اگر ہو سکے تو ویڈیو کا پلے بٹن ضرور دبائیں اور آواز بند کر لیں۔ آپ کے تعاون کا شکریہ
👇👇
ابو ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے۔ عام سی تنخواہ تھی، مکان بھی کرائے کا تھا۔ ہم چھوٹے ہی تھے جب ابو ریٹائر ہو گئے۔ اُس وقت میں نے آٹھویں جماعت کا امتحان دیا تھا۔ اچانک گھر کے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے، جبکہ سہیل بھائی تعلیم کے لیے امریکہ جا چکے تھے۔ وہ کچھ کماتے نہیں تھے بلکہ امی ابو کے محتاج تھے۔ نعیم بھائی اور شکیب بھائی نے بی ایس سی مکمل کرنے کے بعد سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے کچھ ٹیکنیکل قسم کے ڈپلوما کورس بھی کیے ہوئے تھے۔
ہمارے گھریلو حالات کا تقاضا یہی تھا کہ وہ دونوں مالی طور پر معاون بنیں، اور اُنہوں نے یہی کیا۔ باجی فریحہ نے بی ایس سی کیا تھا، اور میں اُس وقت انٹر میں تھی۔ تب ہی باجی کے رشتے آنے لگے۔ دونوں بھائی سعودی عرب میں تھے اور والدین کو نہ صرف خرچ بھیجتے بلکہ اپنی جمع پونجی بھی اُن کے پاس بھیج دیتے تھے تاکہ اُن کی محنت کی کمائی محفوظ رہے۔ اُنہیں کیا خبر تھی کہ والدین دور اندیشی کی بجائے وہ رقم دیگر بچوں کی فرمائشیں پوری کرنے میں خرچ کر رہے ہیں۔ مگر والدین ہمیشہ یہی کہتے کہ تمہاری رقم ہمارے پاس محفوظ ہے۔
باجی کا ایک جگہ رشتہ طے ہو گیا، مگر سسرال والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ تھا۔ امی نے فوراً اُن کا مطالبہ مان لیا۔ اُن کا خیال تھا کہ خوشحال گھرانوں کے رشتے مشکل سے ملتے ہیں، اور کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ چنانچہ دونوں بھائیوں کی کمائی سے اُن لالچی لوگوں کی مانگی گئی ہر چیز پوری کر کے باجی کو بیاہ دیا گیا۔امی کو لگا کہ بیٹی سسرال میں عزت پائے گی، مگر معاملہ الٹا ہو گیا۔ سسرال والے مزید تنگ کرنے لگے۔ باجی نئی دلہن تھیں، خوشی کی جگہ پریشانی سے سابقہ پڑا۔ نجات کی ایک صورت یہ سمجھی گئی کہ شوہر اور ساس کو مہربان بنانے کے لیے تعویذ کروائے جائیں۔
آپ کو تو معلوم ہے، جو اس راہ پر چل نکلے، اُسے جعلی پیروں اور لالچی عاملوں کے چنگل میں پھنسنا ہی ہوتا ہے۔باجی اور امی نے مل کر ان پیروں اور عاملوں پر ہزاروں روپے لٹا دیے، مگر سکون کے بجائے پریشانی مزید بڑھ گئی۔ انہی دنوں نعیم بھائی اور شکیب بھائی کا ویزا ختم ہو گیا اور وہ پاکستان واپس آ گئے۔اب والدہ پریشان ہیں۔ بیٹوں نے اپنی جمع شدہ پونجی واپس مانگی ہے، تو کیا جواب دیں گی؟ وہ تو وہ ساری رقم بے حساب خرچ کر چکی ہیں، اور اوپر سے دونوں بیٹے اب ملازمتیں بھی چھوڑ چکے ہیں۔
بھائیوں نے یہاں کاروبار شروع کرنے کا سوچا، مگر سرمایہ کہاں تھا؟ جب امی نے بتایا کہ وہ رقم تمہاری بہن کی شادی پر خرچ ہو چکی ہے، تو وہ بھونچکے رہ گئے۔ خیر، سوائے صبر کے اور کیا چارہ تھا۔ وقت کو تو گزرنا ہی تھا، سو گزرنے لگا۔ باجی کی شادی کو چار سال ہو چکے تھے۔ ان کے ہاں تین بیٹیاں ہوئیں۔ وہ دن رات آہیں بھرتیں کہ کاش ایک بیٹا ہو جاتا۔ مگر قدرت کے آگے کس کی چلی ہے؟ وہ جسے چاہے مرادوں کے پھول عطا کرے، اور جسے چاہے حسرتوں کے کانٹے۔ انہی دنوں میرے دونوں بھائیوں کی منگنیاں ہو گئیں، اور سہیل بھائی نے بھی امریکہ میں اپنی محنت سے مقام بنا لیا۔
اُن کی محنت رنگ لے آئی۔ انہوں نے دونوں چھوٹے بھائیوں عزیر اور فرقان سمیت مجھے بھی امریکہ بلا لیا اور ہمارے لیے نوکریوں کی کوشش کی۔ یوں ہم تینوں بھی وہاں کمائی کرنے لگے۔ امی ابو کو ہم باقاعدگی سے رقم بھیجنے لگے۔ نعیم بھائی کی منگیتر کا نام دلشاد تھا اور شکیب کی منگیتر کا نام نتاشا۔ یہ دونوں امی کی سہیلیوں کی بیٹیاں تھیں، اسی لیے امی کو پسند تھیں۔ مگر ایک دن نعیم بھائی کا امی ابو سے جھگڑا ہو گیا، جب انہوں نے اپنی اُس جمع شدہ رقم کا تقاضا کیا جو وہ سعودی عرب سے بھیجتے رہے تھے۔ امی نے یہ بات باجی فریحہ کو بتا دی۔ فریحہ باجی نے امی سے کہا کہ ہو نہ ہو، یقیناً یہ باتیں نتاشا ہی نعیم کو سکھاتی ہوگی۔ وہ امی کے کانوں میں بار بار کہنے لگیں کہ اماں، آپ نے نوٹ کیا ہے؟ جب سے نعیم کی منگنی ہوئی ہے، وہ کتنا بدل گیا ہے۔
امی کے ذہن میں باجی نے نتاشا کا ایسا نقشہ بٹھا دیا کہ وہ اُسے اپنا دشمن سمجھنے لگیں۔ صرف امی ابو ہی نہیں، سارا گھر ہی اُس غریب لڑکی کے خلاف ہو گیا۔ مگر نعیم بھائی کچھ سوچ کر خاموش تھے۔ سب نے چاہا کہ وہ اس لڑکی سے شادی نہ کریں، مگر وہ ڈٹ گئے اور کہا کہ جیسی بھی ہے، میں شادی اسی سے کروں گا۔ شادی کے بعد گھر کا ماحول مزید خراب ہو گیا۔ دلشاد کو بھائی کی طرف سے پیار ملا تو امی اُس کی بلائیں لیتیں، لیکن نتاشا کو برا بھلا کہنے لگیں۔ شروع میں نتاشا چپ چاپ سب کچھ برداشت کرتی رہی۔ جب وہ امید سے ہوئیں، تو بھائی نے بیوی کا زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا، جس سے سسرال والے اور بھی بیزار اور حسد میں مبتلا ہو گئے۔
نتاشا بھابی کے چاند سا بیٹا ہوا، فریحہ باجی کے تو جیسے آگ ہی لگ گئی۔ جہاں سب خوش تھے وہاں وہ آگ کی لپیٹ میں تھیں کہ ہائے اللہ میرے تین لڑکیاں اور بھائی کی پہلی اولاد وہ بھی لڑکا خیر جو اللہ کی مرضی بندہ کیا کر سکتا ہے سوائے ٹھنڈی آہیں بھرنے کے۔ امی ابو میرے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ نعیم بھیا کا بھی ویزا لگ گیا۔ یہ سب امریکہ جانے لگے تو نتاشا کو بھائی نے سمجھایا کہ مجھے مت روکو۔ انشاء اللہ میں جلد ہی تم کو وہاں بلوالوں گا۔ بھائی نے صبر سے کام لیا۔ ساس سسر کے ساتھ شوہر کو بھی خوش دلی سے خدا حافظ کہا۔ شاید وہ اچھے مستقبل کی خاطر یہ داغ جدائی برداشت کر گئیں ۔
شکیب بھائی، دلشاد بھائی اور نتاشا بھابی کے علاوہ ہماری ساری فیملی امریکہ آ گئی۔ یہاں آ کر آکرامی کو فون پر اطلاع ملی کہ نتاشا پھر سے حاملہ ہے۔ اب اپنے بچوں کے لیے نعیم بھائی کچھ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ میرے بھائی مجھے کچھ کاروبار کرا دیں تاکہ تھوڑا تھوڑا کر کے ان کی رقم اتار سکوں، مگر باجی شاید کچھ اور ہی سوچ رہی تھیں۔ میں نے بھائی کو جیولری کی دکان کرا دی۔ اس بات پر بہت ہنگامہ ہوا اور باجی نے کہا کہ تم نے نتاشا کے لیے آرام کا سامان فراہم کیا ہے۔امی اور باجی کے کہنے پر آکر دلشاد بھائی اور نتاشا کو بہت پریشان کرنے لگے۔ یہاں نیو جرسی میں نعیم بھائی کی بڑی بہنوئی کے ساتھ نوک جھونک ہوئی، جو بعد میں دوستی میں بدل گئی، مگر فریحہ باجی نے اس بات کو دل میں بٹھا لیا اور اپنے بھائی سے بدلہ لینے کا ارادہ کر لیا، اور امی نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
نتاشا کے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیا گیا کہ بات بڑھ گئی، یہاں تک کہ جو لوگ نتاشا کو جانتے بھی نہیں تھے، وہ بھی ان کے خلاف بولنے لگے۔ بھائی سے کہا جانے لگا کہ انہیں طلاق دے دو۔ میرے بھائی یہاں سے پریشان ہو کر پاکستان واپس آ گئے۔ میرے والدین اور باجی کو بھائی کا اپنی بیوی کے پاس جانا برا لگا اور انہوں نے نعیم بھائی سے قطع تعلق کر لیا۔کچھ دنوں بعد بڑے بھائی سہیل کی شادی ہو گئی، جنہیں ہم سب پیار سے سہانے بھیا کہتے تھے۔ ان کی بیگم باجی کو زیادہ منہ نہیں لگاتی تھیں۔ یہ بات انہیں بے حد گراں گزری۔ جب بڑے بھیا سے شکایت کی گئی تو انہوں نے الٹا باجی کو منہ توڑ جواب دیا، یوں ان کی اور باجی کی ان بن ہوگئی۔ بہن نے بھائی سے قطع تعلق کر لیا اور امی نے اتنا برا منایا کہ بیٹے کو جائیداد اور ہر چیز سے عاق کر دیا۔ اس کے باوجود باجی کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔
جب وہ ملنے آتے، باجی کی شہ پر سب ان سے ملنے سے گریز کرتے اور وہ بری طرح دھتکارے جاتے۔ امی ابوالبتہ دونوں بیٹوں کو کھو کر پچھتاتی اور بہت روتی تھیں، مگر میری باجی کی سازشیں کامیاب رہیں۔ انہوں نے بدلے کی آڑ میں بہت ظلم کیے اور سگے والدین کو ان کے جواں سال بیٹوں سے جدا کر دیا۔کہتے ہیں جو دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ برا کرتے ہیں، خدا ان کے ساتھ ضرور برا کرتا ہے، کیونکہ اچھے عمل کا اچھا اور برے عمل کا برا پھل ملتا ہے۔ باجی کی بیٹیوں نے آزاد ماحول میں پرورش پائی، لہٰذا ان کے خیالات وہ نہ رہے جو کسی مشرقی بیٹی کے ہونے چاہئیں۔ خاص طور پر بڑی بیٹی جمالہ تو بے حد لاپرواہ تھی۔ وہ جس قدر حسین تھی، اسی قدر شوخ اور متلون مزاج بھی تھی۔
جن دنوں وہ آٹھویں میں تھی، اس کی دوستیاں لڑکوں سے بڑھ گئیں۔ انہی میں قابل ذکر اس کا دوست پریم تھا جو دوسرے ملک کا باشندہ تھا اور اس کا مذہب بھی دوسرا تھا مگر جمالہ کو کب ان چیزوں کی پروا تھی، اس کو بس اپنی دوستی کا خیال تھا۔ماں باپ نے کئی بار روکا، خالہ، ماموں نے بھی سمجھایا کہ اتنی آزادی اچھی نہیں ہے، کچھ اپنی روایات کا بھی خیال ہونا چاہیے، مگر اس لڑکی کے سر میں تو سودا سما ہوا تھا۔ آگے پیچھے دیکھ کر چلنا بھی اپنی تو ہین جانتی تھی۔وہ پریم کے عشق میں گرفتار تھی اور اس کے چکر میں رہنے لگی۔ اس کے ساتھ گھومنے لگی، پریم کا گھر زیادہ دور نہیں تھا، دونوں کی محبت روز بہ روز والہانہ پن کی طرف بڑھ رہی تھی۔ فریحہ بیٹی کو دبے لفظوں میں روکتی اور شوہر سے اس کی حرکتوں کو چھپاتی تھی۔اگر ہم مذہب ہوتے تو شاید ماں بھی نہ روکتی کہ “امریکہ میں لڑکیاں اپنی مرضی کرتی ہیں، ان کو روک ٹوک کم ہوتی ہے اور جیسا بھی داماد ہو قبول کر لیا جاتا ہے” مگر اب یہ امر محال تھا، جبکہ جمالہ اور پریم نے آئندہ کے لیے ساتھ نباہنے کی
قسمیں کھائی تھیں اور پریم نے اس سے شادی کرنے کا وعدہ کر لیا تھا۔
کچھ عرصہ یہ معاملہ چھپا رہا، بالآخر سب کو خبر ہو گئی تو جمالہ کے والد نے اس کا پریم سے ملنا بند کر دیا، اس پر وہ بغاوت پر اترنے لگی تو ان لوگوں نے عافیت اس میں جانی کہ فی الحال خاموش ہو جائیں اور منصوبہ بندی سے اس معاملے کو سلجھائیں۔ فریحہ نے پریم کے والدین سے جا کر بات کی کہ لڑکا ہمارے مذہب کو قبول کر لے، ورنہ میری بیٹی کا خیال چھوڑ دے کیونکہ ہم لوگ بیٹیوں کی شادیاں غیر مذہب میں نہیں کر سکتے۔ پریم کے والد نے معذرت کر لی کہ وہ بھی مسلمان لڑکی کو بطور بہو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے، لہٰذا وہ ان دونوں کو جدا کرنے میں پورا پورا ساتھ دے گا۔ پریم کے والدین سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کچھ دنوں کے لیے بھارت چلے گئے۔ پریم کو بھی ساتھ جانا پڑا۔ اس کے جاتے ہی باجی اور بہنوئی نے بھی رخت سفر باندھا اور کچھ دنوں کے لیے وطن آگئے۔
امریکہ میں والدین اولاد پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے مگر یہ اپنا وطن تھا، ساری برادری کا ساتھ بھی تھا۔ پس فریحہ کے خاوند ارشاد بھائی نے کسی کو نہ بتایا، چپکے سے جمالہ کا رشتہ اپنی بہن کے بیٹے سے کر دیا جس کو امریکہ جانے کا از حد ارمان تھا۔اس نے بڑی خوشی سے جمالہ کو قبول کیا۔ پھوپھی بھی پھولے نہیں سما رہی تھی کہ امریکن لڑکی اس کی بہو بنے گا تو بیٹے کی قسمت سنور جائے گی، کسی کو خبر نہ تھی کہ جمالہ کا دل تو پریم کی مٹھی میں ہے۔کسی نے اس کے انکار کی پروا نہیں کی۔ مقررہ تاریخ پر بس چار آدمی آئے اور نکاح ہو گیا۔ باپ نے بیٹی اور داماد کو گاڑی میں بٹھایا اور اس کے پھوپھی کے گھر پہنچا دیا۔ اس کو دلہن بھی نہیں بنایا گیا اور نہ مایوں وغیرہ کی رسم ہوئی۔ بہن کو ارشاد بھائی نے سمجھا دیا تھا کہ لڑکی امریکہ سے آئی ہے، وہ ان رسموں سے آشنا نہیں ہے، چڑ جائے گی۔ گھر لے جا کر دلہن بنا لینا اور رسومات بھی ادا کر لینا۔
ادھر جمالہ کو پتہ نہ تھا کہ وہ اپنی بھول کو اب چھپا نہ پائے گی کیونکہ پریم کی قربت نے اسے غلط حالات سے دوچار کر دیا تھا۔ تاہم جب وہ پھر بھی کے گھر آئی تو اس کی پھوپھی نے سمجھداری سے کام لیا اور دو تین دن اسے اپنے کمرے میں رکھا تاکہ وہ گھر اور اس کے مکینوں سے مانوس ہو سکے اور یہ نہ سمجھے کہ اس کے ساتھ زبردستی ہو رہی ہے۔ جب وہ پھوپھی کے ساتھ سو رہی تھی تو اس جہاندیدہ عورت نے بھانپ لیا کہ اس لڑکی کا معاملہ مختلف ہے اور یہ کٹھن حالات سے دوچار ہونے والی ہے۔ اس نے بیٹے کو سمجھایا کہ یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے، لہٰذا اب ان کی لاج رکھنی ہے جو تمہارے ہاتھ میں ہے، اور تمہیں ہر صورت امریکہ جانا ہے، جمالہ کو قبول کر لو اور اپنا مستقبل بناؤ جو اسی صورت ممکن ہے۔ یہ ایک کٹھن آزمائش تھی۔
رفیع نے ماں سے کہا کہ آپ نے کیوں ایسی لڑکی میرے پلے باندھ دی ہے جو پاکدامن نہیں ہے، میرا کیا قصور تھا ماں؟ آخر آپ نے ایسا کیوں کیا؟ اگر بھائی کی خاطر ایسا کیا ہے تو آپ کو اپنا بھائی بیٹے سے بھی زیادہ پیارا ہونا چاہیے۔ ماں نے کہا کہ مجھے خود علم نہ تھا مگر اب جبکہ دو تین روز سے جمالہ میرے پاس ہے مجھے لگتا ہے کہ جمالہ مشکل میں پڑنے والی ہے۔ شک ہوا تھا مگر خود جمالہ کو بھی اپنے ساتھ درپیش مشکل حالات کا علم نہیں ہے۔ اس شک کی تصدیق یوں ہوئی کہ تم کچھ دن اور اس سے دور رہو۔ ماں کے سمجھانے بجھانے سے رفیع خاموش ہو گیا۔ جمالہ سے شادی کے بعد وہ جتنا خوش تھا، اب اسی قدر گھٹ کر رہ گیا تھا۔ بات چیت ہوتی تو رفیع اس سے یہ پوچھنے کی کوشش ضرور کرتا تھا کہ کیا تم کسی سے محبت کرتی تھیں؟ جمالہ باپ کے ڈر سے نہ بتاتی اور خاموش ہو جاتی۔
آخر کار والدین اسے سسرال چھوڑ کر واپس امریکہ چلے گئے اور وہاں جا کر فون پر اطلاع دی کہ آپ لوگوں کے یہاں آنے کے انتظامات کر رہے ہیں، جلد آپ لوگوں کو بلا لیں گے۔ اب جمالہ پاکستان رہنے پر مجبور تھی، پھوپھی نے کافی پیار دیا اور رفیع نے بھی نہ ستایا، لہٰذا وہ باپ کے وعدے کا اعتبار کرتے ہوئے رہ گئی مگر اب اس کی طبیعت خراب ہونے لگی اور آخر کار پھوپھی اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی، جس نے انکشاف کیا کہ جمالہ چھ ماہ بعد بچے کی ماں بنے گی۔ یہ حقیقت جانتے ہی وہ رونے لگی۔ اس کی پھوپھی نے تسلی دی کہ رو نہیں، میں تمہارا ساتھ دوں گی، انسان سے نوجوانی میں بھول ہو جاتی ہے، شکر کرو کہ اللہ نے تمہارا پردہ رکھ لیا ہے۔ وہ پھوپھی کی تو شکر گزار تھی مگر اب شوہر سے آنکھ نہیں ملا پاتی تھی، اس کے سامنے نہ جاتی تھی، کس منہ سے جاتی؟ کسی اور کا بوجھ اٹھا کر کسی اور کے گھر کی مالکن بن جانا کس قدر تکلیف دہ بات تھی۔ چھ ماہ بعد جب اس نے بیٹے کو جنم دیا تو پھر پھوپھی نے اس کے والد کو اطلاع دی کہ آؤ اور آ کر اپنی بیٹی لے جاؤ کیونکہ رفیع نے اسے اپنانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
اب جمالہ کا برا حال تھا۔ ایک تو اس کی حالت خراب تھی، پھر وہ پریم کا تحفہ لے کر کہاں جاتی؟ اس کے والد کا فون آیا کہ میری بیٹی کو واپس بھیج دو مگر معاملہ بچے کا پیچیدہ تھا۔ وہ شوہر کے گھر سے ماں کی خالہ کے گھر پہنچا دی گئی جو پاکستان میں ہی رہتی تھی۔ خالہ کے گھر وہ بیمار پڑ گئی تو خالہ نے جمالہ کی ساس کو فون کیا کہ آپ اپنی امانت لے جائیے، میں عمر بھر انہیں نہیں رکھ سکتی۔ خالہ جی نے رفیع سے رابطہ کیا اور انسانیت کا واسطہ دیا تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں جمالہ کو رکھ لیتا ہوں مگر بچہ کسی صورت قبول نہیں، اگر یہ بچہ چھوڑ کر آسکتی ہے تو میں اسے معاف کر دوں گا۔جمالہ نے بچہ ہماری خالہ کے سپرد کیا اور خود پھوپھی کے گھر چلی گئی۔ چار ماہ اس کے بچے کو خالہ نے سنبھالا، مگر ماں کے بغیر وہ نہ جی سکا اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔اب جمالہ کو عقل آئی، وہ اپنے کیے پر بہت پچھتاتی کہ اگر والدین کے کہنے پر چلتی اور پریم سے نہ ملتی تو اس کی زندگی برباد نہ ہوتی کیونکہ رفیع بنیادی طور پر بہت اچھا انسان تھا اور پھوپھی نے دوستی ہونے کے باوجود اتنا پیار دیا کہ وہ حقیقی ماں کے پیار کو بھول گئی۔
پہلے پریم سے جتنا پیار تھا، اب اتنی ہی نفرت محسوس ہوتی تھی۔ اس نے اس کی تعلیم پر بادل چھائے اور پھر زندگی برباد کر ڈالی۔ اس سے کیسے تعلق رکھتی جو اس کی زندگی برباد کر رہا تھا؟ اس کا دل امریکہ سے اُکتا چکا تھا۔ وہ واپس جانے پر خوش نہ تھی۔ رفیع نے اسے قبول کر لیا اور اس لیے اچھا سلوک کرتا تھا۔ اب ہماری باجی بھی پچھتاتی تھی کہ ناحق سگے بھائیوں سے جھگڑا مول لیا اور ان سے دوری اختیار کی، تو آج میری بچی وہاں پاکستان میں ساس سسر کے رحم و کرم پر ہے۔جمالہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اب امریکہ لوٹ کر نہیں جائے گی کیونکہ پریم کا گھر قریب تھا اور اس کی یادیں اس سے وابستہ تھیں۔
تاہم پھوپھی کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا رفیع امریکہ جائے۔انہی دنوں باجی فریحہ کو اطلاع ملی کہ پریم کو بھارت میں سانپ نے ڈس لیا، وہ وہاں فوت ہو گیا۔ اس کے سوگوار والدین پریم کے بغیر واپس آگئے۔ یہ خبر اگرچہ اچھی اور خوش آئند نہ تھی لیکن جمالہ کے لیے اب امریکہ جانا آسان تھا کیونکہ آخر اسے والدین سے بھی ملنا تھا۔رفیع کی مراد بر آئی، وہ اس کے ساتھ امریکہ آگیا۔ تاہم وہ ہر سال پھوپھی سے ملنے جاتا تھا۔ جمالہ کو اس سانحے کے بعد پاکستان اچھا لگنے لگا۔ وہ کہتی تھی کہ بہت کچھ گنوا کر اب مجھے عقل آئی ہے کہ لڑکیوں کے لیے زیادہ آزادی اچھی نہیں ہوتی، جبکہ امریکہ میں بہت زیادہ آزادی ہے۔ اس آزادی کی وجہ سے نو عمر لڑکیاں اکثر حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔
آج کے عہد میں گرچہ سب کو آزادی چاہیے، مگر ایسی آزادی نہیں جس سے عزتیں خاک میں مل جائیں اور زندگیاں برباد ہو جائیں۔آدمی اگر جسمانی طور پر برباد ہو جائے تو نقصان ہوتا ہے، مگر ذہنی بربادی بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کی اخلاقی اقدار کو پختہ کریں اور انہیں جسمانی اور ذہنی بربادی سے بچائیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب والدین بچوں کی تربیت کریں اور دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کو لحاظ میں رکھیں۔
(ختم شد)