میرے والد نے دوسری شادی کی تو اس عورت سے بھی تین بچے ہوئے، یوں نو بچوں کی پرورش کی زمہ داری دوسری بیوی پر آگئی، لیکن اس عورت نے پورا گھر سنبھال لیا اور سارے بچوں کو گلے لگا کے رکھا۔ اچانک ایک دن سالوں بعد والد کی پہلی بیوی لوٹ آئی، بچے تو اپنی ماں کی شکل بھی بھول گئے تھے۔ جانے اس عورت پر کیا بیتی تھی کہ اس وقت اس کی حالت خراب تھی۔
👇👇
والد صاحب کی پہلی بیوی چھے بچے چھوڑ کر چلی گئی تھیں، کیونکہ ان کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا۔ اس داستان کو ہم نے رشتہ داروں کی زبانی سنا تھا۔ کیا سچ اور کیا جھوٹ ؟ لیکن کہاوت یہی ہے کہ زبان خلق کو نقاره خدا سمجھو۔ بہو کے چھوڑ جانے کے بعد دادی ابا کے سر ہو گئیں کہ بیٹا! اپناگھر بسا لو۔ ہم سے تمہارے بچے نہیں سنبھالے جاتے ۔
اب یہ بھی ایک مسئلہ تھا کہ چھے بچوں کے باپ کو کون رشتہ دے؟ بہت گھر چھان مارے، جب سنتی چھے بچے بھی پالنے ہیں ، تولوگ رشتہ دینے سے انکار کر دیتے۔ دادی جان کئی گھروں سے مایوس لوٹ آئیں۔ خدا کی زمین بہت بڑی ہے اور وہی سب کا پالن ہار ہے۔ وہ ہی پریشان حالوں كا مسبب الاسباب ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ان معصوموں پر ترس آ گیا، جن پر ان کی اپنی سگی ماں نے ترس نہ کھایا تھا۔ جانے کیوں وہ عورت اپنے جگر کے ٹکڑوں اور اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی اور مرد کے ساتھ چلی گئی۔ بہرحال ایک صوفی منش شخص نے اپنی بیٹی کو میرے والد صاحب کے عقد میں دے دیا۔
ان کی بیٹی کا نام عافیہ تھا، یوں یہ فرشتہ صفت بی بی، میرے والد کے بچوں کی سوتیلی ماں بن کے گھر آ گئیں۔ ان کی والدہ بہت الله والی خاتون اور والد بہت نیک پرہیزگار اور خدا ترس آدمی تھے۔ اسی خدا ترسی کے سبب انہوں نے چھے بچوں کے باپ کو اپنی بیٹی دے دی ۔ سب حیران تھے کہ ان سمجه دار بزرگ کو کیا سوجھی، جو اپنی اٹهاره برس کی کنواری اور خوب صورت بیٹی ایک ادھیڑ عمر آدمی کو بیاہ دی ہے ، جبکہ عافیہ کو اور بھی اچھے رشتے مل سکتے تھے ۔ جب لوگوں نے عافیہ کے والد سے یہ سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا۔ میں نے ان چھے معصوموں کی خاطر ہی بیٹی کا ہاتھ ان کو دیا ہے۔ میری بیٹی اتنی صابر اور نیک ہے کہ وہ کبھی ان بچوں پر ظلم نہ کرے گی، بلکہ پیار سے ان کی پرورش کرے گی، جس کا ثواب ہمیں بھی ملے گا۔
عافیہ بیگم نے بھی سب کی توقعات کو پورا کر دکھایا۔ شادی کے تیسرے سال ان کی گود ہری ہوئی اور ان کے پہلے بیٹا، پھر دو بیٹیاں ہو گئیں ۔ اب ان کے کندھوں پر اپنے بچوں کی بھی ذمہ داری بڑھ گئی گویا، وہ اب نو بچوں کو پروان چڑھا رہی تھیں، جن میں میرا نمبر آٹھواں تھا۔ امی ایک صابر ، خدا ترس اور دین دار خاتون تھیں، اس لیے ابا کا گھر سکون کا گہوارہ تھا۔ وقت امن سے گزرنے لگا۔ ابا کی زندگی میں اپنی پہلی بیوی کے چلے جانے سے جو بھونچال آیا تھا، امی کے آنے سے اس کے آثار معدوم ہوگئے تھے۔ انہوں نے سوتیلے بچوں کو کبھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ اپنے سگے بچوں کو ان پر فوقیت دیتی ہیں ، وہ سب بچوں کے لیے ایک شفیق ماں ہی تھیں۔ اس طرح انہوں نے سب کو سکھ اور سکون دے کر گھر کو جنت بنا دیا۔
سب نے ابا کی پہلی بیوی کو بھلا دیا تھا کہ وہ دوبارہ کبھی آئے گی۔ اس عورت نے بارہ سال کس کے ساتھ گزارے؟ کبھی اپنے بچوں کی خبر نہیں لی اور نہ پلٹ کر پیچھے کی طرف دیکھا۔ کسی کو پتا نہ تھا وہ کہاں ہے؟ زندہ ہے یا مر گئی ہے۔ ایک دن اچانک یوں لگا جیسے سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل آیا ہو۔ ابا کی پہلی زوجہ محترمہ یعنی ہماری سوتیلی ماں گھر کا دروازه کھول کر آنگن میں کھڑی تھیں۔ جانے اس عورت پر کیا بیتی تھی کہ اس وقت اس کی حالت خراب تھی ابو تو کیا ، خود میری ماں اور ہم سب کو اس خستہ حال، كم نصیب پر ترس آ گیا اور اسے پناہ دے دی۔ ایک سال تو اس نے ایسے گزارہ جیسے کوئی مصیبت کی ماری چھت کا سایہ پا کر ایک کونے میں دبک بیٹھتی ہے۔
اسی روٹی دے دیتیں، وہ کھا لیتی ۔ منہ سے کچھ نہ بولتی حتی کہ اپنی حقیقی اولاد کو بھی ٹکر ٹکر دیکھتی اور ان کے نام لے کر نہ پکارتی، گویا بچے بھی ان کی صورت کو بھلا چکے تھے ۔ وہ میری ماں کو ہی امی جان کہتے تھے۔ اس عورت کو صرف تین وقت کے کھانے سے غرض تھی، وہ گھر کے کسی کام میں دخل دیتی تھی اور نہ کسی قسم کا حق مانگتی تھی۔ ابا کہتے تھے ، یہ گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی مگر میں نے اسے طلاق نہیں دی تھی، لہذا یہ اس گھر میں رہ سکتی ہے، تاہم وہ اس سے بات چیت نہ کرتے تھے۔ امی سے کہتے۔ عافیہ تم اسکے یہاں رہنے کا ملال دل میں نہ لانا، یہ میرے بچوں کی ماں ہے۔ میرا دل نہیں کرتا اسے گھر سے نکالوں۔
تم چاہو تو نکال دو وہ مجھے کوئی تکلیف نہیں دے رہی۔ آپ کی بیوی ہے، اگر آپ نے طلاق نہیں دی ، تو حق دار بھی ہے۔ میں اتنی ظالم نہیں کہ اسے دھکے دے کر نکال دوں جبکہ اس کا کوئی آسرا، کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ہے۔ سب لوگ امی سے کہتے کہ یہ بدچلن تھی، اس لیے اس نے سزا پائی ہے۔ تمہارے در پر محتاج ہو کر آئی ہے۔ تم اسے مت رکھو، کل کو تمہارے لیے مصیبت نہ بن جائے، کیونکہ بدفطرت کبھی نیک نہیں بن سکتا۔ امی کہتیں۔ اگر وہ بد فطرت ہے تو میں نیک فطرت ہوں ۔ میں بھی اپنی فطرت سے مجبور ہوں۔ اگر میرے شوہر کی مرضی ہے کہ وہ یہاں رہے ، تو میں کیوں کر اسے نکال سکتی ہوں۔
وقت گزرتا رہا۔ شروع میں بڑی ماں مسکین بنی رہیں۔ ایک طرف بیٹھی رہتیں، امی کو کسی معاملے میں ڈسٹرب نہ کرتیں۔ ابا بھی گھر آتے تو ان کی طرف بغیر دیکھے، بات کیے چلے جاتے، البتہ اپنے بچوں کو ضرور کہتے کہ تمہاری مصیبت کی ماری ماں کو خدا نے سزا دی ہے۔ اب تم لوگ سزا نہ دو، اس سے بات کرلیا کرو۔ ماں کیسی بھی ہو اولاد کو اس کی بے قدری نہ کرنی چاہیے۔ میری اماں بھی شوہر کی ہاں میں ہاں ملاتیں کہ ہاں بچوں ! ماں کا درجہ الگ ہے۔ تم اپنی والدہ سے بات کیا کرو۔ یوں میری پہلی ماں کو اولاد نے رفتہ رفتہ قبول کرنا شروع کیا۔ وہ اب ان کے پاس بیٹھتے ، ان سے بات چیت کرتے، جس پر وہ خوشی محسوس کرتیں، ہنستی بولتیں۔ اب وہ صاف ستھری رہنے لگی تھیں۔
امی نے کچھ اچھے جوڑے سوتن کو سلوا دیے، یون وہ کپڑے بھی اچھے پہننے لگیں۔ ابو گاڑی دے دیتے اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ سیر کو چلی جاتیں ۔ پہلے تو رشتہ دار سائرہ کے آنے پر چیں بہ چیں رہے، بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی ان سے سمجھوتہ کرلیا، کیونکہ ابا نے جو بچوں کے ساتھ ان کو رہنے کی اجازت دے دی تھی۔ جب سے وہ آئی تھیں ، میں نے ان کو کبھی مسکراتے نہیں دیکھا تھا، تاہم جب ان کے بچوں نے ان کو قبول کرلیا، تو وہ اب ان کو دیکھ کر مسکراتی بھی تھیں، جس پر میری ماں خوشی محسوس کرتیں۔
میری ماں کا اپنا مقام تھا کہ بہر حال گھر کی مالکہ تو وہی تھیں اور اس بات پر امی کو مان بھی تھا کہ شوہر ان ہی کو بیوی والا درجه و احترام دیتے ہیں ۔ ان کو ابا پر مان ہی نہیں اعتماد بھی تھا۔ وہ یہ تصور بھی نہ کر سکتی تھیں کہ کبھی ان کا جیون ساتھی بدل جائے گا اور ان کی جنت کا تختہ الٹ جائے گا۔ وقت اور قسمت کے بدلتے دیر نہیں لگتی۔ جس عورت پر وقت مہربان تھا، اس پر نامہربان ہو گیا اور جس پر تنگ تھا، اس پر تنگ نہ رہا، بلکہ اس کے دن پھر گئے ۔
خدا جانے میری ماں سے کیا قصور ہوا تھا، حالانکہ انہوں نے نیکی کی تھی ۔ ہوا یوں کہ نانا سخت بیمار ہوگئے تو امی کو میکے جا کر رہنا پڑا۔ اس ایک ماہ میں جانے کیا جادو بڑی ماں نے کیا کہ انہوں نے ابا کو اپنی طرف مائل کر لیا۔ ان کے بچے پہلے ہی ان کی طرف مائل ہوچکے تھے ۔ نانا ابو کے فوت ہونے کے بعد امی چند دن وہاں رہیں اور جب گھر واپس آئیں، تو انہوں نے ابا کے ساتھ سائرہ خاتون کو ہنستے بولتے دیکھا۔ امی نے شکوہ کیا تو جواب دیاکہ بیگم گھر کی اصل مالکہ اب بھی تم ہو ۔ یہ تخت و تاج سے گری ہوئی عورت ہے، مگر میں اس کو بے رخی کا مسلسل عذاب دے کر خدا کی عدالت میں جوابدہ ہونا نہیں چاہتا۔
اس کے ساتھ بات کرنے پر تم کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ آخر یہ عورت میرے چھے بچوں کی ماں ہے۔ امی ابا کا یہ استدلال سن کر چپ ہو رہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیونٹی کی رفتار کی مانند حالات بدلتے رہے۔ امی کو پتا بھی نہ چلا اور چپکے چپکے بڑی ماں یعنی سائرہ خاتون نے میرے والد کے دل میں اپنی حیثیت مستحکم کر لی۔ اب میرے باپ ان کے بچوں کے بر معاملے میں پہلی بیوی سے مشورہ لینے لگے اور میری امی سے نہ پوچھتے۔ امی کو محسوس ہوتا تو کہتے۔ عافیہ دیکھو! بچوں کے رشتے طے کرنے کے معاملے میں جس کے بچے ہیں، اس سے بات چیت تو کرنا پڑے گی۔ آخر یہ ان کی ماں ہے۔ تم اس بات کا برا نہ مانا کرو۔ بچوں کے توسط سے یوں سائرہ خاتون کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔ وہ ہر بات ابو سے کرتیں۔
وہ بھی بر بات بڑی بیوی سے کرتے، تب امی ان دونوں کا منہ تکتی رہ جاتیں اور جب کبھی امی کسی وجہ سے گھر سے باہر جاتیں تو وہ امی کے خلاف ابا کے كان بهرتين من گھڑت باتیں کرتیں۔ وہ دراصل اپنے بڑے بیٹے کے رشتے کے بدلے میرا رشتہ دینا چاہتی تھیں اور کسی طرح انہوں نے ابا کو راضی کرلیاتها، لیکن امی نے اس بات پر احتجاج کیا اور راضی نہ ہوئیں تو میرے والد نے پہلی بار امی سے جھگڑا کیا اور ان پر ہاتھ اٹھالیا۔ ایک شام جب امی میری بہن کو اسپتال لے کر گئی ہوئی تھیں، بڑی امی نے ابا سے شکایت کی کہ تمہاری بیوی نے میرے بیٹے کا رشتہ تروایا ہے اور ایسی برائیاں کی ہیں کہ وہ اب اپنی بیٹی کا رشتہ میرے بیٹے کو دینے سے انکار کر رہے ہیں۔
ابا کو یہ بات سخت ناگوار گزری وہ ان کے گھر آتے ہی میرے ماں کو مارنے لگے اور اسی پر بس نہیں کیا ، بلکہ کلہاڑی ڈھونڈنے لگے۔ جب مجھے پتا چلا کہ وہ میری ماں کو مارنے کے لیے کلہاڑی ڈھونڈ رہے ہیںتو میں نے کلہاڑی اٹھا کر باہر پھینک دی. ابا پر تو جیسے کالا جادو ہو گیا تھا۔ ان کو سائرہ کے سوا کوئی دوسرا نظر بی نہیں آتا تھا جب امی نے کہا کہ تم سائرہ کو گھر سے نکالو، یہ میرا گھر ہے۔ ابا نے جواب دیا۔ سائرہ کو نہیں، میں تمہیں نکالوں گا اور یہ گھر تمہارا نہیں، میرا ہے۔ یہاں اگر میری دوسری بیوی رہ سکتی ہے تو پہلی بھی رہ سکتی ہے۔
امی اس اہانت پر تیار نہ ہوئیں۔ انہوں نے برقعہ پہن لیا کہ سنبھالو اپنے بچے، میں اپنے والدین کے گھر جارہی ہوں۔ امی نے محض دکھاوے کو کہاتھا، یہ سوچ کر کہ ابا ان کو منا لیں گے اور انہیں میکے جانے سے روک لیں گے، لیکن ابا نے ان کے دل کی بات کو نہ سمجھا بلکہ ان کو بازو سے پکڑ کر کار میں دھکیلا اور جاکے ان کے والد صاحب کے گھر کے دروازے پر اتار آئے۔ اب ہماری بڑی امی سائرہ خاتون کی بن آئی۔ وہ سارے گھر کی مالک بن گئیں۔ جیسا کسی نے سوچا نہ تھا ویسا ہوگیا۔ ابا نے ہم سب کو سوتیلی ماں کے حوالے کر دیا۔ میری ماں تخت سے گری تھیں، اس کے ساتھ ہی سب کی نظروں سے بھی گرگئیں ۔ کہتے ہیں ، جس کو پیا چاہے، وہی سہاگن اور پھر ابا کی تو کیا بات تھی کہ مرد کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ جب رشتہ داروں نے بھی امی کی دہائی پر ساتھ نہ دیا تو وہ ابا کے ایک دوست صلابت صاحب کے پاس فریاد لے کر گئیں ۔ وہ بارسوخ آدمی اور اچھے آدمی تھے۔ جب میرے والد ان کی دعوت کرتے تو امی ہی کھانا بنایا کرتی تھیں۔ صلابت صاحب کو ہر بات کا علم تها۔ امی نے ان سے کہا۔ا ب میں اس بے وفا شوہر کے پاس نہ رہوں گی، آپ بس میرے بچے مجھے واپس دلوا دیں۔ صلابت صاحب اور ان کی بیگم نے میری ماں سے کہا۔ آپ تب تک میرے پاس رہیں، جب تک ہم آپ کے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکال لیتے۔ امی ان کے گھر ایک ہفتہ رہیں۔ اس دوران وہ نہ کچه کهاتی تھیں اور نہ پیتی تھیں۔ صلابت انکل کی بیگم کہتیں، بھابھی کچھ کھائیں گی نہیں، تو ہم آپ کے لیے کچھ نہ کر سکیں گے، تب امی دو لقمے لیتیں اور باقی کھانا چھپا دیتیں۔ ادھر ہم اپنی پیاری ماں کے لیے پریشان تھے اور سوچتے تھے کہ یا اللہ ! یہ ہمارے ساتھ کیا ہوگیا ہے۔
در اصل سائرہ وہ ناگن تھی جس نے عرصے تک اپنا پھن چھپائے رکھا تھا۔یہ بہت سخت دل عورت تھی میری دودھ پیتی بہن پر بھی رحم نہ کرتی تھی، وہ دودھ کے لیے روتی رہتی تھی اور یہ اسے دودھ پینے کو نہ دیتی تھی۔ مجھ سے سارے گھر کا کام کرواتیں اور کھانے کو پورا نہ دیتیں۔ اب ہمیں پتا چلا کہ سوتیلی ماں کیا ہوتی ہے۔ ہماری ماں تو ایسی نہ تھی۔ ہمارے سوتیلے بہن بھائی کھانا کھاتے اور ہم دور بیٹھے بھوکے کتوں کی طرح ان کا منہ دیکھتے۔ جب وه کها کر بچا دیتے تو ماں ان کو کہتی کہ جائو ، یہ بچا ہوا کھانا ان کو ڈالو ، مگر ہمیں یہ کھانا اچھا نہ لگتا ہم نازو کے پالے بچا کچھا کیسے کھاتےمیرے تمام سوتیلے بھائی اچھے تھے۔
صرف ایک بڑا بھائی برا تھا جو اپنی ماں جیسی فطرت کا مالک تھا اور سائرہ اماں سے ملا ہوا تھا۔ وہ ہم کو ڈراتا اور چھریاں دکھاتا۔ باقی سب اپنی ماں کو منع کرتے کہ ماں ایسا نہ کرو، یہ بھی ہمارے ہی بہن بھائی ہیں اور ان کی ماں نے ہمیں بہت پیار سے پالا ہے۔ جب انہوں نے سگے سوتیلے کا فرق نہیں کیا تو آپ کیوں ایسا کرتی ہیں۔ ایک بھائی بہن ہم کو اپنی ماں سے چھپاکر کھانا کھلاتے اور چھوٹی بہن کے لیے دودھ بھی لاکر دیتے۔
صلابت صاحب نے ابا کو بلایا اور کہا کہ تم نے کیوں ایسا ظلم اپنی اتنی اچھی بیوی پر ڈھایا ہے ؟ اسے سیدھے طریقے سے رکھو ، ورنہ میں تم کو تھانے میں بند کروا دوں گا۔ تب ابا نے کہا۔ میاں صلابت صاحب، ذرا بتائو تو کہ تم جو اس کے اتنے حمایتی بن رہے ہو، یہ تمہاری کیا لگتی ہے کہ میری بیوی کو تم نے اپنے گھر میں بیٹھا رکھا ہے ؟ صلابت صاحب تو کیا امی کے سر پر باتھ رکھتے، الٹا ابا نے ہی ان پر کیس کردیا، مگر دودھ پیتی بچی کی وجہ سے کیس امی کے حق میں ہو گیا۔ ایک دن پولیس ہمارے گھر آئی اور چھوٹی بہن اور امی سے کہا کہ ماں سے ملو، ماں کے پاس جائو، ہم سب دوڑ کر اپنی ماں سے لپٹ گئے۔
جب ابا کیس ہار گئے تو سیٹھ صلابت سے معافی مانگی اور کہا کہ میری بیوی سے صلح کروا دو میں آئندہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ کروں گا، نہ اس پر ہاتھ اٹھاوں گا، بلکہ اچھی طرح رکھوں گا۔سیٹھ نے کہا۔ پہلے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کرو۔ ابا نے قسم کھاكر وعده كيا۔ تب صلابت نے امی کو سمجھایا کہ بچوں کی خاطر اپنے شوہر سے صلح کرلو اور کسی بات کو انا کا مسئلہ نہ بنائو، کیونکہ عورت کا اصل گھر شوہر کا گھر ہوتا ہے۔ عورت کی عزت بھی اپنے شوہر سے ہوتی ہے۔
آپ کو بچوں کی بہتری کی خاطر اپنے شوہر کے گھر گزارہ کرنا چاہیے ۔ امی زیادہ پڑھی لکھی بھی نہ تھیں کہ نوکری کر لیتیں ۔ انہوں نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ اپنے شوہر کے گھر آجائیں، لیکن وہ اپنی عزت بھی چاہتی تھیں۔ جس عورت کو کبھی شوہر نے پھول بھی نہ مارا ہو اور ایسی بے عزتی کرنے پر آجائے، تب عورت تحفظ کے لیے کس کی طرف دیکھے۔ امی نے کہا میری چند شرطیں ہیں ، جو شوہر کو ماننی ہوں گی ۔ پہلی یہ کہ یہ مجھے سوتن سے علیحدہ رکھیں گے۔ دوم ، میرے بچوں کی شادیاں میری مرضی سے کریں گے۔ نیز یہ کہ مجھ پر ہاتھ نہ اٹھائیں گے اور خرچہ میرا اور بچوں کا پورا دیں گے۔
والد نے یہ تمام شرائط مان لیں اور گھر کے دو حصے کر کے بیچ میں دیوار اٹھا دی۔ ایک طرف بڑی بیگم اور ان کے بچے، دوسری طرف امی اور ہم تینوں بھائی بہن ابا دن میں بڑی بیوی کی طرف ہوتے اور شام کو ہمارے پاس آجاتے۔ انہوں نے خرچے میں بھی کمی نہیں کی۔ امی کا ٹوٹا ہوا گھر پھر سے بن گیا، ہم بھی سکون میں آگئے۔ میری ماں نے اپنی سوتن کے بچوں کو پالا پوسا تھا، لہٰذا ان بچوں کا دل تو امی کی طرف رہتا تھا۔ وہ اپنی ماں سے چهپ چھپ کر ملنے آجاتے تھے، البتہ بڑا بھائی مکمل اپنی سگی ماں کی مٹھی میں تھا۔ وہ امی سے ملنے نہیں آتا تھا۔
کہتے ہیں جیسی کرنی ویسی بھرنی بڑی امی نے چار سال ہی آرام کے بسر کیے ہوں گے کہ اچانک بیمار ہوگئیں۔ ان کو ڈاکٹروں نے کینسر بتایا ۔ ان کا علاج ہوتا رہا لیکن اس مرض کے علاج میں کب آرام آتا ہے۔ ابتدا میں بیماری کا پتا نہ چلا۔ جب مرض حد سے بڑھ گیا، تو علاج کارگر نہ رہا جبکہ ابا نے روپیہ پانی کی طرح بہایاتھا، مگر وہ ہڈیوں کا ڈھانچا ہوکر بستر سے لگ گئیں۔ اب ہمہ وقت ان کو ایک دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ ان کی کون خدمت کرتا؟ ان کے بچوں کے کام کون کرتا ۔ ابا نے ایک بار پھر میری امی سے منت سماجت کی کہ بیمار کی تیمار داری سے تم کو اجر ملے گا۔ تم میری نہیں تو الله تعالی کی خوشنودی کے لیے اس بیمار عورت کی تیمارداری کرلو کیونکہ وہ اٹھنے، بیٹھنے، چلنے پھرنے سے لاچار ہے۔
وہ خود اٹھ کر پانی تک نہیں پی سکتی اور بچے اتنی لاغر بیمار ماں کا خیال نہیں رکھ سکتے۔ پہلے تو امی راضی نہ ہوئیں، لیکن جب دیوار کے ادھر سے اپنی سوتن کی درد بھری کراہیں سنتیں تو خوف خدا سے لرز جاتیں۔ آخر اپنی نرم خو فطرت سے مجبور ہوکر وہ بیمار سوتن کے پاس چلی گئیں اور ابا سے بھی کہا کہ تم گھر کے بیچ اٹھی ہوئی دیوار کو گرا دو تاکہ میں تمہاری بیمار بیوی کو دیکھ سکوں بڑی ماں کی بری حالت تھی جو ان کو دیکھتا تھا ، توبہ توبہ کرتا تھا۔ لیٹے لیٹے ان کے جسم میں زخم ہوگئے اور ان میں پیپ پڑ گئی۔ اس حالت میں بھی سال بھر وہ زندہ رہیں، آخر ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ امی ان کو قطره قطره سوپ پلاتی تھیں اور گھر پر نرس ان کی مرہم پٹی کرنے آتی تھی۔ پانی بھی میری ماں ان کے حلق میں ٹپکاتی تھیں۔ وہ خود سے کھا پی نہ سکتی تھیں۔ دیکھنے والے عبرت کرتے تھے۔
سب دور سے دیکھ کر چلے جاتے تھے، پاس کوئی نہیں جاتا تھا کہ بدبو آتی تھی مگر میری ماں کراہت نہ کرتیں۔ ہر انسان کی اپنی اپنی فطرت ہوتی ہے اور بے شک ہر کوئی اپنی فطرت پر جاتا ہے۔ میری امی کہتی تھیں، بیٹا! نیکی سے اللہ کو راضی رکھنا چاہیے ۔ ضروری نہیں کہ نیکی کا صلہ جلدی ملے۔ دیر سے سہی، مگر ملتا ضرور ہے اور نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ دوست کے ساتھ تو سب ہی نیکی کرتے ہیں ، دشمن سے بھی نیکی کرو کہ اللہ راضی ہو اور اچھے اعمال کا صلہ بھی وہ ہی دیتا ہے۔
امی ٹھیک کہتی تھیں کہ بڑی امی تو مر کر دکھ سے نجات پا گئیں، مگر میرا رب میری ماں پر ہمیشہ مہربان رہا۔ ہماری اچھے گھروں میں شادیاں ہوئیں ۔ آج ابا کی تمام اولادیں میری نیک سیرت ماں کے قدموں کو چھوتی ہے اور امی کی دعائیں ہم سب کا سرمایہ ہیں۔ جیسی سہاگن میری ماں ہیں ، ایسی سہاگن خوشیوں بھری زندگی خدا بر عورت کو نصیب کرے۔
1 تبصرے
بہت سبق آموز کہانی ہے
جواب دیںحذف کریں