Urdu Font Stories
عزت اور محبت - اردو کہانی
اللہ شاہد ہے کہ میں نے تم میں اور اپنی بہنوں میں کبھی کوئی فرق نہیں روا رکھا۔ بس خوشی خوشی اپنے گھرسدھارو اور ہمارے لیے دعا کیا کرو۔ بھابی ! میری ساری دعائیں آپ اور آپ کے بچوں کے لیے ہیں – ماما اور چچی اوپر والے پورشن میں رہتی تھیں ۔ دو کنال کا کشادہ گھر تھا۔ اپنا اپنا کچن اور اپنا اپنا سیٹ اپ تھا۔ مگر آب گھر میں کشادگی کم ہو رہی تھی۔ ہم چار بہن بھائی چار بچے چچی کے، ہر بچے کو اپنا اپنا کمرہ چاہیے تھا۔ بابا نیا گھر ڈھونڈ رہے تھے۔ اصولاً تو باری بڑی تائی کی تھی۔ دو بہویں گھر لے آئی تھیں ان کے بھی دو بچے تھے۔ ابھی دو لڑکے رہتے تھے۔ ان کو جگہ کی تنگی تھی مگر بڑی تائی نے کبھی شکوہ نہ کیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر بابا نے بہتر سمجھا کہ وہی الگ گھر تلاش کر لیں ۔ ویسے بھی ماما بڑی تائی سے تھوڑا دبتی تھیں ۔ ماما تھوڑی سادہ طبیعت کی تھیں۔ اگر وہ میری ماما نہ ہوتیں تو میں بیوقوف کہتی ۔
بڑی تائی اکثر ماما کے کام کی انداز پر طنز کرتی تھیں۔ ماما کو جلدی جلدی کام کر نے کی عادت تھی۔ بڑی پھپھو ماما کی پھرتی کے انداز سے بڑی متاثر ہوتی تھیں۔ تائی اکثر ہنس کر کہتیں ۔ بھابھی ! تہمینہ تو جلدی جلدی کام کرتی ہے جلدی جلدی ہاتھ مار کر دو چار گلاس بھی توڑ دیتی ہے۔ ماما ان کی باتوں پر ہنس دیتیں۔ مجھے بڑی چڑ ہوتی میں کئی بار ماما سے کہتی ۔ ماما! آپ ہنس پڑتی ہیں آگے سے جواب کیوں نہیں دیتیں ، وہ آپ کا مذاق اڑاتی ہیں اور آپ سمجھتی ہیں کہ وہ آپ سے مذاق کرتی ہیں۔ ماما نرمی سے جواب دیتیں ۔ حنا میری بیٹی میں جانتی ہوں۔ وہ میرا مذاق اڑاتی ہیں۔ مگر وہ بڑی ہیں ۔ میں ان کا لحاظ کرتی ہوں۔ یہ زبان بندی ایک دن میرے کام آئے گی اور یہی زبان درازی ایک دن ان کے لیے مصیبت بنے گی۔ بیٹا اللہ دنوں کا حال جانتا ہے۔ میرے دل میں کیا ہے اور ان کے دل میں کیا ہے ، وہ سب سے باخبر ہے میں جواب دے کر ان کی بولتی تو بند کر دوں مگر اپنی نظروں میں گر جاؤں گی ۔ بیس برس سے ان کے ساتھ رہ ہوں کہ میں اندر باہر سے جان گئی ہوں۔
بڑی تائی اکثر ماما کے کام کی انداز پر طنز کرتی تھیں۔ ماما کو جلدی جلدی کام کر نے کی عادت تھی۔ بڑی پھپھو ماما کی پھرتی کے انداز سے بڑی متاثر ہوتی تھیں۔ تائی اکثر ہنس کر کہتیں ۔ بھابھی ! تہمینہ تو جلدی جلدی کام کرتی ہے جلدی جلدی ہاتھ مار کر دو چار گلاس بھی توڑ دیتی ہے۔ ماما ان کی باتوں پر ہنس دیتیں۔ مجھے بڑی چڑ ہوتی میں کئی بار ماما سے کہتی ۔ ماما! آپ ہنس پڑتی ہیں آگے سے جواب کیوں نہیں دیتیں ، وہ آپ کا مذاق اڑاتی ہیں اور آپ سمجھتی ہیں کہ وہ آپ سے مذاق کرتی ہیں۔ ماما نرمی سے جواب دیتیں ۔ حنا میری بیٹی میں جانتی ہوں۔ وہ میرا مذاق اڑاتی ہیں۔ مگر وہ بڑی ہیں ۔ میں ان کا لحاظ کرتی ہوں۔ یہ زبان بندی ایک دن میرے کام آئے گی اور یہی زبان درازی ایک دن ان کے لیے مصیبت بنے گی۔ بیٹا اللہ دنوں کا حال جانتا ہے۔ میرے دل میں کیا ہے اور ان کے دل میں کیا ہے ، وہ سب سے باخبر ہے میں جواب دے کر ان کی بولتی تو بند کر دوں مگر اپنی نظروں میں گر جاؤں گی ۔ بیس برس سے ان کے ساتھ رہ ہوں کہ میں اندر باہر سے جان گئی ہوں۔
انہیں نہیں پسند کہ ان کے سامنے کوئی کسی دوسرے کا دم بھرے وہ بڑی ہیں اور انہیں اپنے آگے کسی دوسرے کی تعریف ہرگز پسند نہیں۔ اتنا تو میں بھی جان گئی ہوں ۔ لہذا میں ان کے آگے پس پشت ہی رہتی ہوں ویسے بھی مجھے لوگوں سے کیا مطلب تم، تمہارے بابا، تمہارے بھائی تو میری عزت کرتے ہونا ؟ مجھ سے محبت کرتے ہونا۔ میں نے ان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور ان کا ماتھا چوم کر بولی ۔ ماما ! آپ جیسا دوسرا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا بس بیٹا ! میرے لیے یہی کافی ہے۔ میں تائی سے نفرت نہیں کرتی تھی۔ ماما نے کبھی کسی سے نفرت ہی نہیں سکھائی۔ بس مجھے ان کی تیزی سے الجھن ہوتی تھی۔ مجھے پتا چل گیا تھا وہ اوپر سے اور ہیں اور اندر سے اور مجھے اپنے رشتہ داروں پر غصہ آتا تھا جو انہیں بڑا ہم درد غم گسار سمجھتے تھے اور ان کی بڑی قدر کرتے تھے ۔ نجانے کسی کو ان کے چہرے پر چڑھا نقاب کیوں نظر نہیں آتا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔ ایک دن ماما نے مجھے اپنے پاس بلایا اور بڑی محبت سے ایک سوال کیا۔ حنا! اگر تمہارے دو رشتے آئیں ایک بڑی پھپھو کے گھر سے اور ایک بڑی تائی کے ہاں سے تو تم کس کو قبول کرو گی؟ میں ان کی بات سن کر منہ کھول کر اور آنکھیں منہ اور پھاڑ کر کھڑی ہو گئی۔ امی نے ہنستے ہوئے کہا۔ منہ تو بند کر لو اور مجھے جواب دو۔میں کیا کہوں۔ میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا کہ آپ کی مرضی مجھے قبول ہوگی۔ پھر بھی تمہاری کوئی مرضی۔ ماما نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ نہیں امی ! میری کوئی مرضی نہیں ۔ ہاں بس ایک چیز کی خواہش ہے جو مجھے عزت سے مانگے، اس کو ہاں کر دیں۔ یہ بات تو میں بھی جانتی ہوں بیٹا ! عزت محبت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ ماما بولیں- بہرحال فیصلہ میں نے تمہاری مرضی پہ چھوڑا ہے اور تمہارے بابا کا بھی یہی کہنا ہے کہ جو فیصلہ حنا کرے گی ، وہی ہمارا فیصلہ ہوگا۔ تمھیں ایک ہفتہ دیتے ہیں تم اچھی طرح سوچ لو۔ ماما یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔ میں سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی۔ بڑی تائی کا طرز عمل مجھے ڈراتا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔ ایک دن ماما نے مجھے اپنے پاس بلایا اور بڑی محبت سے ایک سوال کیا۔ حنا! اگر تمہارے دو رشتے آئیں ایک بڑی پھپھو کے گھر سے اور ایک بڑی تائی کے ہاں سے تو تم کس کو قبول کرو گی؟ میں ان کی بات سن کر منہ کھول کر اور آنکھیں منہ اور پھاڑ کر کھڑی ہو گئی۔ امی نے ہنستے ہوئے کہا۔ منہ تو بند کر لو اور مجھے جواب دو۔میں کیا کہوں۔ میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا کہ آپ کی مرضی مجھے قبول ہوگی۔ پھر بھی تمہاری کوئی مرضی۔ ماما نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ نہیں امی ! میری کوئی مرضی نہیں ۔ ہاں بس ایک چیز کی خواہش ہے جو مجھے عزت سے مانگے، اس کو ہاں کر دیں۔ یہ بات تو میں بھی جانتی ہوں بیٹا ! عزت محبت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ ماما بولیں- بہرحال فیصلہ میں نے تمہاری مرضی پہ چھوڑا ہے اور تمہارے بابا کا بھی یہی کہنا ہے کہ جو فیصلہ حنا کرے گی ، وہی ہمارا فیصلہ ہوگا۔ تمھیں ایک ہفتہ دیتے ہیں تم اچھی طرح سوچ لو۔ ماما یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔ میں سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی۔ بڑی تائی کا طرز عمل مجھے ڈراتا تھا۔
ان کے بیٹے بہت اچھے تھے۔ مگر کیا میں نے صرف ان کے ساتھ رہنا تھا۔ تائی بھی تو ہمارے ساتھ ہوں گی ۔ میں ان کی باتوں کی چبھن اور طنزیہ فقروں کی کاٹ کیسے برداشت کروں گی۔ ایک فائدہ ہوگا اس رشتے سے کہ مجھے اپنے ماں باپ سے دوری اختیار نہ کرنا پڑے گی۔ دوسری طرف پھپھو کو دیکھتی، بڑی پھپھو خوش مزاج تھیں ۔ ایک عادت تھی ان میں جو بات بری لگتی منہ پہ ہی کہہ دیتیں، چاہے کسی پہ پیار آئے یا غصہ اس کا اظہار فوری طور پر کر دیتیں اور پانچ منٹ بعد پھر پہلے جیسی ہو جاتیں۔ ان کا اندر باہر ایک کا جیسا تھا۔ گھر کا ماحول کھلا ڈلا سادہ کوئی بناوٹ نہیں۔ وسائل ان کے بھی تائی سے کم نہ تھے مگر اس کا اظہار اتنا نہیں تھا جتنا تائی کے ہاں تھا۔ ان کے ہاں برانڈڈ چیزوں کا شور تھا ہر چیز برانڈ کے نام دیکھ کر کے آتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے ان چیزوں سے الجھن ہوتی تھی۔ مصنوعی پن سا جھلکتا تھا۔
تین دن ان ہی سوچوں میں گزر گئے ۔ ماما نے دوبارہ اس موضوع کو نہیں چھیڑا تھا۔ ان کی عادت تھی جب وہ کسی بات کے لیے وقت دیتی تھیں تو اس دیے گئے وقت سے پہلے اس موضوع کا تذکرہ بھی نہیں کرتی تھیں۔ اس دن ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد میں جائے نماز پر دیر تک بیٹھی اللہ سے یہی دعا کرتی رہی ۔ یا اللہ مجھے صحیح فیصلہ کرنے کی قوت عطا کر جو میرے لیے بہتر ہے، وہی کر۔ میں اپنا معاملہ تیری رضا یہ چھوڑتی ہوں، مجھے کوئی رستہ دکھا۔ کافی دیر کے بعد جب میں اٹھی تو میرا ذہن کافی ہلکا ہو گیا تھا۔ پھر اگلے ہی دن اللہ نے میری مدد کی میں نے پھپھو کے بیٹے کے لیے ہاں کر دی۔ میری بات سن کر ماما کی آنکھوں میں مسرت آمیز چمک آگئی۔ مجھے گلے لگا کر چوما اور بولیں۔ بیٹا! تم نے بہت درست فیصلہ کیا ہے۔ میں تمہیں سچ بات بتاؤں، تمہارے بابا اور میری بھی مرضی یہی تھی کہ تم اپنی پھپھو کے گھر کے لیے ہاں کرو مگر ہم تم پہ دباؤ نہ ڈالنا چاہتے تھے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے تم نے درست فیصلہ کیا۔ مجھے قوی امید ہے تم وہاں بہت خوش رہوگی وہاں تمہیں محبت کے ساتھ عزت بھی ملے گی۔ میں تمہارا جواب تمہارے بابا کو بتادوں، وہ بھی بہت خوش ہوں گے۔ ماما یہ کہہ کر کمرے سے نکل لیں۔ میں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا۔
دو دن پہلے میں نے بریانی بنائی تھی میں وہ تائی کو دینے گئی۔ گھر میں کوئی نہیں تھا ، ہر طرف خاموشی تھی۔ میں نے برتن کچن کے کاؤنٹر پر رکھے اور تائی کے کمرے کی طرف بڑھی ، باتوں کی آواز آرہی تھی۔ اپنا نام سن کر ایک دم میں رک گئی۔ تائی کی دروازے کی طرف پشت تھی اور وہ فون پر کسی سے مخاطب تھیں۔ ارے حنا کا رشتہ میں نے اس لیے مانگا تھا کہ اس کی ماں ساری عمر میرے سامنے دب کر رہی، اب بھی دب کر رہے گی ، آخر اس کی لڑکی میرے گھر آئے گی۔ لڑکی والے ہمیشہ دب کر رہتے ہیں۔ ویسے بھی حنا کا باپ آج کل گھر تلاش کر رہا ہے۔ رشتہ ہونے کے بعد میں ان پہ زور دوں گی کہ یہاں سے جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ عاقب اور عثمان دونوں لندن جا رہے ہیں فیملی کے ساتھ ابھی یہ بات میں نے کسی کو نہیں بتائی ان کے جانے کے بعد گھر میں کافی گنجائش نکل آئے گی۔
تین دن ان ہی سوچوں میں گزر گئے ۔ ماما نے دوبارہ اس موضوع کو نہیں چھیڑا تھا۔ ان کی عادت تھی جب وہ کسی بات کے لیے وقت دیتی تھیں تو اس دیے گئے وقت سے پہلے اس موضوع کا تذکرہ بھی نہیں کرتی تھیں۔ اس دن ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد میں جائے نماز پر دیر تک بیٹھی اللہ سے یہی دعا کرتی رہی ۔ یا اللہ مجھے صحیح فیصلہ کرنے کی قوت عطا کر جو میرے لیے بہتر ہے، وہی کر۔ میں اپنا معاملہ تیری رضا یہ چھوڑتی ہوں، مجھے کوئی رستہ دکھا۔ کافی دیر کے بعد جب میں اٹھی تو میرا ذہن کافی ہلکا ہو گیا تھا۔ پھر اگلے ہی دن اللہ نے میری مدد کی میں نے پھپھو کے بیٹے کے لیے ہاں کر دی۔ میری بات سن کر ماما کی آنکھوں میں مسرت آمیز چمک آگئی۔ مجھے گلے لگا کر چوما اور بولیں۔ بیٹا! تم نے بہت درست فیصلہ کیا ہے۔ میں تمہیں سچ بات بتاؤں، تمہارے بابا اور میری بھی مرضی یہی تھی کہ تم اپنی پھپھو کے گھر کے لیے ہاں کرو مگر ہم تم پہ دباؤ نہ ڈالنا چاہتے تھے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے تم نے درست فیصلہ کیا۔ مجھے قوی امید ہے تم وہاں بہت خوش رہوگی وہاں تمہیں محبت کے ساتھ عزت بھی ملے گی۔ میں تمہارا جواب تمہارے بابا کو بتادوں، وہ بھی بہت خوش ہوں گے۔ ماما یہ کہہ کر کمرے سے نکل لیں۔ میں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا۔
دو دن پہلے میں نے بریانی بنائی تھی میں وہ تائی کو دینے گئی۔ گھر میں کوئی نہیں تھا ، ہر طرف خاموشی تھی۔ میں نے برتن کچن کے کاؤنٹر پر رکھے اور تائی کے کمرے کی طرف بڑھی ، باتوں کی آواز آرہی تھی۔ اپنا نام سن کر ایک دم میں رک گئی۔ تائی کی دروازے کی طرف پشت تھی اور وہ فون پر کسی سے مخاطب تھیں۔ ارے حنا کا رشتہ میں نے اس لیے مانگا تھا کہ اس کی ماں ساری عمر میرے سامنے دب کر رہی، اب بھی دب کر رہے گی ، آخر اس کی لڑکی میرے گھر آئے گی۔ لڑکی والے ہمیشہ دب کر رہتے ہیں۔ ویسے بھی حنا کا باپ آج کل گھر تلاش کر رہا ہے۔ رشتہ ہونے کے بعد میں ان پہ زور دوں گی کہ یہاں سے جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ عاقب اور عثمان دونوں لندن جا رہے ہیں فیملی کے ساتھ ابھی یہ بات میں نے کسی کو نہیں بتائی ان کے جانے کے بعد گھر میں کافی گنجائش نکل آئے گی۔
تب میں اپنی ٹانگ اوپر کر کے ان کو یہاں رہنے پر مجبور کروں گی۔ بدھو مگر کام کاج میں بہت تیز اور پھرتیلی ہے۔ بعد میں نواسی نواسوں کو بھی سنبھال لے گئی اور ہم بھی اچھے بنیں گے کہ دیکھا ماں بیٹی کو ایک دوسرے سے دور نہیں کیا۔ جہاں ضرورت پڑی دبا لیں گے، جہاں ضرورت پڑی میٹھی چھری بن جائیں گے- تائی کی ہنسی کی آواز میرے کانوں میں بھالے کی طرح لگی۔ میں دبے پاؤں اوپر آئی ۔ جو فیصلہ ایک ہفتے سے نہیں ہورہا تھا، ایک پل میں ہو گیا ۔ ہاں ایک بات تو میں آپ کو بتانا بھول گئی۔ ہمیں مکان مل گیا تھا۔ پھپھوکی گلی میں ہی ملا تھا۔ بہت اچھا اور خوب صورت گھر ہے۔ ماما، بابا نے سوچا تھا کہ میرے رشتہ طے ہونے کی خبر کے ساتھ یہ نیوز بھی بریک کریں گے۔ تائی کا چہرہ کیسا ہو گا یہ دونوں خبریں سن کر ان کے تاثرات کا سوچ کر ہنسی آتی ہے اور رحم بھی۔ دوسری بات میں اپنی کم عقلی کی وجہ سے ماما کو بے وقوف سمجھتی تھی۔ آج مجھے پتا چل گیا وہ بے وقوف نہیں بہت صبر والی ، بہت ظرف والی ہیں۔ جب انہوں نے میرا فیصلہ سنا تو ۔ مجھے خوشی ہے۔ تم میری طرح کسی کا تختہ مشق بننے سے بچ گئی ہو۔ ماما کی بات سن کر مجھے ماما پہ ڈھیروں پیار آ گیا۔ وہ تائی کے ہتھکنڈوں سے پوری طرح واقف ہیں۔
قسط وار کہانیاں |
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے