جان دے دو گی

urdu font stories online

میری نسبت چچازاد احمد سے بچپن میں طے کر دی گئی، ایک دن ہم سب شادی میں گئے- میں نے محسوس کیا کہ میرا منگیتر میری طرف دیکھنے کی بجائے کسی اور  سمت دیکھ رہا ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ وہ زرغونہ  کو چاہنے لگا، آگ دونوں طرف برابر لگی، لیکن زرغونہ  کی شادی کہیں اور طے ہو گئی، اس لڑکی نے زہر کھا لیا اور اک دن پہلے مجھے اک خط دیا کہ احمد کو دے دوں۔ میں نے گھر آ کر وہ خط پڑھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
👇👇
میرا جنم ایسے علاقے میں ہوا جہاں عورت کیلئے قوانین بہت سخت ہیں۔ قانون کے بجائے روایات و رواج کہوں تو زیادہ صحیح ہو گا – ہمارا گھرانہ زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا مگر ہمارے لکھے تھے اور ان کا خاندان بھی تعلیم یافتہ تھا والدین بچوں پر سختی کرتے تھے مگر اس قدر نہیں کہ وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جائیں۔ 

والدین نے مجھے بچپن میں پیار دیا اور میں ایک نارمل شخصیت کی حامل فردتھی ۔ جب میٹرک میں تھی بابا جان نے میری نسبت چچازاد احمد سے طے کر دی۔ میں بہت خوش تھی۔ احمد مجھے پسند تھا۔ آپس میں محبت تھی لیکن اس وقت تو بہن، بھائیوں جیسی کہ ہم معصوم تھے۔ ایک ہی گھر میں رہتے تھے جس کو دیوار کے ذریعے دوحصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا کیونکہ بچے بڑے ہو گئے تھے۔ ہمارے والدین کا خیال تھا کہ میری اور احمد خان کی شادی دو سال بعد کر دی جائے چونکہ ہمارے خاندان میں بزرگ اپنی اولاد کی شادی میں دیر کو بد شگونی خیال کرتے تھے۔ جن دنوں میں نے میٹرک پاس کیا۔ کالج میں داخلے کی خواہش ظاہر کی۔

 کچھ پس و پیش کے بعد والد صاحب نے گرلز کالج میں داخلہ دلوادیا۔ میں نے سائنس میں داخلہ لیا کیونکہ دل میں ڈاکٹر بنے کی آرزو تھی۔ والدین نے منع نہ کیا کہ پڑھتی ہے تو پڑھنے دو۔ جب شادی کا وقت آئے گا تو شادی بھی کر دیں گے۔ فرسٹ ایئر میں تھی کہ ایک دن خالہ جان بیٹی کی شادی کا کارڈ دینے آگئیں۔ مجھے خوشی ہوئی تفریح کا کوئی موقع نکلا۔ کافی دنوں سے بوریت تھی جو کہ بڑھتی جارہی تھی ۔ خالہ زاد کی شادی پر ہم اور چچا کے اہل خانہ اکٹھے دو دن پہلے اسلام آباد گئے تا کہ شادی کے انتظامات میں ہاتھ بٹاسکیں۔ 

جاتے ہی میرے بھائی اور چچازاد، خالہ کے بیٹوں کے ساتھ کاموں میں لگ گئے۔ بارات والے دن ہم سب بڑے اہتمام سے تیار ہوئے۔ احمد نے بھی خوبصورت اور منفرد لباس زیب تن کیا۔ وہ تھری پیس سوٹ میں خوب ہی چچ رہا تھا ور میں بار بار اپنے ہونے والے جیون ساتھی کو دیکھ رہی تھی۔ وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ میں بھی بہت خوب تیار ہوئی تھی۔ میرالباس سب لڑکیوں سے زیادہ خوبصورت تھا۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ میرا منگیتر میری طرف دیکھنے کی بجائے کسی اور سمت دیکھ رہا ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ پھر سوچا کہ خوامخواہ جیلیس ہورہی ہوں ۔ وہ تو ویسے ہی اس لڑکی کو دیکھ رہا ہوگا کہ ہر لڑکی کو دیکھنا لڑکوں کی فطرت ہوتی ہے۔ رخصتی کا وقت آگیا۔

 دلہن کو دولھا والے لے کر چلے گئے۔ جب ہم گھر لوٹے، میں نے احمد کو کھویا کھویا پایا۔ پوچھا کیا ہوا، احمد کیوں اس قدر کھوئے کھوئے ہو، مجھے بھی تو کچھ بتاؤ۔ اس نے کہا۔ تم ہی کو بتاؤں گا اپنے دل کی بات اور کسے بتاؤں گا۔ لیکن پھر تم کو میری مدد کرنی ہوگی ، وعدہ کرو۔ میری مدد کرو گی نا! میں نے وعدہ کر لیا کہ احمد تو مجھے اپنی جان سے بڑھ کر عزیز تھا۔

 اس نے مجھ پر اعتماد کیا۔ وہ شروع سے مجھے پر اعتماد کرتا تھا۔ کہنے لگا زرتاشہ مجھے ایک لڑکی پسند آگئی ہے کیونکہ تم میری ہم راز ہو، اس لئے دل کی بات تم ہی سے کہتا ہوں۔ کون ہے وہ نام تو بتاؤ۔ اس کا نام زرغونہ ہے اور تمہارے ساتھ ساتھ پھرتی تھی۔ اچھاوہ میں نے کہا۔ وہ تو میری دوست ہے اور ہم جماعت بھی۔ دراصل وہ خالو جان کے رشتہ دار ہیں ، اسی وجہ سے وہ بھی خان زادی کی شادی میں آئے ہوئے تھے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ آئی تھی۔ تو کیا تم اس کو پہلے سے جانتی ہو۔ ہاں احمد اوہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ میری پسندیدہ دوست ہے، میری کلاس میں پڑھتی ہے۔ یہ تو بہت اچھا ہوا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اب میں تمہارے ذریعے آسانی سے اپنے دل کی بات اس تک پہنچا سکتا ہوں۔

 تم نے وعدہ کیا ہے کہ میری مد کرو گی تو کیا میری مدد کرو گی ؟ ہاں کیوں نہیں۔ میں نے بجھے ہوئے دل سے کہا۔ بھلا میں کیسے انکار کرتی۔ کیا کوئی اپنے محبوب کو بھی انکار کر سکتا ہے۔ تو پھر تم اسے میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ میں اسے پسند کرتا ہوں اور شادی کا تمنائی ہوں کہو اچھا، ہاں۔ میں نے جواب دیا ہاں بھئی اچھا۔ میں ضرور تمہارا پیغام اسے پہنچا دوں گی، حالانکہ میرے دل پر قیامت بیت رہی تھی لیکن محبت تو نام ہے قربانی کا، اپنے محبوب کو خوش دیکھنے کا اور اس کی خوشیاں پوری کرنے کا۔ میں نے اگلے روز کالج جا کر زرغونہ کو احمد کا پیغام پہنچا دیا۔ وہ تو جیسے پہلے سے ہی منتظر تھی کہ دونوں طرف لگن برابر لگی ہوئی تھی۔ اس نے صد اشتیاق بات سنی اور جواب میں ایک پرچے پر شعر لکھ کر دیا کہ اپنے کزن کو دے دینا۔ 

شعر کا مفہوم اظہار محبت تھا۔ میں نے یہ پرچہ گھر آکر احمد کے حوالے کیا جیسے اپنے ، اپنوں کی امانت کو حوالے کرتے ہیں۔ اس نے پڑھا تو باچھیں کھل گئیں، بس پھر کیا تھا میں تو ایک ڈاکیہ، ایک پیغام رساں بن گئی۔ ر دونوں میری معرفت کاغذ پر حروف کشیدہ کرتے اور ہم کلام ہوتے۔ میں وعدہ کر کے پھنس گئی تھی ، ہر روز کرب سے گزرتی مگر اپنے محبوب کی خاطر نہ چاہتے ہوئے بھی یہ نا خوشگوار فریضہ سر انجام دے رہی تھی ۔ میرے دل کی حالت دگر گوں اور میری محبت زخمی ہوتی گئی اور ان کا دلی تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ 

یہی سوچتی تھی کہ جب احمد مجھے نہیں زرغونہ کو چاہتا ہے تو اس کی محبت اور خوشیوں پر زرغونہ کا حق بنتا ہے، میرا نہیں۔ زبردستی شادی مجھے ایسی شادی منظور نہ تھی، جب جان چکی کہ احمد کسی اورسے پیار کرتا ہے۔ عقل یہی کہتی تھی تم رستے سے ہٹ جاؤ ، ان کو راہ دے دو، آگے ان کی قسمت۔ رب نے تقدیر میں لکھا ہوگا تو انہیں ملادے گا اور ہمیشہ کیلئے ایک کر دے گا۔ احمد تواپنی کامیابی پر پھولے نہ سکا تا تھا۔ دن میں کئی بار آ کر مجھ سے زرغونہ کے بارے میں بات کرتا اور چاہتا تھا کہ بس میں اس کی محبوبہ ہی کا تذکرہ کرتی جاؤں۔ کالج میں وہ کیسی لڑکی کبھی جاتی ہے، آج اس کے ساتھ دن کیسا گزرا۔ کیا کہتی تھی میرے بارے، کیا باتیں ہوئیں؟ لئے لمحے کی رپورٹ سننا چاہتا تھاوہ میں بادل ناخواستہ ! اس کو لمحے لمحے کی ہر بات بتانے پر مجبورتھی محض احمد کو خوش دیکھنے کیلئے۔ 

زرغونہ کی چاہت میں میرا کزن مجنوں سا ہو گیا۔ اس کی محبت میں دن رات اسی کے خیالوں میں گرفتار تھا۔ اس کی یاد میں گلے گلے ڈوب گیا تھا۔ دونوں فون پر باتیں کرتے اور پھر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ستم یہ کہ دونوں ہی مجھ پر اعتبار کرتے ہوئے مجھے اپنا راز داں جان کر ہر بات بتاتے اور میں ان سے اپنے سلگتے ہوئے جذبات چھپاتی ۔ اپنے دل کی حالت نہ بتاتی ۔ دونوں کو معلوم نہ تھا کہ میں احمد سے کتنی محبت کرتی ہوں۔ خدا کے بعد اگر کسی انسان سے والہانہ محبت تھی تو وہ احمد تھا، جس سے ایک بار بھی نہ کہہ سکی کہ احمد میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔ ذرا میری طرف بھی دیکھ لو میرے دل کی کیا حالت ہے۔ میں کس کو بتاؤں تمہاری اور زرغونہ کی میں راز داں ہوں۔ مگر میر اغم گسار، میرا راز دار کوئی نہیں۔

احمد کا خیال تھا کہ وہ اپنی مرضی کی شادی کر سکے گا۔ وہ ماں ، باپ کا بے حد چہیتا تھا اور ابھی زیر تعلیم تھا اس لئے والدین بھی شادی کیلئے نہیں کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا دو سال بعد جب وہ اپنی تعلیم مکمل کرلے گا تو اس کی شادی کا مرحلہ آئے گا تب یہ بات کریں گے۔ 

ایک دن مجھے زرغونہ نے بتایا کہ اس کے والدین اس کی شادی کر رہے ہیں یہ سن کر میں سکتے میں رہ گئی کیونکہ احمد کا والہانہ پن دیکھ رہی تھی ، جانتی تھی اس خبر سے میرے کزن کو کتنا صدمہ ہوگا۔ وہ تو برداشت بھی نہ کر پائے گا اس صدمے کو۔ اس پر تو قیامت گزر جائے گی ۔ اور زرغونہ اب وہ آنسو بہار ہی تھی میرے سامنے کہ والد سخت ہیں، ہرگز اس کی نہ سنیں گے۔ 

اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ بس دل پر پتھر رکھ کر احمد کو بتانا تھا مگر میں زرغونہ پر خفا ہوگئی کہ واہ یہ کیا تماشا ہے کہ وعدہ کسی سے اور شادی کسی سے….. اگر ایسی ہی مجبور تھیں تو میرے کزن کو پہلے دن ہی امید کے رستے پر نہ چلایا ہوتا۔ اسے اتنی دور تک اپنے ساتھ سفر کر لیا اور جب اس نے تم کو اپنی منزل سمجھ لیا تو اب بزدلی دکھا رہی ہو اور تم کو اپنی مجبوریاں بجھائی دے رہی ہیں۔ سمجھ میں نہ آتا کہ کیسے کہوں احمد سے اگر پھر دل پر پتھر رکھ کر بتاناہی پڑا۔ یہ بھی زرغونہ کا پیغام تھا جو اس تک پہنچا نالازمی تھا۔ جب میں نے بتایا کہ زرغونہ کی شادی ہے تو وہ ہنس کر بولا زرتاشہ میرے ساتھ ایسا مذاق مت کرو۔ میں نے کہا سچ کہہ رہی ہوں۔ مجھے تمہاری قسم یہ مجھے زرغونہ نے کہا ہے کہ تم کو بتادوں۔ جب وہ کچھ پریشان سا ہو گیا اور پھر اس نے زرغونہ کو فون کیا۔ 

جب اس نے بتایا کہ یہ بات صحیح ہے تو احمد نے فون رکھا اور چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جب میں اس کے کمرے میں گئی وہ اپنے بستر پر لیٹا رورہا تھا۔ تسلی دینے کی کوشش کی مگر اس نے کچھ نہ سنا جیسے گونگا، بہرہ اور اندھا ہو گیا ہو، وہ بس روتا ہی رہا اور میں پریشان ہو کر اس کے کمرے سے نکل آئی۔ کسی کی خاطر احمد کی آنکھوں میں پہلی بار آنسو دیکھ کر دہل گئی تھی۔ اپنے کمرے میں آکر میں بھی خوب روئی کیونکہ میں اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتی تھی ، اسے روتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ اس قدر صدمے میں چلا گیا کہ بیمار پڑ گیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اسے اسپتال لے جانا پڑا۔ ادھر زرغونہ کی منگنی ہوگئی اور شادی کی تاریخ قریب آگئی۔

 اس روز میں خوب روئی ، جب مجھے زرغونہ کی شادی کا کارڈ ملا۔ میرا کزن بھی اسی دن اسپتال سے گھر واپس آیا تھا۔ میں اپنے محبوب کزن کی حالت دیکھ کر زرغونہ کود ل ہی دل میں کوس رہی تھی ، جس کی وجہ سے احمد کی حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے کسی نے تن سے روح کو بھینچ لیا ہواور اس بے وفا سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ ایک تسلی کا خط لکھ دیتی۔ جو ہر روز محبت نامہ لکھ کر مجھے دیا کرتی تھی اب اس نے اچانک ہی ترک تعلق کرلیا تھا۔ اس وجہ سے اور زیادہ احد غم زدہ تھا۔ 
اگلے دن میں کالج گئی تو وہ اپنا کالج لیونگ سر ٹیفیکیٹ لینے آئی ہوئی تھی۔ میں نے اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا، دوڑ کر میرے پاس آئی اور میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر التجا کرنے لگی . زرتاشہ مجھ سے منہ مت پھیرو، میری بات سن لو، آج میرا آخری کام کر دو، پھر شاید ہم کبھی مل سکیں گے یا نہیں خدا معلوم میں مجبور ہوں اور میری مجبوری اس خط سے احمد پر ہی نہیں تم پر بھی ظاہر ہو جائے گی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔ چہرہ زرد اور چہرے پر ایسا کرب تھا کہ میں سمجھ گئی کہ وہ کچھ خوشی سے احمد سے جدا نہیں ہورہی، واقعی مجبور ہے۔ میں نے خط اس سے لے لیا۔ گھر آ کر اپنے کمرے میں بیٹھ کر زرغونہ کا خط پڑھا لکھا تھا۔

 پیارے احمد آج تم کو یہ آخری خط لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ لہلہاتی شاخ زندگی گرا گیا مجھے اس وقت جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے ایس میں کبھی سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ میں تم سے جدا کر دی جاؤں گی مگر یہ میری سوتیلی ماں نے کرایا ہے۔ میں کب تم سے جدا ہونا چاہتی تھی لیکن ان ظالموں نے جدا ہونے پر مجبور کر دیا۔ اب صرف تم سے ہی نہیں شاید میں ہر کسی سے اس دنیا سے اور اپنی زندگی سے بھی جدا ہوکر چلی جاؤں گی۔ میں آج ابو کے سامنے بول پڑی۔ انہوں نے مجھے مارا بھی تبھی میں نے غصے اور رنج میں کچھ کھا لیا ہے، وہ ایک زہریلی دوا تھی ۔ اس وقت میرے دل میں جلن ہو رہی ہے اور کھانسی کے ساتھ منہ سے خون آیا ہے۔ تبھی بہانے سے دوڑی کالج آئی ہوں تاکہ زرتاشہ کو تمہارے نام یہ آخری خط دے سکوں۔ معلوم نہیں واپس زندہ گھر پہنچ بھی پاؤں گی یا نہیں۔ بے شک میرا اس طرح مرجانا تمہارے لئے بہت درد ناک ہوگا۔ اس لئے اس خط کے ساتھ وہ دوا ارسال کر رہی ہوں کہ میری موت کی خبر سنو تو برداشت کر لینا اگر برداشت نہ کر سکو تو پھر سے کھالینا کیونکہ میں نے بھی اسی کو کھایا ہے۔ اگر میری موت کے بعد آپ میں زندہ رہنے کا دم ہو تو پھر ضرور اس پڑیا کومٹی میں گرا دینا۔ میں نے تو صرف وفا کی خاطر یہ زہر پھانکا ہے کیونکہ تم سے جدا ہو کر میں کسی اور کے ساتھ نئی زندگی شروع نہیں کرسکتی۔ کل میرا نکاح ہونا تھا لیکن کل میراگھر شادی سے قبل ماتم گھر میں بدل چکا ہوگا۔ میں نے گھر والوں کے آگے ہاتھ جوڑے، بہت منت سماجت کی مگر انہوں نے اپنا فیصلہ نہ بدلا تو اب میں بھی مزید نہیں جیوں گی۔ ان کو کبھی معاف نہ کروں گی، روز حشر ضرور ان کی دامن گیر ہو جاؤں گی جنہوں نے مجھ سے میری خوشیاں اور زندگی چھینی ہے۔ خدا انکو اس دنیا میں بھی زخم دے جنہوں نے ہمارے دلوں پر زخم لگائے ۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پیاروں کی جدائی کس قدر دردناک ہوتی ہے۔ تمہارے دل میں بہت سے  غموں کے جال بچھا کر جارہی ہوں، مجھے معاف کر دینا۔
 
 اس صبر کا اجرتم کواللہ پاک دے گا کہ تم نے محبت کرتے ہوئے بھی کبھی میرے تن کو میلا نہیں کیا۔ ہم پاک باز تھے۔ یہی امر ہماری س چی محبت کی گواہی بنے گا۔میں چلی جاؤں گی، اب تمہارے ساتھ بس میری یادیں ہی رہیں گی۔ ہمت نہ ہارنا بھی یہ مت سوچنا کہ ہم جدا ہو گئے ہیں۔ نہیں تم ہی میرے سچے اور حقیقی ساتھی ہو۔ ہم مر کر بھی جدا نہیں ہو سکتے۔ یہاں نہیں تو قیامت کے روز کے بعد ضرور ملیں گے۔ اس وقت میں بہت تکلیف میں ہوں گھبرائے ہوئے دل کے ساتھ خط لکھ رہی ہوں۔ 
خط پڑھ کر میں سن ہوگئی ۔ کیا واقعی زرغو نہ نے اس وقت زہر پھانک رکھا تھا، جب وہ مجھے خط دے رہی تھی اس کے گھر کا فاصلہ کالج سے صرف پانچ منٹ پر تھا، پھر بھی وہ اس حال میں کیوں کر گھر تک پہنچی ہوگی۔ اس کا چہرہ اس وقت سرسوں کے پھول کی طرح زرد تھا اور آنکھیں کرب سے کھینچی ہوئی تھیں۔ شاید کہ وہ موت وزیست کی کشمکش سے گزر رہی تھی۔ دل نے کہا کہ یہ خط احمد کومت دینا مگر میں نے کہا کہ نہیں اسے دیناہی ہوگا ورنہ وہ عمر بر امید وسیم کی کشتی میں سوار ہے گا۔ بے شک ایسے زنم جلد نہیں بھرتے مگر وقت ان کو آہستہ آہستہ مندمل کر دیا کرتا ہے۔ اس وقت تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ واقعی زرغونہ نے زہر پھانک لیا ہوگا۔ کیا اس دور میں بھی کوئی کسی سے سچا پیار کرتا ہے۔ میں نے وہ خط جو آخری امانت تھی زرغونہ کی احمد کو پہنچادیا۔

 وہ خط پڑھ کر بہت پریشان ہوا لیکن میں نے اسے وہ پڑی نہیں دی جو اس خط میں لپیٹ کر مجھے زرغونہ نے دی تھی۔ اس کو میں نے غسل خانے کی موری میں بہا دیا۔ نہیں معلوم وہ ز ہر تھا یا نہیں مگرمیرا دل یہی کہتا تھا اس کو تلف کر دو سو میں نے کر دیا۔ زرغونہ واقعی جان سے گزرگئی۔ جب یہ خبر احمد کولی، وہ مرنے کے قریب ہو گیا۔ اسے ایک بار پھر اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں کئی دن داخل رہا، آخر گھر آگیا۔ اب ہر وقت زرغونہ کی یاد میں رونا اور اس کے ساتھ گزرے ایک ایک لمحے کو ذہن میں لا کر تڑپنا۔ میں دن رات اپنے کزن کی صحت کیلئے دعائیں کرتی تھی۔ آخر اللہ نے میری دعائیں سن لیں اور احمد رفتہ رفتہ صحتیاب ہونے لگا۔ قدرت نے اس پر رحم کیا کہ میرے دل میں اس کی محبت باقی تھی۔ 

میں نے اس کو زندہ رہنے کا درس دیا اور حوصلہ بڑھانے میں دن رات ایک کر دیئے۔ ہر وقت اس سے زرغونہ کی باتیں کرتی جس سے اس کے دل کا غم ہلکا ہوتا جاتا تھا۔ ایک روز جبکہ وہ ایک درد بھرا گا نا سن کر رو رہا تھا، میں نے ٹیپ ریکارڈ کو بند کر دیا اور اس سے کہا میری طرف دیکھو تم تو مرد ہو کر روتے ہو اور میں عورت ہو کر نہیں روتی حالانکہ میں تم سے اس سے بھی زیادہ محبت کرتی ہوں کہ جتنی زرغو نہ تم سے کرتی تھی۔ کیونکہ محبت کرنے کے بعد بھی میں نے تم پر اپنی محبت کو ظاہر نہیں کیا بلکہ تمہاری خوشی کیلئے تم پر اپنی محبت کو نچھاور ضرور کیا ہے۔ 
کیا کوئی لڑکی جو کسی سے محبت کرتی ہو وہ اپنے محبوب کی خوشی کیلئے ایسا کرسکتی ہے۔ تم کیا جانو میں نے کس قدر درد سہا ہے پھر بھی اس درد کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ میری محبت کا حوصلہ دیکھو مرنے والے ایک بار مر کر دکھوں سے جان چھڑ جاتے ہیں مگر جو زندہ رہ کر دکھ سہتے ہیں حوصلہ مند تو وہی ہوتے ہیں۔ قدرت کو تمہارا اور زرغونہ کا ملاپ اگر منظور نہ تھا تو اسے مشیت ایزدی سمجھ کر صبر کرو اور میری طرح حوصلہ مند بن کر یہ دکھ برداشت کرو۔ ایسا کہتے ہوئے میرے رخساروں پر بھی آنسو بہہ نکلے تب اس کے دل پر واقعی اثر ہوا۔ اس نے میرے بارے میں سوچا۔چند دن سوچتا رہا ہوگا کہ والد صاحب اور چچا جان نے ہماری شادی کا اعلان کر دیا۔

 تب احمد نے ان کے فیصلے پر انکار نہیں کیا ، خاموشی سے بزرگوں کے سامنے سر جھکا لیا – آج ہم اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن جب زرغونہ کی یاد آتی ہے ہم دونوں کو ایک ساتھ رلا ڈالتی ہے خود کشی حرام ہے اس نے احمدکو نہ پانے کے غم میں حرام موت کو گلے لگایا ہے الله اس کو معاف کرے-
👇👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے