’’اس سنسان سڑک پر نبیلہ اکیلی اس رائیس زادے کیساتھ کھڑی اس شش و پنج میں تھی کہ اب اس کا کیا بنے گا؟۔ اچانک میدان صاف دیکھ کر رئیس زادے نے ہراساں اور حیران پریشان کھڑی نبیلہ سے کہا۔: آؤ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں۔‘‘
نبیلہ کو دیر ہورہی تھی۔ رات سر پر تھی، اریب قریب میں کسی سواری کا آسرا بھی نہ تھا، تاہم شش و پنج میں مبتلا تھی۔ رئیس زادے نے اس کی کیفیات کا جائزہ لیتے ہوئے، لہجے میں شائستگی سموتے ہوئے کہا۔
نبیلہ کو دیر ہورہی تھی۔ رات سر پر تھی، اریب قریب میں کسی سواری کا آسرا بھی نہ تھا، تاہم شش و پنج میں مبتلا تھی۔ رئیس زادے نے اس کی کیفیات کا جائزہ لیتے ہوئے، لہجے میں شائستگی سموتے ہوئے کہا۔
’’قصور میرا اتنا بڑا بھی نہیں تھا جس پر تمہارے بوائے فرینڈ نے میرے منہ پر گھونسہ جڑ دیا بلکہ میں تو اسے سوری بھی کہہ چکا تھا۔ شاید بے چارے کو احساس کمتری کھا گیا تھا۔ خیر آپ فکر نہ کریں، میں تھانے فون کردوں گا، پولیس تمہارے بوائے فرینڈ کو چھوڑ دے گی۔ دراصل آج میری سسٹر کی شادی تھی، میں نے اسے پارلر سے پک کرنا تھا، دیر ہورہی تھی مجھے، اسی لئے کار تیز رفتاری سے بھگا رہا تھا۔‘‘
’’آ… آپ… مجھے کسی اسٹاپ تک چھوڑ دیں، میں آگے بس میں چلی جائوں گی۔‘‘ نبیلہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’آف کورس! آئیں۔‘‘ رئیس زادے نے جھٹ سے کہا اور اپنے برابر کی سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔
’’میرا نام صفدر ہے… صفدر حیات! میں معروف صنعتکار ملک فیاض کا بیٹا ہوں۔ کار اسٹارٹ کرکے آگے بڑھاتے ہوئے اس نے اپنا تعارف کرایا پھر چند لمحوں کے توقف سے سوال کیا۔ ’’آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
’’نبیلہ…!‘‘
’’پیارا نام ہے، آپ کی طرح!‘‘ رئیس زادے صفدر نے کہا پھر بڑی چالاکی سے دانستہ ایک ویران چوراہے پر کار روک دی جہاں دور دور تک کسی سواری کا نام و نشان تک نہ تھا۔ نبیلہ پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ صفدر عیاری سے بولا۔ ’’میں نے اپنا کہا پورا کیا، آپ یہاں اتر سکتی ہیں، میرا خیال ہے کوئی نہ کوئی بس تو آ ہی جائے گی۔‘‘
نبیلہ بے بسی سے رو پڑی۔ لوہا گرم دیکھ کر صفدر نے کہا۔ ’’آپ ہی کی ضد تھی، اب بھلا یہاں آپ کو کون سی سواری ملے گی جبکہ آپ کو پہلے ہی گھر سے دیر ہورہی ہے۔ چلیں میں آپ کو گھر پر ہی چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے کار آگے بڑھا دی۔ تیر نشانے پر لگتا دیکھ کر اسے یقین ہوگیا تھا کہ اب یہ پریشان حال لڑکی انکار نہیں کرسکتی۔
’’اب دیر تو ہوہی گئی ہے۔ آپ کو یقیناً اپنے گھر والوں کو اپنی تاخیر کا کوئی نہ کوئی جواز بھی دینا پڑے گا۔‘‘ ذرا آگے جاکر صفدر نے مکاری سے کہا۔ وہ بدستور نبیلہ کی ایک ایک کیفیت کا جائزہ لے رہا تھا۔ ’’میرے ذہن میں ایک معقول تجویز آئی ہے، آپ کے گھر والوں کو مطمئن کرنے کی، مگر پہلے آپ یہ بتائیں مجھے کہ یہ سارا معاملہ رازداری کا تھا…؟ میرا مطلب ہے…!‘‘ اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا۔
’’راشد میرے محلے میں ہی رہتا ہے۔‘‘ نبیلہ اس کی بات کا مطلب سمجھ کر بالآخر بولی۔ ’’ہمارے بارے میں کسی کو علم نہیں، میں بھی گھر والوں کو اپنی کسی سہیلی کی منگنی کا بہانہ بنا کر نکلی تھی۔‘‘
’’تو بس کام بن گیا۔‘‘ وہ جھٹ سے بولا۔ ’’ایسا کرتے ہیں سب سے پہلے پارلر سے میں اپنی بہن کو پک کرتا ہوں پھر ہم ساتھ تمہارے گھر چلیں گے تاکہ انہیں بھی یقین آجائے تم نے ان سے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ میں اور میری بہن تمہارے گھر والوں سے تاخیر کی معذرت بھی کرلیں گے۔ اس طرح تمہاری بات بھی سچی ہوجائے گی۔‘‘ نبیلہ کو یہ تجویز پسند آئی۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے سر سے بار اتر گیا ہو مگر وہ راشد کی طرف سے ابھی تک صفدر کے تسلی دلانے کے باوجود پریشان تھی۔ اسی لہجے میں بولی۔ ’’وہ… وہ راشد…!‘‘
’’اس کی فکر نہ کرو، وہ جلد یا بدیر گھر پہنچ ہی جائے گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر کینہ پروری کی تلخی ابھر آئی تھی۔
صفدر، نبیلہ کو کسی پارلر پر لانے کے بہانے سیدھا ایک فلیٹ میں لے گیا جہاں اس کے تین چار اوباش دوست پہلے ہی سے موجود تھے۔ اس صورتحال پر نبیلہ کی حالت غیر ہوگئی۔
’’لو پکڑو تازہ بہ تازہ شکار…!‘‘ صفدر نے نبیلہ کو اپنے اوباش ساتھیوں کی طرف دھکیلا جو اس کی طرف گرسنہ نظروں سے گھور رہے تھے۔ اس نے بڑے اطمینان سے اپنی جیب سے سیل فون نکالا اور متعلقہ تھانے کا نمبر ملانے کے بعد بولا۔
’’ہاں! ابھی جو راشد نام کا وہ مجرم لڑکا پکڑا ہے، اس کی ایسی حالت بنا دو کہ گھر والے بھی اسے نہ پہچان پائیں۔ تمہارا حصہ پہنچا دیا جائے گا۔‘‘ اس نے شاید اسی پولیس والے سے بات کی تھی جس نے راشد کو ہتھکڑیاں لگائی تھیں۔
یہ صفدر حیات اور اس کے ٹولے کا معمول تھا، ان کا پرانا مشغلہ تھا۔ صفدر اسی طرح معصوم لڑکیوں کو پھنسا کر یہاں لایا کرتا تھا۔ نبیلہ رو رہی تھی، ان درندوں کے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی، ان کی منتیں کررہی تھی مگر اس کی داد فریاد ان کے شیطانی قہقہوں میں دبی جارہی تھی۔ یکایک عزت بچانے کی قوت خوف پر غالب آگئی۔ ایک شیطان کے دھکا دینے پر اس نے سیدھی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ سب طاقت کے زعم میں چور نبیلہ کی پھرتی کو نہ سمجھ پائے۔ جب ہوش آیا تو نبیلہ فلیٹ کا دروازہ کھول کر دیوانہ وار باہر دوڑتی ہوئی نکل گئی۔
نجانے کسی طرح ایک بھلا مانس رکشے والا کسی فرشتے کی مانند اسے ٹکرا گیا، اس نے کرایہ بھی نہ لیا اور اسے گھر پہنچا دیا۔
عورت تو کچے گھڑے کی مانند ہوتی ہے، ذرا ہاتھ لگا اور گھڑا تڑخ گیا۔ وہ ٹوٹی تو نہ تھی مگر تڑخ گئی تھی۔ شریف زادی کے لئے یہی بے عزتی کیا کم تھی کہ غیر مردوں کے ہاتھوں نے اسے کھلونے کی طرح اچھالا تھا۔ وہ جیسے تیسے عزت تو بچا آئی تھی مگر یہ بے عزتی اس کے ضمیر میں کانٹے کی طرح چبھ کر رہ گئی۔
اسے راشد کی فکر ستانے لگی۔ بول بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے جارہا تھا۔ اگلے دن راشد کی ڈھنڈیا پڑی تو معلوم ہوا کہ وہ تھانے میں تھا۔ بے چارے کے گھر والے تھانے کی طرف دوڑے۔ ادھر نبیلہ کو باربار راشد کا خیال ستانے لگا کیونکہ اسے یاد تھا اس شیطان صفت انسان صفدر نے پولیس والے کو راشد کے متعلق اپنے سیل فون پر کیسی سنگین ہدایات دی تھیں۔ نجانے اب راشد کا وہ کیا حشر کرنے والے تھے۔ معاملہ ایسا تھا کہ نبیلہ اپنا منہ بھی بدنامی کے خوف سے نہیں کھول سکتی تھی، البتہ یہ ڈر ہورہا تھا کہیں پولیس والے یا پھر خود راشد ہی اصل حقیقت نہ اگل دے۔ پولیس والے تو خیر نبیلہ کو نہیں جانتے تھے مگر کیا راشد تھانے میں نبیلہ کے سلسلے میں اپنا منہ بند رکھ سکتا تھا؟
نبیلہ کو کچھ امید تو تھی کہ چاہے کچھ ہوجائے، راشد اس کا نام زبان پر نہیں لائے گا اور کسی کو بھی اس کے بارے میں نہیں بتائے گا۔ نبیلہ کے دل میں صفدر کا بھی خیال آیا۔ اس کے جی میں تو آئی کہ وہ بھی راشد کے گھر والوں کے ساتھ تھانے جا پہنچے اور صفدر اور اس کے شیطانی ٹولے کے کرتوتوں کے بارے میں اُگل دے۔ مگر وہ پہلے ہی دیکھ چکی تھی کہ کون اس کی بات پر بھروسہ کرتا، الٹا مصیبت اور بدنامی گلے پڑتی۔ بے بسی کے احساس تلے وہ بے اختیار رو پڑی۔
شام کو کہیں جاکر راشد کے گھر والے اسے لئے گھر پہنچے تھے۔ دیوار کے پار شور ابھرا تو نبیلہ کی ماں جھٹ چادر اوڑھے خیریت دریافت کرنے جا پہنچی اور نبیلہ بے چینی سے ماں کی واپسی کا انتظار کرنے لگی، تاہم اس نے خود بھی دیوار کے ساتھ چارپائی لگا کر اس پر کھڑے ہوکے دوسری طرف صحن میں جھانکنے کی کوشش کی تھی اور ایک روح فرسا منظر اسے بھی نظر آیا تھا۔ راشد کے گھر والے زاروقطار رو رہے تھے اور خود راشد انتہائی زخمی حالت میں چارپائی پر پڑا تھا۔ ظالم پولیس والوں نے اس پر بہیمانہ تشدد کیا تھا اور اس کی مرہم پٹی بھی کی تھی۔ راشد کا باپ غصے سے بھرا ہوا تھا۔ بیوی اسے روک رہی تھی کہ پولیس کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا، یہی کافی تھا ان کے لئے کہ انہوں نے ان کے بیٹے کو چھوڑ دیا تھا۔
بعد میں نبیلہ کی ماں نے تفصیل اسے بتائی تھی کہ پولیس نے راشد پر اور بھی نجانے کیا کیا بڑے سنگین جرائم تھوپ ڈالے تھے۔ وہ چاہتے تو راشد کے ناکردہ جرائم کا چالان بنا کر اسے سزا بھی دلوا سکتے تھے۔ تاہم معاملہ ختم کردیا گیا تھا مگر راشد اب بستر سے لگ گیا۔ نبیلہ کو اس پر بے حد ترس بھی آیا، وہ سوچنے لگی کہ اسے بھی اتنی سی بات بڑھانا نہیں چاہئے تھی۔ اتنی سی بات پر غصہ دکھانے کا بھلا کیا فائدہ ہوا، سوائے نقصان اٹھانے کے…! کچھ دنوں بعد جب راشد ذرا چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو دونوں کی مختصر ملاقات ہوئی۔ راشد، نبیلہ سے ناراض ناراض تھا۔ وجہ پوچھنے پر اس نے کہا۔ ’’اس رات تمہیں بھی میرے ساتھ تھانے چلنا چاہئے تھا، تم نے بڑی خودغرضی دکھائی، مجھے تمہاری فکر ستاتی رہی تھی۔ تم کیسے گھر پہنچی تھیں اس رات…؟‘‘ اس نے گویا پھٹتے ہوئے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔ نبیلہ نے بھی اس سے کچھ نہیں چھپایا۔ جو سچ تھا، وہ اس نے راشد کے سامنے اگل دیا اور اپنے دفاع میں بولی۔
’’میں اس وقت خود بہت خوف زدہ اور پریشان ہوگئی تھی، میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، میں کیا کروں… میں پہلے کبھی ایسے حالات سے کب گزری تھی۔ تم نے دیکھا نہیں تھا کہ وہ پولیس والے صفدر نامی اس اوباش رئیس زادے کا کس طرح حکم مان رہے تھے، ہماری سن رہے تھے وہ…! میں بھی اگر تمہارے ساتھ تھانے جاتی تو بدنامی…!‘‘
’’بدنامی… بدنامی…!‘‘ راشد غصے سے چیخا۔ ’’کیا ہوجاتا پھر ہم نے کون سا سنگین جرم کر ڈالا تھا نبیلہ صاحبہ! تم نے جب محبت کی ہے مجھ سے تو بہادر بھی بن کے دکھانا تھا۔ میں تو تم سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ بس ایک ذرا سیر کو ہی تو نکلے تھے اور مجھے کیا معلوم تم ان بھیڑیوں کے نرغے میں کب تک پھنسی رہیں اور انہوں نے تمہارے ساتھ کیا کیا…؟
‘‘
راشد کی بات سن کر نبیلہ سکتے میں رہ گئی۔ بولی۔ ’’کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں۔ اس بات پر بھی نہیں کہ میں کس طرح اس قیامت کی رات کو اپنی عزت بچا کر ان خوفناک درندوں کے نرغے سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئی تھی؟‘‘
راشد طنزیہ ہنسی سے بولا۔ ’’میں کیسے بھروسہ کرلوں نبیلہ صاحبہ! جو لڑکی مجھے پولیس والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کے اس اوباش لڑکے کی کار میں…!‘‘
’’بس کرو راشد…!‘‘ نبیلہ کو بھی اس کی یاوہ گوئی پر غصہ آگیا۔ ’’تم ایک شریف اور پاک دامن لڑکی پر الزام عائد کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ کیا تمہیں خود پہلے یہ احساس نہ ہوا تھا کہ میں تمہاری ضد اور اصرار پر مجبور ہوکے تمہارے ساتھ… ایک لڑکے کے ساتھ پہلی بار گھر والوں سے جھوٹ بول کر باہر نکلی تھی۔ حالات اور موقع محل کا تو پہلے تمہیں احساس کرنا چاہئے تھا۔ کیا ضرورت تھی ایک ذرا سی بات پر اس امیرزادے سے الجھنے کی۔ نجانے ایسے کتنے واقعات روزانہ ہوتے ہوں گے، تمہیں بھی درگزر کرنا چاہئے تھا۔
راشد کی بات سن کر نبیلہ سکتے میں رہ گئی۔ بولی۔ ’’کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں۔ اس بات پر بھی نہیں کہ میں کس طرح اس قیامت کی رات کو اپنی عزت بچا کر ان خوفناک درندوں کے نرغے سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئی تھی؟‘‘
راشد طنزیہ ہنسی سے بولا۔ ’’میں کیسے بھروسہ کرلوں نبیلہ صاحبہ! جو لڑکی مجھے پولیس والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کے اس اوباش لڑکے کی کار میں…!‘‘
’’بس کرو راشد…!‘‘ نبیلہ کو بھی اس کی یاوہ گوئی پر غصہ آگیا۔ ’’تم ایک شریف اور پاک دامن لڑکی پر الزام عائد کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ کیا تمہیں خود پہلے یہ احساس نہ ہوا تھا کہ میں تمہاری ضد اور اصرار پر مجبور ہوکے تمہارے ساتھ… ایک لڑکے کے ساتھ پہلی بار گھر والوں سے جھوٹ بول کر باہر نکلی تھی۔ حالات اور موقع محل کا تو پہلے تمہیں احساس کرنا چاہئے تھا۔ کیا ضرورت تھی ایک ذرا سی بات پر اس امیرزادے سے الجھنے کی۔ نجانے ایسے کتنے واقعات روزانہ ہوتے ہوں گے، تمہیں بھی درگزر کرنا چاہئے تھا۔
اس
کا مطلب ہے اس امیر زادے نے تمہارے بارے میں درست اندازہ لگایا تھا کہ تم
نے یہ سب اپنے احساس کمتری میں آکر کیا تھا اور اس کے چہرے پر گھونسہ مار
کے اسے لہولہان کر ڈالا تھا اور سنو…! مجھے تمہارے
سامنے تمہید باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرا اعتبار کرو یا نہ کرو مگر
میری پاکدامنی کا گواہ میرا اللہ تو ہے۔ اگر میں اس روز تمہارے ساتھ تھانے
چلی بھی جاتی تو بھی تم کیا کرلیتے، بتائو مجھے…؟ وہاں میرا اس سے زیادہ
برا حشر کیا جاسکتا تھا۔ تمہیں تو شکر ادا کرنا چاہئے تھا کہ ہماری عزت بچ
گئی۔ اپنے گھر والوں کی بدنامی کے بعد کیا میں خوش رہ سکتی تھی اور پھر
تمہارا میرے گھر والوں پر کیا خراب اثر پڑتا یہ تم نے سوچا…!‘‘
’’تو اب کیا ہوا…؟‘‘ وہ بولا۔ ’’اب بھی تمہارے گھر والے مجھے ہی مجرم سمجھ رہے ہوں گے۔‘‘
’’تو اب کیا ہوا…؟‘‘ وہ بولا۔ ’’اب بھی تمہارے گھر والے مجھے ہی مجرم سمجھ رہے ہوں گے۔‘‘
’’ہرگز نہیں!‘‘ نبیلہ مستحکم لہجے میں بولی۔ ’’انہیں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ تم شریف لوگ ہو اور پولیس کو تم نے جو بیان دیا تھا، اس پر میں تمہارا احسان نہیں بھولوں گی کہ تم نے میرا نام نہیں آنے دیا۔ میرے گھر والے یہی سمجھ رہے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پولیس نے ایک معمولی بات کا بتنگڑ بنا کر تم پر بلاجواز تشدد کیا۔‘‘
نبیلہ کی باتوں نے راشد پر خاطرخواہ اثر کیا تھا۔ ایک گہری سانس خارج کرکے گویا اس نے اپنے اندر کی ساری کدورت پھونک ڈالی۔ پھر ہولے سے بولا۔ ’’سوری نبیلہ! میں واقعی جذباتی ہوگیا تھا۔ میں نے تمہیں غلط سمجھا، کیا مجھ سے تم خفا ہو؟‘‘
نبیلہ کی آنکھیں بھیگ گئیں اور اس نے بھی اپنا سر جھکا لیا۔ راشد نے بڑی محبت سے اس کے آنسو پونچھے اور بولا۔
’’میں اب تمہیں کسی امتحان میں نہیں ڈالوں گا اور اب تم بھی مجھے نہیں روکو گی۔ میں چند دنوں میں تمہارے رشتے کے لئے اپنی امی کو بھیج رہا ہوں۔‘‘
’’لل… لیکن! میرا نرسنگ کا خواب…؟‘‘
’’وہ بھی پورا ہوجائے گا۔ شادی کے بعد بھی تم اسے جاری رکھ سکتی ہو، مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔‘‘
’’وعدہ…؟‘‘
’’پکا وعدہ‘‘
***
نبیلہ نے خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ اس کی زندگی میں ایک بڑا بھونچال آتے آتے پلٹ گیا تھا۔ وہ اب اس تلخ واقعے کو ایک ڈرائونے خواب کی طرح دل و دماغ سے بھلانے لگی تھی، مگر تقدیر کو شاید ابھی اور امتحان مقصود تھے۔
نبیلہ کو معلوم نہ تھا کہ راشد کے اندر کیسا لاوا پک رہا تھا۔ اس نے اس رات کی بات کو اپنی غیرت کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ اب یہ اس کا نیک مقصد ہی کہا جاسکتا تھا یا پھر جنون کہ اس نے اس امیر زادے صفدر کی دشمنی کو دل سے لگا لیا تھا۔
نبیلہ
سے اس نے اس کے اڈے نما اس فلیٹ کا پتا معلوم کرلیا تھا جدھر وہ دھوکے سے
نبیلہ کو لے کر گیا تھا، ساتھ ہی اس نے ایک ذمہ دار پولیس افسر کو بھی ان
ساری باتوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ صفدر نامی اس شیطان اور اس
کے چیلوں کا کام ہی اس طرح کی عیاشی کرنا ہے جو نجانے اب تک کتنی معصوم بے
گناہ لڑکیوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ ظلم کرچکے ہوں گے۔ تب اس افسر نے بھی
اس بات کے حوالے سے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا تھا کہ انہیں بھی ایک ایسے
گروہ کی تلاش ہے جو لڑکیوں کو بھلا پھسلا کر یا دھوکے سے اغوا کرکے اپنے
ٹھکانے پر لے جاتے ہیں، پھر ان کی قابل اعتراض ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل
کرتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں تو خودکشی کرلیتی ہیں یا قتل کردی جاتی ہیں۔ تم
ہماری مدد کرو، ایسے گروہ کو کیفرکردار تک پہنچانے کی۔
بس پھر کیا تھا راشد نے فوراً مذکورہ فلیٹ کی نشاندہی کردی۔ مذکورہ پولیس افسر نے کچھ ان کے ٹھکانے کی مخبری کی اور پھر جب اسے مخبر کی طرف سے گرین سگنل ملا تو انہوں نے چھاپہ مارا۔ وہاں وہ ایک مجبور اور بے کس لڑکی کو اٹھا لائے تھے اور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔ ساتھ ہی اس پولیس افسر نے ان پولیس والوں کے خلاف بھی کارروائی کر ڈالی جو اس گروہ کی سپورٹ کرتے تھے۔ یہ سب راشد کی نشاندہی پر ہوا۔
صفدر اپنے اوباش ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہوچکا تھا لیکن محکمہ جاتی کارروائی کی زَد میں آنے والی ایک پولیس کی ایک کالی بھیڑ نے صفدر کے کان میں یہ بات ڈال دی تھی کہ یہ سب اسی لڑکے راشد کی وجہ سے ہوا تھا۔
جب راشد نے دیکھا کہ اس نے اپنے مقصد میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کرلی ہے تو اس نے بڑے فخر و انبساط کے ساتھ نبیلہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ اس نے زیادتی کرنے والوں کو اور ان کے سرغنہ صفدر کو بالآخر قانون کی گرفت میں پھنسا کر چھوڑا۔ اس کا خیال تھا نبیلہ خوش ہوگی مگر اس کے برعکس یہ سن کر نبیلہ کے چہرے پر تشویش کے آثار نمودار ہوگئے۔
’’کیا ہوا… تمہیں کوئی خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ وہ اس کے تاثرات کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔
’’نہیں! یہ بات نہیں، اچھا ہوا وہ لوگ اپنے انجام کو پہنچے مگر راشد! پتا نہیں کیوں مجھے اس قسم کے حالات اور جھگڑوں سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’آئے دن ٹی وی، اخبارات میں آتا رہتا ہے کہ اس طرح کی دشمنیوں کے بعد میں کتنے خطرناک نتائج نکلتے ہیں اور قانون بے بس نظر آتا ہے۔‘‘
’’یہ تمہارا وہم ہے، عورت ہو نا…! سدا کی ڈرپوک ٹھہریں۔ خیر چھوڑو اور سنو!‘‘ وہ چہک کر بولا۔
’’میں نے امی جان سے بات کرلی ہے، انہیں میری پسند پر کوئی اعتراض نہیں۔ ابو سے وہ بعد میں بات کریں گی، پہلے وہ کل آکر تمہاری امی یعنی خالہ کا عندیہ لینا چاہتی ہیں، پھر باقاعدہ بات آگے بڑھائیں گی۔‘‘ اس کی بات پر نبیلہ نے دھیرے سے مسکرا کر اپنا سر جھکا لیا۔
محبت کی منزلیں کبھی اتنی آسان بھی ثابت ہوسکتی ہیں، اس کا اندازہ دونوں کو ہی نہ تھا۔ دونوں کی بات پکی کردی گئی۔ معاملہ ابھی زبانی کلامی تک ہی محدود تھا مگر ان دونوں کے لئے یہی کیا کم تھا کہ دونوں بہت جلد ایک ہونے والے تھے۔ اس رعایت سے دونوں کبھی کبھار سیر و سپاٹے کے لئے بھی نکل جایا کرتے تھے۔
ایک موقع پر وہ بائیک پر کہیں گھومنے کے لئے نکلے تھے۔ دونوں بہت خوش اور شاداں و فرحاں تھے۔ ایک خوبصورت تفریحی مقام سے وہ واپس لوٹنے لگے تو اچانک ایک نسبتاً سنسان مقام پر راشد کو بریک لگانے پڑے۔ بائیک سلپ ہوتے ہوتے بچ گئی۔ پیچھے بیٹھی نبیلہ کے حلق سے چیخ خارج ہوگئی۔ وجہ وہ گاڑی تھی جو اچانک ان کے راستے پر آن رکی تھی۔
راشد بائیک کو سائیڈ اسٹینڈ پر کھڑی کرکے غصے سے کار والے کی طرف بڑھا مگر اس سے پہلے ہی کار کے دو دروازے ایک دم سے کھلے۔ وہ چار نوجوان تھے۔ ایک کو تو راشد بھی پہچان گیا تھا۔ وہ وہی اوباش امیر زادہ صفدر حیات تھا باقی تین اس کے وہی ساتھی جنہیں نبیلہ بھی پہچانتی تھی۔ خوف سے وہ چیخ پڑی۔ راشد کے چہرے پر بھی غصے کی جگہ تشویش آمیز پریشانی نے لے لی۔
’’کیوں ہیرو! کیا سمجھتا تھا تو ہمیں اندر کروا کے بچ جائے گا؟‘‘ صفدر خوف ناک نال والا پستول نکال کر اس کی طرف رخ کرتے ہوئے نفرت سے دانت بھینچ کر بولا اور دوسرے ہی لمحے راشد نے واپس پلٹ کر بھاگنے کی کوشش کی۔ ڈز… ڈز… ڈز…! سناٹے دار فضا میں تین فائر ہوئے۔ صفدر کے ہاتھ میں دبے ہوئے پستول سے تین شعلے برآمد ہوئے جنہوں نے پلک جھپکتے ہی راشد کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ نبیلہ دہشت زدہ رہ گئی۔ راشد کو لہولہان ہوکر گرتے دیکھ کر اسے غش آگیا۔ دفعتاً فائر کی آواز پر کوئی گشتی پولیس گاڑی سائرن بجاتی ہوئی ادھر کو آنے لگی تو صفدر اور اس کے ساتھی نبیلہ کو چھوڑ کر اپنی کار کی طرف دوڑے اور فوراً رفوچکر ہوگئے۔ نبیلہ بے ہوش ہوکر گر چکی تھی۔
اس کی آنکھ ایک اسپتال میں کھلی تھی۔ راشد کی لاش کو بھی پوسٹ مارٹم کے لئے وہیں لایا گیا تھا۔ نبیلہ اور راشد کے گھر والوں کو بھی مطلع کردیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد روتے پیٹتے وہیں آگئے۔ نبیلہ کو تو جیسے سکتہ ہوگیا تھا۔ وہ پولیس کو کوئی بیان دینے سے قاصر ہی تھی۔
کئی دنوں بعد جب نبیلہ اپنے ہوش و حواس میں آئی تو اس نے سوچا قانون شاید صفدر جیسے امیر زادوں کے لئے ہی بنا ہے۔ اگر وہ دوبارہ اس کے خلاف بیان دینے کی کوشش کرتی تو ممکن ہے اس کے گھر والوں پر بھی ویسا ہی عتاب نازل ہوسکتا تھا جو راشد کے گھر والوں پر نازل ہوچکا تھا لہٰذا اس نے پولیس کو نامعلوم افراد کے خلاف بیان دے دیا۔
کچھ دنوں بعد نبیلہ کے گھر والوں نے وہ گھر ہی نہیں محلہ بھی چھوڑ دیا اور کسی دوسری جگہ شفٹ ہوگئے۔ اس دوران نبیلہ کے والد کا بھی ایکسیڈنٹ ہوگیا جس میں وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اب ساری ذمہ داری نبیلہ کے کاندھوں پر آن پڑی تھی۔ نبیلہ تب تک نرسنگ کورس مکمل کرچکی تھی اور ایک بڑے پرائیویٹ اسپتال میں جاب کرنے لگی تھی، مگر اس کے دل میں راشد کی موت کا غم ہرا ہی رہا تھا۔ اپنے درد کو مصلحت کوشی تلے چھپائے وہ زندگی بسر کررہی تھی۔ اب اس کا مقصد اپنے دونوں چھوٹے بہن، بھائی کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا اور کسی قابل بنانا تھا۔ بوڑھی ماں بھی ساتھ تھی۔
***
اس بدنصیب نوجوان اور اس کے والدین تک بھی یہ بات پہنچ چکی تھی کہ صفدر کی صحت یابی میں سسٹر نبیلہ کا زیادہ ہاتھ تھا۔ صفدر کے والدین نے نبیلہ کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور وہ اس کے حسن سلوک اور ذمہ دارانہ فرائض کی انجام دہی کے دل سے معترف ہوئے۔ صفدر بھی نرس نبیلہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ جب اس نے نبیلہ کو دیکھا تو اسے زبردست جھٹکا لگا۔ اس کا چہرہ شرم اور ندامت کے احساس تلے بجھ کر رہ گیا۔ موت سے زندگی کی طرف پلٹتے ہوئے اور صحت یابی کی خوشی پچھتاوے اور احساس جرم کی آگ میں جھلس سی گئی۔
’’تت… تم… مجھے پہچاننے کے باوجود…؟‘‘ وہ نبیلہ سے بمشکل اتنا ہی کہہ سکا۔
’’ہاں! میں نے تو تمہیں پہلے دن ہی پہچان لیا تھا۔ بھلا میں ایسے ظالم بے حس اور سنگدل شخص کو بھول سکتی ہوں، جس نے میرے ساتھ ایسا ظلم کیا کہ میری ہنستی بستی زندگی اجاڑ کر رکھ دی۔‘‘ نبیلہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنے اندر کی نفرت کو نہ چھپا سکی۔ ’’میں چاہتی تو تم سے بہت آسانی سے بے گناہ راشد کی موت اور تمہارے ہاتھوں اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا انتقام لے سکتی تھی۔
’’تو… تو پھر تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ مجھے کیوں زندہ رہنے دیا، مار ڈالتیں مجھے مگر اب تمہارے اس حسن سلوک نے میرے اندر کی خلش اور بڑھا دی ہے جو مجھے ساری زندگی بے چین رکھے گی۔ میں تو تم سے معافی مانگنے کے لائق بھی نہ رہا۔‘‘ صفدر ندامت بھرے لہجے میں بولا۔ نبیلہ نے غور سے صفدر کے چہرے کا جائزہ لیا۔ وہ واقعی اس وقت اپنے ہی ضمیر کا قیدی نظر آرہا تھا۔ ایک سسکتا بلکتا قیدی! جو پچھتاوے اور احساس جرم کی شدید چبھن سے بے حال تھا۔ وہ بولی۔
’’اگر میں بھی بدلے میں
کچھ کرتی تو تمہارے اور میرے درمیان کیا فرق رہ جاتا۔ میں اپنے فرض مسیحائی سے منہ موڑ کر تم سے انتقام لے ڈالتی تو یہ اس سے بھی زیادہ بڑا اور ناقابل معافی جرم کہلاتا اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اس گناہ عظیم سے بچا لیا۔ تمہاری جزا اور سزا کا معاملہ میں اپنے رب پر چھوڑتی ہوں۔
‘‘
’’تم مجھے معاف کرسکتی ہو؟‘‘ آئی سی یو کے بیڈ پر دراز صفدر نے بالآخر نبیلہ کا ہاتھ تھام لیا۔ مگر نبیلہ نے انتہائی نفرت سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور اسی لہجے میں بولی۔ ’’میں نے کہا نا کہ میں نے تمہاری جزا و سزا کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے، مجھ سے کوئی امید نہ رکھو۔‘‘ یہ کہہ کر نبیلہ پلٹ گئی اور آئی سی یو سے نکل کر اسٹاف روم کی طرف بڑھ گئی۔ وہاں وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپتے رو پڑی تھی۔
***
کئی روز بیت گئے۔ صفدر کو اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔
نبیلہ کو اب مارننگ شفٹ کی ڈیوٹی دے دی گئی تھی اور اس کی متاثرکن کارگزاری کی بنا پر اسے ہیڈ نرس بنا دیا گیا تھا۔ ایک روز اخبار کی ایک سرخی پر اس کی نظر پڑی اور وہ چونک پڑی۔ خبر یہ تھی۔
’’تم مجھے معاف کرسکتی ہو؟‘‘ آئی سی یو کے بیڈ پر دراز صفدر نے بالآخر نبیلہ کا ہاتھ تھام لیا۔ مگر نبیلہ نے انتہائی نفرت سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور اسی لہجے میں بولی۔ ’’میں نے کہا نا کہ میں نے تمہاری جزا و سزا کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے، مجھ سے کوئی امید نہ رکھو۔‘‘ یہ کہہ کر نبیلہ پلٹ گئی اور آئی سی یو سے نکل کر اسٹاف روم کی طرف بڑھ گئی۔ وہاں وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپتے رو پڑی تھی۔
***
کئی روز بیت گئے۔ صفدر کو اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔
نبیلہ کو اب مارننگ شفٹ کی ڈیوٹی دے دی گئی تھی اور اس کی متاثرکن کارگزاری کی بنا پر اسے ہیڈ نرس بنا دیا گیا تھا۔ ایک روز اخبار کی ایک سرخی پر اس کی نظر پڑی اور وہ چونک پڑی۔ خبر یہ تھی۔
ملک کے معروف صنعتکار ملک فیاض کے اکلوتے بیٹے صفدر حیات نے ایک ٹرسٹ قائم کیا ہے جہاں بے سہارا لڑکیوں اور عورتوں کی فلاح و بہبود اور ان کی شادیاں کروانے کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے۔ اس ٹرسٹ کا نام ’’راشد میموریل ٹرسٹ‘‘ رکھا گیا ہے۔
خبر کے ساتھ ٹرسٹ کے منتظم اعلیٰ صفدر حیات کی بھی تصویر تھی۔ نیچے اس کا نام تھا، ورنہ نبیلہ کو پہچاننے میں دقت ہوتی۔ صفدر نے سفید لباس اور سفید ٹوپی پہن رکھی تھی، اور اس کی وضع قطع بالکل بدلی ہوئی تھی۔ ایک شیطان کو انسانیت کی راہ پر ڈالنے کی خوشی کے احساس تلے نبیلہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔ (ختم شد)