اگر ہو سکے تو ویڈیو کا پلے بٹن ضرور دبائیں اور آواز بند کر لیں۔ آپ کے تعاون کا شکریہ
👇👇
عالیہ، پانچویں جماعت سے میرے ساتھ تھی۔ ہماری گہری دوستی تھی۔ اسکول کا آخری سال اب ہمارے سامنے تھا۔ مجھے علم تھا کہ اس کے گھر والے کبھی بھی اسے کالج میں داخل نہیں کروائیں گے، کیونکہ وہ کاروباری لوگ تھے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں ان کی دکانیں تھیں۔ لڑکیوں کی تعلیم ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ ان کے خیال میں میٹرک تک بچیوں کو پڑھا دینا ہی کافی تھا۔ بقول اس کی بڑی بہن کے، دھوبی کا حساب اور راشن کی لسٹ بنانا ہی لڑکی کا کام ہے، اور دسویں پاس لڑکی یہ کام بخوبی کر سکتی ہے۔
عالیہ کے گھر میں دادی کو ایسی حیثیت حاصل تھی کہ اگر وہ شام میں کہہ دیتیں کہ سویرا ہے، تو کسی کو انکار کی مجال نہ تھی۔ میں نے انہیں دو تین بار عالیہ کے گھر میں دیکھا تھا۔ سخت چہرے والی خاتون، جن کی آنکھیں ہر وقت گھر کے چاروں طرف گھومتی رہتی تھیں۔ چھت کا پنکھا چلنے کے باوجود وہ ہاتھ سے پنکھا جھلتی رہتی تھیں، اور اسی پنکھے کو ہلاتے ہلاتے گھر کے کاموں کے لیے حکم بھی دیتی رہتی تھیں۔عالیہ کی امی کا مزاج اپنی ساس سے بالکل مختلف تھا۔ وہ ہمیشہ خاموش اور سہمی ہوئی نظر آتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر مجھے ایسا لگتا جیسے وہ کسی تنویمی کیفیت میں ہوں۔ ساس کے حکم کو بجا لانے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔عالیہ کی دو چھوٹی بہنیں اور بھی تھیں۔ یہ کل تین بچے تھے، مگر گھر میں یوں رہتے تھے جیسے کرفیو لگا ہو۔
لڑکیوں کا کام صرف دادی کے حکم کی تعمیل کرنا تھا۔ اس سے ہٹ کر کچھ نہیں۔ عالیہ کی منگنی بچپن میں ہی اپنے ماموں زاد سے ہو گئی تھی۔ دونوں میں بہت پیار تھا۔ میں نے اسے ایک بار دیکھا تھا۔ وہ خاصا خوش شکل لڑکا تھا، جو اُس وقت بی اے کا طالب علم تھا اور شام کو اپنے والد کے ساتھ دکان پر ہاتھ بٹایا کرتا تھا۔ کبھی وہ چپکے سے کوئی تحفہ عالیہ کو دے دیتا، تو وہ گھر میں یہی کہتی کہ یہ مجھے یاسمین نے دیا ہے۔زندگی یوں ہی رواں دواں تھی۔ ہم نویں کلاس میں اچھے نمبر لانے کے لیے بڑی محنت کر رہے تھے تاکہ میٹرک میں اچھی پوزیشن آ جائے۔ پڑھائی میں مشغول رہنے کے سبب کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا۔ایک بار عالیہ کئی دن تک اسکول نہ آئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اتنے دن غیر حاضر رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ گھر میں پیپرز کی تیاری کر رہی ہو گی۔
جب بہت دن گزر گئے، تو میں نے اس کی چھوٹی بہن افشاں سے عالیہ کے نہ آنے کی وجہ پوچھی۔ وہ بولی، آپ خود فون کر کے معلوم کر لیں۔ میں نے فون کیا تو حسبِ عادت دادی نے اٹھایا، کیونکہ فون ان کے پاس تخت پر رکھا ہوتا تھا اور وہ فون کرنے والے کا پورا انٹرویو لینے کے بعد، جس کا فون ہوتا اُسے بلا کر ریسیور تھماتیں۔ تاہم، ان کے کان اور آنکھیں فون پر ہونے والی گفتگو پر جمی رہتی تھیں۔ فون انہوں نے اٹھایا، مگر عالیہ کو نہیں دیا، حالانکہ اس کی آواز میرے کانوں میں آ رہی تھی۔ یعنی وہ قریب ہی موجود تھی۔ تبھی مجھے شک ہوا کہ ضرور کوئی خاص بات ہے۔ اسی لیے میں چھٹی کے بعد اس کے گھر چلی گئی۔عالیہ نے مجھے چونک کر دیکھا، لیکن خاموش رہی۔ اس کا چہرہ پیلا پڑا ہوا تھا اور آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے تھے۔ نوٹس مانگنے کے بہانے میں اسے دوسرے کمرے میں لے گئی۔
خدا کے لئے بتاؤ کیا بات ہے؟ میں نے پریشانی سے پوچھا۔ یاسمین ! دادی میری شادی پھوپھا اختیار الدین سے کروارہی ہے۔ خدا کے لیے بتاؤ کیا بات ہے، کیونکہ چھوٹی پھپھو پانچویں بچی کو جنم دیتے ہوئے فوت ہو گئی ہیں، اس نے جواب دیا۔ ابھی بات ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ کسی ننھے بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ اسی لمحے دادی کی تحکمانہ آواز گونجی، عالیہ! اور وہ مجھے چھوڑ کر فوراً دادی کی طرف چلی گئی۔ میں بھی اس کے پیچھے ہو لی۔ ایک بہت ننھی منی بچی اس کی گود میں رو رہی تھی۔ عالیہ نے جلدی سے اس کا گندا پوتڑا اتار کر اسے صاف کیا اور پھر بچی کو لے کر میرے پاس آ گئی۔
مجھے علم تھا کہ اس کی منگنی ماموں زاد سے ہوئی تھی۔ تبھی اس کے ماموں غصے سے دندناتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور ہنگامہ کیا کہ بیٹیاں تو پرائی ہوتی ہیں، وہ میکے سے رخصت ہونے کے لیے ہوتی ہیں، مگر بہوئیں کوئی نہیں بناتا۔ دادی یہ کیا فیصلہ کرنے جا رہی ہیں؟ اگر اپنے داماد کا گھر دوبارہ بسانا لازم ہے، تو اپنی بڑی بیٹی کی بیٹی، یعنی نواسی کو اس کے نکاح میں دے دیں۔ وہ بھی اب شادی کے لائق ہو گئی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ عالیہ کی منگنی توڑ کر اُسے اپنے رنڈوے داماد سے بیاہا جائے؟ خاندان والوں نے بھی ان کی بات سے اتفاق کیا۔ تب دادی نے جواب دیا کہ بیٹی کے بچوں پر میرا اختیار نہیں، جب کہ پوتی پر اختیار ہے، میں جو چاہے کروں۔ عالیہ کا باپ میری بات نہیں ٹالتا۔
یہ سارا ہنگامہ میرے سامنے ہو رہا تھا۔ میرے پوچھنے پر عالیہ نے بتایا کہ اس کے تایادادی کے مزاج کی وجہ سے انہیں اپنے پاس رکھنےسے گریزاں ہے، تبھی وہ ہمارے معاملات میںمداخلت نہیں کرتے ، بلکہ ان کے بیٹے اور بہونے تو دادی کواپنے گھر رکھنے سے ہی منع کر دیا تھا۔ وہ کچھ دن بڑی بیٹی کےگھر رہیں، وہاں بھی ان کے بچوں سے نہ بنی۔ بچوں نےاپنے باپ سے شکایات کر کے دادی کو وہاں سے بھیچلتا کر دیا، دیا، تب تب و والد نے ماں کی لاج رکھی رکھی او اور اپنے گھرلے آئے۔ دادی بھی خوش خوش ہمارے گھر آ گئیں۔ جانتی تھیں کہ یہ بہو میرا ہر کہا سہہ لے گی، کیونکہ یہ سوت سوتیلی ماں کے ظلم سہہ کر آئی ہے ، سو اُن کو اپنی من مانی کا خوب موقع ملا۔
سب گھر والے دادی کا ادب اور لحاظ کرتے تھے کہ عالیہ کے والد کی یہی ہدایت تھی۔ یہاں دادی کا سکہ چلتا تھا، گھر کا خرچ بھی ان کے ہاتھ میں تھا۔ جب عالیہں کی پھوپھیاں آتیں، تو دادی ان کی زبر دست خاطر مدارات کرتیں اور اس کی امی کو سناتیں کہ دامادوں کی خاطر مدارت کرنے سے وہ خوش رہتے ہیں اور ان کی بیٹیوں کو بھی خوش رکھیں گے۔ اسی وجہ سے انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ عالیہ کی شادی داماد سے کردوں۔ ایک تو اختیار الدین کا گھر پھر سے بس جائے گا اور اس کے پانچ بچوں پر دوسری عورت کے سوتیلے پن کا قہر نہ برسے گا۔ گرچہ عالیہ اور اختیار الدین کی عمر میں بہت فرق تھا، پھر بھی انہوں نے یہ انوکھا فیصلہ کر دیا اور عالیہ کو اسکول سے اُٹھالیا۔
میں یہ ساری کہانی سن کر بھاری دل کے ساتھ گھر آ گئی۔ اب جب عالیہ کو فون کرتی، اس کی دادی کہہ دیتیں کہ وہ مصروف ہے۔ جب اس کو اسکول نہیں جانا، تو میں کیوں اس کو پریشان کر رہی ہوں ؟ کلاس میں ہمارے گروپ کی لڑکیوں کو میری زبانی معاملے کا علم ہوا، تو وہ دنگ رہ گئیں۔ سب کی ہمدردیاں عالیہ کے ساتھ تھیں،مگر سب بے بس تھے۔ اس کے والد نہ چاہتے ہوئے بھی ماں کے سامنے زبان کھولنے کی ہمت نہ رکھتے تھے۔ دراصل ، بیٹے ماؤں کو گھر سے نہیں نکالتے ، یہ بہویں ہی ہوتی ہیں جو ساسوں کو چاہیں تو ناکوں چنے چبوا دیں ، جب کہ عالیہ کی ماں ویسے ہی سوتیلی ماں کے ہاتھوں رہی تھی۔ وہ کوئی دبنگ عورت نہ تھی کہ ساس کے سامنے بولتی یا بد زبانی کرتی۔ وہ بے چاری تو سر جھکا کر ہر کسی کی بات مان لیتی تھیں، تم بھی مقا بلے بازی کرتیں اور نہ زبان چلاتیں، بس خاموش ہو رہتیں۔ وہ تو اپنے بچوں پر بھی رعب نہ جماتی تھیں، کجا ساس یا شوہر کے سامنے اونچا بولتیں۔
دادی ہر وقت سب کو یہی جتاتی رہتیں کہ ان کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ پانچ جانیں، ایک جان سے زیادہ قیمتی ہیں۔ میں نے بیٹی کے پانچ بچوں کی خاطر پوتی کا رشتہ داماد کو دیا ہے، کیونکہ یہ اپنے گھر کی بچی ہے اور شرافت و تابعداری میں اپنی ماں پر گئی ہے۔ یہ اس رشتے کو بخوبی نبھائے گی۔ اُدھر اختیار الدین بڑے شاداں و فرحاں تھے کہ کم سن دلہن مل رہی تھی۔ انہوں نے بہت قیمتی زیور اور کپڑے تیار کروائے تھے۔ اللہ نے انہیں پیسے کے معاملے میں خوب نوازا تھا۔ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں ان کی دکانیں تھیں جو خوب چل رہی تھیں۔ لگتا تھا کہ انہیں بیوی کے مرنے کا دکھ کم، اور کم عمر بیوی ملنے کی خوشی زیادہ تھی۔ اس شخص نے اپنی دوسری شادی کی تیاری کچھ ایسے کی جیسے یہ اس کی پہلی شادی ہو۔ اس نے بیرونِ ملک کا کاسمیٹک اپنی دکانوں میں بھرا ہوا تھا، جہاں ہر وقت خواتین کا ہجوم لگا رہتا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس کے اسمگلروں سے روابط ہیں، جو اسے مال لا کر دیتے اور اپنے پیسے وصول کر لیتے۔
پولیس کا منہ اس نے پیسوں سے بند کر رکھا تھا۔ اس کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا کہ وہ کسی بھی غریب گھر کی لڑکی کو، پیسے کے بل بوتے پر بیوی بنا لے۔ مگر دادی نے اُسے سمجھایا کہ دوسری بیوی اس کے بچوں کی پرورش محبت سے نہیں کرے گی، جس کے باعث اس کا سکون غارت ہو جائے گا۔ تو ایسی شادی سے کیا حاصل جو باعثِ راحت نہ ہو؟ پانچ چھوٹے بچوں کو کوئی دوسری عورت بخوشی کیوں سنبھالے گی؟ لہٰذا عالیہ سے ہی شادی کرو۔ اختیار الدین کو بھلا اتنی کم عمر، خوبصورت لڑکی سے شادی پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟ اس نے دادی کے پاس زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا۔ بہانہ یہ ہوتا کہ وہ اپنی شیر خوار بچی کے لیے آتا ہے۔ وہ ایسے وقت آتا جب دادی اور عالیہ کی ماں گھر پر ہوتیں، جبکہ عالیہ کی امی اکثر باورچی خانے میں مصروف رہتی تھیں۔ ایسے وقت میں دادی ان کے ذمے کھانے بنانے کا کام ڈال کر پوتی کو آواز دیتیں کہ اختیار الدین کو پیاس لگی ہے، دور سے آیا ہے، اس کے لیے ٹھنڈے پانی کا جگ لے کر آؤ۔ یوں عالیہ کو بادلِ ناخواستہ پانی لانا پڑتا۔ تب دادی حکم دیتیں، ارے بیٹا، جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر دے دو۔ جب وہ پھوپھا کو گلاس پکڑانے لگتی، تو وہ اُسے مسکرا کر دیکھا کرتے۔
جوں جوں شادی کے دن قریب آرہے تھے ، عالیہ کا رنگ پیلا پڑتا جارہا تھا اور بخار بھی رہنے لگا تھا۔ دادی نے یہ بات اختیار الدین سے چھپائی تھی۔ شادی میں تین دن باقی تھے۔ زیادہ تر کلاس فیلوز کا مشورہ تھا کہ وہ گھر سے بھاگ جائے، مگر وہ جانتی تھی کہ گھر سے بھا گھنے والی لڑکی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں ، اس کی اس حرکت سے بہنوں کا مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا ۔ شادی میں تین دن باقی تھے کہ میرے پاس سویرے سویرے اس کی چھوٹی بہن افشاں کا فون آیا کہ عالیہ نے خود کشی کر لی ہے۔ یہ خبر سن کر میں گھبرا کے ان کے گھر جانے کو نکلی۔ ہمارے گھر میں صرف ایک گاڑی تھی، جو میرے والد آفس لے جاتے تھے۔ اتنی صبح رکہ ٹیکسی ملنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ بڑی مشکل سے مجھے رکشہ ملا اور میں عالیہ کے گھر پہنچی۔ اس کا کفن تیار کر دیا گیا تھا۔
اس کے چہرے کا ایک حصہ روئی سے چھپا ہوا تھا۔ روتے ہوئے میں نے اس کا آخری دیدار کیا، گھر کا ماحول بہت افسردہ تھا۔ محلے کی عورتیں اور رشتہ دار ، دبی زبان میں دادی کو برابھلا کہہ رہے تھے اور دادی تخت پر بیٹھی دستی پنکھا جھل رہی تھیں۔ اس کی امی ایک ثبت کی طرح ساکت کھڑی جنازے کو دیکھ رہی تھیں۔ خاموش آنسو، دھاروں کی صورت ان کے رخساروں پر بہہ رہے تھے۔ دونوں چھوٹی بہنوں کا بھی برا حال تھا۔میں عالیہ کے چالیسویں پر بھی گئی تھی۔ قرآن پاک کی تلاوت کے بعد کھانا تقسیم ہوا، تب میں نے پہلی بار اختیار الدین کو دیکھا۔ بڑی سی توند، چھوٹے قد کا ادھیڑ عمر شخص لوگوں کے درمیان بیٹھا تھا اور قر آن پاک پڑھنے کے بجائے آنے والوں کا جائزہ لے رہا تھا۔
چالیسویں کے ہفتہ بھر بعد دادی نے اعلان کیا کہ وہ عالیہ سے چھوٹی افشاں کی شادی اختیار الدین کے ساتھ کریں گی۔ سارے خاندان نے ان کو سمجھایا، مگر ان کو اپنے نواسے نواسی کی فکر تھی۔ اب انہوں نے دیر نہ کی اور عالیہ کو دفن ہوئے دو ماہ ہوئے تھے کہ انہوں نے اختیار الدین کو شادی کی تاریخ دے دی۔افشان، اختیار الدین سے پورے سولہ برس چھوٹی تھی۔ اسے دلہن بنانے کی تیاری ہونے لگی، مگر اس گھر کی بیٹیاں اس اس شخص کی قسمت میں نہ تھیں۔ افشاں نے شادی کی تاریخ رکھے جانے کے اگلے دن ہی چوہے مار دوا کھالی۔ اس کو خون کی الٹیاں ہوئیں اور دو گھنٹے بعد وہ ٹھنڈی ہو گئی، جس کی اطلاع سب سے چھوٹی بہن منی نے ہچکیوں کے درمیان روتے ہوئے مجھے دی۔ جب میں ان کے گھر گئی، تو افشاں کو نہلایا جا رہا تھا۔ اس کی میت کو تیار کر کے آخری دیدار کے لئے رکھا گیا۔ خون ابھی تک اس کے منہ سے سفید کفن کو لگ رہا تھا۔ اب اختیار الدین کی نظر منی پر تھی تھی، جو افشاں سے ڈیڑھ سال چھوٹی اور اس کی اپنے بڑی بیٹی سے صرف تین سال بڑی تھی۔
منی اپنی بہنوں سے بالکل مختلف اور نڈر تھی۔ ابھی وہ چھٹی کلاس میں تھی کہ محلے کے ایک لڑکے سے اس کی دوستی ہو گئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس کی خوبصورتی تھی۔ یہ لڑکا عالیہ کی سہیلی زرینہ کا بھائی تھا۔ بچپن سے اس کا ان کے گھر میں آنا جانا تھا۔ اپنا کوئی بھائی نہ ہونے کی وجہ سے عالیہ اور افشاں اس کو بھائی کہتی تھیں۔ چند دن بعد محلے میں یہ خبر پھیل گئی کہ منی گھر سے بھاگ گئی ہے۔ دادی کا کہنا تھا کہ پولیس میں رپورٹ درج کروانے سے بہتر ہے کہ اختیار الدین اپنے طور پر منی کو بازیاب کرادے تو ، وہ اسی وقت اس کا نکاح منی سے کرادیں گی۔ اختیار الدین نے اپنے کارندے دوڑا دیئے ، جنہوں نے یہ خبر لا کر دی کہ منی عرفان کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ کچھ عرصہ تلاش میں وقت گزر گیا، مگر منی کا سراغ نہ مل سکا۔ ایک روز عرفان کے ایک دوست نے دادی کو بتایا کہ ان کی پوتی اور عرفان لندن چلے گئے ہیں۔ چونکہ عرفان کے والدین برطانیہ میں سکونت پذیر تھے ، لہذاوہ بھی وہاں کی شہریت کا حامل تھا، سو معاملے کو سلجھانے میں ان لوگوں کو کئی دقت پیش نہ آئی اور انہوں نے منی کا نکاح عرفان سے کر دیا۔ اب لندن تو اختیار الدین کی پہنچ سے دور تھا۔
اس واقعے کو وقت گزر گیا اور میں امریکہ سیٹلڈ ہو گئی، تب اتفاق سے ایک بار لندن جانا ہوا۔ وہاں مقیم میرے عزیزوں نے مجھے عید ساتھ منانے کی دعوت دی، تو میں وہاں گئی۔ ہم سب نماز پڑھنے مسجد پہنچے۔ نماز کے بعد لوگ ایک دوسرے سے عید مل رہے تھے کہ اس ہجوم سے ایک خوش شکل خاتون میری طرف بھاگتی ہوئی آئی۔ چہرہ مانوس لگا، مگر میں اسے پہچان نہ سکی۔ آپ مجھے اجنبیوں کی طرح کیوں دیکھ رہی ہیں ؟ میں آپ کی سہیلی عالیہ کی سب سے چھوٹی بہن ہوں۔ تب میں نے بے اختیار اس کو گلے لگا لیا۔ اس وقت بے اختیار مجھے عالیہ یاد آگئی۔
بہتی آنکھوں کے ساتھ میں نے اس کے لندن آنے کی کہانی پوچھی تو اس نے بتایا۔ اس کو یقین تھا کہ دو بہنوں کی قربانی لے کر بھی دادی اپنی بیٹی کے پانچ بچوں کی خاطر اس کی شادی، اپنے اس نامعقول داماد سے کرنے کی کوشش کریں گی کیونکہ وہ اپنی سوچ تبدیل کرنے والی عورت نہیں تھیں، تب اس نے عرفان سے بات کی۔ اس نے لندن میں مقیم اپنے والدین کو اعتماد میں لیا، تو عرفان کے چچا نے اپنے گھر پر ان دونوں کا نکاح کروا دیا، جو پاکستان میں ہی رہتے تھے ، یوں یہ دونوں لندن پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ میں نے منی سے اس کی امی اور دادی کے بارے پوچھا تو وہ بولی۔ کزن زرینہ سے میرا رابطہ ہے، لہذا گھر کے بارے مجھے سب معلومات ملتی رہتی ہیں۔ میرے والدین یکے بعد دیگرے اپنی بیٹیوں کی خود کشی کے سبب دادی سے دور ہو گئے ہیں۔ ان کو میری گمشدگی کا اتنا صدمہ ہوا کہ والدہ اس دکھ میں چل بسیں ، جب کہ والد دل کے مریض ہیں۔
اب دادی بھی اپنے کئے پر ہاتھ ملتی ہیں اور ہر کسی سے کہتی ہیں کہ میں پرانے وقتوں کی عورت ، کس قدر غلط تھی۔ جس بیٹے نے مجھے عزت دی، میں نے اُسی کو اتنا بڑا دکھ پہنچایا۔ یتیم نواسے نواسیوں کی خاطر میں خود غرض اور اندھی ہو گئی تھی۔ بہو اور بیٹے کے دکھ کا خیال بھی نہ کیا، مگر اب پچھتانے سے کیا حاصل، جب چڑیاں کھیت چُگ گئیں۔ وہ (دادی) ہر وقت خود کو کوستی ہیں، لیکن اب ان کی آنکھوں کی روشنی بہت ماند پڑ چکی ہے۔ تقریباً نابینا ہو چکی ہیں، ٹٹول ٹٹول کر چلتی ہیں۔ بس بڑی پھپھو ان کا خیال رکھتی ہیں، اور تایا بھی کبھی کبھار خبرگیری کے لیے آ جاتے ہیں، لیکن انہیں اپنے گھر لے جانے پر آمادہ نہیں۔ دادی اب اپنی موت کی دعا مانگتی ہیں، مگر موت بھی جیسے انہیں لینے نہیں آتی۔ ظاہر ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو، انسان خود سے موت کو نہیں بلا سکتا۔ لیکن زندگی تبھی اچھی لگتی ہے جب انسان کسی کا محتاج نہ ہو۔
(ختم شد)