محلے کی رانی

Sublimegate Urdu Stories

محلے کی ساری بہوؤں نے باجماعت دعا کی کہ اللہ سلیم کی اماں کو اپنے پاس بلالے، مگر مجال ہے کہ انہیں چھینک تک آئی ہو۔ محلے بھر کی ساسیں ان کو بہت پسند کرتی تھیں، کیونکہ جو بات وہ اپنی بہو کو منہ پر نہ کہہ سکتی تھیں، وہ سلیم کی اماں سے کہلوا لیتیں۔ سلیم کی اماں اِن ڈائریکٹ انداز میں بہو کو صلواتیں سناتیں، گویا کسی اور سے مخاطب ہوں۔ تاہم جب وہ بہو شکایت کرتی اور شوہر، یعنی سلیم کی اماں کے بیٹے سے شکوا کرتی، تو وہ حیران ہو جاتا۔ اور جب بیٹا ماں سے پوچھتا، تو سلیم کی اماں کہتیں: “میں نے تمہاری بیوی سے تو کچھ نہیں کہا، میں تو خدا لگتی بات کرتی ہوں۔ اگر اُس نے میرے کہے کو اپنے اوپر لے لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ انہی عیوب کی مالک ہے۔” اب بیچارہ شوہر لاجواب ہو کر رہ جاتا۔

شاہد صاحب کا بیٹا فوج میں تھا اور اپنی شادی کے سلسلے میں آیا ہوا تھا۔ دلہن کی والدہ نے دیکھا کہ روٹیاں پکانے کے لیے ملازمہ آتی ہے، جبکہ سالن بہوئیں بناتی ہیں۔ سالن بنانے کے لیے دن مقرر تھے کہ کس دن کس بہو کی باری ہو گی۔ ان میں سے ایک بہو کی حرکت یہ تھی کہ سالن میں کبھی نمک تیز ہوتا، کبھی مرچ، اور کبھی سالن جل جاتا۔ چنانچہ سلیم کی اماں نے فیصلہ کیا کہ اس بہو کی مستقل ڈیوٹی سالن بنانے پر لگائی جائے تاکہ وہ ٹھیک طرح سے کھانا پکانا سیکھ سکے۔ جب دلہن کی ماں کو معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی کو کھانا پکانا نہیں آتا، تو انہوں نے گزارش کی کہ اُس سے کھانا نہ پکوایا جائے۔

 سلیم کی اماں نے شاہد صاحب کی بیگم کو مشورہ دیا کہ شادی کے بعد بیٹے کو تو واپس ڈیوٹی پر جانے دیں، لیکن بہو کو روک کر رکھیں، اور اُسے تبھی بھیجیں جب وہ اچھی طرح سالن بنانا سیکھ لے۔یہ بات جب دلہن کی ماں کو معلوم ہوئی تو وہ گھبرا گئیں۔ چنانچہ آٹھ دن بعد، جب دولہا واپس اپنی پوسٹنگ پر جانے لگا، تب دلہن نے خود سالن پکا کر میز پر رکھا، جس کی سب نے تعریف کی۔ یوں بہو کو ساتھ رخصت کیا گیا۔محلے میں کوئی فوتگی ہوتی تو غسلِ میت کے لیے سلیم کی اماں فوراً پہنچ جاتیں۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ میتوں کو غسل دیں۔ محلے کے شرارتی لڑکوں نے ایک دن ان کے گھر کے باہر بڑے حروف میں لکھ دیا: یہاں زنانہ غسلِ میت کے لیے عملہ فری دستیاب ہے! یہ پڑھ کر وہ غصے سے کانپ اٹھیں اور اُن لڑکوں کو بد دعا دی: تمہاری ماؤں کو بھی کوئی غسل دینے والی نہ ملے! امی نے بچپن میں سلیم کو قرآن پڑھایا تھا، اسی لیے وہ ان کا بہت احترام کرتی تھیں۔ ہماری امی ہی محلے کی وہ واحد خاتون تھیں جن کی بات سلیم کی اماں سن لیا کرتی تھیں۔ 

اماں نے انہیں کئی بار ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے پر ڈانٹا، مگر وہ گردن جھکائے خاموشی سے سن لیتی تھیں۔ وہ تین دن میں ایک قرآن پاک ختم کر لیا کرتی تھیں، اسی لیے جہاں بھی قرآن خوانی ہوتی، انہیں بلایا جاتا اور وہ فوراً پہنچ جاتیں۔ان کا خاندان چاندی کے کاروبار سے وابستہ تھا، گھر میں خوشحالی تھی، مگر ان کی جاہل بہوئیں ہر روز نت نئے فیشن اپناتیں، جس پر سلیم کی اماں کو سخت اعتراض ہوتا۔ ان کی ایک بہو نے بیل باٹم سلوایا، جو انہیں بالکل پسند نہ آیا۔ جب بھی وہ بہو کو یہ پتلون پہنے دیکھتیں، کہتیں: آج پھر ہاتھی کے کانوں والی پتلون پہن لی! البتہ، ان کے گھر کی کوئی بہو بال نہیں کٹوا سکتی تھی۔ متین صاحب کی بہو نے بال کٹوائے، تو انہوں نے اس کا نام “گنجی بہو” رکھ دیا، اور وہ اسی نام سے محلے میں مشہور ہو گئیں۔محلے کے لڑکوں کی شادی میں وہ خود ابٹن بناتی تھیں، جس کی خوشبو سے سارا کمرہ مہک جاتا۔ وہ ایسا قورمہ بناتی تھیں کہ بڑے بڑے ماہر باورچی بھی شرما جائیں۔ مگر ان کی بہوئیں کہتیں کہ یہ ان کا کمال نہیں بلکہ مصالحے اچھے ہوتے ہیں۔ جب یہ بات سلیم کی اماں کے کانوں تک پہنچی، تو انہوں نے فوراً حکم دیا کہ بہو بادام والا قورمہ بنائے۔

 قورمہ تیار ہوا، مگر اس میں کچھ بادام کچے اور ٹوٹے ہوئے تھے۔ سلیم کی اماں نے موقع غنیمت جانا اور فوراً طعنہ دیا: تمہاری ماں نے تمہیں کچھ نہیں سکھایا؟ بھلا شاہی ڈش بنانا بھی کوئی عام بات ہے؟ ان کا اصول تھا کہ محلے کی کوئی لڑکی چھپکے سے نہ کھائے، ورنہ ہاتھ سے کھانے کا ذائقہ چلا جاتا ہے۔ ان کی اپنی دنیا، اپنے اصول تھے، جن سے وہ ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھیں۔یہ عجیب بات ہے کہ جن گھروں میں عورتوں کی آواز بہت اونچی ہوتی ہے، وہاں مرد بہت آہستہ بولتے ہیں۔ یہی حال سلیم کی اماں کے گھر کا تھا۔ ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ محلے کے آخری نکڑ تک سنائی دیتی تھی۔

متین صاحب کی بہو، جو محلے میں گنجی بہو کے نام سے مشہور تھی، اسپتال کے لیبر روم میں دردِ زہ کے باعث پڑی ہوئی تھی۔ کچھ پیچیدگیاں درپیش تھیں، اس لیے ڈاکٹرز آپریشن کی تیاری کر رہے تھے کہ سلیم کی اماں اسپتال پہنچ گئیں۔ بغیر کسی جھجک کے سیدھا لیبر روم میں داخل ہو گئیں۔ نرس نے روکنے کی کوشش کی تو اسے جھڑک دیا اور لیڈی ڈاکٹر کے سامنے جا کھڑی ہوئیں۔ڈاکٹر صاحبہ، آپریشن سے پہلے مجھے بہو پر دم اور تعویذ باندھنے کی اجازت دیجیے۔ڈاکٹر کو یہ سب کچھ مضحکہ خیز ضرور لگا، مگر انہوں نے اجازت دے دی۔ سلیم کی اماں نے کچھ پڑھ کر بہو پر دم کیا اور پھر اپنے پرس سے سفید کاٹن کا ایک لمبا تعویذ نکال کر بہو کی کمر سے باندھ دیا۔ 

بہو کی حالت کچھ ہی دیر میں بہتر ہو گئی۔ انہوں نے جلدی سے تعویذ کھول کر بٹوے میں رکھا اور جس رفتار سے اندر آئی تھیں، اسی تیزی سے باہر نکل گئیں۔بعد میں انہوں نے بتایا کہ یہ تعویذ ایک بزرگ نے انہیں دیا تھا اور خاص تاکید کی تھی کہ اس کے بدلے میں کبھی پیسے نہ لینا، ورنہ اس کا اثر ختم ہو جائے گا۔ متین صاحب کی بیوی اور بہو کی ماں ان کی بہت شکر گزار تھیں، لیکن انہوں نے تحفہ یا رقم لینے سے انکار کر دیا۔ وہی گنجی بہو، جو ہمیشہ ان سے خار کھاتی تھی، اس روز اُن کی احسان مند ہو گئی۔سارا محلہ اُنہیں پیٹھ پیچھے غبطی بڑھیا کہتا تھا، لیکن اس واقعے کے بعد سے لوگ دل سے ان کی عزت کرنے لگے۔ لوگ تعویذ مانگنے آنے لگے تو انہوں نے سب کو ڈانٹ دیا کہ مجھے مولوی نہ بناؤ۔ایک دن وہ پریشان ہو کر ہماری امی کے پاس آئیں۔ ہم سمجھے کہ کسی بہو کا قصہ لے کر آئی ہوں گی، مگر بات کچھ اور نکلی۔ برادری سے سلیم کے لیے ایک رشتہ آیا تھا، مگر لڑکا ان پڑھ تھا، اس لیے سلیم نے صاف انکار کر دیا۔
استانی جی، برادری میں لڑکے ہوں تو لڑکی باہر کیوں دی جائے؟ ہم تو اگر لڑکی بڑی ہو تب بھی برادری کی وجہ سے اس سے شادی کر دیتے ہیں۔ یہ لڑکا تین سال سے فیل ہو رہا ہے، مگر اپنے ابا کی دکان پر بیٹھتا ہے اور بزنس میں دلچسپی رکھتا ہے۔ کھاتے پیتے لوگ ہیں، اور کیا چاہیے؟امی نے کہا، سلیم سے بات کریں گی۔پھر میری امی نے سلیم کو سمجھایا کہ بیٹا، میں تمہاری استانی ہوں، میری بات مانو۔ باپ جو کہہ رہے ہیں، مان جاؤ۔ وہ مجبور ہیں، برادری کے اصولوں کے خلاف نہیں جا سکتے۔ سلیم اماں کے دباؤ میں آ کر رو دی اور آخرکار رخصت ہو گئی۔متین صاحب کی بیگم سے ان کی دوستی بہت گہری تھی۔ وہ اپنے سارے دکھ ان سے بانٹتیں۔ کہتیں کہ جوانی میں ساس کی باتیں سنیں، اب بڑھاپے میں بہوؤں کی سن رہے ہیں۔لیکن میں ان کی یہ بات کبھی نہیں مانتی تھی، کیونکہ اُن کی بہوئیں انہیں جواب تو نہیں دیتی تھیں، مگر کرتی اپنی مرضی ہی تھیں۔ 

گھر کے ہر مسئلے کا حل آخرکار امی کو نکالنا پڑتا۔ وہ ان کو سمجھاتیں کہ بہوؤں کے معاملات میں دخل نہ دیا کرو۔ اگر وہ فلم دیکھنے جاتی ہیں تو جانے دو۔مگر سلیم کی اماں کہاں مانتی تھیں۔ ادھر ان کی بہوئیں شکایتیں لے کر امی کے پاس آتیں، تو امی انہیں دلاسہ دیتیں کہ وہ زبان کی تیز ہیں، مگر دل کی بہت اچھی ہیں۔میں انہی دنوں امریکا جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ سیٹ کنفرم ہونے کے بعد سلیم کی اماں آئیں، قرآن کی آیات کا دم کیا، اور دعا دی کہ اللہ کرے جہاز والے تمہیں اچھا پلنگ دیں، آرام سے سو سکو۔جان چھڑانے کو میں نے کہا، جی، جہاز والوں سے منوالیا ہے، وہ مجھے پلنگ دیں گے۔

امریکا سے بھی مجھے امی سے ان کی خبریں ملتی رہتی تھیں۔ ایک دن امی نے افسردگی سے بتایا کہ سلیم کے ابا کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں فون پر تعزیت کرنا چاہتی تھی، مگر امی نے منع کر دیا کہ وہ عدت میں ہیں، کسی سے بات نہیں کرتیں، بس قرآن پڑھتی رہتی ہیں۔کئی سال بعد جب میں کراچی آئی، تو ان سے ملی۔ وہ بیمار اور کمزور لگ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر اٹھیں، گلے لگیں، دعائیں دیں۔ ان کے چہرے پر غمزدہ سی مسکراہٹ تھی۔ یہ وہ عورت تھی، جس نے صرف اپنے گھر نہیں، پورے محلے پر حکومت کی تھی۔اگر کسی کی گیند سے شیشہ ٹوٹتا، تو وہ ہرجانہ وصول کر کے خود نیا شیشہ لگواتیں۔ لڑکوں کا جیب خرچ بند کروا دیتی تھیں، یوں انہوں نے گلی میں کرکٹ ہی ختم کروا دی تھی۔ 
جمعہ کی نماز کے وقت وہ دروازے کھٹکھٹا کر سب لڑکوں کو مسجد بھیجتیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے پورے محلے کے بچوں کی ذمہ داری انہوں نے لے رکھی ہو۔جب ان کا انتقال ہوا، میں کراچی میں تھی۔ ان کی وصیت کے مطابق امی نے انہیں غسل دیا۔ چہرے پر ایسا نور تھا کہ آخری دیدار کرنے والے حیران رہ گئے۔ کچھ غریب عورتیں روتی پیٹتی ان کے گھر آئیں، تب پتا چلا کہ وہ خفیہ طور پر ان کی مدد کرتی تھیں۔وہ ایک ہاتھ سے دیتی تھیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی تھی۔آج وہ منوں مٹی تلے سو رہی ہیں۔ محلے کے لڑکے اب گلی میں کرکٹ کھیلتے ہیں، شیشے توڑتے ہیں، لڑکیاں چھتوں پر قہقہے لگاتی ہیں۔ مگر روکنے والا کوئی نہیں۔سلیم کی اماں جب رخصت ہوئیں، ان کا سرتاج پہلے ہی جا چکا تھا۔ بیوگی نے ان کا رعب، دبدبہ اور وقار سب چھین لیا تھا۔ آج مجھے اپنا محلہ خالی خالی لگ رہا ہے۔میں ان کا آخری دیدار کر کے بھاری دل کے ساتھ اپنے گھر واپس آ گئی۔
(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ