا ہوں۔ مسافر پلیٹ فارم پر جمع ہو رہے ہیں۔ ٹکٹ گھر میں لمبی قطاریں لگی ہیں، اور چند مسافر ہاتھوں میں ٹکٹ لئے خراماں خراماں ویٹنگ روم کی طرف چل رہے ہیں۔ اور جو ویٹنگ روم میں بیٹھے ہیں، ٹکٹ کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ میں ملتان سے کراچی جانے کے لئے ایک بیگ کے ساتھ پلیٹ فارم پر موجود ہوں ۔ بیگ میں ایک ڈائری ہے، جو میرا کل اثاثہ زندگی ہے ۔ دوسوٹ ، دو جوڑی موزے، بنیان کھانے کے لئے نمکو اور بھنی ہوئی مونگ پھلی کے چند پیکٹ موجود ہیں۔ مونگ پھلی اور نمکو ہمیشہ میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں ان کا شوقین ہوں ۔ کیسی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ شوقین بھی ہوں لیکن میرے خاص اپنے کی نشانی بھی ہے۔ جب بھی مونگ پھلی اور نمکو کے پیکٹ دیکھتا ہوں۔ میری آنکھوں کے سامنے وہی چنچل شوخ سا چہرہ آجاتا ہے۔ ہاں وہی چہرہ جس کی برسوں پوجا کی ہے۔ جس کو چاہا ہے۔ جس کا مسکراتا چہرہ مجھے جینے کا راستہ دکھاتا ہے۔

آپ بھی سوچ رہے ہوگے، میں کن باتوں کو لے بیٹھا ہوں۔ کسی پوجا گھاٹ میں منتر شتر پڑھ رہا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ چلیئے شروع سے اپنی کہانی بتاتا ہوں۔ آپ کو سمجھ بھی آجائے گی اور میرا سفر بھی کٹ جائے گا۔ کچھ باتیں ، کچھ یادیں زندگی کو حسین بنا دیتی ہیں۔ وہ بھی سردیوں کی ایک حسین صبح تھی۔ جس کو دیکھو تن کو چار چار کپڑوں سے ڈھانپے ادھر اُدھر بھاگ رہا تھا۔ جرسیاں، دستانے، اور کوٹ، سر پر اونی ٹوپی اور جانے کیا کیا۔ جانے لوگ سردی سے کیوں گھبراتے ہیں۔ مجھے تو سردیاں بہت پسند ہیں۔ سردیوں کی لمبی راتیں ہوں۔ لحاف ہو، مونگ پھلی، چلغوزے،اخروٹ ہوں اور فرش پر پڑی انگیٹھی میں انگارے دہک رہے ہوں اور ساتھ زندگی ہو، تو زندگی جینے کا مزہ آتا ہے۔ سردیاں عاشقوں کے لئے عید کا سماں پیدا کرتی ہیں۔ عاشق محبوبہ کے ساتھ عہد و پیمان کے محل تعمیر کرتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ ہر کسی کا محبوب ہوتا ہے اور میرا بھی ایک دوست ہے۔ روز میں اپنے سچے دوست سے خوب باتیں کرتا ہوں۔ ہاں میرا دوست ایسا ہے جس کی دوستی میں سکون وراحت ہے۔ سردیوں کی ان ٹھٹھرتی راتوں میں، میں اپنے دوست اللہ سے باتیں کر کے سکون کی وادیوں میں کھو جاتا ہوں۔ اللہ سے باتیں کرنا لطف دیتا ہے اور میں اس لطف کو کھونا نہیں چاہتا۔ دھند کی چادر نے دن کے اجالے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ ایک گز کے فاصلے پر بھی بندہ نظر نہیں آتا تھا۔ سورج کب کا محو خواب سے نکل کر دُھند کو بھگانے میں لگا ہوا تھا۔ میں ملتان کے پلیٹ فارم پر ٹرین کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اللہ اللہ کر کے آدھ گھنٹہ کے کرب ناک انتظار کے بعد ٹرین نے پلیٹ فارم سے تھوڑی دور سے وسل دی تو میری جان میں جان آئی۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسی ٹرین سے کراچی ذریعہ معاش کے سلسلے میں جا رہا تھا۔ دوستوں سے سُن رکھا تھا کہ کراچی میں بہت کام مل جاتا ہے ۔ پورے پاکستان سے مزدور ادھر کا رخ کرتے ہیں اور کمانے کے ساتھ ساتھ یہاں کے نظارے بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا گیا ہے۔ سمندر کنارے یہ شہر اپنی خوبصورتی سے ہر آنے والے کو متاثر کرتا ہے۔ جو ادھر آتا ہے یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ پاکستانیوں کیلئے دبئی کا درجہ رکھتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے کراچی اب کرچی کرچی ہو کر رہ گیا ہے۔ افراتفری ،لوٹ مار، اسٹریٹ کلنگ معمول بن گیا ہے۔ خیر میں بھی کمانے کے غرض سے کراچی کا ٹکٹ ہاتھ میں تھامے سردی کی شدت کو انجوائے کر رہا تھا، اور ساتھ ساتھ مونگ پھلی کے مزے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ٹرین آئی تو میں نے اپنا بیگ اُٹھایا اور مطلوبہ کمپارٹ میں سوار ہو گیا۔ 
 
ڈبے میں چند مسافر تھے جو اپنی اپنی سیٹ پر پڑے شاید اونگھ رہے تھے۔ میں نے اپنا بیگ سامنے والی سیٹ پر رکھا اور خود ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ خوش قسمتی سے وہاں پہلے کوئی مسافر نہیں تھا۔ میں نے برتھ بھی لیا ہوا تھا۔ دس منٹ رکنے کے بعد ٹرین نے رخت سفر کا اعلان کرتے ہوئے وسل دی ۔ملتان کے پلیٹ فارم سے کافی مسافر سوار ہوئے تھے۔ ڈبے آہستہ آہستہ مسافروں سے بھر گئے ،لیکن میرے ساتھ والی سیٹ پر کوئی مسافر نہ آیا۔ ٹرین چلی تو میں پرسکون ہو گیا اور کھڑکی کے ساتھ لگ کر باہر کا نظارہ کرنے لگا۔ تھوڑی دیر گزری ہو گی کہ ٹرین کی رفتار آہستہ ہونے لگی۔ میری نظریں باہر گھومتی پھرتی تھیں۔ اللہ کی کاریگری دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ آہستہ آہستہ ٹرین رُک گئی۔ یہ شجاع آباد کا اسٹیشن تھا۔ ٹرین یہاں بمشکل پانچ منٹ ڑکی ہو گی۔ چند مسافر سوار ہوئے اور ٹرین نے پھر مسافر وار ہوئے اور ٹرین نے پھر سے رینگنا شروع کر دیا اور پھر لمحوں میں اپنی رفتار میں آگئی۔ کھیت کھلیان، درخت، کوٹھیاں، سڑکیں پیچھے چھوڑتی ٹرین منزل کی طرف ڈوری جارہی تھی اور میں ان نظاروں میں گم تھا کہ میری سماعتوں سے نسوانی آواز ٹکرائی۔ ایکسوزمی!۔ میں قدرتی حسین نظاروں کی دُنیا سے باہر آیا اور نظریں مخاطب کرنے والی آواز کی طرف اُٹھ گئیں۔ سامنے خوبصورت چنچل سی مہ جبیں جس کی عمر سترہ اٹھارہ سال رہی ہوگی، کھڑی مجھے تکے جا رہی تھی۔
 میری نظریں اُس حسین مکھڑے کا طواف کر رہی تھیں۔ رب تعالیٰ نے کیسا شاہکار بنایا تھا۔ گورا چٹا رنگ سنہری زُلفیں، سڈول جسامت، آنکھیں جھیل سی اور لبوں پر مسکراہٹوں کے پھول کھل دیکھ کر بنانے والے کے گن گانے لگا۔ مہ جبیں نے دوبارہ لب ہلائے۔ ایکسوز می! جی فرمائیے۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں ؟“ جس سیٹ پر میں نے بیگ رکھا ہوا تھا، اُس نے اُس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جی ….. جی ۔ میں نے کہتے ہی اپنا بیگ اُٹھا لیا۔ اور وہ وہاں بیٹھ گئی۔ کیا یہ سیٹ آپ کی ہے؟ میں نے گفتگو کا آغاز کیا۔ نہیں، لیٹ ہونے کی وجہ سے میں اپنے ڈبے میں سوار نہ ہوسکی اور بمشکل گرتے پڑتے اُس ڈبے میں سوار ہوگئی۔ ٹکٹ آفیسر سے بات کی تو اُنہوں نے یہاں بیٹھ جانے کو کہا۔ اگلے اسٹیشن پر ٹرین رُکے گی تو اپنے متعلقہ ڈبے میں چلی جاؤں گی۔ تھوڑی دیر برداشت کر سکتے ہو۔ وہ بے باکی سے محو گفتگو تھی۔ اوکے۔ ویسے تمھارے اندر لڈو تو پھوٹ رہے ہوں گے کہ ایک حسین لڑکی تمہارے سامنے بیٹھی ہے۔ وہ بے باکی سے بول رہی تھی اور مجھے اُس کا یہ انداز بہت بھلا لگا۔ اُس کی مسکراہٹ پر میں قربان ہوا جا رہا تھا۔ حیران تھا کہ دنیا میں جسے دیکھو پریشانیوں، دُکھوں کا پرچار کر رہا ہوتا ہے۔ مجھے یہ نہیں ملا، مجھے وہ نہیں ملا۔ اللہ تعالیٰ نے ان گنت دُکھوں میں مبتلا کر دیا۔ اولاد نافرمان ہو گئی ہے۔
 
 اپنے پرائے ہو گئے ہیں۔ غریبی کا رونا، دولت کی ہوس، جانے کیا کیا کفریہ باتیں روز سنے کو ملتی تھیں۔ اب اس حسینہ کو دیکھو کسی اور دنیا کی مخلوق لگتی ہے۔ جس کے چہرے پہ غم کی پر چھائی تک نہیں ہے۔ کوئی دکھ ہے نہ کوئی غم ۔ جانے کس گلشن کی مکین تھی۔ اللہ کرے اس کی مسکراہٹ سدا یو نہی رہے۔ میں نے دل ہی دل میں دُعا کی۔ وہ سیٹ پر بیٹھتے ہی ڈائری میں گم ہوگی۔ میں مسلسل اُسے گھور رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر سے باتوں کا سلسلہ شروع کرنا چاہا۔ مونگ پھلی کھاؤ گی۔ لبوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے میں نے کہا اور مونگ پھلی کا پیکٹ اُس کی طرف بڑھایا۔ بڑی ڈھیٹ حسینہ تھی۔ اُس نے بھی انکار نہیں کیا اور پورے کا پورا پیکٹ ہی ہڑپ کر گئی۔ میں نے بیگ سے دوسرا پیکٹ نکالا اور پھر باتوں کا طویل سلسلہ چل نکلا۔
آپ کی منزل کہاں ہے؟ میری منزل ؟ اُس نے جوابا سوال کیا۔ دنیا میں تو بس سیر و تفریح کرنے آئی ہوں ۔ میری اصل منزل تو اور ہے۔ اُس نے جواب دیا۔ اُس کا فلسفا نہ جواب مجھے پسند آیا۔ میرے پوچھنے کا مطلب ہے کہ ابھی کہاں جا رہی ہو؟ میں نے پوچھا۔ کراچی ۔ اُس نے مونگ پھلی چباتے ہوئے جواب دیا۔ مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ اُس کا مزاج میرے جیسا ہی تھا۔ ہنس مکھ، شوخیانہ، نڈر، باتونی۔ پھر تو محفل خوب رہے گی۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔خوش فہمی ! اُس نے دھیمے سے زیرلب کہا۔ آپ کہاں ۔ کے لئے محو سفر ہیں ۔ میں بھی کراچی جا رہا ہوں۔گڈ ، ویری گڈی کوئی جاب ہے ؟ نہیں، جاب کی تلاش میں سرگرداں ہوں ۔ اسی سلسلے میں کراچی جا رہا ہوں ۔ سنا ہے وہاں بہت کام مل جاتا ہے۔ میں نے تفصیلاً جواب دیا۔ اوہ ۔ اُس نے ٹھنڈی آہ بھری۔ آپ کراچی؟ میں نے اُس کے کراچی جانے کی وضاحت مانگی۔
 
 میرا مستقل ٹھکانہ کراچی ہے۔ یہاں شجاع آباد میں خالہ کے ہاں آئی تھی۔ ایک ہی خالہ رہ گئی ہے۔ بیچاری بیمار رہتی ہے۔ کئی بار کہا کہ میرے ساتھ چلو، میں علاج کراؤں گی۔ مگر مانتی نہیں۔ کبھی کبھی رشتوں کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔ ساری عمر بزنس بزنس کی گردان اچھی نہیں ہوتی ۔ اُس نے ٹرین کی چھت کی طرف گھورتے ہوئے جواب دیا۔ میں کاروباری مخلوق ہوں ۔ آفس میں سرکھپاتے کھپاتے عرصہ ہو گیا ہے ۔ مما پاپا، چند سال پہلے روڈ ایکسڈنٹ میں جاں بحق ہو گئے اور مجھے تنہا کر گئے ۔ پاپا کا وسیع بزنس تھا۔ میں اکلوتی اولاد ہوں، اللہ تعالیٰ کی آزمائش تھی یا کوئی اور وجہ کہ میرا کوئی بھائی دنیا میں وارد نہ ہو سکا۔ پاپا نے مجھے بہت پیار دیا۔ میں اکثر اوقات اُن کے ساتھ آفس جاتی ۔ مختلف دوروں پر ساتھ ہوتی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ کاروباری گر بھی سیکھنے لگی ۔ اب میں نے ایم اے کر لیا ہے اور مما پاپا کے گزرنے کے بعد کاروبار سنبھالے ہوئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ کرم ہے، خوشحال زندگی گزر رہی ہے۔ پاپا میری شادی برادری سے باہر کرنا چاہتے تھے یہاں تک کہ پاپا کو اور مجھے میرے مزاج کا ، ذہین سرتاج نہ مل سکا۔ کئی بادل منڈلائے بھی تو اُن میں ہوس کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اُن کی نظریں میری جائیداد، بینک بیلنس ، کوٹھی گاڑیوں پر تو ہوتی مگر کسی نے میری طرف نہ دیکھا۔ سچائی کسی کی آنکھوں میں نہیں جھلکتی تھی۔ حساس دل نہ ملا جو بھی ملا پتھریلی زمین کا وجود ملا ۔
 
 مجھے خوشبو دار ، بھینی بھینی خوشبو دار نرم و نازک مٹی سے بنے انسان کی تلاش تھی۔ مما پا پا گزر گئے تو میں نے اپنی زندگی کو کاروبار میں ایڈجسٹ کر لیا۔ غموں، دُکھوں، پریشانیوں کو خود پر سوار کر کے ملتا ہی کیا ہے۔ چار دن کی زندگانی ہے ہنس کر گزارنی چاہیے۔ بس یہی وجہ ہے کہ ہر وقت مسکراہٹ چہرے پر رہتی ہے۔ چہرہ ہشاش بشاش رہتا ہے ۔ جب کاروباری ذہن سے تھک جاتی ہوں تو پارکوں میں ، دیہات بستیوں میں میں آوارگی کے لئے نکل جاتی ہوں ۔ غریبوں سے مل کر ، اُن کے بچوں سے میٹھی میٹھی باتیں کر کے جو خوشی ملتی ہے۔ میں بتا نہیں سکتی۔ خود کو غموں ، دُکھوں کا مکین بنا کر ملتا ہی کیا ؟ بس یہی اپنی زندگی ہے۔ اور تم سناؤ ؟ اُس نے بے تکلفی سے پوچھا۔ ابھی تک اُس نے میرا نام تک نہ پوچھا تھا بس پہلے آپ اور اب تم پر آئی گئی تھی۔ نام تو میں نے بھی پوچھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ میرے تو دل میں جلترنگ بجنے لگنے لگے۔ باتیں کرتی اور مسکراتی ہوئی مجھے وہ بہت پیاری لگنے لگی۔
میں غریب انسان کا غریب بیٹا ہوں۔ غربت مجھے وراثت میں ملی ہے۔ اک ماں ہے جو چارپائی پر پڑی کھانستی رہتی ہے۔ میں ذریعہ معاش کے لئے مارا مارا پھر رہا ہوں ۔ ابو عرصہ ہوا فوت ہو گئے ہیں۔ ہم دو بہن بھائی ہیں۔ بہن کو امی کے پاس چھوڑ کر اپنے شہر سے مایوس ہو کر کراچی کمانے جا رہا ہوں ۔ میرے ساتھ دو زندگیاں جڑی ہیں۔ خود اور اُن کو زندہ رکھنے کے لئے جتن کر رہا ہوں ۔ یہی اپنی زندگانی ہے ۔ ابھی بہن کی شادی بھی کرنی ہے اور اپنا الله مالک ہے۔ میں نے آخری جملے پر زور دے کر کہا اور پھر خاموش ہو گیا۔ جو نہی میں خاموش ہوا وہ مسکرا دی ۔میری غربت پہ ہنس رہی ہو۔ میں نے ناگواری میں پوچھا۔ ارے ارے نہیں۔ میں تو تم پہ ہنس رہی ہوں کہ مرد ہو کر حالات سے لڑنے کی بجائے حوصلہ چھوڑے بیٹھے ہو۔ مایوسی ! اس کے انگ انگ سے ٹپکتی ہے ۔ ارے نادان …. جوان ہو، پڑھے لکھے ہو۔
 
 پھر مایوسی ، اُداسی کیوں؟“ابھی باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ٹرین نے رُکنے کا عندیہ دے دیا۔ یونہی گاڑی اسٹیشن پر ڑکی۔ میں نیچے جانے کے لئے اُٹھا اور اُس حسینہ سے عرض کی کہ یہی رُکنا میں کھانے کے لئے کچھ لے آتا ہوں ۔ گاڑی میں چائے ، گرم انڈے اور جانے کیا کیا بیچنے والے آئے تو تھے مگر میں نے کچھ نہیں لیا تھا۔ مونگ پھلی اور نمکو سے گزارہ کیا تھا۔ سادہ پانی کی بوتل ویسی ہی پڑی تھی ۔سردیوں میں پیاس کم ہی لگتی ہے ناں۔ آپ کو ۔ اُس نے مجھے جانے سے روک دیا۔ میں جاتی ہوں، پتا ہے آج کل لڑکیوں کی زیادہ چلتی ہے اور میں خوبصورت و حسین بھی ہوں۔ ہر دوسرا مرد میرا دیوانہ ہو گا۔ اُس نے کن انکھیوں سے مجھے دیکھا اور مسکرانے لگی۔ بڑی منہ پھٹ لڑکی تھی۔ اُس نے وہی کر بھی دکھایا۔ وہ نیچے اُتر گئی اور میں کھڑکی سے باہر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ جوان بوڑھے سب اُس کے ایک اشارے کے منتظر تھے۔ اُس کے اردگردیوں جمع ہو گئے جیسے کوئی قیمتی شئے مل جانے والی ہو۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ اُس کی آوارہ زلفیں اُن کو گھائل کر رہی تھیں۔ اُس کی اس ادا پر کتنے مرد مرے جا رہے تھے۔ میں اندر بیٹھا یہ سین دیکھ رہا تھا اور مردوں کی عقل کو داد بھی دے رہا تھا۔
 
 اپنی عورتوں کے حقوق پورے نہیں کر پاتے اور غیر محرم عورتوں لڑکیوں کے گرد بھنورے کی طرح منڈلاتے پھرتے ہیں۔ غیرت مندوں کی یہاں غیرت مر جاتی ہے اور شیطانیت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں جانے وہ کیا کچھ لے کر واپس سیٹ پر آگئی۔ میری نظریں بھنی ہوئی مونگ پھلی کے پیکٹوں پر ٹک گئیں۔ اتنے پیکٹ؟“ میں نے پوچھا۔ ہاں مجھے پتا ہے تم مونگ پھلی کے شوقین ہو اور راستے میں باتوں کے دوران کتنے پیکٹ ہڑپ کر گئے ہو، یہ رکھالو میری طرف سے کام آئیں گے۔ آپ نے میری غربت کا مذاق اُڑایا ہے۔ میں نہیں لوں گا۔ تم بھی کتنے پاگل ہو؟ اُس نے میری ناراضگی کو بھانپتے ہوئے کہا۔ میں تمھاری غربت کا مذاق نہیں اُڑا رہی، ایک دوست ہونے کے ناطے لائی ہوں۔ اور میں نے بھی تو کئی پیکٹ ہڑپ کیسے ہیں ، اور نیچے میں اس لئے اُتر گئی تھی کہ تمھیں دکھاؤں کہ ہمارے معاشرے میں کیا کیا ہو رہا ہے۔ اُس کی اک اک ادا پر پیار آتا تھا۔
ٹرین چل پڑی لیکن ہمارا ساتھ نہیں چھوٹا تھا۔ کئی اسٹیشن آئے لیکن اُس نے اپنے ڈبے میں جانے کی بات تک نہیں کی ۔ میں بھی اُس کا ساتھ چاہتا تھا۔ پھر بھی میں نے پوچھ لیا میری بابت پر کہنے لگی ۔اتنا اچھا ہم سفر ملا ہوکس پاگل کا دل چاہے گا کہ وہ اُس کو چھوڑ دے۔ لڑکی ہو کرکتی دلیرانہ باتیں کرتی تھی۔ ایسی باتیں تو مجھے کرنی چاہیے تھیں۔ لیکن؟ میں مسکرا دیا۔ کتنا خوش بخت سفر تھا اور کتنا حسین ہم سفر مجھے میری قدر کرنے والامل گیا۔ ٹرین میرے لئے قیمتی ہیرے سے کم نہیں تھی ہرکس کوایسی ٹرین اور ہم سفر نہیں ملا کرتے۔

کراچی پہنچے تو اُس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ کہاں جاتے ہو…. بھگوڑے۔ میں اُس کے جملے سے حیران تو ہوا لیکن دوسرے لمحے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔اپنی منزل کو ڈھونڈ نے۔ ارے پاگل ! منزل خود چل کر تمھارے پاس آئی ہے اور تم منزل ڈھوند نے نکل پڑے …. بیوقوف۔ منزل تو تمھارے سامنے کھڑی ہے۔ راستے بھر میں اُس نے کئی القاب سے نوازہ تھا۔ ” کیا میں بیوقوف ہوں جو اتنے لمبے سفر میں تم سے محو گفتگور ہی۔ میں پہلی نظر تمھیں اپنا ہم سفرمان لیا تھا۔ اس کے ساتھ اُس نے اپنا سیل نکالا اور ڈرائیور کوفون کیا۔ چند منٹوں میں گاڑی اسٹیشن پر پہنچ گئی جیسے گاڑی اُس کے انتظار میں پہلے سے اسٹیشن پر موجود ہو۔شاندار چمکتی گاڑی۔ میں تو اُس کے ڈرائیور کے مقابل بھی نہیں تھا لیکن اُس نے مجھے پلکوں پر بیٹھا لیا۔ کہتے ہیں ناں عورت کو کوئی نہیں پہچان سکا۔ اس کے کئی روپ ہیں اور ہر روپ نرالا ہے۔ اب تمھیں کہیں جاب ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرا سب کچھ تمھارا ہے بس میں نے تمھیں اپن اپنا سرتاج چُن لیا ہے، بولو… منظور ہے؟“ میری تو باچھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں بھلا کیسے ٹھکرا سکتا تھا۔ منزل واقعی خود چل کر میرے پاس آئی تھی۔ میں منزل کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ یوں ہم میاں بیوی کے خوبصورت بندھن میں بندھ گئے۔
ہنسی خوشی زندگی بسر ہونے لگی۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے بیٹا اور پھر انیلہ کی صورت میں رحمت عطا کر دی۔ میں مستقل کراچی کا ہو کر رہ گیا۔ بہن کی شادی ملتان میں کر دی تھی اور امی کو اپنے پاس لے آیا تھا۔ میری شادی کے تیسرے سال ایک دن اماں ہمیں چھوڑ کر حقیقی دیس چلی گئی غم کی ان گھڑیوں میں میری ہم سفر نے بہت ساتھ دیا۔ اُس کا کا سہارا نہ ہوتا تو میں کمزور پڑ گیا ہوتا ۔ لیکن قدرت خداوندی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میری بہن اپنے گھر میں خوش باش زندگی جی رہی ہے لیکن میری چنچل سی ہم سفر میرے ساتھ نہیں ہے۔ میری منزل کہیں کھوسی گئی ہے۔ آج اُس کی یادیں ، اُس کی باتیں ہیں اور اُس کا کاروبار ہے جو میں نے سنبھال رکھا ہے۔ انیلہ ایف اے کر رہی ہے اور بیٹا ایم ایس یسی کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئے انگلینڈ چلا گیا ہے۔ آج اپنی بہن سے مل کر واپس کراچی جا رہا ہوں ۔ وہی اسٹیشن آ گیا ہے ۔ یہاں سے میری ہم سفر پہلی بار ملی تھی ۔ ٹرین بھی وہی ہے ۔ سیٹ بھی وہی ہے ۔ کھڑ کی بھی وہی ہے اور پٹڑی بھی وہی ہے۔ ویسی ہی ٹرین کی چھک چھک سنائی دے رہی ہے لیکن نہیں ہے تو میری ہم سفر ، میری منزل ، میری شریک حیات نہیں ہے۔ جس نے میری زندگی بنا دی ۔ مجھے کوڑے کے ڈھیر سے اُٹھا کر محل کا مکین بنا دیا تھا۔ 
 
آج میرے پاس سب کچھ ہے لیکن میں آج بھی اپنا وہی حلیہ برقرار رکھے ہوئے ہوں ۔ وہی کپڑے ، وہی بیگ، وہی موزے ، وہی مونگ پھلی کے خالی پیکٹ اور اُس کی ڈائری میرے پاس موجود ہے۔ جس سے اُس کی خوشبو آتی ہے اور میں اُس کی مہک سے سرشار رہتا ہوں۔ میں مہینے میں ایک بار کراچی سے ملتان اور ملتان سے کراچی سفر ضرور کرتا ہوں ۔ وہی ٹرین ہوتی ہے جس میں میری نیک صفت بیوی ملی تھی ۔ اس اُمید پر اسی ٹرین میں اُسی حلیے میں سفر کرتا ہوں کہ کہیں میری منزل مل جائے گی۔ مجھے میری بیوی مل جائے گی۔ لیکن میں بھی کتنا پاگل ہوں ۔ وہ تو وہاں جابسی ہے جہاں سے واپس کوئی نہیں آیا۔ وہاں نیک لوگ جا سکتے ہیں …. نیک اعمال کر کے ۔ البتہ میں بھی وہاں جاسکتا ہوں لیکن مجھے اُس جیسا نیک بننا پڑے گا۔ نیک اعمال کرنے ہوں گے تبھی میں وہاں جا کر اپنی منزل سے مل سکتا ہوں۔ دعا کیجیے گا کہ یہ ملن جلد از جلد ہو لیکن ایک سوچ میرے ذہن میں سوار رہتی ہے کہ کیا یہی ٹرین وہاں بھی ملے گی ؟ ٹرین اپنی منزل پر پہنچ چکی ہے اور میں تھکے تھکے قدموں کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چل پڑا ہوں۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for kids, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu stories stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے