میرا بھائی یوسف مجھ سے چھ برس چھوٹا تھا۔ ہم دونوں کی پرورش والدہ کے بعد بابا جان نے کی اور انہوں نے ہماری خاطر دوسری شادی نہ کی۔ ایک بیوہ پھوپھی ساتھ رہتی تھی۔ وہ ہماری دیکھ بھال کیا کرتی تھی۔ جن بچوں کی مائیں نہیں ہوتی ان کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ان کے رشتوں کی تلاش ہے۔ جس کے لیے والدہ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ جب ہم شادی کی عمر کو پہنچے پھوپھی وفات پا گئی۔ جو ہمارے لیے ایک ماں کے جیسی تھی۔ والد بزنس میں مصروف رہتے تھے۔ اس وجہ سے میری شادی کی عمر نکل گئی اور میں بن بیہائی رہ گئی۔
لیکن میرے بھائی کا گھر اباد ہو جائے اب یہی میری زندگی کا مقصد تھا۔ بھائی 25 برس کی ہو چکے تھے اور میں بھی ابھی تک ان کے لیے کوئی مناسب لڑکی ڈھونڈنے میں لگی تھی۔ انہی دنوں جب میں یوسف کے لیے لڑکی تلاش کر رہی تھی ہمارے گھر کے سامنے ایک مختصر سا خاندان آ کر آباد ہوا میاں بیوی اور ان کے دو بچے تھے۔ خاتون خانہ کا نام زرینہ تھا۔ اس کی چھوٹی بہن بھی ساتھ رہتی تھی۔ جو خاصی خوبصورت تھی اور اس کی عمر 17 سال تھی۔ یہ لڑکی مجھ کو پہلی ہی نظر میں بھاگ گئی۔ اس کا نام ستارہ تھا۔ سوچا کہ ان کے گھر آنا جانا رکھنا چاہیے اگر اچھے لوگ ہوئے تو زرینہ سے اس کی بہن ستارہ کا رشتہ یوسف بھائی کے لیے طلب کر لوں گی۔
اس طرح یوسف کا گھر آباد ہو جائے گا اور میں اس کے بچوں کی خوشیاں دیکھوں گی۔ میں نے زرینہ کے گھر جانے میں پہل کی۔ اس کے بعد وہ بھی آنے جانے لگی ستارہ بھی ساتھ آتی۔ اس سے بات جیت کا موقع ملتا۔ رفتہ رفتہ اس لڑکی نے میرے دل میں گھر کر لیا۔ میں نے یوسف سے تذکرہ کیا۔ اس نے جواب دیا۔ آپا جو لڑکی اپ پسند کریں گی۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ میں نے ستارہ کو پسند کر لیا ہے تم ذرا مجھ سے تعاون کرو اس فیملی کا تم بھی کچھ اتا پتہ کرو۔ ایک دو بار تمہارا ان کے گھر آنا جانا ہوگا تو تم صحیح رائے قائم کر پاؤ گے۔ میری پسند ہی کافی نہیں تمہاری زندگی کا معاملہ ہے۔ اس میں تمہاری پسندیدگی اور رائے بھی ضروری ہے۔
اس نے کہا اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟ ان کے گھر کیسے آنا جانا ہوگا؟ تو میں نے بتایا کہ تم زرینہ کے بچوں کے لیے کھلونے لے آؤ اور کبھی مٹھائی۔ میں تمہارے ہاتھ بھجواؤں گی۔ تم ان کے گھر بیل دینا۔ کوئی گیٹ کھولے گا۔ کہنا سامنے والی شگفتہ آپا نے یہ بھجوایا ہے۔ اپنا تعارف کروانا کہ میں آپا شگفتہ کا چھوٹا بھائی ہوں۔ وہ بلائیں گے تو اندر چلے جانا۔ چائے وغیرہ سے تواضع تو ضرور کریں گے۔ کیونکہ جب زرینہ بہن اور بچوں سمیت ہمارے گھر آتی ہے۔ میں خوب تواضع کرتی ہوں۔ اس طرح یہ تمہیں ستارہ کو دیکھنے کے علاوہ اس سے بات چیت کا موقع بھی ملے گا۔ ان کے بچوں کو کھلونے دے کر دوستی کر لو۔ رشتوں میں دیکھ پرکھ اور ان کی عادت و اطوار کا مشاہدہ کرنے کے لیے یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ گویا میں نے اپنے بھائی کو اپنی سمجھ کے مطابق راستے پر لگا دیا۔ ظاہر ہے ہمارا کوئی بزرگ تو موجود تھا نہیں کہ جس سے ہم مشورہ کرتے یا اس کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے۔
اب یوسف بھائی میری جانب سے کبھی کچھ کبھی کچھ دینے کے بہانے جاتے۔ زرینہ ہی دروازہ کھولتی وہی اس کو گھر کے اندر لے جاتی اور وہی ان کو کمپنی دیتی۔ بات چیت کرتی۔ جب کہ ستارہ دور سے سلام کرتی چائے وغیرہ بنا کر لاتی اور میز پر رکھ کر چلی جاتی۔ یوں رفتہ رفتہ بھائی زرینہ یعنی ستارہ کی بڑی بہن سے کافی زیادہ مانوس ہو گیا۔ زرینہ کا شوہر اکثر گھر پر نہ ہوتا وہ رات گئے لوٹتا تھا ۔ زرینہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کاروبار میں اس قدر مصروف رہتا ہے کہ اس کے پاس اپنے بیوی بچوں کے لیے ٹائم نہیں ہے۔ پاس پڑوس کے لیے کہاں وقت نکال سکتا ہے غرض اس کی ابھی تک کسی کے ساتھ شناسائی نہ ہو سکی تھی۔
زرینہ اور اس کے شوہر کی عمروں میں بھی کافی فرق تھا کم از کم 20 برس کا فرق تو ہوگا اس کے بال کنپٹیوں پر سے سفید ہو رہے تھے۔ قدر فربا اندام اور رنگت سرخ و سفید۔ یہ کافی خوش لباس شخص تھا اور مالی طور پر خوشحال بھی۔ اچھی گاڑی رکھی ہوئی تھی۔ اس کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کے ہوتے ایک بیوی خوش باش زندگی بسر کر سکتی ہے۔ پھر بھی جب یوسف سے زرینہ بات کرتی تو وہ شوہر کا گلا ہی کرتی۔ بقول زرینہ کے اس کا جیون ساتھی بیوی کو گھر میں صرف اس قدر اہمیت دیتا تھا کہ یہ عورت اس کے بچوں کو پالنے کے لیے بنی ہے۔ تبھی اس کے گھر کی چھت تلے پڑی رہے وہ جوان بیوی کے ارمانوں اور حسرتوں سے قطعی لاتعلق تھا۔ عورت کو جذباتی سکون میسر نہ تھا اور اس کی تباہی کی ساری ذمہ داری اس کے شور فہد پر تھی۔ جو دن رات دولت کمانے اور اس دولت کو غلط جگہوں پر لٹانے کے چکر میں رہتا تھا۔
زرینہ اس طرح درد بھرے پیرائے میں اپنے شوہر کی زیادتیوں کا ذکر کرتی کہ کوئی انسان اس سے ہمدردی کیے بنا نہ رہ سکتا تھا۔ یوسف بھائی کو بھی اس خاتون سے ہمدردی ہو گئی۔ اب اس کی توجہ ستارہ سے ہٹ کر زرینہ پر مرکوز ہو گئی ستارہ تو بہن کے گھر میں ایک بے جان گڑیا کی جیسی تھی۔ جس کی اپنی نہ کوئی زبان تھی اور نہ کان تھے۔ جیسا بہن کہتی وہ کرتی جیسا وہ سمجھاتی یہ سنتی وہ اس آنے والے مہمان سے بھی دور دور رہی کہ جس کو زرینہ گرمجوشی سے خوش امدید کہتی تھی۔
میرے بھائی نے زرینہ کو پہلی بار اس کے گیٹ پر ہی دیکھا تھا۔ جب اپنے بچوں کے ساتھ وہ گیٹ کھولنے آئی تھی اور بھائی نے میری طرف سے اس کو بھیجی گئی پلاؤ کی ایک بڑی ڈش پکڑائی تھی۔ اپنے پہناوے اور شکل و صورت سے تو معلوم نہ ہوتی تھی کہ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہے۔ یوں بھی اس میں ایسی کوئی بات نہ تھی کہ اس کو پہلی بار دیکھ کر انسان ٹھٹک جائے۔ وہ خوبصورت نہ تھی البتہ قبول صورت ضرور تھی۔ رفتہ رفتہ اس کا یوسف بھائی سے ٹکراؤ ہونے لگا۔ اب اگر بھائی اپنی گاڑی سٹارٹ کرتا وہ آواز سن کر گیٹ پر آ جاتی۔ کہتی جب فراغت ملے آ جانا۔ آپ سے کچھ باتیں کرنا ہے۔ بھائی کی جانب اس کا جھکاؤ کا مطلب اب تک میں یہی سمجھتی تھی کہ وہ اپنی بہن ستارہ کے لیے میرے بھائی میں دلچسپی لے رہی ہے۔ کیونکہ وہ بھی بہن کا رشتہ تلاش کرنے کی تک و دو میں تھی۔ جس کا اس نے اشارتا مجھ سے تذکرہ بھی کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ خود تو شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں تھی۔ ایسی عورت بلا وجہ تو کسی نوجوان کو اپنے گھر بٹھا کر خاطر تواضع نہیں کرتی۔
جب مجھے یقین ہو گیا کہ اب زرینہ اپنی بہن کا رشتہ طلب کرنے پر انکار نہ کرے گی تو میں نے اس کی دعوت کی۔ تاکہ مدعا اپنی زبان پر لے آؤں اور رشتے کی بات چیت کو آگے بڑھایا جائے۔ وہ بچوں سمیت دعوت میں آگئی۔ مگر اس کے ساتھ ستارہ نہیں تھی۔ میں نے پوچھا ستارہ کیوں نہیں آئی؟ میں نے تو اس کو بھی مدعو کیا تھا کہنے لگی والدہ کی طبیعت اچانک ناساز ہو گئی ہے۔ ان کا فون آیا کہ ستارہ کو بھجوا دو۔ فہد نے بھی اسلام آباد جانا تھا۔ وہ ان کے ساتھ امی کے پاس چلی گئی ہے۔ میرا دل بجھ گیا۔ جس کی خاطر دعوت کی وہی چلی گئی تھی۔ خیر میں نے مدعا بیان کر دیا وہ بولی آپا امی سے پوچھ لوں تو آپ کو ہاں یا ناں میں جواب دے پاؤں گی۔ میں نے یوسف کو بتایا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ مگر وہ بد سطور زرینہ کے گھر جاتا رہا وہ حالات کو دیکھتے ہوئے۔ اس عورت کو مظلوم سمجھتا تھا۔ اس نے زرینہ کو سمجھایا کہ یا تو وہ نیک اور صابر عورت کی مانند ہر قسم کے حالات میں شوہر کے گھر میں رہے ۔یا پھر اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کر لے۔
ایک روز میں زرینہ کے گھر گئی۔ تاکہ اس سے ستارہ کے رشتے کے بارے میں جواب لوں۔ وہ بولی: آپا امی سے بات ہوئی تھی انہوں نے اس کا رشتہ اسلام آباد میں اپنے جاننے والوں میں کر دیا ہے۔ ستارہ ان کی بیٹی ہے۔ میں اس سلسلے میں امی کو مجبور نہیں کر سکتی۔ اس کے اس جواب سے میری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ نا امید ہو کر گھر لوٹ آئی۔ اس کے بعد زرینہ سے میل جول محدود کر دیا۔ لیکن میرا بھائی اسی کے گن گانے لگا۔ یوسف اکثر زرینہ کی زندگی کے بارے میں گفتگو کرتا اور افسوس کرتا کہ اتنی اچھی عورت کی قسمت خراب نکلی ہے۔ کن عذابوں سے گزر رہی ہے۔
ایک روز زرینہ نے یوسف کو رو رو کر اپنے گھریلو زندگی کی بیتا کچھ اس طرح سنائی کہ وہ مجھ سے کہنے لگا۔ آپا اگر زرینہ اپنے شوہر سے طلاق لے لے تو میں اس سے شادی کر لوں گا۔ اور اپ تعاون کریں گی۔ اس کی بات سن کر میرے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی۔ میں نے سمجھایا: دو بچوں کی ماں سے؟ کیا ہو گیا ہے میرے بھائی تمہیں؟ آپا دو بچوں کی ماں ہونا کوئی جرم تو نہیں ہے۔ میں نے جان لیا کہ بھائی پر اس عورت کا جادو چل گیا ہے۔ یہ کیا ہو گیا تھا میں نے کس خیال سے اس کے زرینہ کے گھر بھیجا اور یہ کس چکر میں جا پھنسا۔