اب زرینہ یوسف کے بغیر رہتی تھی اور نہ یوسف اس کے بنا رہ سکتا تھا۔ ان کو محلے والوں کے اعتراضات کی بھی پرواہ نہ رہی تھی۔ اب یوسف کی زندگی کا مقصد زرینہ کو اپنا لینا اس کو اپنے تئیں خوشیاں اور سکھ دینا اور اس کے بچوں کو پالنا پوسنا تھا۔ بالاخر زرینہ نے اپنے شوہر سے لڑ جھگڑ کر طلاق لے لی۔ اس کا سابق شوہر بیرون ملک چلا گیا۔
میرے لاکھ روکنے کے باوجود یوسف نے زرینہ سے شادی کر لی۔ اس کے بچوں کو بھی گھر لےآیا۔ وہ ان سے ایک حقیقی باپ جیسا پیار کرتا تھا۔ اس نے زرینہ کو بھی بہت پیار دیا کہ وہ اپنی زندگی کے پچھلے دکھ بھول گئی۔ سال بعد زرینہ نے ایک پیاری سی بچی کو جنم دیا۔ جو میری بھتیجی تھی اور یوسف بھائی کی بیٹی تھی ان کی شادی سے اختلاف صحیح مگر اب مجھ کو زرینہ کو بطور بھابی قبول کرنا تھا کہ ننی منی گڑیا ساحرہ اس کے بطن سے جنم لے چکی تھی۔ جو ہمارا اپنا خون تھی میں اس بچی کے پیار میں کھو گئی۔ جیسے اس کے آنے سے میری اجڑی اجڑی زندگی میں بہار آگئی ہو۔ اب زرینہ بھابی اور یوسف بھائی ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہو گئے کہ وہ اپنے مستقبل میں اولاد کے رشتے سے بند گئے تھے۔ جو ایک شادی شدہ جوڑے کو مضبوطی سے باندھے رکھتا ہے۔
دن یوں ہی گزرتے رہے ان کی شادی کو پانچ سال بیت گئے دو اور بچے ہو گئے میں نے بھی بھابھی کے بچوں میں کھو کر ہر بات بھلا دی سوچا کہ جب بھابی زرینہ سے بھائی میرا خوش ہے تو مجھے کیا اعتراض۔ پیار برقرار رکھنا چاہیے زندگی تو انہوں نے گزارنی ہے وہ سکھ چین کی زندگی بسر کر رہے تھے اور گھر میں بچوں کی رونق میں میں بھی خوش تھی۔
پانچ سال بعد ایک دن فہد اچانک ہمارے گھر کے دروازے پہ آیا اور کہا کہ میں اپنے بچوں سے ملنے آیا ہوں۔ ہم نے اس بات پر تو اعتراض نہ کیا کہ وہ اپنے بچوں سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے۔ یہ تو ماں باپ کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں سے ملے لیکن ہمیں اعتراض یہ تھا کہ وہ اپنے بچوں سے ہمارے گھر میں نہ ملے۔ بلکہ ان کو باہر لے جا کر ان سے ملے اور پھر چاہے تو واپس چھوڑ جائے۔ زینب بچوں کو باہر نہ بھجواتی تھی۔ فہد اگر ان کو بلواتا تو کہتی کہ ملنا ہے تو یہاں آ کر مل جاؤ مجھے ڈر ہے کہ تم بچوں کو روک لو گے اور پھر مجھے نہ ملنے دو گے۔ یوسف بھائی نے اس کو سمجھایا کہ یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تمہارا سابق شوہر میرے گھر پہ آئے جائے ۔ بے شک بچوں کو جہاں چاہے بلوا لے۔ مگر وہ نہ مانی اس بات پر زرینہ اور یوسف کے درمیان جھگڑا رہنے لگا۔ تاہم یہ جھگڑے وقتی ہوتے اور میاں بیوی میں جلد صلح ہو جاتی۔
بھائی سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ زرینہ کبھی ان سے بے وفائی بھی کر سکتی ہے۔ تین سال میں فہد ہمارے گھر بچوں سے ملنے ،10 12 بار آیا اور ہم نے برداشت کر لیا بچوں کی خاطر۔ اتفاقا انہی دنوں میرے بھائی کو کاروبار میں گھاٹا ہو گیا انہوں نے ملازمت کر لی۔ پھر وہ ملازمت بھی جاتی رہی۔ بھائی کا ہاتھ تنگ ہو گیا۔ ادھر پانچ بچوں کی تعلیمی اور دیگر اخراجات کو پورا کرنا لازم تھا۔ سو بھائی بہت پریشان رہنے لگا۔ فہد سعودی عربیہ چلا گیا تھا۔ وہاں مقدر کا ستارہ ایسا چمکا کہ وہ لاکھوں کمانے لگا ۔ اپنا زر مبادلہ وہ پاکستان میں لے آیا اور یہاں ایک شاندار کوٹھی بنوا لی ٹھاٹ سے رہنے لگا۔ پھر سے بزنس شروع کر دیا اور دولت بڑھتی گئی۔ جانے کب اور کیوں کر زرینہ کے اپنے سابقہ شوہر سے مراسم استوار ہو گئے۔ وہ ہمارے گھر بچوں کے اخراجات کے لیے رقم اور بہت سی اشیاء بھجوانے لگا۔ جس کو زرینہ اس کے بچوں کا حق کہہ کر وصول کر لیتی تھی۔ جس سے اس کا ہاتھ کھلا ہو گیا۔ بھائی کی تنگدستی نے اس کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا ۔
زرینہ یوسف بھائی کو دبانے لگی اور شوہر سے موڈ بھی خراب رکھنے لگی۔ بھائی کی زندگی میں آہستہ آہستہ زہر گھلنے لگا۔ ادھر قسمت کا چکر ایسا تھا کہ ہزار کوشش کے باوجود یوسف کی ذرائع آمدن ختم ہو گئے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا۔ جب بیوی کو فہد کا بیھجا ہوا روپیہ لینے سے روکتا وہ لڑنے لگتی کہ پانچ بچوں کو بھوکا مارو گے؟ آخر ان کو کہاں سے کھلاؤں؟ جب کمانے لگو گے تو پھر میں فہد کو رقم بھیجنے سے منع کر دوں گی۔ اب اگر اپنے بچوں کی خاطر خرچہ بھجواتا ہے تو تم کو کیا تکلیف ہے۔ تم خود تو خرچہ اٹھا نہیں سکتے۔ اس کی بات بھی صحیح تھی۔ لیکن بھائی کی غیرت بھی گوارا نہ کرتی تھی کہ محض روپے کی مجبوری کی وجہ سے فہد سے زرینہ رابطے میں رہے۔
بھابھی اب اپنے سابق شوہر سے فون پر بات بھی کرتی بلکہ اکثر بغیر بتائے گھر سے چلی جاتی تھی کوئی پوچھتا کہ کہاں گئی تھی تو الجھ پڑتی۔ اکثر اپنے پہلے والے دونوں بچوں کو ہمراہ لے جاتی۔ ان سے پوچھتے کہاں گئے تھے؟ وہ بتاتے کہ اپنے ابو کے پاس گئے تھے ۔انہوں نے فون کر کے بلوایا تھا۔ امی لے کر گئی تھی یوسف بھائی ان بچوں کو روکتے۔ وہ کہتے اپ کیوں روکتے ہیں؟ ہم سگے ابو سے ملنے جاتے ہیں؟ اپ تو ہمارے سوتیلے ابو ہیں۔ بتا نہیں سکتی ان دنوں یوسف کس قدر اذیت کا شکار تھ۔ا اس کا دل ہر دم روتا تھا۔ وہ گھر جو کبھی جنت کا نمونہ تھا اب جہنم بن چکا تھا۔ ہم یہ تصور نہ کر سکتے تھے کہ زرینہ ہمارا گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔
اگر دو بچے فہد کے تھے تو تین بچے ان کے پاس ہمارے بھی تھے۔ ان بچوں کی جدائی کے خیال سے ہی ہم نیم جان ہونے لگتے تھے۔ ایک روز بھائی نے زرینہ کو بازار میں فہد کی گاڑی سے اترتے دیکھ لیا۔ وہ وہاں شاپنگ کرنے گئی ہوئی تھی اس روز بہت جھگڑا ہوا۔ بھائی نے وہ سب چیزیں ادھر ادھر پھینک دی۔ جو وہ ہمارے بچوں کے لیے بھی لائی تھی کہ یہ چیزیں اس نے فہد کے پیسوں سے خریدی تھی جب بڑے دو بچوں کے لیے خریدی تو چھوٹے تینوں کے لیے بھی ویسے ہی خرید لی کہ وہ سبھی کی ماں تھی۔ یوسف بھائی کو یہ بات گوارا نہ تھی ۔وہ چلانے لگے کہ تم کو یہاں رہنا ہے تو فہد کے بچے اس کے حوالے کر دو ورنہ میرے بچے ادھر چھوڑو اور چلی جاؤ فہد کے پاس۔ زرینہ بھابھی خوب روئیں۔ بالاخر یہی فیصلہ ہوا کہ وہ سابق شوہر کی اولاد کو اس کے حوالے کر دے گی۔ فہد کے بچوں کو ان کے والد کے حوالے کر دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھابھی کو ایک پل چین نہ تھا وہ اندر اندر بچوں کی یاد میں گھلنے لگی۔ اس کا حال ماہی بے اب کاسا ہو گیا۔ اس نے کہہ دیا کہ وہ بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتی۔
یوسف بھائی نے کہا تو میں تمہارے بچوں کو واپس لے آتا ہوں۔ اب فہد نہ دیں گے۔ تو کیا مجھ سے طلاق لینا چاہتی ہو؟ نہیں اگر لے بھی لوں تو کیا یہ تین بچے تو مجھ کو دے دو گے؟ بھائی بولے ہرگز نہیں میں اپنے بچے کیوں دوں میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر یہ کیسا گوارا کر لوں کہ میرے ہوتے میرے بچے کسی اور شخص کے گھر میں پلے۔ اس طرح جھگڑا بڑھتا گیا۔ اخر کار بھائی نے تینوں بچے رکھ لیے اور زرینہ بھابھی کو طلاق دے کر روانہ کر دیا۔ وہ فہد کے گھر چلی گئی اور اس نے اپنے سابق خاوند سے دوبارہ نکاح کر لیا۔ سال بھر بھائی کے بچوں کو میں نے سنبھالا مگر وہ ماں کو نہ بھلا سکے۔ وہ ناخوش اور بیمار رہنے لگے۔ بالاخر سب سے چھوٹا میرا بھتیجا بیمار رہ کر فوت ہو گیا۔ اس کے فوت ہو جانے سے بھائی کے دل پر گہری چوٹ لگی۔ اپنے دل پر پتھر کی سل رکھ کر ہم نے باقی دونوں بچے زرینہ کو واپس کر دیے تاکہ وہ ماں کے پاس خوش رہیں۔ دو ماہ بھی نہ گزرے کہ وہ فہد بیوی بچوں کو لے کر سعودی عربیہ چلا گیا میں اور بھائی بچوں سے ملنے سے بھی رہ گئے۔ اس کے بعد یوسف بہت تنہا اور اداس ہو گیا اس نے میرے اصرار کرنے پر بھی دوسری شادی نہ کی۔
یوسف بھائی کہا کرتے تھے کہ یہ مجھے میرے کیے کی سزا ملی ہے میں احمق اگر زرینہ کی باتوں میں نہ آتا اس سے ہمدردی کر کے اس کا گھر برباد کرنے کا باعث نہ بنتا تو اج میرا گھر برباد نہ ہوتا اور نہ ہی میرا دل اجڑتا اب تو دونوں ہی برباد ہیں۔
(ختم شد)