طلاق کی رات

Sublimegate Urdu stories

وہ ایک انتہائی تلخ رات تھی۔ جس نے دو معصوم زندگیوں اوران کی بے بس ماں کو  اذیت کے کنویں میں دھکیل دیا تھا۔ اس کا شوہر کمرے میں داخل ہوا۔ "ثانیہ، میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔ میں تمہارے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا۔" ندیم کے چہرے پر ایک فیصلہ کن کیفیت جھلک رہی تھی۔

"ندیم، خدا کے واسطے، ایسا نہ کہیں! بچوں کا کیا بنے گا؟" ثانیہ کی آواز آنسوؤں اور کرب میں ڈوبی ہوئی تھی، جیسے کہیں دور سے آتی ہو۔

ندیم مزید طیش میں آ کر بولا، "یہی تو تمہارا حربہ ہے! بچوں کی زنجیریں میرے پاؤں میں ڈال کر میری زندگی کو جہنم بنانا چاہتی ہو۔ تم میری آنے والی نسل کو برباد کر رہی ہو!" ندیم کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔ وہ ایسی باتیں کہہ رہا تھا جو شاید وہ اس وقت کہنا نہیں چاہتا تھا۔ "ثانیہ، ہماری شادی درحقیقت شادی نہیں تھی۔ یہ تمہارے ماں باپ کی سوچی سمجھی سازش تھی، ایک دھوکہ تھا، میری زندگی کے ساتھ کھلواڑ تھا! انہوں نے اپنی بیٹی کی خوشی کی خاطر میری زندگی میں زہر گھول دیا۔ ایک پیدائشی بیمار عورت کو میرے پلے باندھ دیا!" اس نے غصے میں اپنی روح پر مکا مارتے ہوئے کہا، "لیکن یاد رکھو، میں تمہیں اور تمہارے ماں باپ کو میری زندگی کے ساتھ مزید کھیلنے نہیں دوں گا۔ یہ سب اب میری برداشت سے باہر ہے!"

ثانیہ ہچکیوں سے رونے لگی۔ وہ بولنا چاہتی تھی، لیکن اس کی آواز نکل نہیں رہی تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل قالین پر بیٹھی تھی، اس کا چہرہ جھکا ہوا تھا، اور آنسو اس کے چہرے پر مسلسل بہہ رہے تھے۔

ندیم ایک بار پھر گرجا، "ہاں، یہ سب میری برداشت سے باہر ہے! اب وہ وقت آ گیا ہے جب ہمارے راستے جدا ہو جانے چاہئیں۔ تمہیں اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیے!" اس کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی۔

ان کی تین سالہ بیٹی ثمرین، جو واٹر روم کے نچلے خانے سے کھلونے نکالنے میں مصروف تھی، بظاہر اپنے آپ کو کھلونوں میں الجھائے ہوئے تھی۔ لیکن اس کے معصوم چہرے پر پریشانی اور کرب کے آثار نمایاں تھے، جو ظاہر کر رہے تھے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے مکمل طور پر متاثر تھی۔ دو ماہ کا بیٹا آیان بستر پر بے چین ہو کر رو رہا تھا، شاید اسے بھوک لگی تھی۔ اس کے ننھے بازو اور ٹانگیں مسلسل حرکت کر رہی تھیں۔

ندیم ثانیہ کے پاس بیٹھا، اسے شانوں سے پکڑ کر آتش ناک لہجے میں بولا، "اب جب تم ان بچوں کو لے کر اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھو گی، تب انہیں پتہ چلے گا کہ بیٹیوں کے گھر جھوٹ اور دھوکے سے آباد نہیں ہوتے۔ جھوٹ صرف برباد کرتا ہے!" وہ چلایا، "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں! طلاق دیتا ہوں!"

ثانیہ نے ہاتھ جوڑ لیے، "خدا کے لیے، ایسا نہ کہیں!" لیکن اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ندیم نے اسے زور سے پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا، "طلاق دیتا ہوں!"

ثانیہ جڑ سے اکھڑے درخت کی طرح قالین پر ڈھیر ہو گئی۔ اس کی ہچکیوں کی آواز اب باقاعدہ رونے میں بدل چکی تھی۔ اس کے رونے میں کرب، بے بسی، دہائی اور خوف سب شامل تھے۔ آیان کے رونے کی شدت بھی بڑھ گئی تھی۔

ندیم نے اپنا لیپ ٹاپ بیگ اٹھایا اور روتے ہوئے بچے کو نظر انداز کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔ مسلسل رونے سے آیان کے گلے میں پھندہ سا پڑ گیا تھا۔ ثانیہ اپنے اوپر ٹوٹنے والی قیامت کو وقتی طور پر بھول گئی۔ وہ فوراً اٹھی اور بچے کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی۔

ندیم پاؤں بھاگتا ہوا دروازے تک پہنچا، پھر رکا، واپس آیا اور ثانیہ کی طرف انگلی اٹھا کر غضب ناک آواز میں گرجا، "کان کھول کر سن لو! تمہارے پاس صرف کل کا دن ہے۔ جو کچھ اس گھر سے لینا ہے، لے لو اور نکل جاؤ۔ پرسوں جب میں واپس آؤں تو تمہاری یہ منہوس صورت یہاں نظر نہیں آنی چاہیے۔ اور ہاں، ان بچوں کو ابھی لے جاؤ، لیکن یہ بات اپنے دماغ میں اچھی طرح بٹھا لو کہ یہ میرے بچے ہیں، صرف میرے! وقت آنے پر میں انہیں لے جاؤں گا!" اس کی آواز جیسے زہریلی جنگ گاڑی تھی، جو پورے گھر میں گونج رہی تھی۔ پھر وہ طوفان کی طرح باہر نکل گیا۔

یہ وداع کی رات تھی۔ باہر بادل گرج رہے تھے، اور تیز ہوا سے کھڑکیاں اور دروازے لرز رہے تھے۔ ثانیہ ثمرین اور آیان کو اپنے ساتھ لگائے بیٹھی تھی، جیسے کوئی پرندہ اپنے بچوں کو پروں میں چھپا رہا ہو۔ اس نے اپنا سامان سمیٹ لیا تھا۔ سامان تھا ہی کتنا؟ اپنے اور بچوں کے کپڑوں کے چند جوڑے، ثمرین کی چند کتابیں اور کاپیاں، وہ چھوٹے چھوٹے تحفے جو گزشتہ برسوں میں ندیم نے اسے اور ثمرین کو دیے تھے، اور ایک بڑا فوٹو البم، جس میں پچھلے تین چار سال کی سنہری یادیں سمیٹی ہوئی تھیں۔ اس نے باقی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ دل ہی دل میں کہا، "ندیم، یہ تمہارا گھر ہے، یہ تمہاری چیزیں ہیں۔ میں تو ایک چند روزہ مہمان کی طرح یہاں آئی تھی اور اب جا رہی ہوں۔"

بادل زور سے گرجا۔ ثانیہ نے سسکی لے کر ثمرین اور آیان کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ وہ وہیں بیٹھے بیٹھے سو گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ماضی کی کھڑکی کھل گئی تھی، اور یادوں کے سلسلے دراز ہونے لگے تھے۔
***
ثانیہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کی پیدائش پر اس کے والد سرمد صاحب اور والدہ آسیہ بیگم بے حد خوش تھے، لیکن یہ خوشی زیادہ دیر نہ ٹھہری۔ پیدائش کے ڈیڑھ سے دو ماہ بعد ہی ثانیہ بیمار رہنے لگی۔ کئی ڈاکٹروں کے معائنوں اور ایک معروف لیبارٹری کی رپورٹس کے بعد پتہ چلا کہ وہ تھیلیسیمیا کی ایک قسم کا شکار ہے۔ ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ لہجے میں بتایا کہ باقاعدہ علاج اور پرہیز سے اس بیماری کو کافی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اور شاید مستقبل میں مکمل شفا بھی ممکن ہو۔

وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا۔ ثانیہ کی علاج معالجہ جاری رہا، اور وقتاً فوقتاً اسے خون بھی چڑھایا جاتا۔ آسیہ بیگم شروع میں بہت رنجیدہ رہیں، لیکن پھر انہوں نے خود کو ثانیہ کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کے لیے وقف کر دیا۔ ثانیہ اپنے والدین کی زندگی کا محور تھی۔ وہ اس کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی مسکراہٹ کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے۔ ڈاکٹروں کی محنت، والدین کی محبت، اور اللہ کی رحمت سے ثانیہ نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ اس کی بیماری کافی حد تک قابو میں تھی، اور کبھی کبھی وہ مہینوں تک خون کی ضرورت کے بغیر صحت مند زندگی گزارتی۔

ثانیہ اب یونیورسٹی کے سیکنڈ ایئر میں تھی۔ اس دوران سرمد صاحب اور آسیہ بیگم کے ذہنوں میں ایک فکر جڑ پکڑ رہی تھی—ثانیہ کی شادی۔ وہ اس کے لیے ایک ایسا رشتہ چاہتے تھے جو اسے معاشی اور معاشرتی سہارا دے، اس کے لیے سایہ بنے۔ ایک شام آسیہ بیگم نے سرمد صاحب سے بات کی۔ وہ ایک سپر سٹور پر ایک خاتون سے ملی تھیں، جو انہیں بہت مہربان اور ملنسار لگیں۔ انہوں نے ثانیہ کے لیے رشتے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ سرمد صاحب پہلے پرامید ہوئے، لیکن پھر انہوں نے فکر مندی سے کہا، "اسیہ، اگر انہیں ثانیہ کی بیماری کا پتہ چلا تو وہ فوراً پیچھے ہٹ جائیں گے۔" آسیہ بیگم نے اصرار کیا کہ ملاقات میں کوئی حرج نہیں۔ شاید یہ رشتہ قسمت سے مل رہا ہو۔

یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ سرمد صاحب اور آسیہ بیگم نے اخلاقی اصولوں کو نظرانداز کر دیا۔ انہوں نے لڑکے والوں سے ثانیہ کی بیماری کے بارے میں کچھ نہ بتایا، شاید یہ سوچ کر کہ وہ بتدریج ٹھیک ہو رہی ہے۔ رشتہ طے ہو گیا، لیکن ثانیہ کے دل میں ایک پھانس سی چبھ رہی تھی۔ اس نے شادی سے پہلے اپنے ہونے والے شوہر ندیم سے ایک ریستوران میں ملاقات کی اور اسے اپنی بیماری بتانے کی کوشش کی۔ "ندیم، میاں بیوی کے درمیان کوئی بات چھپی نہیں ہونی چاہیے۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ شادی سے پہلے سب جان لیں،" اس نے لرزتی آواز میں کہا۔ لیکن ندیم نے ماضی کی باتوں کو نظر انداز کرنے کی بات کی اور اسے خاموش کر دیا۔ "ماضی بس ماضی ہے۔ نہ میں تم سے کچھ پوچھوں گا، نہ تم مجھ سے پوچھو گی،" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ثانیہ اپنا ارادہ بتاتی بتاتی رہ گئی، اور حالات کی کشش نے اسے خاموش کر دیا۔

دسمبر کی ایک سرد شام کو ثانیہ اور ندیم کی شادی ہو گئی۔ شادی کے ایک ہفتے بعد ہی ثانیہ نے گھر کا کچن سنبھال لیا اور ندیم سے جڑی ہر ذمہ داری اٹھا لی۔ لیکن یہ خوشی عارضی تھی۔ شادی کے ایک ماہ بعد اس کی طبیعت بوجھل ہونے لگی۔ خون چڑھانے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ ایک روز شدید بے چینی میں اس نے والدہ سے فون پر بات کی اور فیصلہ کیا کہ اب ندیم کو سب بتانا ضروری ہے۔ ندیم کا ردعمل شدید تھا۔ وہ دکھی بھی تھا اور ناراض بھی۔ اس نے ثانیہ سے کہا کہ اسے دھوکہ دیا گیا۔ اس کے سسرال والوں نے بھی یہی سوچا کہ ثانیہ اور اس کے والدین نے سب کو دھوکے میں رکھا۔ سخت جملوں اور تلخ باتوں کے بعد ثانیہ روتی ہوئی اپنے میکے چلی گئی۔ تناؤ نے اس کی طبیعت مزید خراب کر دی، اور اسے ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ دو ہفتوں تک ہسپتال میں رہنے کے دوران سسرال سے کوئی رابطہ نہ ہوا، سوائے ندیم کے ایک مختصر فون کال کے۔

ہسپتال سے گھر آنے کے دو ہفتوں بعد ثانیہ کو معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہے۔ اس خبر نے اس کے دل میں امید کی کرن جگائی۔ اس نے اپنا دھیان اس ننھی جان کی طرف موڑ دیا۔ سسرال سے کوئی رابطہ نہ ہوا، لیکن وقت گزرتا رہا۔ بالآخر ثانیہ نے ایک خوبصورت بیٹی کو جنم دیا، جسے ثمرین کا نام دیا گیا۔ ثمرین صحت مند اور تندرست تھی، اور اس کی صورت میں ندیم کی جھلک نمایاں تھی۔ آسیہ بیگم نے امید ظاہر کی کہ یہ بچی ندیم کو واپس لے آئے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ندیم کے والد نے سرمد صاحب سے رابطہ کیا، اور چند دنوں بعد ندیم اپنی بیٹی اور ثانیہ کو واپس اپنے گھر لے گیا۔ گلے شکوے دور ہوئے، اور زندگی ایک بار پھر اپنی ڈگر پر چل پڑی۔

لیکن ثانیہ محسوس کرتی تھی کہ اس گھر میں اس کا رتبہ کم ہو گیا ہے۔ ندیم بھی کبھی کبھی بیگانہ سا لگتا۔ وہ اکثر اس دن کو کوستی جب وہ شادی سے پہلے ندیم کو اپنی بیماری نہ بتا سکی تھی۔ ندیم ایک کمپیوٹر پروگرامر تھا، اور اب اسے ایک اچھی نوکری مل گئی تھی۔ وہ گھر آ کر بھی رات گئے تک لیپ ٹاپ پر کام کرتا رہتا۔ ایک روز ثانیہ نے پوچھا، "ندیم، آپ گھر آ کر بھی اتنا کام کیوں کرتے ہیں؟" ندیم نے تلخ لہجے میں جواب دیا، "جب گھر کے خرچے ہوں، مستقل علاج کے اخراجات ہوں، تو بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔" اس کا اشارہ ثانیہ کے علاج کے اخراجات کی طرف تھا۔

ثانیہ کی صحت بتدریج بہتر ہو رہی تھی۔ وہ عام حالات میں صحت مند دکھائی دیتی، لیکن کبھی کبھار طبیعت بوجھل ہو جاتی، جو علاج سے ٹھیک ہو جاتی۔ ندیم جب بھی گھر آتا، ثمرین کو گود میں اٹھاتا، لیکن ثانیہ نے دیکھا کہ اس کے انداز میں وہ گرم جوشی نہیں تھی جو ایک باپ کے لیے فطری ہوتی ہے۔ ندیم ایک بیٹے کی خواہش رکھتا تھا، ایک تندرست وارث کی۔ ایک شام چائے پیتے ہوئے اس نے اداس لہجے میں کہا، "ثانیہ، مجھے ایک بیٹا چاہیے، جو ہماری نسل کو آگے بڑھائے۔" ثانیہ نے شرماتے ہوئے کہا، "اللہ نے چاہا تو آپ کی خواہش ضرور پوری ہو گی۔"

ندیم نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ اگر پہلا بچہ صحت مند ہے تو دوسرا بچہ بھی صحت مند ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ ثمرین کی پیدائش کے تین سال بعد ثانیہ نے ایک بیٹے، آیان، کو جنم دیا۔ بدقسمتی سے آیان اپنی ماں کی بیماری لے کر پیدا ہوا۔ وہ نہایت کمزور تھا، اس کی ٹانگیں دبلی پتلی، رنگت زرد، اور آنکھیں مسیح مچھی تھیں۔ سانس کی تکلیف نے اسے پیدائش سے ہی گھیر رکھا تھا۔

ندیم پر یہ خبر قیامت بن کر ٹوٹی۔ اس نے کئی دن ثانیہ سے بات نہ کی، نہ ہی آیان کو گود میں اٹھایا۔ اس کے گھر والوں نے بھی ثانیہ کو قصوروار ٹھہرایا۔ حالات تیزی سے بگڑتے چلے گئے۔ ندیم کا رویہ روز بروز سرد ہوتا گیا، اور پھر وہ رات آئی جب اس نے ثانیہ کو طلاق دے دی۔ "طلاق دیتا ہوں! طلاق دیتا ہوں! طلاق دیتا ہوں!" اس کی آواز گھر میں گونجتی رہی۔ ثانیہ جڑ سے اکھڑے درخت کی طرح قالین پر ڈھیر ہو گئی۔ یہ اس کی اس گھر میں آخری رات تھی۔ باہر بادل گرج رہے تھے، اور بارش کی بوندیں کھڑکیوں پر دستک دے رہی تھیں۔ ثمرین اس کی گود میں سوئی ہوئی تھی، اور آیان بیبی کارٹ میں۔ صبح ہونے میں زیادہ دیر نہ تھی، لیکن یہ صبح رات کی سی تاریکی لے کر آئی۔ یہ وداع کی صبح تھی۔

وقت گزرتا رہا۔ طلاق کے بعد ندیم لاہور سے کوئٹہ منتقل ہو گیا۔ اس کے والدین بھی اس کے ساتھ تھے۔ وہاں اسے ایک اچھی نوکری مل گئی، اور اس نے اپنا گھر بنا لیا۔ اس کی زندگی میں نائلہ آ گئی، جو اس کی یونیورسٹی کی ہم جماعت تھی۔ نائلہ کے والد کی وفات کے بعد حالات بدل گئے، اور دونوں کے درمیان قربت بڑھنے لگی۔ ایک سال بعد ان کی شادی ہو گئی۔ شادی کے ابتدائی مہینے اچھے گزرے، لیکن نائلہ کا اصل روپ جلد سامنے آ گیا۔ ایک خودمختار عورت کے طور پر وہ اپنی مرضی چلانا چاہتی تھی۔ اس کا خاندان معاشی طور پر ندیم کے خاندان سے مختلف تھا، اور یہ فرق ان کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنے لگا۔

یہ وہی ماضی تھا جسے ندیم نے ثانیہ سے چھپایا تھا، اور اس سے اپنا ماضی چھپانے کو کہا تھا۔ لیکن اب ثانیہ اور اس کے بچوں کی زندگی ایک نئے موڑ پر تھی، جہاں وہ اپنی جدوجہد اور امید کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔

نائلہ کے اندر روپے پیسے کی اضافی طلب بھی تھی۔ اسے ندیم کے گھر میں ہر طرح کی سہولت اور آسائش میسر تھی، مگر اس کی نگاہ آگے، مزید آگے کی طرف رہتی تھی۔ ندیم کے والدین کو اس نے بالکل بے بس اور مجبورکر دیا اور ندیم کو بھی ہر طرح جکڑنا شروع کر دیا۔ آئے دن گھر میں جھگڑے رہنے لگے۔ دو ڈھائی سال میں ہی ندیم ہائی بلڈ پریشر کا مریض بن گیا۔ اس کی نوکری بھی متاثر ہونے لگی۔ کسی وقت وہ نائلہ سے لڑ جھگڑ کر لیٹا ہوتا تو اسے چار برس پہلے کے شب و روز یاد آتے۔ لاہور کا گھر اور اس گھر میں مسکراتی ہوئی سی ایک صورت۔ اسے ثانیہ یاد آتی، اس کی خدمت اور محبت یاد آتی، اور وہ بے ساختہ اس جدا ہو جانے والی کا موازنہ اس عورت سے کرنے لگتا جو اب بیوی کی حیثیت سے اس گھر میں موجود تھی۔ اس کے دل کی گہرائیوں سے ایک آہ نکل کر رہ جاتی۔ وہ سوچتا، کاش یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا جو ہوا۔

اب اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ ثانیہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ جب اس نے ثانیہ کو طلاق دی تھی تو واضح طور پر کہا تھا کہ یہ اس کے بچے ہیں اور وہ ایک دن انہیں اپنے پاس لے آئے گا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ جہاں اور بہت کچھ بدلا تھا، یہ سوچ بھی بدل گئی تھی۔ شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل۔ اسے اب بچوں کی کوئی خاص طلب نہیں رہی تھی، خاص طور سے بیٹے کی یاد تو اسے کبھی بھول کر بھی نہیں آئی تھی۔ وہ جب بھی اس کے بارے میں سوچتا، اس کے ذہن میں گوشت کا ایک بیمار لوتھڑا آتا تھا، اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، زرد رنگ، دواؤں کی بو، لیبارٹریوں کی ٹیسٹ رپورٹس، خون کی بوتلیں، اور وہ سب کچھ جو دائمی مریضوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ بیٹی کی یاد بھی آہستہ آہستہ اس کے ذہن سے محو ہو گئی تھی۔

ندیم کے والد تو دو سال پہلے فوت ہو گئے تھے۔ والدہ روز روز کے گھریلو جھگڑوں کے سبب بیمار رہتی تھیں۔ شروع میں تو وہ پوتی کو یاد کرتی رہی تھیں، مگر اب انہیں اپنی بیماری سے لڑائی کے سوا باقی باتیں کم ہی یاد رہتی تھیں۔ یہ زبردست ذہنی تناؤ اور انتشار کی وجہ ہی تھی کہ ایک روز دفتر سے گھر آتے ہوئے ندیم اپنی مہران کار کا ایکسیڈنٹ کر بیٹھا۔ ایکسیڈنٹ شدید تھا، اس کی دونوں پنڈلیاں ٹوٹ گئیں، اور وہ ہسپتال میں جا پڑا۔ گھریلو جھگڑے اور معاشی حالات پہلے ہی ناک میں دم کیے ہوئے تھے، اب یہ حادثہ مرے کو مارے شاہ مدار کی مثل تھا۔

نائلہ نے جب دیکھا کہ شوہر بستر پر ہے تو اس نے مزید پرزے نکالے۔ ایک پلاٹ تو وہ لڑ جھگڑ کر پہلے ہی اپنے نام کرا چکی تھی۔ ایک کا اس نے مختار نامہ لے لیا تاکہ اسے بیچ کر ندیم کا علاج معالجہ کرایا جا سکے۔ بعد میں پتہ چلا کہ جو علاج معالجہ ہو رہا ہے، وہ گروی کے پیسوں سے ہو رہا ہے، اور پلاٹ کی رقم ہڑپ ہو چکی ہے۔ نائلہ نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر کسی طرح ندیم کے مکان کو گروی رکھ دیا تھا اور اس کے عوض کافی ساری رقم اکٹھی کر لی تھی۔ خود وہ ندیم کی بیمار والدہ کے ساتھ اپنے ہی گھر کے نچلے پورشن کے ایک کمرے میں بطور کرایہ دار رہائش رکھے ہوئے تھی۔

ہسپتال میں جب ندیم پر یہ راز فاش ہوا تو خوب جھگڑا ہوا۔ دو تین ہفتوں میں ہی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ علیحدگی کی باتیں ہونے لگیں۔ اسی دوران ندیم کی والدہ بھی وفات پا گئیں. اس نے بمشکل ڈیڑھ مہینہ انتظار کیا اور پھر ندیم سے خلع لے کر اپنے بھائی کے ساتھ دبئی سدھار گئی۔

ندیم کی زندگی کا ایک اور باب ختم ہو گیا۔ ندیم کی ٹانگوں کے زخم بگڑ چکے تھے، آرتھوپیڈک مسائل بڑھتے جا رہے تھے۔ وہ دو ہفتے گھر میں رہتا تو چار ہفتے ہسپتال میں گزارنا پڑتے۔ پہلے وہ مکان کی گروی چھڑانا چاہتا تھا، مگر اب یہ سوچ پنپ رہی تھی کہ مکان بیچ ہی ڈالے اور جو مزید رقم ملے، اس سے اپنی زندگی گاڑی چلانے اور اپنا علاج کرانے کی کوشش کرے۔ بالآخر مکان بیک گیا۔ اسے قریباً تیس لاکھ روپے ملے۔ شروع میں تو یہ معقول رقم لگتی تھی، لیکن ہسپتالوں میں جو لوگ بیٹھے ہیں، ان میں سے بھی اکثر نے بہت کند چھریاں پکڑ رکھی ہیں۔ بے رحمی سے ذبح کر ڈالتے ہیں۔ ایک سال کے اندر اندر ندیم کی آدھی سے زائد رقم ٹھکانے لگ گئی۔

اس نے مکمل تباہی سے بچنے کے لیے ایک اندرونی مارکیٹ میں ایک چھوٹی دکان کرائے پر لے لی اور وہاں کمپیوٹر ایسیسریز رکھ لیں۔ اس کی ٹانگوں کی حالت اب بہتر ہو رہی تھی اور وہ بیساکھی کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا، مگر بلڈ پریشر کی جو تکلیف اسے نائلہ سے گھریلو جھگڑوں کے دوران شروع ہوئی تھی، وہ بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔ یہ تکلیف اس کی آنکھوں اور گردوں پر بھی اثر کر رہی تھی۔ گرمیوں میں اکثر و بیشتر اسے گردوں کا پرابلم ہو جاتا تھا، اور کبھی کبھار اسے ہسپٹالائز بھی ہونا پڑتا تھا۔

زندگی کے ماہ و سال اڑتے چلے جا رہے تھے۔ دور و نزدیک ندیم کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ حلقہ احباب بھی بہت محدود تھا۔ وہ بس اپنی چھوٹی سی دکان یا پھر ہسپتال تک محدود ہو کر رہ گیا۔ وہ سب کچھ بھول گیا تھا—نائلہ اور اس کا لالچی بھائی، اپنے والدین، اپنی بیوی ثانیہ، ننھی ثمرین، اور بیمار گوشت کا وہ لوتھڑا جسے اس کے دادا نے آیان کا نام دیا تھا۔ ہاں، وہ سب کچھ بھول چکا تھا، لیکن کبھی کبھار وہ سوچتا تھا کہ اب وہ ثانیہ کی جھیل سی آنکھوں میں چھپی ہوئی محبت کو بھی بھول چکا ہے۔

وہ اگست ستمبر کے دن تھے۔ ندیم شدید بیمار ہو گیا۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق گردوں کا باقاعدہ ڈائیلاسز ہو رہا تھا، پھر بھی اس کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی۔ اس نے ابھی عمر کی پچپن بہاریں ہی دیکھی تھیں، لیکن وہ ستر برس کا لاغر بوڑھا نظر آنے لگا تھا۔ اس کے قریبی دکاندار دوست نثار نے اسے بڑی افراتفری میں ہسپتال پہنچایا۔ وہ اس وقت تقریباً بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ جب اسے ہوش آیا تو سرکاری ہسپتال کا ڈاکٹر اس کے سامنے کھڑا تھا اور ذرا سخت لہجے میں پوچھ رہا تھا، "بابا جی، آپ بول سکتے ہیں؟ بولنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے؟ آپ کے ساتھ کون ہے یہاں؟" ندیم نے دھندلائی ہوئی نگاہوں سے اردگرد دیکھا۔ کوئی نہیں تھا، دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

"بابا جی، آپ کی تکلیف بہت بڑھ چکی ہے۔ اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ آپ کو گردہ لگایا جائے۔ کیا آپ کے قریبی رشتہ داروں میں کوئی ایسا ہے جو آپ کو گردہ دے سکے؟" اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اسی دوران کہیں سے اس کا دکاندار دوست نثار بھی آ گیا۔ اس نے ندیم کا کمزور شانہ ہلاتے ہوئے کہا، "ندیم، ڈاکٹر صاحب تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں۔" ندیم نے دوبارہ آنکھیں کھولیں۔ دراز قد ڈاکٹر سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایک اور ڈاکٹر ہاتھ میں فائل لیے اس کے عقب میں کھڑا تھا۔ اس نے دراز قد ڈاکٹر سے کہا، "ڈاکٹر احمد، پچھلی مرتبہ بھی جب یہ ایڈمٹ ہوئے تھے تو ان کے ساتھ ان کے اس دوست کے سوا اور کوئی بھی نہیں تھا۔ اس وقت بھی ہم نے ان کو بتایا تھا کہ ان کا معاملہ اب کڈنی ٹرانسپلانٹیشن کی طرف جا رہا ہے۔"

ڈاکٹر احمد نے فائل کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ پستہ قد ڈاکٹر، سینیئر ڈاکٹر احمد کو معدب انداز میں بریفنگ دیتا چلا جا رہا تھا۔ دونوں کے چہروں پر ایک لاحق تعلق سی مایوسی دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر احمد دیگر ڈاکٹروں کے ساتھ دوسرے مریضوں کی طرف بڑھ گئے۔ وہ ندیم کی موٹی تگڑی میڈیکل فائل بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ نثار دکھی چہرہ لیے اپنے شدید بیمار دوست کے پاس بیٹھا رہا، اس سے دلجوئی کی باتیں کرتا رہا۔ اس نے بتایا کہ ڈاکٹر احمد اسود گرتے کے علاج میں چوٹی کا ڈاکٹر ہے۔ پچھلی مرتبہ بھی اس نے کہا تھا کہ اگر تمہارا کوئی عزیز تمہیں گردہ دے سکے تو وہ تمہیں دوبارہ سے کھڑا کر دے گا۔ ندیم نے کراہ کر کہا، "تم تو میری ہی طرح بوڑھے ہو۔ مجھے اور کون گردہ دے گا؟ اور مجھے اب گردے کی ضرورت بھی نہیں۔ میں تو اب سو جانا چاہتا ہوں، بہت لمبی نیند، بہت دیر تک کے لیے۔"

نثار نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ "ایسی باتیں مت کرو یار، ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے؟" ندیم کی کمر کی دونوں جانب شدید درد شروع ہو گیا۔ اسے یوں لگا جیسے زہر اس کے دماغ کو چڑھ رہا ہے۔ پھر وہ اپنے واحد سہارے نثار کا ہاتھ پکڑے پکڑے بے ہوش ہو گیا۔ یہ ایک طویل بے ہوشی تھی، جس میں کبھی کبھی نیم بے ہوشی اور بیداری کے وقفے بھی آتے تھے۔ کسی وقت وہ اپنے نتھنوں میں تیز دواؤں کی بو محسوس کرتا، کسی وقت اسے اپنے جسم میں انجیکشن لگنے کا احساس ہوتا، کسی وقت وہ دھندلی نظروں سے دیکھتا کہ نثار یا پھر سرخ و سفید چہرے والا ڈاکٹر احمد اس پر جھکا ہوا ہے۔ کسی وقت اسے ان کی آوازیں سنائی دیتیں۔ وہ کسی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا تھا، ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ اسے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔ اس کا کوئی نہیں تھا، اس کا اپنا کوئی نہیں تھا۔

وہ ایک خوشگوار سی شام تھی۔ پتہ نہیں کتنے گھنٹوں یا دنوں بعد ندیم مکمل ہوش میں آیا۔ وہ ہسپتال کے ہی ایک کمرے میں تھا۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ آسمان پر کون سی قوس نظر آ رہی تھی، شاید اگست کی تیز بارش کے بعد ابھی ابھی چمکیلی دھوپ نکلی تھی۔ اسے ڈرپس لگی ہوئی تھیں اور کمر کے گرد بھی کوئی بھاری پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ زندہ ہے یا پھر جاگتی آنکھوں سے زندگی کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس نے سامنے لگا کیلنڈر دیکھنے کے لیے اپنی آنکھیں کھولیں۔ غور سے دیکھا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ کم و بیش آٹھ روز کے بعد مکمل ہوش میں آیا ہے۔ ان آٹھ روز میں اس کے ساتھ کیا ہوتا رہا تھا؟

اسی دوران اسے کمرے کے دروازے پر نثار اور دراز قد ڈاکٹر احمد کی شکل نظر آئی۔ ڈاکٹر احمد تو اسے دور ہی سے دیکھ کر واپس چلا گیا، اور نثار اندر آ گیا۔ نثار کے ساتھ بازار کی چھوٹی سی یونین کے صدر افتخار بھائی بھی تھے۔ وہ دونوں ندیم کے سرہانے آ بیٹھے اور اس کا حال احوال پوچھنے لگے۔ افتخار بھائی کی زبانی یہ جان کر ندیم حیرت کے سمندر میں غرق ہو گیا کہ اس کے جسم میں سرجری کے بعد گردہ لگایا جا چکا ہے اور اب اس کی حالت تیزی سے بہتر ہو رہی ہے۔ "یہ کیسے ہوا؟ کہاں سے آیا کردہ؟" اس نے سوالیہ نظروں سے خاموش بیٹھے نثار کی طرف دیکھا۔

نثار نے کہا، "اللہ کے بعد یہ سب کچھ ڈاکٹر احمد کی مہربانی سے ہوا ہے۔ انہوں نے تم پر بہت زیادہ توجہ دی، ہر مرحلے میں تمہارے ساتھ رہے، تمہارے آپریشن میں شامل ہوئے، اور آپریشن کے بعد بھی دن رات تمہارا خیال رکھا۔" ندیم نے کراہ کر کہا، "یہ ان کی بڑی مہربانی ہے، لیکن میرے لیے گردہ دیا کس نے؟"

افتخار بھائی بولے، "اس سوال کا جواب بہت حیران کرنے والا ہے۔ یہ تو ہم نے سنا ہے کہ کسی سرجن نے بہت محنت اور توجہ سے کسی مریض کا علاج کیا، اپنی ساری صلاحیتیں اس کی سرجری پر صرف کر دیں، لیکن یہ کم ہی سنا ہوگا کہ اپنے مریض کا گردہ بدلنے والے سرجن نے اپنا گردہ بھی خود ہی دیا ہے۔" ندیم مجسم حیرت افتخار بھائی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ "گردہ بھی خود ہی دیا ہے؟" اس نے افتخار بھائی کے الفاظ دہرائے۔

"ہاں ندیم، ڈاکٹر احمد نے نہ صرف تمہارا علاج کیا بلکہ اپنا گردہ بھی دیا۔ تمہارے آپریشن کے وقت ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ خود آپریٹ کر سکتے، پھر بھی وہ سرجنوں کی اس چار رکنی ٹیم میں شامل رہے جو تمہیں آپریٹ کر رہی تھی۔"

"یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا!" اس سے پہلے کہ نثار یا افتخار بھائی جواب میں کچھ کہتے، خوبرو دراز قد ڈاکٹر احمد کمرے میں داخل ہوا۔ وہ قدرے مضمحل نظر آ رہا تھا، مگر چہرے پر ایک نورانی سی مسکراہٹ موجود تھی۔ ڈاکٹر کو آتے دیکھ کر نثار اور افتخار باہر نکل گئے۔ ڈاکٹر احمد ندیم کے بالکل پاس آ بیٹھا، اس کا ہاتھ اپنے دونوں ملائم ہاتھوں میں لیا اور نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا چلا گیا۔ کتنے ہی لمحے اسی جذب کی کیفیت میں گزر گئے۔ آخر ڈاکٹر احمد نے پھیری ہوئی آواز میں کہا، "میں نے آپ کا سوال سن لیا ہے۔ آپ جاننا چاہتے ہیں ناں کہ میں نے یہ سب کیوں کیا؟ میں نے یہ سب اس لیے کیا کہ میں آپ کا بیٹا ہوں۔ میری رگوں میں آپ کا لہو دوڑتا ہے۔ مجھے ڈاکٹر احمد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، لیکن میرا پورا نام آیان احمد ہے، اور یہ نام میری ماں اور دادا نے مل کر رکھا تھا۔"

الفاظ دھماکوں کی طرح ندیم کے سر میں گونجے۔ اس کی نگاہ تو ڈاکٹر احمد کے خوبرو چہرے پر مرکوز رہی، مگر ذہن برسوں اور زمانوں کا فاصلہ طے کرتا ہوا بیمار گوشت کے اس لوتھڑے تک پہنچ گیا جو کبھی کبھی اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھا کرتا تھا، اپنے کمزور بازو چلاتا تھا، اور کبھی بڑی بےچارگی سے اس کا دامن پکڑنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہی کمزور، ناتواں سا بیمار جسم اب ایک جواں قد اور شخص بن چکا تھا—ایک وجیہہ ڈاکٹر، ایک ایسا مسیحا جو مایوس مریضوں کے لیے نئی زندگی کا پیغام تھا۔ وہ نہ صرف خود اپنی ناتوانی اور بیماری سے ابھرا تھا بلکہ اب پڑھ لکھ کر ایک نہایت قابل کڈنی سرجن بن چکا تھا، اور یہ ایک ایسا کڈنی سرجن تھا جس نے اپنا ہنر ہی نہیں دیا بلکہ اپنا گردہ بھی اس کے جسم کا حصہ بنا دیا تھا۔ یہ سب کچھ ناقابل یقین تھا، لیکن یہ ہو چکا تھا۔
ڈاکٹر احمد اس کا ہاتھ تھام کر عجب اشکبار لہجے میں بولا، "آپ میرے باپ ہیں۔ میں آپ کا بیٹا ہوں۔ میں تو آپ کا تھا، ابو۔ بے شک کمزور اور بیمار تھا، لیکن تھا تو آپ کا۔ ہم سب آپ کے تھے۔ باجی ثمرین، ماما، ہم سب آپ کے تھے۔ آپ ہمیں کیوں چھوڑ گئے تھے؟ آپ کو کیا پتہ ہم نے آپ کو کتنا یاد کیا، آپ کے لیے کتنا روئے؟" وہ بولتا چلا جا رہا تھا، اور ندیم حیرت سے گنگ یہ سب کچھ سن رہا تھا۔

یہی وقت تھا جب کمرے کا دروازہ کھلا اور قریباً تیس سال کی ایک جواں سال عورت اندر داخل ہوئی۔ سرخ و سفید گول چہرہ، دمکتی پیشانی، اس کے ساتھ دو پیارے پیارے بچے تھے۔ ایک قریباً پانچ سال کا، دوسرا تین سال کے لگ بھگ۔ ندیم کا دل یکبارگی بے طرح دھڑک اٹھا۔ یہ اس کی ننھی ثمرین تھی۔ آخری مرتبہ اس منہوس اندھیری رات میں ندیم نے اسے دیکھا تھا جب اس نے اپنے منہ سے طلاق کے زہریلے، بے رحم الفاظ نکالے تھے۔ وہ وہاں ڈوب کے قریب اپنے کھلونوں میں مگن رہنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی، مگر اس کا معصوم سا چہرہ بے پناہ غم کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ آج وہ کم و بیش چھبیس، ستائیس سال بعد پھر اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ روتی ہوئی آگے بڑھی۔ ندیم نے اسے لیٹے لیٹے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور سسکیاں لینے لگا۔

اگلے چند گھنٹوں میں ندیم پر کئی انکشافات ہوئے۔ ڈاکٹر آیان احمد کو ندیم کے بارے میں شبہ اس وقت ہوا جب اس نے ندیم کی میڈیکل فائل تفصیل سے پڑھی اور اس کی ہسٹری دیکھی۔ اپنے دادا یعنی ندیم کے والد کا نام اور ندیم کے پیشے کے بارے میں پڑھ کر آیان کی چھٹی حس جاگ اٹھی۔ اس نے اگلے دو تین دنوں میں تیزی سے معلومات اکٹھی کیں اور پتہ چلا کہ سرکاری ہسپتال کے کڈنی وارڈ میں پڑا وہ لاغر، لاوارث بوڑھا کوئی اور نہیں، اس کا باپ ہے۔ وہی شخص جس کی یادیں آیان، اس کی بہن ثمرین، اور ان کی ماں ثانیہ نے سچے موتیوں کی طرح سنبھال رکھی تھیں۔
اس کے بعد جو ہوا، وہ ہر دیکھنے اور سننے والے کو حیران کر دینے والا تھا۔ ایک جواں سال، معروف کڈنی سرجن نے اپنا ایک گردہ اپنے مریض کو عطیہ کیا، اور وہ مریض کوئی اور نہیں، اس کا اپنا باپ تھا۔ چند دن بعد ندیم اپنے بیٹے آیان اور بیٹی ثمرین کے ساتھ اپنی بچھڑی ہوئی شریکِ حیات ثانیہ سے ملنے روانہ ہوا۔ ڈاکٹر آیان نے اپنی ہونڈا ایکارڈ قبرستان کے مین گیٹ کے سامنے روکی۔ زخمی دلوں اور برساتی آنکھوں کے ساتھ وہ تینوں شہرِ خاموشاں میں داخل ہوئے۔

یہاں وہ ہستی ابدی نیند سو رہی تھی جس نے حالات کی ستم ظریفی سے طلاق جیسا گہرا زخم اپنے سینے پر سہا، اپنے بچوں کو لے کر در بدر کی ٹھوکریں کھائیں، اپنی بیماری سے لڑتی رہی، اپنے بچے کی بیماری سے مقابلہ کیا، اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ہرکارِ دشوار برداشت کیا۔ والدین کی وفات کے بعد بھی وہ حالات کے کوہِ گراں سے ٹکراتی رہی۔ ثانیہ نے بہت بڑے کارنامے سرانجام دیے، لیکن سب سے عظیم کارنامہ یہ تھا کہ اس نے ایک کمزور، بیمار بچے کو اپنے خون و پسینے سے سینچ کر پالا، اسے تھیلیسیمیا جیسی بیماری سے نکالا، اور ایک کامیاب، نیک نام انسان بنایا۔ ایک ایسا بیٹا جو وقت پڑنے پر اپنے باپ کے لیے اپنی جان بھی دے سکتا تھا۔

ثانیہ کی قبر پر پہنچ کر ندیم کا سارا جسم لرز اٹھا۔ وہ کتبہ پڑھتا رہا۔ تین سال پہلے وہ مٹی کے نیچے جا سوئی تھی، اب وہ واپس نہیں آ سکتی تھی۔ وہ لاکھ پکارتا، مگر اب اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس کے کانوں میں ثانیہ کی آوازیں گونجنے لگیں: “اللہ کا واسطہ ہے ندیم، ایسی باتیں مت کریں! بچوں کا کیا بنے گا؟” اور اس کے اپنے زہریلے الفاظ: “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں! طلاق دیتا ہوں!” وہ قبر پر سر ٹکا کر بیٹھ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ پتہ نہیں وہ کتنی دیر اسی حال میں رہا۔ ایک گھنٹہ، دو گھنٹے، یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ اسے لگا جیسے اس کے جسم کا سارا پانی آنسوؤں کی صورت بہہ گیا۔ اسے اٹھانے کی کوشش کی گئی، مگر وہ وہیں رہا، پھر نیم بے ہوش ہو گیا۔
اگلے روز جب اس نے اپنے بیٹے کے گھر کے ایک کمرے میں آنکھیں کھولیں، وہ اکیلا نہ تھا۔ اس کے اردگرد اس کی بیٹی ثمرین، اس کے تین بچے، اس کا بیٹا ڈاکٹر آیان، اس کے دو بچے، اور اس کی نیک سیرت بہو موجود تھیں۔ بس وہی نہیں تھی جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ یکدم اس کا دل ڈوبنے لگا۔ کیا وہ اب ثانیہ کو کبھی نہ دیکھ پائے گا؟ لیکن اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کے درمیان چند گھنٹے گزارنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ ثانیہ یہیں موجود ہے۔ کسی بچے کے چہرے پر اس کے ہونٹ جھلکتے تھے، کسی کی آنکھوں میں اس کی گہری سیاہ پتلیاں، کسی کے سر پر اس کے لہراتی بال، کسی کی پیشانی میں اس کی چمک، اور کسی کے گلے میں اس کی ہنسی گونجتی تھی۔ ہاں، وہ اپنے بچوں میں زندہ تھی، اس کے آس پاس تھی۔ ندیم اسے محسوس کر سکتا تھا۔ ایک عجیب آسودگی کی کیفیت میں اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اسے لگا کہ ابھی کچھ دن اور جیا جا سکتا ہے۔