جھوٹی محبت سے بربادی تک کا سفر


جھوٹی محبت سے بربادی تک کا سفر

ایک دن میں یونیورسٹی کے گیٹ سے نکلی تو اچانک ایک نوجوان میرے سامنے کھڑا نظر آیا وہ میری طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے مجھے پہنچانتا ہو ۔
میں نے اس پر کچھ توجہ نہ دی لیکن وہ میرے پیچھے ہو لیا، پست آواز اور بچگانہ کلمات سے میرے ساتھ باتیں کرنے لگا :
اے خوب صورت حسینہ '''''''' میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ، میں بہت دنوں سے آپ کو دیکھتا آ رہا ہوں ،

میں خوف اور ڈر کی وجہ سے تیز تیز چلنے لگی تو میرے قدم لڑ کھڑانے لگے ، میری پیشانی پسینے سے شرابور ہو گئی ، اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ پیش نہ آیا تھا اور میں مدہوش اور انتہائی پریشانی کے عالم میں گھر پہنچی ۔۔
اس واقعہ پر سوچتی رہی اور خوف ، گھبراہٹ اور بے چینی سے اس رات نہ سو سکی ۔

اگلے دن میرے یونیورسٹی سے نکلتے وقت میں نے اسے گیٹ کے سامنے پایا وہ مسکرا رہا تھا ،
میں خوفزدہ تھی ۔اس لئیے کسی کو کچھ نا بتا سکتی تھی اور نا اسے کچھ کہ پاتی تھی
وہ اب تقریباً ہر روز پیچھا کرنے لگا ،ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کوئی نا کوئی ذو معنی بات کر کے آگے بڑھ جاتا ۔۔۔
ایک دن تو اس نے حد کر دی ۔اس نے ایک خط نما لفافہ گھر کے دروازے کے پاس پھینک دیا،
میں نے اس کو اٹھانے میں خوف محسوس کیا ، لیکن ڈرتے ڈرتے اٹھا لیا ، میرے ہاتھ کپکپا رہے تھے ،
میں نے اسے کھولا اور پڑھا تو اس میں محبت بھرے کلمات تھے جنونِ عشق کے دعوے تھے

اور مزید جو اس نے مجھے تنگ کیا اور پریشان کیا تھا ،
اس کی معذرت کی تھی،بار بار معافی مانگی تھی ۔
میں نے کاغذ پھاڑا اور پھینک دیا کچھ دیر بعد میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔۔
میں نے کال ریسیو کی تو اچانک وہی نوجوان ، خوب صورت کلام سے بول رہا تھا :
آپ نے خط پڑھ لیا یا نہیں؟ میں نے کہاں: اگر تم نہیں سدھرے تو میں اپنے گھر والوں کو بتا دوں گی اور نقصان تمہارا ہو گا ۔ اور میں نے فون بند کر دیا ۔۔۔
ایک منٹ بعد دوبارہ فون کر دیا پیار جتانے لگا کہ میرا مقصد بڑا نیک ہے اور شادی کرنا چاہتا ہے ،

اور کہنے لگا کہ۔۔۔ وہ بڑا مال دار ہے ، عنقریب میرے لیے وہ ایک خوبصورت گھر بنائے گا اور میری تمام خواہشات کو پورا کرے گا مزید کہا کہ وہ اکلوتا ہے اس کے خاندان سے کوئی باقی نہیں بچا..... المختصر
..اور...اس پر میرا دل نرم پڑ گیا بات چیت کرنے لگی اور بے تکلفی اختیار کرنے لگی ۔ اب میں ہر وقت اس کے فون کی منتظر رہتی ۔
یونیورسٹی سے نکلتے وقت اس کو تلاش کرتی کہ شاید اس کو دیکھ پاؤ، لیکن بے سود،

ایک دن یونیورسٹی سے نکلی تو اچانک وہ میرے سامنے تھا ۔ میں خوشی سے پھٹ پڑی ، میں اس کی دعوت دینے پر اس کے ساتھ گاڑی میں گھومنا شروع ہوئی ۔۔
میں گاڑی میں بیٹھ کر میں اس کی طرف دیکھتی رہتی اور وہ میری طرف دیکھتا رہتا ،
میں اس نوجوان کی بے حد دیوانی ہو چکی تھی ۔
محبت اور پیار کا پاگل پن شروع ہو چکا تھا ۔۔
لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں محض اس نوجوان کا،پکڑا شکار بن چکی تھی۔
میں نے بہت مرتبہ اس کے ساتھ اس کے گھر میں آنا جانا شروع کر دیا ۔
لیکن اسوقت جب اس گھر والے گھر موجود نا ہوتے ۔۔
میں سب سے عزت والی چیز کو کھو بیٹھی تھی ۔

اس نوجوان کی محبت میں ہر درد اور اذیت کو خوشی سے برداشت کر چکی تھی ۔
جب جذبات کچھ ٹھنڈے پڑے تو میں پاگلوں کی طرح اپنے کپڑوں کی جانب بڑھی ۔مجھے اس وقت شدید شرمندگی اور پچھتاوا ہو رہا تھا ۔۔
میں نے روتے ہوئے اس سے گلہ کیا کہ ۔۔۔ تو نے یہ میرے ساتھ کیا کیا؟
تم ڈرو نہیں، تم میری بیوی ہو ۔
میں تمہاری بیوی کیسے ہوں؟تم نے میرے ساتھ نکاح نہیں کیا ۔
میں عنقریب تم سے نکاح کر لوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بے بسی محسوس کر رہی تھی ۔۔
میں لڑکھڑاتی ہوئی اپنے گھر پہنچی ، میری پنڈلیاں میرا بوجھ اٹھا نہیں رہی تھیں۔۔
یا الٰہی! یہ میں نے کیا کر دیا ۔۔۔ کیا میں پاگل ہو گئی ہوں؟ مجھ پر کیا مصیبت پڑی تھی کہ اس نوجوان کے ہاتھوں اپنی عزت خود ہی لٹوا بیٹھی تھی ؟
۔۔۔میں روتی اور کڑوے اشک پیتی ۔۔ میں نے پڑھائی چھوڑ دی اور انتہا درجے کی بدحال ہو گئی ۔۔۔۔

گھر والوں میں سے کوئی بھی اصل معاملے تک نہیں پہنچ سکا تھا ۔۔۔
، لیکن میں ایک وعدہ سے لٹکی تھی کہ اس کا میرے ساتھ شادی کا وعدہ تھا ۔
کئ دن بیت گئے ، اس کے بعد کیا ہو گا؟
اچانک ایسا حادثہ ہوا، جس نے میری زندگی داؤپر لگا دی ۔۔۔
ایک ماہ بعد میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔۔۔
ہاں یہ اسی کا نمبر تھا ۔۔۔ میں جھٹ سے کال ریسیو کی ۔۔۔ تو دور سے اس کی آواز آ رہی تھی اور مجھے کہ رہا تھا: میں ایک اہم کام کے لیے تجھ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔
میں خوش ہوگئ کہ اہم کام کا مطلب تو شادی کے امور کو ہی انجام دینا ہو گا ۔۔۔
میں اس کی بتائی گئی جگہ پر پہنچ گئی ۔۔۔جہاں وہ اپنی گاڑی میں موجود تھا ۔میں اس کے ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔

لیکن یہ کیا ۔۔۔۔وہ تو انتہائی ترش روئی سے پیش آیا ،
اس کے چہرے پر لاپرواہی اور نفرت کے تاثرات تھے
، وہ کہنے لگا کہ ۔۔۔سب سے پہلے یہ بات ذہن میں اچھی طرح بیھٹا لوں کہ میں تمہارے ساتھ کبھی بھی شادی نہیں کرو گا ۔۔
اور ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہے کہ
میرے نزدیک تمہاری حثیت ایک طوائف سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔۔
ہاں اگر تم چاہو تو ہم بغیر کسی قید کے اکھٹے رہیں گے ۔۔۔
تمہارے بحثیت طوائف تمام حقوق پورے کرونگا ۔۔
میں نے لاشعوری طور پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔ ۔۔

میں نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتی تھی کے تم اپنی غلطی کی اصلاح کرو گے۔۔
لیکن تم ایک انتہائی کمینے اور غلیظ انسان ہوں
اس کے ساتھ ہی میں اس کی گاڑی سے نیچے اتر آئی اور رونے لگی۔
اس نے شیشے میں سے سر باہر نکال کر آواز دی ۔۔
بولا تھوڑی دیر مہربانی فرما کر رکیں میرے پاس تمہارے لئیے ایک عمدہ گفٹ ہے ۔۔
تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ۔۔
اس کے ہاتھ میں ایک سی ڈی تھی ،
وہ اسے بے باکانہ اپنی انگلیوں کے کناروں سے اٹھائے ہوئے تھا اور متکبرانہ الفاظ اور شیطانی مسکراہٹ سے کہ رہا تھا: میں عنقریب اس سی ڈی کے ذریعے تجھے توڑ پھوڑ کر رکھ دوں گا ،
میں نے انتہائی خوفزدہ ہو کر اور کپکپاتے جسم کے ساتھ اس سے سوال کیا اس سی ڈی میں ایسا کیا ہے؟

وہ بولا میرے سآتھ گاڑی میں بیٹھو اور ایک بار دیکھو کہ اس سی ڈی میں کیا ہے ۔۔۔
میں ڈر اور خوف کی وجہ سے ایک بار پھر اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔
اس نے گاڑی میں لگی سکرین کے ذریعے وہ مکمل ویڈیو دیکھائی جس میں وہ لمحات قید تھے جب ہمارے درمیان
وہ حرام کام ہوا تھا وہ اس میں ریکارڈ تھا ۔۔۔۔
اور میری حالت اسوقت ایسی تھی کہ جیسے ابھی بے ہوش ہو کر گر پڑو گی ۔میرا پورا جسم خوف سے کانپ رہا تھا ۔۔
اور میرے آنسو بے اختیار بہتے جا رہے تھے ۔۔
لیکن میں نے ہمت کر کے اس سے صرف اتنا کہا ۔۔
او بزدل تو نے یہ کیا کیا؟ او گھٹیا انسان! ۔۔۔کیوں کیا یہ سب میرے ساتھ ؟؟؟؟
اس نے کہاں وہاں پر خفیہ کیمرے نصب تھے ، جو ہر حرکت اور پست آواز کو ریکارڈ کر رہے تھے،

اب تم میری غلام بن کر رہو گی ۔۔جیسا میں کہوں گا ویسا کرو گی ۔۔۔۔
اور ایک پھر اس ظالم شخص نے گاڑی کے اندر ہی میری عزت کو تار تار کیا ۔۔
میں رونے اور چلانے لگی ، لیکن اب اس کا کوئی فایدہ نا تھا ۔۔میں لٹی پٹی عزت کے ساتھ گھر واپس آ گئی ۔۔
میں بے بس ہو چکی تھی یہ صرف اب میرا معاملہ نہ تھا ۔
میرے گھر والوں بلکہ پورے خاندان کی عزت داؤ پر لگ چکی تھی ۔۔
اب میں اس کے ہاتھ میں قیدی بن چکی تھی ۔۔
وہ مجھے ایک آدمی سے دوسرے کی طرف منتقل کرتا رہتا اور رقم بٹورتا۔۔ میں دلدل میں گر چکی تھی اور زندگی تباہی کی طرف لے جا چکی تھی ،۔۔
جبکہ میرے گھر والے میرے کرتوتوں سے بے خبر تھے ۔ انھیں مجھ پر مکمل بھروسا تھا۔۔

لیکن اس ظالم شخص نے ایک دن وہ ویڈیوز انٹرنیٹ پر وائرل کر دی ۔۔۔
ویڈیوز پھیل گئی اور میرے چچا کے بیٹے کے ہاتھ لگ گئ اور پھر سارا معاملہ کھل گیا اور راز فشاء ہو گیا ،
میرے ماں باپ اور سارے خاندان کو پتا چل گیا ، رسوائی سارے شہر میں پھیل گئی اور ہمارا گھر شرمندگی سے لتھڑ گیا ۔۔
میں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑی ہوئی اور اسی ظالم کے ہاتھوں مزید برباد ہونے کیلے پہنچ گئی ۔
کیونکہ اس کے سواء اب میرا کوئی ٹھکانہ نا تھا ۔
اب میں اس دھندے میں مکمل طور پر داخل ہو چکی تھی ۔
معاشرے نے مجھے ایک نام دے دیا ۔۔
طوائف۔۔۔

اب میں ایک طوائف کہلاتی ہوں ۔۔میرے شب وروز اسی نام کے دھندے سے جڑے ہوئے ہیں۔۔
اس دوران مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ میرے والدین اور بہنیں دوسرے شہر نقل مکانی کر گئے ہیں ،لیکن رسوائی بھی ان کے ساتھ ساتھ پیچھے چلتی رہی
اور میں ذلت میں ڈوبی بدکار عورتوں کے درمیان رہنے لگی اور اس کا زمہ دار یہ گھٹیا شخص تھا ۔
کسی روبوٹ کی طرح وہ مجھے حرکت دیتا میں خود کچھ بھی نہ کر سکتی تھی۔۔
یہ نوجوان مجھ سمیت متعدد گھروں کی تباہی اور اٹھتی عمر کی دو شیزاوں کے مستقبل کی ویرانی کا باعث بنا تھا ۔


میں اس ماحول سے تنگ آ چکی تھی ۔کبھی کبھار میرا دل ڈوبنے لگتا تھا ۔۔میں بے بس تھی ۔میرے پاس اس گندی جگہ کے علاؤہ کوئی اور ٹھکانہ نا تھا ۔۔۔
پھر میں سوچ سوچ کر تنگ آ گئی کہ اب یہاں سے کیسے جان چھڑاؤ۔۔۔ پھر میں نے ایک حتمی فیصلہ کرلیا ۔۔اس کے ساتھ ہی میں مطمئن ہو گئی جیسے اندر ہی اندر سکون محسوس ہونے لگا ۔۔۔
اب میرا مکمل انتقام لینے کا ارادہ تھا ۔


اگلی ہی رات وہ میرے جسم کے ساتھ بھیانک کھیل کھیلنے کیلے آیا۔۔۔
وہ نشے سے دھت تھا ، اسے اپنے آس پاس کی کوئی خبر نہیں تھی ۔۔۔
میں نے موقع غنیمت جانا اور اس کو چھرا گھونپ دیا ،۔۔۔
وہ پہلے ہی وار میں ختم ہو گیا ۔۔
میں نے انسانی صورت میں ایک شیطان کو قتل کر دیاتھا مزید معصوم لڑکیوں کو اس کی برائیوں اور چنگل سے بچا لیا تھا ۔
میرا انجام یہ ہوا کہ مجھے گرفتار کر لیا گیا ۔۔۔
اب میں پابند سلاسل اور سلاخوں کے پیچھے ہوں ۔۔
عمر قید کی سزا مکمل ہونے میں چند سال باقی ہے ۔۔


لیکن میں ذلت اور محرومی کے گھونٹ پی رہی ہوں اپنے فعل بد پر،،،
اور اپنی زندگی پر سخت شرمندہ ہوں جس میں سراسر میرا اپنا ہی قصور ہوں ۔۔
میں نے اپنا یہ قصّہ سپردِ قلم کر دیا ہے تاکہ ہر بھولی اور معصوم لڑکی اس کہانی سے عبرت اور نصیحت پکڑے۔۔۔
جو ناکام اور بدنام عاشقوں کے جھوٹے اور بھڑکیلے الفاظ کے پیچھے بھاگ رہی ہوتی ہیں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے