اک عاشق کی بدُعا

urdu font stories

میں نے میٹرک کا امتحان دیا ہی تھا کہ اچانک والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ کسی نے انہیں گولی مار دی تھی۔ ان دنوں میری عمر سولہ سال تھی اور بھائی کی عمر صرف دس برس تھی۔ ابو کی وفات کے بعد ہمارے اوپر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور مجھے اسکول چھوڑنا پڑا۔ گھر کا کوئی کفیل نہیں رہا، تو امی جان نے سلائی کا کام شروع کر دیا۔ میں نے کم عمری کے باوجود ان کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا، اور یوں آہستہ آہستہ میں نے بھی سلائی میں مہارت حاصل کر لی۔

پھر میں نے پرائیویٹ طور پر امتحان دیا اور میٹرک پاس کر لیا۔ تایا ابو کی سفارش سے مجھے ایک اسکول میں نوکری مل گئی، جہاں صرف بارہ سو روپے تنخواہ ملتی تھی۔ اس زمانے میں یہ تنخواہ بارہ ہزار کے برابر تھی۔ میرا بھائی چوتھی جماعت میں تھا، لیکن مالی حالات کی وجہ سے اسے بھی پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ تایا ابو کی ورکشاپ تھی، انہوں نے زاہد کو اپنی ورکشاپ میں کام سکھانے پر لگا دیا۔

تایا ابو کا بیٹا ساجد مجھ سے محبت کرتا تھا، لیکن میں سوچتی تھی کہ والد کی موت کے بعد ہمارے مالی حالات خراب ہو گئے ہیں، تو بھلا اب ساجد کو مجھ سے کیا لگاؤ ہوگا۔ پھر شادی تو برابری کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور غربت میں تایا ابو مجھے بہو بنانے سے رہے۔ایک دن میں اسکول سے گھر لوٹ رہی تھی تو ساجد مل گیا۔ وہ موٹر سائیکل پر تھا، اور کہنے لگا کہ چلو، میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ راستے میں ہم باتیں کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ ہمارے حالات بدل گئے ہیں، تو میں سوچتی تھی کہ تم مجھ سے ملنا چھوڑ دو گے۔ ساجد نے جواب دیا کہ ایسا تم نے کیسے سوچ لیا، دولت سے رشتے نہیں جڑتے، یہ دلوں اور محبت سے جڑتے ہیں۔ جیسے روح کے بغیر انسان کچھ نہیں ہوتا، ویسے ہی محبت کے بغیر زندگی بے کار ہے۔

جب میں گھر پہنچی تو ایک اجنبی نوجوان اور ایک بیمار لڑکی کو دیکھ کر حیران ہو گئی۔ امی نے مجھے بتایا کہ پریشان مت ہو، یہ اسد اور اس کی بیوی ہیں۔ پچھلے زلزلے میں ان کے والدین گم ہو گئے تھے، اور ان کا کوئی پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے۔ یہ دونوں تمہاری خالہ کے پڑوسی تھے، اور خالہ نے انہیں یہاں بھیجا ہے۔ میں نے ان کو پناہ دے دی ہے۔ میں نے کہا کہ لیکن امی، ہم خود بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ امی بولیں کہ بیٹی، مہمان اپنی قسمت ساتھ لاتے ہیں۔ امی کے سمجھانے پر میں نے اسد کو بھائی اور ان کی بیوی کو بھابھی مان لیا۔ اسد بھائی بھی زاہد کے ساتھ تایا ابو کی ورکشاپ میں کام پر جانے لگے، جس سے ہمارے حالات کچھ بہتر ہو گئے۔

دوسری طرف، ساجد دل لگا کر تعلیم مکمل کر رہا تھا تاکہ جلد از جلد مجھے بیاہ کر اپنے گھر لے جا سکے۔ آمنہ بھابھی کی صحت اب پہلے سے بہتر ہو چکی تھی۔ ایک دن میں اسکول سے واپس آئی تو بھابھی کی طبیعت بہت خراب تھی، اور امی کو انہیں اسپتال لے جانا پڑا۔ رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ وہ امید سے ہیں۔ ہم سب اس خوش خبری پر بہت خوش ہوئے، لیکن بھابھی رو رہی تھیں کیونکہ انہیں اپنے والدین اور سسرال والے (جو تایا اور تائی لگتے تھے) یاد آ رہے تھے۔ دن ہنسی خوشی گزرتے گئے۔ پھر وہ دن بھی آ گیا جب بھابھی کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ اب مجھے ایک ننھا بھتیجا مل گیا تھا، اور زاہد کو چپ کروانے والا بھی۔ امی جان نے پورے محلے میں مٹھائی تقسیم کی کہ اللہ تعالیٰ نے اسد بھائی کو چاند سا بیٹا دیا ہے۔ میں نے اس کا نام علی رکھا۔

جب علی ایک سال کا ہوا، تو ہم نے اس کی سالگرہ منائی۔ جب میں اسکول سے آتی تو وہ میری راہ تک رہا ہوتا۔ جب وہ تین برس کا ہوا تو ایک دن اچانک اس کا حقیقی ماموں ہمارے گھر آ گیا۔ میں اسکول سے واپس آئی تو ایک خوبصورت نوجوان کو علی کے ساتھ کھیلتے دیکھا۔ میں حیران ہوئی تو بھابھی نے کہا کہ فرح، یہ میرا بھائی یاسر ہے اور یہ لندن سے آیا ہے۔ واہ، ایسے بھی بھائی ہوتے ہیں جو سالوں تک بہنوں کی کوئی خبر نہیں لیتے۔ میری یہ بات سن کر یاسر چونک کر میری طرف دیکھنے لگا اور پھر بھابھی آمنہ سے پوچھا: کیا یہ اتنی بد مزاج ہیں؟ بھابھی کہنے لگیں: ہرگز نہیں، یہ بالکل بد مزاج نہیں ہیں، بس میرے دکھی دنوں کو یاد کر کے ایسا کہہ دیا ہے۔

پھر بھابھی نے کچھ سوٹ میرے سامنے رکھے اور کہا: فرح، ان میں سے جو پسند آئے، وہ لے لو، یہ یاسر تمہارے لیے لایا ہے۔ میں نے کہا: بھابھی، یہ تو آپ کے لیے ہیں، آپ ہی پہنیں، میں نہیں لوں گی۔

یاسر نے کہا: ارے بابا، لے لو۔ مجھے کیا خبر تھی کہ یہاں اور بھی لوگ ہیں، ورنہ سب کے لیے لے آتا۔ لیکن میں نے اس کی بات سنی اَن سنی کر دی۔

اگلے دن ساجد آیا اور میرے لیے عید کا تحفہ لایا۔ کہنے لگا: فرح، یہ جوڑا سلوالو، عید پر پہن لینا اور دعا کرو کہ یہ عید ہم اکٹھے ایک ہی گھر میں منائیں۔ میں اس کا مطلب سمجھ گئی اور مسکرا دی۔ جب میں نے پیکٹ کھولا تو اس میں سبز رنگ کی خوبصورت چوڑیاں تھیں۔

اسی دوران یاسر بھی وہاں آ گیا اور کہنے لگا: واہ، ہمارا تحفہ تو قبول نہیں کیا، جبکہ دوسروں کا لے رہی ہو۔ میں نے فوراً جواب دیا: یہ دوسرے نہیں، یہ تو ہمارے اپنے ہیں۔ میرا جواب سن کر یاسر خاموش ہو گیا۔

اس کے بعد یاسر نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیا، البتہ جب بھی کسی کام سے میں اس کے نزدیک سے گزرتی، تو اس کی نظریں میرا پیچھا کرتی رہتیں۔ میں سمجھ گئی تھی کہ وہ مجھے پسند کرنے لگا ہے۔ اگر ساجد میری زندگی میں نہ آیا ہوتا تو شاید میں یاسر کا ہاتھ تھام لیتی۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ ایک دن تایا اور تائی میری شادی کی تاریخ لینے آ گئے۔ امی نے خوشی خوشی تاریخ دے دی۔ جب یاسر کو اس بارے میں پتہ چلا تو اس کی حالت غیر ہو گئی۔ ایک دن موقع پا کر اُس نے مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کیا، مگر میں نے صاف کہہ دیا کہ ساجد میرا منگیتر ہے اور اب وہی میرا سب کچھ ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو دل و جان سے چاہتے ہیں۔

میرا جواب سن کر یاسر کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں نے کہا: روتے کیوں ہو؟ تمہیں کوئی اور مل جائے گی۔ وہ بولا: اور کوئی نہیں چاہوں گا، اگر تم مجھے نہ ملیں تو دعا کرتا رہوں گا۔ میں نے پوچھا: کیا دعا کرتے رہو گے؟ اُس نے جواب دیا: یہی کہ تم مجھے مل جاؤ، خدا کرے تمہاری شادی ساجد سے نہ ہو۔ اور اگر ہو بھی جائے تو تم اسے نہ ملو، مجھے مل جاؤ۔

میں نے کہا: کیسی عجیب و غریب دعا ہے تمہاری، جو سمجھ میں نہ آئے۔ کیا ایسی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں؟ یہ کہہ کر میں نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اس کے بعد پتہ نہیں کیا ہوا، بس اتنا معلوم ہے کہ یاسر بیمار رہنے لگا۔ اس کی صحت روز بروز گرتی جا رہی تھی۔ بھابھی کے اصرار پر وہ لاہور چیک اپ کرانے چلا گیا اور اِدھر میری شادی کی تاریخ نزدیک آ گئی۔

مجھے دیر سے اٹھنے کی عادت نہیں تھی، مگر اس روز امی بہت سویرے مجھے اٹھانے آ گئیں اور کہا: اٹھو، ہاتھ منہ دھولو، بیوٹی پارلر جانا ہے۔ تمہاری تائی اماں نے کہلوایا ہے۔ میں نے ہاتھ منہ دھویا، ناشتہ کیا اور پھر ساجد کی بہنیں مجھے لینے آگئیں۔ وہ مجھے اپنی گاڑی میں بیوٹی پارلر لے گئیں۔ تائی اماں نے خاص طور پر کہہ دیا تھا کہ چاہے جتنے پیسے خرچ ہوں، مگر میک اپ بہت اچھا ہونا چاہیے۔ میری بہو ایسی دلہن بنے کہ زمانہ دیکھے۔ میک اپ ہوا، عروسی جوڑا پہنا دیا گیا۔ سہیلیوں کا ہجوم تھا۔ مجھے مخصوص کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ سہیلیاں طرح طرح کے مذاق کر رہی تھیں۔ دو بج چکے تھے، بارات آنے والی تھی۔ ڈھولک کی تھاپ اور سہیلیوں کے گانے مجھے تصوراتی دنیا میں گم کر رہے تھے۔
دوپٹہ تو پہلے ہی چہرے پر تھا۔ آنکھیں بند کیے میں مستقبل کے خواب دیکھ رہی تھی۔ چار بج چکے تھے اور بارات کے آنے کا شدت سے انتظار تھا۔ گھر کا ہر فرد بے چین اور بے قرار تھا۔ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میرے بھائی زاہد نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف تایا ابو بول رہے تھے کہ دولہا کی گاڑی کا راستے میں ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ اسے فوراً اسپتال لے جایا گیا ہے۔ پل سے جب گاڑی موڑ کاٹ رہی تھی تو کسی نے پہلو سے ٹکر مار دی۔

یہ سن کر معلوم ہوا کہ ساجد کو اسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے اور شادی ملتوی ہو گئی ہے۔ میں جوں کی توں بیٹھی رہ گئی۔ اُدھر اسپتال میں جب ساجد کو ہوش آیا تو اُس نے اپنے والد کو بلایا۔ پہلا سوال یہی کیا کہ یہاں سے سسرال والوں کا گھر کتنی دور ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہی دو چار میل کے فاصلے پر ہے۔ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق ساجد کو تین دن بعد اسپتال سے فارغ ہونا تھا، مگر اُس کی ضد اور شوق کے سامنے کسی کی نہ چلی۔ وہ اسی وقت گاڑی میں بیٹھا اور زخمی حالت میں بارات کو لے کر آپہنچا۔

گھر میں مہمان جا رہے تھے، لیکن جب انہوں نے بارات کو دیکھا تو سب خوش ہو گئے۔ ہر طرف چہل پہل ہو گئی، خوشیاں لوٹ آئیں اور شادیانے بجنے لگے۔ نکاح کے بعد ساجد کو ایک کمرے میں لٹا دیا گیا۔ جب وہ بستر پر کروٹ بدلتا تو چوٹوں کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی تھی۔ شدید چوٹوں کے باعث اُس کے چہرے کا رنگ زرد تھا اور ماتھے پر کرب کے آثار نمایاں تھے۔ میں آدھے گھونگھٹ کے پیچھے سے اُسے دوسرے کمرے میں بیٹھ کر دیکھ رہی تھی اور بے حد غمگین تھی۔
وہ اپنی درد بھری آواز کو دبانے کی بہت کوشش کرتا تھا، لیکن درد کی شدت سے اس کی چیخ نکل جاتی تھی۔ میں عروسی جوڑے میں عجیب پریشانی کا سامنا کر رہی تھی کہ اچانک امی آئیں اور میرا بازو پکڑ کر آہستہ آہستہ ساجد کے کمرے میں لے گئیں۔ ساجد نے آہٹ سن کر کروٹ لی اور مخاطب ہوا: چچی جان، معذرت چاہتا ہوں کہ میری وجہ سے آپ لوگوں کو ناگہانی کرب کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تاخیر قدرت کی طرف سے تھی، میری طرف سے نہیں۔ فرح سے خاص طور پر معذرت خواہ ہوں کہ اسے بھی غم اور دکھ کا سامنا کرنا پڑا۔

امی ساجد کو دعائیں دیتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئیں۔ میں نے ساجد کو سہارا دیا تو وہ تکیے کے سہارے بیٹھ گیا اور سامنے میز پر رکھے بریف کیس کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے بریف کیس اٹھا کر اس کے سامنے رکھا۔ اُس نے سونے کی انگوٹھی نکالی اور میرا ہاتھ تھامتے ہوئے انگوٹھی میری انگلی میں پہنا دی۔ ساجد بہت دنوں سے جدائی محسوس کر رہا تھا اور اسی لمحے کا منتظر تھا کہ یہ جدائی کی گھڑیاں ختم ہوں اور ہم دونوں اکٹھے ہو جائیں۔

پھر اُس نے بے تکلفی سے میرا گھونگھٹ اٹھایا اور مجھے خود سے قریب کرنا چاہا، لیکن اسی لمحے وہ شدید کرب میں مبتلا ہو کر تڑپ اُٹھا اور اُسے قے شروع ہو گئی۔ میں گھبرا کر امی کو آواز دینے لگی، تبھی سب دوڑ کر آئے۔ تایا اور تائی بھی دیوانہ وار پہنچ گئے۔ فوراً اُسے اسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ بے ہوش تھا۔ اگلے دن ڈاکٹروں کی ہزار کوششوں کے باوجود اُسے بچایا نہ جا سکا اور وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ میں سکتے میں بیٹھی رہ گئی۔ جب مجھے ساجد کے انتقال کی خبر دی گئی، تو یاسر کی عجیب و غریب دعا یاد آ گئی۔ کبھی کبھی واقعی عجیب دعائیں بھی قبول ہو جاتی ہیں۔ یاسر نے جانے کس دل سے دعا کی تھی کہ وہ دعا قبول ہو گئی، گو کہ ادھوری۔ میری ساجد سے شادی ہو گئی، لیکن نہیں بھی ہوئی۔ میں اُس کی دلہن بن کر بھی اُس کی نہیں بن سکی۔ اُس کی ہو کر بھی اُس سے جدا ہو گئی۔ یہ کیسی شادی تھی اور یہ کیسی ادھوری دعا قبول ہوئی۔
آج معلوم نہیں کہ یاسر کس حال میں ہے، مگر جس حال میں بھی ہے، اگر کبھی مل گیا تو اُس سے ضرور پوچھوں گی کہ آخر تم نے ایسی دعا کیوں کی جس نے میری زندگی کو اجیرن کر دیا۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

  1. یہ تحریر بہت ہی شاندار ہے۔بہت عمدہ لکھا ہے۔اللہ پاک ایسے ہی عم
    دہ تحاریر لکھنے کی توفیق عطا کرے۔

    جواب دیںحذف کریں