بیٹی پرائی نہیں ہوتی

Sublimegate Urdu Stories

سدرہ! آج شام کو عنبر آ رہی ہے تو ایسا کرنا کہ رات کے کھانے میں کچھ ایسا بنا لو جو عنبر اور جنید دونوں کو پسند آئے۔ اماں بی سدرہ کے پیچھے ہی کھڑی تھیں اور سدرہ ناشتے کے برتن سنک میں رکھنے جارہی تھی۔ اماں بی، ابھی پچھلے ہفتے تو عنبر اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھی۔ وہ ذرا چڑ کر بولیں، عنبر کی شادی کو تین ماہ ہو چکے ہیں۔ ٹھیک ہے اس کی شادی دو گلیاں چھوڑ کر آپ کے بھائی کے گھر ہوئی ہے، لیکن اسے اپنے گھر بھی دل لگانے دو۔ اگر وہ روز روز میکے آتی رہے گی تو سسرال میں دل کیسے لگے گا۔ سدرہ کا لہجہ نرم مگر تھکا ہوا تھا، لیکن اکتاہٹ صاف نظر آ رہی تھی۔

 ارے بیٹا! ایک ہی تو میری بیٹی ہے، عنبر، اور ایک ہی بیٹا ہے جنید، جو سارا دن کاروبار کے پیچھے بھاگا رہتا ہے۔ میرا دل اداس ہو جاتا ہے اپنی بیٹی کے لیے، اور ہے ہی کون؟ کتنی تندیں ہیں! ایک ہی تو ہے، وہ بھی پوری کوشش کرتی ہے کہ تمہارے ساتھ کام کرے۔ ویسے بھی رخسانہ آنے والی ہے، اس سے صفائی کروا کر کھانے میں مدد کا کہہ دینا۔ وہ کاموں سے جی نہیں چراتی، اور بچے بھی عنبر کو کتنا یاد کرتے رہتے ہیں۔ پھو پھو، پھوپھو کہتے تھکتے نہیں ہیں۔ ماں کی طرح پالا ہے عنبر نے تمہارے ولید اور زینب کو۔ اماں بی بھی کہانی کی طرح سب بنانے لگیں کیونکہ اب وہ سدرہ کے لہجے میں اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں۔جی اماں بی! مجھے سب یاد ہے۔ سدرہ نے کہا۔محسوس نہیں کر پا رہی، جب اپنی بیٹی ہو گی تو محسوس ہوگا۔ باپ کا آنگن بیٹیوں کے لیے کسی جنت سے کم نہیں ہوتا۔ خیر، اگر کوئی کام ہو تو مجھے بھی بتا دینا، میں مدد کروا دوں گی۔ نہیں اماں کی! اس عمر میں آپ سے کام کرواؤں گی؟ کیسی باتیں کرتی ہیں اماں! بلکہ آپ بلڈ پریشر کی دوائیں یاد سے لے لیں، میں سب سنبھال لوں گی۔ اور مجھے لگتا ہے رخسانہ بھی آ گئی ہے۔

 اسی وقت گیٹ کے کھلنے کی آواز آئی۔سدرہ مزید رٹی رٹائی تقریر سننے کے موڈ میں نہیں تھی، ویسے بھی بچے تو اماں اور عنبر کے حمایتی تھے۔ اس کی کس نے سننی تھی؟ پچھلے کئی ماہ میں اتنی بار عنبر اور بلال کی دعوت وہ دے چکی تھی، وہ بھی فیملی سمیت ۔کبھی کبھی تو سدرہ کے دل میں خیال آتا کہ اگر اس کا کیٹرنگ کا بزنس ہوتا تو اسے کتنا منافع ہوتا۔ کھانا پکانا اسے اتنا مشکل نہیں لگتا تھا جتنا نئی کراکری نکالنا، پھر ٹیبل پر لگانا، اٹھانا، اور پھر سے دھلے ہوئے برتن خشک کر کے ان کی جگہ پر رکھنا۔ لیکن شکر ہے کہ اس بار ماموں ممانی ساتھ نہیں آ رہے، ورنہ پھر سے اتنا کام بڑھ جاتا۔

آج موسم بھی خاصا اچھا تھا، ہلکے ہلکے بادل منڈلا رہے تھے۔ آسمان پر آج بادلوں نے خوب رونق لگا رکھی تھی۔ سدرہ برتن سنک پر رکھنے ہی والی تھی کہ تبھی رخسانہ بھی کچن میں آچکی تھی۔ بی بی جی! اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں؟ رخسانہ نے پوچھا۔سدرہ بی بی کا موڈ ہمیشہ ایسے ہی ہوتا تھا جب عنبر آتی تھی، اور غصہ بھی واضح نظر آنے لگتا تھا۔تمہاری لاڈلی عنبر بی بی شام کو آ رہی ہے، اس کی صفائی کر لو تاکہ میں شام میں کھانے کی تیاری کر سکوں۔ سدرہ اسے آنکھیں پھاڑے دیکھ کر بولی۔رخسانہ سر ہلا کر جلدی سے برتن دھونے لگی۔ مجھے بچوں کے لیے بھی کچھ تیاریاں کرنی ہیں۔نجانے کتنے کام تھے، آج بچوں کے کپڑے بھی دھونے کے لیے جمع تھے اور جنید کے کچھ کپڑے بھی تھے۔ آج تو واشنگ مشین بھی نہیں چل سکتی۔ کھانے بناتے بناتے دن گزر جائے گا۔ رخسانہ کو بھی آج کافی کام کرنا ہوگا۔ 

سدرہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی تھی۔ جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ، رخسانہ، بہت کام ہیں۔ سدرہ نے فریج سے کچھ چیزیں نکال کر شیلف پر رکھ دیں۔اماں بی بھی کمال کرتی ہیں، بجائے اس کے کہ بیٹی کو اپنے گھر میں دل لگانے دیں، الٹا کہہ دیتی ہیں کہ میرا دل اداس ہو رہا ہے۔سدرہ چھری لے کر پیاز کاٹتے ہوئے طنزیہ بولی۔تو کیا ہوا بی بی جی! جب آپ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی تو آپ کا بھی یہاں دل نہیں لگتا تھا۔ اکثر آپ جانے کی ضد کرتی تھیں اور اللہ بھلا کرے آپ کی ساس کا جس نے میکے جانے سے منع نہیں کیا تھا۔ ہاں، البتہ جنید بھائی پھر بھی آپ کو ٹوک دیتے تھے۔ رخسانہ بے دھیانی میں برتن دھوتے دھوتے بولی، اور اکثر ہی وہ منہ پر بات کہہ دیتی تھی، یہ اس کی عادت تھی۔سدرہ کے ہاتھ پیاز کاٹتے کڑکنے لگے اور وہ چپ ہو گئی۔گزرا ہوا وقت اچانک یاد آ گیا کہ کیسے وہ ہر ہفتے ماں کے گھر جانے کی ضد کرتی تھی، کہ ماں اسے یاد کرتی ہے اور اس کے بغیر دل نہیں لگتا، لیکن پھر بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں، گھر پر بھائیوں کا راج ہو گیا، اور بابا کے جانے کے بعد گھر ویران سا لگنے لگا تھا۔ البتہ وہ ماں سے اکثر فون پر بات کرتی رہتی تھی۔لیکن بھابھیاں اسے وہاں دیکھ کر منہ بناتی تھیں، شاید اس کا وہاں آنا انہیں اچھا نہیں لگتا تھا۔ اور جب سدرہ کو بھی ان کے رویےچبھنے لگے، تو وہ بس ماں سے ملنے چند گھڑی کے لیے عید کی شب رات کو چلی جاتی۔ لیکن بھائیوں اور بھابھیوں کے رویوں کا افسوس اسے ضرور ہوتا۔ شاید یہی رویہ وہ اب عنبر کے ساتھ اپنا رہی تھی اور اسے علم ہی نہیں ہو رہا تھا، یا دل کا غبار تھا جو کسی پر نکالنا چاہتی تھی۔

دوپہر کے وقت اماں اپنے کمرے میں لیٹی آرام کر رہی تھیں۔ بچوں کے اسکول سے آنے کا وقت ہو چکا تھا اور وہ اسکول سے آنے کے بعد سب سے پہلے اپنی دادی اماں سے ملنے جاتے تھے۔ کمرہ نیم تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہاجرہ بی گہری سوچوں میں کم تھیں۔نجانے آج کل کے بچے رشتوں کو قبول کیوں نہیں کرتے، ایک دوسرے کو برداشت کیوں نہیں کرتے؟ ایک ہی تو میری بیٹی ہے اور ایک بیٹا، اور کتنے لاڈ سے پالا ہے۔ عنبر تو بندرہ سال کی تھی جب عنبر کے ابو دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کیسے اس کے ماموں نے اس کو باپ کا پیار دیا اور میرا اور میرے بچوں کا ساتھ دیا۔ اور آج سدرہ منہ بنا رہی ہے کہ وہ لوگ ہر بار ہی آتے ہیں۔ جنید کی تعلیم اور پھر کاروبار کے اخراجات کا بوجھ کیسے سلیم نے اتنے سال اٹھائے رکھا، اور پھر عنبر کا رشتہ بلال کے لیے مانگ کر میرے سارے بوجھ ہلکے کر دیے۔ تو آج میں اتنے احسان کرنے والوں کو اچھا کھلا نہیں سکتی؟ اس لیے کہ میری بہو کو ان کا روز بروز آنا پسند نہیں ہے، یا میری بوڑھی ہڈیوں میں جان نہیں رہی۔ نہیں، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی مہمان میرے گھر آئے اور بھوکا ہی واپس چلا جائے۔

تبھی بچوں کے گھر میں داخل ہوتے شور سے ہاجرہ کی سوچوں کا دائرہ ٹوٹ گیا اور ولید اور زینب دادی کے ساتھ چپک گئے۔ ہاجرہ نے دونوں بچوں کے ماتھے پر پیار کیا تو انہیں ٹھنڈک کا احساس ہوا۔دادو! آج ہم خوب مزے کریں گے۔ آج پھوپھو آ رہی ہے اور شام کو پھوپھو کے ہاتھوں سے بنے ہوئے فرائز بھی کھائیں گے۔ زینب نے جوش سے کہا۔ ہاں میرا بیٹا، کیوں نہیں؟ اب آپ دونوں چینج کر لو۔ میں ذرا نماز ادا کر کے آتی ہوں، پھر ساتھ میں کھیلیں گے۔ بچے دوڑتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چل پڑے۔ ہاجرہ بی پھر سے سوچنے لگیں کہ بچے اتنے خوش کیوں تھے؟ شاید انہیں کھانا پکانا نہیں پڑتا، اس لیے۔وہ پھر سے بلاوجہ کی سوچ میں بیٹھ گئیں، لیکن جب نماز کا خیال آیا تو ساری سوچیں جھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔

بلال عنبر کو چھوڑ کر کسی کام کے سلسلے میں جاچکا گھر میں عنبر کے آنے کے بعد خوب رونق تھی ولید اور زینب عنبر کے ارد گرد ڈلا رہے تھے۔پھوپھو ! موسم اچھا ہے نا تو آپ ہمیں فرائز بنا دیں۔ ایسا نہ ہو کہ بادل پھر سے چلے جائیں ۔بارہ سالہ ولید کی فرمائش پر غیر جھٹ سے اٹھکر کچن کی طرف چلی گئی البتہ عنبر کو آج سدرہ کا رو پہ روکھا روکھا سا لگ رہا تھا جیسے کہ وہ اس کے آنے سے نا خوش ہو۔بھا بھی میں بچوں کے لیے فرائز بنانے لگی ہوں۔ آپ کھائیں گی ؟ عبر نے مسکرا کر سدرہ سے پوچھا جو کراکری صاف کرنے میں مصروف تھی۔ عنبر نےلاکھ منع کیا کہ سدرہ تکلف نہ کرے اسے جنید کی باتوں کا خوف تھا جسے بہن کی آمد میں کوئی کمی نظر آئے تو باتیں سنا دیتا ۔ ارے نہیں بھئی۔ رات کے کھانے کی تیاری بھی کرنی ہے اور پھر بھوک بند ہو جائے گی تو آدھی رات کو پھر سے بھوک لگ جائے گی۔ تم اور بچے کھاؤ، میں کچن سے فارغ ہوں گی تو فرصت ملے گی۔ سدرہ کا لہجہ بالکل روکھا تھا۔ خیر، عنبر نے صرف بچوں کے لیے فرائز بنائے تھے، بچے اس کے ہاتھ سے بنے کرسپی فرائز شوق سے کھاتے تھے۔جنید آج رات جلدی گھر آ گیا تھا۔ دستر خوان کو لوازمات سے سجا دیکھ کر اس کا دل خوش ہو گیا تھا۔

 دراصل وہ خود کھانے کا شوقین تھا۔ عنبر تو بس ایک بہانہ تھا۔بریانی لو عنبر اور تمہارا فیورٹ دم والا قیمہ، سدرہ نے خاص تمہارے لیے بنایا ہے۔ جنید نے بولتے ہوئے عنبر کی طرف دیکھا تو وہ مسکرانے لگی۔جی جی، خاص میرے لیے۔پھوپھو! اب تو آپ کچھ دن ہمارے ساتھ رہیں ، جلدی نہ جائیں پچھلی بار کی طرح۔ زینب کی آنکھوں میں سوال پوچھتے ہوئے امید کی کرن تھی۔بیٹا! پھوپھو کی اب شادی ہو چکی ہے، اب وہ پرائی ہو چکی ہیں اور وہی ان کا اصل گھر ہے جہاں ان کا شوہر ہے۔اس سے پہلے کہ عنبر کچھ کہتی، سدرہ نے فوراً سب کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔ لیکن بچے کہاں چپ رہتے ہیں، ماما! جب میری شادی ہو جائے گی، میں بھی پرائی ہو جاؤں گی۔زینب کے اس سوال پر سدرہ کا دل زور سے دھڑکا تھا۔

 پرائی؟ اور زینب ایسا بھی ہوگا؟ نہیں بیٹا! آپ کیسی باتیں کر رہی ہو؟ میری بیٹی کیوں پرائی ہونے لگی؟ یہ میری بیٹی کا گھر ہے اور یہ گھر آپ کی پھوپھو کے بابا کا بھی ہے۔ لہٰذا بیٹیاں بھی بابا کے گھر سے پرائی نہیں ہوتیں بلکہ ان کے بغیر تو کوئی گھر گھر لگتا ہی نہیں۔ جیسے آج آپ کی پھوپھو اپنے بابا کے گھر آئی ہیں تو گھر میں کتنی رونق آ گئی ہے، جیسے بہار آ گئی ہو۔ ویسے ہی میری بیٹی زینب جب بابا کے گھر آئے گی تو بہار آئے گی۔جنید بچوں کے ساتھ بالکل بچہ بن کر بات کرتا تھا۔زینب خوش ہو گئی تھی۔ اگرچہ عنبر کو آج سدرہ کا رویہ خاصا نا مناسب لگا تھا، لیکن اس نے اس رویے کو نظر انداز کرنے میں ہی عافیت جانی تھی۔ اور غصہ بھی بجا تھا۔ اماں بی بھی ہر تیسرے دن فون کال کر کے اسے اداسی کا دکھ سنانے لگتی تھیں اور آنے کا کہتی تھیں۔ اگر وہ اماں بی کے کہنے پر آنے لگتی تو ہر دو دن بعد آ سکتی تھی۔ یہ تو عنبر اماں کو سمجھا کر بہلا کر ہفتے یا دو ہفتے بعد چکر لگا لیتی تھی۔
اگلے دن عنبر، بچوں کے اسکول سے آنے کے بعد مل کر فوراً سسرال چلی گئی تھی۔ گھر میں ایک بار پھر اداسی اور ویرانی چھا گئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے عنبر بہار ہو — جس کے آنے سے رونق آتی ہے اور جانے سے خزاں چھا جاتی ہے۔خیر، آنے والے کو تو اپنے گھر جانا ہی ہوتا ہے۔رخسانہ! تین دن ہو گئے تم سے کہتے ہوئے، آج مشین لگاؤں گی، کل لگاؤں گی، لیکن ٹائم ہی نہیں ملا۔ خیر، آج کپڑے مشین میں ڈال دیے ہیں، تم نکال لینا اور چھت پر پھیلا دینا۔ شام کو میں خود ہی اتار لاؤں گی۔سدرہ بالوں میں تیل کا مساج کروارہی تھی۔ رخسانہ بہت اچھا مساج کرتی تھی۔ آج جیسے ہی وہ آئی، سدرہ تیل لے کر بیٹھ گئی، کہ باقی کام بعد میں سر میں بہت درد تھا۔شام کو بچے ٹیوشن پڑھ کر لان میں آ گئے اور فٹ بال کی “شامت” آ گئی۔ اماں بی بھی باہر لان میں بیٹھ کر بچوں کو کھیلتا دیکھتی رہیں اور مسکراتی رہیں۔سدرہ کو یاد آیا کہ چھت سے کپڑے اتارنے ہیں، تو وہ کپڑوں کا ایک بڑا سا گٹھا لے کر سیڑھیاں اُترنے لگی۔ آخری تین سیڑھیاں رہ گئی تھیں، کپڑوں کا ڈھیر اتنا تھا کہ اس نے اگلے اسٹیپ پر پاؤں رکھنے کے بجائے اس سے نیچے والی سیڑھی پر قدم رکھ دیا، اور دھڑام سے نیچے گر گئی۔ سارے کپڑے بکھر گئے اور خود پاؤں پکڑ کر کراہنے لگی۔

اماں بی اور بچے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دوڑے۔آپ فکر نہ کریں، پاؤں میں موچ آئی ہے، البتہ ہڈی بالکل صحیح ہے۔ دو ہفتے تک بیڈ ریسٹ کریں اور مساج بھی کریں۔ میں درد میں کمی کے لیے دوا لکھ دیتا ہوں، اور مساج کے لیے ٹیوب اور جیل بھی تجویز کرتا ہوں۔ڈاکٹر نے کچھ دوائیں تجویز کر کے پرچی جنید کو تھما دی۔جی بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب آپ کا کہ آپ گھر تشریف لائے ۔ جنید ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑنے اور دوائیاں لینے میڈیکل اسٹور چلا گیا سدرہ بیڈ پہ لیٹی تھی اور اماں بی پاس ہی کھڑی تھیں ۔ ہائے اماں ! اب کیا ہوگا۔ دو ہفتے ۔ یہ تو بہت لمبا ٹائم ہے۔ میرے بچے ، ان کے کام ، جنید کا کھانا اور باقی کام ۔ سدرہ رونے کو آئی تھی۔ آئے ہائے لڑکی ! کیوں فکر کرتی ہو رخسانہ آتی تو ہے۔ دیکھ لے گی اور میں نے عنبر کو کال کر دی ہے۔ وہ آدھے گھنٹے تک آ رہی ہے۔ وہ سب دیکھ لے گی۔ اماں بی نے ایک سیکنڈ میں سارے مسئلوں کا حل بتا دیا تھا۔ سدرہ بوکھلا کر بولی، ہاں ٹھیک۔ آپ بلا لیں عنبر کو، میرے بچے بے چارے کیا کریں گے سو کام ہوتے ہیں۔ سدرہ کو اس وقت عنبر کی آمد نعمت سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ ہاں بھئی، آ رہی ہے۔ وہ تو تمہارے پاؤں کا سن کر بہت پریشان ہو گئی تھی، اور مشکل وقت میں اپنے ہی تو کام آتے ہیں۔ اچھا چلو، تم آرام کرو، میں تمہارے لیے ہلدی والا دودھ لے کر آتی ہوں۔ 
ہاجرہ کمرے سے باہر نکل گئیں اور سدرہ سوچ میں ڈوب گئی۔مشکل وقت کا تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھاکہ یہ مجھ پر بھی آ سکتا ہے،اور مجھے بھی کسی سہارے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔کیا کہا دادو؟ عنبر پھوپھو آ رہی ہیں؟ واہ دادو کتنا مزا آئے گا!زینب اور ولید کی آوازیں سدرہ کو صیاف صاف کمرے میں بھی سنائی دے رہی تھیں ۔ کاش ڈاکٹر ماما کو دو ہفتے کے بجائے ایک ماہ کا بیڈ ریسٹ کہہ دیتے تو عنبر پھوپھو ایک ماہ کے لیے ہمارے پاس رہنے کے لیے آجاتیں۔ زینب کی اس بات سے سدرہ کو غصہ تو آیا تھا لیکن بیٹی کی بات سن کر وہ ہنس بھی دی تھی۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ