خان میرے والد صاحب کے پاس ملازمت کرتا تھا۔ والد صاحب کا کافی بڑا کاروبار تھا، جس کو خان بخوبی سنبھالتا تھا۔ والد صاحب اس سے بہت خوش تھے، یہاں تک کہ انہوں نے اسے بیٹا بنا لیا۔ وہ ہمارے گھر آنے جانے لگا۔ ان دنوں میری عمر اٹھارہ سال تھی، میں خوش شکل اور بانکی اداؤں والی تھی۔ خان کو میں بھا گئی اور مجھے بھی وہ اچھا لگا۔ میں نے ماں کو بتا دیا کہ مجھے خان پسند ہے اور چونکہ خان ابا جان کو بھی پسند ہے، آپ کوشش کریں کہ میرا رشتہ اس سے ہو جائے۔
میں ماں سے منتیں کرتی رہی، ان کا دل پسیج گیا اور انہوں نے اپنی طرف سے والد صاحب سے بات کی کہ لڑکا اچھا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ صدف کا رشتہ اس کے ساتھ ہو جائے۔ غالباً والد صاحب بھی یہی چاہتے تھے۔ انہوں نے امی سے کہا کہ صدف سے پوچھ لو، اگر وہ راضی ہے تو ہم خان کے گھر والوں سے ملتے ہیں۔ امی کو مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ میں تو پہلے ہی ان سے کہہ چکی تھی۔ خان بھی دل سے راضی تھا، لیکن مسئلہ اس کے گھر والوں کا تھا۔ اس نے جا کر اپنے والدین کو راضی کرنے کی کوشش کی، مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ صرف اس کا ایک بڑا بہنوئی اس بات کے حق میں تھا کہ اگر خان اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے کرنے دی جائے۔
گھر والوں نے ساتھ نہ دیا، لیکن اس کا بہنوئی اپنی بیوی کو لے کر ہمارے گھر آ گیا۔ اس نے والد صاحب کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں، ہم بعد میں والدین کو راضی کر لیں گے۔ ابھی میں اور میری بیوی خان کے ساتھ ہیں، آپ ہم پر بھروسا کر کے اپنی بیٹی کی اس سے شادی کر دیں۔ آگے کا ذمہ ہم اٹھاتے ہیں۔ والد صاحب کچھ تذبذب میں تھے، لیکن یہاں بھی ماں کی محبت ڈھال بنی۔ انہوں نے ابو کو سمجھا بجھا کر راضی کر لیا۔ یوں دولہا کی طرف سے اس کا بہنوئی اور سگا بھائی ساتھ ہوئے اور ہماری شادی ہو گئی۔
شادی کے بعد خان مجھے اپنی بڑی بہن کے گھر لے گیا اور ہم دو ماہ وہاں ان کے ساتھ رہے۔ اس دوران میری بڑی نند اور اس کا شوہر خان کے والدین کے پاس جاتے رہے اور انہیں سمجھاتے رہے۔ بالآخر انہوں نے ہمیں گھر آنے کی اجازت دے دی۔ ہم ڈرتے ڈرتے سسرال گئے۔ خان کے والدین نے بظاہر رضا مندی ظاہر کی اور کسی قسم کی خفگی کا اظہار نہیں کیا۔ میں خوش ہو گئی کہ سسرال والوں نے مجھے قبول کر لیا ہے۔ میں خود کو بے حد خوش قسمت سمجھتی تھی کہ خان کا بے پناہ پیار میرے حصے میں آیا۔ وہ کہتے تھے کہ تم بہت نیک اطوار ہو، تم پہلے دن سے ہی مجھے پسند آ گئی تھیں، خدا سے دعا کرتا تھا کہ تم ہی میری بیوی بنو، دیکھو اللہ نے مجھ ناچیز کی دعائیں سن لیں، آج میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہوں۔
میرے شوہر کی یہ غلطی تھی کہ وہ اپنا پیار گھر والوں سے چھپا نہیں سکتے تھے اور سب کے سامنے ہی مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ یہ بات میرے سسرال والوں کو ناگوار گزرتی تھی، اس وجہ سے ان سب کا رویہ مجھ سے خراب ہونے لگا۔ شوہر نے مجھے سمجھایا کہ صبر سے رہنا اور منہ سے کچھ نہ کہنا، یہ جو بھی کہیں میری خاطر برداشت کر لینا۔ میں نے ان کی بات گرہ میں باندھ لی اور اب جو بھی میرے ساتھ ہوتا، چپ رہتی۔شادی کے بعد مجھے پتا چلا کہ خان صاحب نشہ بھی کرتے ہیں اور چرس کے سگریٹ پیتے ہیں، لیکن مجھے ان کے کسی رویے سے کوئی شکوہ نہ تھا کیونکہ وہ میرا بہت خیال رکھتے اور مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ میں نے کبھی گھر کے حالات والدین کو جا کر نہیں بتائے، نہ ہی چاہتی تھی کہ ان کا دل دکھے یا ان کی میرے سسرالیوں سے تلخی ہو جائے۔ ہر بات دل پر سہ لیتی تھی۔ایک دن سخت گرمی تھی، پانی بھی نہیں آیا تھا، اور سب برتن، گھڑے خالی پڑے تھے۔ ہمارے گھر میں ایک کنواں تھا۔ میں نے دوپہر کے وقت، جب سب اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے، سخت گرمی میں کنویں سے سارے برتن بھر دیے۔ سارا گھر کا کام کرنے کے بعد تھکن محسوس ہو رہی تھی، اس لیے میں جا کر ایک کمرے میں سو گئی۔
تھوڑی دیر بعد میری منجھلی نند آئی، دروازہ کھولا، پنکھا بند کر دیا اور چلانے لگی کہ تم کون سی لاٹ صاحب کی بیٹی ہو جو یہاں آکر سو گئی ہو۔ تمہیں خبر ہے کہ ابھی میرے شوہر آنے والے ہیں اور وہ اسی پلنگ پر آکر سوئیں گے، تو تم جان بوجھ کر یہاں آ لیٹی ہو؟ یہ بات مجھے بہت ناگوار گزری۔ اس نے کچھ ایسے انداز میں بات کی کہ میں پتھر کی سی ہو گئی۔ مجھے تو نہ اس کے شوہر کے آنے کی خبر تھی، نہ یہ معلوم تھا کہ وہ کس کمرے میں سونا چاہتے تھے۔ میں حیران و پریشان بیٹھی تھی کہ اتنے میں خان آ گئے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں پریشان ہو؟ میں نے ساری بات بتا دی۔ کہنے لگے کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے، اس کے شوہر نے تو آنا ہی نہیں، وہ اس وقت کسی اہم ڈیوٹی پر دوسرے شہر میں ہے اور یہ صرف تمہیں پریشان کرنے کے لیے ایسی باتیں کر رہی ہے۔اب میں جان گئی کہ صبا نے مجھے رسوا کرنے کے لیے یہ سب کہا تھا۔
اس کا مقصد مجھے خان کی نظروں میں گرانا تھا، مگر اللہ نے میری لاج رکھ لی۔ خان نے نہ صرف میری بات پر یقین کیا بلکہ مجھے تسلی بھی دی کہ مجھے معلوم ہے، صبا نے یہ سب فساد پھیلانے کے لیے کہا ہے، تم فکر نہ کرو اور اس کی باتوں کو نظر انداز کرو۔صبا نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ کنویں سے جو پانی میں نے بھر کر رکھا تھا، وہ سب گرا دیا اور کہا کہ دوبارہ سارے برتن بھرو، کیونکہ وہ پانی خراب ہو چکا ہے۔ میں تھکن سے چور تھی، تب میرے شوہر نے خود جا کر بڑے بڑے ڈرموں میں پانی بھر دیا۔
ایک بار خان نے پریشانی میں آ کر زیادہ نشہ کر لیا تو ان کی ماں نے انہیں اپنی بڑی بیٹی اور داماد کے گھر بھجوا دیا، جنہوں نے ہماری شادی کروائی تھی۔ ان سے کہا کہ اس کو سنبھالو اور کچھ عرصہ اپنی طرف رکھو، کیونکہ وہ بیوی کی وجہ سے پریشان رہتا ہے اور نشہ کرنے لگتا ہے۔ وہ گھریلو جھگڑوں سے بیمار ہو گیا ہے۔ یوں ساس نے انہیں مجھ سے دور کر دیا، حالانکہ ان دنوں ان کی ذہنی حالت درست نہ تھی اور انہیں میری سخت ضرورت تھی۔ میری جدائی سے خان اور زیادہ دل شکستہ ہو گئے۔ ان کا دل وہاں نہیں لگتا تھا۔ وہ اور زیادہ سگریٹ پیتے، تو وہاں لوگ انہیں نشے کا انجیکشن لگا کر سلا دیتے تھے کہ اسے نیند اور سکون کی ضرورت ہے۔ مگر ان کے اصل مسئلے کو کسی نے نہ سمجھا۔تین ماہ گزر گئے، وہ گھر نہ آئے۔ اِدھر میں ان کی جدائی میں تڑپتی رہی۔ جی چاہتا کہ وہ آ جائیں یا میں اڑ کر ان تک پہنچ جاؤں، مگر میں بھی مجبور تھی۔ میری ساس مجھے ان کے پاس جانے نہیں دیتی تھی۔
انہیں جب ہوش آتا، وہ میرا نام پکارتے۔ بالآخر بات نندوئی کی سمجھ میں آ گئی۔ وہ میری ساس کے پاس آئے اور کہا کہ بانو کو خان کے پاس بھیج دیں، ورنہ وہ اس کی جدائی میں مر جائے گا۔ مگر ساس نے مجھے نندوئی کے ساتھ بھیجنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر تین ماہ بعد خان خود گھر واپس آ گئے۔ وہ اپنی ماں سے سخت خفا تھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ مجھے لے کر علیحدہ گھر میں رہیں گے۔ چنانچہ انہوں نے میرا اور اپنا سامان اٹھایا اور ہم قریبی ایک اور گھر میں منتقل ہو گئے۔ چند دن گزرنے کے بعد میں نے سوچا کہ ساس سسر کو سلام کر آؤں، شاید اس بہانے وہ راضی ہو جائیں۔ میں ان سے ملنے گئی، لیکن انہوں نے مجھے سخت بے عزتی کے ساتھ گھر سے نکال دیا۔
وہ دن میری ان کے در پر آخری حاضری کا دن تھا۔ شوہر نے بھی منع کر دیا کہ اب دوبارہ ادھر مت جانا۔ اس کے بعد ہماری ایک نئی، پرسکون اور محبت بھری زندگی کا آغاز ہوا۔ خان نے آہستہ آہستہ نشہ چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیٹا عطا کیا، اور زندگی خوشگوار گزرنے لگی۔ لیکن سسرال والوں کو ہماری یہ خوشی گوارا نہ تھی۔ ایک دن میری سب سے چھوٹی نند ثناء آئی اور میرے شوہر کو بہلا پھسلا کر لے گئی۔ اس نے کہا کہ ماں باپ اداس ہیں، ان سے مل آؤ اور ان کو رنجیدہ مت کرو۔ خان چلے گئے اور والدین کو منا لیا۔ ثناء کا شوہر مغربی جرمنی میں تھا۔ ان لوگوں نے خان کو ہر طرح کے سبز باغ دکھائے اور قائل کر لیا کہ وہ بھی جرمنی جائے، وہاں دولت کمائے تاکہ ہمارے مالی حالات بہتر ہو سکیں۔ آخرکار وہ مان گئے۔ جرمنی بلانے کے انتظامات مکمل ہونے کے بعد، ثناء کے شوہر نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ جاتے وقت خان مجھے میرے والدین کے گھر چھوڑ گئے کہ تم اکیلی یہاں کیسے رہو گی، میں وہاں سیٹ ہو جاؤں تو تمہیں بھی بلا لوں گا۔
شروع میں ان کے خطوط آتے رہے، لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی بند ہو گئے اور ہر قسم کا رابطہ ختم ہو گیا۔ دو سال یوں ہی خاموشی میں گزر گئے۔ جب کبھی سسرال جاتی، وہ خان کے بارے میں کچھ بھی نہ بتاتے۔ میں دوبارہ میکے آ گئی۔ والد صاحب کے ایک واقف کار جرمنی میں رہتے تھے۔ ہم نے انہیں خط لکھا اور خان کا پتہ بھی بھجوا دیا۔ انہوں نے معلومات حاصل کر کے بتایا کہ خان نے نندوئی کی مدد سے وہاں دوسری شادی کر لی ہے اور خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے سسرال والوں کو اس بات کا علم تھا، مگر انہوں نے یہ حقیقت مجھ سے چھپا رکھی تھی۔ میں نے خان کو بے شمار خطوط لکھے، مگر کسی کا جواب نہ آیا۔ میں سوچتی کہ اس شخص کا مجھ سے پیار تو سونے جیسا تھا، پھر سونے کا رنگ اتنی جلد کیسے اتر گیا؟ پھر بھی میں نے چار سال اور صبر کیا کہ مرد دو شادیاں کر لیتے ہیں، شاید مجھے طلاق نہ دے، اور کسی دن لوٹ کر آ جائے۔ مگر وہ نہ آئے، نہ ہی کوئی رابطہ کیا۔ بالآخر والد صاحب نے ہمت کی اور ایک بڑے قابل وکیل کے ذریعے عدالتی کارروائی کروا دی۔
ہمارے وکیل نے جرمنی کے وکیل سے رابطہ کیا اور کیس لڑا۔ پتہ چلا کہ خان نے وہاں یہ بتایا تھا کہ اس کی پہلی بیوی ہے، اس لیے اس نے دوسری شادی کی تھی۔ میں ثبوت کے طور پر خود پیش ہو گئی اور اپنا بیٹا بھی دکھایا۔ وکیل نے جرمن عدالت کو اس ظلم سے آگاہ کیا، تو اس کی دوسری بیوی نے خان سے طلاق حاصل کر لی۔ خان کا وہاں رہنا بھی دشوار ہو گیا اور وہ واپس چلا آیا۔ وہ اپنے کیے پر شرمندہ تھا، میں نے اسے دل سے معاف کر دیا۔ میری لٹی پھٹی زندگی میں پھر سے بہار آ گئی۔
(ختم شد)