ربیعہ کو ہم پیار سے روبی کہتے تھے۔ وہ میری بچپن کی دوست تھی، لیکن کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ خیال سمانے لگتا کہ ہم دونوں کی دوستی بے جوڑ ہے۔ اس کی اور میری حیثیت میں زمین آسماں کا فرق تھا۔ وہ ایک وسیع و عریض اور شاندار کو ٹھی میں رہتی تھی، جب کہ ہمارا دو کمروں کا کچا پکا سا گھر تھا۔ میری والدہ جب فوت ہوئی تھیں ، ان دنوں میں صرف چھ برس کی تھی۔ ابو اور پھر بھی نے پالا۔ پھو پھی بے اولاد اور بیوہ تھیں، تبھی ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔
وہ مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔ ہمارے گھر کے سامنے شوکت صاحب کی کوٹھی تھی۔ ان کا اکلوتا بیٹا عمر خیام بہت اچھا لڑکا تھا۔ اس میں غرور بالکل نہ تھا۔ میں روبی اور وہ، بچپن کے ساتھی تھے اور اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ یہ دونوں زیادہ تر میرے گھر کے صحن میں کھیلنے آتے تھے۔ خیام کی عادت تھی کہ ہر کھیل میں میری طرف داری کرتا تھا۔ اس بات سے روبی کو جلن ہوتی ۔ وہ سمجھتی تھی کہ خیام اسے نظر انداز کرتا ہے۔ وہ ذرا مغرور تھی اور وہ خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتی تھی۔ ایک حامی اور بھی اس میں تھی کہ اس کی ہر خواہش پوری ہونا چاہئے۔
جب تک ہم بچے تھے، ساتھ اسکول آتے جاتے، پڑھتے لکھتے اور اکٹھے کھیلتے تھے، لیکن جب شعور آیا تو رستے بدلنے لگے۔ جو نہی میں نے آٹھویں کا امتحان دیا، ابو نے مجھے پر دے میں بٹھا دیا۔ اب کبھی کبھار ہی روبی سے ملتی تھی اور خیام سے تو ملنا اب خواب و خیال کی بات تھی کیونکہ ان کے گھر ہمار آنا جانا نہیں تھا۔ کوئی بہت غیر معمولی بات ہوتی، تو پھپھو چلی جاتی تھیں۔ میں جب کپڑے ڈالنے چھت پر جاتی، تو خیام کو اس کے بنگلے کے سامنے والے لان میں بیٹھے پاتی، جہاں سے ہماری چھت واضح نظر آتی تھی۔ جب ہماری نظریں ملتیں، ہم ایک دوسرے کو سلام کر لیا کرتے تھے۔ ہماری جان پہچان بس یہاں تک محدود ہو چکی تھی۔ انہی دنوں رزلٹ آگیا، میں پاس ہو گئی اور پھر سے اسکول جانے لگی۔ روبی گاڑی میں جاتی اور میں تانگے پر ، کبھی تبھی وہ مجھے لینے گھر آجاتی تھی کہ میرے ساتھ چلو، تو میں اس کی بات مان لیتی، بچپن کی دوستی جو تھی۔
ایک دن میں تانگہ اسٹینڈ پر کھڑی تھی کہ اچانک کسی نے مجھے پکارا۔ میں نے حیرت سے مڑ کر دیکھا، تو خیام کھڑا تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور ایک کتاب مجھے تھما کر یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ میری طرف سے یہ تحفہ قبول کر لو اور گھر جا کر اسے بہت احتیاط سے کھولنا، مگر جب کوئی نہ ہو تب کھولنا۔ اتنی مدت کے بعد میں اس کو دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئی۔ اسکول جانا مشکل ہو گیا تو واپس گھر آگئی۔ ابو اسکول ٹیچر تھے ، وہ جا چکے تھے۔ میں نے پھو پھی سے سر درد کا بہانہ کیا اور واپسی کمرے میں چلی گئی۔ لباس تبدیل کرنے کے بہانے کمرہ بند کیا، پھر کتاب کے اوپر بندھا ہوار بن کانپتے ہاتھوں سے کھولا۔ پہلے صفحہ میں ایک لفافہ رکھا تھا، جس میں خیام کا خط تھا۔ لکھا تھا، صاحب ! بچپن سے اب تک جب بھی تم سے کوئی خاص بات کرنے کی کوشش کی، ہمیشہ روبی درمیان میں آگئی۔ وہ میرا اور تمہارا ساتھ نہیں چاہتی، اس کی وجہ سے میں بھی تمہیں یہ بتانہ سکا کہ میں تم کو پسند کرتا ہوں۔ یہ خط پڑھ کر ضرور تمہارے دماغ میں خیال جاگے گا کہ ہمارا ساتھ ممکن نہیں اور روبی ٹھیک سوچتی ہے۔
وہ ٹھیک کہتی ہے کہ کہاں زمین اور کہاں آسمان، لیکن اس کے یہ خیالات عرور پر مبنی ہیں۔ میں ایسی گھٹیا سوچ سے نفرت کرتا ہوں، تم ایسے خیالات اپنے من میں نہ لانا، ورنہ میرے بچے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچے گی۔ مجھے ان امیروں سے چڑ ہے ، جو انسان کو کم اور دولت کو زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں۔ مجھے صرف تمہارا خلوص چاہئے اور اگر زندگی بھر کا ساتھ مل جائے، گا تو میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھوں گا۔ میں نے سر راہ تم کو تحفہ دیا۔ امید ہے کہ اس گستاخی کو معاف کر دو گی۔ کیا کرتا؟ مجبور ہو گیا تھا ۔ روبی کے ذریعے کوئی پیغام دینا چاہا مگر مجھے اس پر اعتبار نہیں۔ تمہارے بچپن کا ساتھی، خیام خط پڑھ کر پہلے تو مجھے پسینہ آگیا، پھر انجانی سی خوشی بھی محسوس ہوئی۔ میرے دل نے گواہی دی کہ جیسے میں اسی دن ، اسی ساعت کی منتظر تھی اور اس دن کے لئے ہی جی رہی تھی۔ مجھے رات بھر نیند نہ آئی۔
میں خود کو خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ رہی تھی، تمام شب سوچتے ہی گزرگئی، کہ چاہت اپنی جگہ، مگر امیر زادے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ صبح روبی آئی تو اپنے دل کی بات اس سے چھپا نہ سکی۔ روبی ! ایک بات کہوں، میری رہنمائی کرنا۔ اس نے کہا۔ ہاں، کیوں نہیں۔ دوست اور کس دن کے لئے ہوتے ہیں۔ مجھ پر بھروسہ کرو اور ہر بات مجھے بتاؤ۔ میں نے اُسے بتایا کہ امیر زادہ خیام مجھے جیون ساتھی بنانے کا آرزو مند ہے اور میرا دل سوال کرتا ہے کہ واقعی وہ سنجیدگی سے ایسا سوچ رہا ہے یا یہ محض دل لگی ہے۔ وہ کہنے لگی۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، تم اسے آزما کر دیکھ لو۔ کیسے آزماؤں ؟ تم ہی بتا دو۔ یہ تم مجھ پر چھوڑ دو، میں اس کو جھوٹ موٹ کہوں گی کہ صاحب بچپن سے اپنے چچا زاد سے منسوب ہے اور میٹرک کے بعد اس کے ابو اس کی شادی کر رہے ہیں۔ اگر اس کو تم سے محبت ہو گی، تو وہ فوراً اپنے گھر والوں کو رشتے کے لئے تمہارے گھر بھجوائے گا اور اگر وہ بات سن کر خاموش رہا تو سمجھ لینا کہ اسے تمہاری کوئی پروا نہیں۔ میں نے کہا۔ چلو دیکھو، اس بات پر اس کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔
اگلے دن تک انتظار کیا، روبی شام کو آئی اور بتایا کہ میں اس کے گھر گئی تھی اور یہ بات کبھی تو اس نے کوئی جواب نہ دیا بس خاموشی سے سنتا رہا پھر اُٹھ کر چلا گیا۔ یہ تو آزمانانہ ہوا اور نہ کوئی تسلی بخش بات سامنے آئی۔ میں نے روبی سے کہہ دیا۔ تم نے بیکار اسے یہ سب کہا ہے۔ اُس نے کہا۔ میٹرک کے پیپر ز ہونے والے ہیں۔ تم امتحان دے لو، پھر ہم اس کا امتحان لیں گے۔ اب مجھے نہیں معلوم روبی نے اسے جا کر کیا کہا، بہر حال میں پیپرز کی تیاریوں میں لگ گئی۔ پیپر ز ختم ہو گئے ، رزلٹ بھی آگیا۔ میں اب بھی چھت پر جاتی تھی۔ وہ اپنے لان میں بیٹھا ہوتا تو مجھے اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ اٹھا کر سلام کرتا، اس دوران نہ وہ میرے پیچھے آیا اور نہ کوئی خط دیا۔
روبی ور خیام کے گھر کی دیوار ملی ہوئی تھی۔ ان لوگوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا اور جیسے میں پہلے بتا چکی ہوں کہ مالی لحاظ سے کمتر ہونے کی وجہ سے ہمارا ان کے گھر میں کوئی خاص آنا جانا نہیں تھا، البتہ ، روبی جب جی چاہت ہمارے گھر آجاتی تھی۔ میں شدت سے اس کی منتظر تھی کیونکہ ایک میٹھی میٹھی کیک میرے دل میں جاگ چکی تھی۔ شاید یہ احساس کمتری ہی تھا جو میں براہ راست خیام سے رابطہ نہیں کر پاتی تھی۔ روبی نے کہا اب وقت آگیا ہے اسے آزمانے کا۔ تم آج شام میرے گھر آجاؤ۔ میں تمہاری پھو پھی سے کہہ دوں گی کہ پاس ہونے کی خوشی میں، میں نے اپنی سہیلیوں کو بلایا ہے۔ امید ہے وہ تم کو اجازت دے دیں گی۔ اس نے پھپھو سے اجازت لے لی اور میں شام کو اس کے گھر گئی۔ اس نے مجھے لان میں درختوں کے پیچھے چھپا دیا، اس طرح کہ میں خیام کو دیکھ سکتی تھی۔ روبی نے اُسے بلایا اور وہ دونوں تھوڑے فاصلے سے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ روبی بولی۔ خیام ! وہ ہو گیا ، جس کا ڈر تھا۔
صاحبہ کی شادی طے ہو گئی ہے اور اس نے مجھے کہا ہے کہ ڈولی کے لئے کوئی گاڑی چاہئے ، ہماری گاڑی ابو کے ساتھ باہر گئی ہوئی ہے۔ دولہا والوں کے پاس بھی گاڑی کا کوئی بندوبست نہیں ہے جبکہ صاحب کی خواہش ہے کہ وہ رخصت ہو کر گاڑی میں گاؤں جائے۔ خیام ! تم ہی ان لوگوں کو اپنی گاڑی دے دو۔ میں نے غور سے دیکھا، یہ بات سن کر خیام کا چہرہ زرد ہو گیا اور وہ بغیر کچھ کہے ، اُٹھ کر چلا گیا۔ تب روبی میرے پاس آکر بولی۔ دیکھا، کیسا خود عرض ہے۔ میں نے بھی عقل سے کام نہ لیا اور روبی کے دماغ سے سوچنے لگی کہ واقعی اس کو میری پروا نہیں ہے۔ اگر پر وا ہوتی، تو وہ یوں اُٹھ کر جانے کی بجائے کوئی بات کرتا۔ اب دل سخت زخمی اور مضطرب تھا، مگر روبی تسلیاں دیتی اور اپنے ہی لگائے زخم پر بھائے رکھتی تھی کہ چھوڑ ، ان مردوں میں وفا کہاں ہے۔ تم اس بے وفا کا خیال ذہن سے نکال دو۔ یہ الفاظ روبی کے تھے ، میری دوست روبی کے ، بلکہ یہ اس کے دل کی آواز تھی۔ اس کی خود غرضی اور خود سری تھی، جس نے مجھ غریب کی قسمت کے آئینے کو ایک چھنا کے سے توڑ ڈالا۔
اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کی چال سے ایک نہیں دو دل برباد ہو جائیں گے اور میں اُسے الزام کیوں دوں، دراصل میں خود احمق تھی، جو اس کی باتوں میں آگئی اور اس کی ہر بات کو سچ جانا۔ ایک روز پھو پھی نے کہا۔ صاحب بیٹی ! میں پڑوس میں شوکت صاحب کے گھر جارہی ہوں، کیونکہ ان کا بیٹا ٹنا ہے بہت بیمار ہے۔ میں اس کی عیادت کو جارہی ہوں، تم دروازے کی کنڈی لگا لو۔ یہ سن کر مجھے سخت دھچکا لگا۔ پھپھو کے جانے کے بعد بے چین روح کی طرح سارے گھر میں پھرنے لگی۔ آج گھر کی تنہائی مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی، پھر خیالوں میں ابو کا بجھا بجھا چہرہ بھی پریشان کر دیتا۔ سوچتی تھی کہ اگر ماں زندہ ہوتیں، تو میں ضد کر کے ان کے نو میں ضد کر کے ان کے ساتھ خیام کو دیکھنے چلی جاتی۔ خدا جانے اسے کیا ہوا ہے ؟ وہ کیوں بیمار ہے ؟ کاش امی زندہ ہو تیں یا پھر میں مر جاتی۔
دراصل روبی نے خیام کو یہ بتایا تھا کہ آج کل صاحبہ بڑی خوش ہے کیونکہ اس کی شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی ہے۔ یہ اس کی لو میرج ہے، اس لیے وہ بہت خوش ہے۔ روبی نے یہ ایک گھٹیا چال چلی تھی۔ اس نے یہ نہ سوچا کہ جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے، وہ خود اس میں گر جاتا ہے۔ اس نے تو یہ بھی کہا تھا کہ خیام کہتا ہے ، میں اس کے ساتھ ٹائم پاس کرنا چاہتا ہوں۔ غریب کی لڑکی ہے نا، ایسی لڑکیاں جھوٹے سچے خواب سجا کر جلدی اعتبار کر لیتی ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں کوٹھی اور کار کی حسرت ہوتی ہے۔
ہماری یہ خواہش کہ ہم ان کو بیاہ کر لائیں اور اس سے شادی کر لیں، امی ابو تو مار مار کر میرا حلیہ بگاڑ دیں گے ، اگر میں ان سے یہ کہوں کہ میں صاحبہ کو پسند کرتا ہوں اور آپ اس کا رشتہ لینے جائیں۔ وہ کبھی اس کے ٹوٹے ہوئے گھر میں نہ جائیں گے۔ روبی کی ایسی باتیں سن کر میرے ارمان دم توڑ گئے۔ اب سوچتی تھی کہ میری بے لوث محبت کو کس نے خاک میں ملا دیا۔ اے کاش میں نے اسے نہ آزمایا ہوتا اور اسی فریب میں رہتی، تو میرے خوابوں کو ضرور تعبیر مل جاتی۔ میں نے سوچا کہ میری جھوٹی منگنی کی خبر سن کر وہ ایک بار ضرور اپنے والدین کو ہمارے گھر بھجوائے گا، مگر اس کے والدین آئے اور نہ اُس نے میرے پیچھے آنے کی زحمت گوارہ کی۔ اس کا کوئی پیغام بھی مجھے نہ ملا بلکہ اب تو اس نے اپنے گھر کے لان میں بیٹھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ میں بار بار چھت پر جاتی کہ شاید وہ نظر آجائے، لیکن کیسے نظر آتا ؟ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ وہ بیمار پڑا ہے اور روبی کی غلط سلط باتوں نے، جو اس نے میرے بارے میں کہی تھیں، اسے بیمار کر دیا ہے، لیکن میں تصویر کے اصل رُخ کی بجائے دوسرے رخ سے واقف تھی کہ وہ مجھے بے وقوف بنا رہا ہے۔