یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ ہم دو بہن بھائی تھے اور آپس میں بڑی محبت تھی۔ میرا نام فرح اور بھائی کا نام انور تھا۔ ہمارا بچپن پیاری ماں کے زیرِ سایہ بہت سکون اور آرام سے گزرا۔ خوشیوں بھرے دن تھے۔ ممتا کے گلاب ہمارے اطراف کھلے رہتے تھے۔ اچانک امی بیمار ہو گئیں اور دو ماہ بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ وہ ہم دونوں بچوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔ والد صاحب بھی ہم سے بے حد محبت کرتے تھے۔ تقریباً دو سال بعد انہوں نے دوسری شادی کر لی۔
ہم نادان تھے۔ اس دن بہت خوش ہوئے کہ نئی امی آ گئی ہیں۔ سجی سنوری دلہن بچوں کو ہمیشہ دلکش لگتی ہے۔ ہمارے دلوں کو بھی وہ نئی ماں بہت اچھی لگی اور ہم دونوں تتلیوں کی طرح اُن کے گرد منڈلانے لگے۔ والد صاحب نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ بچے چھوٹے اور معصوم ہیں، انہیں ماں جیسا پیار دینا ہوگا۔ لہٰذا نئی ماں ہمیں پیار کرنے لگیں۔ وقت گزرتا گیا اور ہمارا ایک بھائی اور آ گیا۔ یہ قدرتی بات تھی کہ ماں کی زیادہ توجہ اپنے لختِ جگر کی طرف ہو گئی۔ رفتہ رفتہ ان کا رویہ ہم دونوں کے لیے بدلنے لگا۔ وہ ہمارے لیے اجنبی بن گئیں۔
ہم دونوں بہن بھائی بہت پریشان رہنے لگے۔ وقت گزرتا رہا۔ امی کے دو بیٹے اور آ گئے۔ ان کی تین سگی اولادیں ہو گئیں۔ گھر ان کی چہکاروں سے بھر گیا۔ اب ان کو ہماری ضرورت نہ رہی، لیکن ہمیں تو والدین اور گھر کی ضرورت تھی، بھلا کہاں جاتے؟ ماں کے تمام ستم سہہ کر بھی ان کے ساتھ رہنے پر مجبور تھے۔
میں بڑی ہو گئی اور سمجھ دار بھی۔ گھر کا سارا کام ماں نے میرے سپرد کر دیا۔ سارا دن کام کرتی، اور جو تھوڑا وقت بچتا، وہ کہتیں کہ میرے بچوں کے ساتھ کھیلو۔ وہ لڑکے بہت شریر تھے۔ کھیل کھیل میں کبھی میرا سر پھاڑ دیتے، کبھی گیند مار دیتے، اور کبھی ہلے سے ضرب لگاتے۔ میں درد سے بلبلا اٹھتی۔ مجھے پڑھائی کی فرصت نہ ملتی تھی۔ ماں ایک پل بھی فارغ نہ بیٹھنے دیتی تھیں۔
ماں نے میرے ساتھ ایسا سلوک اختیار کر لیا تھا کہ جو بھی گھر آتا، مجھے نوکرانی سمجھتا۔ تینوں سوتیلے بھائی ہر وقت حکم چلاتے۔ وہ مجھے سچ مچ خادمہ ہی سمجھتے تھے۔ بات بات پر لاتیں، ٹھڈے مارتے۔ یہ سب منظر دیکھ کر میرا بھائی انور اندر ہی اندر کڑھتا رہتا تھا۔ اُس وقت وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا جبکہ مجھے اسکول سے اُٹھا لیا گیا تھا۔
انور کو بہت اذیت ہوتی جب امی مجھے ذرا ذرا سی بات پر مارتیں اور میں سسکتے ہوئے چپ چاپ مار کھاتی رہتی۔ میں ہر وقت سہمی سہمی رہتی تھی۔ ایک دن تو گھر میں قیامت ہی برپا ہو گئی۔
اُس دن جب انور اسکول سے گھر آیا تو میں بیٹھی رو رہی تھی اور تینوں چھوٹے بھائی مل کر مجھے مار رہے تھے۔ انور سے یہ منظر دیکھا نہ گیا۔ پہلے تو اُس نے انہیں منع کیا، لیکن وہ بولے کہ تمہیں کیا، یہ ہماری نوکرانی ہے، ہم اسے ماریں گے۔ امی نے بھی اپنے بیٹوں ہی کی طرف داری کی۔ تبھی انور کو غصہ آ گیا۔ سامنے ایک ڈنڈا پڑا ہوا تھا، جس سے سوتیلے بھائی مجھے مارا کرتے تھے۔ انور نے وہ ڈنڈا اُٹھایا اور امی کو خوب مارا۔ جب چھوٹے بھائی درمیان میں آئے تو انہیں بھی مارا۔ امی شور مچاتی ہوئی محلے والوں کے پاس چلی گئیں۔
شام کو ابو دفتر سے واپس آئے تو امی نے روتے روتے برا حال کر لیا اور کہا کہ میں نہ کہتی تھی، اس بدتمیز لڑکے کو گھر میں نہ رکھو؟ آج اس نے یہ حرکت کی ہے، کل کچھ اور کر بیٹھے گا۔
ابو امی کی باتوں پر ایسے یقین کر لیتے تھے جیسے اُن پر کسی نے جادو کر دیا ہو۔ وہ امی کے اکسانے پر انور کو کمرے سے باہر لے آئے اور روتی ہوئی بیوی کو خوش کرنے کے لیے اُس قدر مارا کہ میرا بھائی بے ہوش ہو گیا۔ میں بہن تھی، اپنے بھائی کو اس بری طرح پٹتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ ابو کے پاؤں پڑ گئی، التجا کی کہ ابو جی، اسے نہ ماریں، بس کریں، ورنہ میں مر جاؤں گی۔
والد صاحب پر جیسے جنون سوار تھا۔ میری ایک نہ سنی اور دھکا دے کر بولے کہ تم بھی دفع ہو جاؤ، اب انور جیسے بگڑے ہوئے لڑکے کے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
میں نے انور کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کہا، اٹھو میرے پیارے بھائی، اٹھو۔ انور کو ہوش آ گیا تو باپ اُسے دھکے دینے لگا۔ وہ ان کے پاؤں پکڑ کر کہنے لگا کہ خدا کے لیے مجھے گھر سے نہ نکالیں، چاہے جتنا ماریں، میں کہاں جاؤں گا؟ میری بہن سے مجھے جدا نہ کریں۔ مگر والد نے ایک نہ سنی۔ بیٹے کو گھر سے نکال کر دروازے کی کنڈی لگا دی اور کہا کہ اب اس گھر کا دروازہ تم پر ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔
خالہ کلثوم ہمارے ساتھ والے گھر میں رہتی تھیں۔ وہ ہمارے دکھ درد کو سمجھتی تھیں کیونکہ مرحومہ ماں کی بہت اچھی سہیلی تھیں۔ جب سے امی کا انتقال ہوا تھا، انہوں نے ہمارے گھر آنا جانا بند کر دیا تھا۔ ان کے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ انہیں جب یہ ماجرا معلوم ہوا تو انہوں نے انور سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ رہو، تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔بھائی دروازے کے باہر کھڑا رو رہا تھا۔ خالہ اُسے بازو سے پکڑ کر اپنے گھر لے گئیں۔ اُس وقت تو انور خالہ کلثوم کے گھر چلا گیا، مگر یہ اس کا مستقل ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ بمشکل ایک ہفتہ وہاں رہ سکا۔دوپہر کو جب سب سوئے ہوئے تھے، انور نے اپنے کپڑے اٹھائے اور انجانے راستے پر نکل گیا۔ میرے پاس صرف پچاس روپے تھے، جو میں نے اس کے کپڑوں کے بیگ میں رکھ دیے تھے اور وہ بیگ خالہ کی بیٹی کے ہاتھ بھجوا دیا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ انور نے کپڑے کسی خاص نیت سے منگوائے ہیں۔
انور بس میں سوار ہوا اور ایک انجانی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ پشاور میں ایک ہفتہ مارا مارا پھرتا رہا، مگر کہیں نوکری نہ ملی۔ ایک ہوٹل پر برتن دھونے لگا، جہاں بدلے میں کھانا دے دیا جاتا تھا۔
اچانک قدرت اس پر مہربان ہو گئی۔ ایک دن ایک شخص ہوٹل پر کھانا کھانے آیا۔ وہ دیکھنے میں نیک اور بھلا محسوس ہوتا تھا۔ میرے بھائی نے اسے کہا کہ مجھے نوکری کی ضرورت ہے۔ پہلے تو اُس نے بات سنی ان سنی کر دی اور آگے بڑھ گیا، مگر انور نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ساتھ چلتا رہا۔ آخرکار وہ شخص تنگ آ گیا اور پوچھا، تم کہاں سے آئے ہو؟انور نے اسے اپنا پتا بتا دیا۔ وہ شخص، جو سامان لے کر دوسرے شہر جا رہا تھا، بولا، اگر کوئی تمہاری ضمانت دے، تو میں تمہیں رکھ لوں گا۔ انور نے کہا، اس شہر میں تو میری کوئی ضمانت نہیں، البتہ اپنے شہر میں محلے والوں سے میرے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے۔یہ بات سن کر خان صاحب مطمئن ہو گئے اور انور کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ انہوں نے انور کو ٹرک چلانے کی تربیت دی، اور وہ ٹرک چلانے لگا۔ انور انہیں “خان چاچا” کہتا تھا۔
نو ماہ بعد میرے بھائی نے ہمارے پڑوس میں فون کر کے مجھے بتایا اور تسلی دی کہ فکر نہ کرو، میں خان چاچا کے پاس ہوں، کام کر رہا ہوں۔ کچھ کما لوں گا تو واپس آؤں گا۔ میں جو دن رات بھائی کے لیے تڑپ رہی تھی، اس کا فون سن کر دل کو سکون آ گیا۔ایک بار خان صاحب کو سامان لے کر دوسرے شہر جانا تھا، جو ہمارے شہر سے کچھ آگے تھا۔ انور نے بتایا کہ ہم اپنے شہر سے گزریں گے۔ خان صاحب نے کہا، ٹھیک ہے، سامان پہنچا کر واپسی پر تمہارے شہر چلیں گے۔واپسی پر خان کے ساتھ انور آیا، مگر وہ گھر نہیں آیا، بلکہ خالہ کلثوم کے گھر گیا۔ جب خالہ نے اسے دیکھا تو دوڑ کر گلے لگا لیا اور خوب روئیں۔ ان کی بیٹیاں اور بیٹا بھی انور کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ وہ سب سمجھ رہے تھے کہ انور کسی حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔
انور نے اپنی تمام داستان سنائی اور خان چاچا کا تعارف کروایا کہ انہی مہربان انسان کی بدولت آج میں زندہ ہوں، ورنہ شاید فاقوں کی وجہ سے مر چکا ہوتا۔ خان صاحب کو اصل حالات کا علم ہوا تو وہ غصے میں آ گئے اور بولے، ماں باپ ایسے بھی ہوتے ہیں؟انور نے خالہ کو کچھ چیزیں دیں کہ میری بہن کو دے دینا۔ خالہ میرے گھر آئیں اور کہا، تیرا بھائی آیا ہے، دو گھڑی کے لیے آ جا، اس سے مل لے۔ ماں نے یہ سنا تو آگ بگولا ہو گئیں اور خالہ پر برہم ہوئیں، یہ کہیں نہیں جائے گی۔ اگر اس نے قدم باہر نکالا تو میں اسے واپس گھر آنے نہ دوں گی۔خالہ نے فراست سے کام لیا اور نرمی سے امی کی منت سماجت کی، تم اولاد والی ہو، ایسا نہ کرو۔ اسے بھائی سے ملنے دو۔ آخرکار بڑی مشکل سے اجازت ملی اور میں خالہ کلثوم کے گھر آ کر بھائی سے ملی۔
بھائی کی صحت بہتر تھی، مگر میں تو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی۔ انور کو دیکھتے ہی دوڑ کر گلے لگ گئی۔ اتنے عرصے بعد ہم ملے تھے کہ آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس لمحے لگتا تھا جیسے کائنات کی ہر شے ہماری بد نصیبی پر آنسو بہا رہی ہو۔ذہن میں ایک ہی سوال تھا: اگر ہماری ماں زندہ ہوتیں تو کیا ہمارا ایسا حال ہوتا؟ دنیا میں سوتیلی ماؤں کی ہزار داستانیں سنی اور پڑھی تھیں۔ واقعی، اگر سوتیلی ماں بری ہو تو وہ قیامت بن جاتی ہے۔تھوڑی دیر ہم نے باتیں کیں، پھر بھائی جانے لگا۔ میرے سر پر ہاتھ رکھا اور صبر کی تلقین کی، پھر خان صاحب کے ساتھ واپس چلا گیا۔ میں کئی دن اسے یاد کر کے چپکے چپکے آنسو بہاتی رہی۔
واپسی پر خان چاچا نے کہا، انور، تم ٹرک چلا لو۔ انور نے جواب دیا، بہن کی حالت دیکھ کر میرے حواس ٹھکانے نہیں۔” خان صاحب نے تسلی دی، مرد بنو۔ زندگی میں دکھ سکھ آتے رہتے ہیں۔ حوصلہ رکھو۔اس کے بعد خان چاچا کے دل میں میرے بھائی کی بہت عزت بن گئی۔ انہوں نے اسے اپنے بیٹوں کی طرح چاہا اور اپنے گھر لے گئے، جہاں اپنی بیٹھک میں رہائش دی۔ شروع میں انور کا دل وہاں نہ لگا، مگر یہ لوگ شریف اور محبت کرنے والے تھے۔ خان چاچا کی بیوی نے بھی میرے بھائی کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا۔ انور کی دیانت اور شرافت کی وجہ سے وہ سب بہت خوش تھے اور کسی صورت اسے کھونا نہیں چاہتے تھے۔
خان صاحب کے پاس دولت اور زمین کی کمی نہ تھی، مگر ان کی ایک قبیلے سے دشمنی چل رہی تھی۔ انہوں نے اپنا ٹرک انور کے حوالے کر دیا اور کہا، کمائی جمع کرو تاکہ تمہاری عزت سے شادی کر سکوں۔ وہ انور سے بہت خوش تھے اور اس کی بہتری کے لیے سوچتے رہتے تھے۔بعد میں انور کو میری یاد ستانے لگی۔ وہ ایک روز اکیلا ہی ہمارے محلے آ گیا۔ خالہ کلثوم کے دروازے پر دستک دی۔ ان کی بیٹی انور کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ عزت سے گھر کے اندر لائی۔ جب انور نے خالہ کے بارے میں پوچھا، تو وہ رونے لگی، کیونکہ خالہ کو فوت ہوئے ایک سال ہو چکا تھا۔انور نے مجھ سے ملنے کی کوشش کی، مگر ماں نے خالہ کے گھر جانے کی اجازت نہ دی۔ وہ بغیر ملے ہی واپس چلا گیا۔ میں دروازے کی درز سے اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ میرے آنسو بارش کے قطروں کی طرح گالوں پر گرتے رہے۔
خان چاچا کو جب انور نے بتایا کہ ظالم ماں نے بہن سے ملنے نہیں دیا تو اسے بھی دکھ ہوا۔ کچھ سوچنے کے بعد اس نے اپنی بیٹی کی شادی میرے بھائی انور سے کر دی۔ ادھر ابو نے میری شادی کر دی، اور یہ سب میری سوتیلی ماں کے کہنے پر ہوا۔ میرا نکاح ان کے خالہ زاد بھائی سے کر دیا گیا جو نشہ کرتا تھا اور کماتا کچھ نہ تھا۔ تاہم مجھے گزارہ کرنا تھا، کہاں جاتی؟ اب میرے خرچے ابو ہی دیتے تھے، کسی کو میرے حالات نہیں بتاتے تھے اور نہ ہی یہ کہ مجھے کس شخص کے ساتھ بیاہا گیا ہے۔
شادی کے بعد انور دوبارہ مجھ سے ملنے آیا، مگر میں کہاں سے ملتی؟ جب اسے پتا چلا کہ میری شادی ہو گئی ہے تو وہ ابو کی دکان پر گیا تاکہ پوچھ سکے کہ آخر کس سے میری شادی کی گئی ہے۔ بھائی مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ ابو اسے راستے میں مل گئے۔ بھائی نے باپ کو سلام کیا، مگر انہوں نے جواب نہ دیا۔ انور بات کرنا چاہتا تھا، مگر ابو نے بات نہ کی۔ تب بھائی نے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا: بتائیے! آپ نے میری بہن کی شادی کس سے کی ہے؟ اور فرح کہاں رہتی ہے؟ مجھے ان سوالوں کا جواب چاہیے۔ والد بھی ضدی تھے، منہ سے ایک لفظ نہ نکلا۔ مایوس ہو کر انور بوجھل قدموں سے واپس لوٹ گیا۔ یوں باپ، بہن، اور بھائی تینوں بچھڑ گئے۔
شادی کو چھ برس گزر گئے۔ بھائی کا کچھ پتا نہ تھا۔ میں تین بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ ادھر بھائی کو بھی اللہ نے دو بیٹے عطا کیے اور وہ پشاور چھوڑ کر راولپنڈی آ گیا کیونکہ خان کے دشمن اسے دھمکاتے تھے۔ خان چاچا بھی ساتھ آ گئے۔ انہوں نے پنڈی میں مکان خرید لیا اور بھائی کو بس لے کر دی، پھر ویگن بھی دلوا دی۔ یوں کاروبار بڑھتا رہا اور وقت گزرتا رہا۔
میرے خاوند کا نشہ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ وہ بستر سے جا لگا۔ ایک دن اسی حالت میں انتقال کر گیا۔ اب والد صاحب کو احساس ہوا کہ انہوں نے بیوی کے کہنے پر اپنے خالہ زاد بھائی کو داماد بنا کر کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ میں پہلے ہی غریب تھی، اب بیوہ بھی ہو گئی۔ والد جو مالی مدد کرتے، وہ تین بچوں کے لیے ناکافی تھی۔ مجبوراً بڑے بیٹے کو ایک ورکشاپ میں ملازم کرا دیا۔ وہ ابھی کمسن تھا، استاد کی سختی اور جھڑکیاں برداشت نہ کر سکا۔ چنانچہ ایک دن ورکشاپ سے بھاگ نکلا۔
رات کا وقت تھا، بارش ہو رہی تھی۔ وہ سڑک کنارے کھڑا بھیگ رہا تھا۔ ایک ویگن قریب آکر رکی، لڑکا جلدی سے سڑک پار کرتے ہوئے ویگن کے سامنے آ گیا۔ ڈرائیور نے پھرتی سے گاڑی روک لی، مگر وہ کانپ گیا کہ ذرا سی دیر ہوتی تو بچہ گاڑی کے نیچے آ جاتا۔ وہ نیچے اترا، لڑکے کو اٹھایا اور اس کا نام پوچھا۔ لڑکا روتے ہوئے بولا، میرا نام انور ہے۔
باتوں باتوں میں لڑکے نے اپنی ماں اور نانا کا نام بتایا۔ ویگن ڈرائیور نے پوچھا، یہ نام کس نے رکھا؟ لڑکے نے کہا، میری ماں نے۔ کیونکہ میرے ماموں کا نام بھی انور ہے، جو ہم سے جدا ہو گئے۔ امی ان کی یاد میں دن رات روتی ہیں اور ان سے ملنے کی دعا کرتی ہیں۔
یہ سن کر ویگن ڈرائیور کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، کیونکہ وہ خود انور بھائی ہی تھا، جس کی گاڑی کے سامنے میرا بیٹا آیا تھا۔ یوں میرے بیٹے کے ذریعے میرا بچھڑا ہوا بھائی مجھ سے آن ملا۔ میں روتے ہوئے گلے لگ گئی۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ میرا بیٹا میرے بھائی کو لے آیا ہے۔ دل کو سکون ملا مگر آنسو رکنے کا نام نہ لیتے تھے۔
چند دن بعد انور ہمیں پنڈی لے گیا اور ہمارے لیے گھر لے لیا۔ کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ ابو بیمار ہیں۔ میں نے خالہ کلثوم کی بیٹی کو فون کیا تو اس نے کہا کہ حالات اچھے نہیں، واپس آ جاؤ۔ دکان بند ہے اور ماں، سوتیلے بہن بھائی پریشان ہیں۔
لڑکیوں کا دل نرم ہوتا ہے، میں نے بھائی کو راضی کر لیا۔ جب ہم گئے، ماں شرمندہ تھیں اور والد واقعی قریب المرگ تھے۔ گھر میں کھانے کا بھی انتظام نہ تھا۔ دل نے گوارہ نہ کیا کہ ہم باپ کو اس حال میں چھوڑ آئیں۔ ایک ماہ وہیں رہے۔ والد بہتر ہوئے تو بھائی انہیں بھی ساتھ لے آیا۔ قریب ہی مکان لے کر دے دیا تاکہ ہم دونوں بھائی بہن ان کی دیکھ بھال کر سکیں۔
وقت گزرتا گیا۔ والد صاحب بوڑھے ہو گئے اور ایک دن فوت ہو گئے۔ انور بھائی شرافت کا پیکر تھا۔ اس نے سوتیلی ماں اور ان کے بچوں کو بے آسرا نہ کیا۔ چھوٹے بھائیوں کو روزگار دلایا، میرے بچوں کو بھی کہیں ڈرائیور، کہیں کنڈیکٹر لگوا دیا تاکہ گھر کا خرچ چلتا رہے۔ میرے بچے اور سوتیلے بھائی میٹرک سے آگے نہ پڑھ سکے، لیکن بھائی کے بچے اچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور کامیاب زندگی کی دوڑ میں آگے نکل گئے۔
آج میں خوشحال زندگی گزار رہی ہوں، یہ سب میرے بھائی انور کی بدولت ہے۔ خدا ہر بہن کو ایسا نیک دل، پیار کرنے والا بھائی عطا کرے، جس نے ہزاروں مشکلات کے باوجود اپنی بہن اور باپ کی اولاد کو نہ بھلایا۔ آج جو کچھ بھی ہوں، انور بھائی کی وجہ سے ہوں۔ دن رات ان کے لیے سلامتی اور رزق میں برکت کی دعا کرتی ہوں۔
(ختم شد)