یہ میری سہیلی شازیہ کی داستان ہے، جو اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کی نظر میں مر چکی ہے، لیکن حقیقت میں زندہ ہے۔ شازیہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی، اور باقی تینوں بھائی اس سے چھوٹے تھے۔ وہ لوگ گوجرانوالہ کے قریب ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ ان کے خاندان میں بیٹوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، تاہم چونکہ شازیہ کے دونوں چچاؤں کے ہاں بیٹی نہیں تھی، اس لیے وہ سب کی آنکھ کا تارا بن گئی اور خاندان بھر کی لاڈلی کہلائی۔
اس نے ایک بااثر سردار خاندان میں آنکھ کھولی، جو مالی طور پر مستحکم اور معاشرے میں عزت دار تھا۔ گھر میں ہر وقت نوکروں کی چہل پہل رہتی تھی۔ شازیہ کی ماں ایک نیک دل اور سخی عورت تھی، جو کسی کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جانے دیتی تھی۔ اگرچہ شازیہ کو گھر میں بہت پیار ملا، لیکن ایک کمی یہ تھی کہ اس کے ساتھ کھیلنے والی کوئی ہم عمر لڑکی نہیں تھی۔ اس کے بھائی اپنے کھیلوں میں مصروف رہتے، جبکہ شازیہ کو گڑیا کھیلنا پسند تھا۔ جب ماں نے دیکھا کہ بچی مغموم رہنے لگی ہے تو اس نے اپنے مزارع کی بیوی سکینہ سے کہا کہ وہ شازیہ کی دل بستگی کا بندوبست کرے۔ سکینہ کا گھر قریب ہی تھا، جو شازیہ کے والد احسن خان کی زمین پر بنا ہوا تھا۔
سکینہ روز شام کو شازیہ کو سیر کرانے کھیتوں میں لے جاتی، جہاں اس کے اپنے بچے، رحیم اور کوثر بھی ساتھ ہوتے۔ شازیہ، کوثر کے بجائے رحیم کے ساتھ کھیل کر زیادہ خوش ہوتی، کیونکہ وہ دو سال بڑا، سمجھ دار اور خیال رکھنے والا بچہ تھا۔ بعض اوقات ہم مزاج بچے ایک دوسرے سے جلد مانوس ہو جاتے ہیں؛ یہی معاملہ شازیہ اور رحیم کے ساتھ بھی تھا۔ اس کے اپنے بھائیوں سے تعلقات اتنے خوشگوار نہ تھے، مگر رحیم کے ساتھ کھیلنے سے اسے بے حد خوشی ملتی تھی۔ شازیہ رحیم کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہتی تھی، کیونکہ وہ اس سے دبتا تھا، اس کی ہر بات مانتا اور اس کے غصے کو بھی خاموشی سے برداشت کر لیتا۔ جب شازیہ اسکول جانے کے قابل ہوئی تو اسے قریبی اسکول میں داخل کروا دیا گیا، اور چونکہ رحیم بھی اسی اسکول میں پڑھتا تھا، اس لیے شازیہ کی دیکھ بھال کی ذمے داری بھی اسی کے سپرد کر دی گئی۔
وہ ایک کلاس آگے تھا، مگر چونکہ وہ نوکر کا بیٹا تھا، اس لیے احسن خان کی بیوی نے ہیڈ ماسٹر سے کہہ کر اسے ایک جماعت پیچھے کروا دیا تاکہ وہ شازیہ کے ساتھ ہی کلاس میں رہے اور اس کا خیال رکھے۔ گاؤں میں نوکروں کے بچوں کو پڑھانے کا رواج نہ تھا، یہ تو احسن خان کی نیکی تھی کہ اس نے مزارع کے بیٹے کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی، ورنہ پورا گاؤں ان کا تابع دار تھا۔ وقت گزرتا گیا اور شازیہ کی انسیت سکینہ کے گھر، خاص طور پر رحیم سے، بڑھتی گئی۔ ہم عمری، ساتھ کھیلنا، پڑھائی میں مدد اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے نے دونوں کے درمیان ایک انجانا سا رشتہ پروان چڑھا دیا۔
شازیہ دن میں ایک بار بھی رحیم کو نہ دیکھتی تو اداس ہو جاتی اور کسی کام میں دل نہ لگتا۔ مگر میٹرک کے بعد شازیہ کا گھر سے نکلنا بند کر دیا گیا اور رحیم کو بھی صرف کام کے سلسلے میں ہی گھر آنے کی اجازت تھی۔ یہ جدائی شازیہ کے لیے بہت اذیت ناک تھی، لیکن ماں نے سمجھایا کہ تم دونوں اب بڑے ہو گئے ہو، اب تمہارا اس سے ملنا مناسب نہیں، کیونکہ وہ ہمارا نوکر ہے، اور نوکر کو اجازت کے بغیر بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ جوانی پرخطر اور بے نیاز ہوتی ہے۔ شازیہ پر بھی جوانی نے اپنا رنگ دکھایا۔ وہ والدین کی اجازت کے بغیر سکینہ کے گھر جانے لگی۔ ماں اور دادی اسے ہر بار ٹوکتیں، برا بھلا کہتیں، مگر وہ ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے اڑا دیتی۔ کہتی: ماں! میں بچپن سے ان کے گھر جاتی ہوں، مجھے وہاں جانا اچھا لگتا ہے۔ جب وہ بچپن سے میرے رکھوالے تھے، تو اب بڑے ہو کر میرے دشمن کیسے ہو گئے؟ ماں سمجھاتی، بیٹی، وہ تمہارے دشمن نہیں، مگر تمہاری بڑھتی عمر تمہاری دشمن بن گئی ہے۔
اگر ہم نے خاندانی روایات کا خیال نہ رکھا، تو سارا گاؤں تمہارا دشمن ہو جائے گا۔ نو عمری میں لڑکیاں ماؤں کی بات نہیں سمجھتیں، اور اگر ماں زیادہ سمجھانے لگے، تو وہ اسے اپنی خوشیوں کی دشمن سمجھنے لگتی ہیں۔ شازیہ تو ویسے بھی لاڈلی تھی، وہ خود پر جبر برداشت ہی نہیں کر سکتی تھی۔ ماں جتنا روکتی، اس کی بے چینی اتنی ہی بڑھ جاتی۔ ایک دن شازیہ نے سکینہ کو ایک کاپی دے کر کہا: یہ رحیم کی کاپی ہے، اسے دے دینا۔ سکینہ نے وہ کاپی لے جا کر رحیم کو دے دی اور کہا کہ شازیہ بی بی نے بھیجوائی ہے۔ جب رحیم نے کاپی کھولی تو اس میں ایک خط تھا، جس میں لکھا تھا:رحیم، اگر میں تمہیں روز نہ دیکھوں تو دل بہت اداس ہو جاتا ہے، اس لیے تم روز میرے کمرے کے سامنے والے باغ کی پھلواری ٹھیک کرنے آ جایا کرو۔ مالی بابا اب ٹھیک سے کام نہیں کرتے۔ یوں رحیم پھلواری درست کرنے آنے لگا۔ شازیہ نے ماں سے کہا: موسم بدل رہا ہے، میں نئے پھول اور پودے لگوانا چاہتی ہوں۔ یہ کام رحیم کرے گا اور روز باغ میں پانی بھی وہی لگائے گا۔
یہ ایک ایسا جواز تھا جو رحیم کے روزانہ آنے کا راستہ بن گیا۔ چونکہ گھر کی عورتیں رحیم سے پردہ نہیں کرتی تھیں، ماں نے یہ سن کر خاموشی اختیار کر لی۔ یوں رحیم ہر دوسرے دن باغ کو پانی دینے آتا۔ جب شازیہ کے والد گھر ہوتے، تو وہ رحیم سے بات نہ کرتی اور کمرے سے باہر نہ نکلتی۔ مگر جب وہ زمینوں پر گئے ہوتے، تو شازیہ “باغ کی دیکھ بھال” کے بہانے رحیم کو ہدایات دیتی اور دل کی باتیں بھی کر لیتی۔ وقت کے ساتھ دونوں کی محبت اتنی گہری ہو گئی کہ اب واپسی ممکن نہ رہی۔ شازیہ کے اصرار پر رحیم نے رات کو حویلی کے پچھلے دروازے کے قریب باڑے میں آنا شروع کر دیا، جہاں وہ اس کا انتظار کرتا۔ جب سب سو جاتے تو شازیہ چپکے سے وہاں آ جاتی۔ یہ باڑا حویلی سے زیادہ دور نہیں تھا، اور اس کی رکھوالی رحیم کے والد شاہو کے ذمہ تھی۔ بعد میں یہ ڈیوٹی بھی رحیم نے سنبھال لی۔ چونکہ رکھوالی کے کتے اسے پہچانتے تھے، اس لیے شازیہ کے آنے پر وہ بھونکتے نہیں تھے۔ محبت میں بے خود دو دل وہ کر بیٹھے، جس کی سزا موت سے کم نہ تھی۔ اب دونوں کے لیے شادی کرنا ناگزیر ہو چکا تھا، کیونکہ آنے والا وقت بے حد خطرناک ہوتا جا رہا تھا۔ سوال یہ تھا کہ اب کیا کریں؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا ان دونوں کے کے پاس کوئی جواب نہ تھا اور نہ ہی اس مسئلے کو کوئی حل ان کے پاس تھا۔
شازیہ جانتی تھی کہ بے شک والدین اس سے بہت پیار کرتے ہیں، مگر خاندانی روایات کو توڑ کر وہ یہ رشتہ کبھی نہیں کریں گے۔ کہاں جا گیر دار کی بیٹی اور کہاں ایک معمولی مزارع ! جس کی حیثیت غلاموں سے زیادہ نہ تھی۔ ایک روز ماں کو شک گزرا تو اس نے رحیم کا شازیہ کے باغ میں آنا بند کر دیا، مگر باڑے میں چوری چھپ ملنے کی راہ ابھی بھی کھلی تھی۔ پھر ایک دن انہوں نے گھر سے بھاگ جانے کا منصوبہ بنایا اور ایک رات باڑے سے کھیتوں میں اور پھر وہاں سے قریبی بس اڈے جا پہنچے۔ شازیہ نے ٹوپی والا ساده برقعہ اوڑھا ہوا تھا۔ لاری صبح چار بجے چلتی تھی یہ۔ دونوں بس میں بیٹھ کر شہر آ گئے اور شہر سے دوسرے گاؤں جانے والی لاری میں بیٹھ کر رحیم کی خالہ کے گھر پہنچ گئے۔ رحیم نے خالہ کو اپنی اور شازیہ کی مصیبت سے آگاہ کیا اور گزارش کی کہ خالو کو کہو ، ہمارے ساتھ لاہور چلیں تا کہ ہم وہاں کورٹ میرج کر لیں۔
خالہ نے کہا۔ بیٹے تم نے اپنی ہی نہیں ہم لوگوں کی جان بھی مصیبت میں ڈال دی ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ کورٹ میرج کرنے سے تمہارا مسئلہ ہو جائے گا اور تم محفوظ ہو جاؤ گے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ احسن خان کوئی معمولی آدمی نہیں ہے۔ اگر تم پاتال میں بھی جا چھپو گے ، تو وہ تمہیں ڈھونڈ نکالے گا اور ہمیں بھی جہنم واصل کرادے گا۔ گھر سے اس لڑکی کو بھگاتے وقت تم اپنی بہن اور ماں کا خیال بھی نہیں آیا، جو احسن خان کی زمین پر جھگی ڈالے بیٹھے ہیں۔ تم نے کیوں نہ سوچا کہ تمہارے پیچھے وہ ان کا کیا حشر کرے گا۔ رحیم سترہ اٹھارہ برس کا لڑکا تھا، اس کے پاس ان باتوں کا کیا جواب تھا؟ وہ رونے لگا تو شازیہ اس نے کو تسلی دی اور چپ کرانے لگی کہ ڈرو نہیں، خدا سے مدد مانگو۔ خالہ کہنے لگی۔ تم نے ہمیں برباد کیا ہے۔ جذبات میں آکر تم نے میرے بھانجے کو اس تباہی کے راستے پر لگایا ہے۔ ابھی خالہ اس سوچ میں تھی کہ ان دونوں کو کہاں چھپائے کہ رحیم کا باپ، چاچا، ماموں اسے تلاش کرتے ہوئے خالہ کے گھر پہنچ گئے اور دونوں کو جیپوں میں بٹھا کر گھر لے آئے۔ دراصل اپنی جان کے خوف سے خالو نے احسن خان کو اطلاع کرادی تھی کہ رحیم اور شازیہ ہمارے گھر ہیں، آپ انہیں لے جاؤ۔
رحیم کو تواحسن خان نے کہیں غائب کروا دیا. بڑے لوگ عدالتوں کے قائل نہیں ہوتے۔ ان کے ڈیرے ہی ان کی اپنی عدالتیں ہوتی ہیں، البتہ شازیہ کی لاش کو رات کی تاریکی میں اس کے دو پرانے خاص خدمت گاروں نے ایک ویران جگہ پر لے جا کر دفن کر دیا تھا۔ خدا جس کو چاہے زندہ رکھے اور جس کو چاہے موت دے۔ تاہم ان خدمت گاروں میں سے ایک کی ماں آڑے آگئی اور اس نے اپنی ممتا کا واسطہ دے کر ان کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ ویرانے میں بکری کاٹ کر اس کو دفن کر دیں تا کہ صبح خون اور بھر بھری مٹی دیکھ کر خان کے آدمی تسلی کرنے آئیں تو واپس جا کر صحیح کی رپورٹ دیں اور لڑکی جان بچ جائے۔ ایسا ہی کیا گیا اور اس جگہ پر شازیہ کی جگہ ایک بکری کی قربانی دے دی گئی اور نشانی کے طور پر چھوٹے پتھروں کا دائرہ بنا دیا گیا تا کہ صبح جب خان کے آدمی آکر دیکھیں، تو ان کی تسلی ہو جائے، شازیہ کے کچھ بال بھی کاٹ کر زمین پر ڈال دیئے گئے تھے۔
رحیم کے کنبے کو ذلیل کر کے خان نے گاؤں بدر کر دیا۔ یوں یہ قصہ تمام ہوا۔ گاؤں والوں کو سن گن مل چکی تھی، مگر کسی کی کیا مجال ۔ گھر میں عورتوں کو شازیہ کا سوگ منانے کی اجازت نہ تھی، پھر بھی ماں کئی دن تک اپنے کمرے میں بند قرآن پاک پڑھتی ، روتی اور بیٹی کی مغفرت کی دعا کرتی۔ دوسری طرف اگلے دن ہی شازیہ کا نکاح ایک دوسرے گاؤں کے ایک بوڑھے شخص کے ساتھ کر دیا گیا، جو اسے پشاور لے گیا، جہاں اس کا بیٹا ملازمت کرتا تھا۔ یہ بوڑھا خدمت گاروں میں سے ایک کا رشتہ دار تھا۔ اس نے لڑکی کو پناہ دینے کی درخواست پر اس سے شادی کر لی تا کہ شازیہ کی جان بچ جائے اور وہ کسی کی پناہ میں رہ سکے۔
زبر دستی کی یہ شادی ایک مجبوری تھی، اس کے سوا کیا کہا جا سکتا تھا۔ ذبح ہونے سے یہ بہتر تھا۔ زندگی ہر کسی کو پیاری ہوتی ہے ، پھر شازیہ کے وجود میں ایک زندگی بھی پرورش پا رہی تھی، جو شادی نہ کرنے کی صورت میں ہمیشہ کے لئے ولدیت سے محروم رہتی۔ سات ماہ بعد بوڑھے شوہر کے گھر میں ایک بیٹی نے جنم لیا، جس کا نام رباب رکھ دیا گیا اب وہ ایک منکوحہ تھی اور بوڑھا اس کا مالک تھا، لہذا بچی کی خاطر شازیہ نے قربانی دی اس کو شوہر قبول کیا۔ یوں وہ بوڑھے محسن کی دو بچیوں کی ماں بنی۔ وہ اپنے شوہر کی بچیاں بھی پال رہی تھی اور رباب کو بھی پروان چڑھا رہی تھی۔ وہ ایک زندہ لاش کی مانند جی رہی تھی، تاہم شوہر کا آسرا بھی بڑی بات تھی۔
وہ زمانے کی دست برد سے بچی ہوئی تھی۔ محسن کی ایک پولیس آفیسر سے رنجش چلی آرہی تھی۔ وہ کسی کیس کے سلسلے میں رشوت پوری نہ دے سکا تھا۔ ایک دن اس پولیس آفیسر نے بازار سے گزرتے ہوئے محسن کو دیکھ لیا اور اگلے دن اس کو ہتھکڑی لگ گئی۔ الزام یہ تھا کہ اس نے بازار میں ایک عورت کے ساتھ چھیڑ خانی کی تھی، حالانکہ معاملہ ایسا نہ تھا۔ بہر حال جب قدرت کی طرف سے مصیبت آتی ہے تو بے گناہ کو بھی بعض اوقات سزا ہو جاتی ہے۔ محسن کو سات برس کی سزا ہو گئی، مگر وہ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور جیل ہی میں راہی ملک عدم ہوا۔
اب شازیہ کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔ وہ کسی سے اپنا حال کہہ سکتی تھی اور نہ کسی کو اپنے بارے میں کچھ بتا سکتی تھی۔ محسن کے بیٹے نے چند دن اپنی سوتیلی ماں کو رکھا، مگر جب اس کی بیوی لڑنے جھگڑنے لگی، تو اس نے کہا۔ تم چاہو تو بچیوں کو میرے پاس چھوڑ دو، مگر تمہیں جانا ہو گا کیونکہ میری بیوی تم کو اپنے گھر میں برداشت نہیں کر پارہی۔ تمہاری بچیاں میری بہنیں ہیں، میں ان کی پرورش کا انتظام کر لوں گا۔ وہ گھر سے نکل کر کہاں جاتی، لیکن جائے بغیر بھی چارہ نہ تھا۔ اس نے اپنی تینوں بچیوں کو ساتھ لیا اور جس عورت نے اس کی شادی اس بوڑھے سے کروائی تھی، اس کے گھر جانے کا ارادہ کر لیا۔
جب وہ لاری میں بیٹھ رہی تھی تو اس نے دل سے دعا کی کہ اے خدا میرا کوئی سہارا بنا دے یا پھر مجھے میری ان بچیوں سمیت اپنے پاس بلالے کیونکہ دنیا میں میرے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ابھی بس نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ اس میں دھما کا ہو گیا۔ کافی مسافر جائے حادثہ پر ہلاک ہو گئے، جس میں شازیہ کی تینوں بچیاں بھی
شامل تھیں ، جب کہ وہ خود شدید زخمی ہو کر بے ہوش ہو گئی تھی۔
کافی دن بعد وہ بات چیت کرنے کے قابل ہو سکی، تاہم اب وہ صحیح طرح بول نہیں سکتی تھی، اپنا اتا پتا کیا بتاتی اوراتا پتا تو خود اسے نہیں معلوم تھا ، البتہ وہ اپنی بچیوں کو یاد کر کے روتی اور پوچھتی کہ وہ کہاں ہیں ؟ ڈاکٹروں نے جب محسوس کیا کہ شازیہ اب ٹھیک ہے اور اس کو اسپتال چھوڑ دینا چاہیے، تو انہوں نے ایک فلاحی ادارے سے بات کی یوں شازیہ اس ادارے میں آ گئی ، جہاں وہ کافی عرصہ رہی۔ وہ چونکہ ٹھیک طرح بات نہ کر سکتی تھی اور اتا پتا نہیں بتا سکتی تھی، تو لوگ یہی سمجھتے تھے کہ بچیوں کی موت کی وجہ سے اس کی ایسی حالت ہو گئی ہے۔ ایک دن ایک خدا ترس خاتون فلاحی ادارے میں آئی اور اس کو اپنے ساتھ لے آئی، پھر خاتون نے اپنے یتیم بھانجے سے اس کی شادی کر دی، جو اس کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ ایک کمپنی میں ملازم تھا۔
یوں شازیہ کو ایک بار پھر ایک سہارا تھا۔ مل گیا اور وہ زمانے کے ستم سہنے سے بچ گئی۔ ایک دن میں بازار سے گزر رہی تھی کہ ایک جانی پہچانی صورت نظر آئی۔ اتفاق سے میں بھی اسی دکان پر کھڑی تھی، جہاں سے شازیہ خریداری کر رہی تھی۔ اس کا شوہر اس کے ہمراہ تھا۔ میں پوچھا۔ تم شازیہ تو نہیں ہو ؟ وہ کچھ دیر تک بغور مجھے دیکھتی رہی، پھر فوزیہ کہہ کر مجھ سے لپٹ گئی۔ ہم نے میٹرک ایک ساتھ کیا تھا، وہ میری سہیلی تھی، ہم کیسے ایک دوسرے کو نہ پہچانتے ۔ گرچہ ہم دونوں ہی کافی بدل چکے تھے۔ زمانے کے سرد و گرم نے اس کارنگ و روپ چھین لیا تھا، مگر یہ میں ہی تھی کہ جس نے اسے پہچان لیا تھا، ورنہ کوئی اسے پہچان نہیں سکتا تھا۔ میں نے کہا۔ گھر چلو۔ اس نے شوہر کی طرف دیکھا اور اس کی اجازت سے میرے گھر آ گئی۔
اس نے گھر آکر مجھے کر مجھے اپنی تمام روداد سنائی، جس کو سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے سوچا کہ لڑکیوں کو اپنے والدین کی محبت اور عزت کا پاس رکھنا چاہیے کیونکہ اس راستے پر چلنے والوں کے لئے تباہی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں رہتا۔ جذبات میں لڑکیاں ماں باپ کو دشمن سمجھ لیتی ہیں، لیکن والدین دشمن نہیں ہوتے، بلکہ نادان بچیاں خود کبھی کبھی اپنے پیار کرنے والے والدین کی عزت کی دشمن بن جاتی ہیں، جیسے شازیہ، جو آج بھی اپنوں سے چھپ کر جی رہی ہے ، جو بہت مشکل ہوتا ہے اور یہ وہی جان سکتے ہیں، جن پر خود گزرتی ہے۔