جب امی نے بھائی جان کی شادی کا عندیہ دیا تو سب نے منع کیا کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے کی نہیں۔ خدارا سوچ سمجھ لیں، کیوں ایسی آرام طلب بہو گھر لانا چاہتی ہیں جو آپ کو ناکوں چنے چبوا دے گی۔ میری ماں نے خاندان والوں کی باتوں پر کان نہ دھرے کیونکہ انہیں بیٹے کی خوشی عزیز تھی۔بات دراصل یہ تھی کہ ہمارے بھائی جنید کو زریں پسند آگئی تھی، جسے انہوں نے ایک بار کسی شادی میں دیکھا تھا۔ وہ امی کی دور کی ایک کزن کی بیٹی تھی اور اس شادی میں یہ لوگ بھی مدعو تھے۔ کافی عرصے سے امی، بیٹے کے پیچھے پڑی ہوئی تھیں کہ تمہاری عمر پینتھ سال ہو گئی ہے، شادی کر لو، کیا بوڑھے ہو کر کرو گے؟ جب کوئی لڑکی پسند آئے گی، کر لوں گا۔ ان کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا تھا۔
والدہ جنید کے لئے عرصہ سے تندہی سے لڑکیاں دیکھ رہی تھیں، خاندان اور خاندان سے باہر، لیکن میرے بھائی کو کوئی لڑکی پسند نہ آتی تھی۔ پسند آئی بھی تو کون؟ زریں، جس کے بارے میں تمام خاندان میں مشہور تھا کہ اتنی سست اور کاہل ہے کہ پانی نہیں پیتی، دن بھر سوئی رہتی ہے یا پھر ٹی وی دیکھتی رہتی ہے۔ گھر کے کام کو ہاتھ لگانا تو جانتی ہی نہیں، تنک مزاج اور بدزبان ہے۔
بھائی جان کی شادی ہو گئی۔ پتا چلا کہ ان خصوصیات کے علاوہ بھی بہت سی اور خصوصیات ہیں جو گھر کو ویران اور گھر والوں کی نیندیں اجاڑنے کے لئے کافی ہیں۔ مثلاً دن میں بھی انہیں جن بھوت نظر آتے تھے۔ ہر وقت یہ اندیشہ کہ یہ کام کیا تو بیمار پڑ جاؤں گی اور وہ کام کیا تو نظر نہ لگ جائے۔ ساس پر شک و شبہات، جادو ٹونا کرا دیں اور پڑوسیوں سے اس قدر اپنائیت کہ گھر کی وہ باتیں بھی جو کسی کو نہیں بتائی جاتیں، پڑوسنوں سے جا کر کہنا لازمی کہ ان سے نہ کہوں تو کس سے کہوں؟ امی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
بھائی جان کی شادی ہو گئی۔ پتا چلا کہ ان خصوصیات کے علاوہ بھی بہت سی اور خصوصیات ہیں جو گھر کو ویران اور گھر والوں کی نیندیں اجاڑنے کے لئے کافی ہیں۔ مثلاً دن میں بھی انہیں جن بھوت نظر آتے تھے۔ ہر وقت یہ اندیشہ کہ یہ کام کیا تو بیمار پڑ جاؤں گی اور وہ کام کیا تو نظر نہ لگ جائے۔ ساس پر شک و شبہات، جادو ٹونا کرا دیں اور پڑوسیوں سے اس قدر اپنائیت کہ گھر کی وہ باتیں بھی جو کسی کو نہیں بتائی جاتیں، پڑوسنوں سے جا کر کہنا لازمی کہ ان سے نہ کہوں تو کس سے کہوں؟ امی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
ہائے! کسی کا تو کہا سن لیا ہوتا۔ لوگ سچ کہتے تھے۔ امی کا بھی کیا قصور؟ برا ہو عشق کا کہ عشق نہ پوچھے ذات۔ کیا دھرا تو سب ہمارے بھائی صاحب کا ہی تھا، جنہیں ایک نظر میں زریں سے عشق ہو گیا تھا۔ کہتے ہیں شرف غلطی کرتے نہیں، اگر کرتے ہیں تو نباہتے ہیں۔ ہمیں بھی نباہ کرنا تھا، سو لہٰذا امی نے گھر سنبھال رکھا تھا اور میں ان کا دست و بازو تھی۔ خیال تھا کہ بہو آ کر گھر سنبھال لے گی، میں پڑھائی پر زیادہ توجہ دے سکوں گی اور ماں کو آرام ملے گا۔ آرام تو کیا ملنا تھا، دن رات کی بے سکونی ہو گئی۔ بھابھی صاحب دن چڑھے سوتی رہتیں اور رات بھر ٹی وی دیکھتی تھیں۔ پکا ہوا کھانا ہاتھ میں لیتیں اور خالی برتن کمرے میں جمع کرتی جاتیں۔ اگر ہم نہ اٹھاتے تو دو تین دن جھوٹے برتن ان کے کمرے میں جمع رہتے۔
بھائی جان توجہ دلاتے تو رونے بیٹھ جاتیں۔ کہتیں، ماں، بہن کی باتوں میں نہ آئو، خدا کے لئے مجھے سکون سے جینے دو۔ امی کبھی کہہ دیتیں، بیٹا! دو پر تک سوتے رہنا ٹھیک نہیں ہے، رشتہ دار عورتیں تمہیں دیکھنے اور تم سے ملنے آتی ہیں۔ کہتیں، دلہن سے ملنے آئے ہیں، وہ بغیر ملے چلی جاتی ہیں۔ بھابھی رونے لگتیں، آپ ہر وقت مجھے ٹینشن دیتی ہیں، کیوں میرے پیچھے پڑی ہیں؟ جب میرا جی چاہے گا، اٹھوں گی۔ جب تک دل چاہے گا، سوتی رہوں گی۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ اپنی مرضی سے سونا، اپنی مرضی سے جاگنا اور جو جی چاہے کرنا۔ میں انسان ہوں، کوئی روبوٹ نہیں کہ کسی کے اشاروں پر ناچوں۔ یوں پہلے دن سے ہمارے گھر آ کر وہ تمام گھریلو ذمے داریوں سے بری الذمہ ہو گئیں۔ امی بیچاری تو یوں بھی اللہ میاں کی گائے تھیں۔ عورتیں کہتیں، اس نیک بی بی کے منہ میں زبان نہیں ہے، صابر اتنی کہ بڑے سے بڑا صدمہ سہہ کر بھی اف نہیں کرتیں۔ وہ جھیلتی رہیں، بہو عیش کرتی گئی، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ایک بیٹی سے نواز دیا۔
مدت بعد اس گھر میں ننھی منی پری آئی تھی۔ ہم سب خوشی سے دیوانے ہو رہے تھے کہ اللہ نے ایک خوبصورت تحفہ عنایت کیا تھا۔ بھابی کی ساری کوتاہیاں اور ست روی بھلا کر ہم اس گڑیا کی محبت میں کھو گئے۔ وہ دادی کی جان تو پھپھو کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ دیکھتے دیکھتے پالنے سے پاؤں پاؤں چلتی کسی نرم و نازک تتلی کی طرح سارے گھر میں دوڑنے لگی۔ وہ گھر بھر کی جان تھی۔ بھائی جنید تو اسے دیکھ دیکھ کر جیتے تھے اور امی پیارے میری گڑیا پکارتی تھیں اور بھابی کہتیں، چاند ہے میری زندگی کا۔
مدت بعد اس گھر میں ننھی منی پری آئی تھی۔ ہم سب خوشی سے دیوانے ہو رہے تھے کہ اللہ نے ایک خوبصورت تحفہ عنایت کیا تھا۔ بھابی کی ساری کوتاہیاں اور ست روی بھلا کر ہم اس گڑیا کی محبت میں کھو گئے۔ وہ دادی کی جان تو پھپھو کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ دیکھتے دیکھتے پالنے سے پاؤں پاؤں چلتی کسی نرم و نازک تتلی کی طرح سارے گھر میں دوڑنے لگی۔ وہ گھر بھر کی جان تھی۔ بھائی جنید تو اسے دیکھ دیکھ کر جیتے تھے اور امی پیارے میری گڑیا پکارتی تھیں اور بھابی کہتیں، چاند ہے میری زندگی کا۔
وقت تیزی سے گزرنے لگا۔ گڑیا بڑی ہونے لگی۔ وہ زیادہ تر امی کے پاس رہتی یا میرے پاس، بے شک بھابھی کا چاند تھی لیکن جب ان کے آرام میں خلل پڑتا تو گڑیا کو لا کر ہمارے سامنے ڈال دیتیں کہ یہ لو سنبھالو اسے، مجھے سکون سے سونے بھی نہیں دیتی۔ بھابھی نیند کی شیدائی تھیں۔ بھلا ایک ننھی بچی یہ باتیں کیسے سمجھ سکتی تھی؟ اسے تو بس ماں درکار تھی، ہر بچے کی طرح، بے شک سارا زمانہ اسے چاہے مگر بچہ تو یہی چاہتا ہے کہ اسے ماں چاہئے اور ماں کی بانہوں میں جا کر ہی وہ سکون محسوس کرتا ہے۔ یہ بات بھابھی نہیں سمجھتی تھیں۔ ان کا جب سونے یا آرام کرنے کا موڈ ہوتا، وہ گڑیا کو اپنے کمرے سے نکال کر ہماری طرف بانک ڈال دیتیں۔ میں اور امی اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب گڑیا چار برس کی تھی۔ ہمارے پڑوس میں نئے کرایے دار آ گئے تھے۔ برابر والا مکان دو سال سے خالی پڑا تھا۔ پڑوس آباد ہو گیا تو ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ ویران گھر بھی کھٹکتا تھا۔
مرد کا نام سرور اور عورت نے اپنا نام زبیدہ بتایا تھا۔ وہ بے اولاد عورت تھی اور اس وجہ سے بھی اکیلا رہتی تھی۔ والدہ سے ملی تو ان کو اس عورت کی تنہائی کا احساس ہو گیا۔ بولیں، اس کا کوئی بچہ نہیں ہے، شوہر میسج کا گیا شام ڈھلے لوٹتا ہے، سارا دن گھر میں اکیلی ہوتی ہے۔ محلے دار خواتین سے تذکرہ کیا تو سب اس کے پاس جانے لگیں۔ اولاد سے محروم سمجھ کر حسن سلوک سے ملنے لگیں۔ زبیدہ خالہ جلد ہم سے گھل مل گئیں۔ جو پکاتی، ہمارے گھر آ کر دے جاتیں کہ آپ کھائیے اور بتائے کیسا پکایا ہے۔ مجھے تو ہمیشہ بھرے گھر میں رہنے کی عادت تھی۔ اب اکیلا پن کاٹتا ہے، کیا کروں؟ والدہ جواب دیتیں، ہمیں اپنے پاس سمجھو، ایک دیوار ہی تو گھر کے درمیان ہے۔ جب چاہو آ جایا کرو۔ ہاں آئی جان! اگر آپ لوگوں کا آمرانہ رویہ ہوتا تو میری تو جان چلی جاتی۔ اللہ جانے وہ یہ کیوں کہتی تھی۔ ہم نے بھی اس بات پر غور نہ کیا، البتہ ایک بات پر ضرور چونک جاتے کہ جب بھی ہماری گڑیا کو دیکھتی تھی، آنکھوں میں نمی تیر جاتی اور وہ حیرت کی تصویر بن جاتی۔
یہ بات امی جان اور بھابی نے بھی نوٹ کی تھی۔ ایک روز وہ آئی تو گڑیا کے لئے خوبصورت سی گڑیا اور چاکلیٹ لائی۔ بچی خوشی سے کھل گئی تھی۔ بھابی نے کہا، زبیدہ خالہ! آپ کو ہماری بیٹی اچھی لگتی ہے تو بے شک اسے اپنے گھر لے جایا کریں۔ میں سمجھ گئی کہ بھابی چاہتی ہیں کہ گڑیا کچھ دیر پڑوسن کے پاس رہے تاکہ وہ دن میں سو سکیں۔ میں نے ایم اے میں داخلہ لے لیا تھا اور امی جان کی طبیعت کچھ ناساز رہنے لگی تھی۔ وہ کچن سنبھالتیں یا بچی کو دیکھتیں۔ انہوں نے بھابی سے کہہ دیا کہ بیٹی! تم گڑیا کا خیال رکھا کرو۔ اسے وقت پر کھانا کھلانا، نہلانا دھلانا تمہاری ذمہ داری ہے۔ پانچ برس کی ہونے کو ہے، ابھی تک اسکول میں داخل نہیں کرایا۔ یہ ذمہ داری بھی تمہیں پوری کرنی ہے۔ بھابی کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ چاہتی تھیں کہ بچی کے سارے کام کوئی اور کرے۔ اس مرحلے پر خالہ زبیدہ کام آئیں۔ گڑیا اسکول میں داخل ہو گئی۔ وہ اسے اسکول لینے جاتیں۔ کہتیں، میرا جی بہل جاتا ہے۔ کہیں آتی جاتی نہیں، یوں روز واک ہو جاتی ہے۔ گڑیا کو اسکول پہنچانا اور لانا اچھا لگتا ہے۔
گڑیا بھی خالہ سے بہت محبت کرنے لگی تھی۔ ان کے بغیر نہ رہتی تھی۔ اسکول سے گھر آکر بمشکل کھانا کھاتی اور یونیفارم تبدیل کر کے دوڑتی ہوئی برابر کے گھر چلی جاتی۔ امی گڑیا کو روکتیں کہ کبھی کچھ دیر تو اپنے گھر میں بھی رہو، تبھی بھابی انہیں ٹوک دیتیں۔ جانے دیجئے، خالہ زبیدہ بچاری بے اولاد ہیں، ان کی پیاسی ممتا کو ہماری گڑیا سے سکون ملتا ہے۔ یہ جاتی ہے تو ان کا جی بہل جاتا ہے۔ وہ پردیسی ہیں، کیوں گڑیا کو روکتی ہیں آپ ان کے گھر جانے سے؟ امی کو بھی خالہ زبیدہ سے ہمدردی تھی لیکن بچی کا معاملہ تھا۔ وہ کہتیں، گڑیا لڑکی ہے، اسے گھر سے باہر رہنے کی عادت پڑ جائے گی۔ دن میں ایک بار، ایک آدھ گھنٹے کو خالہ کے گھر جایا کرے، لیکن صبح سے شام تک کسی کے گھر رہنا اچھی بات نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ بزرگوں کی باتیں چھوٹوں کو اچھی نہیں لگتیں۔ والدہ کے روکنے پر بھائی بہت برامنا ہوتے۔ وہ پڑوسن کو بتا دیتیں تاکہ اس کا دل بھی ساس سے برا ہو جائے۔ مجھے بھابی کی یہ عادت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ اپنی تن آسانی کی وجہ سے اپنا بوجھ دوسروں پر ڈال کر مزے سے آزاد ہو جاتیں۔ ٹی وی دیکھتیں یا سہیلیوں کے گھر چلی جاتیں یا بے وقت سو جاتیں۔ گویا بچی ان پر ایک بوجھ تھی۔ وہ روز اول سے ہی کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں تھیں۔ میں کڑھتی رہتی لیکن چپ رہتی کیونکہ اپنی تعلیم مکمل کرنی تھی۔ گڑیا کی پوری ذمہ داری نہیں سنبھال سکتی تھی۔
گڑیا بھی خالہ سے بہت محبت کرنے لگی تھی۔ ان کے بغیر نہ رہتی تھی۔ اسکول سے گھر آکر بمشکل کھانا کھاتی اور یونیفارم تبدیل کر کے دوڑتی ہوئی برابر کے گھر چلی جاتی۔ امی گڑیا کو روکتیں کہ کبھی کچھ دیر تو اپنے گھر میں بھی رہو، تبھی بھابی انہیں ٹوک دیتیں۔ جانے دیجئے، خالہ زبیدہ بچاری بے اولاد ہیں، ان کی پیاسی ممتا کو ہماری گڑیا سے سکون ملتا ہے۔ یہ جاتی ہے تو ان کا جی بہل جاتا ہے۔ وہ پردیسی ہیں، کیوں گڑیا کو روکتی ہیں آپ ان کے گھر جانے سے؟ امی کو بھی خالہ زبیدہ سے ہمدردی تھی لیکن بچی کا معاملہ تھا۔ وہ کہتیں، گڑیا لڑکی ہے، اسے گھر سے باہر رہنے کی عادت پڑ جائے گی۔ دن میں ایک بار، ایک آدھ گھنٹے کو خالہ کے گھر جایا کرے، لیکن صبح سے شام تک کسی کے گھر رہنا اچھی بات نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ بزرگوں کی باتیں چھوٹوں کو اچھی نہیں لگتیں۔ والدہ کے روکنے پر بھائی بہت برامنا ہوتے۔ وہ پڑوسن کو بتا دیتیں تاکہ اس کا دل بھی ساس سے برا ہو جائے۔ مجھے بھابی کی یہ عادت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ اپنی تن آسانی کی وجہ سے اپنا بوجھ دوسروں پر ڈال کر مزے سے آزاد ہو جاتیں۔ ٹی وی دیکھتیں یا سہیلیوں کے گھر چلی جاتیں یا بے وقت سو جاتیں۔ گویا بچی ان پر ایک بوجھ تھی۔ وہ روز اول سے ہی کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں تھیں۔ میں کڑھتی رہتی لیکن چپ رہتی کیونکہ اپنی تعلیم مکمل کرنی تھی۔ گڑیا کی پوری ذمہ داری نہیں سنبھال سکتی تھی۔
بھائی جان صبح دفتر جاتے، شام کو آتے تھے۔ امی چلنے سے معذور تھیں۔ لے دے کر خالہ زبیدہ رہ جاتی تھیں، جو ہماری خیر خبر لینے آتیں۔ وہ اب ہم میں اس قدر گھل مل گئی تھیں کہ گھر کا فرد لگتی تھیں۔ صبح سویرے گڑیا کو ناشتہ کرانا، پھر تیار کرا کے اسکول لے جانا، اسکول سے واپس لے آنا، اور امی کے لئے کچن میں کھانا بنانا۔ امی سخت بیمار پڑ گئیں۔ میرے سالانہ پیپر ہو رہے تھے تب بھی ہماری بے حس سنگدل بھابھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ گرمیوں کی چھٹیاں آ گئیں۔ گڑیا چاہتی تھی کہ ماں توجہ دے، لیکن بھائی الجھتیں، ڈانٹ دیتیں۔ وہ دوڑ کر خالہ زبیدہ کے گھر چلی جاتی اور سارا دن ان کے پاس رہتی۔ میں شام کو بلانے جاتی۔ چلو گھر تو خالہ کے پیچھے چھپتی۔ ضد کرتی کہ مجھے گھر نہیں جانا، رات کو یہیں رہنا ہے خالہ کے پاس۔ وہ کہتیں، کیوں اسے رلاتی ہو؟ فکر مت کرو، میں کھانا کھلا دوں گی، تھوڑی دیر بعد لے آئوں گی۔ ایسا روز ہونے لگا اور ہم نے ذہنی طور پر قبول کر لیا کہ ہماری بچی خالہ جی کے پاس زیادہ خوش رہتی ہے اور ان کا دل بھی گڑیا سے بھرا رہتا ہے، پھر کیوں زبردستی گڑیا کو کھینچ لائیں؟ رات کو ان کا شوہر گھر آتا تو وہ بچی کو خود چھوڑ جاتے۔ خالہ جس قدر ملنار تھیں، ان کا شوہر اس قدر خاموش طبع اور سنجیدہ شخص تھا۔ وہ کاروباری آدمی تھا، اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ ان لوگوں کو آئے دو برس ہونے والے تھے مگر اس شخص نے ابھی تک محلے کے لوگوں سے راہ و رسم نہ بڑھائی تھی۔ دور سے سلام کرتا اور کلام کرنے کی زحمت گوارا نہ کرتا۔
سب اسے بد مزاج اور آدم بیزار سمجھتے جبکہ زبیدہ کی خوش اخلاقی کے چرچے تھے۔ ایک دن انہوں نے امی کو بتایا کہ آج میرے شوہر دوسرے شہر جا رہے ہیں کسی ضروری کام کے سلسلے میں، رات کو مجھے ڈر لگے گا، اکیلی کیسے رہ پاؤں گی؟ امی نے کہا، تم ہمارے گھر آ کر سو جانا۔ بولی، مجھے آپ کے گھر نیند نہیں آئے گی، چاہتی ہوں گڑیا کو اپنے پاس سلالوں۔ تم کہتی ہو تو میں تمہارے گھر آ کر سو جاتی ہوں۔ والدہ نے دوسری آفر دی، آپ کو تکلیف ہو گی، رات بھر آپ کی کھانسی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ تو ہے، کھانسی رات بھر مجھے خود کو سونے نہیں دیتی، آپ کیونکر سو سکیں گی؟ ٹھیک ہے، کل اس کے اسکول کی چھٹی ہے، آپ گڑیا کو لے جانا۔ یوں بھی اس کی فرمائش ہوتی ہے کہ خالہ کے گھر میں رہنا ہے۔ خالہ خوش ہو گئیں اور گڑیا کو لے کر اپنے گھر چلی گئیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ خالہ زبیدہ سے زیادہ ہماری بچی ان کے ساتھ جانے پر خوش تھی۔ انہوں نے گڑیا سے اس قدر پیار بڑھا لیا تھا کہ وہ یہی چاہتی تھی کہ ان کے پاس رہے۔ ہر وقت انہی کے گھر رہتی تھی، وہ اسے کھلاتی پلاتی اور ساتھ کھیلتی تھیں، اس پر جان چھڑکتی تھیں۔
صبح سویرے خالہ زبیدہ گڑیا کو لے کر ہمارے گھر آئیں۔ بولیں کہ میں ناشتے کا سامان لینے جا رہی ہوں، بھابی سورہی تھیں۔ میں نے گڑیا کو اپنے پاس بٹھایا، پیار کیا، سمجھایا کہ خالہ جی کو جانے دو۔ وہ ان کے ہمراہ دکان پر جانے کی ضد کر رہی تھی۔ بڑی مشکل سے جانے دیا۔ دن میں بھائی اور بھابی زریں میکے گئے۔ گڑیا جانے پر راضی نہ تھی، زبردستی بھابی نے گاڑی میں ڈالا کہ تمہاری نانی اماں یاد کرتی ہیں، کیا ان سے نہ ملو گی؟ شام کو جب یہ لوگ واپس آئے، گڑیا دوڑ کر خالہ کے گھر پہنچ گئی، جیسے اس پر انہوں نے جادو کر دیا ہو۔ سچ ہے، پیار بچوں کے لئے جادو کا اثر رکھتا ہے۔
صبح سویرے خالہ زبیدہ گڑیا کو لے کر ہمارے گھر آئیں۔ بولیں کہ میں ناشتے کا سامان لینے جا رہی ہوں، بھابی سورہی تھیں۔ میں نے گڑیا کو اپنے پاس بٹھایا، پیار کیا، سمجھایا کہ خالہ جی کو جانے دو۔ وہ ان کے ہمراہ دکان پر جانے کی ضد کر رہی تھی۔ بڑی مشکل سے جانے دیا۔ دن میں بھائی اور بھابی زریں میکے گئے۔ گڑیا جانے پر راضی نہ تھی، زبردستی بھابی نے گاڑی میں ڈالا کہ تمہاری نانی اماں یاد کرتی ہیں، کیا ان سے نہ ملو گی؟ شام کو جب یہ لوگ واپس آئے، گڑیا دوڑ کر خالہ کے گھر پہنچ گئی، جیسے اس پر انہوں نے جادو کر دیا ہو۔ سچ ہے، پیار بچوں کے لئے جادو کا اثر رکھتا ہے۔
جو زیادہ پیار دے، بچے اس کے ہو رہتے ہیں۔ سبھی سمجھ رہے تھے کہ بے اولاد ہونے کی وجہ سے سرور کی بیوی گڑیا پر جان چھڑکتی ہے۔ پیاسی ممتا کی تسکین کو واری صدقے ہوتی ہے۔ کیا خبر تھی کہ آنے والا وقت ہمیں کیا دکھانے والا ہے۔ دوسرے روز بھی تمام دن گڑیا انہی کے گھر رہی۔ امی نے کئی بار کہا، زریں بٹیا! جا کر بچی کو دیکھو، اسے گھر لے آؤ، میرا جی گھبرا جاتا ہے اسے نہ دیکھوں تو۔ آپ کسی کو خوش دیکھ سکتی ہیں بھلا! آپ کا تو مزاج ہی ایسا ہے، گڑیا خالہ کے پاس خوش رہتی ہے اور آپ کو پریشانی ہو جاتی ہے۔ کیا وہمی طبیعت پائی ہے آپ نے، اپنا اور دوسروں کا سکون برباد کر ڈالتی ہیں۔ بھائی جب بھی امی سے مخاطب ہوتے، ایسا ہی کڑوا کیلا جواب دیتے۔ میری ماں بچاری چپ ہو جاتی۔ اس روز بھی وہ صبر کا گھونٹ بھر کر رہ گئیں۔ خود اٹھ نہ سکتی تھیں کہ جا کر بچی کو گھر لے آتیں۔ گزشتہ صبح سے رات بھر وہ خالہ کے گھر رہی تھی اور اب دن کے دس بجے تھے، اسے آجانا چاہئے تھا۔ میں یونیورسٹی گئی ہوئی تھی اور بھائی جان دفتر۔ زریں نے بے دلی سے میری ماں کو چائے اور توس لا کر دیے۔ خود جانے کیا ناشتہ کیا اور جا کر اپنے کمرے میں لیٹ گئیں۔ دس سے گیارہ اور پھر دو پھر بھی ڈھل گئی۔
زریں کو خالہ زبیدہ ہمارے گھر نہ لائیں۔ امی جان کو فکر ہو گئی۔ انہوں نے مجھے فون کیا کہ کب تک آؤ گی؟ میرا جی گھبرا رہا ہے۔ بھابی کہاں ہیں؟ وہ صبح سے اپنے کمرے میں بھی ہے، شکل نہیں دکھا رہی؟ ابھی تک؟ ہاں، سورہی ہے یا جاگ رہی ہے، خدا معلوم۔ کمرے سے باہر آئی تو کہوں کہ زبیدہ کے گھر جا کر بچی کو لے آؤ۔ میں سمجھ گئی کہ امی گڑیا کی وجہ سے پریشان ہیں۔ میں نے بتایا، راستے میں ہوں امی! بس پہنچنے والی ہوں۔ گڑیا کی آپ فکر نہ کریں، وہ خود نہیں آئی ہو گی، میں آتے ہی گھر لے آؤں گی۔ میں جب گلی میں پہنچی تو اپنے گھر جانے کی بجائے خالہ کی طرف چلی گئی کہ گڑیا کو لیتی جاؤں۔ ان کے گھر کا دروازہ کھلا تھا مگر گھر میں کوئی نہ تھا۔ گڑیا تھی اور نہ خالہ، میں سمجھی کہ ہمارے گھر بچی کو چھوڑنے گئی ہیں، لیکن ایسا نہ تھا۔ خالہ آئی تھیں نہ گڑیا۔ امی مجھے دیکھ کر بے قراری سے اٹھ بیٹھیں۔
زبیدہ کی طرف جاؤ اور میری پری کو لے آؤ۔ کیا وہ آئی نہیں؟ نہیں! تبھی تو بے چینی محسوس ہو رہی ہے۔ اچھا! حوصلہ رکھیے، آتی ہوں گی، شاید دکان تک گئی ہوں۔ دکان تک گئی ہوں گی! کیا مطلب؟ میں خالہ کے گھر سے ہوتی ہوئی آئی ہوں، وہاں کوئی نہیں ہے۔ یا خدا! امی نے سر پکڑ لیا۔ تبھی تو جی گھبرا رہا تھا میرا، تم سب کتنے غافل اور لاپرواہ ہو۔ اپنی بھابی کو جگاؤ، اسے بتاؤ کہ گڑیا نہیں ہے۔ امی! کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ زبیدہ خالہ قریبی اسٹور ضرورت کی اشیاء لینے جاتی ہیں، ضد کر کے گڑیا بھی ان کے ہمراہ چلی گئی ہو گی۔ آجائیں گی۔ مجھے سانس تو لینے دیں، اتنی دور سے آ رہی ہوں، کپڑے بدل لوں پھر جاتی ہوں ان کے گھر۔
میں نے ہاتھ، منہ دھویا، کپڑے بدلے لیکن کھانا نہیں کھایا حالانکہ سخت بھوک لگی تھی۔ والدہ کی بے چین طبیعت کو جانتی تھی۔ وہ پوتی کے معاملے میں بے صبر ہو جاتی تھیں۔ دوبارہ ان کے گھر گئی مگر گھر اسی طرح بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ غور کیا تو لگا کہ گھر خالی ہے اور بیشتر ضرورت کا سامان موجود نہیں ہے، بس کچھ فرنیچر اور چار پائیاں پڑی تھیں، اور یہ فرنیچر مالک مکان کا تھا۔ اب میرا دل بھی دھک سے رہ گیا۔ اگر وہ مومنہ کو کہیں ساتھ لے گئی تھیں تو ہمارے گھر اطلاع ضرور کر کے جاتیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس سے آگے میرے ذہن نے کچھ سوچنے سے انکار کر دیا۔ کبھی انہوں نے ایسانہ کیا تھا۔ آخر وہ بچی کو لے کر کہاں چلی گئی تھیں اور ان کا سامان؟ میرا دماغ سن ہونے لگا، کان شائیں شائیں کر رہے تھے۔ بھائی جان کے الفاظ کانوں میں سیٹیاں بجانے لگے۔
میں نے ہاتھ، منہ دھویا، کپڑے بدلے لیکن کھانا نہیں کھایا حالانکہ سخت بھوک لگی تھی۔ والدہ کی بے چین طبیعت کو جانتی تھی۔ وہ پوتی کے معاملے میں بے صبر ہو جاتی تھیں۔ دوبارہ ان کے گھر گئی مگر گھر اسی طرح بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ غور کیا تو لگا کہ گھر خالی ہے اور بیشتر ضرورت کا سامان موجود نہیں ہے، بس کچھ فرنیچر اور چار پائیاں پڑی تھیں، اور یہ فرنیچر مالک مکان کا تھا۔ اب میرا دل بھی دھک سے رہ گیا۔ اگر وہ مومنہ کو کہیں ساتھ لے گئی تھیں تو ہمارے گھر اطلاع ضرور کر کے جاتیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس سے آگے میرے ذہن نے کچھ سوچنے سے انکار کر دیا۔ کبھی انہوں نے ایسانہ کیا تھا۔ آخر وہ بچی کو لے کر کہاں چلی گئی تھیں اور ان کا سامان؟ میرا دماغ سن ہونے لگا، کان شائیں شائیں کر رہے تھے۔ بھائی جان کے الفاظ کانوں میں سیٹیاں بجانے لگے۔
بے اولاد ہے بیچاری! ہماری بچی سے اسے اپنے گھر میں رونق محسوس ہوتی ہے، جی بہل جاتا ہے اس کا! بہت پیار کرتی ہے مومن کو! تم بار بار گڑیا کو آواز دے کر مت بلایا کرو، خالہ زبیدہ کا دل برا ہو جائے گا۔ بھائی کو گئے ہفتہ ہونے لگا تھا۔ وہ بیوی کو تین روز بعد آنے کا کہہ کر گیا تھا۔ میں نے انجانے خدشے کو محسوس کر لیا اور بھائی جان کو دفتر فون کیا۔ بھائی! آپ کب تک گھر آئیں گے، پلیز ذرا جلد آنے کی کوشش کرنا۔ امی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ میرے لہجے کی گمبھیرتہ کو انہوں نے محسوس کر لیا۔ بولے، ابھی نکل رہا ہوں، گھنٹہ ڈیڑھ تک پہنچ رہا ہوں، تب تک تم سنبھالو۔ امی جان کی زیادہ طبیعت خراب ہو تو اسلم بھائی (چچا زاد) کو فون کر لینا، وہ آجائے گا۔ بھائی کو آنے میں تھوڑا وقت تو لگنا تھا، لیکن اب میرے دل کو قرار نہ تھا۔ سامنے سڑک پار دکاندار کے پاس پہنچی۔ خالہ اس سے اکثر سودا سلف لیا کرتی تھیں۔ جی نہیں! میں نے ان کے ساتھ کسی بچی کو یہاں سے گزرتے نہیں دیکھا۔ وہ صبح سے میری دکان پر بھی نہیں آئی ہیں۔ کچھ آگے جنرل اسٹور تھا، میں وہاں بھی گئی۔ اسٹور کے مالک اور ملازمین نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ گلی میں کھیلتے بچوں سے دریافت کیا مگر کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ انہوں نے خالہ یا گڑیا کو دیکھا ہے۔اتنے میں بھائی جان آپہنچے۔ انہوں نے خالہ کے گھر جا کر دیکھا۔
ان کا رنگ فق ہو گیا کیونکہ خالہ کا ذاتی سامان موجود نہیں تھا، صرف وہ فرنیچر پڑا تھا جو مالک مکان کا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ لوگ صبح سویرے ہی کوچ کر گئے تھے۔ اب کیا کریں؟ ان کا کوئی اتا پتہ معلوم نہ تھا۔ سرور نے بھائی جان سے بھی دور ہی سے سلام دعا کی تھی۔ خالہ سے ہم نے کبھی نہیں پوچھا کہ تمہارا مستقل ٹھکانہ کہاں ہے؟ یہ بات کبھی ہمارے ذہن میں نہ آئی تھی کہ وہ ہماری گڑیا کو لے کر غائب ہو سکتی ہیں۔ اب تو بھابی جان بھی جلے پاؤں کی بلی کی طرح صحن میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھیں۔ کبھی ہاتھ ملتیں اور کبھی سر تھام کر دیوار سے ٹیک لگا لیتیں۔ بھائی باہر چلے گئے اور میں امی کو سنبھال رہی تھی کہ ان کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ بھابی نے وضو کیا، جائے نماز بچھائی اور وہ دعائیں پڑھنے لگیں۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے، سر سجدے میں تھا اور ہچکیاں سارے بدن کو بلا رہی تھیں۔ اب تو انہیں اپنی آرام طلبی بھولی ہوئی تھی۔ رات کے گیارہ بجے جب بھائی جان بتانے میں بیٹھے تھے، انہیں سرور نے فون کیا۔ بھائی جنید! پریشان مت ہونا، گڑیا ہمارے پاس ہے اور ہم کسی مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ابھی نہیں آسکتے، کل صبح ان شاء اللہ میں آپ کی بچی کو آپ کے پاس پہنچا دوں گا۔
فون سن کر بھائی کی جان میں جان آئی۔ انہوں نے پولیس والوں کو کہا کہ وہ کل صبح آئیں گے، آج کی رات انتظار کرنا ہو گا۔ سرور نے خدا جانے بھائی کا فون نمبر کہاں سے اور کس سے لیا تھا۔ رات بھر ہم میں سے کوئی نہیں سو سکا تھا۔ ساری رات دعا کرتے گزری۔ امی کو تو بھائی نے نیند کی گولی کھلا کر سلا دیا تھا۔ زریں بھابی رات بھر دعائیں کرتی رہیں۔ خدا خدا کر کے صبح طلوع ہوئی، سرور کا فون آگیا۔ جنید بھائی! میں راستے میں ہوں، بس چار چھ گھنٹوں بعد ہم پہنچ جائیں گے۔ فکر نہ کریں، گڑیا خیریت سے ہے۔
دوپہر بارہ بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ دوڑ کر جنید بھائی نے دروازہ کھولا۔ سرور کے ساتھ گڑیا آئی تھی لیکن خالہ زبیدہ موجود نہ تھیں۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ سرور کو گھر کے اندر بٹھایا۔ گڑیا کو لپک کر بھائی جان نے بانہوں میں اٹھا لیا اور گلے سے لگا لیا۔ بھائی کو سرور نے بتایا کہ میری بیوی عجب احمق عورت ہے۔ میرا تبادلہ ہو گیا تو میں نے اسے بتا دیا کہ اب ہم نے واپس جانا ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے نہیں جانا کیونکہ اسے گڑیا سے پیار ہو گیا تھا۔ آپ کی بچی بھی اس قدر میری بیوی سے پیار کرنے لگی تھی کہ زبیدہ سوچتی تھی، کیسے اسے چھوڑ کر جاؤں، اسے صدمہ ہو گا، بیمار پڑ جائے گی۔ پھر اس نے عجب بات سوچ لی کہ گڑیا کو ساتھ لے کر نکل جاؤں۔ اس روز صبح چھ بجے گھر سے نکل کر لاری اڈے آگئی۔ میرے پاس پہنچی۔ میں اس کے ساتھ آپ کی بچی کو دیکھ کر حیران ہو گیا۔ پوچھا، کیوں لائی ہو؟ کیا اس کے والدین کو بتا کر آئی ہو؟ بولی، نہیں! کیونکہ میں اس کی محبت میں گرفتار ہوں اور یہ بھی میرے ساتھ ہل گئی ہے۔
دوپہر بارہ بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ دوڑ کر جنید بھائی نے دروازہ کھولا۔ سرور کے ساتھ گڑیا آئی تھی لیکن خالہ زبیدہ موجود نہ تھیں۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ سرور کو گھر کے اندر بٹھایا۔ گڑیا کو لپک کر بھائی جان نے بانہوں میں اٹھا لیا اور گلے سے لگا لیا۔ بھائی کو سرور نے بتایا کہ میری بیوی عجب احمق عورت ہے۔ میرا تبادلہ ہو گیا تو میں نے اسے بتا دیا کہ اب ہم نے واپس جانا ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے نہیں جانا کیونکہ اسے گڑیا سے پیار ہو گیا تھا۔ آپ کی بچی بھی اس قدر میری بیوی سے پیار کرنے لگی تھی کہ زبیدہ سوچتی تھی، کیسے اسے چھوڑ کر جاؤں، اسے صدمہ ہو گا، بیمار پڑ جائے گی۔ پھر اس نے عجب بات سوچ لی کہ گڑیا کو ساتھ لے کر نکل جاؤں۔ اس روز صبح چھ بجے گھر سے نکل کر لاری اڈے آگئی۔ میرے پاس پہنچی۔ میں اس کے ساتھ آپ کی بچی کو دیکھ کر حیران ہو گیا۔ پوچھا، کیوں لائی ہو؟ کیا اس کے والدین کو بتا کر آئی ہو؟ بولی، نہیں! کیونکہ میں اس کی محبت میں گرفتار ہوں اور یہ بھی میرے ساتھ ہل گئی ہے۔
اگر بتاتی تو کیا اس کے والدین آنے دیتے؟ اب میں اسے نہیں دوں گی، ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گی۔ تم بھی کسی کو مت بتانا۔ تم پاگل ہو گئی ہو؟ جانتی ہو کیا کہہ رہی ہو؟ اور ان لوگوں کے بارے میں سوچا ہے جن کی یہ بچی ہے؟ ان پر قیامت گزر رہی ہو گی۔ تم نے محبت میں اندھی ہو کر اسے ساتھ لے لیا، مگر معلوم نہیں ہے کہ کسی کا بچہ بغیر اطلاع کے لے جانا کتنا بڑا جرم ہے۔ ابھی اور اسی وقت اسے واپس کرنا ہو گا، ورنہ پولیس تک بات پہنچی تو انجام اچھا نہ ہو گا۔ بس صاحب! وہ روتی پیٹتی رہ گئی اور میں بچی کو اس سے چھین کر لے آیا۔ آپ میری بیوی کو خدا کے لئے معاف کر دیں۔ سرور نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ وہ نادان ہے، بے وقوف ہے، محبت میں اندھی ہو گئی ہے، کچھ بھی نہیں سمجھتی۔ بس بچی کی محبت میں اندھی ہو گئی ہے۔ جنید بھائی نے کہا، ٹھیک ہے بھائی! تم نے بچی صحیح سلامت پہنچا دی ہے، یہی بہت ہے ورنہ ہم مر جاتے، یہ صدمہ کیسے سہہ پاتے۔ آپ کی بڑی مہربانی ہے۔ میں پولیس میں رپورٹ لکھوانے گیا تھا، مگر آپ کا فون آ گیا۔ میں نے معاف کیا۔ ہماری بچی مل گئی تو ہماری زندگی واپس آ گئی۔
سرور جسے ہم بد اخلاق انسان سمجھتے تھے، وہ ہمارے لئے فرشتہ ثابت ہوا اور زبیدہ، جسے ہم اپنا سمجھتے تھے، اس نے دھوکا دیا۔ انسان کی پہچان بہت مشکل ہے۔ کب وہ بدل جائے، کوئی نہیں کہہ سکتا۔ آج بھی بھابی کی یہ بات یاد آتی ہے۔ اب کبھی غفلت سے کام نہیں لوں گی۔ میرا سارا آرام اور نیندیں گڑیا پر قربان ہیں۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے