چھ ماہ سے ہمارے مکان کا آدھا پورشن خالی تھا۔ اچھے کرائے دار کا ملنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ لوگ تو کافی آئے لیکن ابو کسی مختصر فیملی کو گھر کرائے پر دینا چاہتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے کشادہ مکان کے درمیان دیوار اٹھا کر اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایک پورشن میں ہم رہتے تھے جبکہ دوسرا کرائے پر دیا کرتے تھے۔ ایک روز میں اور امی بازار شاپنگ کے لیے گئے تو شاپنگ مال میں ایک مہذب سی چوبیس یا پچیس سالہ خوبرو خاتون ملیں۔ وہ ہم سے مشورہ لینے لگی کہ اپنے شوہر کے لیے کون سا سوٹ خریدے؟ انہوں نے دو چار ہلکے کلر کے مردانہ سوٹ منتخب کیے ہوئے تھے۔ عید قریب تھی اور اپنے شریک حیات کو وہ عید پر شلوار سوٹ امریکہ بھجوانا چاہ رہی تھی۔
امی نے خاتون کو کلر منتخب کرنے میں مدد دی اور انہوں نے دو جوڑے خرید لیے یوں منٹوں میں رقیہ سے جان پہچان ہو گئی باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ اس کو کرائے پر گھر درکار ہے۔ موجودہ مالک مکان اپنا مکان بیچنا چاہتے ہیں۔ اس لیے خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ خاتون ہمیں اچھی لگی تھی۔ والدہ نے سوال کیا آپ کل کتنے افراد ہیں؟ کہنے لگی: بس دو ایک میں دوسرا میرا بھائی۔ شوہر پردیس میں ہے تبھی بھائی ساتھ رہتا ہے۔ امی نے کہا ہمارا پتہ اور فون نمبر لے لو اور مکان دیکھ لو اگر پسند آ جائے تو لے لینا۔ اسی دن شام کو دستک ہوئی بھائی جان نے دروازہ کھولا سامنے رقیہ کھڑی تھی۔ اس نے کہا کہ آپ کی والدہ کہاں ہیں؟
بھائی اسے امی کے کمرے میں لے آئے۔ تھوڑی سی بات چیت کے بعد معاملہ طے ہو گیا۔ رقیہ ہمارے کرائے دار بن کر آگئی۔ وہ صاف ستھری اور سلیقہ مند عورت تھی عمر زیادہ نہیں تھی خوبصورت اور خود کو جس طرح طریقے سے سنوار کر رکھتی تھی۔ گھر کو بھی ویسے ہی سلیقے سے سنوار دیا تھا۔ اس کا گھر سکون کا گہوارہ تھا ہمیں اس کے گھر میں بیٹھ کر سکون ملتا تھا۔ مہمان نواز اور اعلی اخلاق کی مالک تھی۔ لگتا تھا کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اب ہم روزانہ اس کے گھر جانے لگے شام کو بہت مزیدار سی چائے پلواتی اور خوش دلی سے باتیں کرتی کہ جی شاد ہو جاتا۔ ہم بہت مطمئن تھے کہ اچھی کرائے دار ملی ہے۔ ورنہ کم ہی کرائے دار دل خوش کن ہوتے ہیں۔
امی نے خاتون کو کلر منتخب کرنے میں مدد دی اور انہوں نے دو جوڑے خرید لیے یوں منٹوں میں رقیہ سے جان پہچان ہو گئی باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ اس کو کرائے پر گھر درکار ہے۔ موجودہ مالک مکان اپنا مکان بیچنا چاہتے ہیں۔ اس لیے خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ خاتون ہمیں اچھی لگی تھی۔ والدہ نے سوال کیا آپ کل کتنے افراد ہیں؟ کہنے لگی: بس دو ایک میں دوسرا میرا بھائی۔ شوہر پردیس میں ہے تبھی بھائی ساتھ رہتا ہے۔ امی نے کہا ہمارا پتہ اور فون نمبر لے لو اور مکان دیکھ لو اگر پسند آ جائے تو لے لینا۔ اسی دن شام کو دستک ہوئی بھائی جان نے دروازہ کھولا سامنے رقیہ کھڑی تھی۔ اس نے کہا کہ آپ کی والدہ کہاں ہیں؟
بھائی اسے امی کے کمرے میں لے آئے۔ تھوڑی سی بات چیت کے بعد معاملہ طے ہو گیا۔ رقیہ ہمارے کرائے دار بن کر آگئی۔ وہ صاف ستھری اور سلیقہ مند عورت تھی عمر زیادہ نہیں تھی خوبصورت اور خود کو جس طرح طریقے سے سنوار کر رکھتی تھی۔ گھر کو بھی ویسے ہی سلیقے سے سنوار دیا تھا۔ اس کا گھر سکون کا گہوارہ تھا ہمیں اس کے گھر میں بیٹھ کر سکون ملتا تھا۔ مہمان نواز اور اعلی اخلاق کی مالک تھی۔ لگتا تھا کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اب ہم روزانہ اس کے گھر جانے لگے شام کو بہت مزیدار سی چائے پلواتی اور خوش دلی سے باتیں کرتی کہ جی شاد ہو جاتا۔ ہم بہت مطمئن تھے کہ اچھی کرائے دار ملی ہے۔ ورنہ کم ہی کرائے دار دل خوش کن ہوتے ہیں۔
ایک روز ہم دونوں بہنیں ان کے گھر گئی تو وہ غمگین نظر آئی۔ پوچھا کیا بات ہے آپا رقیہ آج افسردہ دکھائی دے رہی ہو؟ شوہر کو امریکہ گئے دو سال ہو چکے ہیں کہا تھا جلد بلوا لوں گا ابھی تک بلوانے کے آثار نہیں ہیں۔ بیرون ملک جانے کے بعد بکھیڑے ہوتے ہیں وقت لگ جاتا ہے۔ میں نے تسلی دی۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ اس کا بھائی آگیا۔ اس کی حالت ٹھیک نہ لگتی تھی۔ قدم لڑکھڑا رہے تھے تبھی ہم لوگ جانے کو ہوئے کہنے لگی۔ بیٹھو تو ابھی آئی ہو اور ابھی چل دی۔ میں نے اس کے بھائی کو پہلی بار دیکھا تھا تصور میں تھا کہ وہ خوبرو تندرست نوجوان ہوگا جیسے وہ خود تھی ۔مگر وہ تو مریل سا تھا۔ بجھی بجھی رنگت سا لگتا تھا بیمار ہے۔ بھائی کو دیکھ کر مزید پریشان ہو گئی پکڑ کر اس کے کمرے میں لے گئی اور دروازہ بھیڑ دیا میں نے پوچھا کیا طبیعت ناساز ہے؟ بولی ہاں ہے تو۔ خیر تم بیٹھو وہ سو گیا اب صبح ہی اٹھے گا۔ پوچھنے لگی آپ کے محلے والے کیسے ہیں؟ کہیں باتیں بنانے والے لوگ تو نہیں ہیں؟
محلے والے اچھے ہیں۔ آپ کسی کو جانتی نہیں ہو رقیہ آپا اس لیے گھبرا رہی ہو گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ بس ویسے ہی پوچھ لیا۔ اس نے بات گھما دی۔ وہ اپنے ذاتی حالات بتانے لگی۔ وہ ہماری دل جوئی چاہتی تھی۔ زیادہ تر اپنے شوہر کے بارے میں پریشان رہتی تھی۔ بہت سی پریشانیاں شریک زندگی کی غیر حاضری سے اس کو درپیش تھی۔ مثلا سودا سلف لانے سے لے کر ڈاکٹر کے پاس جانے تک گھریلو اشیاء کی درستی خرید و فروخت اور کیبل لگوانے کے معاملات گھر میں کسی مرد کا تعاون درکار تھا۔ امی نے سودا سلف منگوانے کا ذمہ اپنے سر لے لیا۔ چھوٹے موٹے مسئلے میرے بھائی حل کرا دیتے تھے۔ تاکہ اتنی اچھی اور امن پسند کرائے دار سکون سے رہتی رہے۔
ہمارے صحن کی دیوار میں ایک کھڑکی تھی جو اس کے صحن میں کھلتی تھی۔ امی نے اس کھڑکی میں زنجیر ڈال رکھی تھی۔ مگر جب رقیہ کے پاس جانا ہوتا وہ اس زنجیر کو کھول دیتی کہ باہر سے گھوم کر جانے سے بہتر تھا گھر کے اندر سے چلی جائیں۔ ایک دن جبکہ بھائی جان اپنے کام پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ رقیہ آگئی اور رونے لگی۔ امی نے پوچھا خیر تو ہے؟ اس نے بتایا کہ میرے بھائی کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ وہ کسی منشیات فروش کی دکان پر بیٹھا تھا۔ پولیس نے چھاپہ مارا۔ جتنے لوگ وہاں تھے۔ سبھی کو حوالات میں بند کر دیا۔ امی نے تسلی دی اور بھائی سے کہا: منور تھانے جا کر ان کے بھائی کے بارے میں پتہ کرو۔ تھانے دار تمہارا واقف کار ہے۔ ہو سکے تو ان کے بھائی کو چھڑا لو۔ بھائی اپنے دفتر جانے کی بجائے تھانے چلے گئے۔ کچھ بھاگ دوڑ اور کچھ دے دلا کر وہ بہرام کو چھڑا کر لے آئے۔ اب ہمیں پتہ چل گیا کہ رقیہ کو کوئی غم نہیں ہے۔ اپنے بھائی کے نشہ کرنے کی لت سے پریشان تھی۔ وہ مسلسل لاحق تھی یہ ایسا دکھ تھا جو وہ کسی سے بانٹ نہ سکتی تھی۔
ایک سال کے اندر اندر ہمیں اس کے کافی حالات معلوم ہو چکے تھے۔ دوسرے سال دسمبر کے مہینے اس کا شوہر آگیا۔ اس نے اپنے شوہرنذیر صاحب سے والد اور بھائی جان کو ملوایا۔ بظاہر وہ بھلا مانس لگا۔ وہ اپنے شوہر کی ہمیشہ تعریف ہی کیا کرتی تھی۔نذیر صاحب دو ماہ رہ کر امریکہ لوٹ گئے اور بیوی سے وعدہ کر گئے کہ جلد بلوا لوں گا۔ ایک سال اور بخیرت گزر گیا۔ اچانک ہی اس شخص نے رقیہ کو خرچہ بھجوانا بند کر دیا اور خطوط بھی آنے بند ہو گئے۔ وہ بہت زیادہ پریشان رہنے لگی ان دنوں اس کی حالت دیدنی تھی۔ ہمارے گھر آتی تو شوہر کا تذکرہ لبوں پر ہوتا امی کو اس کے حال پہ رحم آیا۔ ہمارے ماموں مدت سے امریکہ کے اسی شہر میں قیام پذیر تھے۔ جہاں نذیر صاحب رہتے تھے میری ماں نے اپنے بھائی کو فون کر کے رقیہ کا بتایا ہوا پتہ لکھوا کر کہا کہ یہاں سے ان صاحب کا حال احوال معلوم کر کے بتاؤ ہماری کرایہ دار بہت پریشان ہے۔
اسی دوران رقیہ پر ایک اور غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا اس کا بھائی نشہ کر کے رات کے وقت سڑک پر جا رہا تھا کہ ایک ٹرک نے اس کو کچل دیا۔ اس صدمے سے وہ نڈھال ہو گئی۔ بہت دنوں تک حواسوں میں نہ رہی۔ جیسا بھی تھا اس کا بھائی تھا۔ تنکے کا سہارا ہی صحیح تھا تو سہی۔ وہ بھائی جو اکلوتا تھا۔ اب اس دنیا میں نہ رہا تھا۔ ماموں جان نے اس کے خاوند کا پتہ کرایا اور امی سے کہا کہ اس خاتون کو کہو کہ اب نذیر صاحب کا خیال چھوڑ دے۔ یہ شخص پوری طرح مغربی معاشرے میں رنگ چکا ہے ہم گو مگو کی کیفیت میں تھے۔ اس کو کیوں کرآگاہ کریں۔ ابھی تو ایک بڑے صدمے سے نکلی نہ تھی اوپر سے شوہر کی ستم ظریفی کہیں جان سے نہ گزر جائے۔
جیسے دم کا بھروسہ نہیں ویسے ہی ادمی کا بھروسہ نہیں۔ صبح شام رقیہ جس کے گن گاتے تھکتی نہ تھی اج اس کی بے وفائی اٹھ اٹھ آنسو رلانے والی تھی۔ امی جان کسی موضوع وقت کے انتظار میں تھی کہ اچانک یہ واقعہ ہو گیا۔ ایک روز صبح سو کر اٹھی تو جی گھبرا رہا تھا کالج جانے کو دل نہ کیا تو میں نے چھٹی کر لی لیکن گھر میں بوریت کاٹنے لگی تبھی سوچا رقیہ کے پاس چلی جاتی ہوں۔ وہاں پہنچی تو اس کے کچن سے چائے کی مہک نے استقبال کیا۔ بوجھل طبیعت ہلکی ہو گئی رقیہ نے کہا تم بیٹھو ٹی وی دیکھو میں چائے لاتی ہوں۔ ذرا دیر بعد انہوں نے چائے لا کر میرے سامنے رکھ دی۔ ایک گھونٹ لیا طبیعت خوش ہو گئی۔
جب وہ برتن اٹھا رہی تھی کہ دروازے پر کسی نے دستک دی ایک رجسٹری بیرون ملک سے آئی تھی۔ دوڑی ہوئی گئیں۔ جیسے اسی نعمت کا انتظار ہو۔ لفافے پر شوہر کی تحریر دیکھ کر آنکھوں میں چمک آگئی۔ مجھ کو تھما کر کہا کھولو تو دیکھیں اس میں کیا ہے؟ میں نے اندیشے بھرے انداز سے کھولا اور جب کاغذات پر نظر گئی میرے ہاتھ ہی نہیں دل بھی کانپ گیا۔ یا اللہ اب کیا ہوگا۔ شکر ہے اس وقت میں وہاں تھی ورنہ شاید وہ تحریر پڑھ کر فرش پر گر پڑتی۔ میں نے اس کو سنبھالا بیڈ پر بٹھایا اور گلے سے لگایا۔ وہ چیخیں مار رہی تھی اور میں دلاسے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہی تھی لیکن الفاظ مجھے مل نہ پا رہے تھے۔ یہ تو ہونا ہی تھا جس بات کو بتانے کا حوصلہ ہمیں نہ ہو رہا تھا قدرت نے خود بخود یہ مشکل حل کر دی تھی مگر وہ بار بار ایک لفظ دہراتی تھی۔ کیوں؟ اخر کیوں دی ہے اس نے مجھے طلاق؟ اور اس کیوں کا جواب تو میں جانتی تھی۔ امریکہ والے ماموں فون کر کے امی کو بتا چکے تھے کہ نذیر نے یہاں ایک امریکن لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ اب وہ دو بیویاں نہیں رکھ سکتے۔ اس واقعے کے بعد رقیہ کی حالت اتنی خستہ ہو گئی کہ امی جان اس کو اپنے گھر لے آئیں۔
ہمارے گھر بھی اس کی حالت نہ سنبھلی۔ وہ بیمار ہو گئی۔ بھائی کی موت کا صدمہ اس پر قیامت ٹوٹی تھی۔ اب اس کا کوئی نہ رہا تھا۔ بھرے جہاں میں اکیلی تھی۔ وہ درو دیوار سے باتیں کرنے لگی تھی۔ خود بخود بولنے لگتی۔ جیسے اپنے اپ سے باتیں کر رہی ہو تین ماہ ہمارے ساتھ رہیں۔ مگر یوں جیسے مردہ تن جی رہی ہو۔ زبردستی کھانا کھلاتے۔ دو چار لقمے کھاتی۔ نہانے، دھونے ،بال سنوارنے تک کا ہوش نہ رہا تھا۔ جس کا سبھی کچھ لٹ جائے وہ کیوں کر خوش رہ سکتا ہے۔
امی نے والد صاحب سے مشورہ کر کے رقیہ کا مختصر سامان ہمارے والے پورشن میں ایک کمرے میں سیٹ کروا دیا۔ جو کمرہ کبھی دادی جان کی زیر استعمال تھا۔اس طرح رقیہ کو ماہانہ کرایا ادا نہ کرنا پڑتا۔ والد صاحب نے دوسرا پورشن پھر کرائے پہ چڑھا دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ رقیہ کا کیا ہوگا؟ کہاں جائے گی اور کب تک ہمارے پاس رہ سکے گی؟ ہم بھی ہمیشہ کے لیے اس کو نہ رکھ سکتے تھے۔ انسانی ہمدردی کے تحت کچھ عرصے تک پناہ دی جا سکتی تھی۔
بھائی جان کی شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی شادی میں میری بڑی بہن اور ان کے بچےآئے خوب رونق رہی اور گھر میں ڈھولک بجی، ہنسی مذاق چلتا مگر رقیہ شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹا کر خاموشی سے اپنے کمرے میں جا لیٹتی۔ اس نے ہمارے گھر کی شادی میں دلچسپی نہ لی۔ شادی کے گھر میں کام بہت ہوتا ہے رقیہ نے کافی کام سمیٹا تبھی تھکن سے بخار ہو گیا۔ اپنے کمرے سے نہ نکلی۔ امی جان گئی دیکھوں تو کیا ہوا ہے؟ وہ بخار میں بری طرح پھنک رہی تھی۔ والدہ نے بھائی جان کو کہا بیٹے اپنی گاڑی میں اس غریب کو لے جا کر ڈاکٹر کو دکھا دو بہت تیز بخار ہے۔ بھائی نے گاڑی نکالی اور اسی وقت رقیہ کو قریبی ہسپتال لے گئے۔ اس گھڑی ان کی دلہن اپنے کمرے میں سو رہی تھی۔
رقیہ کو بھائی کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھے دیکھ کر محلے والے چہ مگیویاں کرنے لگے کہ ایک دن شادی کو ہوا ہے۔ دلہن کی بجائے کرایہ دارنی کو لیے گھوم رہا ہے ایک دو عورتوں نے جو دلہن کو دیکھنے آئی تھی اس بات کا تذکرہ امی سے کیا دلہن کی کزنیں بیٹھی تھیں بات انہوں نے سنی۔ امی گھبرائیں۔ کہیں یہ بچیاں بات کا بتنگڑنا بنا دیں۔ وہی ہوا بھائی جان کے سسرال والے غلط فہمی کا شکار ہو گئے۔ دلہن کے ماں باپ نے آکر کہا آخر یہ کون ہے؟ کیا لگتی ہے آپ لوگوں کی؟ اور کیوں گھر میں رہ رہی ہے؟ امی نے بات بنائی۔ سابقہ کرائے دار ہے امریکہ جانے والی ہے تبھی گھر خالی کر دیا ہے۔ منہ بولی بیٹی بنی ہوئی ہے۔ شادی کے بہت کام تھے ہاتھ بٹانے کو پاس ٹھہرا لیا ہے۔ آج کل میں جانے والی ہے۔ بھائی کی ساس نے صاف کہہ دیا کہ اس کا کوئی اور ٹھکانہ کر دو ورنہ میں اپنی بیٹی کو لے کر چلی جاؤں گی۔ لوگ باتیں یوں ہی نہیں بنا رہے۔
میری بڑی بہن آپا فاطمہ نے سنا تو کہا کہ رقیہ میرے ساتھ جائے گی اور میں اس کو فیصل آباد لے جاؤں گی۔ میرے ساتھ رہے گی۔ بچے تنگ کرتے ہیں بچوں کا دل لگا رہے گا یہ بھی بہل جائے گی۔ آخر کار آپا فاطمہ رقیہ کو ساتھ لے گئی۔ معاملہ رفع دفع ہو گیا اور ہماری بھابی مطمئن ہو گئی۔ امی نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ شادی کے ایک سال بعد وہ دن آیا کہ بھابھی جان کے یہاں بچے کی پیدائش متوقع ہو گئی۔ ان کی والدہ آ کر بھابھی کو لے گئی کہ پہلے بچے کی ولادت ہمارے یہاں ہوگی۔ خدا کی کرنی بچے کی پیدائش کے دوران بھابی کا بلڈ پریشر اتنا بلند ہوا کہ کنٹرول نہ ہو سکا ان کی وفات ہو گئی۔ مگر نوزائدہ بچے کو بچا لیا گیا۔ امی پر کڑی آزمائش کا وقت آ پڑا۔ چھوٹے سے بچے کو سنبھالنا ان کے بس کا روگ نہ تھا۔ ہم دونوں بہنیں کالج جاتی تھیں بہت بڑا مسئلہ ہو گیا اور بھائی کی خوشیوں پر دلہن کی وفات نے جھاڑو پھیر دی۔
امی نے فاطمہ آپی کو فون کر کے پوچھا اب کیا کروں؟ پوتا مجھ سے سنبھلنا مشکل ہے۔ میرا بیٹا الگ پریشان ہے۔ وہ فورا فیصل آباد سے آگئی ساتھ رقیہ بھی کو بھی لیتے آئی۔ رقیہ نے بچے کو گود میں اٹھا لیا اس کی گود میں ذرا دیر بعد سکون سے سو گیا۔ بچے کو سنبھالنا رقیہ کی ذمہ داری ہو گئی اور وہ جان فشانی سے اس کی دیکھ بھال میں لگ گئی۔ جیسے اللہ نے اس کو ایک سکون بخش مصروفیت عطا کرتی ہو۔ وہ ننھا وجود جو تمام وقت روتا بلکتا تھا رقیہ کے ہاتھوں کے لمس سے آسودہ حال ہو جاتا تھا۔ آپا نے امی کو مشورہ دیا کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنے بیٹے اور رقیہ دونوں کو ٹٹولنا اگر ان کے نکاح کی گنجائش نکل آئے تو ہمارے بھائی کا گھر آباد ہو جائے گا اور رقیہ کو بھی ٹھکانہ میسر آ جائے گا۔ اس کا اب کوئی نہیں ہے اور اچھی عورت ہے۔ امی نے اس بات کو گرہ میں باندھ لیا۔ رقیہ کو آپی کے ہمراہ جانے نہ دیا اور ننھا پوتا اس کے سپرد کر دیا۔
جب امی نے بیٹے سے ساتھ نکاح کی بات کی تو بھائی جان راضی ہو گئے اور بچے کی محبت نے رقیہ کو بھی زنجیر پہنا دی۔ وہ اس کر چھوڑ کر کہیں جانے کے تصور سے ہی اداس ہو جاتی تھی۔ رقیہ نے بھائی جان کا بھی خیال رکھا ان کے کپڑے استری کرنا اور دفتر کے لیے لنچ وغیرہ تیار کر کے دینا۔ بالاخر وہ اس خاموش خدمت گار کا احساس کرنے لگے۔ والد صاحب کو بھی خیال آیا اس بے سہارا کو بھی سہارا چاہیے۔ یوں انہوں نے اس کو بہو بنا لیا۔ رقیہ ہماری بھابھی اور بھائی جان کی شریک حیات بن گئی۔ اس میں رقیہ کی اپنی کوشش ہرگز شامل نہ تھی پھر بھی محلے والے باتیں بنانے لگے دیکھا ہم نا کہتے تھے یو ہی نہیں رہ رہی تھی۔ اندر خانہ کوئی سٹوری چل رہی تھی۔ دلہن کے مرتے ہی اس کو دلہن بنا لیا پہلے ہی بنا لیتے۔
ہم نے پڑوسیوں محلے داروں حتی کہ قریبی رشتہ داروں کی بھی ایسی ویسی باتیں سنی لیکن پریشان نہ ہوئے۔ پریشانی کس بات کی۔ ہم گھر والوں کا ضمیر صاف تھا کوئی غلط بات اس سارے فسانے میں تھی بھی نہیں۔ یہی کہنا چاہیے کہ یہ رب کی مرضی تھی ایسا ہونا تھا تو ہوا۔ ہماری نیت کل بھی صاف تھی اور اج بھی صاف ہے اگرچہ اس واقعے کو 25 برس سے اوپر ہونے والے ہیں رقیہ ہماری پیاری بھابھی ہیں اور ہمیں اس سے کوئی شکایت نہیں یہ اس کا نصیب تھا جو اسے ہمارے پاس کھینچ لایا تھا