بیٹی کا سودا

Urdu Font Stories 27

جب میری ماں کی دوسری شادی ہو رہی تھی میں بہت روئی تھی۔ گرچہ ، اس وقت میں چھوٹی سی تھی لیکن مجھے یاد تھا کہ میرے سگے والد کے ساتھ کیا ہوا تھا۔  ایک روز وہ اپنی زمینوں پر گئے تو کسی دشمن نے ان کو گولی مار دی اور وہ موقع پر ختم ہو گئے۔ میری ماں کا راج کٹ گیا اور میں یتیم ہو گئی۔ باپ زندہ ہو تو سبھی اس کی اولاد کا چاؤ کرتے ہیں، اب خاندان والے چاہ کیا کرتے وہ مجھے منحوس کہتے ، پانچ برس کی عمر میں زمانے کی ٹھوکروں میں آگئی۔

 سچ ہے یتیم کا اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ علی پور میں میرے باپ کی زمینیں تھیں مگر ان کے بعد سوتیلے چچا نے زمین پر قبضہ کر لیا۔ وہ اور ان کے سپوت ہمارے خون کے پیاسے ہو گئے۔ جب ان لوگوں نے جینا دو بھر کر دیا تو خالہ نے ماں کی دوسری شادی اپنے دیور اللہ بخش کے ساتھ کرادی تاکہ گائوں والے ہم کو سکون سے رہنے دیں۔ جب میں نے پانچ جماعتیں پڑھ لیں تو ماں نے مزید پڑھانے کی بجائے مجھ کو گھر کے کاموں میں لگا دیا گیا۔ بد قسمتی سے جس شخص کے ساتھ ماں کی دوسری شادی ہوئی، وہ مستقل مزاج نہ تھا۔ کبھی کماتا اور کبھی دنوں بیکار گھر میں بیٹھ رہتا۔ اس طرح گزارہ مشکل ہو گیا اور گھر کا سکون بھی مالی پریشانی کے سبب جاتارہا۔ 

روز کے فاقوں سے تنگ آکر ماں، مجھے لے کر ماموں کے پاس ان کے گاؤں چلی گئیں۔ ان دنوں ان کی دوسری بیٹی جس کا نام تو صاحب بی بی تھا، ماں پیار سے صبا بلاتی تھی، اسے بخشو ابا کے پاس ہی چھوڑ دیا کیونکہ یہ میرے سوتیلے ابا کی بیٹی تھی۔ ماموں کے گھر ہم کو کسی نے بے سکون نہیں کیا۔ دو وقت کی روٹی بھی مل جاتی تھی لیکن صبا بہت یاد آتی تھی۔ بخشو ابا کے گھر, میں ہی اس کو سنبھالتی تھی۔ صبا نے ابا کو بہت تنگ کیا اور رو رو کر بیمار پڑ گئی، تبھی ابا نے ہم کو ڈھونڈنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بالآخر ہمارا سراغ پالیا۔ 

 ابا نے میری امی سے بہت معافیاں مانگیں اور وعدہ کیا کہ اب وہ ضرور کوئی نہ کوئی کام کریں گے اور گھر میں بیکار نہیں بیٹھیں گے۔ ابا بخشو کوئی کام نہ جانتے تھے پڑھے لکھے بھی نہ تھے ، مجبوراً انہوں نے تانگہ چلانا شروع کر دیا اور میں ایک تانگے والے کی بیٹی کہلانے لگی حالانکہ میرے حقیقی والد زمیندار تھے اور میری ماں نے ان کے گھر زمینداری کا عیش دیکھا تھا لیکن اب تو ہمارے بُرے دن آچکے تھے۔ ایک دن صبا بہت رور ہی تھی۔ امی جان نے مجھے کہا۔ زارا ! تم ذرا اسے چپ کروا دو۔ میں نے بہلایا ٹہلایا، جھولایا مگر وہ کسی طرح چپ نہ ہوئی۔ میں بھی بچی تھی، اسے چارپائی پر پٹک دیا۔ اُن دنوں میری عمر گیارہ برس تھی۔ آج کل اتنی عمر کی لڑکیاں باشعور ہوتی ہیں لیکن ہمارے زمانے میں بچے سادہ و معصوم ہوتے تھے۔ مجھے بھی اتنی سمجھ نہ تھی۔ ماں نے بُرا بھلا کہا اور دوبارہ حکم دیا کہ منی کو اٹھائو اور چپ کرائو لیکن میں نے ان کے حکم کی تعمیل نہ کی ، اس پر ماں مجھے بد دعائیں دینے لگیں اور گھر سے باہر دھکا دے کر دروازہ بند کر دیا۔ شام ہو رہی تھی۔ امی کو اتنا غصہ تھا کہ انہوں نے دروازہ نہ کھولا۔ 

مجھ کو کتوں سے ڈر لگتا تھا۔ بہت دستک دی مگر امی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے یقین کر لیا کہ اب ساری رات باہر ہی گزارنی ہے۔ یہ سوچ کر بخشو ابا کے تانگے ہی میں چھپ گئی اور روتے روتے سو گئی۔ جہاں ہم رہتے تھے اس گلی کے بہت سے لڑکے ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے۔ شام کو جب وہ ٹیوشن پڑھ کر گھر وں کو لوٹے انہوں نے دیکھا کہ ایک بچی تانگے میں سورہی ہے اور اس کے رخساروں پر آنسوئوں کی لکیریں پڑی ہوئی ہیں۔ ان میں ایک لڑکا حمزہ تھا۔ وہ ایک بڑے زمیندار کا بیٹا اور امیر خاندان سے تھا۔ حمزہ نے جب مجھے بے خودی کے عالم میں تانگے میں پڑا دیکھا تو اسے ترس آیا۔ اس نے مجھے جگایا اور کہنے لگا۔ زارا اٹھو، گھر جائو ، شاید تم کھیلتے کھیلتے تانگے میں سو گئی تھیں۔ میں اُٹھ نہیں رہی تھی۔ اٹھو بھی زارا ! اس نے مجھ کو جھنجھوڑا۔ رات کا وقت ہے۔ تمہارے ماں باپ پریشان ہوں گے۔ میں جاگی تو یاد آیا ماں نے دھکا دے کر مجھے گھر سے نکالا تھا تبھی پریشان ہو گئی اور رونے لگی۔ 

حمزہ نے پوچھا۔ کیا تمہاری ماں نے مارا ہے ؟ اچھا آؤ، میرے گھر چلو، میری ماں تمہیں گھر میں چھوڑ آئیں گی۔ میں اپنے گھر جانے کی بجائے اُس کے ساتھ چلی گئی جہاں حمزہ کی ماں اور بہنوں نے دیکھتے ہی کہا۔ ارے یہ تو بخشو تانگے والے کی بیٹی ہے ، بچارے غریب لوگ ہیں۔ جانے ، کہاں سے یہ خانہ بدوشوں کی طرح آگئے ہیں اور کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرا نازک سا دل تو پہلے ہی زخمی تھا، یہ الفاظ سنتے ہی چھلنی ہو گیا۔ وہ مجھ سے طرح طرح کے سوالات کرنے لگے۔ میں نے اپنی سمجھ کے مطابق جواب دیئے تو ان کے دلوں پر میری مظلومیت کا بہت اثر ہوا۔ حمزہ اور اس کی ماں میرے ساتھ گھر آئے اور امی کے حوالے کیا۔ حمزہ کی ماں نے امی کو ہدایت بھی کی کہ آئندہ اس بچی کو مارنا اور نہ ہی شام کے وقت گھر سے نکالنا۔ لڑکی ذات ہے۔ اس طرح بچیاں بُرے حادثے کا شکار بھی ہو سکتی ہیں لیکن میری ماں کو کب اتنی سمجھ تھی۔ وہ پڑھی لکھی تو تھیں نہیں ، حالات کی چکی کا ایندھن بنی ہوئی تھیں لہٰذا اپنی بیٹیوں سے بھی تنگ تھیں۔ 

ان دنوں ماں بہت چڑچڑی ہو گئی تھیں اور میں ان کے سلوک سے دُکھی رہتی تھی۔ اب مجھے ایک پل گھر میں چین نہ تھا، اکیلے میں گھبراتی، جب ماں سبزی توڑنے کھیتوں میں جاتی اور ابا تانگہ لے کر نکل جاتے تو میں صبا کو لے کر حمزہ کے گھر آجاتی۔ حمزہ کی بہنیں آمنہ اور آئمہ میرا بہت خیال رکھتی تھیں اور حمزہ تو اس قدر پیار سے پیش آتا کہ میں خود کو کوئی شے سمجھنے لگی تھی۔ ان لوگوں کے گھر میں نہ صرف مجھے سکون ملتا بلکہ میری صحت بھی اچھی ہو گئی۔ مالکہ جان جو حمزہ کی آمی تھیں، میرا بہت ساتھ دیتی تھیں۔ مجھے کھانا کھلاتیں اور منی کو نہلا کے کپڑے بدلواتیں، اُسے دُودھ دیتیں اور چار پائی سے جھولنا باندھ کر سلادیتیں۔ انہوں نے مجھے گھر کا کام سلیقے سے کرنا اور کڑھائی سلائی سکھائی۔ 

میں ان کے ساتھ رہ کر بہت خوش تھی۔ میری زندگی ہی بدل گئی تھی۔ پہلی بار احساس ہوا کہ کوئی مجھے چاہتا ہے لیکن ہمیشہ کی طرح خوشیاں پھر مجھے دھوکا دے گئیں۔ ماں کو جب پتا چلا کہ یہ لوگ میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور میں ان کی محبت میں کھو گئی ہوں تو وہ مجھے لے کر ماموں کے گاؤں سے جہاں ہم اب رہ رہے تھے،ابا بخشو والے شہر یعنی اپنے سسرالی گھر کو لوٹ آئیں۔ یہاں واپس آنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ مجھے منع کرتی تھیں کہ میں حمزہ کے گھر نہ جایا کروں، ان کے گھر کا کھانا بھی نہ کھایا کروں بلکہ اپنے گھر رہا کروں مگر میں نہ مانتی تھی کیونکہ اکیلے گھر میں رہنے کی وجہ سے میرا جی گھبراتا تھا۔ اماں جونہی گھر سے نکلتیں میں حمزہ کے یہاں چلی جاتی اور ان کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے لوٹ آتی۔ ابا مجھ کو منع نہیں کرتے تھے۔ کہتے ، ٹھیک ہے ان کے گھر جایا کرو، اکیلے رہنے سے انسانوں میں رہنا بہتر ہوتا ہے۔ اماں کا خیال تھا کہ یہ لوگ مجھے بہکا دیں گے تو میں کہیں کی نہ رہوں گی۔ وہ ان لوگوں کے احسان تلے دب کر جینا بھی پسند نہ کرتی تھیں۔ محنت مزدوری بھی اسی لئے کرتی تھیں کہ محنت مزدوری کرنا ان کی مجبوری تھی، ابا اتنا نہیں کماتے تھے کہ گزارہ صحیح طرح سے ہوتا۔

 جب میں امی کے ساتھ ابا بخشو کے آبائی گھر آگئی تو میرا برا حال ہوا۔ حمزہ اور اس کے گھر والوں کو یاد کرتی اور چھپ چھپ کر روتی۔ ایسے ہی دو سال گزر گئے لیکن ان لوگوں کی یاد میرے دل سے نہ نکل سکی۔ ماں میرے حال سے غافل نہ تھیں تاہم انہوں نے میری اُداسی کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔ ان کو تو اپنے کام کاج اور میری پرورش کی فکر تھی۔ میرا ہی ایسا حال نہ تھا حمزہ بھی میری خاطر پریشان تھا۔ وہ اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ اپنی پڑھائی چھوڑ دی جبکہ اس کے والد اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ جب باپ نے دیکھا، بیٹا پڑھائی سے غفلت برت رہا ہے تو ایک بڑے شہر پڑھنے بھیج دیا اور وہاں ہاسٹل میں داخل کرا دیا۔ حمزہ کا دل وہاں بھی نہ لگا۔ وہ ان دنوں ایف ایس سی کر رہا تھا۔ ایک دن وہ اُس شہر آگیا جہاں ہم رہتے تھے۔ یہاں اس نے ایک اسٹور پر ملازمت کر لی۔ یہ خبر ابا نے مجھے دی اس وقت امی گھر پر موجود نہ تھیں۔ میں بہت خوش ہوئی اور کچھ نہ کچھ خریدنے کے بہانے اسٹور پر جانے لگی۔ ابا بھی اسٹور پر جاتے تھے ، حمزہ ان سے اچھی طرح ملتا تھا اور اپنی طرف سے کچھ اشیا اور راشن وغیر ہ دے دیا کرتا تھا۔ رقم بھی ان چیزوں کی اسٹور کے مالک کو خود ادا کر دیتا۔ 

ابا بخشو کی آمدنی کم تھی، چوری چھپے نشہ بھی کرنے لگے تھے۔ ان کو اور کیا چاہئے تھا۔ وہ میرے اسٹور پر جانے پر بالکل بھی معترض نہ تھے بلکہ اماں کو بھی نہ بتاتے کہ میں حمزہ سے ملتی ہوں اور باتیں کرتی ہوں۔ یہ بات کب تک چھپ سکتی تھی ؟ ماں کو پتا چلا تو انہوں نے طوفان اٹھا دیا۔ اسٹور کے مالک سے جا کر شکوہ کیا۔ اس نے حمزہ کو سمجھا بجھا کر اس کے گھر بھجوا دیا۔ وہ جب گھر گیا تو خوفزدہ اور غم زدہ تھا۔ بیٹے کو غم زدہ دیکھ باپ نے بجائے ڈانٹ ڈپٹ کے اس کی دلجوئی کی اور شرط رکھی کہ اگر وہ دل لگا کر پڑھے گا تو وہ اس کے لئے میرا رشتہ مانگ لیں گے۔ یہ بھی ان کی شرط تھی کہ وہ ایف ایس سی میں اچھے نمبر لائے گا۔ حمزہ نے وعدہ کر لیا جی لگا کر محنت کی اور میرٹ بنالیا۔ سچ کہتے ہیں کہ محبت میں بڑی طاقت ہے۔ اس نے اسی طاقت سے کام لیا اور شاندار رزلٹ دیا تو اس کے والد اپنی شرط اور وعدے سے مجبور ہو گئے اور وہ اپنی بیوی کے ہمراہ ہمارے گھر حمزہ کے لئے میرا رشتہ طلب کیا حالانکہ فی زمانہ ایسا نہیں ہوتا، لوگ مجھے تانگے والے کی لڑکی کہتے تھے جبکہ میرا حقیقی باپ تو زمیندار تھا لیکن قسمت نے مجھے بے آسرا اور یتیم کر دیا تھا۔ بہر حال وہ بڑے لوگ اور اچھے خاندان سے تھے ، جبکہ میں ایک تانگے والے کی بیٹی کہلاتی تھی۔ 

ماں کو تو اس رشتے پر خوش ہونا چاہئے تھا لیکن وہ میرے سوتیلے چچا کے رویئے اور ناانصافی سے ڈسی ہوئی تھیں۔ اُن کو زمیندار طبقے سے ہی خوف آتا تھا، لہذا خوش ہونے کی بجائے انہوں نے نفرت کا اظہار کیا اور حمزہ کے والدین کو رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ وہ لوگ افسردہ ہو کر چلے گئے ، میں بھی روتی سسکتی رہ گئی۔ جانے میری ماں کے جی میں کیا تھی۔ شاید وہ میری شادی اپنے بھائی کے بیٹے سے کرنے کی آرزومند تھیں، تاہم یہ لوگ شہر میں رہتے تھے اور ہمیں پوچھتے تک نہ تھے۔ کبھی کبھار میری ماں خود اپنے مغرور بھائی اور بھابھی سے ملنے چلی جاتی تھیں۔ حمزہ کے والدین تو اس انکار پر خاموش ہو بیٹھے مگر حمزہ کا چین قرار لٹ گیا۔ اس کی اب بھی یہی آرزو تھی کہ کسی طرح میں اُسے مل جائوں۔ ایک دن وہ مجھ سے ملا اور کہا کہ تمہاری ماں نے تو انکار کر دیا ہے۔ وہ کسی طرح مانتی نہیں، کیوں نہ تم میرے ساتھ میرے گھر آجائو ، وہاں ہم شادی کر لیں گے۔ یہ سُن کر میں خوفزدہ ہو گئی اور اُسے جواب دیا۔ 
حمزہ، بے شک میری ماں ظالم سہی، میں، مگر اپنے غریب والدین کے چہرے پر یہ کالک نہیں مل سکتی کہ گھر سے بھاگ جائوں۔ میں یہ کام نہیں کر سکتی تم مجھے بھول جائو۔ میں تمہارے ابا کو منالوں گا۔ اس نے کہا۔ ابا تو راضی ہے لیکن ماں بھی کوئی ہستی ہے۔ میں اُن کی بددعائیں نہ لوں گی اور تم جانتے ہو کہ یہ تانگے والا میرا سوتیلا باپ ہے ۔ میرے حقیقی والد تو فوت ہو چکے ہیں میں ان کی روح کو تکلیف نہیں دینا چاہتی۔ میں ایسا کہتے ہوئے بہت رور ہی تھی۔ اس نے بڑی منتیں کیں ،ایک دن وہ گاڑی لایا تھا جو سڑک کے پار کھڑی تھی۔ وہ مجھے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔