لیکن میں نے اس کے ساتھ بھاگنے سے انکار کر دیا، جس کے باعث وہ بہت غم زدہ ہوا۔ وہ تو یہی چاہتا تھا کہ یہ اچھے خاندان کی بیٹی ہے، اچھے خاندان میں آجائے مگر میری حمیت نے گھر سے بھاگنے کو گوارا نہ کیا۔ میں اپنے غریب ماں باپ کی عزت کی خاطر اپنی زندگی کو دائو پر لگا رہی تھی۔ وہ دور ہی ایسا تھا، جب لڑکی اور لڑکا خاموشی سے اپنے بزرگوں کے فیصلوں کے سامنے سر جھکا دیتے تھے اور ان کو اتنا بھی اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ ان فیصلوں کے خلاف احتجاج کر سکیں۔ حمزہ چلا گیا اور میرا سکون بھی ساتھ لے گیا۔ اب مجھے کسی پل قرار نہ تھا۔
روتی تھی مگر ماں کو پتا نہ چلے میں روئی ہوں۔ اُن دنوں اپنے جینے مرنے کا ہوش نہیں تھا۔ تبھی ایک دن ابا نے کہا۔ زارا تم بہت اداس رہتی ہو۔ ذرا نہا دھو کر تیار ہو جائو تو میں تم کو تمہارے ماموں کے گائوں سیر کرانے لے چلوں۔ وہاں تمہاری خالہ رہتی ہیں ، ان کی بچیوں سے ملو گی ، ماموں کے گھر جائو گی تو خوش ہو جائو گی۔ اماں وہاں جانے سے منع کر دیں گی۔ میں نے جواب دیا۔ تم ان کو وہاں کا مت بتانا۔ قریب کے گائوں میری بہن بھی تو رہتی ہے ، اس کی بیٹی کی شادی ہے۔ میں کہوں گا تم کو وہاں لئے جارہا ہوں تو وہ منع نہیں کرے گی بلکہ ان کو کچھ بتانا ہی نہیں ہے۔ واپس آکر بتا دیں گے۔ وہ کھیتوں میں کام کر رہی ہے ابھی نکل چلو۔ شام سے پہلے ہم لوٹ آئیں گے۔
میں بھی اُداسی سے تنگ اور اپنے ماحول سے خفا تھی۔ ماں تو ان دنوں مجھے اپنی دُشمن نظر آتی تھی۔ میں ابا کی باتوں میں آگئی اور ماں کے جانے کے بعد منی کو پڑوسن کو تھما کر ابا کے ہمراہ تانگے پر بیٹھ کر سیر کو چل دی۔ ابا مجھے شادی میں لے جانے کے بجائے کہیں اور لے گیا۔ یہ ایک گائوں تھا۔ بڑا سا پختہ مکان تھا۔ ارد گرد آبادی تھی۔ کسی کھاتے پیتے شخص کا ڈیرہ تھا۔ اس کی بیوی اور تین بیٹیاں تھیں لیکن بیٹا نہیں تھا۔ وہ ہم لوگوں کو گھر میں لے گیا۔ اس کی بیوی نے اپنے شوہر کی ہدایت پر انہوں نے ہماری مہمان نوازی کی اور عمدہ کھانا کھلایا۔ ابا نے کہا تم تھوڑی دیر یہاں رہو ، میں ابھی آتا ہوں، پھر تمہارے ماموں کے گائوں چلیں گے۔ اس کے جانے کے بعد مجھے پتا چلا کہ ابا مجھے اس آدمی کے ہاتھ بیچ کر چلا گیا ہے تو مجھے یقین نہ آیا۔ اس گھر کی عورت بولی۔ میرا خاوند کہتا ہے کہ گھر میں کام کاج کے لئے خریدا ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ اس نے تم سے نکاح کرنے کے لئے تمہیں خریدا ہے کیونکہ میری تین بیٹیاں ہیں ، بیٹا نہیں ہے۔ اس کی بیوی نے سچ کہا تھا ۔ اس نے مجھ سے زبردستی نکاح کیا۔
میں بھی اب ماں کے پاس جانا نہیں چاہتی تھی کیونکہ اس کی ضد کی خاطر مجھے یہ دن دیکھنا پڑا تھا۔ جب مجھے پتا چلا کہ ابا مجھے بیچ کر چلا گیا ہے تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی مگر اب رونے دھونے چیخنے چلانے کا وقت گزر چکا تھا۔ جس شخص نے نکاح نامے پر میرے دستخط لئے اس نے بتایا کہ تمہارے والد پر بہت قرضہ چڑھ گیا تھا۔ قرض دار اس کو دھمکیاں دیتے تھے تبھی وہ تم کو بیچ گیا ہے۔ اب وہ تمہاری ماں کو جا کر یہی بتائے گا کہ تم کسی کے ساتھ چلی گئی ہو۔ تم کو اب یہیں رہنا ہے مگر میں اور میری بیوی تم کو عزت سے رکھیں گے بشر طیکہ تم جھگڑا نہ کرو اور ہمارے ساتھ صلح و سکون سے رہو۔ تم کو یہاں کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ اب میں جاتی تو کہاں ؟ میں تو ان لوگوں کی قید میں تھی۔ ان کے کسی حکم سے انحراف نہ کر سکتی تھی۔ جانے ابا نے میری ماں کو میرے بارے کیا کہا، جانے ماں پر کیا گزری، مجھے خبر نہ تھی، میں جانا نہ چاہتی تھی۔ ماں اور باپ اب میرے لئے بے معنی تھے۔ سوتن سمجھ دار تھی۔
وہ اپنے شوہر کی فرمانبردار تھی اور اس کی لڑکیاں بھی، انہوں نے مجھے پیار دیا، سوتن نے بڑی بہن کی طرح خیال رکھا۔ اس کی لڑکیاں میرے آرام کا خیال رکھتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں ہم کو تو بس بھائی چاہئے کیونکہ ہماری ماں کسی آپریشن کے سبب بچے کو جنم نہیں دے سکتی۔ ہم چاہتی ہیں کہ ہمارا کوئی بھائی اور وارث ہو۔ ابا نے ہی ایک دن حمزہ کو بتایا کہ میں کہاں ہوں۔ وہ بے چارا تو یہ سُن کر بوکھلا ہی گیا کہ میں ایک ادھیڑ عمر اور دل کے مریض شخص کی ملکیت ہو چکی ہوں۔ اُسے یقین نہ آتا تھا، وہ گائوں کے کچھ معزز لوگوں کو اکٹھا کر کے میرے خاوند کے ڈیرے پر آیا لیکن جب اُسے پتا چلا کہ میں اس کی منکوحہ ہو چکی ہوں تو وہ واپس چلا گیا۔ میں ادھر روتی اور پچھتاتی تھی۔ اے کاش ! حمزہ کے ساتھ ہی بھاگ کر اس کے گھر چلی جاتی تو میری اُس کے ساتھ شادی ہو جاتی، جس سوتیلے باپ کی لاج رکھی اس نے کیا کیا۔ حمزہ کی ڈیرے پر آمد کے بعد میرا شوہر بہت شکی مزاج ہو گیا۔ پہلی بیوی سے کہتا اس پر کڑی نظر رکھو مگر وہ عورت اعلی مزاج کی تھی۔ مجھے کچھ نہ کہتی۔ میرا جی گھبراتا تو محلے میں اپنے ملنے والوں کے گھروں میں بھی لے جاتی تاکہ میرا جی بہلا رہے۔ وہ کہتی، یہ بھی بیچاری انسان ہے، کسی کی بچی ہے ، اس پر ظلم کرنا ٹھیک نہیں۔ وہ شوہر کو سمجھاتی کہ یہ اچھی لڑکی ہے ، نیک دل ہے ، اس پر کبھی شک مت کرنا۔
ہمارے اس محلے میں حمزہ کی ایک کزن دلشاد بھی رہتی تھی۔ حمزہ نے اپنی داستان غم اُسے سُنائی، اس نے آکر مجھے بتایا کہ حمزہ تم سے ملنے آیا ہے۔ وہ بہانے سے مجھے اپنے گھر لے گئی۔ مجھے دیکھ کر وہ رو پڑا، میں بھی رونے لگی۔ جب میں نے بتایا کہ سوتیلے باپ نے مجھے بیچا ہے تو وہ یہ سُن کر پاگل سا ہو گیا اور اپنے بال نوچنے لگا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر مجھے یہاں سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا کہ تمہارے ساتھ زبردستی میں دھوکا ہوا ہے۔ یہ شادی درست نہیں۔ ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔ جب اُس نے یہ بات کہی تو میں گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ جب میری ماں کی دوسری شادی ہو رہی تھی اور میں اپنے حقیقی باپ کو یاد کر کے رورہی تھی۔ کس سوچ میں گم ہو گئی ہو ، جواب کیوں نہیں دیتیں؟ حمزہ نے مجھے جھنجھوڑا مگر میں خاموش تھی۔ میں امید سے تھی، اس کو کیسے کہہ دیتی کہ تمہارے ساتھ چلتی ہوں۔ میرے اور حمزہ کے بہت سے خواب تھے مگر اب کچھ اُمیدیں میں نے اپنے ہونے والے بچے سے وابستہ کر لی تھیں۔
حمزہ مجھ سے لاکھ محبت کرتا لیکن وہ کسی اور کے بچے سے تو وہ پیار نہیں کر سکتا تھاجو کوئی سگا باپ اپنے بچے سے کر سکتا ہے۔ تبھی میں نے یہ جانا کہ ایک شادی شدہ اور بچے والی عورت شوہر کے گھر سے بھاگے تو ساری زندگی، زمانہ اسے بھاگی ہوئی عورت ہی کہے گا اور یہ بات ان کی اولاد کے لئے ایک طعنہ بن جائے گی۔ اب جو کچھ خُدا نے مقدر میں لکھ دیا تھا، مجھے مل گیا تھا۔ یہی سوچ کر حمزہ سے کہا کہ مجھے عدالت تک مت لے جائو۔ میں اب تمہارے ساتھ جانے کے لائق نہیں ہوں۔ یہ سُن کر اس کے دل کو ٹھیس لگی اور وہ بددل ہو کر چلا گیا۔ اس کے والد نے سمجھا بجھا کر اُسے پڑھنے کے لئے لاہور بھجوا دیا۔ وقت گزرتا رہا، میں نے نئے حالات سے رفتہ رفتہ سمجھوتہ کر لیا کیونکہ اب ایک بچی کی ماں بن چکی تھی۔ میرے شوہر کی قسمت میں ابھی لڑکا نہیں تھا سو اس بار میرے بطن سے بھی لڑکی نے جنم لیا اس کی چار بیٹیاں ہو گئیں۔
ایسے ہی بہت سے برس بیت گئے۔ حمزہ نے پڑھائی مکمل کر لی اور اعلیٰ تعلیم کی خاطر بیرون ملک چلا گیا۔ حمزہ کے جانے کا مجھے دکھ تھا چونکہ اس کی کزن دلشاد، سے اس کے بارے خبریں ملتی رہتی تھیں۔ وقت گہرے سے گہرے زخم بھی مندمل کر دیتا ہے اور شادی شدہ عورت تو پھر گھرداری اور بچوں کی گہما گہمی میں سب کچھ بھول جاتی ہے۔ اُسے بس اتنا ہی یاد رہ جاتا ہے کہ اس کا حسرتوں بھرا دل کبھی کسی کو چاہتا تھا، کبھی کسی کے ساتھ گھر بسانے کے خواب دیکھے تھے۔ مرد مگر اپنی محبت کو شاید نہیں بھلا پاتے۔
اگر مرد کو کسی لڑکی کے ساتھ سچی محبت ہو جائے تو وہ خود مختار ہوتا ہے پھر شادی کرے یا نہ کرے حمزہ بھی شادی نہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی والدہ نے رورو کر اس کی شادی کروادی۔ اس کی بیوی حسین و جمیل تھی مگر میری یاد اور میرا ذکر اس کی شریک حیات کی رُوح کو جلا دیتی تھی۔ دونوں میاں بیوی میں نہ بن سکی اور ان کی طلاق ہو گئی۔ میری شادی کو پندرہ برس بیت چکے تھے۔ ایک دن اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کو لے کر شہر کے ایک ڈاکٹر کے پاس گئی۔ یہ نیا ڈاکٹر بیرون ملک سے پڑھ کر آیا تھا۔ ڈاکٹر کو دیکھا تو چونک گئی، گھبرا کر نقاب ڈال لیا۔ باری آنے پر بیٹی کو دکھایا۔ میری سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ وہ بھی میری آواز سُن کر گم صم تھا، میں ساری رات نہ سو سکی۔
اتنے سالوں بعد اسے دیکھا تو بیٹی کی بیماری بتانا ہی بھول گئی، اس نے اچھی طرح چیک اپ کیا۔ میر اخیال تھا وہ بھلا چکا ہے لیکن جونہی اٹھنے کو ہوئی اس کی آواز میرے کانوں میں پڑی اور قدم تھم گئے۔ اس نے کہا۔ زارا تم چاہے جتنے نقاب اوڑھ لو، میں تم کو پہچان لوں گا۔ پہچان کی خُوشبو کبھی نہیں مرتی، میں نے تمہاری موجودگی اسی وقت محسوس کر لی تھی۔ جب پہلے دن تم نے یہاں قدم رکھا تھا۔ اچانک جیسے وقت تھم گیا۔ چلتی ہوئی سوئیاں رُک گئیں۔ بس دونوں طرف خاموشی تھی۔ جانے کتنا وقت بیت گیا، پتا ہی نہیں چلا۔ مدتوں بعد دو بچھڑے ہوئے ملے تھے۔ آج بھی جیسے حمزہ کو میرا انتظار تھا۔ حمزہ کی شادی اس کے والد نے قسم دے کر کروائی تھی کیونکہ وہ بستر مرگ پر تھے۔ اس کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھے ۔ میری بھی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ اتنا وقت گزر جانے کے باوجود اس کے دل کے دروازے میرے لئے کھلے ہوئے تھے۔
میں خود بھی چلتے چلتے تھک چکی تھی۔ شوہر کا انتقال ہو گیا تھا۔ میں سسرالی رشتہ داروں کے رحم و کرم پر جی رہی تھی کہ میرے تین بچے تھے ، دکھوں کے بوجھ تلے دبی میں گیلی لکڑیوں کی طرح سلگ رہی تھی۔ اپنی بیوگی کو سنبھالے ہوئے بیٹیوں کی فکر سے گھلی جاتی تھی۔ میرے حالات جان کر آج پھر حمزہ نے کہا کہ تم کو میری ضرورت ہے اور اللہ تعالی نے مجھے اتنا دیا ہے کہ اگر تم چاہو تو میں تم کو اور تمہارے بچوں کو اپنا سکتا ہوں۔ میں نے جواب دیا۔ بچیاں ان کے چچا اور دادا مجھے نہیں دیں گے۔ میں کیسے اپنی بیٹیوں سے منہ موڑ سکتی ہوں ؟ ان کے سروں پر باپ کا سایہ نہیں ہے ،ماں بھی نہ رہے تو وہ کس حال میں جیئیں گی ؟ اب جہاں ہوں، وہیں ٹھیک ہوں۔ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہوں اور تمہارا گھر بسا ہوا ہے ، میں اس میں انتشار نہیں پھیلانا چاہتی۔
ایک بار میں نے حمزہ کی محبت کو ٹھکرایا، ماں باپ کی عزت کی خاطر ، دوسری مرتبہ اپنے شوہر کی عزت کی خاطر اور تیسری مرتبہ اپنی بیٹیوں کی خاطر جن کے مستقبل کو میں کسی حرکت یا اقدام سے طعنہ نہیں بنانا چاہتی تھی۔ میں اُلٹے قدموں وہاں سے پلٹ آئی۔ گھر آکر دل کھول کے روئی تھی۔ کاش! وہ مجھے زندگی کے اس موڑ پر دوبارہ نہ ملتا۔ حمزہ کے خیال میں ، میں بے وفا ہوں میں نے اس سے محبت ہی نہیں کی تھی۔ کیسے اسے بتاتی کہ ایک مشرقی عورت کی کیا مجبوریاں ہوتی ہیں۔ کبھی ماں باپ کے لئے ، کبھی شوہر اور اولاد کے لئے اسے سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ (ختم شد)