اپریل کا مہینہ تھا۔ ایک دن آشا میرے دفتر آئی۔ اس کے ساتھ ایک بھولی بھالی، تیکھے نقوش والی لڑکی سبینہ بھی تھی، جو ایک غریب اور ضرورت مند گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ آشا نے کہا کہ یہ لڑکی نہایت ضرورت مند ہے، اسے فوری نوکری کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے گھریلو حالات بہت خراب ہیں۔ اگر آپ اسے اپنے پاس رکھ لیں تو بیچاری کا بھلا ہو جائے گا۔ میں نے جواب دیا کہ میں بھائی کی غیر موجودگی میں ان کے دفتری امور تو سنبھالتی ہوں، لیکن تم جانتی ہو کہ ان کے مشورے کے بغیر کسی کو نوکری نہیں دے سکتی۔ کل بھائی آ رہے ہیں، وہی فیصلہ کریں گے۔
یہ دن سبینہ نے ہمارے دفتر میں گزارا۔ اگلے دن بھائی آگئے۔ میں نے ان سے سبینہ کا ذکر کیا تو وہ بولے کہ تم جانتی ہو کہ ہمارے دفتر میں پہلے ہی ایک لڑکی کام کر رہی ہے، مزید کسی کی گنجائش نہیں ہے۔ بھائی کا جواب حسبِ توقع تھا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ کیونکہ یہ لڑکی مجھے معصوم، شریف اور ضرورت مند لگی تھی، میں نے کہا کہ بھیا، آپ اس سے بات تو کر کے دیکھیں، ممکن ہے کوئی راہ نکل آئے۔ بھائی نے سبینہ سے چند سوالات کیے، اور اس کی غربت اور سادگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُسے دفتر میں ملازمت دے دی۔
آشا، سبینہ کی پڑوسن تھی اور بھائی کے دوست کی واقف کار بھی۔ آشا کے بارے میں بتا دوں کہ وہ اچھی شہرت کی حامل خاتون نہیں سمجھی جاتی تھی۔ پہلے وہ ہماری ہی بلڈنگ میں رہتی تھی اور سب جانتے تھے کہ وہ کس قسم کی عورت ہے۔ وہ بھولی بھالی، غریب لڑکیوں کو ڈھال بنا کر بہت سے مردوں سے فائدہ اٹھا چکی تھی۔ ان سے قرض لیتی اور اپنا اُلو سیدھا کرتی۔ ان مظلوم لڑکیوں کو تو یہ تک معلوم نہ ہوتا کہ ان کے ساتھ کب اور کہاں کیا ہونے والا ہے۔بھائی دراصل سبینہ کو ایسے ہی حالات سے بچانا چاہتے تھے۔ جب سبینہ کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو اس نے آشا کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ تب آشا نے سوچا کہ فی الحال سفارش کے ذریعے اس سے کوئی فائدہ لے لوں، تاکہ مستقبل میں اسے اپنی ڈھال بنا سکوں۔
ہمارا معاشرہ نام نہاد شرافت سے بھرا ہوا ہے۔ جب سبینہ نے ہمارے دفتر میں کام شروع کیا، تو بلڈنگ کے چند حضرات بھائی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جناب، آپ شریف آدمی ہیں، ہر شخص آپ کی عزت کرتا ہے۔ جس لڑکی کو آپ نے ملازمت دی ہے، وہ اچھی شہرت نہیں رکھتی۔ اُسے آشا کے ساتھ کلبوں اور ہوٹلوں میں دیکھا گیا ہے۔ بھائی نے جواب دیا کہ آپ کا کہنا بجا ہے، لیکن میں اس لڑکی سے خود معلومات حاصل کر چکا ہوں۔ دراصل وہ پہلی بار گھر سے نکلی ہے۔ اس کی زندگی اب تک صرف اسکول تک محدود رہی تھی۔ اُسے دنیا کا کوئی تجربہ نہیں، اور نوکری کی خاطر آشا کے ساتھ چلی گئی۔ آشا نے اس کے نام پر لوگوں سے رقم بھی بٹور لی۔ اس لیے اب یہ میرا فرض ہے کہ اس معصوم کو بھٹکنے سے بچاؤں اور اسے راہ راست پر لے آؤں۔
کچھ دنوں بعد شرافت کے کچھ ٹھیکیداروں نے سبینہ کاراستہ بھی روکا، اسے بڑی بڑ آفرز دیں، اچھی نوکری اچھی تنخواہ کے خواب دکھائے، ایڈوانس کا وعدہ کیا، مگر اس نے ہمارے دفتر کی معمولی تنخواہ پر قناعت کر لی اور تمام آفرز کو ٹھکرا دیا۔ ان عیاش لوگوں کا خیال تھا کہ غربت کی وجہ سے جب وہ ہماری رقم لوٹا نہ سکے گی، تو پھر ہم اس پر ہاتھ صاف کر کے اپنی رقم کھری کر لیں گے اور یہی آشا کا طریقہ واردات بھی تھا کہ وہ انتہائی ضرورت مند اور غریب لڑکیوں کو امیر مگر عیاش مردوں سے قرض دلوا دیتی تھی۔ انہی قرض دینے والے کچھ حضرات کو معلوم ہو گیا کہ یہ لڑکی ہمارے دفتر میں جاب کرنے لگی ہے، تو وہ ہمارے آفس رقم کی وصولی کے لئے آ گئے۔ سبینہ گھبرا گئی۔ وہ کہاں سے اتنے روپے دیتی، جب کہ آشا نے ہر ایک سے اس کے نام پر اچھی خاصی رقم مانگی اور صرف چند هزار بطور قرض کہ کر اس کو دیئے اور باقی اپنی جیب میں ڈال لئے۔
یہ قصہ جب بھائی پر کھلا تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔ انہوں نے ان کے روپے ادا کر کے سبینہ کی عزت بچالی اور جو اوباش قسم کے بگڑے نواب تھے ان کو اپنے طریقے سے سیدھا کیا۔ اب سبینہ ہمارے ہاں محفوظ و مطمئن تھی۔ بھائی خود اسے بس پر سوار کراتے تاکہ بلڈنگ کے نام نہاد شرف اسے پریشان نہ کر سکیں۔ یہ لڑکی بہت اچھی نکلی۔ اس نے ہمارے دفتر کا بیشتر کام سنبھال لیا اور بہت محنتی اور مخلص ثابت ہوئی۔ وہ دفتر کو شیشے کی مانند چمکا کر رکھتی، فون کالز اٹینڈ کرتی اور ہماری غیر موجودگی میں ہر کال کا پیغام لکھ رکھتی۔ مہمان آتے تو چائے بنا کر چپڑاسی کے ہاتھ بھجوا دیتی اور پھر برتن دھو کر سلیقے سے رکھ دیتی جبکہ پہلے مہمانوں کے لئے چائے ہوٹل سے منگوانی پڑتی تھی۔
سبینہ ہر طریقے سے دیانتدار اور مخلص تھی۔ وہ سادہ دل، سادہ لباس اور سادہ ذہن۔ تھی سب سے بڑی بات کہ وہ لالچی نہیں تھی۔ بھائی جان کا کھانا گھر سے جاتا تھا، لیکن وہ بہت اصرار پر بھی بھائی کے ساتھ کھانا نہیں کھاتی تھی۔ اپنا کھانا گھر سے ساتھ لاتی۔ اس کی خودداری کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس کی عادا ت و اطوار مجھے اور اسرار بھائی کو بہت پسند تھیں۔ جلد ہی وہ ہماری پسندیدہ معاون بن گئی۔ ایک روز میں نے کہا کہ تم مجھے اپنا گھر نہیں دکھائو گی ؟ بولی، آپ دیکھ کر کیا کریں گی ؟ گھر میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ آپ کو تکلیف دوں۔ میں نے کہا۔ سامان سے کچھ نہیں ہوتا، عربت آنی جانی شے ہے، لیکن گھر میں تمہارے والدین بھائی بہن تو ہیں نا! وہ بولی۔ جی ہاں والدین اور چھوٹے بہن بھائی ہیں۔ انہی کی خاطر تو جاب کرتی ہوں۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کے والد ریلوے میں معمولی ملازم تھے، پھر بیماری کے باعث ریٹائر منٹ لے لی۔
ماں بھی بیمار رہتی تھی۔ ایک بہن بڑی تھی، جس نے غربت کے باعث پڑھائی چھوڑ دی۔ اس کی شادی ہوئی، پھر طلاق ہو گی تو وہ گھر واپس آگئی۔ اب گھر کا کام وہی کرتی ہے۔ اس کے بعد بھائی جو صرف میٹرک پاس کر سکا اور اب بیکار پھرتا ہے ، پھر ایک بہن اور چھوٹا بھائی ہے۔ دونوں پہلے اسکول جاتے تھے، مگر اب پڑھائی چھوڑ دی تھی کیونکہ گھر میں دال روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ کچھ عرصے بعد وہ بھائی کو اپنے گھر لے گئی۔ جب بھائی اس کے گھر سے ہو کر آئے تو ان کو سبینہ سے زیادہ ہمدردی ہو گئی اور انہوں نے اس کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا۔
وہ صبح سویرے ہم سب سے پہلے آجاتی، چوکیدار سے دفتر کھلوا کر صفائی کرنے کے بعد فائل وغیرہ کو جھاڑ پونچھ کر ترتیب سے رکھ دیتی۔ انہی دنوں ہمارے دفتر میں کام کرنے والی نیلوفر کی شادی ہو گئی اور اس نے چھٹی لے لی، تو اس کا کام بھی سینہ دیکھنےلگی، تاہم نیلوفر کی انگریزی بہت اچھی تھی اور اسے ٹائپنگ آتی تھی۔ یہ کام سبینہ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ دفتری لیٹر لکھ سکتی تھی اور نہ ان کا انگریزی مضمون بنا کر جواب ٹائپ کر سکتی تھی۔ اگر اسے یہ کام آتے تو پھر شاید ہمیں نیلوفر کی ضرورت بھی نہ رہتی۔ خیر، وقت گزرتا رہا۔ اب ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے لئے نیلوفر کی طرح سبینہ بھی کس قدر اہم ہے۔
کسی دن وہ نہ آتی، تو لگتا کہ آفس بھائیں بھائیں کر رہا ہے۔ میں ہفتہ میں دو دن آفس جاتی تھی جبکہ بھیا باہر کے کام میں مصروف ہوتے تھے ، باقی دن وہ خود دفتر میں بیٹھتے تھے۔ ان کے کلائنٹ بھی آتے تھے مگر کسی طرح کی شکایت سامنے نہیں آئی۔ سبینہ نے ہمارے آفس کی عزت و حرمت کا ہمیشہ خیال رکھا۔ وہ انتہائی مشرقی لڑکی تھی۔ اس کے چہرے پر بھی ایک مشرقی پن تھا۔ اس کا انداز چال ڈھال سب مشرقی تھا۔ اس کے سر سے کبھی دوپٹہ نہیں ڈھلکتا تھا اور یہ سادگی اس کے حسن کو کم نہیں کرتی تھی اور چار چاند لگا دیتی تھی۔
ایک روز میں نے اس سے کہا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ تم ایک رات میرے گھر والوں کے ساتھ رہو۔ وہ بولی۔ ایک رات کیوں ؟ ہمیشہ کے لئے کیوں نہیں ؟ ان لفظوں میں جانے کیا طلسماتی اثر تھا کہ میں مدہوش ہو گئی۔ اس لڑکی کی عزت کا گراف بہت اونچا ہو گیا تھا۔ میں نے پوچھا۔ کیا تم میرے بھائی سے شادی کرو گی؟ وہ بولی۔ میں حالات سے مجبور ہو کر ملازمت کر رہی ہوں۔ ہاں ، اگر میرے والدین راضی ہوں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا، مگر ابھی حالات ایسے نہیں لگتے کیونکہ جو کماتی ہوں اس سے دال روٹی چلتی ہے۔ یہ باتیں میں نے بھائی کو بتائیں، تو وہ بھی اس لڑکی کو اپنانے پر سنجیدہ ہو گئے۔ وہ بھی بھائی کو پسند کرنے لگی، بلکہ اپنا آئیڈیل بنالیا اور دونوں نے حالات درست ہونے تک انتظار کا ارادہ کیا۔
بھائی نے سبینہ کے بھائی کے لئے جاب کی تلاش شروع کر دی اور ساتھ ہی کسی شریف گھرانے میں اس کی مطلقہ بہن کا رشتہ تلاش کرنا بھی ہم نے اپنے فرائض میں شامل کر لیا تا کہ حالات کی درستگی کو عملی شکل دی جاسکے۔ سبینہ اور بھائی میں محبت بڑھنے لگی۔ وعدے ہوئے اور کبھی جدا نہ ہونے کا عزم بھی کیا گیا۔ ایک شام جب بھائی اسے بس میں سوار کرا رہے تھے ، تو سبینہ کا پائوں پھسل گیا اور وہ گر گئی۔ اس کے پیر میں سخت چوٹ آئی کہ اسے اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ ہماری تو گویا جان ہی نکل گئی۔
چوٹ اسے آئی تھی اور درد ہمیں ہوتا تھا۔ وہ تقریبا بارہ یوم اسپتال میں زیر علاج رہی اور اس مدت میں بھائی کا یہ معمول بن گیا کہ وہ دفتر سے سیدھا اسپتال جاتے اور رات گئے واپسی ہوتی۔ اس حادثے کے بعد بھائی اس کے گھر بھی جانے لگے تھے۔ ان کی غربت دیکھ کر بھائی سے جو ہوتا، کرتے۔ یوں وہ بھی اس گھر کے فرد بن گئے۔ امی ابو نے سبینہ کو دیکھا اور پسند کر لیا۔ جانے اس لڑکی میں کیا بات تھی، جو اسے دیکھتا پسند کر لیتا۔ شاید یہ اس کا مشرقی انداز تھا۔ بھائی اس کے دیوانے تھے۔ ایک دن وہ نہ آتی، تو ان کا چین قرار لٹ جاتا۔
وہ اپنی قسمت پر رشک کرتے تھے کہ بالآخر ان کو سچا پیار دینے والی مل ہی گئی۔ اب وہ رہتی تو اپنے والدین کے گھر تھی، مگر سارے اخراجات میرے بھائی کے ذمے تھے۔ وہ اس کی ہر خواہش کی تکمیل کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ ہر سال ہم اس کی سالگرہ بڑے اہتمام سے مناتے تھے۔ اس دفعہ ہم نے ایک بڑے ہوٹل میں اس کی برتھ ڈے کا اہتمام کیا تھا۔ ہم بہت خوش تھے۔ برتھ ڈے کے اگلے دن وہ آتے ہی رونے لگی۔ میں نے سبب پوچھا تو بولی۔ باجی ! گھر والے میری شادی کر رہے ہیں، آپ کچھ کریں، میرے والدین سے ملیں اور مجھے مانگ لیں۔
میری پوزیشن اتنی مضبوط نہیں تھی کہ میں سبینہ کے والدین پر دباؤ ڈال سکتی۔ میں نے بھیا سے بات کی تو وہ بولے کہ فکر نہ کرو، میں خود جا کر پہلے اس کے والدین سے بات کرتا ہوں، بعد میں امی اور ابو کو بھیجیں گے۔ پہلے ان کے ارادے تو دیکھیں۔بھائی جا کر اس کے والد سے ملے۔ ان کے تو مزاج ہی نہ ملتے تھے، جیسے انہیں قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ دراصل، سبینہ کے لیے کسی ٹرانسپورٹر کا رشتہ آ گیا تھا۔ اس کے والدین غربت کے مارے، مگر دولت کے پجاری نکلے۔اس ٹرانسپورٹر نے اپنی کوچوں (بسوں) کے وزن سے اس کنبے کو دبا دیا۔ اس نے انہیں کرائے کے مکان سے نکال کر اپنا تعمیر شدہ مکان دے دیا۔ سبینہ کے بھائی کو رکشہ لے کر دیا، والد کو دکان کھول دی، اور مطلقہ بہن کی شادی کا ذمہ اپنے رنڈوے رشتہ دار کے ساتھ اٹھا لیا۔یوں اس دولت مند “سچے عاشق” نے اتنی مالی امداد کر دی کہ یہ غریب لوگ سنبھل بھی نہ سکے، اور فوراً سبینہ کا رشتہ کمال الدین کے ساتھ طے ہو گیا۔
دوسری بار جب میرے والدین رشتہ مانگنے گئے تو انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ ان کی آرزو کا کاسہ یہ کہہ کر توڑ دیا کہ ہم مجبور ہیں۔ جس شخص نے رشتہ لیا ہے ، اس نے ہمارا سارا بوجھ اٹھا لیا ہے۔ ہم اس کو زبان دے چکے ہیں۔ اپنی بیٹی کو بھی کہا کہ بیٹی تیری ذراسی مہربانی سے ہماری لاٹری نکل آئی ہے۔ اب ہمارے برے دن ختم ہو جائیں گے۔ ہمیں پتا ہے کہ تو کیا چاہتی ہے اور تیری خوشی کیا ہے ، مگر تو ہماری اچھی بیٹی ہے۔ تجھے ہماری عزت کا واسطہ ہے۔ ہاں کو نہ میں نہ بدل دینا۔ شادی کے بعد تو سب کچھ بھول جائے گی، بیٹی تو ہماری بات مان لے۔
ہمارے بھائی کو انہی دنوں شہر سے باہر جانا پڑا اور جب واپس آئے تو ٹرانسپورٹر نے ان کی خوشیوں کو کچل ڈالا تھا۔ جو لوگ ہمارے ارادے سے واقف تھے، جب انہیں یہ بات معلوم ہوئی، تو وہ آئے اور کہا۔ اس لڑکی نے آپ کی شرافت، محبت اور انسانیت کا مذاق اڑایا ہے ، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر نکاح ہو گیا اور آپ نے بےچارگی اور فاقوں میں سہارا دیا تھا اور انہوں نے انسانیت کو رسوا کر دیا۔ محض دولت کی خاطر منگنی توڑ دی۔
واقعی یہ لوگ آپ کے لائق نہیں تھے۔ آپ مناسب اقدام کریں۔ ہم لوگ چشم دید گواہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ آپ کو کافی لوٹ چکے ہیں۔ کپڑے والے نے کہا۔صاحب ! بیگم صاحبہ تو آپ کے نام پر میری دکان سے کپڑے لیتی تھیں۔ اسی طرح بہیترے لوگ کہنے لگے کہ بھائی کوئی سخت قدم اٹھائیں۔ تنگ آکر بھائی نے کہا کہ وہ بے وفا نہیں تھی۔ ماں باپ کی خود غرضی نے اسے مجبور کر دیا اور بہن بھائیوں کے سبب اس نے ایسا کیا ہے اور اگر میں نے ان کی مدد کی، تو اللہ کی خوشنودی کے لئے کی، کسی طمع اور لالچ سے نہیں کی تھی۔ اس کا اجر اللہ دے گا۔
اس دور میں بھائی ایسے لوگ موجود ہیں، جو اپنا دل خون کر لیتے ہیں مگر اپنی محبت کو رسوا کرنا گوارا نہیں کرتے۔ میرے بھائی نے بھی اپنا دل خون کر لیا، مگر اپنی محبت کو رسوا نہیں کیا۔ سبینہ جلال الدین کے گھر جا کر آباد ہو گئی۔ اس کے والدین اس کی قربانی سے سکھی اور شاد ہو گئے۔ ان کی غربت دور ہو گئی، مگر انہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ان کی بیٹی اگر واقعی کسی سے محبت کرتی تھی تو کسی اور شخص کی بیوی بننے پر اسے کتنا دکھ ہوا ہو گا۔ بھائی کافی عرصہ مغموم رہے، مگر میں سوچتی ہوں کہ کیا خبر ان کا فیصلہ سچ تھا یا غلط؟ قدرت جو کرتی ہے، انسان کے بھلے کے لئے کرتی ہے، مگر کچھ لوگ واقعی معاشرتی قدروں اور اپنوں کے تسلط سے مجبور ہو کر ان کی خاطر قربان ہو جاتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ سبینہ ان ہی لوگوں میں سے ہے۔
بے شک دین نے لڑکی کو حق دیا ہے کہ وہ اپنے شریک حیات کے لئے والدین کو رضامندی دے مگر ہمارے معاشرے میں اس حق کا لحاظ کم ہی رکھا جاتا ہے۔ بہت سے والدین لڑکی کی رضا تک کا نہیں خیال کرتے اور یوں ایک انتہائی ضروری امر سے رو گردانی کرتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی بچیوں کی خوشیوں کا خیال کریں۔ اتنے خود عرض نہ بنیں کہ بیٹی کی ساری عمر ایک زندان کی نذر ہو جائے
(ختم شد)