آج میں زندگی کی ایک ایسی بھیانک سزا کاٹ رہا ہوں جس کا تصور بھی لوگوں کو کانپنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ دنیا مجھے قاتل کے نام سے جانتی ہے، لیکن کسی کو کیا معلوم کہ کبھی کبھی قاتل بھی کتنے معصوم ہوتے ہیں۔ یہاں میں اپنی معصومیت کا یقین دلانے نہیں آیا، مگر میری زندگی کی بربادی کی وجہ محض ایک لڑکی ہے۔
اُس وقت میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے والد کا تبادلہ دوسرے شہر ہو گیا تھا، لیکن انہوں نے مجھے اپنے ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ میں میٹرک مکمل کر کے اسکول سے نکل جاؤں۔ انہوں نے مجھے اپنے ایک دوست کے ہاں ٹھہرایا جو ہمارے اسکول میں استاد تھے۔ میں نے نویں جماعت کے امتحانات دیے اور پرچے بہت اچھے کیے۔ مجھے یقین تھا کہ میں ضرور پاس ہو جاؤں گا۔ لیکن ایک شام میرے استاد گھر آئے اور کہنے لگے کہ میرے پرچے اچھے نہیں ہوئے اور میں فیل ہو جاؤں گا۔ یہ سن کر میں پریشان ہو گیا۔ سوچنے لگا کہ جب میں نے امتحان اچھے دیے ہیں تو فیل کیسے ہو سکتا ہوں؟ اسی دوران میرے چچا میری خیریت معلوم کرنے آئے۔ میں نے انہیں ساری بات بتائی تو وہ بھی افسردہ ہو گئے اور استاد سے بات کی۔ استاد نے بتایا کہ اس نے ہیڈ ماسٹر سے کہہ کر مجھے پاس کروا دیا ہے۔
اگلے دن جب میں اسکول گیا تو محسوس ہوا کہ سب لڑکے میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ رات کو کسی نے ہیڈ ماسٹر کا دفتر کھولا اور رزلٹ کا سارا ریکارڈ غائب کر دیا ہے، اور اب مجھ پر شک کیا جا رہا ہے۔ اسی وقت مجھے ہیڈ ماسٹر صاحب نے بلوا لیا۔ میں ان کے پاس گیا تو وہ شدید غصے میں تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ چوری میں نے کی ہے۔ میں نے انکار کیا۔ انہوں نے دوبارہ سخت لہجے میں سوال کیا اور دھمکی دی کہ اگر سچ نہ بتایا تو وہ مجھے فیل کر دیں گے۔ میں نے پھر انکار کیا اور کہا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی اور فوراً مجھے اسکول سے نکال دیا۔
اب مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ سب میرے استاد کی سازش تھی۔ جس نے پہلے کہا تھا کہ میں فیل ہو رہا ہوں اور بعد میں دعویٰ کیا کہ مجھے پاس کروا دیا ہے۔ میں گھر آ کر بہت رویا۔ اگلی صبح جب میں اسکول جانے لگا تو استاد نے مجھے روکا اور کہا کہ ایک بار نکالا جا چکا ہوں، دوبارہ جاؤں گا تو پھر نکال دیا جاؤں گا۔ وہ میرا استاد تھا اور میں اس کا شاگرد، زیادہ کچھ کہہ نہ سکا۔ صرف اتنا کہا کہ یہ انصاف نہیں ہے، میرے والدین کراچی میں ہیں اور میں یہاں پشاور میں اکیلا ہوں۔ مجھے تعلیم سے محروم نہ کریں۔
استاد نے کہا کہ ایک شرط ہے، اگر مان لو تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ میرے لیے تعلیم کا سوال تھا، میں نے فوراً کہا کہ میں آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ہوں، بس مجھے اسکول سے نہ نکالا جائے۔ اس نے پوچھا کہ جہاں میں رہتا ہوں، وہاں پڑوس میں ایک لڑکی روبینہ رہتی ہے، کیا میں اسے جانتا ہوں۔ میں نے بتایا کہ ہاں، وہ تو اکثر ہمارے گھر میری ماں کے پاس آتی ہے۔ استاد نے کہا کہ اگر وہ اسے کھانے پر بلائے تو کیا وہ میرے کہنے پر آ جائے گی۔ میں نے فوراً کہا کہ ہاں، اگر میں کہوں گا تو وہ ضرور آ جائے گی۔ استاد نے کہا کہ وہ روبینہ کو کھانے پر بلانا چاہتا ہے، میں اسے شام کی دعوت دے دوں اور رات کے کھانے کے بعد اسے اس کے گھر چھوڑ آؤں۔ میں نے کہا کہ بہت اچھا۔
میں روبینہ کے گھر گیا۔ اس کی ماں کو میں برسوں سے خالہ کہتا تھا۔ وہ مجھے بیٹوں کی طرح چاہتی تھیں۔ میں نے ان سے کہا، خالہ! جہاں میں اب رہتا ہوں، اس گھر میں آج رات دعوت ہے۔ اس دعوت میں روبینہ کی بھی شرکت ضروری ہے، آپ اسے اجازت دے دیں۔ وہ ایک سیدھی سادی عورت تھیں، بولیں، کیوں نہیں بیٹے! تم میرے بچوں جیسے ہو، روبینہ تمہاری بہن ہے، لے جاؤ، لیکن رات کو جلدی واپس چھوڑ دینا۔ میں نے وعدہ کیا اور واپس آ گیا۔
شام کو استاد نے کھانا پکوایا اور خود کہیں چلے گئے۔ میں بیٹھک میں بیٹھا تھا کہ روبینہ آ گئی۔ میں خوش ہو گیا کہ مہمان خود ہی آ گئی، مجھے لینے کے لیے جانا نہیں پڑا۔ ہم دونوں باتیں کرنے لگے۔ مجھے خود نہیں معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ تھوڑی دیر بعد روبینہ بولی، کیسی دعوت ہے؟ یہاں تو کوئی اور ہے ہی نہیں، اور مجھے تو بہت بھوک لگ رہی ہے۔ میں نے کہا، چلو تم کھانا کھا لو۔ روبینہ کو واقعی بھوک لگی تھی۔ میں نے کھانا لا کر اس کے سامنے رکھا، اور وہ کھانے لگی۔ کھانے کے بعد بھی استاد کا کچھ پتا نہ تھا۔ وہ بولی، خان! مجھے دیر ہو رہی ہے، چلو مجھے گھر چھوڑ آؤ۔ یہ کیسی دعوت ہے، گھر میں تو کوئی ہے ہی نہیں۔ اتنے میں دروازے پر کھٹکا ہوا اور استاد کے ساتھ دو مہمان آ گئے، مگر وہ سب مرد تھے۔ ان کے ساتھ ان کے گھر والے نہیں تھے۔
میں یہ دیکھ کر چونکا، دل دھڑکنے لگا، مگر خاموش رہا۔ روبینہ بھی خاموش تھی۔ استاد نے حکم دیا کہ کھانا لاؤ۔ روبینہ وہیں بیٹھی رہی، میں اٹھ کر اندر گیا۔ واپس آیا تو دروازہ بند تھا، صرف ایک کھڑکی کا پٹ ہاتھ لگنے سے کھل گیا۔ میں نے کھڑکی سے اندر جھانکا تو دیکھا کہ ایک آدمی روبینہ کو پکڑے بیٹھا ہے، اور وہ بے بسی سے رو رہی ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ بولی، کیا اس لیے مجھے یہاں لائے تھے؟ کیا مجھے بہن نہیں سمجھا؟ کیا بھائی ایسے ہوتے ہیں؟
میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ کھانے کی ٹرے میرے ہاتھ سے گر گئی۔ وہ تین آدمی تھے اور میں اکیلا۔ میں نے چینی کی پلیٹیں اٹھا اٹھا کر ان پر پھینکنا شروع کر دیں۔ استاد نے مجھے پکڑ لیا اور دوسرے کمرے میں دھکیل دیا۔ ہم دونوں میں ہاتھا پائی ہونے لگی۔ روبینہ کی سسکیاں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ اسی ہاتھا پائی میں، میں دراز سے پستول نکالنے میں کامیاب ہو گیا اور گولی چلا دی۔ گولی استاد کے سر پر لگی، وہ زمین پر گر گیا۔ میں پستول لے کر دوبارہ اس کمرے میں گیا جہاں روبینہ ان درندوں کے رحم و کرم پر تھی۔ ایک آدمی اپنی شیطانی خواہش پوری کر چکا تھا اور دوسرا بھی باز نہ آیا۔ روبینہ تقریباً نیم بے ہوش تھی۔ یہ دونوں آدمی بھی ہمارے اسکول کے استاد تھے۔ میں نے فائر کیا۔ ایک گولی دیوار میں لگی اور دوسری آدمی کے سینے میں۔ تیسرا بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے روبینہ کو سہارا دے کر اس کے گھر پہنچایا۔ اس کی بیوہ ماں نے جب بیٹی کی حالت دیکھی تو زار زار رونے لگی۔ اُس لمحے میرا دل چاہا کہ اپنی زندگی ان آنسوؤں پر قربان کر دوں۔
اس دن میری جیب میں صرف سو روپے تھے۔ میں نے والد صاحب کو سب کچھ بتایا۔ انہوں نے اپنے ایک بااثر دوست کے ذریعے مجھے قطر بھجوا دیا۔ آج اس واقعے کو آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ میں واپس گھر نہیں گیا۔ بلاشبہ عدالت میں مجھ پر مقدمہ نہ چلا، نہ سزا ہوئی، مگر میں اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم ہوں۔ میں دو قتل کا مجرم ہوں، لیکن سب سے بڑا قتل تو روبینہ کا ہوا تھا۔ ایک معصوم، بے گناہ لڑکی جس پر حیوان صفت لوگوں نے ظلم کیا۔ آج بھی جب روبینہ کا چہرہ یاد آتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔
(ختم شد)