کم عمر بیوی

Sublimegate Urdu Stories

ہر انسان کی زندگی ایک کہانی ہے۔ کہانیاں تو بہت سنی اور لکھی گئی ہوں گی، لیکن یہ ایسی انوکھی روداد ہے کہ شاید ہی کسی عورت نے ایسی زندگی بسر کی ہو۔ فریحہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ کہانی اُس کی زبانی لکھی گئی ہے۔ 

جن دنوں میری عمر کے تمام بچے اسکول جاتے تھے، مجھے اسکول جانے کی اجازت نہ تھی۔ ماں نے آتے ہی جانے میرے باپ پر کیا جادو کر دیا کہ جو وہ کہتی، ابّا مان لیتے۔ یہ نئی ماں میرے باپ سے عمر میں کافی چھوٹی تھی۔ ابّا چالیس برس کے اور وہ اٹھارہ سال کی خوبصورت لڑکی۔ ابّا تو کیا، میں خود بھی اُس پر فریفتہ ہو گئی تھی۔ اب معاملہ یہ ہو گیا کہ ہر سال ایک نئے بچے کی آمد شروع ہو گئی۔ ان بچوں کی پرورش کا بوجھ مجھ پر آپڑا۔ اُن دنوں میری عمر صرف دس برس تھی۔ ماں نے کہا کہ بیٹی فریحہ، اگر تم اسکول جاؤ گی تو میں اکیلی تمہارے بہن بھائیوں کو نہ سنبھال پاؤں گی۔ بہتر ہے کہ اسکول چھوڑ دو۔ 

میری کیا مجال کہ انکار کرتی؟ جو ماں کہتی، وہی ابّا کا حکم ہوتا۔ اپنے محلے کی ساتھی لڑکیوں کو رشک بھری نگاہوں سے اسکول جاتے دیکھتی اور چپکے سے آنسو پونچھ لیتی۔ ماں کے چھوٹے بچوں کو سنبھالنا، اُن کا منہ دھلانا، کپڑے بدلنا — یہ سب کام مجھے بہت مشکل لگتے۔ اوپر سے اس زر خیز خاتون نے دو بار جڑواں بیٹوں کو بھی جنم دے دیا۔ گھر میں تو بچوں کی ریل پیل ہو گئی اور اُن کی آڑ میں میرے دل کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔

بچوں کے پیچھے سارا دن بھاگ بھاگ کر تھک جاتی، پیٹ بھر کھانے تک کی فرصت نہ ملتی۔ ادھر کھانے کے لیے بیٹھتی، اُدھر آواز آ جاتی کہ اے بیٹی فریحہ، جلدی دوڑ کر آنا! دیکھ تو تیرے بھائی منّو نے کیا کر دیا ہے! اور جو بھی اُس نے کیا ہوتا، دیکھ کر جی متلا جاتا۔ اُن کے پیمپر اور ڈائپر بدلتے بدلتے میری بھوک ہی اُڑ جاتی۔ ماں کی شادی کو پانچ برس ہوئے اور چھ بچوں کی پلٹن تیار ہو چکی تھی۔ مجھے اس پلٹن نے ایسا ہلکان کر دیا کہ قد چھوٹا اور ہاتھ پاؤں کمزور ہو گئے۔ نہ کپڑے بدلنے کا وقت ملتا، نہ نہانے دھونے کا۔ میری تو شکل ہی بگڑ گئی۔ چہرے پر مسکینی چھا گئی، جس کی وجہ سے میں خاصی ہونق اور بدصورت لگنے لگی۔ 

جو دیکھتا کہتا کہ لڑکیاں جب بڑھتی ہیں تو رنگ روپ نکھرتا ہے، اس عمر میں تو مینڈک بھی حسین لگتا ہے، اور یہ فریحہ؟ ہائے، اس پر کس چڑیل کا سایہ پڑ گیا ہے! جو جوں جوں بڑی ہوتی جاتی ہے، بدصورت ہوتی جاتی ہے! اب میں چودہ برس کی تھی۔ جس عمر میں لڑکیاں آئینے سے باتیں کرتی ہیں، میں ڈر کے مارے آئینے کے سامنے کھڑی نہ ہوتی۔ سب مجھے بدصورت کہتے تھے، تو میری آنکھوں نے بھی کسی خواب کو اپنے اندر جگہ نہ دی۔ سہانے خواب تو وہ لڑکیاں دیکھتی ہیں جو سکھ کی چھاؤں میں پلتی ہیں۔ میں نے کبھی کسی شہزادے کے بارے میں نہ سوچا۔ جو بھی مجھے دیکھتا، میرے حلیے پر ہنستا، مذاق اُڑاتا۔ میرے کزن کہتے کہ فریحہ، تم ہمارے خاندان سے نہیں لگتیں! سر بڑا اور قد چھوٹا! اُن کی باتیں سن کر میری رنگت فق ہو جاتی، اور چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگتیں۔ سب میری ہونق صورت کو دیکھتے، لیکن کوئی میری اچھی سیرت کو نہ دیکھتا۔

یہ بڑے زہریلے نشتر تھے جو میرے دل پر لگتے تو میری روح تڑپ اٹھتی۔ سوچتی، کاش میں بدصورت نہ ہوتی۔ اب اگر کوئی کزن یا مہمان گھر آتے تو میں ان کے سامنے جانے سے کتراتی، ان سے چھپنے کی کوشش کرتی۔ بچپن میں تو میں خوبصورت ہوا کرتی تھی، اب خاندان بھر کے ماتھے پر نظر کا ٹیکا کیسے بن گئی؟ حالات نے ہی تو مجھے بدصورتی کا یہ طوق زبردستی پہنایا تھا۔ میری ایسی صورت پر بھلا کب کوئی اچھا رشتہ آتا؟ اچھے رشتے کے بارے میں سوچنا بھی میرے لیے ممکن نہ تھا۔ اِدھر باپ کو میری شادی کی فکر لاحق تھی، مگر ماں کا کہنا تھا کہ ابھی یہ چھوٹی ہے، اس کی شادی نہیں کرنی۔ لڑکیاں چھوٹی بھی ہوں تو ماں باپ کو فکر لاحق ہو جاتی ہے، کہ پالنے میں ہی وہ پرائی دھن ہوتی ہیں۔ ذرا سا قد نکال لیں تو پرائے دھن کے چوری ہو جانے کا خوف دامن گیر ہو جاتا ہے۔ وقت تو تیزی سے گزرتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے میں بائیس برس کی ہو گئی۔ اب بھی ماں کو میں چھوٹی لگتی تھی، جبکہ اُن کی اپنی پہلوٹی کی بیٹی میرے برابر کی ہو چکی تھی۔ اِدھر ابا تھے کہ ہماری شادیوں کی فکر میں مرے جاتے تھے۔ ماموں ممانی جب آتے، امی سے کہتے کہ رابعہ، کب کرو گی فریحہ کی شادی؟ اب تو اس کی شادی کی عمر نکلتی جا رہی ہے۔

امی کہتیں کہ میں اس کی شادی کروں گی تو گھر کا کام کون سنبھالے گا؟ ماشاء اللہ سات بچے ہو گئے ہیں۔ اگر میں اس کی شادی کر دوں تو اکیلے کیسے سنبھالوں گی تمہارے بھائی کے ان بکھیڑوں کو؟ ابھی نہیں کر سکتی میں اس کی شادی۔ بالآخر ماموں اور ممانی نے تہیہ کر لیا کہ رابعہ کے چنگل سے اس بچی کو کسی نہ کسی طرح نکالنا ہے، ورنہ یہ کبھی اس کو نہ بیاہے گی۔ انہوں نے اکیلے میں ابا کو سمجھایا کہ اتنے اپنی عورت کے پیچھے نہ لگو۔ تمہاری بڑی لڑکی بن بیاہی رہ گئی تو چھوٹیوں کے رشتے کیسے ہوں گے؟ ساری دنیا تم ہی کو موردِ الزام ٹھہرائے گی کہ ایسے خودغرض ماں باپ ہیں، بچی کو نوکرانی بنا دیا، اپنے آرام کے لیے اس کا گھر نہ بسایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھائی صاحب، جب رشتے آتے تھے تو ہماری بھابھی کو کوئی پسند نہ آتا۔ اب رشتے نہیں آتے تو کس سے بیاہ دیں؟ تم ہی کچھ اس مسئلے کا حل نکالو۔ آج رشتہ لے آؤ، آج ہی بات پکی کر دوں گا۔ 

ابا نے پوچھا کہ کیا سچ کہہ رہے ہو؟ ماموں بولے، ہاں تو کیا مذاق کر رہا ہوں۔ میرے بیٹے ولایت میں کیا خرابی ہے؟ خوبصورت ہے، ایف اے پاس ہے، میری اپنی دکان ہے، وہی سنبھالتا ہے۔ نوکری ڈھونڈنے کا کوئی جھنجھٹ نہیں۔ آج ہی بسم اللہ کرو۔ والد نے سوچا کہ ماموں کی بہو بنے گی، فریحہ اپنے قریبی عزیزوں کے گھر جائے گی۔ بات تو اچھی ہے، لیکن لڑکا بھی اس رشتے پر راضی ہو۔ زبردستی کا معاملہ کیا تو غلط ہوگا۔ فریحہ کی شکل و صورت میں کچھ خاص کشش نہیں ہے، لیکن سیرت تو اچھی ہے۔ ماموں نے کہا کہ بیٹے سے پوچھ لو۔ اگر ولایت ہاں کہے تو مجھے رشتہ دینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہم نے ولایت سے بات کی ہے۔ اس کو شکل و صورت سے کچھ لینا دینا نہیں، بس سیرت اچھی ہو۔ اور اُس کا ایک تقاضا ہے: لڑکی ایسی ہو جو نہ تو اس کی کسی بات پر اعتراض کرے اور نہ مداخلت۔ اگر یہ شرط منظور ہے تو وہ ہماری خوشی کے لیے جس لڑکی سے بھی ہم اس کی شادی کریں گے، وہ سہرا باندھ لے گا۔

اللہ جانے ماموں اور ممانی ٹھیک کہہ رہے تھے یا ممانی کو میری صورت میں ایک مسکین نوکرانی چاہیے تھی، جو گھر کے سارے کام کرے، کسی معاملے میں نہ مداخلت کرے، نہ ہی کوئی احتجاج، بس لبوں پر چپ کا تالا لگا رہے۔ چونکہ انہوں نے میرے باپ کے گھر میں میری بری حالت دیکھی تھی، اس لیے مجھے بہو بنانے میں انہیں یہ سودا گھاٹے کا نہ لگا۔ میں تو یہ بات سمجھ گئی، مگر ابا نہ سمجھ سکے۔ وہ سیدھے سادے، سچے دل کے آدمی تھے۔ فوراً ہاں کر دی اور شادی کی تاریخ بھی چپکے چپکے طے ہو گئی۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر بیوی کے علم میں بات آئی تو کہیں رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے۔

ادھر ولایت کب مجھ سے شادی کے لیے تیار تھا؟ مجھ سے کیا، وہ تو کسی سے بھی شادی پر تیار نہ تھا۔ وہ شادی کرنا ہی نہ چاہتا تھا، چاہے لڑکی صورت کی حور ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے ماں سے کہا تھا کہ میں نے عمر بھر شادی نہ کرنے کی قسم کھائی ہے، سمجھ لو کہ میری شادی ہو چکی ہے۔ ماں چیخی، یہ کیا خرافات بک رہے ہو؟ تم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو، شادی نہیں کرو گے تو ہم کس کی خوشی دیکھیں گے؟ گھر میں بہو آئے گی، ہمارے پوتے پوتیاں ہوں گے۔ میں تو دن گن رہی ہوں کہ کب بہو آئے، گھر سنبھالے، اور میں آرام سے چارپائی پر بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے کھانا کھاؤں، اور جب کھانا کھا لوں تو برتن بھی وہی اٹھا لے جائے۔ولایت بولا، ماں، اس زمانے میں ایسی تابعدار بہو کہاں سے لاؤ گی؟ آج کل کی لڑکیوں کو تم نہیں جانتیں، ساس سسر تو کیا، شوہر کو بھی تگنی کا ناچ نچا دیتی ہیں۔ توبہ توبہ! سچ کہوں تو میں نے اپنے دوستوں کی حالت دیکھی ہے، مجھے تو شادی اور لڑکی کے نام سے ہی نفرت ہو گئی ہے۔

ماں نے جواب دیا، ولایت بیٹا، تمہاری ماں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے، مجھے ایسا بدھو نہ سمجھو۔ ایسی لڑکی چُنی ہے جو ہم سب کی خدمت کرے گی اور اف بھی نہ کرے گی۔ سمجھ لو کہ بے زبان گائے ہے، زبان رکھتے ہوئے بھی گونگی ہے۔ولایت نے حیرت سے پوچھا، ایسی بھلا کون ہے، ماں؟ ماں بولی، تمہاری پھوپھی کی بیٹی فریحہ۔ ولایت بولا، کیا تم نے اُسے دیکھا نہیں؟ وہ تو بیچاری بڑی بدشکل ہے۔ ماں نے کہا، بدشکل بالکل نہیں ہے، نین نقش سب اچھے ہیں، بس اُس کی ماں نے اُس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ یہاں اچھے کپڑے پہنے گی، اچھا کھائے گی، سکون سے رہے گی، تو دیکھ لینا کیسی حسین ہو جائے گی کہ تمہیں رشک آئے گا۔ولایت بولا، اچھا ماں، سب ٹھیک ہے، لیکن بہت بار کہہ چکا ہوں کہ مجھے شادی نہیں کرنی۔ اگر تم اپنے لیے نوکرانی لانا چاہتی ہو، تو بے شک، تمہاری خوشی پوری کر دیتا ہوں، مگر مجھ سے اُس کا کوئی لینا دینا نہ ہوگا۔ وہ تمہارے ساتھ رہے گی، تمہارے کمرے میں سوئے گی، مجھے بس کھانا پکا کر دے دیا کرے گی اور میرے کپڑے استری کر دیا کرے گی، تب تمہیں آرام مل جائے گا۔ ٹھیک ہے ماں؟ماں نے خوش ہو کر کہا، ہاں، ٹھیک ہے۔ لڑکے، بس اب زیادہ بک بک مت کرنا۔ ہم تیرا رشتہ فریحہ سے طے کر آئے ہیں۔

ولایت جانتا تھا ماں اب ایک قدم پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔ ابا کب کے بیمار چلے آرہے ہیں۔ سو بیماریاں لاحق ہیں ان کو ، بڑھاپا آ گیا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ بہو کی آرزو کریں گے ہی… سو فریحہ واقعی ٹھیک رہے گی۔ جن حالات میں رہ رہی ہے یہاں اس کو وہاں سے اچھے حالات ہی ملیں گے۔ بس یہ سوچ کر اس نے اپنے جگری دوست برہان سے کہا کہ یار اماں ابا کو کب تک ٹالوں گا، وہ تو پیچھے پڑ گئے ہیں۔ اب بھی ان کی نہ مانی تو ابا نے صاف کہہ دیا ہے کہ ساری جائیداد ٹرسٹ میں دے دوں گا اور تم کو گھر سے نکال کر عاق کر دوں گا۔ برہان مگر کسی دلیل پر بھی ماننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے کہا تیری میری دوستی ایسی نہیں کہ وعدہ خلافی ہو۔ ہم نے اپنے اپنے بازوں پر ایک دوسرے کے نام اپنے لہو سے کندہ کرائے ہیں۔ عمر بھر ساتھ رہنے کا عہد کیا ہے اور ایک دوسرے کی خاطر شادی نہ کرنے کی بھی قسم اٹھائی ہے تو کیا اب تم وعدہ خلافی کرو گے مجھ سے ؟ اور قسم توڑ دو گے۔ یاد رکھنا اگر تم نے ایسا کیا تو میں جان دے دوں گا، خود کشی کرلوں گا مگر یہ نہیں سہہ سکتا کہ میرے ہوتے تمہاری زندگی میں کوئی اور آئے۔ 

ولایت نے بہت سمجھایا مگر اس نے دوست کو شادی کی اجازت دینے کی بجائے قسم کھا کر خود کشی کی دھمکی سے ڈرا دیا۔ کہا کہ سمجھ لو کہ ہماری تمہاری شادی ہو چکی ، اب میں سو تن برداشت نہیں کر سکتا۔ ادھر سے ماں باپ کا دباؤ ، ادھر سے دوست کی قسمیں، ولایت ایک آزمائش میں پڑ گیا تھا۔ یہ دوست آج کا نہیں تھا، ان کی دوستی بہت پرانی تھی۔ جب ولایت بارہ برس کا معصوم لڑکا تھا اور برہان چھبیس برس کا بھر پور جوان تھا، تب سے اس نے ولایت کو اپنی دوستی کے جال میں پھانسا تھا۔

برہان ایک یتیم لڑکا تھا۔چچا نے اس کی پرورش کی تھی۔ چچی ظالم عورت تھی، بات بات پر شوہر سے پٹواتی اور جھوٹی شکایتیں کر کے گھر سے باہر نکال دیتی تھی۔ برہان کی زندگی کے یہ دن بہت اذیت ناک تھے۔ جب رات کو گھر سے باہر کر دیتی تو محلے کا ایک غنڈہ قسم کا نوجوان اس کو رات بھر رہنے کے لئے پناہ دے دیتا تھا، بس تبھی سے برہان کے ساتھ معاملہ خراب ہوا، اس کی شخصیت مسخ ہو گئی اور اس کو عورت ذات سے نفرت ہو گئی۔ چچا کے مرنے کے بعد چچی میکے چلی گئی اور برہان کو اس کے والد کی موروثی جائیداد مل گئی۔ جس مکان پر اس کے چچا اور چچی کی رہائش تھی، وہ بھی حقیقت میں برہان کے والد کی ملکیت تھا۔ اس کے علاوہ بھی جائیداد تھی۔ چچا کے مرنے سے برہان کے دکھ بھرے دن تمام ہو گئے۔ وہ بلا شرکت غیرے گھر کا اور کاروبار کا مالک ہو گیا۔ بقیہ جو مکانات اور دکانیں کرائے پر تھیں جن کا کرایہ اس کا چچا وصول کرتا، وہ کرایہ بھی تمام اس کو ملنے لگا۔ مصیبت کے دن تمام ہو گئے مگر بچپن میں اس کے ساتھ ایسی نا قابل برداشت زیاد تیاں ہوئیں کہ وہ غلط راستے کا مسافر ہو گیا اور اس غیر فطری عادت کا ہم سفر اس نے بارہ سال کی عمر کے ولایت کو بنا لیا۔ اس پر خوب روپیہ خرچ کرتا، اس کو شاپنگ کرواتا، اچھے ہوٹلوں میں کھانا کھلاتا اور مہنگے تحفے لے کر دیتا ، روپے پیسے سے اس کی جیبیں بھر دیتا۔ 

اس طرح اس نے نادانی کے دور سے گزرتے ہوئے اس لڑکے کو اپنا اسیر بنالیا۔ بربان تنہا رہتا تھا۔ وہ جب چاہتا، ولایت کو بلا کر اپنی تنہائی دور کر لیتا۔ محبت جتلاتا… عورت سے نفرت کے سبق پڑھاتا اور کبھی ساتھ نہ چھوڑنے کے وعدے قسمیں لیتا۔ گویا وہ دوستوں جیسی نہیں بلکہ لیلی مجنوں بن کر زندگی گزار رہے تھے۔ اس معاملے کا علم سوائے ان دونوں کے کسی کو نہ تھا۔ بھی جب ولایت شادی سے انکار کرتا، اس کے ماں باپ اس کو سمجھاتے کہ شادی اور بیوی کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری ہے اور تم ہمارے اکلوتے لڑکے ہو ، ہم تو تمہارے سر پر سہر ادینے کی آرزو میں مرے جاتے ہیں اور تم ہو کہ انکار کر دیتے ہو۔ بڑی مشکل سے تو یہ دن آیا تھا۔ والدین پر ولایت کو ترس آگیا اور اس نے شادی کے لئے ہامی بھر لی۔