پھپھو سورہی تھیں، اس لئے میں نے فرقان کو بلایا۔ وہ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ پھیجو کمرے میں آگئیں۔ وہ مجھے دودھ کا گلاس دینے آئی تھیں۔ میں ان کو دیکھ کر گھبرا گئی۔ فرقان نے سلام کی تو انہوں نے گالیاں دینا شروع کر دیں اور مجھے بھی ڈانٹا کہ شوہر کے پیچھے یہ گل کھلاتی ہو۔ میں نے اسے صرف باتیں کرنے کو بلایا تھا، مگر وہ نہ مانیں اور کہا کہ محمود کو آنے دو، میں اُسے سب بتا دوں گی۔ تب فرقان نے ان کا خاتمہ کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر یہ زندہ بچیں، تو تمہارے خاوند کو بتا دیں گی۔ وہ تم کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ اور اگر چھوڑ بھی دیا، مگر اس سبب سے طلاق دے دی، تو تم بد نام ہو جاؤ گی۔ سو میں نے اس کی باتوں پر عمل کیا۔ اس نے چھری سے ان کے جسم پر ر کے لگائے اور میں نے پھپھو کو پکڑے رکھا۔ ان کا کافی خون شکل آیا تھا اور وہ بے ہوش ہو گئی تھیں ، تب اس نے اُن کے منہ پر تکیہ رکھ دیا تا کہ سانسیں جلد ختم ہوں۔
جب یقین ہو گیا کہ وہ مر چکی ہیں، تو وہ ان کو گھسیٹ کر باتھ روم میں لے گیا اور مجھے کہا کہ میں جارہا ہوں، تم سب کو اکٹھا کر کے کہو کہ پھپھو ہاتھ روم میں گری ہوئی ہیں۔ سو میں نے لوگوں کو بلا لیا اور کہا کہ اٹھتے ہوئے ان کے سر پر ٹونٹی لگی تھی اور یہ گر کر زخمی ہوتی ہیں۔ ساری حقیقت سن کر محمود کی آنکھیں سرخ ہو گی ر محمود کی آنکھیں سرخ ہو گئیں ۔ اس نے کہا کہ تم نے میری ماں کو مار دیا، میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا، مگر پہلے میں فرقان رسیدها سے مل لوں۔ وہ اسی وقت اٹھا، بازار سے تیز دھار چھری خریدی اور سیدھ فرقان کے گھر گیا۔ اگلے دن اس کی ماں کا سوئم تھا۔ اس نے فرقان سے کہا۔ یار ذرا بازار تک میرے ساتھ چلو، کچھ سامان لینا ہے۔ وہ اس کے ساتھ چلا گیا۔
وہ جب قبرستان کے قریب سے گزرے تو کافی اندھیر اٹھتا۔ اس وقت محمود نے اس پر چھری سے وار کر دیا، مگر لوگ بیچ بچاؤ کے لئے آگئے کیونکہ شازیہ نے سب کو بتا دیا تھا کہ محمود، فرقان کو مارنے جارہا۔ ہے۔ لوگ جمع ہو گئے ، انہوں نے محمود کو قابو کیا اور فرقان کو اسپتال لے گئے ، جبکہ محمود کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ یوں پورا گھر تباہ ہو گیا۔ ماں بھی گئی اور بیٹا جیل پہنچ گیا مگر محمود نے شازیہ والی بات کسی کو نہ بتائی۔ اُدھر اس کے بھائی نے قبر کی کھدائی کا حکم دیا کیونکہ محمود نے اپنے بھائی کو پیغام بھیجا کہ تم کسی نہ کسی طرح، میت کا پوسٹ مارٹم کراؤ۔ جب قبر پر گئے تو وہاں پولیس موجود تھی۔ ان لوگوں نے قبر کھودنے سے منع کر دیا۔ لوگوں نے احتجاج کیا، چار پانچ دن بحث چلتی رہی، مگر کوئی حل نہ نکالا۔ آخر رشتہ داروں نے جلوس نکالا ، تب کہیں جا کر پولیس راضی ہوئی۔ قبر کی کھدائی کی گئی، اس لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتا چلا کہ مرحوم کو کافی اذیت دے کر مارا گیا ہے۔ بعد میں پولیس مقتولہ کے گھر گئی، کیونکہ سب لوگوں کو شازیہ پر شک تھا۔ پہلے پہل تو اس نے نہیں مانا، کبھی کہتی کہ میں سورہی تھی، دھڑام کی آواز سن کر باہر آئی تو پھپھو غسل خانے میں گری ہوئی تھیں۔ کبھی کہتی کہ فرقان نے مارا ہے۔
پولیس تو راز اگلواہی لیتی ہے۔ آخر کار وہ پولیس کے شکنجے میں آگئی۔ فرقان چونکہ بیچ گیا تھا، اس لئے محمود کو کم سزا ہوئی۔ اگر وہ مر جاتا تو شاید محمود کو بھی سزائے موت ہو جاتی۔ محمود نے جیل سے بیوی کو پیغام بھیجا تھا کہ میں جب بھی باہر آیا، پہلے تمہارا کام تمام کر دوں گا۔ اسی ڈر سے شازیہ نے پولیس کے سامنے اقرار جرم کر لیا۔ اگر وہ نہ مانتی تو محمود ضرور اس کو قتل کر دیتا۔ وہ جیل میں رہ کر بھی زندہ رہنا چاہتی تھی۔ وہ جیل میں تھی ، مگر وہاں بھی اس کو سکون نہیں۔ ظاہر ہے، بے گناہ کا قتل کہاں آسانی سے معاف ہوتا ہے۔ اس کے رشتے دار ہر طرح سے اس کا خیال رکھ رہے تھے۔ انکل ریاض بتا رہے تھے کہ اس کے کپڑے اور ضرورت کی ہر چیز اسے پہنچ جاتی ہے، مگر شام ہوتے ہی اسے کچھ ہو جاتا ہے۔ وہ رات کو چینیں مار کر اٹھ بیٹھتی ہے۔
اس کا نفسیاتی علاج ہو رہا ہے۔ اگر وہ باہر جائے بھی تو تین چار قیدی عور تیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور اگر وہ اکیلی ہو، تو بقول شازیہ، اس کی پھپھو کفن میں لپٹی، اس کے سامنے آجاتی ہے اور کہتی ہے کہ تم نے مجھے بے گناہ قتل کیا، تمہیں بھی سکون نہیں ملے گا۔ شازیہ کی زندگی کا سکون ختم ہو گیا۔ اس نے کئی بار خود کشی کی کوشش بھی کی مگر قیدی عورتوں نے بچالیا۔ سزا بھگتنے کے بعد اسے رہائی مل گئی، مگر اب بھی اس کو چین نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے ؟ اپنی ماں جیسی پھپھو ، جو اس کی محسن تھی، جس نے اس کو پالا تھا۔ اس کے احسانوں کا بدلہ اس نے اسے بے رحمی سے قتل کر کے دیا، تو اس کو سکون کہاں سے ملے۔ ایسے کاموں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسی عورتوں کی آخرت اور عاقبت دونوں ہی خراب ہوتی ہیں، تاہم معاشرے کو بھی سوچنا چاہئے کہ ایسے واقعات آخر کیوں وقوع پذیر ہوتے ہیں ؟ ہر انسان کی فطرت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔
صبر والی عورتیں خاوند کی لمبی جدائی برداشت کرتی ہیں، مگر بے وفائی کی مرتکب نہیں ہو تیں ، لیکن کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں، جن کو اپنے نفس پر قابو نہیں ہوتا اور غلط راہوں کے مسافروں کی منزل ، سکون کے گہواروں کو نہیں جاتی بلکہ ہمیشہ کھوئی ہی ہوتی ہے۔
(ختم شد)