بدنصیب بیوی

Sublimegate Urdu Stories

وہ تیسری بیٹی کی پیدائش کا سن کر اسے دیکھے بغیر ہی ہسپتال سے گھر چلا گیا۔
نرمین کو جب ہوش آیا ۔ تو وہ بہت دکھی ہوئی۔ اسنے بیٹی کو اٹھایا اور روتے ہوئے چومنے لگی۔ وہ دو دن بعد اپنی تینوں بچیوں سمیت گھر پہنچی۔ ہسپتال والوں کو تمام خرچہ اسکے باپ نے ادا کیا تھا۔

اسے دیکھ کر اسکی ساس چلانے لگی: آگئی منحوس تین تین بچیوں کا بوجھ لے کر۔ مجھے دیکھ تین تین بیٹے جنے میں نے ۔ اور تو نے کیا یہ تین تین بوجھ لاد دیے ہمارے کندھوں پے۔ نرمین نے خاموشی سے سامان اٹھایا اور جا کر کمرے میں رکھا اور بچی کو کھلانے لگی۔ رات کو قیصر گھر آیا وہ بہت غصے میں تھا اس نے نرمین سے کہ دیا اگر اب بھی بیٹی پیدا ہوئی تو اسکو لے کر کہیں اور چلی جانا طلاق تم تک پہنچ جائے گئی۔ نرمین اپنی جگہ سن ہو کر رہ گئی۔

بھلا اس میں اسکا یا اسکی بچیوں کا کیا قصور تھا؟ قیصر کی پھپھو کے اسکے گھر روزانہ چکر پے چکر لگ رہے تھے۔ وہ روزانہ اسکے ذہن میں یہ بات ڈال دیتی تھی کہ مصباح تمہارے انتظار میں بیٹھی ہےکب سے اور تم نے اپنی پسند سے شادی کر لی دیکھو اسنے تمہیں تین بیٹیوں کے سوا اور دیا ہی کیا ہے۔

دو سال مزید گزر گئے۔ آج قیصر نرمین کے ساتھ ہسپتال نہیں گیا تھا۔ اسکے ہاں دو جڑواں بیٹیاں ہوئییں۔ قیصر تک یہ خبر پہنچتے ہی اسنے فون پر ہی نرمین کو طلاق سنا دی۔ وہ اپنی پانچ بیٹیوں سمیت باپ کے گھر آبیٹھی۔ بھائی بھابیاں کوئی برداشت نہیں کر رہا تھا اسے۔ ماں روزانہ سناتی تجھے پالیں گے اب بچوں سمیت باقی بیٹیاں بھی ہیں میری۔ ان کی شادیاں تو اب ہو گئی بس جسکی ماں کی طلاق ہو گئی ہو اسکی بیٹیوں سے شادی کون کر گا۔

نرمین طعنے سن سن کر ذہنی مریض بن چکی تھی۔ وہ کس قدر رو چکی تھی قیصر کی بے وفائی پر ہر وقت اسکی آنکھیں سرخ اور سوجی رہتی قیصر نے اگلے روز ہی دوسری شادی رچا لی۔ مصباح کے ساتھ۔ نرمین میں اب رونے کی سکت نہ تھی۔ زرتاش ابھی 8 سال کی عائشہ 6 سال اور مومنہ 2 سال کی تھی۔ باقی دو بچیوں کے  ابھی نام ہی نہیں رکھے گئے تھے۔ دونوبھابیاں بڑی دونوں بچیوں سے ہر وقت نوکروں کی طرح کام کرواتی ۔ خود کے بچے بڑے بڑے سکولوں میں پڑھتے تھے۔ نرمین بھی اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتی تھی۔

ایک دن وہ تہجد میں بے حد روئی۔ جب وہ اٹھی تو اچانک اسکے ذہن میں خیال آیا کیوں نہ وہ اپنا زیور بیچ دے  اور اس سے کوئی چھوٹا سا کام شروع کر لے۔ اس نے اس بات کا تزکرہ کسی سے نہ کیا۔ فائدہ ہی نہ تھا جب ماں ہی طعنے دیتی اسکی بیٹیوں کو مارتی تھی۔ اسنے بنا کسی کو بتائے بغیر کمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ شام کو سارا کام ختم کرکے گھر سے نکلی اور تھوڑا آگے جا کر ایک سرکاری سکول کے پاس ہی ایک چھوٹا سا گھر کرائے کے لیے لے لیا۔ اپنے زیور بیچے۔ زیور کافی مہنگے تھے تو اسکے اچھے دام مل گئے۔ اسنے اگلی صبح کسی کے اٹھنے سے پہلے بچیوں کو اٹھایا اپنا مختصر سامان باندھا۔ اور اس گھر میں چلی گئی۔ شام کو وہ دوبارہ آئی اور لوڈر رکشا میں اپنا جہیز رکھوایا جو قیصر نے ساتھ ہی واپس بجھوا دیا تھا۔ سب لوگ اسے ہکا بکا دیکھ رہے تھے۔

ماں: اب کہاں۔ منہ کالا کروانے جا رہی ہے۔ اور کتنی ذلت سہیں گئے ہم تیری وجہ سے۔ وہ چپ رہی اور اپنا سامان لے کر آ گئی۔ یہ جہیز اسنے بہت چاہوں سے بچوں کو ٹیوشن پڑھا پڑ ھا کر بنایا تھا۔ اسنے اپنی سلائی مشین پر کپڑے سینے شروع کر دیئے ۔ یہ واحد ہنر تھا جو اسے آتا تھا۔ اسنے روزانہ سارے محلے کے گھوں میں جانا اور سب سے کہنا اپنے کپڑے مجھ سے سلوا لیا کریں۔ وہ سلائی کے دام کم لیتی تو لوگ اس سے سلوانے لگے۔

اس نے دونوں بڑی بچیوں کو سرکاری سکول میں ڈال دیا۔ زرتاش بہت خاموش رہتی ۔ اپنے ساتھ ہوئے اس واقعے کا اثر اس نے دماغ پہ لے لیا تھا۔ نرمین اسکو بہلانے کی ہر ممکن کوشش کرتی تھی۔ لیکن وہ بس سارا دن پڑھتی رہتی تھی۔ اسے اپنی کتابوں سے عشق تھا۔ عائشہ پڑھنے میں تھوڑی کمزور تھی۔ نرمین کی عقل مندی اور سلائی میں صفائی کی وجہ سے اسکے گاہک کافی بڑھ گئے تھے۔ اسنے اپنی جڑواں بیٹیوں کے نام نورعین اور حورعین رکھا۔ دو سال بیت گئے۔

نرمین نے کافی حد تک کمانا شروع کر دیا۔ اسکے بھائی ایک دو بار آئے تھے۔ اسے لعن تعن کرکے چلے گئے۔ انکی بیویاں انکو بھیج دیتیں تھیں کی انکو لے آؤ نوکرانی بنا کر رکھیں گئے ۔ مگر وہ اب کماتی تھی۔ دو وقت کی دال روٹی کھا سکتی تھی۔ پچھلے دنوں عمیر ۔ نرمین کا بڑا بھائی آیا۔ اسکی چھوٹی بہن کی شادی ہے۔ نرمین خاموش ہو گئی۔ شادی آئی مگر نرمین نہ آئی۔ وہ اپنی ان سگوں سے اس قدر دل برداشتہ ہوئی۔ کہ اب اسے انکی پرواہ نہیں تھی۔
اسے وہ رات آج بھی یاد تھی۔ جب عائشہ کے ننھے ہاتھوں سے سلاد کی پلیٹ گر گئی تھی۔ عمیر کی بیوی نے کسی کا بھی لحاظ کیے بغیر اسے نرمین کے سامنے بےدردی سے مارا تھا۔ اسنے وہ وقت سوچ کر اپنی آنکھون کو صاف کیا۔ چند دن بعد اسکی بھابی آئی اور اسے دروازے میں پکار کر سارے محلے کے سامنے کہتی ۔ سنا ہے تمہارے سابقہ شوہر کی بیوی بہت جلد بیٹا پیدا کرنے جا رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے ہنستی ہوئی چلئی گئی۔ زرتاش کے دل میں باپ اور ننھیال کی نفرت بھر گئی۔

ابھی تین مہنیے گزرے تھے۔ سردیاں شروع ہوگئی تھیں۔ قیصر ہسپتال میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اب بیٹا ہی ہو گا۔ نرس لیبر روم سے باہر آئی۔ وہ خوشی سے بھاگ کر بچہ پکڑنے آیا لیکن نرس کی بات سن کر اسکی سانس بند ہو گئی یہ کیسا کھیل کھیلا تھا قسمت نے اسکے ساتھ۔ نرس اسے روتا ہوا بچہ پکڑا کر چلی گئی تھی۔

 اسنے فون کر کے اپنی ماں کو بتایا۔ اسنے گھر سر پر اٹھا لیا۔ اور بولی مت لے کہ آنا یہ بچہ اب گھر ۔ قیصر کو اس بچے سے نہ نفرت ہو رہی تھی اور نہ ہی خوشی احساس تھا۔ مصباح نے تو اسے گلے سے لگا لیا تھا۔ وہ لوگ گھر آگئے۔ اب وہ ساس جو نرمین کو بیٹیوں کی ماں ہونے کے طعنے سناتی تھی وہ اب مصباح کو سناتی۔ ماں: دو سال بے اولاد رہی اور پھر پیدا بھی کیا کی یہ تیسری جنس۔

 مصباح بس روتی رہ جاتی ۔ اس میں اسکا اورا سکے بچے کا کیا قصور نہ تھا۔ اس میں میرا یہ میری بیٹیوں کا کیا قصور ہے۔ اسے اپنے لفظوں کے ساتھ نرمین کی آواز سنائی دیتی جسے کبھی وہ خود اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کر طعنے مارتی تھی۔ قیصر نے سلیم کو اٹھا کر دیکھا تک نہیں تھا۔ وہ گھر بھی دیر سے آتا اور خاموش ہی رہتا۔ ایک سال بعد وہ پھر سے امید سے ہوئی اس بار خدا نے اسے حارث سے نوازا ۔ قیصر اب بہت خوش تھا ۔ اسے سلیم سے کوئی لین دین نہیں تھا۔ وہ ہر وقت اسے لیے پھرتا۔ سلیم سے اسکی ماں کے سوا کوئی محبت نہ کرتا تھا۔

وقت گزنے لگا۔ اب نور اور حور بھی سکول جانے لگیں تھیں۔ زرتاش ہر سال فرسٹ آتی تھی۔ اسے بس بہت بڑی آفیسر بننا تھا۔ اور اپنی ماں کی جان اس سلائی سے چھڑوانی تھی۔ وہ اب ایف ایس سی نان میڑیکل کر رہی تھی۔ آج اسکا آخری پرچہ تھا۔ وہ گھر آئی سامنے بچے آئے بیٹھے تھے جنہیں عائشہ سنبھال رہی تھی۔ اسکے پاس تقریبا 12 کے قریب بچے ٹیوشن پڑھنے آتے تھے ۔ جن سے وہ مہینے کا دس پندرہ ہزار کما لیتی تھی۔ انہوں نے اب محلہ اور گھر بھی بدل لیا تھا۔ اور اپنے ننھیال سے مزید دور آگئے تھے۔ نرمین کی بیٹیاں پڑھنے میں بہت تیز تھیں۔ بس عائشہ کو خاص شوق نہیں تھا۔ وہ اب میڑک کر چکی تھی۔اور ایف اے شروع کیا تھا۔

قیصر کے ایک اور بچے کی پیدائش ہوئی۔ اس کا نام اسنے وارث رکھا ۔ سلیم اب کافی بڑا ہو چکا تھا۔ مگر اس سے اس گھر میں اسکی ماں کے علاوہ سب حقارت سے دیکھتے گھے۔ کوئی اسکے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دن وہ سکول سے آرہا تھا۔ اسے سرکاری سکول داخل کر وایا گیا تھا جبکہ باقی دونوں کو شہر مے مہنگے سکول میں۔ وہ سڑک پار کر رہا تھا ۔ جب تیز رفتار بس اسے کچلتی چلئی گئ۔ اسے خاموشی سے دفنا دیا گیا۔ مصباح کو دکھ تھا۔ وہ اکثر اسکی باتیں یاد کر کے روتی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ زرتاش نے بی ایس مکمل کر لیا اور مقابلے کا امتحان دیا ۔ مگر وہ ناکام ہوئی۔ اس نے دوبارہ اور زیادہ محنت کرنی شروع کر دی