ہم تین بہن بھائی تھے۔ مجھ سے چھوٹا ایک بھائی اور ایک بہن تھی۔ ابو دفتر میں ملازم تھے اور امی لوگوں کے کپڑے سیتی تھیں۔ میں نے کالج میں اس نیت سے داخلہ لیا تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ماں باپ کا سہارا بنوں گی۔ میں اپنے بھائی کے ساتھ کالج جایا کرتی تھی، مگر دنیا والوں نے بھائی پر شک کرنا شروع کر دیا۔ لڑکیاں پوچھتیں کس کے ساتھ آئی ہو، اور ایک دو بار ہمارے لیکچررز نے بھی دیکھا تو سوال کرنے لگے۔ جب بھائی کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے میرے ساتھ کالج آنا جانا چھوڑ دیا اور میں اکیلی ہی آنے جانے لگی۔ کچھ دن گزرے، پھر ایک دن مجھے محسوس ہوا کہ ایک شخص میرا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ خاصا اسمارٹ تھا۔ میں گھبرا گئی کہ اس سے پوچھوں کہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے، لیکن ہمت نہ ہوئی۔ وہ کالج تک آنے لگا اور قریب سے گزرتے ہوئے کچھ نہ کچھ کہہ جاتا۔ مجھے غصہ تو آتا، مگر نہ جانے کیوں ناراض ہونے کو دل نہیں چاہتا تھا، یا شاید میں بزدل تھی۔
ایک دن بادل چھائے ہوئے تھے۔ کالج سے آتے ہوئے اچانک بارش شروع ہو گئی۔ گھر کافی دور تھا اور اس بارش میں پیدل جانا ممکن نہ تھا۔ میں سڑک کنارے کھڑی سوچ رہی تھی کہ کیا کروں کہ پیچھے سے آواز آئی کہ محترمہ، آج تو بارش ہے، میری گاڑی حاضر ہے، آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہی لڑکا تھا۔ اسے دیکھ کر گھبرا گئی لیکن بارش میں بھیگا ہوا وہ اچھا لگ رہا تھا۔ اس کے لہجے میں نرمی اور منت تھی۔ میں نہ جانے کیسے اس کے پیچھے چل پڑی اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا نام ناظر بتایا اور چند شائستہ باتیں کیں۔ مجھ پر اس کا اچھا تاثر پڑا۔ جب میں اپنے گھر کے سامنے اتری تو اس نے دوبارہ ملاقات کا وعدہ بھی لے لیا۔
اس کے بعد ہماری کبھی کبھار ملاقات اور اکثر خط و کتابت ہونے لگی۔ میں گھر والوں سے چھپ کر اس سے ملتی رہی۔ وہ میرے دل میں بس چکا تھا۔ اس کی محبت میں، میں اتنی کھو گئی کہ نہ گھر کا ہوش رہا نہ پڑھائی کی فکر۔ میں اب ماں باپ سے بھی زیادہ بات نہ کرتی۔ وہ پریشان تھے کہ مجھے کیا ہو گیا ہے کیونکہ میں اکثر دیر سے گھر آتی تھی۔ امی پوچھتیں تو کہہ دیتی کہ سہیلی کے گھر گئی تھی، یا پریکٹیکل کے نوٹس مکمل کرنے تھے۔ یوں میں بہانے بہانے سے گھنٹوں اس کے ساتھ باہر گھومتی رہتی۔ وہ جہاں لے جاتا، میں چلی جاتی۔ اس نے مجھ سے بڑے وعدے کیے۔ کہتا اگر تم نے مجھ سے شادی نہ کی تو میں مر جاؤں گا، اور میں شرما کر چپ ہو جاتی تھی۔اس کی باتوں اور وعدوں نے مجھے اس پر مکمل یقین دلا دیا تھا۔ میں جذبات میں اتنی اندھی ہو چکی تھی کہ خود کو بھی بھول گئی تھی کہ میں کون ہوں اور کس گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ ایک دن وہ مجھ سے کہنے لگا…
نوشین! کیا تم کو مجھ پر اعتبار ہے؟ میں نے جواب دیا، اگر نہ ہوتا تو تم سے محبت کیوں کرتی۔ میرے اس جملے پر وہ ہنس پڑا اور کہا، اچھا! آج آزماتا ہوں۔ پھر بولا، تم آج رات مجھے فلاں فلاں مکان میں ملو۔ میں نے وعدہ تو کر لیا مگر دل ہی دل میں سوچتی رہی کہ گھر والوں سے کیا کہوں گی؟ جب گھر پہنچی تو نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ امی نے پوچھا تو میں نے کہہ دیا کہ سر میں درد ہے۔ شام کو اٹھی، منہ ہاتھ دھویا اور تیار ہو گئی۔ امی نے وجہ پوچھی تو بہانہ کر دیا کہ سہیلی کی سالگرہ ہے۔ سالگرہ کا سن کر میری چھوٹی بہن پیچھے لگ گئی اور کہنے لگی کہ آپ تو روز جاتی ہیں، آج ہم بھی چلیں گے۔ بڑی مشکل سے اسے منایا، خدا خدا کر کے وہ مانی۔ امی پریشان تھیں کیونکہ بادل چھائے ہوئے تھے اور تیز ہوا چل رہی تھی۔ وہ ابو سے بھی ڈرتی تھیں۔ میں اپنے محبوب کے خیالوں میں گم تھی۔ ماں کی فکر مجھے محسوس تھی، اور ابو کا خوف بھی، مگر ان کے آنے سے پہلے ہی میں گھر سے نکل گئی۔
جب میں ناظر کے گھر پہنچی تو وہاں عجیب منظر تھا۔ ناظر کے علاوہ اس کے دوست بھی بیٹھے تھے۔ میں خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئی۔ میں نے ان لوگوں کی باتوں پر دھیان نہیں دیا۔ ناظر سمجھ گیا کہ مجھے اس کے دوستوں کے سامنے بیٹھنا ناگوار گزرا ہے، اس نے کچھ دیر بعد ان سب کو رخصت کر دیا۔ لیکن مجھ پر گھر سے آنے کا خوف طاری تھا، میں نے جانا چاہا تو ناظر خفا ہو گیا اور چلانے لگا کہ میں نے تمہیں جانے کے لیے نہیں بلایا تھا۔ اس وقت مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں نے آ کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ماں کی بھولی بھالی صورت آنکھوں کے سامنے گھوم گئی، باپ کا قہر آلود چہرہ یاد آیا، اور میں رو دی۔ ناظر میرے رونے پر نرم پڑ گیا اور کہنے لگا، دو گھنٹے تو بیٹھو، میں خود چھوڑ آؤں گا۔ پھر وہ شادی کی باتیں چھیڑنے لگا اور کہنے لگا، جو لوگ محبت کرتے ہیں ان کی شادی تو آسمان پر ہو جاتی ہے، جب وہ ملتے ہیں تو وہی ان کی شادی کا لمحہ ہوتا ہے۔ میں سمجھ گئی کہ وہ کیا چاہتا ہے، لیکن اب میں بند پنجرے کی ایک بے بس چڑیا کی مانند تھی، جب تک وہ دروازہ نہ کھولے، میں آزاد نہ ہو سکتی تھی۔
اب کچھ اور لکھنا بے سود ہے۔ اس نے مجھے اس وقت چھوڑا جب میں محبت کے نام پر ٹوٹ چکی تھی۔ روتی ہوئی میں گھر پہنچی۔ میری حالت بری تھی، قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ گھر کے تصور سے دل گھبرا رہا تھا۔ جب پہنچی تو دیکھا کہ ابو دروازے کے پاس بپھرے شیر کی طرح ٹہل رہے تھے۔ ان کا چہرہ دیکھ کر میری جان نکل گئی۔ جیسے ہی دروازے کی دہلیز پر قدم رکھا، ابو نے مجھے روک لیا اور گرج کر پوچھا، سچ سچ بتا کہاں گئی تھی؟ ورنہ جان سے مار دوں گا۔ میں خوف سے تھرتھر کانپنے لگی، مگر ان کے تیور ایسے تھے کہ اگر جھوٹ بولتی تو شاید واقعی وہ مجھے جان سے مار دیتے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ناظر کا نام لے دیا۔ باپ نے اسی وقت مجھے ساتھ لیا اور ناظر کے گھر لے آئے۔ انہوں نے مجھے اس کے حوالے کر کے کہا، لڑکی کو رکھو، یہ اب میرے لیے مر چکی ہے۔ صبح نکاح کا انتظام کر لینا، میں آ کر باپ کا فرض ادا کر دوں گا۔ ناظر کو اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی، اور میں خود بھی حیران تھی کہ میرے باپ نے مارنے پیٹنے یا بات چیت کرنے کے بجائے مجھے اس کے حوالے کر دیا۔
ناظر نے مجھے چپ کرایا، اور کہا کہ فکر نہ کرو، یہ سب بہتر ہو گیا۔ تمہارے باپ سے رشتہ لینا آسان نہ تھا، سب کچھ خود بخود ہو گیا۔ اب رات آرام سے گزارو، صبح چار دوستوں کو بلاتا ہوں، قاضی کا بندوبست کرتا ہوں، اور تمہارا نکاح ہو جائے گا۔ لیکن نکاح یہاں نہیں، کسی دوست کے گھر پر کرنا ہو گا، کیونکہ کل میرے گھر والے بھی آ رہے ہیں اور میرے والدین شاید اس رشتے پر راضی نہ ہوں کیونکہ میری منگنی چچا کی بیٹی سے ہو چکی ہے۔ میں نے یقین کر لیا۔ صبح سویرے وہ مجھے اپنے دوست کے خالی مکان پر لے گیا۔ شام تک میں نکاح کی رسم اور والد صاحب کے آنے کا انتظار کرتی رہی، مگر کوئی نہ آیا۔ رات کو ناظر واپس آیا اور بولا کہ تمہارے والد نے آنے سے انکار کر دیا ہے، وہ کہتے ہیں نکاح میرے گھر پر ہو اور میرے گھر والے بھی شامل ہوں، لیکن یہ ممکن نہیں۔ اس نے کہا کہ وہ دو دن کی مہلت لے رہا ہے، پشاور چلتے ہیں، والدین کو منانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں بے خبر اس کے ساتھ چلی گئی۔ وہاں اس نے مجھے ایک بوڑھی عورت کے گھر ٹھہرا دیا جسے وہ اپنی رشتے دار بتاتا تھا۔ میں وہاں دو سال رہی۔ جب ناظر سے پوچھتی کہ نکاح کا کیا ہوا تو وہ بات ٹال جاتا۔ کہتا، تم میرے پاس ہو اور میری بیوی ہو، سمجھو نکاح ہو چکا ہے۔
دو سال میں میرے دو بچے بھی ہو گئے۔ میں نے بھی حالات سے سمجھوتا کر لیا۔ باپ نے میری بھول کی مجھے بڑی سزا دی تھی، مگر ناظر میرا محبوب تھا جو مجھے مل گیا تھا۔ اس نے مجھے کوئی تکلیف بھی نہ دی تھی۔ دو بچوں میں ہر دکھ بھول کر جوں توں زندگی گزار رہی تھی۔ اب نکاح ہوا تھا یا نہیں، اس سے مجھے حاصل ہی کیا تھا۔ جو زندگی مجھے نصیب میں ملنی تھی ، مل ہی گئی تھی۔ ایک روز اچانک ناظر آیا اور اس نے مجھے کہا کہ اسے بیرون ملک ملازمت مل گئی ہے لہٰذا اب وہ کینیڈا جارہا ہے۔ وہاں کی شہریت ملتے ہی میں بہت جلدی تمہیں بلوالوں گا۔ فکر نہ کرنا، بڑی مشکل سے یہ اتنا اچھا موقع ملا ہے ، ہمارا مستقبل سنور جائے گا۔
اور وہ مجھے روتا چھوڑ کر کینیڈا چلا گیا۔ اس کو گئے ہوئے چھ سال ہو چکے ہیں۔ سوچتی ہوں مر جائوں مگر بچوں کا خیال آجاتا ہے۔ لوگوں کی لعنتیں مجھے چین نہیں لینے دیتیں۔ بڑی مشکل سے ایک اسپتال میں بحیثیت آیا نوکری ملی ہے۔ ناظر نے پھر پلٹ کر خبر نہ لی۔ اس باپ کے در پر جانے کا حوصلہ نہ ہوا جس نے ہاتھ پکڑ کر گھر سے کھڑے کھڑے نکال کر غیر کے حوالے کر دیا تھا۔ اتنا پتا چلا ہے کہ ناظر نے کینیڈا میں شہریت لینے کے لئے کسی کینیڈین لڑکی سے شادی کی تھی ، مگر پھر ان دونوں نے سچ مچ کا گھر بسا لیا۔ میں کیا کر سکتی ہوں جبکہ میرے پاس تو نکاح کا سر ٹیفکیٹ تک نہیں ہے۔ ماضی کو بھولنا چاہتی ہوں ، ماضی کی یادیں ڈستی ہیں۔ جب کسی لڑکی کو محبت کرتے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں ان کا بھی میرے جیسا انجام نہ ہو اور کسی دن یہ بھی لڑکوں کے اس محبت بھرے جھوٹے کھیل میں آکر اپنی عزت و آبرو نہ گنوا دیں۔
(ختم شد)