گھائل روح

Urdu Font Stories 38

رات کے آٹھ بجنے والے تھے۔ نبیلہ ڈیوٹی پر جانے کے لئے جلدی جلدی تیار ہورہی تھی۔ وہ آج لیٹ ہورہی تھی۔ بڑی دوڑ دھوپ اور مشکل سے اسے ایک پرائیویٹ اسپتال میں نائٹ شفٹ پر بطور نرس یہ جاب ملی تھی۔ اگرچہ اس نے مارننگ شفٹ میں جاب کی درخواست دی تھی مگر صبح کی شفٹ میں جگہ خالی تھی نا ہی شام کی شفٹ میں… البتہ اس سے یہ ضرور کہا گیا تھا کہ جیسے ہی صبح کی شفٹ خالی ہوئی تو اسے نائٹ ڈیوٹی سے ہٹا کر صبح میں رکھ لیا جائے گا۔ صبح اور شام کی ڈیوٹی آٹھ گھنٹے ہوتی تھی، جبکہ نائٹ ڈیوٹی بارہ گھنٹے کی ہوتی تھی۔ رات آٹھ سے صبح آٹھ بجے تک اس مناسبت سے تنخواہ بھی کچھ زیادہ تھی۔
 
جاب نبیلہ کی مجبوری تھی۔ بے شک پہلے وہ اپنے شوق کی خاطر نرسنگ کے شعبے میں آئی تھی مگر پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب یہی شوق ذریعۂ معاش بن چکا تھا۔ وہ دبلی پتلی اور گوری رنگت کی چوبیس پچیس سالہ لڑکی تھی۔ ایک اوسط درجے کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے ابو کسی سرکاری محکمے میں آفس سپرنٹنڈنٹ تھے۔ نبیلہ ان کی بڑی بیٹی تھی۔ اس سے چھوٹی بہن کوثر اور پھر بھائی تھا نعمان، جسے پیار سے نومی کہتے تھے۔ گھر چھوٹا مگر اپنا تھا۔ جس پوسٹ پر شفیق الدین فائز تھے، وہاں چاروں طرف سے پیسا برستا تھا۔ تنخواہ سے زیادہ اوپر کی آمدنی تھی مگر شفیق الدین نے صرف حق حلال کی کمائی کو اپنے ایمان کا حصہ بنا رکھا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کو بھی اس نیک نفس انسان کی یہ ادا بھا گئی تھی کہ اس نے شفیق الدین کی محض تنخواہ کی آمدن میں بہت برکت ڈال دی تھی، گزر بسر اچھی ہورہی تھی۔ انہوں نے اپنے تینوں بچوں کی اچھی تربیت کی تھی اور انہیں پڑھایا لکھایا تھا۔ اس میں ان کی بیگم ثریا خاتون کا بھی ہاتھ تھا جو خود بھی ایک قناعت پسند اور صابر عورت تھی۔

نبیلہ کو نرس بننے کا شوق تھا۔ اس نے جب نرسنگ کورس مکمل کیا تو بدقسمتی سے باپ شفیق الدین کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ ایک تیز رفتار منی بس نے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ان کی بائیک کو ٹکر مار دی تھی۔
نبیلہ پر گھر کی ذمہ داری کا بار آن پڑا تھا۔ ماں کو آنکھوں سے کم نظر آنے لگا تھا۔ چھوٹی بہن کوثر انٹر کا امتحان دے چکی تھی اور اب آگے پڑھ رہی تھی۔ نومی میٹرک میں تھا۔ تینوں بچے شریف اور سعادت مند تھے۔ نبیلہ نے ایک پرائیویٹ اسپتال میں جیسے تیسے جاب ڈھونڈ لی تھی، خواہ وہ نائٹ میں تھی۔

مذکورہ پرائیویٹ اسپتال میں صرف لیڈی ڈاکٹرز کے لئے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت رکھی گئی تھی۔ فیمیل نرسوں کے لئے نہیں، حالانکہ ڈاکٹرز سے زیادہ لوئر اسٹاف پر کام کی زیادہ ذمہ داری ہوتی تھی۔ نبیلہ جیسے تیسے دو بسیں بدل کر ڈیوٹی پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ ایک ایمرجنسی آئی ہوئی ہے۔ اس کی ساتھی نرس سسٹر آسیہ نے بتایا تھا۔ دونوں آپس میں اچھی دوست تھیں۔ وہ ایک دوسرے کی کلاس فیلوز رہ چکی تھیں۔ اس کی طرح وہ بھی غیر شادی شدہ تھی۔

’’مائی گاڈ! کس قدر خوبرو اور جوان لڑکا ہے اور دیکھو ایک حادثے نے اس کا کیا حشر کردیا ہے۔‘‘ سسٹر آسیہ نے نبیلہ سے بہت تاسف سے کہا۔
’’اچھا…!‘‘ نبیلہ نے بھی دل میں افسوس محسوس کیا۔ ’’بچنے کی کوئی امید ہے اس بے چارے کی؟‘‘
 
’’پتا نہیں، ابھی تو کوما میں پڑا ہے، آئی سی یو کے بیڈ نمبر تین پر ہے۔ آج کی رات چند گھنٹوں کی نیند بھی گئی، ساری رات اس کی تیمارداری میں گزرے گی۔‘‘
’’ایسا نہیں کہتے آسیہ!‘‘ نبیلہ نے اسے سنجیدگی سے ٹوکا۔ ’’ہم یہاں نیند پوری کرنے نہیں آتے، اپنا فرض نبھانے آتے ہیں۔‘‘
 
’’اچھا بابا! اب یہ فرائض کا لیکچر چھوڑو اور جاکر تم بھی اس کے کیس کا آرڈر فالو کرو، ڈیوٹی ڈاکٹر منظور بھی وہیں ہیں۔‘‘ آسیہ نے کہا اور نبیلہ اسٹاف روم سے نکل کر آئی سی یو کی طرف بڑھ گئی۔

جنرل وارڈز کی بہ نسبت آئی سی یو میں گہری خاموشی ہوتی تھی اور جانے کیوں نبیلہ کو آئی سی یو کی یہ خاموشی موت جیسی محسوس ہوتی تھی۔ اسے یوں لگتا تھا جیسے موت کا فرشتہ آس پاس ہی گردش کررہا ہو، حالانکہ وہ مضبوط دل گردے کی مالک تھی۔ کئی مریضوں کو اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں جاتے دیکھا تھا، مگر باوجود اس کے جانے کیا بات تھی آئی سی یو میں داخل ہوتے ہی اس کی عجیب سی کیفیت ہونے لگتی تھی۔

آئی سی یو میں اس وقت صرف تین ہی مریض تھے۔ دو روبہ صحت تھے جبکہ تیسرے بیڈ پر وہ نیا ایڈمٹ ہونے والا بدقسمت نوجوان تھا جس کے بارے میں آسیہ نے اسے بتایا تھا۔ اس کے لواحقین آئی سی یو سے باہر کھڑے رو رہے تھے اور ہر آنے جانے والے اسٹاف سے سسکتے ہوئے نوجوان کی خیریت کے بارے میں دریافت کررہے تھے، نبیلہ اندر داخل ہوئی۔ ڈاکٹر منظور کے ہمراہ ایک اور خاتون تھیں۔ وہ خاصی عمر کی تھیں اور ان کا چہرہ اشک بار تھا، بعد میں معلوم ہوا وہ اس بدنصیب نوجوان کی ماں تھی۔ کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ تھے۔ باپ بزنس ٹرپ پر ملک سے باہر تھا۔ اسے اطلاع کردی گئی تھی۔ وہ اپنا ٹرپ کینسل کرکے پہلی دستیاب فلائٹ سے لندن سے واپس لوٹ رہا تھا۔ نوجوان کوما میں تھا، اس کے سرہانے کے اوپر دو مانیٹر نصبب تھے۔ ایک میں اس کے دل کی اور دوسرے میں اس کی نبض کی رفتار آڑی ترچھی لکیروں کی صورت متحرک تھی۔ مصنوعی تنفس والی مشین بھی وہاں موجود تھی۔ نوجوان کے چہرے پر آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا۔

ڈیوٹی ڈاکٹر، خاتون کو تسلی دینے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ نبیلہ کو دیکھ کر اس نے اسے کچھ ہدایات دیں۔ نبیلہ نے اثبات میں سر ہلا دیا، اس کے بعد ڈاکٹر خاتون کو ساتھ لئے آئی سی یو سے باہر نکل گئے۔ نبیلہ اس بدنصیب کو بغور دیکھنے لگی، پھر اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ اب سرسری نگاہوں کے بجائے بڑے غور سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے پہچاننے کی کوشش کررہی ہو۔ اس کی اپنی حالت غیر سی ہونے لگی۔ مزید تصدیق کی خاطر اس نے نوجوان کی میڈیکل فائل دیکھی۔ نام اور ولدیت کے بعد اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ یہ بدنصیب نوجوان نبیلہ کا شناسا تھا۔ اب نبیلہ کا اپنا دم گھٹنے لگا، اس کی آ نکھیں اشکبار ہونے لگیں، ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اس میں کھڑے ہونے کی طاقت جیسے سلب ہوگئی تھی۔ اسے چکر سا آگیا۔ وہ بمشکل کائونٹر ٹیبل تک آئی اور وہاں رکھی کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی۔

’’وہی ہے… یہ… بالکل وہی ہے… صفدر حیات… مگر…!‘‘ اس کے اندر جنگ سی ہونے لگی۔ گم گشتہ ماضی کے کئی تلخ اور کریہہ مناظر اس کے پردۂ تصور پر چلنے لگے۔ ماضی کے حوالے سے کئی در اس کے بے طرح دھڑکتے دل کے دروازے کی طرح کھلتے بند ہوتے رہے۔ وہ ایک عجیب سی کشمکش کا شکار ہوگئی۔
’’نبیلہ! کیا سوچ رہی ہے تو…؟‘‘ اس کے اندر کوئی چیخا۔ ’’آج وقت تیرے ہاتھ میں ہے، خبردار…! اپنے دشمن کو کبھی معاف نہ کرنا۔ یہ آج تیرے رحم و کرم پر ہے۔ بس ایک ذرا بٹن آف ہی تو کرنا ہے مصنوعی سانس دینے والی مشین کا!‘‘
’’نہیں نبیلہ!‘‘ دفعتاً اس کے اندر ایک اور آواز ابھری جو شاید اس کے ضمیر کی آواز تھی۔ ’’یہ اپنے فرض سے غداری ہے۔ تو اس وقت ایک مسیحا کے روپ میں ہے۔ تو اس وقت نبیلہ نہیں، ایک نرس ہے جس کا کام مرتے ہوئے مریضوں کی تیمارداری کرکے انہیں زندگی کی طرف لوٹانا ہوتا ہے اور پھر یہ بدنصیب تو ویسے ہی زندہ لاش کی صورت تیرے سامنے ہے۔ مرتے ہوئے کو مارنا گناہ ہے اور فرض کی نفی ہے۔‘‘
 
’’کیا تو بھول گئی نبیلہ!‘‘ پہلی والی غراتی ہوئی شوریدہ آواز دماغ میں گونجی۔ ’’تو بھی تو اس وقت مر رہی تھی، ایک زندہ لاش کی مثل تو تو بھی تھی۔ اس وقت جب یہی شیطان نما انسان تجھ پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑ رہا تھا تو بھی تو بے آسرا، مجبور، بے بس اور کمزور تھی۔ بھول گئی کس طرح یہ شیطان طاقت کے نشے سے چور تھا۔ نہیں نبیلہ…! ہرگز نہیں ظالم کو معاف کرنے والا بھی ظالم کہلاتا ہے۔ 
 
’’نہیں… نہیں! میں ایسا نہیں کرسکتی۔‘‘ بے اختیار نبیلہ چیخ پڑی۔
’’کیا ہوا نبیلہ…! کیا نہیں کرسکتیں تم…؟‘‘ معاً ایک حقیقی آواز اس کی سماعتوں میں گونجی اور وہ سنبھل گئی۔ اس کے قریب ساتھی نرس آسیہ کھڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نبیلہ نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھ کے بات بنائی۔ ’’تم نے ٹھیک کہا تھا آسیہ! بے چارہ اتنا خوبصورت، خوبرو نوجوان ہے۔ اللہ اس پر رحم فرمائے۔‘‘ یہ دعائیہ کلمات ادا کرنے کے بعد نبیلہ کو جیسے سکون سا ملا۔ اس کا ضمیر مطمئن تھا۔ وہ اب پوری توجہ اور تندہی کے ساتھ نوجوان کی تیمارداری میں لگ گئی۔ ساری رات جاگتے ہوئے گزار کر ڈیوٹی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق پل پل کی خبر اس نوجوان کی سنگین حالت زار کے متعلق اسے بہم پہنچاتی رہی اور مزید ہدایات لیتی رہی۔

تین دن بعد ڈاکٹروں کی ٹیم نوجوان کے ورثاء کو اس خوشخبری سے آگاہ کررہی تھی کہ نوجوان صفدر کو ہوش آگیا ہے، اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ بلاشبہ اس میں نبیلہ کی خصوصی توجہ اور تیمارداری کا ہی دخل تھا جس کا اعتراف پورے میڈیکل اسٹاف نے بھی کیا تھا۔
***
نبیلہ نے راشد کو پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ ساتھ والے مکان میں نئے نئے شفٹ ہوئے تھے۔ یہ اوسط درجے کا علاقہ تھا، یہاں سب لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ راشد ایک چوبیس پچیس سالہ شریف سا نظر آنے والا لڑکا تھا اور اپنے ماں، باپ کا اکلوتا بھی! باپ کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرتا تھا۔ راشد بھی اسی دفتر میں ملازمت کرتا تھا۔ دونوں باپ، بیٹے موٹرسائیکل پر دفتر آتے جاتے تھے۔ محلے داری کی نسبت سے سب سے پہلے راشد کی ماں ہی ان کے ہاں کھیر بنا کر لائی تھی اور تب سے نبیلہ کے گھر ان کا آنا جانا استوار ہوگیا تھا۔ نبیلہ کی ماں ثریا خاتون نے بھی راشد کی ماں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا۔ نبیلہ اس وقت سیکنڈ ایئر میں پڑھتی تھی۔ محلے سے باہر ایک مصروف چوراہے پر کالج کی پوائنٹ بس آکر رکتی تھی اور نبیلہ اسی کالج پوائنٹ کے ذریعے کالج آیا جایا کرتی تھی، بس چوراہے تک اسے ذرا پیدل چلنا پڑتا تھا۔ 
 
گلی میں آتے جاتے اکثر نبیلہ کی نگاہ راشد پر پڑ جاتی تھی جو اپنی بائیک پر اپنے والد کے ساتھ نظر آتا تھا، تب صرف ایک لمحے کے لئے راشد اور نبیلہ کی نظریں چار ہوتی تھیں۔ ایک دو بار راشد نے ان کے گھر کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا۔ جب اس کی ماں کوئی خاص ڈش بناتی تو راشد ہی کے ہاتھ ان کے گھر بھیج دیا کرتی تھی۔ ثریا خاتون بھی اسی طرح ان کا خیال کرتی تھی۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ دستک دینے پر نبیلہ دروازہ کھولتی۔ راشد اور اس کا باقاعدہ سامنا ہوجاتا تھا مگر راشد اپنی نظریں نیچی ہی رکھتا تھا۔ عورت کو سب سے پہلے مرد کی شرافت متاثر کرتی ہے۔ یہی حال نبیلہ کا تھا۔ اسے راشد اچھا لگنے لگا تھا۔

اس روز وہ بس اسٹاپ پر ذرا دیر سے پہنچی تو کالج کی بس جا چکی تھی۔ نبیلہ کو کسی وجہ سے دیر ہوگئی تھی مگر جانا بھی ضروری تھا۔ آج اس کا ٹیسٹ تھا۔ اب اگر وہ بس پر جاتی تو لیٹ ہوجاتی کیونکہ کالج ایسے روٹ پر تھا جس کے لئے دو بسیں بدلنا پڑتی تھیں اور تاخیر الگ ہوجاتی خواری کے ساتھ…!
سوئے اتفاق اس روز راشد کے والد کی طبیعت ذرا خراب تھی اس لئے راشد اکیلے ہی بائیک پر نکلا۔ محلے کی گلی سے نکل کر جب وہ چوراہے پر آیا تو اس کی نظر بھی بس کے انتظار میں کھڑی نبیلہ پر پڑ گئی جو پریشان سی نظر آرہی تھی اور باربار اپنی رسٹ واچ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ راشد کو سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ معاملہ کیا تھا۔ بہرطور وہ اپنی بائیک سمیت اس کے قریب جا پہنچا۔ محلے داری کے حوالے سے کچھ شناسائی تو تھی لہٰذا اسے بڑے ادب سے سلام کرنے کے بعد نہایت شستہ لہجے میں بولا۔
’’آپ شاید لیٹ ہورہی ہیں، مناسب سمجھیں تو آپ کو کالج ڈراپ کردوں، میرا دفتر بھی اسی طرف پڑتا ہے۔‘‘
نبیلہ اس آفر کو رد نہ کرسکی اور کچھ تامل کے بعد سنبھل کر اس کی بائیک پر بیٹھ گئی۔

’’شاید آج آپ کا کالج پوائنٹ نکل گیا ہے؟‘‘ راشد نے بائیک آگے بڑھاتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
’’جی…!‘‘ وہ بولی۔ ’’عموماً ایسی صورتحال میں کالج نہیں جاتی ہوں مگر آج ہماری کلاس میں گروپ ٹیسٹ تھا۔‘‘
’’چلیں اچھا ہوا اس بہانے مجھے ایک کارخیر ادا کرنے کا موقع تو ملا۔‘‘ راشد نے مسکرا کر کہا۔ ’’ویسے سچ پوچھیں میں نے آپ کو ڈرتے ڈرتے ہی لفٹ کی آفر کی تھی کہیں آپ مجھے ڈانٹ ہی نہ دیں۔‘‘ اس کی بات پر نبیلہ ہنسی پھر بولی۔
’’آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں ایسا کرنے سے بھی دریغ نہ کرتی، ٹیسٹ جاتا بھاڑ میں مگر آپ کی بات اور ہے۔‘‘
’’اس اعتبار کا شکریہ! یہ میرے لئے فخر کی بات ہے کہ آپ مجھے کوئی ایسا ویسا لڑکا نہیں سمجھتیں۔‘‘ وہ بولا۔

’’آج انکل آپ کے ساتھ نہیں ہیں، خیریت…؟‘‘ نبیلہ نے ہولے سے پوچھا۔
’’ہاں! ان کی آج طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‘‘ اس نے مختصراً جواب دیا۔
یہ ان کی پہلی باقاعدہ ملاقات تھی پھر آگے چل کر مزید اس طرح کے مواقع میسر آئے تو دل کو بھی دل سے راہ ہوئی۔ محلے داری سے شناسائی اور پھر دوستی تک یہ سفر طے ہوا تو ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کا بھی موقع ملا۔ نبیلہ کو وہ ہر لحاظ سے ایک اچھا، شریف اور سلجھا ہوا انسان لگا تھا۔ اس نے بی کام کیا ہوا تھا۔
ایک دن بہت جھجکتے ہوئے راشد نے نبیلہ سے باہر گھومنے کے لئے جانے کی فرمائش کر ڈالی۔ نبیلہ کے لئے یہ مشکل تھا۔ یوں تو دونوں تھوڑی بہت باتیں کرنے کا موقع مل جایا کرتا تھا اور یہ بھی اس وقت جب راشد اپنی ماں کی بنی کوئی سوغات لے کر ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا۔ اگرچہ اس میں بھی ایک بہانے کا دخل ہوتا تھا، تاہم اس قلیل ترین ملاقات پر بھی نبیلہ محتاط رہتی اور راشد کو بھی یہی تلقین کرتی۔

بندہ پیاسا رہے تو پیاس اتنی شدت سے نہیں ستاتی جتنی قطرہ قطرہ پانی ملنے پر ستاتی ہے۔ پیاسے کے لئے تو یہ قطرہ گویا بھڑکتی آگ پر پیٹرول چھڑکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہی حال راشد کا تھا اور نبیلہ کی بھی کم و بیش یہی کیفیت تھی۔
’’پلیز نبیلہ! کچھ کرو نا!‘‘ اس روز راشد نے بڑی حسرت سے کہا۔ ’’یہ مشکل ہے میرے لئے راشد!‘‘ نبیلہ نے سر جھکا کر ہولے سے کہا۔
’’کسی سہیلی سے ملنے کے لئے جانے کا بہانہ تو بنا ہی سکتی ہو۔‘‘
’’اور اگر تمہاری بائیک پر کسی محلے والے یا والی نے دیکھ لیا تو…؟‘‘ نبیلہ نے پیار سے اسے گھورا۔

’’میں اتنا بے وقوف تھوڑا ہی ہوں، ذرا آگے جاکر تمہارا انتظار کروں گا۔‘‘
’’نا بابا…! مجھے ڈر لگتا ہے۔ یہ ہم جیسوں کے لئے بڑی بات ہے۔‘‘
’’دیکھو، میں جانتا ہوں عزت دار گھرانوں کی لڑکیاں کبھی ایسا نہیں کرتیں اور یہ اچھی بات بھی ہے لیکن میں تم سے ذرا کھل کر بات کرنا چاہتا ہوں، کسی کھلی فضا میں!‘‘ راشد نے کہا۔ نبیلہ کو جانے کیوں اس کی بات پر لاج سی آگئی۔ بولی۔ ’’تم کیا بات کرنا چاہتے ہو؟‘‘
 
’’کیا اب بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے؟‘‘ راشد محبت پاش نظروں سے نبیلہ کے چہرے کی طرف گھورتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بولا۔ نبیلہ سرخ ہوگئی، تاہم ہنس کر بولی۔ ’’جب ضرورت نہیں ہے تو باہر جانے کا مقصد…؟‘‘
’’تم ایسے باز نہیں آئو گی۔‘‘ راشد زچ ہوکے بولا۔ ’’تو پھر میں اپنی امی جان کو تمہارے گھر بھیج کر رہوں گا، تمہارا رشتہ مانگنے کے لئے!‘‘
’’نا…نا! ابھی یہ غضب مت کرنا، ابھی تو مجھے آگے پڑھنا ہے، نرسنگ کورس کرنا ہے۔‘‘ ’’تو پھر چلو میرے ساتھ!‘‘ راشد نے پیار بھرے انداز میں بلیک میلنگ سے کام لیا تو نبیلہ کو ماننا پڑا، مگر اس شرط کے ساتھ صرف ایک بار کے لئے۔
 
 یوں شام کو ایک روز دونوں بائیک پر سوار ہوکر ساحل سمندر پر جا پہنچے۔ دونوں نے وہاں پیدل ٹہلتے ہوئے کھل کر باتیں کیں، چنے کی چاٹ کھائی پھر جب لوٹنے لگے تو انہیں ایک حادثہ پیش آگیا۔
 
اس وقت سورج ڈھلنے لگا تھا اور شام گہری ہونے لگی تھی۔ نبیلہ گھر سے ایک سہیلی کے ہاں منگنی کی رسم میں شرکت کرنے کا بہانہ کرکے نکلی تھی جس کی اسے بڑی مشکل سے ہی اجازت ملی تھی۔

لوٹتے سمے عقب سے آنے والی ایک کار تیزی سے انہیں سائیڈ مارتی گزر گئی۔ بائیک کو جھٹکا لگا۔ نبیلہ خوف سے چیخی، بائیک گرتے گرتے بچی تھی۔ راشد کو اس کار والے کی لاپرواہی پر غصہ آگیا۔ اس نے پرطیش انداز میں اپنے دانت بھینچ لئے اور کار کا تعاقب کرتے ہوئے ایک موڑ پر اسے جا لیا۔ اپنی بائیک اس نے کار کے سامنے جا روکی تھی۔

’’اندھے ہو یا نشے میں کار چلا رہے تھے۔ اگر کوئی حادثہ ہوجاتا تو…؟‘‘ راشد نے بائیک سے اتر کر کار والے کے قریب جاکر غصے سے کہا۔ وہ بھی راشد کی طرح ایک نوجوان ہی تھا۔ شکل و صورت اور اپنی وضع قطع سے وہ کوئی رئیس زادہ ہی نظر آتا تھا۔ اس نے ایک تضحیک آمیز نگاہ دونوں پر ڈالی پھر اپنے پرس سے ہزار کا ایک نوٹ نکال کر راشد کی طرف بڑھاتے ہوئے بیزاری سے بولا۔ ’’یہ رکھ لو اور جاکر اپنی اس خوبصورت گرل فرینڈ کے ساتھ مزے کرو، میری جان چھوڑو۔‘‘ اس رئیس زادے کی اس حرکت اور بات نے راشد کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ اس نے ہونٹ بھینچ کر آئو دیکھا نہ تائو اس رئیس زادے کے چہرے پر گھونسہ جڑ دیا۔ ضرب کاری تھی، اس کا ہونٹ پھٹ گیا اور وہاں سے خون بہنے لگا۔ مگر اس نے کمال صبر سے کام لیا۔ ڈیش بورڈ پر رکھے ٹشو پیپر باکس سے ٹشو لے کر اپنا خون آلود ہونٹ صاف کیا، پھر کار سے نیچے اتر آیا۔ وہ بھی راشد کی طرح خوبرو اور اسمارٹ تھا۔ نبیلہ اس صورتحال پر خوف زدہ ہوگئی اور راشد کا بازو تھام کر سراسیمہ انداز میں بولی۔

’’چلو راشد! چلو پلیز…!‘‘ مگر راشد ٹس سے مس نہ ہوا۔
رئیس زادے نے راشد کی بائیک کا نمبر نوٹ کیا۔ اس کے بعد اپنی جیب سے سیل فون نکال کر کھڑے کھڑے ایک نمبر ملایا جو شاید کسی قریبی تھانے کا تھا۔ ذرا ہی دیر میں وہاں پولیس آن پہنچی۔ رئیس زادے نے پہلے اپنا تعارف کروایا اس کے بعد نبیلہ اور راشد کی طرف اشارہ کیا۔

’’یہ دونوں مجھے لوٹنے کی کوشش کررہے تھے، میں نے ان پر قابو پانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے گھونسہ جڑ دیا۔‘‘ رئیس زادے نے جھوٹ بولا۔
’’چلو دونوں تھانے!‘‘ ایک موٹے پولیس والے نے کرخت لہجے میں ان دونوں کی طرف باری باری گھورتے ہوئے کہا۔
نبیلہ کے تو اوسان ہی خطا ہوگئے۔ تھانے کے نام پر ہی اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ وہ رئیس زادہ بڑی شاطرانہ نظروں سے نبیلہ کا جائزہ لے رہا تھا اور اس کی پریشانی سے فوراً سمجھ گیا کہ لڑکی کا تعلق بلاشبہ ایک شریف اور قدامت پرست گھرانے سے تھا۔

’’یہ جھوٹ بول رہا ہے، اس نے ہماری بائیک کو ٹکر ماری تھی۔‘‘ راشد نے غصیلے لہجے میں پولیس والے سے کہا۔ ’’تم میری تلاشی لے سکتے ہو، لوٹنے والوں کے پاس اسلحہ ہوتا ہے اور پھر میں بھاگا نہیں بلکہ اپنی مرضی سے یہاں رکا ہوا ہوں۔‘‘
’’اسلحہ بھی ہم برآمد کرلیں گے۔‘‘ پولیس والا معنی خیز مکاری سے بولا۔ ’’ذرا تم دونوں تھانے تو چلو۔‘‘
 
اس کی بات پر نبیلہ کو غش آنے لگے۔ پولیس نے راشد کو ہتھکڑی لگائی تو نبیلہ اس رئیس زادے کے سامنے منت سماجت کرتے ہوئے بولی۔
’’دیکھیں پلیز ہمیں معاف کردیں، ان سے کہیں ہمیں چھوڑ دیں، میں ایک شریف لڑکی ہوں۔ میرا بوڑھا باپ اور گھر والے جیتے جی اس بدنامی سے مر جائیں گے۔‘‘
رئیس زادے نے بڑی شیطانی نظروں سے نبیلہ کا جائزہ لیا، پھر پولیس والے سے بولا۔ ’’اس مجنوں کی اولاد کو بے شک لے جائو، اسے چھوڑ دو۔‘‘
اس نے پہلے راشد کی طرف اور آخر میں نبیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ نبیلہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ عزت کے خوف سے بھی ادھ موئی ہوئی جارہی تھی۔ ایسے حالات سے وہ پہلی بار ہی دوچار ہوئی تھی جس نے اس کی عقل خبط کرکے رکھ دی تھی۔ پھر سب کچھ تیزی سے ہوا۔ پولیس راشد کو لے گئی۔ اب وہاں صرف نبیلہ اور وہ رئیس زادہ رہ گئے۔