بہن کا سہاگ

Sublimegate Urdu Stories

دسویں جماعت کا امتحان سر پر تھا اور میری تیاری مکمل نہیں تھی۔ انگریزی اور حساب میں مجھے کسی ٹیوٹر کی ضرورت تھی۔ اسی وجہ سے میں ان دنوں بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ ایک دن سامنے والی آنٹی زہرہ ہمارے گھر آئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ میں الجبرا کے سوالات حل کر رہی ہوں، مگر درست طریقے سے نہیں کر پا رہی۔ انہوں نے امی سے کہا کہ اسے میرے پاس روز شام کو بھیج دیا کرو، میں اسے حساب سمجھا دیا کروں گی۔ یوں میں روزانہ آنٹی زہرہ کے گھر جانے لگی۔

ایک دن باتوں باتوں میں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے شوہر کو کیا ہوا تھا؟ ان کا اتنی کم عمری میں انتقال کیسے ہو گیا؟تب انہوں نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔ بولیں:ان دنوں میں کالج میں پڑھتی تھی۔ ہمارا کالج کو ایجوکیشن کالج کہلاتا تھا اور منور ہمارا کلاس فیلو تھا۔ وہ نہایت خوبصورت اور نیک لڑکا تھا۔ ہم دونوں کے درمیان مقابلہ رہتا تھا۔ کبھی میں فرسٹ آتی تھی اور کبھی وہ۔ اس طرح ہم پڑھائی کے میدان میں حریف بن گئے تھے۔ جب میں فرسٹ آتی تو میری سہیلیاں خوش ہوتیں اور اسے چھیڑتیں، اور جب وہ فرسٹ آتا، تو اس کے دوست مجھے دیکھ کر کچھ نہ کچھ کہتے اور خوشی سے تالیاں بجاتے۔

ایک بار میں بیمار ہو گئی۔ کافی دنوں کے بعد جب کالج گئی تو دیکھا کہ منور اُداس بیٹھا ہے۔ اس کی حالت مجھ سے بھی زیادہ خراب لگ رہی تھی، جیسے میں نہیں، وہ بیمار ہو گیا ہو۔ اسے دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ تب میری سہیلیوں نے بتایا کہ تمہارے نہ آنے سے یہ بہت اداس ہو گیا تھا۔ نہ پڑھائی میں دل لگاتا، نہ کسی سے ہنستا بولتا تھا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ وہ صرف میرا حریف نہیں بلکہ دل ہی دل میں مجھے پسند کرتا ہے۔

میں حیران رہ گئی کہ میرے نہ آنے سے اس کی ایسی حالت کیسے ہو گئی، جیسے میرے جسم میں اس کی روح ہو۔ حالانکہ ہم دونوں کے درمیان سلام کے سوا کوئی بات بھی نہ ہوتی تھی۔ اسی دن پہلی بار وہ میرے پاس آیا اور میری خیریت دریافت کی۔ میں نے بتایا کہ اب ٹھیک ہوں۔ تب وہ بولا کہ اگر آپ اس بار میرے فرسٹ آنے کے باعث بیمار ہوئی ہیں، تو کوئی بات نہیں۔ میں ہتھیار پھینک رہا ہوں۔ اب میں کبھی فرسٹ نہیں آؤں گا، آپ ہی اول نمبر پر رہیں، لیکن خدا کے لیے اب بیمار نہ ہونا۔

یہ بات مجھے بہت دلکش لگی اور میں ہنس دی۔ اس کے بعد ہماری دوستی ہو گئی۔ یعنی جو تناؤ ہمارے درمیان رہتا تھا، وہ ختم ہو گیا۔ جب ہمارے بی اے کے سالانہ امتحانات ختم ہوئے، تو آخری پیپر والے دن اُس نے کہا کہ اگر میں اپنی امی کو تمہارے گھر رشتہ لے کر بھیجوں، تو تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا؟

میں تو خود چاہتی تھی۔ میں نے کہا کہ جی نہیں، اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ اگلے ہی دن واقعی اس کی امی ہمارے گھر آ گئیں۔ اتنی پیاری خاتون میں نے زندگی میں نہیں دیکھی تھی۔ وہ نہایت خوش اخلاق تھیں۔ امی نے بھی ان کو پسند کیا، مگر میرا رشتہ دینے سے معذرت کر لی، کیونکہ ابو میرا رشتہ تایا ابو کے بیٹے کے ساتھ طے کر چکے تھے، جو امریکہ میں رہتا تھا۔امی نے ابو کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ اچھا خاندان ہے، آپ اس رشتے پر غور تو کریں، مگر ابو کہنے لگے کہ تم بھی روایتی عورتوں کی طرح اپنے جیٹھ اور ان کے بچوں سے خار کھاتی ہو۔ تب امی خاموش ہو گئیں۔

منور کو جب معلوم ہوا کہ انکار ہو گیا ہے، تو وہ صدمے میں چلا گیا۔ وہ ایک لائق طالب علم تھا اور مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا، مگر اس نے ہر کام ترک کر کے خود کو کمرے تک محدود کر لیا۔ جب اس کے ایک دوست نے مجھے فون کر کے اس کی حالت بتائی، تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ ایک قابل طالب علم کا یوں ضائع ہو جانا افسوس ناک بات تھی۔مگر ادھر ابو کے ایک ہی بھائی تھے، جو ان سے بڑے تھے، اور ان کا اکلوتا بیٹا طاہر امریکہ میں تعلیم مکمل کر چکا تھا۔ تایا جان نے اسے پاکستان بلوایا۔ ابھی وہ پاکستان آیا بھی نہیں تھا کہ تایا جان میرا رشتہ لے کر آ گئے۔ ابو نے فوراً ہاں کر دی۔ مجھے بہت افسوس ہوا، لیکن میں کر بھی کیا سکتی تھی… رونے کے سوا۔

میں منور کو ابھی تک نہ بھول پائی تھی۔ کبھی کبھار ہماری فون پر بات ہو جاتی تھی۔ ایک دن بھائی جان نے مجھے منور سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیا، تو انہوں نے مجھے بہت مارا اور میرا گھر سے باہر جانا اور فون پر بات کرنا بند کر دیا۔

امی نے جب یہ صورت حال دیکھی، تو بہت دل گرفتہ ہوئیں، کیونکہ نہ تو بھائی میرے جذبات کو سمجھتا تھا اور نہ ہی ابو کو میری خوشی کا خیال تھا۔تایا جان منگنی کی تیاری کر رہے تھے کہ طاہر صاحب پاکستان تشریف لے آئے۔ ان کے ساتھ ایک میم (بیوی) اور دو بچے بھی تھے۔ یوں ان سب کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی، مگر میرا چہرہ پھول کی طرح کھل اٹھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ طاہر شادی شدہ نکلا۔ وہ شروع ہی سے مجھے پسند نہیں تھا۔ اس نے ماں باپ کو بھی دھوکے میں رکھا تھا۔ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بہانے دراصل گھر گرہستی کی زندگی گزار رہا تھا۔

ابو جان نے پہلے تو تایا جان سے سخت جھگڑا کیا، لیکن پھر نہ جانے دونوں بھائیوں کی لڑائی میں صلح کا کون سا راستہ نکل آیا کہ دونوں ایک ہو گئے۔ تایا جان نے ابو سے کہا کہ یہ میم (طاہر کی بیوی) یہاں نہیں رہ سکے گی، کیونکہ اس ملک میں اسے اپنے ملک جیسی سہولتیں میسر نہیں ہوں گی۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ واپس چلی جائے گی۔ تم شادی کی تیاری کرو۔

جب ابو نے امی کو بتایا کہ میں زہرہ کی شادی طاہر سے کر رہا ہوں، تو وہ آگ بگولہ ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ بھتیجے کی محبت میں تم اتنے اندھے ہو گئے ہو کہ اس کا شادی شدہ ہونا اور دو بچوں کا باپ ہونا بھی تمہیں نظر نہیں آ رہا۔ میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی، اور اپنی بیٹی کی زندگی تباہ نہیں ہونے دوں گی، چاہے تم مجھے طلاق ہی کیوں نہ دے دو۔

امی اور ابو کے درمیان کافی تلخ کلامی ہوئی۔ آخر کار امی ہار گئیں، کیونکہ ابو نے امی کو طلاق دینے کے لیے کاغذات بھی تیار کروا لیے تھے۔اب امی نے ایک نیا فیصلہ کر لیا۔ وہ بظاہر خوشی خوشی میری شادی کی تیاریوں میں لگی ہوئی تھیں، لیکن درپردہ وہ میرے نانا اور بڑے ماموں سے مسلسل رابطے میں تھیں۔ ایک دن وہ چپ چاپ ماموں کے ہمراہ منور کے گھر گئیں، اور نہ جانے کیسے انہیں منا لیا۔ دراصل منور کے والدین نہایت اچھے لوگ تھے۔ انہوں نے امی کی مجبوری اور سچائی کو سمجھا اور اس رشتے پر رضامند ہو گئے۔

یوں ، ایک دن امی مجھے لے کر شادی کے کپڑے سلوانے بازار گئیں اور گھر میں بتایا کہ شادی کی شاپنگ کرنی ہے، لیکن وہ ماموں کے گھر چلی گئیں اور وہاں میرا نکاح منور سے ہو گیا، جس کا انہوں نے پہلے سے انتظام کر رکھا تھا۔ نکاح کے بعد امی مجھ کو چھوڑ چلی گئیں اور میں اور جاتے ہوئے یہ کہہ گئیں کہ اگر زندہ رہی، تو تم سے ضرور ضرور ملوں گی اور گر مر گئی تو مجھے یاد رکھنا، لیکن کبھی اپنے باپ کر گھر لوٹ کرمت جانا کیونکہ وہ تم کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ انہوں نے مجھ کو اپنا زیور اور کچھ رقم دی۔ میں اور منور اسی دن کراچی روانہ ہو گئے۔ منور بہت خوش تھا۔ ہم کچھ دن اس کے تایا کے گھر رہے، پھر اس کو ملازمت مل گئی تو ہم نے کرایے کا گھر لے لیا۔ ایک سال بعد خدا نے مجھ کو پیار ا سا بیٹا دیا-

ادھر امی میرا نکاح کرنے کے بعد گھر گئیں، تو ابو نے پوچھا: زہرہ کہاں ہے؟امی نے بہانہ کیا کہ ماموں کے گھر ہے، آجائے گی۔ اسی شام وہ مجھے لینے کے بہانے دوبارہ نانا ابو کے گھر آگئیں، کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اب حالات کا اکیلے مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں اور میرا موجود نہ ہونا کسی بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔جب ابو کو پتا چلا کہ امی میکے گئی ہوئی ہیں، تو وہ سمجھ گئے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ تب انہوں نے نانا نانی پر دباؤ ڈالا کہ زہرہ کو میرے حوالے کر دو۔ نانا جان نے ابو کو بہت سمجھایا کہ زہرہ ہمارے پاس نہیں ہے، لیکن جہاں ہے، محفوظ ہے۔ مگر ابو نہ مانے۔ وہ بولے: اگر آپ لوگوں نے میری بیٹی کا پتا نہ بتایا تو میں سب کو ختم کر دوں گا۔

میرے نانا جان کی کافی پہنچ اور واقفیت تھی۔ انہوں نے چند بااثر لوگوں کو یہ بات بتا دی کہ میرا داماد مجھے ایسی دھمکیاں دیتا ہے اور زبردستی اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھتیجے سے کرنا چاہتا ہے، جو پہلے ہی شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہے۔ادھر ابو نے سب کو کہہ دیا کہ اگر انہوں نے میری بیٹی کو میرے حوالے نہ کیا، تو میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں گا۔ میرے ننھیال میں سے پھر بھی کسی نے ابو کو میرے بارے میں کچھ نہیں بتایا، مگر انہیں پتا چل گیا کہ میرا نکاح منور سے ہو چکا ہے اور اس میں امی بھی شریک ہیں۔ بس پھر کیا تھا، ان کے غصے کی کوئی حد نہ رہی۔ انہوں نے ایک طلاق لکھ کر امی کو بھجوا دی، مگر باقی دو طلاقیں نہ دیں، اور امی اور میرے سسرال والوں پر اغوا کا پرچہ کروا دیا۔لیکن امی کے بیان کی وجہ سے کہ ہم نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کی رضامندی سے کیا ہے، ایف آئی آر ختم ہو گئی۔

اسی دوران خدا نے میرے گھر ایک اور پھول کھلا دیا۔ اب میں ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی ماں بن چکی تھی۔ جب بیٹی تیسرے سال میں تھی، تو میری ساس نے ایک خط لکھا کہ آپ لوگ گھر آجائیں کیونکہ منور کے بابا جان بیمار ہیں۔ہم واپس گھر پہنچے۔ منور کے والد واقعی کافی بیمار تھے۔ ہم دونوں نے ان کی بہت خدمت کی، مگر ان کی زندگی کا وقت مکمل ہو چکا تھا۔ وہ انتقال کر گئے۔ ان کے بعد میری ساس اکیلی رہ گئی تھیں، اس لیے ہم واپس کراچی نہیں گئے۔جب امی کو پتا چلا کہ میں واپس آ گئی ہوں، تو وہ اور نانی مجھ سے ملنے آئیں اور تمام حالات بتائے۔ امی اب بھی نانا کے گھر میں رہ رہی تھیں کیونکہ ابو نے انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔
جب میرے والد کو معلوم ہوا کہ ہم واپس آ گئے ہیں، تو وہ خود مجھے لینے آ گئے۔ بھائی اور ابو نے مجھ سے، منور سے اور میری ساس سے معافی مانگی کہ ہم غلطی پر تھے۔ کہا کہ ہماری ایک ہی بیٹی ہے، اور وہ بھی ہم سے دور ہو گئی۔ اب ہم صلح کرنا چاہتے ہیں۔میری ساس تو سیدھی سادی خاتون تھیں، انہوں نے فوراً صلح کر لی۔ میں اور منور جب ابو کے گھر جا رہے تھے تو بہت خوش تھے۔ والد کے گھر ہماری بہت خاطر تواضع کی گئی۔ میرے بھائی کی بیوی بانو بہت ہی خوبصورت اور خوش مزاج خاتون تھیں، دوسروں کے دل میں فوراً جگہ بنا لینے والی۔ یہ بھائی کی پسند کی شادی تھی۔میں حیران تھی کہ یہ وہی باپ ہے، جو کبھی میری پسند پر مرنے مارنے پر تُلا ہوا تھا۔ میں نے ابو سے کہا کہ امی کو دوبارہ گھر لے آئیں، تو وہ مان گئے اور کہا کہ کل ہی جا کر لے آؤں گا۔

شام کو جب ہم واپس جانے لگے، تو ابو نے کہا کہ تم لوگ آج رات یہیں رہ جاؤ۔مگر میں نے بچوں کی مجبوری بتائی کہ وہ میرے بغیر نہیں رہتے۔ میں نے وعدہ کیا کہ ہم کل آئیں گے اور بچوں کو بھی ساتھ لائیں گے۔جب ہم واپس آ رہے تھے، تو راستے میں منور کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ مجھے بھی چکر آنے لگے۔ منور سے گاڑی نہیں چلائی جا رہی تھی۔ میں نے ان سے گاڑی لے لی اور خود چلانے لگی۔ مگر مجھے بھی معلوم نہیں کیا ہو گیا تھا۔ کانوں میں شائیں شائیں ہونے لگی، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور میں نیم غنودگی میں چلی گئی۔میں نے منور کی طرف دیکھا، تو وہ بھی مکمل بے ہوش تھے۔ ان کی گردن ایک طرف ڈھلک چکی تھی۔ میں نے جلدی سے گاڑی ایک محفوظ جگہ روکنے کی کوشش کی، مگر میرے حواسوں نے ساتھ نہ دیا۔اور پھر… گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔
جب مجھ کو ہوش آیا اور میں نے منور کا پوچھا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ آپ کے خاوند کا انتقال ہو گیا۔ ان کی میت ان کے گھر والے لے گئے ہیں۔ اس کے بعد مجھ کو کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ میں گونگی اور بہری ہو گئی تھی۔ مجھے نہیں خبر کہ منور کا جنازہ کب اٹھا اور کب ان کو دفنایا گیا۔ پولیس اپنا کام کر رہی تھی کیونکہ ڈاکٹروں کی رپورٹ سے پتا چلا کہ منور اور مجھ کو کھانے میں کوئی نہایت زود اثر زہر دیا گیا تھا۔ اس میں کیا شک کے ماؤں کو اپنی اولاد بہت عزیز ہوتی ہے اور منور تو میری ساس کی جان تھا۔ انہوں نے میرے والد پر الزام لگایا کہ یہ میرے بیٹے کا قاتل ہے۔ پولیس نے ابو اور بھائی کو پکڑ لیا۔ دوران تفتیش پتا چلا کہ منور اور مجھے، بھائی کے کہنے پر زہر دیا گیا تھا۔ تایا جان جو پہلے تو ابو سے ناراض تھے ، انہوں نے بھائی اور ابو کو بچا لیا، مگر میری ساس گر میری ساس یہ صدمہ نہ سہ سکیں اور چند ماہ بعد ہی انتقال کر گئیں۔ تایا ابو نے مجھے دھمکی دی کہ اگر تم نے اپنے باپ یا بھائی کے خلاف گواہی دی، تو تمہارا اور تمہارے دونوں بچوں کا نام ونشان بھی نہ ملے گا۔ میں بے بس ہو چکی تھی، ان کے دباؤ میں آگئی۔ بظاہر میں نے عدالت میں ان کو معاف کر دیا، لیکن اپنا اور منور کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا کہ وہ ضرور انصاف کرے گا۔ آج میرے دن کیسے گزر رہے ہیں ، یہ میں جانتی ہوں اور میرا اللہ جانتا ہے ۔ میں آج کل کی لڑکیوں سے کہتی ہوں کہ محبت میں ایسا قدم اٹھانے سے گریز کریں تا کہ ایسے مسائل پیدا نہ ہوں، جن سے زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ میرے بچے عائشہ اور کاشف جب بھی یہ پوچھتے ہیں کہ ان کے والد کو کیا ہوا تھا۔ ، تو میں صرف یہ کہتی ہوں کہ وہ ایک ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے تھے۔

پہلے کبھی دونوں بچے اپنے نانا اور ماموں کے بارے میں پوچھتے تھے ، مگر اب نہیں پوچھتے۔ میرے والد صاحب کو فالج ہو گیا ہے۔ وہ بول سکتے ہیں اور نہ کچھ کھا پی سکتے ہیں۔ گھر پر ان کی بہو کی حکمرانی ہے۔ جب اس کا دل کرتا ہے ، ان کو کھانا کھلا دیتی ہے، ورنہ ایسے ہی پڑے رہتے ہیں۔ وہ ان کو بہت کم کھانا دیتی تھی کہ ان کی غلاظت بھی صاف کرنی پڑتی تھی۔
ہمیں جب یہ سب باتیں اپنی پرانی ملازمہ سے پتا اپنی پرانی ملازم سے پتا چلیں، تو امی سے نہ رہا گیا۔ وہ گھر گئیں اور ابو کو نانا جان کے گھر لے آئیں اور خود ان کی خدمت کرنے لگیں۔ جب ابو کی حالت زیادہ خراب ہو گئی تو امی مجھ کو ان کے پاس لے گئیں کہ زہرہ بیٹی ! انسان کسی نہ کسی بے انصافی کی وجہ سے خدا کی پکڑ میں آہی جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ تمہیں برباد کرنے کے جرم میں تمہارے ابو کی پکڑ ہو گئی ہے، تم ان کو معاف کر دو۔ شاید اس طرح خدا ان کی مشکل آسان کر دے۔ تب میں نے دل سے اپنے باپ کو معاف کر دیا اور خدا سے دعا کرتی ہوں کہ وہ بھی ان کو معاف کر دے۔ ابو کی وفات کے بعد امی کو میں مستقل اپنے پاس لے آئی کیونکہ ان کا میر ا سوا کوئی نہ تھا۔ بھائی تو بیگم کے ساتھ خوش ہے اور ہمارا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتا۔ آنٹی کی کہانی سن کر میں سکتے میں رہ گئی۔ جو مجھ کو سمجھا رہی تھیں کہ کالج میں بس تم اپنی پڑھائی سے کام رکھنا اور کسی سے محبت کے چکر میں نہ پڑنا۔ میری زندگی اور مجھ سے سبق سیکھو۔ محبت بہت کم لوگوں کو خوشی دیتی ہے ، ہمارے معاشرے زیادہ تر لوگ ، اس جرم کی بڑی کڑی سزا پاتے ہیں۔

آنٹی زہرہ آج کل ٹیچر ہیں۔ کچھ منور مرحوم کی جائیداد ہے، جس سے ان کا گزارہ ہو رہا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ کون سا بھائی اور باپ ہے، جو اپنی بہن بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہو گا۔ بھائی تو بہنوں پر جان قربان کر دیتے ہیں، یہ کیسا بھائی تھا؟ جو بہن اور اس کے سہاگ کی جان کا دشمن بن بیٹھا تھا