Sublimegate Urdu Stories
دلہن کا قتل - سبق آموز کہانی
قسط وار کہانیاں |
یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب موبائل فون نہیں آئے تھے ، مگر ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹ عام تھے۔ ایک روز نور چشم ہمارے گھر آئی تو بہت خوش تھی۔ کہنے لگی۔ کوثر جب سے اسکول چھوڑا ہے ، گھر میں بالکل دل نہیں لگتا ہے۔ خاص طور پر تم بہت یاد آتی تھیں، تنہائی ستاتی تھی اور میں بور ہوتی تھی۔ تبھی میں نے بابا جان سے ٹیپ ریکارڈر کی فرمائش کر دی۔ انہوں نے مجھے یہ لا کر دے دیا۔ اب میں بہت خوش ہوں۔ سارا دن اپنی پسند کے گانے سنتی ہوں، یوں میرا دل بہل جاتا ہے۔ نور چشم نے تنہائی کا علاج ڈھونڈ لیا تھا۔ وہ اب فارغ وقت میں گانے سنتی تھی تاہم اس کی ماں، بیٹی کے اس شوق سے نالاں تھی۔ وہ اس پر سخت برہم ہوتی۔ جب وہ گانے لگاتی تو ماں کہتی۔ اچھی لڑکیوں کے یہ اطوار نہیں ہوتے۔ جب سے یہ منحوس شے گھر میں آئی ہے ، اس لڑکی نے گھر کے کام کو ہاتھ نہ لگانے کی قسم کھائی ہے۔ ماں تو اس پر برہم رہتی مگر باپ دلنواز خان بیٹی کو کچھ نہ کہتا بلکہ بیوی کو سمجھاتا کہ یہ ہمارے گھر میں کچھ عرصے کی مہمان ہے۔ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں ، تم اس کو کچھ مت کہا کرو۔
نور چشم تھی بہت خوبصورت ، میری ہم جماعت تھی۔ آٹھویں کا امتحان دیا تو اس کی ماں نے اس کو اسکول سے اٹھا لیا کیونکہ ان لوگوں میں پڑھانے کا بالکل رواج نہ تھا۔ یہ تو شہر میں آباد ہو جانے کی وجہ سے اتنا پڑھ سکی تھی۔ جب تک وہ اسکول آتی رہی، روز ہماری ملاقات ہو جاتی تھی۔ اس کے بعد تو ہمیں ایک دوسرے کو دیکھے ہوئے مہینوں گزر جاتے۔ جب کبھی میں اس کے گھر جاتی ، یا وہ میرے گھر آجاتی ، تو ہم مل لیتے ، ورنہ ایک دوسرے کی خبر نہ رہتی۔ ہر وقت گانے سننے کی وجہ سے اس کی ماں بیٹی سے بہت شاکی رہتی تو وہ رنجیدہ ہو جاتی ہمہ وقت اس کی ماں کوسنے دیتی کہ اس لڑکی کو نجانے کیا ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے بیٹوں کو بھی منع کر دیا تھا کہ وہ نور کو گانے کی کیسٹیں لا کر نہ دیا کریں ، ورنہ یہ برباد ہو جائے گی۔
کہتے ہیں کہ ماں کا کوسنا اچھا نہیں ہوتا اس لئے ماؤں کو چاہئے کہ اولاد کو نہ کوسیں۔ کبھی کی گھڑی کیسی ہوتی ہے اور بددعا لگ جاتی ہے۔ نور چشم کی چھوٹی بہن تب دس برس کی تھی۔ اس کا نام دلشاد تھا۔ وہ نور سے سات برس چھوٹی تھی۔ ان کے گھر کے قریب ہی ایک میوزک سینٹر تھا، جہاں کیسٹوں کی چھوٹی سی دکان بھی تھی۔ اپنا شوق پوراکرنے کے لئے نور ، اپنی بہن دلشاد کو کوئی چیز خریدنے کے بہانے بھیج دیتی اور اپنی کیسٹ میں پرانے گانوں کی جگہ نئے گانے بھی بھروا لیتی۔ وہ ایک پرچے پر گانے کے بول لکھ دیتی تھی اور ساتھ یہ بھی لکھ دیتی کہ اچھے گانے بھرنا۔ تو اُدھر سے بھی لکھا ہوا جواب آنے لگا کہ گانے بہت اچھے بھرے ہیں۔ اس پر نور مطمئن ہو جاتی۔ کچھ عرصہ یہ سلسلہ چلتا رہا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ نور چشم کے پاس پیسے نہ تھے کہ کیسٹ میں نئے گانے بھروا لے۔ پہلے تو وہ اپنے باپ سے پیسے لیا کرتی تھی، لیکن ان دنوں اس کا باپ کسی کام سے دوسرے شہر گیا ہوا تھا۔ اس نے ماں سے پیسے مانگے ، اس نے نہ صرف انکار کر دیا اور صلواتیں بھی سنائیں۔ اس پر اسے دکھ ہوا اور وہ خوب روئی۔ اس کو روتے دیکھ کر دلشاد کو دکھ ہوا۔ وہ بہن سے بہت محبت کرتی تھی۔ اسے پتا تھا کہ اس کی بہن بری لڑکی نہیں ہے لیکن اسے گانے سننے کا شوق اس وجہ سے ہے کہ قدرت نے اس کو بہت اچھی آواز دی تھی۔ وہ گانا سن کر ، ہوبہو ویسا ہی گا دیتی تھی۔ سبھی سہیلیاں نور چشم سے منت کرتیں کہ تم گانا سناؤ۔ اور وہ اتنا اچھا گاتی کہ سبھی محو ہو جاتیں۔ اللہ نے اسے رسیلی آواز دی تھی اور گانے کی صلاحیت بھی، جو ہر کسی کو نہیں ملتی۔
سُر سنگیت کا گلے میں رچا بسا ہونا بھی خدا کی دین ہے۔ بہر حال نور کا شوق اسی سبب تھا اور وہ طرح طرح کے گانے بھی اسی باعث سنتی تھی تاکہ ان کو خود سے گنگنا سکے۔ یہی اس کا مشغلہ تھا اور اس میں اسے ایک انجانی خوشی ملتی تھی۔ اس کے والد اس کے شوق کو سمجھتے تھے مگر ماں نہیں، تبھی وہ ڈنڈا لے کر اس کے پیچھے پڑی رہتی تھی۔ دلشاد نے جب بہن کو رنجیدہ دیکھا تو وہ از خود کیسٹوں کی دکان پر چلی گئی اور میوزک سینٹر والے نوجوان سے کہا۔ حرم بھائی ! اگر آپ ادھار کیسٹ بھر دیں تو مہر بانی ہو گی۔ بابا جان گھر پر نہیں ہیں ، جب آجائیں گے تو میں ان سے رقم لے کر آپ کو دے جاؤں گی۔ خرم نے کیسٹ بھر کر اس کو دے دیا اور کہا۔ بہنا، پیسوں کی فکر نہ کرو۔ پیسے آجائیں گے۔
پیسے نہ ہوں تب بھی کیسٹ لے آیا کرو، میں گانے بھر دوں گا۔ دلشاد کیسٹ بھروا کر لے آئی تو نور چشم نے خرم کو رقعہ لکھا۔ بھیا، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے کیسٹ بھر دیا۔ یوں آپ کی رقم ادا کر دوں گی۔ جو نہی میرے والد آجائیں گے پیسے آپ کو مل جائیں گے۔ اس کے بعد اکثر یہ ہونے لگا کہ رقعوں کا بھی تبادلہ ہو جاتا اور جب رقم نہ ہوتی بغیر پیسوں کے ادھار پر کیسٹ بھر والی جاتی۔ ہوتے ہوتے اس پر چے بازی نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور تحریر کا رنگ ڈھنگ بدلنے لگا۔ خرم اب کاغذ کے پرزوں پر یہ تحریر کرنے لگا کہ تمہاری بہن نے بتادیا ہے کہ تمہارا نام نور چشم ہے۔ مجھے تم کو ایک بار دیکھنے کی آرزو ہے۔ کاش میں، ایک بار تمہاری ایک جھلک دیکھ پاؤں۔
جب بار بار خرم یہ تحریر بھیجنے لگا تو نور کا بھی دل چاہا کہ وہ ایک بار خرم کی دکان پر جا کر اس سے بات کرے، لیکن مجبور تھی۔ اس کی دکان پر کیسے جاسکتی تھی ؟ ماں کی اجازت نہیں تھی۔ وہ اپنے بڑے بھائیوں سے بھی بہت ڈرتی تھی، لہٰذا جب بھی خرم کی طرف سے کوئی ایسا مطالبہ لکھا ہوا ملتا، وہ اپنی خواہش کو دل میں دبا لیتی۔ پہلے یہ باتیں کاغذ کے پرزوں پر لکھی جاتی تھیں، پھر ایک روز خرم نے کیسٹ میں گانے بھرنے کے بجائے اپنی باتیں بھر کر بھجوادیں، جس میں التجائیں تھیں کہ بس ایک بار ایک منٹ کو میری دکان پر آجاؤ، پھر دوبارہ کبھی یہ مطالبہ نہیں کروں گا۔ میں صرف ایک جھلک تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اسی طرح کی باتیں وہ کیسٹ میں بھر کر دلشاد سے کہتا کہ یہ کیسٹ سب سے چھپا کر اپنی بہن کو دینا کسی اور کو مت دکھانا۔ اب نور چشم کو بھی ایک نیا مشغلہ ہاتھ آگیا۔ وہ یہ کیسٹ تبھی سنتی جب گھر والے سو جاتے۔ ایک بار خرم نے اپنی آواز میں ایک گانار یکارڈ کر کے اسے بھیجا۔ اس کی آواز بہت اچھی تھی۔ جب نور نے اس کا گایا ہوا گانا سنا تو وہ اس کی مداح ہو گئی اور فرمائش کی کہ فلاں گانا بھی اپنی آواز میں گا کر کیسٹ میں بھر دے۔
نو عمر بچی کو اس کھیل میں مزہ آنے لگا ادھر خرم نے بھی مطالبہ کر دیا کہ وہ بھی اپنی آواز میں کوئی گانار یکارڈ کر کے بھجوائے۔ نور چشم کی تو آرزو تھی کہ کوئی اس کی سریلی آواز کو سنے اور ستائش کرے کہ وہ کتنا اچھا گا سکتی ہے۔ جب خرم نے اس کی آواز میں گانا سنا تو اس کا دل جھوم اٹھا اور وہ اس آواز کا دیوانہ ہو گیا۔ اب وہ ہر بار اپنی فرمائش کیسٹ میں ہر ریکارڈ کر کے بھیجتا کہ اب یہ گانا گا کر بھر دو اور اب فلاں والا کیونکہ یہ گیت مجھے پسند بھی ہے اور تمہاری آواز تو اتنی اچھی ہے کہ تم بہت بڑی سنگر بن سکتی ہو۔ اگر تم چار دیواری میں قید نہ ہوتیں اور تمہیں ریڈیو یا ٹی وی پر گانے کا موقعہ مل جاتا تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم ساری دنیا میں دھوم مچا سکتی ہو۔ ایسی ستائش پر نور چشم مدہوش رہنے لگی۔ اسے لگا جیسے اس کی زندگی کا مقصد اس کو مل گیا ہو۔اب کیسٹوں میں صرف گانے ہی نہیں، دونوں جانب سے ستائش کے ساتھ کچھ پیار بھری باتیں بھی ریکار ڈ ہونے لگی تھیں۔
نور چشم صرف پندرہ برس کی ہی تو تھی، چار دیواری میں قید ، ہر وقت ماں کے کو سنے سننے کو ملتے تو اس کا دل اس تلخ ماحول سے فرار چاہتا۔ وہ سوچتی کہ پر لگ جائیں تو میں آزاد فضا میں پہنچ جاؤں۔ ایسے میں خرم کی محبت بھری باتیں سن کر وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتی تھی۔ وہ بن دیکھے محبوب کے اقرار محبت سے خوابوں کی دنیا میں رہنے لگی تھی۔ ان باتوں کا نشہ تھا کہ تنہائی کا کوئی بہترین بہلاوا مل گیا تھا۔ اب خرم کا اصرار بڑھنے لگا کہ تم بھی مجھ سے باتیں کیا کرو۔ اگر میں تم کو دیکھ نہیں سکتا، سن تو سکتا ہوں۔ خرم نے ایک روز کیسٹ میں کہا کہ اب بھی تم نے مجھ سے کلام نہ کیا تو پھر میں بھی کبھی تم سے کلام نہ کروں گا۔ یہ سمجھ لو کہ آج آخری بار تم میری آواز سن رہی ہو۔ اس دھمکی نے اسے مجبور کر دیا کہ اب وہ بھی کیسٹ کے ذریعے اس سے باتیں کرے۔ اب وہ اس کی باتوں کا جواب محبت سے دینے لگی۔ ابھی تک نور چشم نے خرم کو دیکھا تھا اور نہ خرم نے اسے ، مگر آواز کے رشتے سے انوکھی محبت پروان چڑھنے لگی۔ اگر خرم کوئی تحفہ دلشاد کے ہاتھ اسے بھیجتا تو وہ کیسٹ کے ذریعے شکریہ ادا کرتی۔ ایک روز اچانک نور چشم کی چچی چچا گاؤں سے آئے اور دلنواز خان سے شادی کی تاریخ مانگی کیونکہ نور چشم کارشتہ اس کے والد نے اسے بچپن سے ہی اپنے بھائی حمزہ خان کے بیٹے ارشاد خان سے طے کر دیا تھا، جو پھلوں کے باغات کا مالک تھا۔ شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ دلنواز خان کا سارا کنبہ نور چشم کی شادی کے لئے اپنے گاؤں روانہ ہونے کی تیاریوں میں لگ گیا۔
نور ایک بار بھی خرم سے نہ مل سکی اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کی جھلک دیکھ سکے۔ یہاں تک کہ جدائی کی گھڑی آگئی۔ دونوں کو ہی اس بات غم تھا کہ وہ ایک بار بھی ایک دوسرے کا دیدار نہیں کر سکے تھے۔ نور نے روتے ہوئے اپنی آواز میں آخری کیسٹ خرم کو بھیجی، جس میں اس نے کہا تھا کہ مجھے یہ خبر نہ تھی کہ یوں اچانک تم سے جدا ہو جاؤں گی، لیکن نہ تو تم سے ملنا میرے بس میں ہے اور نہ موت کو گلے لگانا۔ بہتر ہو گا تم مجھے بھلانے کی کوشش کرنا اور کچھ ایسی باتیں جو کم سن لڑکیاں محبت بھرے جذبات کے ساتھ محبوب سے بچھڑتے وقت سوچتی ہیں۔ اس نے اپنی اور خرم کی آوازوں میں بھری ہوئی کیسٹوں کو ایک رومال میں باندھا اور اپنے پلنگ کے نیچے چھپادیں اور موقع کا انتظار کرنے لگی کہ کسی طرح دلشاد کو یہ کیسٹیں دے کر خرم کو لوٹا دے۔ اس آخری پیغام کے ساتھ کہ اس کی شادی ہو رہی ہے اور اب وہ ایک جھلک دیکھنا تو کجا کبھی ایک دوسرے کی آواز بھی نہ سن سکیں گے، لہٰذا خرم ان کیسٹوں کو تلف کر دے۔ انہیں کچھ دیر میں روانہ ہونا تھا۔ روتے روتے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔ خرم کی ایک جھلک دیکھے بنا اسے یہ شہر چھوڑنے کا بہت غم تھا۔
اسے اپنے منگیتر سے کوئی لگاؤ محسوس نہیں ہورہا تھا کیونکہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے سے دور الگ الگ مقامات پر رہے تھے۔ اس کے منگیتر ارشاد خان نے اس کے بھائی شہوار خان سے کہا تھا کہ کیوں نہ ہم شادی بیاہ کے گانوں کی کچھ کیسٹیں بھر والیں۔ شہوار خان بولا۔ ٹھیک ہے، یہاں ہمارے گھر کے قریب دکان میں نغمے بھرے جاتے ہیں، میں وہاں سے شادی کے گانے ریکارڈ کروا لیتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ گھر میں آیا اور ماں سے کچھ کیسٹ طلب کئے۔ اتفاق سے اس وقت نوکرانی نور چشم کے چپل اٹھانے اس کے کمرے میں گئی۔ اس نے جو سنا کہ شہوار ماں سے کیسٹ مانگ رہا ہے ، اس نے رومال میں بندھے وہ کیسٹ شہوار کو دے دیئے۔ یہ رومال جیسے بندھا ہوا تھا، ویسے ہی شہوار نے باہر جا کر ارشاد خان کو دے دیا کہ مجھے کافی کام ہے، تم ان میں سے کوئی کیسٹ نکال کر اچھے سے نغمے بھر والو۔
شادی کا دن قریب آگیا۔ ارشاد خان کو نغمے بھروانے کا وقت ہی نہ ملا۔ اس نے سوچا کہ انہی کیسٹوں کو سن لوں کہ ان میں کیسے گانے بھرے ہوئے ہیں۔ کیا خبر اچھے ہوں ، انہی سے کام چل جائے۔ اس نے جو نہی ایک کیسٹ ٹیپ ریکارڈ پر لگا کر بٹن آن کیا۔ اس کا سر گھومنے لگا۔ اس کی ہونے والی دلہن کی پیار بھری باتیں کسی اور کے لئے کیسٹ میں بھری ہوئی تھیں ، کسی اور شخص کی ملنے کی خاطر بے قراریاں اس میں قید تھیں۔ ادھر نور چشم دلہن بن رہی تھی ، ادھر ارشاد خان غم و غصہ میں ڈوبا رقابت کے جہنم میں دہک رہا تھا۔
شادی میں چند گھنٹے ہی باقی تھے۔ تمام باراتی دروازے پر جمع تھے۔ بارات کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور اس کے دل پر قیامت گزر رہی تھی۔ اچانک ہی اس کے دل نے عجیب و غریب فیصلہ کر لیا اور بن سنور کر اپنی دلہن بیاہ لانے کو تیار ہو گیا۔ اس نے اپنے چچا زاد شہوار خان کو کہا۔ میری خواہش ہے دلہن کو رخصت کرنے اس کا بھائی بھی ہماری گاڑی میں بیٹھ کر ساتھ چلے۔ درست ہے۔ شہوار اور دلشاد نے جواب دیا۔ غمزدہ والدین رخصتی کے وقت کبھی لڑکی کے ہمراہ نہیں جاتے وہ گھر سے ہی اسے رخصت کر دیتے ہیں ، تاہم چچا جان اور چچی اگر دوسری گاڑی میں ہمارے آگے چلیں گے ہم آپ کےساتھ ہوں گے۔ ہم سب سے پیچھے چلیں گے ۔ دولہا نے فرمائش کی۔ جیسی آپ کی مرضی۔ دلہن کے بھائیوں نے جواب دیا۔ جب بارات گاؤں کے قریب پہنچی، اچانک دولہا نے نور چشم کے بھائی سے کہا کہ یہ کیسٹ لگا دیں، یوں گاڑی میں لگے ہوئے ٹیپ ریکارڈر پر کیسٹ چلنے لگی۔
جوں جوں اس کی آواز گاڑی میں گونجنے لگی، اس کے بھائی کے دل و دماغ میں دھماکے ہونے لگے۔ وہ بل کھاتے پہاڑ پر بنی ہوئی دھاگے جیسی پتلی سڑک ہر سفر کر رہے تھے اور خطرناک موڑ جگہ جگہ اس طرح سامنے آجاتے تھے کہ جیسے خوبصورت نظارہ دیکھنے والوں کے سامنے اچانک کوئی بھیانک منظر سامنے آجاتا ہے۔ ایک طرف دیو پیکر پہاڑ تھا اور دوسری جانب گہری خوفناک کھائی، جس کی گود میں منہ زور دریا بہہ رہا تھا۔ پہاڑوں کی بلندی سے نیچے گرتا ہوا پانی ہزاروں اژدھوں کے شور سے بھی زیادہ خطرناک آواز میں پھنکار رہا تھا۔ اس پر نظر ڈالنے کو جی نہیں چاہتا تھا کہ دل اس کی ہیبت سے سہم جاتا تھا۔ شہوار خان نے جلدی سے ٹیپ ریکار ڈر بند کر دیا کہ مجھ میں اسے سننے کی تاب نہیں ہے۔ غصے سے اس کا تمام وجود لرز رہا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ پہاڑوں کی پاتال میں چھپے ہوئے زلزلوں کی گڑگڑاہٹ سن کر حواس باختہ ہو رہا ہے ، حالانکہ زلزلہ کہیں پہاڑوں میں نہیں ، اس کے اپنے اندر موجود تھا۔
اس کو بہن اور اس کے چاہنے والے کی آواز کا کیسٹ سنا کر ارشاد خان نے نہ صرف اسے خجل خوار و شرمسار کیا تھا، بلکہ اس کی غیرت کو بھی للکارا تھا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے اعصاب اس کی گرفت سے نکل گئے اور کار ہچکولے کھانے لگی، گویا پہاڑوں سے بڑے بڑے تودے ٹوٹ ٹوٹ کر اس پر گر رہے ہوں۔ سہمی ہوئی دلہن کا سانس رکنے لگا۔ کار نے دو چار بڑے جھٹکے لئے اور اس کے پہیوں سے احتجاجی چیخیں بلند ہونے لگیں۔ تبھی نور کے چھوٹے بھائی نے کہا۔
گاڑی کو روکنےکی کوشش کرو شہوار خان، پھر اس نے بڑے بھائی کو ہٹا کر خود اسٹیرنگ سنبھال لیا اور کار کو مہارت سے چلا کر ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا کہ جہاں وہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو جاتے تھے۔ بارات آگے موڑ سے مڑ گئی۔ پیچھے دور تک کوئی گاڑی آتی نظر نہیں آرہی تھی۔ دلہن کے بھائی نے پہاڑ کے کٹاؤ کے نیچے اندر کو گاڑی کھڑی کر دی جو وہاں سے گزرتے ہوئے ٹریفک کو دور سے نظر نہیں آرہی تھی۔ سنسان جگہ اور ہو کاعالم تھا، صرف بلند پہاڑوں کی خاموش بیت تھی یا پھر گرتے ہوئے جھرنوں کا شور تھا۔ غضب ناک پانی ہزاروں فٹ کھائی میں بپھرے ہوئے اژدھے کی مانند پھنکارتا ہوا بہہ رہا تھا۔ اپنے سامنے موت کا یہ بھیانک رقص دیکھ کر نور چشم کا نرم و نازک جسم سرد پڑ گیا اور وہ خوف و دہشت سے کانپنے لگی، لیکن انہوں نے اس سہمی ہوئی لڑکی پر ترس نہ کیا۔
ارشاد خان کار میں اپنی جگہ بیٹھا رہا جبکہ شہوار خان اور اس کا چھوٹا بھائی دونوں نیچے اترے اور انہوں نے نور چشم کو بھی چشم زدن میں اس طرح گاڑی سے باہر کھینچ لیا، جیسے وہ خوشبوؤں میں بسی ہوئی خوبصورت دلہن نہ ہو بلکہ غلاظت سے بھری ہوئی مردہ جانور کی اوجھڑی ہو۔ وہ اس کو نوکیلے پتھروں پر گھسیٹتے ہوئے کھائی کی طرف بڑھنے لگے، جس کی آغوش میں دریا بہہ رہا تھا۔ جان کسے پیاری نہیں ہوتی! اس نے بھی خود کو بھائی سے چھڑانے کی بار بھر پور کوشش کی لیکن اس کا ناتواں وجود ان طاقتور ہاتھوں کی گرفت سے آزاد نہ ہو سکا، جنہوں نے ایک لحظہ کی تاخیر کے بغیر گلاب کے اس مہکتے ہوئے پھول کو سینکڑوں فٹ بلندی سے، نیچے بہتے ہوئے دریا میں پھینک دیا۔ پانی کے چنگھاڑتے ہوئے شور میں ہلکی سی ایک دھپ کی آواز بھی سنائی نہ دے سکی اور مظلوم نور چشم یخ بستہ جہنم میں نہ سکی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گم ہو گئی۔
0 تبصرے