رحمدل ہونا اچھی بات ہے، میں رحمدلی کی مخالف نہیں ہوں لیکن کسی بھی عورت کو اس قدر رحم دل نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ اپنی کا ئنات ہی لٹا بیٹھے۔
ان دنوں ہم کلفٹن کے علاقے میں رہتے تھے جبکہ میری ساس کا گھر سوسائٹی میں تھا۔ پہلی بار اور اس کی ماں میری ساس کے پاس کام کا پو چھنے آئی میں اس وقت وہیں بیٹھی تھی۔ آنے والی ضرورت مند عورت نے اپنی ببتا سنائی تو میرا دل بھر آیا۔ وہ ایک بے سہارا عورت تھی ، اس لحاظ سے کہ شوہر نے اس کو چھوڑ دیا اور دوسری شادی کر لی تھی۔ اجویریہس کا شوہر دوسری بیوی کو لے کر اسلام آباد چلا گیا تھا۔ وہ بیٹا بھی ساتھ لے گیا جبکہ اپنی بیٹی جویریہ کو پہلی بیوی کے پاس چھوڑ گیا۔ بعد میں اس نے وہ کوٹھی بھی بیچ دی جس میں یہ عورت اور اس کی بیٹی رہتی تھیں۔ رضیہ کا کہنا تھا کہ اس کا شوہر جویریہ کو اپنی اولاد مانتا ہی نہیں ہے اور بیٹی کو اسی وجہ سے چھوڑ گیا ہے جبکہ بیٹا لے گیا ہے۔ رضیہ کے شوہر کو اس کے کردار پر اعتماد نہ تھا۔ اب یہ دونوں ماں، بیٹی کسمپرسی کی حالت میں کبھی کسی کے پاس اور کبھی کسی واقف کار کے گھر میں زندگی کے دن گزار نے پر مجبور تھیں لیکن کوئی بھی ان کو مستقل اپنے گھر رکھنے پر تیار نہ تھا۔
رضیہ اور جویریہ کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا ، وہ ادھر ادھر ماری ماری پھرتی تھیں۔ دور کے رشتہ داروں نے کچھ عرصہ رہنے کو جگہ دی ، وہ اب ان کو جگہ خالی کرنے کو کہہ رہے تھے۔ رضیہ نے استدعا کی کہ اگر اس کو سرونٹ کوارٹر میں رکھ لیا جائے تو وہ گھر کا تمام کام اور کھانا وغیرہ پکانے کی ذمہ داری بغیر تنخواہ کے اٹھانے کو تیار ہے۔ صرف سر چھپانے کو جگہ مل جائے کیونکہ اس کی بیٹی 14 برس کی ایک خوبصورت لڑکی تھی اور زمانے کے ڈر سے وہ اس کو کسی شریف گھر کے اندر چھپا کر رکھنا چاہتی تھی۔ ہمارے ساس سسر ان دنوں اکیلے رہ رہے تھے۔ چھوٹا بیٹا اور بہو دبئی چلے گئے تھے جبکہ میں اپنے چار بچوں کے ہمراہ علیحدہ گھر میں اقامت پذیر تھی۔ بچوں کے شور شرابے سے سسر صاحب ڈسٹرب ہوتے تھے۔ میں ہفتہ میں اور کبھی پندرہ روز بعد ان سے ملنے چلی جاتی تھی۔ ان دنوں ان کو کسی ایسے کنبے کی اشد ضرورت تھی جو مختصر ہو اور گھریلو کام کاج کی ذمہ داری بھی پوری کر دے۔
سرونٹ کوارٹر خالی پڑا تھا، خانساماں جا چکا تھا۔ ہماری ساس نے فورا رضیہ اور جویریہ کو اپنے سرونٹ کوارٹر میں رہائش دے دی۔ بدلے میں انہوں نے کچن اور گھر کا تمام انتظام سنبھالنا تھا۔ میری ساس صاحبہ نے ان کی معقول تنخواہ بھی مقرر کردی۔ شرط یہ رکھی کہ ان سے ملنے کوئی مرد، خواہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو نہیں آئے گا۔ یہ شرط انہوں نے قبول کر لی اور ماں ، بیٹی ہماری ساس کے گھر رہنے لگیں۔ ان لوگوں کے رہنے سے امی جان کو بہت آرام ملا، وہ سارا کام کرتیں اور امی جان کو تنہائی بھی محسوس نہ ہوتی۔میں جب جاتی جویریہ کیلئے اپنے جوڑے لے جاتی جو میرے لحاظ سے آؤٹ آف فیشن ہو جاتے تھے یا تنگ ہو جاتے تھے۔ وہ ان کپڑوں کو پا کر بہت خوش ہوتی ۔ امی کی سلائی مشین پر ٹھیک کر کے جب پہنتی تو لگتا کہ ملازمہ کی بیٹی نہیں ہے بلکہ کوئی میم صاحب ہے۔ مجھے رضیہ کے علاوہ جویریہ بھی اچھی لگتی تھی۔ با ادب تمیز دار اور آٹھویں پاس تھی۔ اس کے نصیب کم تھے لیکن صورت تو لاکھوں میں ایک تھی ۔ سرخ و سفید رنگت ، نازک ہاتھ پاؤں جیسے کوئی شہزادی ہو۔
میرے بچوں سے پیار کرتی ۔ جب میں امی کے گھر ہوتی وہ میرے بچوں کے ساتھ کھیلتی ، ان کا دل بہلاتی اور بچوں کی چہکاروں میں کھو جاتی ۔ شروع میں میرے شوہر نے ان لوگوں کی طرف توجہ نہ دی لیکن جب میں نے ان کی بیبتا خالد کو سنائی تو وہ بھی افسوس کرنے لگے کہ ایسی شریف عورتوں کے ساتھ ان کے والی وارث نے اچھا سلوک نہیں کیا کہ یہ ماں ، بیٹی در بدر دوسروں کا سہارا لینے پر مجبور تھیں۔ وہ اب جب آتے کچھ نہ کچھ نوٹ رضیہ کو دے دیتے جس کا میں بالکل برا نه مانتی جب میرے یہاں پانچویں بچے کی آمد ہونے کو تھی میں نے ساس کے گھر جانا ترک کر دیا ، اب زیادہ وقت اپنے گھر میں گزرتا ۔ خالد ہمیشہ میرے ساتھ جایا کرتے تھے، جب میں نے جانا کم کر دیا تو انہوں نے بھی اپنے والدین کے یہاں جانا چھوڑ دیا۔ ایک روز میری ساس نے پیغام بھجوایا کہ جیسے تم کو اپنی اولاد پیاری ہے ہم کو بھی تم پیارے ہو، اگر بہو آنے سے قاصر ہے تم تو آجایا کرو۔ میں نے خالد سے کہا۔ آپ ضرور اپنے والدین کے گھر معمول کے مطابق جایا کریں اور ان کی دعائیں لیا کریں۔
میرے اصرار پر خالد اپنے ماں ، باپ سے ملنے ہر ہفتہ جانے لگے۔ پہلے گھنٹہ دو گھٹہ بعد واپس آجاتے پھر ہفتہ کو صبح جاتے تو رات کو لوٹتے اور کبھی رات میں بھی ٹھہر جاتے اور اتوار کی شام کو واپس آتے۔ میں اکیلی ہوتی تو تشویش ہونے لگتی۔ کہتے امی جان بیمار پڑی ہیں ، روک لیتی ہیں، انکار نہیں کر سکتا۔ تم ہی بتاؤ کیا کروں ، کہتی ہو کہ نہ جایا کروں تو ٹھیک ہے۔ میں نہیں جاؤں گا۔ ان کے ایسا کہنے پر خوف خدا سے کانپ جاتی تھی اور کہتی کہ آپ ضرور اپنی بیمار والدہ کی خدمت اور خبر گیری کریں، میرے پاس ملازمہ تو ہے، میری فکر مت کریں۔ ملازمہ کا شوہر ہمارا ڈرائیور تھا اور یہ کنبہ میرے سرونٹ کوارٹر میں سکونت پذیر تھا۔
رفتہ رفتہ خالد نے مجھ میں اور گھر میں دلچسپی کم کر دی۔ بات بے بات الجھنے لگے۔ ان دنوں کی اذیت نہیں بھول سکتی ، لگتا تھا کہ مجھ پر کوئی مصیبت ٹوٹ پڑنے کو ہے۔ ساس ہمارے گھر آئیں، میں نے ان سے فریاد کی تو فقط ہاں میں ہاں ملا کر چلی گئیں اور مسئلے کا کوئی حل نہ نکلا ۔ اتنی پریشانی بڑھی کہ میری حالت نیم پاگلوں کی سی ہو گئی۔ میری ڈلیوری کے دن نزدیک تھے اور شوہر صاحب کی بے اعتنائی بڑھتی جاتی تھی۔ تنگ آکر امی جان کو فون کیا ، انہوں نے کہا کہ تم یہاں میرے پاس حیدر آباد آ جاؤ۔ میں نے بھی یہی مناسب جانا اور کراچی سے حیدر آباد چلی گئی۔ سوچا جب بے بی کی پیدائش کے مرحلے سے فارغ ہو جاؤں گی تو خالد آ کر لے جائیں گے۔ یہاں کم از کم امی جان کی توجہ اور غم گساری تو حاصل تھی۔
جب انسان حالات سے بہت پریشان ہو تو وہ ماحول سے کچھ دیر کیلئے آنکھیں بند کر لینا چاہتا ہے، میرا بھی حال ایسا ہی تھا۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سردبا کر آنکھیں بند کرنے لگی تھی۔ اللہ تعالی نے ایک اور بیٹی سے نواز دیا۔ شوہر کو فون پر اطلاع کی کہ فورا حیدرآباد پہنچ جائیں گے۔ وہ نہ آئے تو امی نے فون کیا کہ آکر بیٹی کو تو دیکھ جائیے اور بیوی بچوں کو لے جاتا ہے تو لے جائیے۔ جواب دیا صہبا سے بات کرائیں ۔
ان دنوں ہم کلفٹن کے علاقے میں رہتے تھے جبکہ میری ساس کا گھر سوسائٹی میں تھا۔ پہلی بار اور اس کی ماں میری ساس کے پاس کام کا پو چھنے آئی میں اس وقت وہیں بیٹھی تھی۔ آنے والی ضرورت مند عورت نے اپنی ببتا سنائی تو میرا دل بھر آیا۔ وہ ایک بے سہارا عورت تھی ، اس لحاظ سے کہ شوہر نے اس کو چھوڑ دیا اور دوسری شادی کر لی تھی۔ اجویریہس کا شوہر دوسری بیوی کو لے کر اسلام آباد چلا گیا تھا۔ وہ بیٹا بھی ساتھ لے گیا جبکہ اپنی بیٹی جویریہ کو پہلی بیوی کے پاس چھوڑ گیا۔ بعد میں اس نے وہ کوٹھی بھی بیچ دی جس میں یہ عورت اور اس کی بیٹی رہتی تھیں۔ رضیہ کا کہنا تھا کہ اس کا شوہر جویریہ کو اپنی اولاد مانتا ہی نہیں ہے اور بیٹی کو اسی وجہ سے چھوڑ گیا ہے جبکہ بیٹا لے گیا ہے۔ رضیہ کے شوہر کو اس کے کردار پر اعتماد نہ تھا۔ اب یہ دونوں ماں، بیٹی کسمپرسی کی حالت میں کبھی کسی کے پاس اور کبھی کسی واقف کار کے گھر میں زندگی کے دن گزار نے پر مجبور تھیں لیکن کوئی بھی ان کو مستقل اپنے گھر رکھنے پر تیار نہ تھا۔
رضیہ اور جویریہ کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا ، وہ ادھر ادھر ماری ماری پھرتی تھیں۔ دور کے رشتہ داروں نے کچھ عرصہ رہنے کو جگہ دی ، وہ اب ان کو جگہ خالی کرنے کو کہہ رہے تھے۔ رضیہ نے استدعا کی کہ اگر اس کو سرونٹ کوارٹر میں رکھ لیا جائے تو وہ گھر کا تمام کام اور کھانا وغیرہ پکانے کی ذمہ داری بغیر تنخواہ کے اٹھانے کو تیار ہے۔ صرف سر چھپانے کو جگہ مل جائے کیونکہ اس کی بیٹی 14 برس کی ایک خوبصورت لڑکی تھی اور زمانے کے ڈر سے وہ اس کو کسی شریف گھر کے اندر چھپا کر رکھنا چاہتی تھی۔ ہمارے ساس سسر ان دنوں اکیلے رہ رہے تھے۔ چھوٹا بیٹا اور بہو دبئی چلے گئے تھے جبکہ میں اپنے چار بچوں کے ہمراہ علیحدہ گھر میں اقامت پذیر تھی۔ بچوں کے شور شرابے سے سسر صاحب ڈسٹرب ہوتے تھے۔ میں ہفتہ میں اور کبھی پندرہ روز بعد ان سے ملنے چلی جاتی تھی۔ ان دنوں ان کو کسی ایسے کنبے کی اشد ضرورت تھی جو مختصر ہو اور گھریلو کام کاج کی ذمہ داری بھی پوری کر دے۔
سرونٹ کوارٹر خالی پڑا تھا، خانساماں جا چکا تھا۔ ہماری ساس نے فورا رضیہ اور جویریہ کو اپنے سرونٹ کوارٹر میں رہائش دے دی۔ بدلے میں انہوں نے کچن اور گھر کا تمام انتظام سنبھالنا تھا۔ میری ساس صاحبہ نے ان کی معقول تنخواہ بھی مقرر کردی۔ شرط یہ رکھی کہ ان سے ملنے کوئی مرد، خواہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو نہیں آئے گا۔ یہ شرط انہوں نے قبول کر لی اور ماں ، بیٹی ہماری ساس کے گھر رہنے لگیں۔ ان لوگوں کے رہنے سے امی جان کو بہت آرام ملا، وہ سارا کام کرتیں اور امی جان کو تنہائی بھی محسوس نہ ہوتی۔میں جب جاتی جویریہ کیلئے اپنے جوڑے لے جاتی جو میرے لحاظ سے آؤٹ آف فیشن ہو جاتے تھے یا تنگ ہو جاتے تھے۔ وہ ان کپڑوں کو پا کر بہت خوش ہوتی ۔ امی کی سلائی مشین پر ٹھیک کر کے جب پہنتی تو لگتا کہ ملازمہ کی بیٹی نہیں ہے بلکہ کوئی میم صاحب ہے۔ مجھے رضیہ کے علاوہ جویریہ بھی اچھی لگتی تھی۔ با ادب تمیز دار اور آٹھویں پاس تھی۔ اس کے نصیب کم تھے لیکن صورت تو لاکھوں میں ایک تھی ۔ سرخ و سفید رنگت ، نازک ہاتھ پاؤں جیسے کوئی شہزادی ہو۔
میرے بچوں سے پیار کرتی ۔ جب میں امی کے گھر ہوتی وہ میرے بچوں کے ساتھ کھیلتی ، ان کا دل بہلاتی اور بچوں کی چہکاروں میں کھو جاتی ۔ شروع میں میرے شوہر نے ان لوگوں کی طرف توجہ نہ دی لیکن جب میں نے ان کی بیبتا خالد کو سنائی تو وہ بھی افسوس کرنے لگے کہ ایسی شریف عورتوں کے ساتھ ان کے والی وارث نے اچھا سلوک نہیں کیا کہ یہ ماں ، بیٹی در بدر دوسروں کا سہارا لینے پر مجبور تھیں۔ وہ اب جب آتے کچھ نہ کچھ نوٹ رضیہ کو دے دیتے جس کا میں بالکل برا نه مانتی جب میرے یہاں پانچویں بچے کی آمد ہونے کو تھی میں نے ساس کے گھر جانا ترک کر دیا ، اب زیادہ وقت اپنے گھر میں گزرتا ۔ خالد ہمیشہ میرے ساتھ جایا کرتے تھے، جب میں نے جانا کم کر دیا تو انہوں نے بھی اپنے والدین کے یہاں جانا چھوڑ دیا۔ ایک روز میری ساس نے پیغام بھجوایا کہ جیسے تم کو اپنی اولاد پیاری ہے ہم کو بھی تم پیارے ہو، اگر بہو آنے سے قاصر ہے تم تو آجایا کرو۔ میں نے خالد سے کہا۔ آپ ضرور اپنے والدین کے گھر معمول کے مطابق جایا کریں اور ان کی دعائیں لیا کریں۔
میرے اصرار پر خالد اپنے ماں ، باپ سے ملنے ہر ہفتہ جانے لگے۔ پہلے گھنٹہ دو گھٹہ بعد واپس آجاتے پھر ہفتہ کو صبح جاتے تو رات کو لوٹتے اور کبھی رات میں بھی ٹھہر جاتے اور اتوار کی شام کو واپس آتے۔ میں اکیلی ہوتی تو تشویش ہونے لگتی۔ کہتے امی جان بیمار پڑی ہیں ، روک لیتی ہیں، انکار نہیں کر سکتا۔ تم ہی بتاؤ کیا کروں ، کہتی ہو کہ نہ جایا کروں تو ٹھیک ہے۔ میں نہیں جاؤں گا۔ ان کے ایسا کہنے پر خوف خدا سے کانپ جاتی تھی اور کہتی کہ آپ ضرور اپنی بیمار والدہ کی خدمت اور خبر گیری کریں، میرے پاس ملازمہ تو ہے، میری فکر مت کریں۔ ملازمہ کا شوہر ہمارا ڈرائیور تھا اور یہ کنبہ میرے سرونٹ کوارٹر میں سکونت پذیر تھا۔
رفتہ رفتہ خالد نے مجھ میں اور گھر میں دلچسپی کم کر دی۔ بات بے بات الجھنے لگے۔ ان دنوں کی اذیت نہیں بھول سکتی ، لگتا تھا کہ مجھ پر کوئی مصیبت ٹوٹ پڑنے کو ہے۔ ساس ہمارے گھر آئیں، میں نے ان سے فریاد کی تو فقط ہاں میں ہاں ملا کر چلی گئیں اور مسئلے کا کوئی حل نہ نکلا ۔ اتنی پریشانی بڑھی کہ میری حالت نیم پاگلوں کی سی ہو گئی۔ میری ڈلیوری کے دن نزدیک تھے اور شوہر صاحب کی بے اعتنائی بڑھتی جاتی تھی۔ تنگ آکر امی جان کو فون کیا ، انہوں نے کہا کہ تم یہاں میرے پاس حیدر آباد آ جاؤ۔ میں نے بھی یہی مناسب جانا اور کراچی سے حیدر آباد چلی گئی۔ سوچا جب بے بی کی پیدائش کے مرحلے سے فارغ ہو جاؤں گی تو خالد آ کر لے جائیں گے۔ یہاں کم از کم امی جان کی توجہ اور غم گساری تو حاصل تھی۔
جب انسان حالات سے بہت پریشان ہو تو وہ ماحول سے کچھ دیر کیلئے آنکھیں بند کر لینا چاہتا ہے، میرا بھی حال ایسا ہی تھا۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سردبا کر آنکھیں بند کرنے لگی تھی۔ اللہ تعالی نے ایک اور بیٹی سے نواز دیا۔ شوہر کو فون پر اطلاع کی کہ فورا حیدرآباد پہنچ جائیں گے۔ وہ نہ آئے تو امی نے فون کیا کہ آکر بیٹی کو تو دیکھ جائیے اور بیوی بچوں کو لے جاتا ہے تو لے جائیے۔ جواب دیا صہبا سے بات کرائیں ۔
امی نے فون مجھے پکڑا دیا۔ کہنے لگے اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی تھیں، میں لینے کیوں آؤں؟ میں نہیں آؤں گا بلکہ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ وہیں رہ جاؤ، اب گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا لہجہ ایسا بیگانہ تھا کہ دل بیٹھ گیا۔ پڑوسن کو فون کیا کہ ذرا معلوم تو کرو میرے گھر کے کیا حالات ہیں ؟ اس نے کہا، کیا حالات بتاؤں ؟ تمہارے میاں نے جویریہ نامی لڑکی سے شادی کر لی ہے جو بہت خوبصورت ہے اور پندرہ سولہ کا سن ہوگا۔ وہ اس کے ساتھ بہت خوش و خرم ہیں۔ نہ جانے تم کدھر ہو، کم از کم جاتے ہوئے کچھ بتا تو دیا ہوتا ، رابطہ تک نہ کیا تم نے ریسیور میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا ، دیوار کا سہارا لینا چاہا تو اس نے بھی سہارا دینے سے انکار کر دیا جیسے دو قدم پیچھے کھسک گئی ہو، میں فرش پر گر پڑی۔ ہوش آیا تو گھر لٹ چکا تھا۔
روتی پیٹتی کراچی واپس آئی گھر کو تالا لگا تھا۔ صاحب اپنی نئی بیگم کے ہمراہ ہنی مون پر جا چکے تھے۔ ساس کے گھر پہنچی ، وہ سب کچھ جان کر انجان تھیں ۔ روتی پیٹتی رہی ، وہ پتھر کا بنی ٹکر ٹکر مجھے دیکھتی رہیں۔ میں نے آخر کو سوال کیا ۔ اب میں کہاں جاؤں بتائیے، بچے لے کر گھر کو تو تالا لگ گیا ہے۔ بولیں . اس گھر کو تالا لگا ہے لیکن یہ گھر تو کھلا ہے، یہ بھی تمہارا گھر ہے اگر سمجھو تو اب اس گھر میں رہو۔ میں بھی تو اکیلی پڑی ہوں ۔ تم اور نیچے ساتھ رہیں گے تو پھر مجھے کسی اور کو رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے جواب نے مجھے لا جواب کر دیا۔ کراچی آچکی تھی ، کہاں جاتی۔ ساس ، سر کے گھر کو ہی قبول کر لیا کہ بچے تو پالنے تھے۔ اتنے بچے کون رکھتا ، کون ان کے اخراجات اٹھاتا؟ مجھے یوں لگتا جیسے سب انسان پتھر کے بن گئے ہوں۔ دعا کرتی اے خدا تو مجھے بھی پتھر کا بنا دے مگر ستم کی آگ تو پتھر کو بھی کھلا دیتی ہے۔
ہوس کی آگ بری شے ہے۔ یہ گھر ہی نہیں دل بھی جلا دیتی ہے اور پاک محبت کی عبادت گاہوں کو آلودہ کر دیتی ہے۔ جویریہ کے حسن و جوانی نے اولاد کا پیارا رشتہ بھی گہنا دیا تھا۔ خالد اس کی نو خیز خوبصورتی میں گم ہو چکے تھے اور مجھ سے ناتا توڑ دیا تھا۔ بچوں کا خرچ بھجوا دیتے تھے۔ اپنے والدین سے ملنے آتے تو بھی مجھ سے بات نہ کرتے کہیں میں گلے نہ پڑ جاؤں ۔
روتی پیٹتی کراچی واپس آئی گھر کو تالا لگا تھا۔ صاحب اپنی نئی بیگم کے ہمراہ ہنی مون پر جا چکے تھے۔ ساس کے گھر پہنچی ، وہ سب کچھ جان کر انجان تھیں ۔ روتی پیٹتی رہی ، وہ پتھر کا بنی ٹکر ٹکر مجھے دیکھتی رہیں۔ میں نے آخر کو سوال کیا ۔ اب میں کہاں جاؤں بتائیے، بچے لے کر گھر کو تو تالا لگ گیا ہے۔ بولیں . اس گھر کو تالا لگا ہے لیکن یہ گھر تو کھلا ہے، یہ بھی تمہارا گھر ہے اگر سمجھو تو اب اس گھر میں رہو۔ میں بھی تو اکیلی پڑی ہوں ۔ تم اور نیچے ساتھ رہیں گے تو پھر مجھے کسی اور کو رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے جواب نے مجھے لا جواب کر دیا۔ کراچی آچکی تھی ، کہاں جاتی۔ ساس ، سر کے گھر کو ہی قبول کر لیا کہ بچے تو پالنے تھے۔ اتنے بچے کون رکھتا ، کون ان کے اخراجات اٹھاتا؟ مجھے یوں لگتا جیسے سب انسان پتھر کے بن گئے ہوں۔ دعا کرتی اے خدا تو مجھے بھی پتھر کا بنا دے مگر ستم کی آگ تو پتھر کو بھی کھلا دیتی ہے۔
ہوس کی آگ بری شے ہے۔ یہ گھر ہی نہیں دل بھی جلا دیتی ہے اور پاک محبت کی عبادت گاہوں کو آلودہ کر دیتی ہے۔ جویریہ کے حسن و جوانی نے اولاد کا پیارا رشتہ بھی گہنا دیا تھا۔ خالد اس کی نو خیز خوبصورتی میں گم ہو چکے تھے اور مجھ سے ناتا توڑ دیا تھا۔ بچوں کا خرچ بھجوا دیتے تھے۔ اپنے والدین سے ملنے آتے تو بھی مجھ سے بات نہ کرتے کہیں میں گلے نہ پڑ جاؤں ۔
خدا جانے انہوں نے مجھے کس بات کی سزا دی یہ تو میں آج تک سمجھ ہی نہ سکی۔ سچ کہتے ہیں کہ مرد ہو یا عورت انسانی فطرت کا اعتبار نہیں کہ کچھ لوگوں میں بے مروتی ، خود غرضی اور بے وفائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے