سادیہ میری سہیلی ہمارے ساتھ سکول جاتی لیکن کہیں غائب ہو جاتی اور کچھ نہ بتاتی۔ آخر ایک دن ہیمیں پتہ چل ہی گیا کہ وہ سامنے کتابوں کی دکان پر کام کرنے والے لڑکے احسان سے محبت کرتی ہے اور اس سے ملنے جاتی ہے۔ ایک رات سادیہ احسان سے ملنے دکان پر گئی۔ کسی محلے والے نے اسے دکان میں داخل ہوتے دیکھ لیا اور باہر سے دروازہ باہر سے بند کر دیا اور شور مچانے لگا۔
👇👇
دیپالپور کی پرسکون شاموں میں چھپی کئی کہانیاں تھیں، مگر ایک کہانی ایسی تھی جو وقت کے ساتھ میری یادوں میں امر ہو گئی۔ ہمارے پڑوس میں ظہور احمد کا گھر تھا، جن کی ایک بیٹی سادیہ اپنے نام کی طرح سادگی کا مجسمہ تھی۔ مگر یہ سادگی صرف اس کے نام تک محدود نہیں تھی، اس کے اندر ایک خود اعتمادی اور خوبصورتی کا غرور بھی چھپا ہوا تھا، جو اکثر لوگوں کو ناگوار گزرتا تھا۔
سادیہ چار بہنوں میں دوسری تھی۔ بڑی بہن کی شادی ہو چکی تھی اور اب سادیہ کی باری تھی۔ ماں اس کی شادی کے لیے فکر مند تھی، مگر باپ کی سخت مزاجی کے باعث کوئی رشتہ آگے نہیں بڑھتا تھا۔ پھر ایک دن ایک معقول رشتہ آیا، مگر یہ فیصلہ ہوا کہ چھوٹی بہن کی شادی پہلے کر دی جائے کیونکہ یہ سمجھا گیا کہ سادیہ کے لیے رشتے آتے رہیں گے۔
سادیہ کے گھر کے سامنے کتابوں کی ایک دکان تھی۔ ہم اسکول میں ساتھ پڑھتے تھے، لیکن اسمبلی کے وقت جب سب لڑکیاں قطار میں کھڑی ہوتیں، سادیہ اکثر غائب ہو جاتی۔ ایک دن میں نے پوچھا، “تم تو ہمارے ساتھ اسکول آئی تھیں، پھر کہاں چلی جاتی ہو؟” اس نے بہانہ بنا دیا، لیکن جلد ہی ہماری دوست آنسہ نے انکشاف کیا کہ سادیہ ایک لڑکے احسان سے محبت کرتی ہے اور اسی کے پیچھے جاتی ہے۔
میں نے سادیہ کو سمجھایا کہ یہ راستہ تمہیں مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔ لیکن وہ انجان بن گئی اور کہا، “یہ میرا ذاتی معاملہ ہے، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔” اس کے بعد میں نے خاموشی اختیار کر لی۔
وقت گزرتا گیا، اور سالانہ امتحانات قریب آ گئے۔ ہم سب پڑھائی میں مصروف ہو گئے۔ ایڈمٹ کارڈ لینے کے دن سب اسکول پہنچے، مگر سادیہ نہیں آئی۔ جب آنسہ سے پوچھا تو اس نے کہا، “تمہیں پتا ہے سادیہ کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ اب اس شہر میں نہیں ہے۔” پھر اس نے وہ واقعہ سنایا جس نے سب کچھ بدل دیا۔
ایک رات سادیہ احسان سے ملنے دکان پر گئی۔ کسی محلے والے نے اسے دکان میں داخل ہوتے دیکھ لیا اور دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ پھر سب محلے والوں کو جمع کر کے شور مچایا کہ “دونوں کو پکڑ لو!” کچھ لوگ پولیس بلانے پر اصرار کرنے لگے، مگر کچھ دردمند دل رکھنے والوں نے کہا کہ بات کو مزید نہ بڑھایا جائے۔ سادیہ کے والد کو بلایا گیا۔ وہ شرم کے مارے سر جھکائے اپنی بیٹی کو لے گئے۔
یہ واقعہ محلے میں آگ کی طرح پھیل گیا۔ لوگوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ سادیہ کو نانا کے گھر بھیج دیں۔ مگر وہ وہاں بھی زیادہ دن نہ رہی۔ جلد ہی خبر آئی کہ وہ دار الامان میں پناہ لے چکی ہے۔ والدین نے صاف کہہ دیا، “ہمارا اس لڑکی سے اب کوئی تعلق نہیں۔”
وقت گزرتا گیا۔ ہم نے اپنی تعلیم مکمل کی، شادیاں ہوئیں، اور اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے۔ لیکن کبھی کبھی میں سوچتی تھی کہ سادیہ کا کیا ہوا؟ کیا وہ اب بھی دار الامان میں ہے یا اس کی زندگی بدل گئی؟
سادیہ نے مسکراتے ہوئے کہا، “ہاں، یہ اللہ کا کرم ہے۔ دار الامان میں کافی عرصہ رہی۔ ایک دن وہاں کے نگراں افسر نے کہا کہ ہم تمہاری شادی کروانا چاہتے ہیں۔ پہلے تو جھجک محسوس ہوئی، مگر ان پر بھروسہ کیا اور ہاں کر دی۔ انہوں نے مجھے وقار سے ملوایا، جو ایک نیک دل انسان تھے۔ یوں میری شادی ہوئی اور میں کینیڈا آ گئی۔”
سادیہ نے مزید کہا، “جب میرے والدین نے مجھے چھوڑ دیا تو میں بالکل ٹوٹ گئی تھی۔ دار الامان میں رہنا آسان نہ تھا۔ ہر لمحہ یہ احساس دل پر چھایا رہتا تھا کہ میں اپنے گھر کی عزت نہ بچا سکی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ میں نے یہ سیکھا کہ اللہ ہر انسان کو دوسرا موقع دیتا ہے۔ علوی صاحب، جو دار الامان کے نگراں افسر تھے، نے نہ صرف مجھے سہارا دیا بلکہ میری زندگی کو نئی روشنی دی۔”
میں نے حیرت سے پوچھا، “وقار کیسے انسان ہیں؟”
سادیہ مسکرائی اور بولی، “وقار بہت سادہ اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ انہوں نے کبھی میرا ماضی نہیں کریدھا۔ وہ ہمیشہ مجھے کہتے ہیں کہ ماضی کو بھول کر حال میں جیو۔ انہی کے ساتھ میری زندگی میں سکون آیا ہے۔”
زندگی کے فیصلے کبھی انسان خود کرتا ہے اور کبھی قدرت ان کے لیے بہترین راستہ چنتی ہے۔ سادیہ کی زندگی کا سبق یہ ہے کہ اللہ کی رحمت ہر حال میں انسان
سادیہ چار بہنوں میں دوسری تھی۔ بڑی بہن کی شادی ہو چکی تھی اور اب سادیہ کی باری تھی۔ ماں اس کی شادی کے لیے فکر مند تھی، مگر باپ کی سخت مزاجی کے باعث کوئی رشتہ آگے نہیں بڑھتا تھا۔ پھر ایک دن ایک معقول رشتہ آیا، مگر یہ فیصلہ ہوا کہ چھوٹی بہن کی شادی پہلے کر دی جائے کیونکہ یہ سمجھا گیا کہ سادیہ کے لیے رشتے آتے رہیں گے۔
سادیہ کے گھر کے سامنے کتابوں کی ایک دکان تھی۔ ہم اسکول میں ساتھ پڑھتے تھے، لیکن اسمبلی کے وقت جب سب لڑکیاں قطار میں کھڑی ہوتیں، سادیہ اکثر غائب ہو جاتی۔ ایک دن میں نے پوچھا، “تم تو ہمارے ساتھ اسکول آئی تھیں، پھر کہاں چلی جاتی ہو؟” اس نے بہانہ بنا دیا، لیکن جلد ہی ہماری دوست آنسہ نے انکشاف کیا کہ سادیہ ایک لڑکے احسان سے محبت کرتی ہے اور اسی کے پیچھے جاتی ہے۔
میں نے سادیہ کو سمجھایا کہ یہ راستہ تمہیں مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔ لیکن وہ انجان بن گئی اور کہا، “یہ میرا ذاتی معاملہ ہے، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔” اس کے بعد میں نے خاموشی اختیار کر لی۔
وقت گزرتا گیا، اور سالانہ امتحانات قریب آ گئے۔ ہم سب پڑھائی میں مصروف ہو گئے۔ ایڈمٹ کارڈ لینے کے دن سب اسکول پہنچے، مگر سادیہ نہیں آئی۔ جب آنسہ سے پوچھا تو اس نے کہا، “تمہیں پتا ہے سادیہ کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ اب اس شہر میں نہیں ہے۔” پھر اس نے وہ واقعہ سنایا جس نے سب کچھ بدل دیا۔
ایک رات سادیہ احسان سے ملنے دکان پر گئی۔ کسی محلے والے نے اسے دکان میں داخل ہوتے دیکھ لیا اور دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ پھر سب محلے والوں کو جمع کر کے شور مچایا کہ “دونوں کو پکڑ لو!” کچھ لوگ پولیس بلانے پر اصرار کرنے لگے، مگر کچھ دردمند دل رکھنے والوں نے کہا کہ بات کو مزید نہ بڑھایا جائے۔ سادیہ کے والد کو بلایا گیا۔ وہ شرم کے مارے سر جھکائے اپنی بیٹی کو لے گئے۔
یہ واقعہ محلے میں آگ کی طرح پھیل گیا۔ لوگوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ سادیہ کو نانا کے گھر بھیج دیں۔ مگر وہ وہاں بھی زیادہ دن نہ رہی۔ جلد ہی خبر آئی کہ وہ دار الامان میں پناہ لے چکی ہے۔ والدین نے صاف کہہ دیا، “ہمارا اس لڑکی سے اب کوئی تعلق نہیں۔”
وقت گزرتا گیا۔ ہم نے اپنی تعلیم مکمل کی، شادیاں ہوئیں، اور اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے۔ لیکن کبھی کبھی میں سوچتی تھی کہ سادیہ کا کیا ہوا؟ کیا وہ اب بھی دار الامان میں ہے یا اس کی زندگی بدل گئی؟
پھر کئی سال بعد، جب ہم کینیڈا منتقل ہو چکے تھے، ایک شاپنگ مال میں میری ملاقات اچانک سادیہ سے ہو گئی۔ وہ بالکل بدلی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ نہ کوئی میک اپ، نہ غرور، بس ایک سکون اور سادگی۔ میں نے اس سے پوچھا، “تم یہاں؟ ہم نے سنا تھا تم دار الامان میں ہو۔”
سادیہ نے مسکراتے ہوئے کہا، “ہاں، یہ اللہ کا کرم ہے۔ دار الامان میں کافی عرصہ رہی۔ ایک دن وہاں کے نگراں افسر نے کہا کہ ہم تمہاری شادی کروانا چاہتے ہیں۔ پہلے تو جھجک محسوس ہوئی، مگر ان پر بھروسہ کیا اور ہاں کر دی۔ انہوں نے مجھے وقار سے ملوایا، جو ایک نیک دل انسان تھے۔ یوں میری شادی ہوئی اور میں کینیڈا آ گئی۔”
سادیہ نے مزید کہا، “جب میرے والدین نے مجھے چھوڑ دیا تو میں بالکل ٹوٹ گئی تھی۔ دار الامان میں رہنا آسان نہ تھا۔ ہر لمحہ یہ احساس دل پر چھایا رہتا تھا کہ میں اپنے گھر کی عزت نہ بچا سکی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ میں نے یہ سیکھا کہ اللہ ہر انسان کو دوسرا موقع دیتا ہے۔ علوی صاحب، جو دار الامان کے نگراں افسر تھے، نے نہ صرف مجھے سہارا دیا بلکہ میری زندگی کو نئی روشنی دی۔”
میں نے حیرت سے پوچھا، “وقار کیسے انسان ہیں؟”
سادیہ مسکرائی اور بولی، “وقار بہت سادہ اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ انہوں نے کبھی میرا ماضی نہیں کریدھا۔ وہ ہمیشہ مجھے کہتے ہیں کہ ماضی کو بھول کر حال میں جیو۔ انہی کے ساتھ میری زندگی میں سکون آیا ہے۔”
سادیہ کی کہانی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ یہ ایک سبق تھا کہ انسان کو دوسرا موقع دینا چاہیے۔ والدین کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی اولاد کی غلطیوں کو معاف کریں اور ان کی رہنمائی کریں۔
زندگی کے فیصلے کبھی انسان خود کرتا ہے اور کبھی قدرت ان کے لیے بہترین راستہ چنتی ہے۔ سادیہ کی زندگی کا سبق یہ ہے کہ اللہ کی رحمت ہر حال میں انسان
کے ساتھ ہوتی ہے، بشرطیکہ ہم اس پر بھروسہ رکھیں۔
0 تبصرے