مفت کا مال

Sublimegate Urdu Stories

جب صبا چھوٹی تھی، اس کے والد ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ وہ بس ڈرائیور تھے۔ ایک روز ان کی بس پہاڑی موڑ کاٹتے ہوئے کھائی میں جاگری۔ یوں صبا کی ماں نے بھری جوانی میں بیوگی کی چادر اوڑھ لی۔ ان دنوں صبا دو سال کی تھی اور اختر سال بھر کا۔باپ نہ رہا تو چچا ان دونوں کو اپنے گھر لے آئے۔ چچی نے کچھ دن حسنِ سلوک دکھایا، مگر جلد ہی اکتا گئی اور اس کا پیار سختی میں بدلنے لگا۔ ایک سال بعد یہ لوگ ماموں کے گھر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ننھیال میں بھی چند دن تک ان دکھیاروں کی آؤ بھگت ہوئی، پھر ممانیوں نے جینا دوبھر کردیا۔ شمیم خاتون دربدر جا کر بھائیوں کے گھروں میں کام کرتیں، تب کہیں ان تینوں کو کھانا نصیب ہوتا۔ گھر مشترکہ تھا لیکن سب کے کچن الگ تھے۔ شمیم خاتون کو بھائیوں نے چھت پر بنا ہوا ایک کمرہ رہائش کے لیے دے دیا۔ عزت سے سر چھپانے کو ٹھکانہ تو مل گیا مگر بھائیوں کو ایک مفت کی نوکرانی بھی میسر آگئی۔شمیم خاتون کو بڑی بھابھی ایک دن کا کھانا دیتی تو اگلے دن منجھلی کے کچن سے، اور تیسرے روز چھوٹی بھابھی کے دسترخوان سے پیٹ کی آگ بجھانے کو کچھ نہ کچھ لینا پڑتا۔

بھابھیوں سے کھانا لے کر بچوں کے آگے رکھنا بہت اہانت آمیز اور تکلیف دہ تھا۔ ایک روز اس نے بڑے بھائی سے کہا کہ میرے کچن میں راشن ڈلوا دیں تو مہربانی ہوگی۔ میں صبح سویرے اوپر ہی اپنے بچوں کے لیے کھانا بنا لیا کروں گی۔ بھائی سمجھ گئے کہ ان کی بیویاں بیوہ بہن کی زندگی اجیرن کررہی ہیں۔ تینوں آپس میں بیٹھے اور سوچا کہ شمیم ابھی مشکل سے بیس برس کی ہے۔ اتنی طویل زندگی وہ تنہا کیسے گزارے گی؟ بہتر ہے کہ کوئی شریف آدمی دیکھ کر اس کی شادی کرادی جائے، ورنہ وہ بیویوں کی چیرہ دستیوں سے نہ بچ سکے گی۔ چنانچہ انہوں نے عزیزوں اور دوستوں سے ذکر کیا اور جب ایک مناسب رشتہ مل گیا تو شمیم خاتون کا نکاحِ ثانی صغیر احمد سے کر دیا۔ صغیر کے دو بچے تھے لیکن اس کی بیوی وفات پا چکی تھی۔ بظاہر شریف آدمی لگتا تھا اور اپنا کاروبار بھی تھا۔ بھائیوں نے اللہ کے بھروسے پر یہ رشتہ قبول کرلیا، مگر اس شرط پر کہ صغیر احمد شمیم کے بچوں کو بھی اپنے بچوں کی طرح رکھے گا اور انہیں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گا۔
 
 صغیر احمد نے یہ شرط مان لی۔ یوں صبا کی ماں صغیر احمد کے گھر آباد ہوگئی اور دونوں کم سن بچوں کو اپنے ساتھ لے گئی۔ جب تک صبا اور اختر چھوٹے تھے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ سوتیلے باپ نے ان کا خیال رکھا اور ذرا تکلیف نہ دی۔ شمیم بھی شوہر کے بچوں کا بڑا خیال رکھتی تھی کیونکہ صغیر احمد گھر میں کسی شے کی کمی نہ ہونے دیتا تھا۔ نہ اپنے بچوں کے لیے اور نہ شمیم کے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ بچے بڑے ہوئے تو مسائل بھی بڑھنے لگے۔ بات یہ تھی کہ صغیر احمد کا مزاج کچھ اور طرح کا تھا اور اس کے گھر میں رشتے دار کھلے بندوں آتے جاتے تھے۔ یہ سب اس کے بھائی بھتیجے تھے۔ شمیم انہیں آنے سے روک تو نہیں سکتی تھی، مگر محسوس کرتی تھی کہ شوہر کے یہ رشتے دار محض صبا کی وجہ سے آتے ہیں کیونکہ وہ بہت حسین تھی۔

اس کی بھولی بھالی صورت پر وہ روپ آرہا تھا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔ ایک دن شمیم کا بھائی آیا تو اس نے اپنی پریشانی بیان کی کہ صبا اب بڑی ہوگئی ہے اور گھر میں صغیر کے رشتے دار آتے رہتے ہیں۔ ان کی نگاہیں میری جواں سال بیٹی کے چہرے پر جمی رہتی ہیں۔ میں یہ صورتِ حال نہیں سنبھال سکتی۔ آپ اسے اپنے گھر لے جائیں، پھر ہم اس کے لیے مناسب رشتے کی تلاش کریں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کی شادی جلد ہوجائے۔ ان دنوں صبا اور اختر دونوں دسویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ ماموں کے گھر صبا کو گئے تین روز ہوئے تھے کہ اختر ایک دن صبح اسکول گیا، مگر شام تک نہ لوٹا۔ ماں پریشان ہوگئی۔ صغیر احمد بھی مخمصے میں پڑ گیا کیونکہ لڑکا ہمیشہ وقت پر اسکول جاتا اور ٹھیک وقت پر گھر آجاتا تھا۔ آج کیا ہوا کہ ابھی تک واپس نہیں آیا؟ دن ڈھلنے لگا۔ شمیم خاتون کی طبیعت بگڑنے لگی۔ رو رو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی کہ میرا بیٹا جہاں بھی ہے خیریت سے گھر واپس آجائے۔ محلے داروں سے پوچھ لیا… استاد کے گھر بھی پتہ کیا، مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ تین دن گزر گئے۔ تب سوتیلے باپ نے پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کروائی کہ ہمارا لڑکا غائب ہے۔پولیس نے محلے کے لڑکوں سے پوچھ گچھ کی تو ایک لڑکے نے بتایا کہ اس نے اختر کو رضوان کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔ 
 
پولیس نے رضوان کو تھانے بٹھا لیا۔ پہلے تو اس نے کچھ نہ بتایا، مگر جب دو چار تھپڑ پڑے تو سب کچھ اگل دیا۔ پولیس کے آگے بڑے بڑوں کے پتے پانی ہوجاتے ہیں، یہ چھوکرا کیا چیز تھا! چند جھانپڑ ہی کافی ہوگئے۔ رضوان نے ایسا سنسنی خیز انکشاف کیا جو ناقابلِ یقین تھا۔ اس نے بتایا کہ اختر کی بہن صبا روز پیدل اسکول جاتی تھی۔ وہ مجھے اچھی لگتی تھی۔ میں اس سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن وہ مجھ سے بات نہ کرتی تھی۔ ایک روز اس امید پر کہ شاید آج وہ بات کرلے، میں اس کے پیچھے پیچھے جارہا تھا کہ سامنے سے اختر آگیا۔ وہ اپنے اسکول جاتے جاتے راستے سے واپس پلٹا تھا، شاید کچھ گھر بھول آیا تھا۔ اسے دیکھ کر صبا نے آواز دی اور میری شکایت کردی کہ بھائی، یہ لڑکا روز میرے پیچھے آتا ہے اور مجھے تنگ کرتا ہے۔ اختر نے اسے کہا کہ یہ میرا دوست ہے، میں اسے سمجھا دوں گا۔ تم ابھی اسکول جاؤ، یہ تمہارے پیچھے آئندہ نہیں آئے گا۔

جب صبا آگے چلی گئی تو اختر نے رضوان سے کہا کہ تم کو شرم آنی چاہیے۔ تم ہمارے محلے کے ہو اور میری بہن کے پیچھے آتے ہو۔ رضوان نے جواب دیا کہ وہ تمہاری بہن ہے، میری تو نہیں ہے۔ اختر کو غصہ آگیا اور اس نے رضوان کا گریبان پکڑ لیا۔ دونوں دوست دست و گریباں ہوگئے۔ یہ واقعہ گھر سے کچھ دور ہوا تھا، اس لیے محلے والوں کو خبر نہ ہوئی۔ البتہ چند راہ چلتے لوگوں نے سمجھا بجھا کر معاملہ رفع دفع کرا دیا۔ بہن کا معاملہ تھا، اس لیے اختر نے بھی کسی سے ذکر نہ کیا۔اس واقعے کے چند دن بعد رضوان ملا تو اس نے معافی مانگی اور ندامت کا اظہار کیا۔ اختر نے اسے معاف کر دیا۔ رضوان نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ آئندہ میں خود تمہاری بہن کی حفاظت کروں گا۔ محلے کی ہر لڑکی بہن کی طرح ہی ہوتی ہے۔ مجھ سے غلطی ہوگئی، ساری عمر تم سے شرمندہ رہوں گا۔ اس کے بعد دونوں میں دوستی قائم ہوگئی۔
 
 اختر نے دل صاف کرلیا مگر رضوان نے دل میں کینہ پال لیا۔ وہ بظاہر دوست بن گیا لیکن اندر ہی اندر موقع ملنے پر بدلہ لینے کے فیصلے پر قائم تھا۔انہی دنوں جب صبا ماموں کے گھر گئی ہوئی تھی، رضوان نے اسکول چھوڑنے کے بہانے اختر کو موٹر سائیکل پر بٹھا لیا اور ایک خالی مکان میں لے گیا جہاں اس کے دو دوست پہلے سے موجود تھے۔ یہ خالی مکان ان میں سے ایک کے چچا کا تھا جو دبئی گیا ہوا تھا اور چابی اپنے بھائی کے پاس چھوڑ گیا تھا۔ یہ لڑکا اکثر یہاں دوستوں کو لاتا تھا اور وہ تاش وغیرہ کھیلتے رہتے۔ رضوان بھی انہی میں شامل ہوتا تھا۔اختر پہلی بار آیا تھا۔ وہ اس گھر اور ماحول کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا کہ تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟ رضوان نے کہا کہ اپنے دوستوں کے بغیر سیر کا مزہ کہاں! ان دونوں کو لینے آیا ہوں۔ تم بیٹھو، پانی شربت پیو، پھر چلتے ہیں۔

گرمیوں کے دن تھے، اختر کو بھی پیاس لگی تھی۔ ایک لڑکے نے اسے شربت دیا۔ سبھی نے شربت پیا تو اس نے بھی پی لیا۔ لیکن انہوں نے اس کے گلاس میں نشہ آور گولیاں ڈال دی تھیں۔مشروب پینے کے کچھ ہی دیر بعد اس کا جسم بے جان ہونے لگا۔ جب وہ بے ہوش ہوگیا تو انہوں نے اسے چٹائی پر لٹا دیا اور اس کا کام تمام کر دیا۔ پھر اسی مکان کے صحن میں گڑھا کھود کر دفن کردیا۔ یوں رضوان نے اس دن کی لڑائی اور مار پیٹ کا بدلہ لے لیا۔پولیس نے رضوان کی نشاندہی پر مکان کا صحن کھودا تو اختر کی نعش برآمد ہوگئی۔ اس طرح اس کی گمشدگی کا معمہ حل ہوا۔ محلے والے انگشت بہ دنداں تھے کہ رضوان جیسا لڑکا ایسی حرکت بھی کر سکتا ہے۔ کسی کو یقین نہ آتا تھا کہ سترہ اٹھارہ سال کے لڑکے نے اتنا بڑا سانحہ انجام دیا ہے۔
 
رضوان پولیس کی حراست میں تھا، لیکن اس واقعے میں صبا کا نام بھی آچکا تھا۔ محلے والوں نے قیاس آرائیاں شروع کردیں کہ اسے ماموں کے گھر اسی وجہ سے بھیجا گیا ہے کہ شاید اس کا رضوان کے ساتھ کوئی غلط سلسلہ تھا۔ محلے بھر میں یہ جملہ پھیل گیا کہ بہن کی خاطر بھائی جان سے چلا گیا۔ ایک تو بیٹے کا قتل، اور اس پر لوگوں کی غلط باتوں نے شمیم خاتون کو بے حد پریشان اور بدحواس کردیا۔ اس نے بھائی سے کہا کہ اب صبا کو ادھر مت لانا ورنہ محلے والوں کی زبانیں اور کھل جائیں گی۔ کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈ کر اس کی شادی کردو۔اس جلد بازی میں ماموں نے بھی رشتہ زیادہ پرکھا نہیں اور جو پہلا رشتہ آیا، اس کے ساتھ بھانجی کی تقدیر وابستہ کر دی۔ یوں صبا مظفر گڑھ سے بیاہ کر ملتان چلی گئی۔ اس کے شوہر کا نام برکت تھا۔ وہ لاہور میں کوئی کاروبار کرتا تھا۔ ایک ماہ بعد صبا کو بھی ساتھ لے گیا۔ اس کے بعد کسی نے خبر نہ لی کہ اس کی زندگی کیسے گزر رہی ہے۔

ماں تو بیٹے کے ساتھ پیش آنے والے بھیانک سانحے سے نڈھال تھی۔ ماموں نے بھانجی بیاہ کر فرض ادا سمجھا۔ سوتیلا باپ زیادہ مداخلت مناسب نہیں سمجھتا تھا۔ صبا کا بھائی قتل ہوچکا تھا، اب کون اس کی فکر کرتا؟برکت کو تو ویسے ہی ایسی لڑکی کی تلاش تھی جو کم سن، خوبصورت ہو اور جس کا کوئی مضبوط سہارا نہ ہو۔ اسے صبا کی صورت میں من چاہا رشتہ مل گیا تھا۔ صبا کے لیے لاہور شہر اجنبی تھا۔ یہاں اس کی کسی سے واقفیت نہ تھی۔ برکت اچھا آدمی نہ تھا۔ اس کی سوسائٹی غلط لوگوں پر مشتمل تھی۔ رفتہ رفتہ اس کے عیوب صبا پر کھلنے لگے۔ پہلے پہل وہ اپنے دوست گھر لانے لگا جن میں بعض عیاش اور بااثر لوگ بھی شامل ہوتے۔ صبا سے کہتا کہ یہ افسر ہیں، میرے کاروبار میں مدد کرتے ہیں۔ جب آئیں تو اچھی طرح تیار ہو کر ملنا اور خود انہیں کھانا پیش کرنا، یہ ہماری کاروباری ضرورت ہے۔
 
 وہ صبا کو اچھے کپڑے پہناتا، سنگھار کراتا، اور اس کے دوست ایسی چیزیں پیتے کہ گھر میں ناگوار بو پھیل جاتی۔ ان کے قہقہے لگتے تو صبا گھبرا جاتی، ان کے سامنے جانے سے جھینپتی۔ تب برکت اسے ڈانٹتا کہ یہ کیا بداخلاقی ہے؟ مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤ۔ یہ بہت اہم لوگ ہیں۔اب یہ لوگ برکت کی غیر موجودگی میں بھی آنے لگے۔ صبا سخت پریشان رہنے لگی۔ ماں کو فون کرتی مگر وہ صحیح طرح بات نہ کر پاتی۔ اختر کے قتل کے بعد وہ خود ٹوٹ چکی تھی۔ایک دن برکت نے کہا کہ اس کے ایک امیر دوست نے دعوت کی ہے جہاں بڑے لوگوں کی بیگمات بھی آئیں گی، لہٰذا تم اچھا لباس پہن کر تیار ہوجاؤ۔ صبا کو یہ سب ناپسند تھا مگر شوہر کا حکم ماننے پر مجبور تھی۔اس روز خوب سنگھار کرا کے برکت اسے ایک گھر لے گیا اور فون سننے کے بہانے غائب ہوگیا۔ کافی دیر گزر گئی مگر وہ نہ لوٹا۔

صبا نے میزبان سے پوچھا کہ برکت کہاں ہیں۔ جواب ملا کہ وہ اب آئے گا بھی نہیں۔ وہ تمہیں طلاق دے کر تمہارا سودا کر گیا ہے۔ اب تم ہماری ملکیت ہو۔اس کے بعد صبا کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ناقابلِ بیان ہے۔اگلے روز وہ اسے ملتان لے گئے۔ یہاں بھی اسے مختلف جگہوں پر لے جایا جاتا رہا۔ دو سال بیت گئے۔ پھر وہ حرماں نصیب دوبارہ لاہور لائی گئی اور ایک ایسی جگہ بیچ دی گئی جسے جہنم کہنا ہی مناسب ہے۔وہ ماں کو بہت یاد کرتی مگر رابطہ ممکن نہ تھا۔ وہ ایسی دلدل میں تھی جہاں رہنے والی عورت کا رشتہ اپنے قریبی رشتے داروں سے بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ اس نے یہ دلدل آسانی سے قبول نہیں کی تھی، مگر ظلم سے پتھر بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس پر بھی ایسی سختیاں کی گئیں کہ وہ بالکل ٹوٹ گئی۔عورت کئی رشتوں کے ظلم سے بھاگ سکتی ہے مگر شوہر کے ظلم سے نکلنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ لوگ ہر بات کو میاں بیوی کا معاملہ کہہ کر عورت کا ساتھ نہیں دیتے۔ برکت بدبخت صبا کو بیوی بنا کر بازار کی زینت بنا گیا۔ صبا کے ماموں برکت کے نمبر پر رابطہ کرتے رہے مگر کوئی جواب نہ ملتا۔ سوتیلے باپ نے بھی چند بار کوشش کی مگر بے سود۔بہر حال صبا نے ہر پابندی قبول کی مگر وہ ماں سے ملنے کو بے چین تهی جس کی اجازت دلاور صاحب نہیں دے رہے تھے۔
ایک دن اس نے دلاور صاحب کے نوکر کو اعتماد میں لے کر اپنی مجبوری بتائی اور کہا کہ مہربانی ہوگی۔ ماں دلاور کے گھر نہ آسکتی تھی اور بغیر اجازت وہ بھی ماں کے گھر نہ پہنچ سکتی تھی۔ اس نے خط لکھ کر نوکر کو دیا کہ تم کسی طرح مظفر گڑھ جاکر یہ خط میرے ماموں کو پہنچاؤ۔ وہ ماں کو پہنچا دیں گے ۔ نوکر نے خط صبا کے ماموں کو پہنچادیا تو وہاں شور مچ گیا کہ لڑکی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ممانی نے خط پڑھ لیا تھا۔ شوہر سے کہا کہ جاکر دلاور زمیندار کو ڈھونڈو اور لڑکی کا پتا کرو جبکہ دلاور نے سختی سے منع کیا تھا کہ میری اجازت کے بغیر کسی میکے کے فرد سے رابطہ مت کرنا۔ جب مناسب سمجھوں گا میں خود رابطہ کروں گا۔دلاور کے نوکر سے بڑے ماموں کے بیٹے نے بات کی تھی اور خط بھی اسی نے لیا تھا۔ اس خط پر نوکر کا پتا لکھا تھا لیکن ماموں نے نوکر کی بجائے دلاور زمیندار کا کھوج لگا لیا کہ جس کو اس کے علاقے کا ہر آدمی جانتا تھا۔ اس طرح وہ دلاور صاحب کے اصل ڈیرے پر پہنچ گیا جہاں زمیندار خود تو نہ ملا مگر ایسا شخص مل گیا جو دلاور کا بہنوئی بھی تھا اور اس کا سالا بھی۔ اس کو بتایا کہ میں صبا کا ماموں ہوں، مجھے چٹھی ملی ہے کہ وہ دلاور کی منکوحہ ہے ، مجھے صبا اور اس کے خاوند سے ملاقات کرنی ہے۔

یہ بات سن کر سالے صاحب نے اس کو ڈیرے پر بٹھا دیا اور خود دلاور کے پاس گیا جو حویلی میں موجود تھا۔ احوال بتایا تو اس نے کہا شجاع خان تم اس بات کو پی جاؤ غلطی ہوگئی ہے کہ ایک بے وقعت عورت کو عزت دی ہے۔ اس نے میری لاج نہیں رکھی اور اس راز کو طشت ازبام کیا ہے۔ میں اس کو طلاق دے دوں گا مگر تم یہ بات کسی پر مت کھولنا اور جو شخص آیا ہے، اس کو کسی بہانے چلتا کرو۔ میں مزید کسی رشتے داری میں مجھ سےپڑنا نہیں چاہتا۔ شجاع نے آکر صبا کے ماموں کو کہا کہ دلاور صاحب گھر پر نہیں ملے۔ وہ شکار پر نکل گئے ہیں، آپ فی الحال واپس چلے جائیں۔ وہ خود آپ کی بھانجی کے ساتھ آپ کے گھر آجائیں گے۔
 
ماموں تو منہ لٹکا کر لوٹ گئے۔ دلاور نے صبا کو طلاق دے دی اور کہا کہ اب تم جہاں کہو میرا ڈرائیور چھوڑ آتا ہے۔ یہاں سے جو لے جانا چاہو لے جاؤ … کیونکہ تم کو رکھنا میرے لئے اب خطرے سے خالی نہیں ہے، تم قابل اعتبار نہیں ہو۔ میرے سالے کو بھی علم ہوگیا ہے کہ میں نے تم سے خفیہ نکاح کیا ہے۔ اگر وہ بھی ایسی ہی کسی عورت سے نکاح کرلے گا سے باز پرس نہ کر سکوں گا کہ تم نے میری بہن پر سوتن کیوں ڈالی سب سے بڑی بات یہ کہ ہر رشتہ دار کہے گا اگر دوسری شادی کرنی تھی تو کسی شریف خاندان میں کی ہوتی۔ اگر تمہاری اصلیت کا میرے لوگوں کو علم ہوگیا کہ تم کو میں کس جگہ سے اٹھا کر لایا ہوں تو میری ساکھ برباد ہوجائے گی اور کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہوں گا۔
یہ باتیں دلاور کے منہ سے سن کر صبا کا کلیجہ شق ہوگیا۔ وہ رونے لگی مگر دلاور نے جو کہہ دیا بس کہہ دیا۔ وہ چلا گیا اور ڈرائیور کو بھیج دیا۔ بی بی آپ نے کہاں جانا ہے، آپ کو چھوڑ آتا ہوں، سامان بھی اٹھالیں … صبا نے کوئی سامان نہ اٹھایا، جو جوڑا تن پر تھا بس وہی ساتھ تھا۔ اس نے ڈرائیور سے کہا کہ مجھے صاحب کے اس دوست کے گھر چھوڑ آو جہاں پر میرا نکاح ہوا تھا۔ صبا نے جب بھی ماموں کے گھر فون کیا، اس کی ممانی نے نفرت سے فون بند کردیا۔ سبھی کا یہی خیال تھا کہ اسی خراب لڑکی کی وجہ سے اختر کی جان گئی ہے۔ وہ بغیر تحقیق اور ثبوت کے سب الزام اسی پر دھرتے تھے۔ تا ہم صبا نے گناہ کے اس ماحول کو دل سے قبول نہیں کیا اور وہاں سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی۔

اس کے ٹھکانے پر جو لوگ آیا کرتے تھے، ان میں ایک زمیندار دلاور صاحب بھی تھے۔ صبا کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس شخص کی اس پر خاص توجہ ہے، لہٰذا اس نے دلاور کو اپنا احوال سنایا اور اپنا دکھ بیان کیا۔ دلاور بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہوچکے تھے۔ انہوں نے نکاح کی پیش کش کی، مگر اس شرط پر کہ یہ نکاح ان کے خاندان اور ملنے جلنے والوں سے پوشیدہ رہے گا۔ صبا تو چاہتی ہی یہی تھی کہ کوئی اسے ہر صورت اس بری جگہ سے نکال لے جائے۔ اس نے یہ بات خوشی سے قبول کرلی، حالانکہ دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا، مگر اسے عزت کی زندگی مل رہی تھی۔دلاور نے منہ مانگے دام دے کر اس قید پنچھی کو سوداگروں کے چنگل سے آزاد کرایا اور ایک دوست کے گھر نکاح کرلیا۔ مگر وہ بھی اسے وہ عزت نہ دے سکے جو ایک بیوی کا حق ہوتا ہے۔ اولاد کی پیدائش پر بھی پابندی لگا دی کہ ان کے پہلے سے بچے موجود تھے۔ صبا کو امید تھی کہ وہ دلاور کو وقت کے ساتھ سمجھا بجھا لے گی، وہ کچھ دن ان کے گھر رہ لے گی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ناصر صاحب کو صبا کی طلاق کی اطلاع دلاور نے دے دی تھی۔ چنانچہ جب وہ گھر آئے تو انہوں نے صبا کو اپنے گھر پناہ دینے کے بجائے دارالامان پہنچا دیا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جو لڑکی غلط بازار سے لائی گئی ہو، اسے اس چھت کے نیچے پناہ نہیں دی جاسکتی جہاں ان کی اپنی بیوی اور بچیاں رہتی ہوں۔
دارالامان میں اس نے مجھ سے کہا: وکیل صاحبہ، اب میں کس کے سہارے جیوں؟تب میں نے اس کے سوتیلے باپ صغیر احمد سے رابطہ کیا، اسے بلایا اور سمجھایا۔ وہ شریف آدمی گھبرا گیا۔ کہنے لگا: میری بھی بچیاں ہیں اور محلے میں صبا کی وجہ سے میری عزت خراب ہوئی۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہ خراب لڑکی تھی، اسی کی وجہ سے اس کا بھائی قتل ہوا۔ اب اسے گھر کیسے لے جاؤں؟بڑی مشکل سے دارالامان کی انچارج اور میں نے اسے راضی کیا کہ دنیا والوں کی پروا نہ کرے اور لڑکی کو اس کی ماں کے پاس لے جائے، کیونکہ صبا ماں سے ملنے کو بے قرار تھی۔صغیر احمد فطرتاً شریف آدمی تھا۔ اس نے ہماری بات مان لی اور صبا کو گھر لے جانے پر آمادہ ہوگیا۔ میں بھی ساتھ گئی اور ہم نے صبا کو اس کی ماں کے حوالے کیا۔اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا۔ زندگی نے فرصت نہ دی کہ دوبارہ لاہور سے مظفر گڑھ جا کر اس کا پتا کرتی۔ بہر حال امید ہے کہ اس کو سوتیلے باپ کے گھر رہنے کے لیے دو گز زمین مل ہی گئی ہوگی اور دعا ہے کہ اسے معاشرے میں وہ مقام بھی ملا ہو جو کسی عزت دار عورت کا حق ہوتا ہے۔
 
romantic stories
(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ